(عرض احوال) ’’بقائے پاکستان:نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ - ایوب بیگ مرزا

11 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
’’بقائے پاکستان:نفاذِ عدلِ اسلام‘‘

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے ۷۶ سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا!پاکستان کیوں معرض وجود میں آیا ؟اس کی بنیاد کیا تھی؟ اگرچہ نہ صرف مذہبی طبقہ بلکہ عوام کی عظیم ترین اکثریت بھی اس بات کو مانتی ہے کہ پاکستان کے وجود کی بنیاد’’ لا اِلٰہ اِلا اللہ‘‘ تھی ۔لیکن ایک بااثر اقلیت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کو کوئی اسلامی ریاست بنانا مقصود نہیں تھا۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک ملک حاصل کرنااس لیے تھا کہ انہیں ہندو سے خطرہ تھا کہ وہ ان کا اقتصادی اور سماجی استحصال کریں گے ۔ اس کا بڑا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ جب آپ خود مانتے ہیں کہ استحصال کی وجہ مذہبی تھی تو بات واضح ہو گئی کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا تھا ۔
دراصل پاکستان بننے کے بعد سارا معاملہ ہمارے اپنوں نے ہی خراب کیا ہے ۔ جسٹس منیر نے ایک کتاب لکھی:Jinnah to Zia۔ اس میں وہ قائد اعظم کی ۱۱ /اگست۱۹۴۸ء کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک سیکولر ریاست کا قیام مقصود تھا۔اس تقریر کے حوالے سے ریڈیوپاکستان سے معلومات حاصل کی گئیں تو بتایا گیا کہ ایسی کوئی تقریروہاں موجود نہیں ۔حکومتی سطح پر بھارت سے رابطہ کیا گیاتو معلوم ہوا کہ آل انڈیا ریڈیو کے ریکارڈ میں بھی ایسی کوئی تقریر موجود نہیں ۔ اللہ جانے جسٹس منیر کہاں سے وہ تقریر نکال لائے! برطانیہ کی ایک خاتون سلینا کریم نے وہاں کی تمام لائبریریوں کو چھان ڈالا مگر وہ تقریر نہ مل سکی۔اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب لکھی:
Secular Jinnah & Pakistan :What the Nation Does not Know
اس کے صفحہ ۱۵۱ پر انہوں نے لکھا کہ جسٹس منیر نے۱۱ / اگست کی تقریر کے حوالے سے جو کچھ لکھا وہ سب من گھڑت ہے ۔چنانچہ جب بنیادپر ہی اتفاق نہ ہوسکا تو استحکام کیسا !دنیا میں اپنی پہچان کیسے قائم کر سکتےہیں۔
اسی لیے تنظیم اسلامی نے ۱۱ / اگست۲۰۲۳ء سےمہم شروع کی ہے‘ جس کا نام رکھا ہے’’بقائے پاکستان: نفاذِ عدلِ اسلام‘‘۔پہلے حصے کا جواب دوسرے حصے میں ہے کہ بقائے پاکستان نفاذِ عدلِ اسلام میں ہے ۔عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے۔اسلام عدل کے حوالےسے کوئی تمیز روا نہیں رکھتا ۔اگر اسلام میں سے عدل نکال لیا جائے تو اس میں رہ کیا جاتا ہے؟آج کی دنیا میں امریکہ اور یورپ نے عدل کو اپنے مفادات کے تابع کیا ہوا ہے ۔ان کا ایمان اپنی قومیت پر ہے ‘اپنے مفادات پر ہے ۔جو بات ان کے مفاد کے مطابق ہےوہ عدل ہے جبکہ جوبات ان کے مفاد کے مطابق نہیں وہ عدل نہیں ہے ۔ اپنے اندرونی معاملات میں ان کے ہاں شاید عدل ہوگالیکن غور طلب امریہ ہے کہ جب وہ بیرونی دنیا سے معاملات کرتے ہیں تو کیا عدل سے کام لیتے ہیں ؟ دراصل کوئی جھوٹ بولنا پڑجائے ‘ کوئی بددیانتی کرنی پڑ جائے اوروہ قوم و ملک کے مفاد میں ہو تو ان کے نزدیک عدل ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کو سامنے رکھا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص یا جماعت بقائم ہوش وحواس عدل سے انکار نہیں کرسکتی۔اسی لیے ہم نفاذِ عدل کی بات کررہے ہیں۔ عدل کی پہچان اس کی تنفیذمیں ہے۔مریض اگر ڈاکٹر کے نسخے کو دس بار پڑھتا ہے ‘اس کو سنبھال کررکھتا ہے‘ لیکن استعمال نہیں کرتا تو اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر عدل کا نفاذ نہیں ہوتا تو وہ محض کتابوں تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا ۔ معاشرے کے لیے مفید ثابت نہیں ہو سکے گا۔
انسانی زندگی کے اجتماعی گوشوں یعنی معاشرت ‘معیشت اور سیاست میں عدل کا نفاذ ہونا چاہیے۔معاشرت میں جہاں تک فرد اور خاندان کا تعلق ہے تو اس میں معاملہ ترغیبات‘ اخلاقیات اور روایات پر چلے گا۔جبکہ قانون کا عنصر بہت کم ہو گا۔ جہاں تک معیشت اور سیاست کا تعلق ہے تو اس میں قانون کا بہت عمل دخل ہوگا۔اس وقت دنیا میں معاشی سطح پر بے ہنگم سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے جو کہ اسلام کی مکمل ضد ہے ۔ اسلام سرمایہ کاری کا قائل ہے ‘ سرمایہ داری کا نہیں ۔ امریکہ‘ یورپ وغیرہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی ضرورت اور مفادات کے مطابق ڈھال کر استعمال کرتے ہیں ‘اگرچہ قومی سطح پراس کی اصلاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ہم نے اس استحصالی نظام میں مزید بگاڑ پیدا کرکے اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ داروں کو ساری دنیا میں مراعات اور رعایتیں دی جاتی ہیں لیکن ہم نے تو انہیں خدا بنا رکھا ہے۔ ان کے لیے ایمنسٹی اسکیمیں ‘ بالواسطہ ٹیکس لگائے جاتے ہیں جن کا بوجھ براہِ راست عوام پر آتا ہے ۔یوں بےچارے عوام پستے چلے جاتے ہیں ۔ہمارے ملک میں جج کی ماہانہ تنخواہ ۱۲ لاکھ روپے ہےاور اس کے ساتھدوسری مراعات بھی ہیں ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پنشن بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔دوسری طرف حاتم طائی کی قبر پر لات مار کرنچلے طبقے کی تنخواہ ۳۲ ہزار کر دی گئی ہے۔یہ تفاوت اور فرق اصل میں معاشی سطح پر ظلم ہے ۔
یہ ظلم ہمیں اُس وقت تک سہنا ہو گا جب تک ہم نفاذِ عدل کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے ۔سیاست کا حال اس سے بھی برا ہے ۔ حال ہی میں ایک ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ نے اپنی گھریلو ملازمہ پر اتنا خوف ناک اور بہیمانہ تشدد کیا ہے جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ظلم صرف ایک شعبے میں نہیں ہورہا بلکہ پورے کا پورا نظام ہی عدل کے خلاف کھڑا ہے ۔ فرض کریں جس عورت نے ملازمہ پر ظلم کیا ہے ‘ کل کلاںاس پر مقدمہ چلایا جاتاہے ‘ کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے اور سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ۔ جواب میں وہ عورت کہتی ہے کہ ٹھیک ہے‘ مجھ سے ایک جرم ہواہے‘مَیں مانتی ہوں کہ مجھ سے قانون شکنی ہوئی‘مَیں اس کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں‘لیکن اس نظام کے کارپردازوں ‘ٹھیکے داروں اور بڑوں نے تو قوم کے سر سے آئین کی چادر ہی کھینچ لی‘ حکومتی ذمہ داران نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی بدترین انداز میں توہین کی‘آئین اور قانون کو برے طریقے سے روند ڈالا۔ مجھے سزا دو‘ضرور دو‘لیکن جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے قانون سازی کی‘ جنہوں نے قانون اور آئین کے پرخچے اڑا دیےان کے لیے بھی تو کچھ بولو۔اب تمہاری زبان گنگ کیوں ہوگئی ہے ۔اب قبرستان جیسی خاموشی کیوں چھا گئی ہے۔اگر تم قانون اور آئین سے بالاتر ہوتو مَیں کیوں نہیں!
ہم نے بچپن میں ایک واقعہ سنا ہوا ہے کہ ایک خاتون حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک بچہ لے کر آئی کہ یہ گڑ کھاتا ہے ‘اس کو نصیحت کیجیے ۔حضرت عمرؓ نے اس خاتون کو فرمایا کہ کل آجانا۔ دوسرے دن خاتون آئی تو آپؓ نے اس بچہ کو کہا کہ گڑ مت کھایا کرو۔خاتون بولی کہ اگر آپ نے یہی کہنا تھا تو کل کہہ دیتے ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کل میں نے خود گڑ کھایا ہوا تھا۔یہ ہے اصل بات!یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ خود کرتے ہیں تو وہ عدل ہے اور دوسرا کرے تو وہ ظلم قرار پاتاہے۔ہماری رائے میں عدل ایسی شے نہیں کہ جہاں چاہا اس کا ٹھپا لگا دیااور جہاں چاہا صرفِ نظر کرلیا۔کبھی عدل کی کرسی پر جلوہ افروز ہوگئے اور کبھی ظالم کے کندھے سے کندھا ملاکرکھڑے ہوگئے۔ اگر نظام ایسا ہی رہا تو کوئی نہ کوئی رضوانہ روز ظلم کا شکا رہوتی رہے گی۔یہ نظام کا قصور ہے۔صاحب حیثیت جو خود نہیں کرتے وہ دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔سب قانون کو مانو‘سب قانون کی پاس داری کرو۔
اصل میں ہمارے ہاں ایک غلطی شروع سے ہوئی ہے کہ قومی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرسکیں۔ہم کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے ۔مولانا مودودی ؒنے پاکستان کے بننے سے پہلے قائد اعظم کی ذات پراور مسلم لیگ پر بھی زبردست حملے کیے تھے۔ یہ سب انہوں نے نیک نیتی سے کیا تھا۔ ان کا خیال تھاکہ یہ راستہ ٹھیک نہیں‘ دوسرا راستہ ٹھیک ہے۔اُس کے باوجود قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد پہلے دن ہی مولانا مودودی ؒ سے فرمائش کی کہ ریڈیوپاکستان پر آئیں اور لوگوں کو اسلام کے حوالے سے بتائیں۔ قائداعظم کی وفات کےبعد قومی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں آپس میں وہ تعاون نہ کرسکیں جو ملک کو آگے بڑھانے اور اسلام کی طر ف پیش رفت کرنے کے لیے انہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس میں دونوں قصور وار ہیں۔ خاص طورپر جب مذہبی جماعتیں باقاعدہ انتخابات میں کود گئیں تو ان کا قصور مزید بڑھ گیا ۔ ہم سیاست کے مخالف نہیں ‘ لیکن جب آپ کا مقصد اسلام نافذ کرنا ہے تو پھرانتخابی سیاست کا راستہ موزوں نہیں ۔پاکستان کے معروضی حالات میں انتخابات کے ذریعے کوئی انقلابی تبدیلی ممکن ہی نہیں ۔
اسلام کا نفاذ صرف حکومت کا فرض نہیں ہے۔ یہ صرف کسی دینی جماعت کا بھی فرض نہیں ہے۔یہ ایک ایسا فرض ہے جو پاکستان کے ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ۔ آپ دیکھیں کہ کون سی دینی اجتماعیت نفاذ ِاسلام کے حوالے سے زیادہ بہتر کام کر رہی ہے‘ اس میں شامل ہوجائیں ۔کوئی کسی بھی جماعت میں ہو لیکن نفاذِ اسلام کے لیے جدّوجُہد کرنا سب کا فرض ہے ۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔فرض کیجیے ہم کل صبح اٹھتے ہیں اور پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بن چکا ہوتا ہے ۔ اگر مَیں نے اس جدّوجُہد میں حصہ نہیں لیاتو روزِ محشر مجھے کیا اجر ملے گا؟اس کے برعکس اگرآپ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں‘ اور اس جماعت سے مل کر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ یہ اسلام کے نفاذ کےبارے میں مخلص ہے ‘تو اسلام چاہے آئے نہ آئے لیکن آپ کی آخرت سنور جائے گی۔ یعنی آپ کی فلاح یقینی ہے ۔یہ سوچنا ٹھیک نہیں کہ ہمارے کرنے سے کیا ہوگا ! اصل میں یہ آپ ہی کے کرنے کا کام ہے ۔ جب تک ہر مسلمان اس کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا تب تک اسلام کے نفاذ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری لینی ہوگی کیونکہ آخرت میں ہر ایک سے پوچھ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہارے ملک میں اسلامی نظام کیوں نہیں نافذ ہوا تھا۔وہ پوچھے گا: تم نے کیا کیا تھا؟ اس حوالے سے تمہارا عمل کیا تھا؟لہٰذا جواب اپنا دینا پڑے گا۔اللہ تعالیٰ کسی پر وہ بوجھ نہیں ڈالتاجو وہ اُٹھا نہ سکے ۔آپ کسی عالم دین کی‘ کسی مقرر کی ‘کسی قومی لیڈر کی تقریر سنتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں تو اس سے آپ کا حق ادا نہیں ہوجاتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ کو سمجھ آگئی ہے کہ یہ بات دین ودنیاکے حوالے سے درست ہے اورپھر بھی آپ اس کی حمایت میں کھڑے نہیں ہوتےتو معاف کیجیے‘ آپ کا جرم بڑھ جاتا ہے۔