(عرض احوال) پوسٹ کالونیل ازم اور طبقاتی نظام - ادارہ

11 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پوسٹ کالونیل ازم اور طبقاتی نظام
کراچی میں۲۰۱۲ء میں قتل ہونے والے شاہ زیب خان کے کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو دس سال بعد رہا کر دیا گیاہے۔ فیصلہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سنایا ‘جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے۔ اس قتل میں ملوث دیگر ملزمان کو بھی بَری کر دیاگیا۔
شاہ رخ جتوئی نے ۲۵ دسمبر ۲۰۱۲ء کو شاہ زیب خان نامی نوجوان کو تلخ کلامی کے نتیجے میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔۲۰۱۳ء میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہوجانے پر شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج کو سزائے موت جبکہ دیگر دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے بعد وکلائے صفائی نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ کیس چلتا رہا اور دوسری طرف مقتول کے اہلِ خانہ پر صلح کے لیے سیاسی اور سماجی دباؤ بھی بڑھتا گیا۔ آخر ۲۰۱۷ءمیں شاہ زیب خان کے اہلِ خانہ نے دِیت کے قانون کے تحت ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کردیا‘ جس کے بعدقاتلوں کو رہا کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے ’’ ازخود‘‘ نوٹس لیا اور ۲۰۱۸ء میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا۔ پھر۲۰۱۹ء میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے جب کہ دو ملزمان کی عمر قید کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے عمر قید کی سزا ختم کرنے کی درخواست کی‘ جس پر اب سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی رہائی کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ رہائی کی وجوہات میں کہاجارہا ہے کہ مقتول کے ورثاء نے صلح کر لی ہے اوریہ کہ دہشت گردی کا الزام بھی ثابت نہیں ہو سکا۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس میں ہمارے سماج کے ’’بڑے‘‘ لوگوں کو جرم ثابت ہونے کے بعد بھی اس کے داغ سے ’’پاک‘‘ قرار دے دیا گیا ہو۔ مجرم تو یہاں صرف ’’ چھوٹے ‘‘ لوگ قرار پاتے ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں سالہا سال سے سڑتے ہوئے قیدیوں کی فہرست تیار کی جائے تو ان میں ایک بھی قیدی ’’بڑے‘‘ لوگوں میں سے نہیں ہوگا۔ اگر ہوگا بھی تو اس کی نام نہاد ’’قید‘‘ عام آدمی کی آزادی سے بھی ہزاروں گنا شاہانہ ہوگی‘ اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ اس پر کسی قسم کے جرم کا شائبہ تک ہو۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کا فرمانِ عالی شان واضح ہے کہ : ’’پچھلی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ ان کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے جبکہ جب کسی کمزور آدمی سے جرم سرزد ہو جاتا تھا تو اس کو سزا دیتے تھے۔‘‘
سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سمیت مملکت خداداد پاکستان کے اکثر بڑے اداروں کی عمارتوں پر کلمہ طیبہ ’’لا الٰہَ اِلَّا اللہُ محمدٌ رَسول اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ جب حلف اٹھایا جاتاہے یا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے تو قرآن پاک پر حلف لیا جاتاہے۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں بھی کہا جاتاہے اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے‘ کیونکہ شق نمبر۱کے مطابق پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ شق 2-Aکہتی ہے کہ مملکت خدا داد پاکستان میں حاکمیت ِاعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور شق نمبر۲۲۷کے مطابق یہاں اسلام سے متصادم یا متضاد (repugnant)کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ ان وجوہات کی بنا پر کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیاکسی اسلامی ریاست میں اس طرح کا دوہرا نظام ممکن ہے کہ غریب کے لیے قانون کچھ اور ہو جبکہ امیر کے لیے کچھ اور؟ کہا جاتا ہے کہ ہمارا قانون مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں کمزور اور غریب تو پھنس جاتا ہے جبکہ طاقتور اور امیر اسے توڑ کر نکل جاتا ہے۔ ہماری جیلوں میں آج بھی امیر اور بااثر لوگوں کو اے کلاس دی جاتی ہے جہاں ان کے لیے گھر جیسی سہولیات ہوتی ہیں جبکہ غریب آدمی کے لیے حقیقی معنوں میں قید ہوتی ہے جہاں کوئی سہولیات نہیں ہوتیں۔
صاف لفظوں میں یہ دجل ہے کہ ایک اسلامی مملکت کہلانے والی ریاست میں دوہرا نظام ہو۔ امیر کے لیے الگ ‘ غریب کے لیے الگ۔ یہ دجل دراصل اس فتنہ دجال کا حصّہ ہے جو کالونیل ازم اور پوسٹ کالونیل ازم کے تحت اپنے آخری ہدف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ طبقاتی نظام سرمایہ دارانہ نظام کا حصّہ ہے جس کے ذریعے وہ قوتیں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں جو عالمی دجالی حکومت کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اس دوہرے نظام کے خدوخال کالونیل دور میں بڑی منصوبہ بندی اور گہری سوچ بچار کے بعد بنائے اور اب پوسٹ کالونیل دور میں اپنے پیداکیے ہوئے طبقات کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنا رہی ہیں۔ اجر کے طور پر ان طبقات کو بھی آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کیا جاتاہے۔ اب اس کو ہماری غلطی کہا جائے ‘ جہالت ‘ لاعلمی یا منافقت کہ ہم نے نظام تو وہی سامراجی رہنے دیا‘جبکہ اس پر لیبل ’’ اسلامی ‘‘ کا لگا دیا۔ ہماری عدالتوں کے دروازوں پر سنہری حروف میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے لیکن اندر فیصلے کالونیل طاقتوں کے بنائے ہوئے دوہرے نظام اور قانون کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس طبقاتی نظام کی بنیادوں کا حقیقی پس منظر جان لیں تو ہمیںاس میں اتنے بڑے فریب اور دجل نظر آئیں گے کہ جن کو اسلامی کا عنوان دینا ہی سب سے بڑا گناہ متصور ہوگا۔
ہم یہاں اس طبقاتی اور دُہرے نظام کی بنیادوں کے حقیقی پس منظر کی مختصر سی جھلک دکھانے کی کوشش کرتے ہیںکہ کن حالات میں یہ نظام پروان چڑھا اور پھر آزادی کے بعد اسی کو عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ کالونیل ازم کا لفظی مطلب ہے نئی بستی بسانا۔یورپی سامراجی قوتوں نے امریکہ ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ وغیرہ میں واقعی نئی بستیاں بسائیں اور وہاں کی مقامی آبادیوں کا قتل عام کیا۔ان کی تاریخ اور شناخت مٹاکر وہ ملک اپنے نام کر لیے۔اسے تو کالونیل ازم (نوآبادیات )کہہ سکتے ہیں لیکن ہندوستان سمیت دوسرے کئی خطہ ہائے ارض جہاں مغربی استعمار بظاہر مستقل قبضہ نہیں کر سکا اور نہ ہی وہاں گوروں کی مستقل اکثریتی آبادیاں ہیں‘ وہاں بھی مغربی سامراج نے کالونیل ازم کا لفظ استعمال کیا۔ آخر کیوں؟ یہ ایک گہرا راز ہے۔ ذرا ٹھہریے‘ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
عالمی دجالی غلبہ کی خواہش مند طاقتوں نے صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانے کا سوچا اور اس کے لیے صنعتی انقلاب کو سیڑھی بنایا۔ یورپ میں صنعتی ترقی کی دوڑ شروع ہوتے ہی پیداوار کی کھپت کے لیے نئی منڈیوں اور خام مال فراہم کرنے والے علاقوں کی تلاش شروع ہوئی۔ اس عمل نے مغرب پر ان علاقوں سے خام مال کی لوٹ کھسوٹ اور بالآخر جبری قبضوں کا دروازہ کھول دیا۔یوں عالمی غلبہ کا ایجنڈا بھی ساتھ ساتھ آگے بڑھا۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی بھی پہلے تجارتی روپ میں آئی اور بعدازاں برطانوی سامراج کی شکل میں منتج ہوئی۔کمپنی نے آتے ہی جہاں تجارتی معاہدے کیے وہاں خام مال کی لوٹ کھسوٹ کے لیے ٹھگوں ‘ نوسربازوں ‘ وطن فروشوں اور غداروں کی کھیپ بھی تیار کرنا شروع کی ۔یہ طبقہ کمپنی کو خام مال کی فراہمی کے لیے چوری ‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری تک سے گریز نہیں کرتا تھا۔ کمپنی انہیں اس کام کے لیے باقاعدہ اسلحہ ‘ تربیت ‘ سکیورٹی اور اہم معلومات دیتی تھی۔یہ چور ‘ لٹیرے ‘ ٹھگ اور وطن فروش چند ٹکوں کی خاطر اپنے ملک سے سونا چاندی ‘ ہیرے جواہرات ‘ اجناس اور مال و دولت دیہاتوں‘ شہروں ‘ قافلوں اور راجواڑوں سے لوٹ کر کمپنی کو پہنچاتے تھے۔ کمپنی انہیں انعام و اکرام سے نواز کر مزید غداروں کی فوج اکٹھی کرنے کا راستہ ہموار کر رہی تھی۔کمپنی نے اس لوٹ کھسوٹ پر ہی اکتفانہیں کیا بلکہ ساتھ ساتھ مقامی صنعت کو بھی مکمل طور پر تباہ کیا۔ کاری گروں ‘ دستکاروں اور ہنرمندوں کا قتل عام کیا۔‘ ان کے ہاتھ اور انگوٹھے تک کاٹے گئے تاکہ مقامی صنعت معدوم ہو جائے اور اس کی جگہ برطانوی مصنوعات لے لیں۔ چنانچہ بہت جلد سوئی سے لے کر جدید اسلحہ تک تمام مصنوعات برطانیہ ہی کی استعمال ہونے لگیں۔
فرنگی سامراج نے مقامی صنعت و حرفت کا دروازہ بند کر کے جہاں جائز ذرائع آمدن کے راستے بند کیے وہاں ناجائز کمائی کے اتنے راستے کھول دیے کہ لوٹ کھسوٹ ‘ چوری ‘ ڈاکا زنی ‘ قتل و غارت ‘ غداری اور وطن فروشی کی حوصلہ افزائی ہونے لگی۔چنانچہ غداروں ‘ نوسربازوں ‘ ٹھگوں ‘ چوروں اور وطن فروشوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر آہستہ آہستہ کمپنی نے اپنی فوج تیار کرنا شروع کی۔ پھر اسی فوج کو استعمال کرکے ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا ۔توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے اسی قبیل کے لوگوں کو خبر رسانی اور مخبری پر مامور کیا۔ جو جو علاقے کمپنی کے قبضے میں آتے گئے وہاں اس نے اپنے وفاداروں کو بسانا شروع کیا۔جو جتنا بڑا غدار ‘ ڈاکو ‘ وطن فروش اور مخبر تھا اسے اتنا ہی بڑا خطاب دیا گیا ۔جاگیریں اور مراعات دی گئیں۔ یوںمقامی آبادی کے لیے غداروں اور نیچوں کے لیے غداری اور وطن فروشی نہ صرف منافع بخش پیشہ ٹھہرا بلکہ ان کے ’’سنہری‘‘ مستقبل کا ضامن بھی بن گیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ فرنگی نے انہی غداروں کی مدد سےجیتی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد محب وطن افراد کی زمینوں پر ‘ان کے روزگار پر ‘ ان کی تجارت پر‘ ان کی زراعت پر ایسے لوگ قابض ہو گئے جو درحقیقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتہ جاسوس ‘ ٹھگ ‘ چوراور غدار تھے۔ان غاصبوں ‘ چوروں ‘ وطن فروشوں اور ایمان فروشوں کے تحفظ کے لیے سکیورٹی ادارے قائم کیےگئے جن میں پولیس کا ادارہ بھی شامل تھا۔اس کا اصل کام انگریز کے وفاداروں کا تحفظ کرنا جبکہ محب وطن مزاحمت کاروں کی مزاحمت کو دبانا تھا۔ اسی طرح جوعدالتی نظام انگریزوں نے قائم کیا اس میں اپنے وفاداروں کے لیے الگ قانون تھا جبکہ ان کے مخالفین کے لیے الگ قانون ۔ انگریزکے وفادار بڑے سے بڑا جرم بھی کیوں نہ کرلیں‘ اوّل تو پکڑے نہ جاتے تھے‘ اگر عوامی دباؤ کے تحت گرفتار کر بھی لیے جاتے تو انہیں جیلوں میں عام قیدیوں کی ساتھ نہیں بلکہ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق شاہانہ انداز میں رکھا جاتا تھا۔ آج تک بالکل وہی قانون ہماری جیلوں میں نافذ ہے کہ ’’ اے کلاس ‘‘ کے لیے اعلیٰ سہولیات ‘ ’’ بی کلاس ‘‘ کے لیے ذرا کم سہولیات جبکہ عام آدمی کے لیے فرش ‘ چٹائی اور دال روٹی وغیرہ۔ اسی طرح عدالتی نظام میں بھی طاقتور کے ساتھ سلوک کچھ اور ہے جبکہ کمزور کے ساتھ کچھ اور۔ غریب بھوک کے مارے کچھ چرا لے تو ساری زندگی جیل میں سڑے گا جبکہ ملک کو لوٹنے والے اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ کالونیل دور کے اس دہرے اور طبقاتی نظام اور قانون پر صرف ’’ اسلامی ‘‘ کا ٹائٹل لگا دینے سے اور ریاستی اداروں کی عمارات پر سنہری حروف میں کلمہ طیبہ لکھ دینے سے یہ طبقاتی اور استحصالی نظام کیا واقعی عادلانہ ہو جائے گا ؟ ہرگز نہیں! اس کا ایک ہی حل ہے کہ سامراجی طاقتوں کے قائم کیے گئے اس طبقاتی اور استحصالی نظام کی پوری عمارت کو زمین بوس کرکے اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کیا جائے۔ صرف اسی صورت میں حقیقی آزادی ‘ مساوات اور عدل کے راستے کھلیں گے ورنہ کالونیل دور کی طرح پوسٹ کالونیل دور میں بھی معاشرہ ایک طبقے کے لیے جنت اور دوسرے کے لیے جہنم بنا رہے گا ۔ پوسٹ کالونیل ازم کے تحت مغربی ایجنڈا بدستور آگے بڑھتا رہے گا ‘ خلافِ اسلام قانون سازیاں ہوتی رہیں گی جس کا نتیجہ ایسا عالمی نظام ہوگا جس میں اسلام اور عدل کا نشان تک نہ ہوگا!