(رپورتاژ) ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا! - مرتضیٰ احمد اعوان

10 /

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا!
(تنظیم اسلامی کاسالانہ اجتماع ۲۰۲۳ء)
مرتضیٰ احمد اعوان

یہ اجتماع۱۷تا۱۹نومبر۲۰۲۳ء مرکزی اجتماع گاہ بہاول پور میں منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے رفقاء نے شرکت کی۔پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے مرکزی اجتماع منعقد نہیں ہوسکا تھااور اس کے بجائے پانچ زونل اجتماعات بیک وقت ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کیے گئے تھے ۔
جمعرات۱۷ نومبر کی رات سے رفقاء واحباب کے قافلے آنا شروع ہوگئے تھے ۔جمعہ کے دن توپنڈال مکمل طور پرپُر ہوچکا تھا اوراس سے باہر بھی انتظامات کرنے پڑے ۔ نظامت کی ذمہ داری جنوبی پنجاب کے رفقاء نے بہت عمدہ طریقے سے ادا کی۔ پنڈال قرآنی آیات‘ احادیث مبارکہ اور علّامہ اقبال کے اشعارپرمبنی ٹی بورڈز سے مزین کیا گیا تھا۔ سٹیج کے دونوں طرف بڑی SMD سکرینز نصب تھیں جن کی مدد سے مقررین کودُ ور سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ تنظیم کے مختلف حلقہ جات کے لیے علیحدہ علیحدہ رہائش گاہیں بنائی گئی تھیں۔ مکتبہ انجمن اور تنظیم اسلامی کے اسٹالز اجتماع گاہ کے اندر بنائے گئے جبکہ باقی اسٹالز کا انتظام باہر کیا گیا تھا۔ دوران پروگرام تمام اسٹالز بند ہوتے تھے۔
نمازِ جمعہ
نمازِ جمعہ پنڈال میں ادا کی گئی۔مرکزی ناظم تعلیم و تربیت محترم خورشید انجم نے اسرائیل اورحماس کی تاریخ پر خطاب جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز کی امامت کی۔خطاب کے پہلے حصےمیں بنی اسرائیل کے عروج وزوال کے ادوار اورموجودہ اسرائیلی ریاست کے ناجائز قیام پرمختصر گفتگو کی جبکہ دوسرے حصے میں فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم ’’حماس‘‘ اوراس کے بانی شیخ احمد یاسینؒ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ احمد یاسین ؒبچپن ہی سے مجاہدانہ سوچ رکھتے تھے ۔چنانچہ وہ پہلے الاخوان المسلمون کے سرگرم کارکن بنے ۔ سولہ سال کی عمر میں تربیت کے دوران گرنے سے دھڑ کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث معذور ہوگئےتووھیل چیئر پر بیٹھ کر اپنی جدّوجُہد شروع کی۔پہلے ایک مدرسہ قائم کیا جہاں نوجوانوں کو تربیت دی جاتی تھی ۔ اس کے ساتھ سوشل ویلفیئر کے کچھ کام کیے‘تاآنکہ ۱۹۸۷ءمیں حماس قائم کی ۔ حماس نے جب اپنی تحریکی سرگرمیوں کا آغاز کیااور پورے فلسطین میں ریلیاں منعقد ہونا شروع ہوئیں تواسرائیل نے خوف زدہ ہوکران کودبانے کی پوری کوشش کی ۔ شیخ احمدیاسین کو گرفتار کر لیاگیا ۔ ان پر ظلم وستم اورتشدد کے پہاڑ توڑے گئے لیکن ان کے جوش اور ولولے میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ انہوں نے اپنی جدّوجُہد جار ی رکھی جس کانتیجہ یہ ہے کہ آج حماس نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ شیخ احمد یاسین قرآن سے خصوصی شغف رکھتے تھےاورروزانہ ایک منزل تلاوت کرتے۔ ۲۰۰۴ءمیں آپ کو شہید کردیا گیا ۔ ان کی زندگی تمام مسلمانوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اجتماع کی نشستیں
اس دفعہ سالانہ اجتماع کی چار نشستیں ہوئیں۔پہلے سیشن(جمعہ‘ عصرتاعشاء) کے سٹیج سیکرٹری سابق ناظم اعلیٰ اورسینئر رفیق جناب عبدالرزاق تھے ۔ دوسرے سیشن (ہفتہ ‘ فجرتا ظہر)میں نظامت کے فرائض حلقہ اسلام آباد کے ناظم تربیت عامرنوید ‘ تیسرے سیشن (ہفتہ ‘ عصرتاعشاء) میں صدر انجمن خدام القرآن جھنگ جناب عبداللہ اسماعیل ‘ جبکہ چوتھے سیشن (اتوار‘ فجر تاظہر)میں حلقہ کراچی جنوبی کے ناظم تربیت جناب عامرخان نے انجام دیے۔
-----جمعہ‘۱۷ نومبر۲۰۲۳ ء-----افتتاحی کلمات(محترم امیر تنظیم اسلامی)

اجتماع کا باقاعدہ آغاز نماز عصر کے بعد ہوا۔ امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ نے اپنے افتتاحی خطاب کے بارے میں کہا کہ میں چھ باتوں پر کلام کروں گا:
(۱) سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے کیونکہ اس کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں ۔ پھر تمام ذمہ داران‘ منتظمین‘ رفقاءواحباب‘ بہاول پور کی انتظامیہ اور ریاستی ادارے وغیرہ سب ہمارے شکریے کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا کرے۔
(۲) عالمی و قومی منظر نامہ بالخصوص فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حالات اور اسرائیل کی سفاکیت ‘امت مسلمہ کی بے بسی ‘ حکمرانوں کی بے حسی ہمارے سامنے ہے۔ایسی صورت حال میں یہ اجتماع منعقد کرنا ایک اہم پیش رفت ہے ۔اس سے ہمیں اپنے نصب العین اور فکر کو تازہ کرنے ‘ ایک دوسرے کے تعارف‘ دینی علم کے حصول‘ فکری واخلاقی و عملی تربیت‘ سمع وطاعت کی عملی مشق اور ایثارو قربانی کے مواقع ملیں گے۔
(۳) ہمیں کچھ آداب کا خیال رکھنا ہے کہ اذان کا جواب دینا ہے۔نماز میں تکبیراولیٰ کے ساتھ حاضری‘ مسنون اذکار اور دعائوں کا اہتمام کرنا ہے۔ تلاوت ‘ تہجد‘ سلام کو عام کرنا‘ سونے‘ کھانے پینے اورمجلس کے مسنون آداب پر عمل کرنا ہے۔مجلس کے اختتام پر دعا کے بعد اُٹھنا ہے۔ اجتماع کے شیڈول والے کتابچے کا مطالعہ کریں۔
(۴) اجتماع کے بیانات میں قرآن و سنت ‘سیرت رسولﷺ‘ اہداف اور کرنے کے کام ‘ ملکی و عالمی حالات پرتبصرہ‘ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں‘ مستقبل کامنظرنامہ وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہوں گے ۔ان کو توجہ سے سننا ہے ۔مقررین سے گزارش ہوگی کہ وہ اپنے خطاب کی ایکpunch lineضرور دیں۔
(۵) حدیث قدسی ((وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَالمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالمُتَزَاوِرِيْنَ فِيَّ، وَالمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ)) کی عملی مشق کرنی ہے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی محبت کامصداق بن سکیں ۔
(۶) خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں تاکہ یہ اجتماع فائدہ مند ثابت ہو اور خوش اسلوبی سے اس کی تکمیل ہو سکے۔جس قدر ہو سکے’’رَبِّ یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ وَبِكَ نَسْتَعِیْن‘‘ کاورد کریں ۔
ہدایات( جناب محمدناصربھٹی )
ناظم سالانہ اجتماع( نائب ناظم اعلیٰ‘ وسطی پاکستان) جناب محمدناصر بھٹی نے رفقاء کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ سب کو ہدایات والاکتابچہ مل چکاہوگا‘ اس کا مطالعہ ضرور کیا جائے۔ اجتماع کے دوران اپنے تمام معاملات کے لیے احکام باری تعالیٰ اور سنت رسولﷺ کوپیش نظر رکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ سلام کو عام کریں ۔دوران پروگرام اپناموبائل فون بند رکھیں ۔ اجتماع کے تمام پروگراموں میں پوری توجہ کے ساتھ شریک ہوں ۔اس دوران رہائش گاہوں میں نہ بیٹھیں۔دریائے ستلج کے کنارے پرنہ کھڑے ہوں کیونکہ پانی کی طغیانی کی وجہ سے نقصان بھی ہوسکتاہے ۔
تمسک بالقرآن( جناب پروفیسر فضل باسط )

حلقہ خیبر پختون خوا کے ناظم تربیت پروفیسر فضل باسط نے تمسک بالقرآن کے موضوع پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمسک کامطلب ہے کسی چیز سے جڑنا‘ اورہماری تنظیم کی اٹھان ہی اسی اصول پرہے کہ قرآن کے ساتھ جڑا جائے ۔انہوں نے قرآن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ہدایت کی کتاب ہے۔ اس کو اپنانے سے قوموں کو عروج اورترک کرنے کی پاداش میں ذلیل وخوار کیا جائے گا۔قرآن کاعلم چوٹی کا علم ہے ۔ یہ اللہ کی رسی ہے ۔ یہ دلوں کے امراض کا تزکیہ کرتاہے ۔ قرآن فتنوں سے بچائو کا ذریعہ ہے ۔ ہمیں قرآن کے حقوق پرعمل کرنا ہوگا۔ قرآن کتابِ انقلاب ہے۔ اگر یہ ہمارے باطن میں انقلاب برپا نہیں کرتی توپھرظاہر میں بھی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ ہماری تنظیم کی دعوت کی جڑ اور بنیاد قرآن حکیم ہے جس کی تعلیمات کو آگے پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ قرآن عدل و قسط کاحکم دیتاہے ۔ رسول اللہﷺ نےصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تربیت قرآن کے ذریعے کی ۔ہم نے قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کی سماعت کا بھی اہتمام کرنا ہے ۔ اگر ہم قرآن کو ترک کریں گے تودنیا میں ہماری معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں یہی قرآن ہمارے خلاف اللہ تعالیٰ کے سامنے شکایت کرے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجامِ بد سے محفوظ رکھے !
مطالعہ ٔ حدیث( جناب مجاہد امین )
نماز مغرب کے بعد’’اخوتِ رسولﷺ‘‘ کے موضوع پر مرکزی شعبہ تعلیم وتربیت کے معاون جناب مجاہد امین نے حدیث کا مطالعہ کروایا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:’’کاش میری ملاقات ہومیرے بھائیوں سے !‘‘ صحابہ کرام ؓ نے استفسار کیا:کیاہم آپؐ کے بھائی نہیں ہیں ؟آپﷺ نے فرمایا:’’کیوں نہیں !لیکن میری مراد ان لوگوں سے ہے جوتمہارے بعد آئیں گے۔وہ مجھ پر ایمان لائیں گے جیسے تم لائے ہواور میری تصدیق کریں گے جیسے تم نے تصدیق کی اور وہ میری مدد کریں گے جیسے تم نے مدد کی ۔‘‘اس کی تشریح میں جناب مجاہد امین نےکہا کہ غلبہ دین کی جدّوجُہد دراصل محبت رسولﷺ کاتقاضا ہے۔ اس جدّوجُہد میں جان ومال کھپاناہے ۔آج دین مغلوب ہے توہمارے لیے موقع ہے کہ اس جدّوجُہد میں حصّہ لے کر نصرتِ رسولﷺ اوراطاعت ِرسول ﷺ کے مرتبہ پرفائز ہو جائیں۔ ہمیں موجودہ فتنوںکے دورمیں بھی اللہ اوراس کے رسولﷺ کی اطاعت پرکاربند ہونا ہوگا۔ غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد اخوت رسول ﷺ کے حصول کا ذریعہ ہے ۔
رسول کاملﷺ(از:جناب اعجاز لطیف )
نائب امیر تنظیم اسلامی محترم اعجاز لطیف نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات کوایسے لوگوں کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہےجوآخرت پرایمان رکھتے ہیں اور اللہ کوکثرت سے یاد کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں انبیاء و رسل بھیجے اورسب سے آخر میں نبی اکرمﷺ کو مبعوث کیا۔ سیرت النبیﷺ کے تمام گوشے بالکل عیاں ہیں۔ امیرہویاغریب‘ بادشاہ ہویا فقیر‘ امام ہویامقتدی‘ منصف ہو یا مدّعی‘ خطیب ہویاطبیب‘معلم ہویامتعلم‘ روزے دار ہو یاشب بیدار‘ مجاہد ہویاسپہ سالار‘ تاجر ہو یا خریدار‘ نوجوان ہو یا بزرگ‘ شوہر ہویاباپ‘ آپﷺ کی ذاتِ بابرکات ہرطبقےکے لیے بہترین نمونہ ہے ۔دوسرے انبیاء ورسل علیہم السلام نے صرف اپنی قوم سے خطاب کیالیکن رسول اللہﷺ نےپوری انسانیت کو مخاطب کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)}(الانبیاء) ’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا احسان کیا کہ ہمیں حضرت محمد رسول اللہﷺ کی اُمّت میں پیدا فرمایا۔آپﷺ کا اُسوہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ سیرت کے انقلاب آفریں پہلو کودنیا نے تسلیم کیا۔وہ ایک تعمیری انقلاب تھاجس کی گواہی ڈاکٹر مائیکل ہارٹ‘ ایم این رائے اور دوسرے غیرمسلموں نے بھی دی ۔ رسول اللہﷺ کے ہمہ گیر انقلاب کےمقابلے میں دوسرے انقلابات جزوی تھے ۔ قیامت سے قبل کل روئے ارضی پر اللہ کا دین قائم ہوگا‘ جس کے لیے اسوئہ رسول ﷺ کے مطابق جدّوجُہد کرنا ہم پرلازم ہے ۔ اس  مشن کی تکمیل کے لیے ہمیں اپناتن من دھن قربان کرنا ہوگا۔جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اُسوئہ رسولﷺ کی پیروی کے تقاضے پورے کیے اسی طرح ہم بھی جدّوجُہد کریں ۔ اسلام کاعالمی غلبہ اورنظام خلافت کا قیام ایک شدنی امر ہے‘ فرق صرف یہ ہوگا کہ کون اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اورکون اپنے آپ کو محرومین کی فہرست میں رکھتاہے !
ڈاکٹر اسرارا حمدؒ:حیات وخدمات(ڈاکیومنٹری)
اس دفعہ سالانہ اجتماع میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒکی پوری زندگی (ماہ وسال کے آئینہ میں)کی جدّوجُہد کوSMD سکرین پردکھایاگیا۔اس میں آپ کازمانہ طالب علمی‘ جماعت اسلامی میں شمولیت ‘اختلاف کی بنیاد پر جماعت سے علیحدگی‘انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کاقیام‘تنظیم کے اجتماعات وغیرہ تمام تفاصیل شامل تھیں ۔یہ دستاویزی فلم مرکزی شعبہ سمع وبصر نے تیار کی ۔
زمانہ گواہ ہے(پینل گفتگو )
نماز عشاء سے پہلے’’ عالمی اورقومی منظر نامہ : تنظیم اسلامی کاموقف ‘‘ کے عنوان سے ’’زمانہ گواہ ہے‘‘ کا تجزیاتی پروگرام منعقد کیاگیا ۔ اس کے میزبان جناب آصف حمید (انچارج شعبہ سمع وبصرو سوشل میڈیاتنظیم اسلامی)تھے جبکہ شرکاء میں مرکزی ناظم تعلیم و تربیت جناب خورشید انجم‘ نائب ناظم نشرواشاعت جناب رضاءا لحق‘ حلقہ کراچی وسطی کےنائب امیر ڈاکٹر انوار علی شامل تھے ۔ فلسطین کی موجودہ صورت حال‘پاکستان اورافغانستان کے تعلقات‘ پاکستان کاکشمیر کے حوالےسے موقف اور ملکی حالات زیربحث لائے گئے ۔ (اس پروگرام کی رپورٹ ندائے خلافت کے شمارہ ۴۶ میں شائع ہوچکی ہے ۔)
-----ہفتہ۱۸نومبر۲۰۲۳ء ------درس قرآن مجید(ڈاکٹر ضمیر اختر خان )
نماز فجر کے بعد حلقہ اسلام آباد کے امیر ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے سورۃ الشوریٰ کی آیات ۳۶ تا۴۳ کی روشنی میں’’اقامت ِدین کے لیے کام کرنے والوں کے مطلوبہ اوصاف ‘‘ پر درسِ قرآن دیا۔ انہوں نےکہا کہ اقامت ِدین کے فریضہ کے لیے التزام جماعت شرط ہے۔ یہ جدّوجُہد کرنے والوں کے اوصاف قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان ہوئے ہیں۔ایسے افراد:
(۱) دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ دنیا متاع الغرور ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر ہے جسے اللہ تعالیٰ نےادھار میں رکھا ہے۔
(۲) اسباب پر نہیں بلکہ اللہ پر توکّل کرتے ہیں ۔اسباب ضروری ہیں لیکن حقیقی بھروسا اللہ پر ہی ہونا چاہیے ۔اگر ہم ایساکریں گے تواللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہوجائے گا۔
(۳) کبائرو فواحش سے اجتناب کرتے ہیں۔ بندئہ مومن کو اس معاملے میں حساس ہونا چاہیے ۔ اگر ہم کبائر سے بچتے رہیں گے تو صغائر اللہ تعالیٰ معاف کردے گا۔
(۴) غُصّہ کی حالت میں عفو ودرگزر سے کام لیتے ہیں۔اگر غُصّہ آجائے تواللہ کی پناہ میں آجائو۔
(۵) ا پنے رب کی پکار پرلبیک کہتے ہیں۔ آج ہم اللہ کی پکار پریہاں حاضر ہوئے ہیں کیونکہ دین کو قائم کرنا سب سے بڑی پکار ہے ۔رسول اللہﷺ کی پوری زندگی اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں گزری ۔
(۶) نماز قائم کرتے ہیں‘کیونکہ اس کی حیثیت اسلامی اجتماعیت میں نیوکلیس کی سی ہے۔ صحابہ کرا م رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زندگی میں نمازریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم تھی ۔
(۷) اجتماعی زندگی میں فیصلہ کرنے اور امور نمٹانے کے لیے باہمی مشاورت کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک عمدہ اصول دیا ہے‘ جس کا جہاں جہاں اہتمام ہم کریں گے‘ فتنوں سے محفوظ رہیں گے ۔
(۸) اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔جوکچھ ہمارے پاس ہے‘ یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہے ۔اس کوبچا بچا کرنہیں رکھنا بلکہ اُسی کوواپس لوٹانا ہے ۔
(۹) بدلہ لیتے ہیں‘ یعنی اقدام کے مرحلہ میں مسلح تصادم کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس پر عمل بھی کیا۔ مظلوموں کو بدلہ لینے کا حق ہے۔ جب طاقت آئے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیناہے۔یہ اوصاف ہمارے اندر کیسے پیدا ہوں‘ اس کے لیے سورۃ الانفال کی آیت ۲۴ کامراقبہ کریں ۔
رسول اللہﷺ کی گھریلو زندگی(جناب شیرافگن )
ناشتے کے بعدمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت کے معاون خصوصی محترم شیرافگن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گھروالوں کی تربیت آج کےدور کا ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کے لیے ہم پریشان رہتے ہیں کیونکہ اقامت دین کا ورثہ اگلی نسل میں منتقل کرنا ہے۔ہماری پہلی ذمہ داری دعوت کی ہے ۔دعوت دین کے دومحاذ ہیں:گھر اور معاشرہ۔ رسول اللہﷺ کی زندگی ہرلحاظ سے ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔آپ ﷺ نے سب سے پہلے گھر میں دعوت دی۔اسی لیے اولین ایمان لانے والے حضرت خدیجہؓ‘ آپﷺ کی بیٹیاںؓ اورچچازاد بھائیؓ تھے ۔ ہم نے گھر میں مربی کاکردار ادا کرنا ہے ۔صحابہ کرامؓ کے مربی رسول اللہﷺ  تھے ۔ ہمیں گھروالوں کے لیے نیچرل مربی بننا پڑے گا ورنہ کوئی آرٹیفیشل مربی یہ جگہ لے لے گا۔پہلی چیز ذاتی کردار کی گواہی ہے جوگھروالے دیتے ہیں‘ لہٰذا ہمیں اپناکردار مضبو ط کرنا ہے۔ تربیت کے لیے اپنے گھروالوں کووقت دینا پڑے گا۔ رسول اللہﷺ نے اپنے اوقات کو تین حصوںمیں تقسیم کیا تھا۔ ایک اللہ کے لیے ‘دوسرا گھروالوں کے لیے اورتیسرااپنے نفس کے لیے ۔ آپ ﷺ  اپنے اوقات میں سے اللہ اور گھروالوں کاوقت کم نہیں کرتے تھے۔آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے نظریات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔مادہ پرستانہ سوچ اورالحاد کے فتنے کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ نظریاتی تربیت نہ ہونے کی وجہ سےatheism کافتنہ بڑھ رہا ہے ۔ہم اپنی تنظیمی تربیت گھروالوں تک پہنچائیں ۔ اس کے لیے گھریلو اسرے کا بہترین نظام بنایا گیا ہے‘ جس پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔
فریضہ اقامت دین: اَسلاف کی نظر میں(مولانا خان بہادر)
معاون مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت مولانا خان بہادر نے کہا کہ ہماری دعوت کے حتمی مرحلے میں فریضہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد ہے ۔اس حوالے سے بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ یہ صرف حضورﷺ کا فرض تھا یاعلماء کا یا حکمرانوں کا کام ہے اورہمارے اسلاف میں اس کاذکر نہیں ملتا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف دین کو قائم کرنافرض سمجھتے تھے ۔(مولانا خان بہادر کا مکمل خطاب اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے۔)
کلام ِاقبال( جناب شیخ سلیم )
رفیق تنظیم جناب شیخ سلیم نے بیداریٔ اُمت‘فلسطین کی آزادی اور طلوعِ اسلام کے موضوعات پر علّامہ اقبال کا منتخب کلام پیش کیا ۔
الحاد‘ مادہ پرستی اورتوحید(ڈاکٹرانوار علی )
حلقہ کراچی وسطی کے نائب امیر ڈاکٹر انوار علی نے کہاکہ الحادکامطلب ہے خدابیزار ہونا یاخدا کا انکار کرنا ۔atheism اور دہریت بھی اسی کوکہتے ہیں ۔ الحاد ایک گلوبل مسئلہ ہے اورہردفعہ نئی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے اس الحادی فکر کی تشہیر ہورہی ہے ۔۲۰۱۲ء میں دنیا کی ۱۳فیصد آبادی ملحد ہوچکی تھی ۔ آج ایتھی اسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان وجود میں آچکی ہے اورہمارے دس لاکھ نوجوان اس کے ساتھ جڑ چکے ہیں ۔ ماضی میں الحاد جہالت پرمبنی تھا لیکن اب یہ شعوری اور مدلل ہے ۔ہم اپنے بزرگوں سے اللہ مالک ہے ‘ جواللہ چاہے گاوہی ہوگا‘اللہ خیرکرے گاوغیرہ جیسےتوحیدی جملے اکثر سنتے تھے لیکن آج نوجوانوں کے منہ سے یہ جملے نہیں نکلتے۔دینی گھرانوں کی نسلیں بھی اس فتنے میں مبتلا ہوچکی ہیں۔الحادکاردکیسے ہو؟اس کے لیے ہمیں ایمان مضبوط کرنا ہوگااورقرآن سے جڑنا ہوگا۔ہم ایمانی طاقت سے ہی اس فتنے کا رد کرسکتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں‘ ان پر غوروفکر کیا جائے۔ اپنی اولاد کو بھی قرآن سےجوڑیں اوران کی تربیت کریں۔ اگر ہم ایسانہیں کریں گے تو پھریہ زمانہ‘ سوشل میڈیا اوردجالی تہذیب ان کی تربیت کرے گی ۔ اولاد کی تربیت میں غفلت نہ کریں ۔ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کریں اوراسی پرتوکّل کریں۔ ہمیں اللہ پر یقین ہے لیکن اس پرتوکّل نہیں ہے‘ تبھی توہمارا یہ حال ہے ۔
امیرتنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ سے سوال وجواب
رفقاء نےامیرتنظیم اسلامی سےتنظیمی فکر‘ مسئلۂ جہاد‘فلسطین کے معاملہ پردینی جماعتوں  کے کردار‘اسرائیل کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ‘الیکشن میں ووٹ اور سیاسی جماعتوں سے تعلق کے حوالے سے سوالات کیے جن کاانہوں نے مدلل انداز میں جواب دیا ۔
مطالعہ ٔ حدیث(جناب سجاد سرور)
نمازعصر کے بعدمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت کے معاون جناب سجاد سرور نے ’’مفلس کون؟‘‘کے موضوع پردرس حدیث دیا۔ انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے صحابہؓ سے سوال کیا:’’کیاتم جانتے ہوکہ مفلس کسے کہتے ہیں ؟‘‘صحابہ ؓنے کہا کہ ہم تواس کومفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگاکہ جونماز ‘روزے‘ زکوٰۃوغیرہ سب کچھ لے کر آئے گالیکن اس نے دنیا میں کسی کوگالی دی ہوگی ‘ کسی پرتہمت لگائی ہوگی‘ کسی کامال کھایا ہوگا‘کسی کا خون بہایا ہوگااورکسی کومارا ہوگا‘توان سب کواس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی ۔ اگر اُس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں توان لوگوں کے گناہ اس آدمی پرڈال دیے جائیں گی۔پھراس آدمی کوجہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘انہوں نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ دین میں دوطرح کے حقوق ہیں : حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ حقوق العباد کی اہمیت اس حدیث سے بالکل واضح ہوگئی اورہمارے لیے یہ فکروعمل کی بات ہے ۔اگر ہم نے دنیا میں کسی کے حقوق غصب کیے ہوں تویہ قیامت کے دن ہمارے لیے وبالِ جان بن جائیں گے ۔
فکر ِاقبال(ڈاکٹر حافظ محمدمقصود)
حلقہ خیبرپختون خوا کی مقامی تنظیم مردان کے امیر ڈاکٹر حافظ محمدمقصود نے علّامہ اقبال کی مشہور نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کے کچھ اشعار کامطالعہ کروایا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ کلام اقبال کاکسی نہ کسی درجے میں فہم حاصل کریں ۔ اپنے مطالعہ کووسیع کریں تاکہ ہم فکر ِ اقبال کو سمجھ سکیں ۔یہ نظم علّامہ نے ۱۹۲۳ء میں لکھی تھی اوراس وقت مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہورہی تھی ۔علّامہ کے مطابق مغرب کے فکری الجھائو کی وجہ سے مسلمان اپنے آپ کو پہچان چکا ہے اوراب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کودوبارہ ترقی دینا چاہتاہے ۔ مسلمان قائدین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کریں‘ کیونکہ مومن تومتحرک وجود کا نام ہے ۔ مؤمن کو اپنے اندر حرارت اور حرکت پیدا کرنی ہو گی۔ مومن کےپاس اعلیٰ نصب العین ہے جبکہ کافر کے پاس صرف دنیوی مقاصد ہیں ۔مومن اگر اسی طرح اٹھیں گے توان میں اتحاد ہوگااورآپس میں دشمنیاں ختم ہوجائیں گی ۔ فرنگی توخود اتحاد کی طرف گامزن ہے۔ تم تومتحد ہوجائواور اپنے اسلاف کاکردار پیدا کرو۔مسلمانوں کواپنے ایمان اور طاقت کو مضبوط کرنا ہے ۔
دورِ فتن‘ سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں(جناب آصف حمید)
مرکزی ناظم شعبہ سمع وبصرو سوشل میڈیا جناب آصف حمید نے کہا کہ فتنہ کا لفظی معنی آزمائش اور امتحان ہے اور یہ قرآن میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اگر انسان میں گناہوں کی کثرت ہو رہی ہے اور اللہ کی رحمت سے دُوری ہو رہی ہے تو ایسا انسان جان لے کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے فجر سے مغرب تک خطبہ ارشاد فرمایا اور تمام فتنوں سے آگاہ کیا۔ ان فتنوں کی علامات یہ ہیں :
۱۔ وقت میں بے برکتی ہو جائے گی۔ ۲۔علم کے باوجود عمل میں کمی ہوجائے گی۔
۳۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہو جائے گی۔ ۴۔ جھوٹ کو حلال سمجھاجائے گا۔
۵۔ دین بیچ کردنیا خریدی جائے گی ۔ ۶۔ طلاق کی کثرت ہو جائے گی۔
۷۔ تہمت لگانا عام ہو جائے گا۔ ۸۔ کمینے لوگوں کی عزت کی جائے گی ۔
۹۔ شریف لوگوں کا جینا محال ہو جائے گا۔
۱۰۔ لوگوں کے لہجے اور مزاج تلخ ہو جائیںگے۔ ۱۱۔ گناہ زیادہ ہو جائیں گے۔
۱۲۔ مرد عورتوں کی نقالی کرنے لگیں گے( LGBTQاورفیشن شوزوغیرہ )
۱۳۔ گانے والی عورتیں رکھی جائیں گے۔
آج یہ چیزیں ہمارے معمول کاحصّہ بن چکی ہیں جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ۔ان فتنوں سے بچنے کے لیےہمیں فرائض کی پابندی ‘ سنتوں کا اہتمام کرنا ہے ۔ شرک و بدعات سےدور رہنا ہے۔فکر آخرت کی تعلیم دینی ہے ‘نظر کی حفاظت کرنی ہے اور اہل دین سے جڑنا ہے۔ مسنون دعائوں کا اہتمام کریں۔ سورۃ الکہف سے خصوصی لگائو رکھیں ۔ طے کر لیں کہ ہم نے کوئی مشتبہ چیز شیئر نہیں کرنی‘ صرف مستند چیز شیئر کریں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز‘ شدت پسند گروپ کا حصّہ نہ بنیں۔ تصاویر کےمعاملےمیں احتیاط کریں‘ بالخصوص فیملی کی تصاویر موبائیل میں نہ رکھیں۔
مطالعہ ٔحدیث( جناب عبد الرئوف)
نماز مغرب کے بعد معاون‘ مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت جناب عبد الرئوف نے’’ اسلام اور ریاست ‘‘کے موضوع پردرس حدیث دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اسلام اور حکومت و ریاست دوجڑواں بھائی ہیں ۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ یعنی انسان کی زندگی میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے۔ امام ڈھال ہوتا ہے جس سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعامانگی کہ حکومت کو میرے لیے مدد گار بنا دے۔ ہمارے اسلاف نے خلافت کے ہوتے ہوئے بھی اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ آج تو خلافت کا ادارہ نہیں اور باطل نظام منکر اعظم ہے۔ خلافت ِعثمانیہ کے بعد خلافت کو قائم کرنا فرضِ عین ہے۔ آج یہی ہمارا دعویٰ ہے اور اسی کے لیے ہم کوشاں ہیں۔
سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ(جناب شفیع محمد لاکھو)
امیرحلقہ حیدرآباد جناب شفیع محمدلاکھو نے اپنے خطاب کوSMDسکرین پر پاور پوائنٹ کے ذریعے واضح کیا۔انہوں نے کہاکہ مغرب میں خدا بیزاری بہت بڑھ چکی ہے لیکن قرآن حکیم کی نشانیوں کی وجہ سے سائنس دان مجبور ہو رہے ہیں کہ خدا کومانا جائے۔ کائنات کی حقیقتیں اور مسلمانوں کی ایمانی کیفیات کو دیکھ کر اب مغرب کے مصنّفین قرآن کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ یورپ میں  قرآن کی بدولت اسلام تیزی سے پھیل رہا ہےاور ۲۰۷۵ء میں یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہو گا۔اِدھر ہمارا حال یہ ہے کہ اپنے نوجوانوں کے سامنے قرآن کے حقائق پیش ہی نہیں کرتے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒفرماتے تھے کہ قرآن کی حیثیت مقناطیس کی ہے جو سلیم الفطرت لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جبکہ جن لوگوں کی فطرت مسخ ہوچکی ہو ان پراس کا اثر نہیں ہوتا۔دوسری طرف اولیاء الشیطان لوگوں کو قرآن سے دور کرنے کے لیے جال بُنتے ہیں۔ ایک انگریز نے خلافت ِعثمانیہ کے خاتمے پر کہا تھا کہ مسلمانوں کو قرآن سےدور کر دو۔ اس کا مقابلہ سعید نورسیؒ نے کیا‘ جبکہ برصغیر میں قرآن کو زندہ کرنے کے لیے شیخ الہندؒ نے تحریک شروع کی۔
ویڈیو پروگرام(بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ)
اس کے بعد بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدرحمہ اللہ کاقرآن فورم کے تحت قرآن آڈیٹوریم میں کیا گیا ایک خطاب بذریعہ ویڈیو دکھایا گیا ۔اس میں انہوں نےرسول اللہ ﷺ  کی زندگی میں اورموجودہ دورمیں یہودکی سازشوں کوتفصیل سے بیان کیا ۔
------اتوار۱۹ نومبر۲۰۲۳ ء------درس قرآن مجید( جناب سلیم اختر)
نماز فجر کے بعد اجتماع کے چوتھے اورآخری سیشن کا آغاز ہوا۔ ناظم دعوت‘ حلقہ پنجاب جنوبی جناب سلیم اختر نے سورۃ المنافقون کے دوسرے رکوع کادرس دیا۔ سورۃا لمنافقون میں منافقین کاتذکرہ ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒفرماتے تھے کہ انقلابی تحریکوں میں کچھ منافقین پیدا ہو جاتے ہیں ۔جب تحریک میں مشکل مرحلہ آتاہے توان کے اندر کی کیفیت میں ضعف آجاتاہے ۔وہ تحریک کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔شیطان ان پرحاوی ہوجاتاہے اور ان میں منافقت کی بیماری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس بیماری کا علاج ان آیات میں بیان ہو رہاہے ۔ان میں ذکر کاوسیع تصور ہے ‘ یعنی صرف نماز‘ روزہ اور تسبیحات ہی ذکر نہیں بلکہ زندگی کاہرلمحہ اللہ کی یاد میں بسر ہو۔اللہ تعالیٰ نے انسان میں مال واولاد کی محبت پیدا کی ہے لیکن اس کی وجہ سے اللہ کی یاد اور اقامت دین کے مشن سے غافل ہونے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ آج انسان مادیت اور ایک خاص معیارِ زندگی کی طرف بھاگ رہا ہے۔ اگر مال حلال سے کمایا جائے‘ اولاد کی دینی تربیت ہواور اسے اللہ کی راہ میں لگایا جائے تویہ عمل آخرت میں صدقہ جاریہ بنے گا۔دوسری آیت میں انفاق کا ذکر ہے جس سے مراد صرف مال کا خرچ کرنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال ‘اولاد‘صلاحیتیں‘ علم سب کچھ لگانا ہے ۔اگر ہم یہ چیزیں اللہ کی راہ میں نہیں لگائیں گے توپھر یہ سب موت کے وقت اور قیامت کے دن ہمارے لیے حسرت کا باعث بنے گا۔ وہاں ہم مہلت مانگیں گے لیکن مہلت نہیں ملے گی ۔موجودہ حالات میں اللہ کے ذکر کی بہت اہمیت ہے‘ ورنہ نفاق کی بیماری پیدا ہونے کاخطرہ ہے ۔یہ آیات اہل ایمان کی تربیت کے لیے بہت اہم ہیں۔
ساتھیو!مشعلوں کوتیز کرو!(انجینئر سیّدنعمان اختر)
نائب ناظم اعلیٰ جنوبی پاکستان انجینئرسیدنعمان اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ تنظیم کایہ قافلہ چار سوسالہ علمی وفکری اورتحریکی مساعی کاامین ہے ۔بانی تنظیم اسلامیؒ نے اپنا سب کچھ اس قافلے کے لیے لگادیا۔موجودہ پُرفتن دور میںہمارا کردار بہت اہم ہے ۔ہم نے دنیا کو دین کے صحیح تصور سے روشناس کرنا ہے۔آج ہمیں نیکیوں کی طرف دوڑنا ہوگااو رگناہوں سے بچنا ہوگا۔ناشکری سے شکر کی طر ف اورجہالت سے علم کی طرف دوڑو۔اس قافلے کو تیز کرنے کے لیے ہم نے کچھ چیزوں پر عمل کرنا ہے ۔سب سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے۔ ایک داعی ٔ دین اپنے نفس کا محاسبہ کرتاہے ۔پھر ہمیں تعلق مع القرآن کو مضبوط کرنا ہے۔ہم دورئہ ترجمہ قرآن ‘رجوع الی القرآن جیسی تحریکیں تو اٹھا رہے ہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ ہمارا عملی تعلق قرآن سے کتنا ہے ۔ ہمیں عاشق قرآن بننا ہوگا۔ہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمان قرآن سے جڑے ہوئے ہیں تبھی وہ بد ترین حالات میں بھی اسرائیلیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ہمیں اپنی ذات میں داعی الی اللہ بننا ہے اورکردار کانمونہ لوگوں کے سامنے رکھنا ہے۔اس وقت ڈاکٹر صاحب ؒ کی دعوت گھر گھر پہنچ چکی ہے ۔ دعوتِ دین کا کام ایک مستقل سُنّت ہے ۔ اسی طرح ہم نے کچھ چیزوں سے بچناہے ۔ہمیں بدگمانی‘فتنہ‘ لہوولعب(مثلاًکرکٹ) سے بچنا ہے۔ عجلت پسندی اور بے بنیاد تبدیلی کے نعروںمیں وقت صرف نہیں کرنا۔ ہم نے اس قافلے کی حفاظت کرنی ہے۔ آپ کی ترجیح اول کیاہے ‘ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے !
انقلابی تربیت کے عناصر سہ گانہ(ڈاکٹر محمدالیاس )
حلقہ کراچی جنوبی کے امیر ڈاکٹر محمدالیاس نے کہا کہ ہمیں منہج انقلابِ نبویﷺ کے چھ مراحل پرکام کرناہے ۔ رسول اللہ ﷺکی زندگی کے تین ادوار ہیں :آغازِ وحی سے پہلے ‘مکی دور اورمدنی دور ۔آپﷺ نے تین کام مستقل کیے :دعوت ‘تنظیم اور تربیت۔ تربیت ایک مستقل سنت ہے ۔ کچے لوگ یہ کام نہیں کرسکتے ۔قرآن کے ذریعے تزکیہ کرنا ہے ۔ پہلے اپنی تربیت کرنی ہے‘ پھراولاد اورمعاشرے کی کرنی ہے ۔ پہلے اپنے آپ کو نمونہ بنائیں۔ رسول اللہﷺ کا طریقہ تربیت خانقاہی نہیں بلکہ انقلابی تھاجس سے صرف فرد نہیں بلکہ پورا معاشرہ تبدیل ہوا۔ سورۃ الفتح کی آخری آیت کی روشنی میں ہمیں اپنے اندر صحابہؓجیسی صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ تمسک بالقرآن اور قیام اللیل کے ساتھ صبرواستقامت کی کوشش کریں ۔
قرآن کی فریاد(جناب شفیق بیگ چغتائی)
بزرگ رفیق تنظیم جناب شفیق بیگ چغتائی نے ماہرا لقادری مرحوم کی مشہور نظم’’ قرآن کی فریاد‘‘ ترنم سے پڑھ کرسنائی۔
قرآن اورجہاد(محترم خورشید انجم)
مرکزی ناظم تعلیم و تربیت جناب خورشید انجم نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب قرآن نازل ہورہا تھا توا س نے عرب میں ہلچل مچا دی تھی ۔ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کرایمان اوریقین کی روشنی میں لے آیا۔ اُس وقت لوگوں کاتزکیہ‘ تصفیہ‘ تعلیم اورتربیت سارے کا م قرآن سے ہوتے تھے ۔چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فکر‘سوچ‘ اقدار‘ امیدیں‘ خلوت و جلوت حتیٰ کہ پوری کائنات بدل گئی ۔ دنیا ان کے لیے ایک مسافر خانہ بن گئی ۔ دورِ نبوتؐ اوردورِ خلافت ِ راشدہ میں قرآن اورجہاد کواولین حیثیت حاصل تھی‘ لیکن جب ملوکیت آئی توپھر قرآن‘ جہاد‘ ایمان وغیرہ کی حیثیت ثانوی ہوگئی ۔چنانچہ قرآن ایک کتابِ ایمان کی جگہ قانون کی کتاب اور حصول ثواب وبرکت کا ذریعہ بن گیا ۔جہاد کے ساتھ توزیادہ ظلم ہواکہ اس کے پورے پیکج(ایمان‘ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین) کوٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ کرنے کافتویٰ دیا اورمسلمانوں کی عظیم اکثریت کے نزدیک جہاد اورقتال کو ہم معنی سمجھا جانے لگا۔اب ہمیں دوبارہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم والے جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہم کہاں کھڑے ہیں ؟(محترم ڈاکٹرعطاء الرحمٰن عارف)
ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹرعطاء الرحمٰن عارف نے تنظیم اسلامی کی موجودہ پیش رفت کا جائز ہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کل رفقاء کی تعداد۹۸۰۰ ہے جس میں۲۸۶۲ملتزم اور ۶۹۳۸مبتد ی ہیں ۔ رفیقات کی تعداد۱۸۹۶ہے۔حلقہ جات کی تعداد ۲۰ہے ۔۱۴۶مقامی تناظیم ہیں ۔ اُسرہ جات کی تعداد۷۶۳ہے ۔۷۶۳حلقہ قرآنی قائم ہیں۔ گزشتہ سال مبتدی تربیتی کورس۱۸ اور ملتزم تربیتی کورس ۱۱منعقد ہوئے۔ تنظیم میں۲۷۱ مدرسین ہیں جن میں۱۴۴ منظور شدہ ہیں جبکہ فاضلین درس نظامی۲۲۵‘پی ایچ ڈی ہولڈر۷۷ ‘ ایم فل۲۱۱‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ۱۴۶‘ انجینئرز۲۰۶‘ وکلاء۱۰۲‘ ماسٹرز۱۳۰۳‘ ڈاکٹرز۲۷۷ اور گریجوائیٹ۴۰۹ ہیں۔
ناظمہ علیا کا پیغام(ڈاکٹر عارف رشید)
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے صدرمحترم ڈاکٹر عارف رشید نے ناظمہ علیا(اہلیہ بانی ٔ محترم ؒ)کاپیغام پڑھ کرسنایا۔ یہ پیغام ندائے خلافت کے شمارہ۴۷ میں شائع ہوچکا ہے ۔
اختتامی خطاب(امیرتنظیم اسلامی )
امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے اپنے اختتامی خطاب میں پانچ نکات پرگفتگو کی :
(۱) سب سے پہلے اللہ کاشکرا دا کرنا ہے اور ہم سب کو دورکعت شکرانے کےنفل ادا کرنے چاہئیں ۔ گھرجاکر اہل و عیال کابھی شکریہ ادا کرنا ہے ۔ حلقہ پنجاب جنوبی اور سکیورٹی والے رفقاء بھی شکریہ کے مستحق ہیں جن کی انتھک محنتوں سے یہ اجتماع منعقد ہوا۔ہم بہاول پور کی انتظامیہ اورحساس اداروں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا کرے ۔
(۲) بانی محترم ؒ کی سنت کو سامنے رکھتے ہوئےکچھ آیات کا تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔پہلے سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۱ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کےساتھ سودے کاتذکرہ ہے ۔ سودے کی ضرورت ہمیں ہے‘ اللہ کو نہیں ہے۔ لیکن وہ مختلف پیرایوں میں اپنے بندوں کو ترغیب وتشویق دلاتاہے کہ اگر تم میرے دین کی جدّوجُہد کرو گے تومیں تمہیں بدلے میں جنّت عطا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کی جنّت سستی نہیں ہے‘ اس کے لیے اپنی جان لگانی پڑتی ہے ۔ امام زین العابدینؒ کہتے ہیں کہ میری جان کوئی حقیر شے نہیں ہےکہ اسے کم ترجگہوں پر استعمال کروںبلکہ اس کو کھپا کراللہ تعالیٰ کی جنّت خریدی جاسکتی ہے۔ دوسری آیت سورۃ الانفال کی آیت ۱۷ ہے جس میں رسول اللہﷺ کی آزمائشوں اور تکالیف کا ذکر ہے۔ ہمارے پیش نظر آپﷺ کا اسوہ ہے ۔آج ہمیں قرآن کے ذریعے سے محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھروں میں لانا ہوگا۔پھر ہمیں گھروں میں کردار کانمونہ بننا ہوگا‘ ورنہ قول وفعل کےتضاد کامعاملہ ہوجائے گا جس کے حوالے سے سورۃ الصف کی آیات ۲‘ ۳میں سخت الفاظ آئے ہیں ۔امام زین العابدینؒ ہی کا قول ہے کہ’’ تم جوکہتے ہو مجھے سنائی نہیں دیتا‘ اورجو تم کرتے ہو وہ مجھے دکھائی دیتاہے ۔‘‘
(۳) اس اجتماع میں سینکڑوں احباب موجود ہیں ۔ ان سے میں کہوں گاکہ اسلام مکمل دین ہے اور ہم سب کے اوپر تین فرائض عائد ہوتے ہیں :خود دین پرعمل کرنا‘ دوسروں تک اس دین کو پہنچانا اوردین کے نظام کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کرنا۔یہی تنظیم کی بنیادی دعوت ہے ۔جو حضرات ڈاکٹر اسرارا حمدؒاورتنظیم اسلامی سے محبت کرتے ہیں وہ آگے بڑھیں اورتنظیم میں شامل ہوں ۔
(۴) کچھ اہداف دے رہا ہوں :
(i)ایک سال میں ہرمبتدی رفیق دواحباب جبکہ ملتزم رفیق چار کو زیر دعوت رکھے اوراگلے سالانہ اجتماع میں ساتھ لے کر آئے ۔
(ii) گھریلواسرے کااہتمام کریں۔ حلقہ قرآنی میں خود اوراحباب کو شریک کریں ۔
(iii) تنظیمی اجتماعات میں سوفیصد شرکت کااہتمام کریں اور یہ کم سے کم تقاضا ہے ۔
(iv) بانی محترم ؒ کا ویڈیو خطاب’’ نجات کی راہ‘‘(شکاگو) کوسننے کا اہتمام کریں ۔ 
(۵) عالمی و ملکی حالات اور مستقبل کے منظر نامہ کے حوالے سے کہوں گاکہ اسرائیل بھی کہتا ہے کہ پاکستان سب سے بڑا دشمن ہے ۔آج پاکستان کے اپنے حالات دگرگوں ہیں جس کی وجہ اللہ سے بے وفائی ہے ۔ افغان طالبان اورحماس کی جہاد ی کوششیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔بہرحال اس مملکت میں ہم نے اسلام کے نفاذ کے لیے ہرطریقہ آزما لیا ہے ‘ اب صرف تحریک کا راستہ بچا ہے ۔ ایک پُرامن‘ منظم انقلابی تحریک چلانے کی کوشش کی ضرورت ہے ۔ اب علماء بھی ا س کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہی طریقہ اقرب الی السنہ ہے ۔بہرحال جدّوجُہد کا عزم ‘ رخصتوں سے چھٹکارااور قرآن سے جڑنا ہے۔ یہ کریں گے توان شااللہ کل حضورِاَقدسﷺ کی شفاعت اوراصل کامیابی ملے گی۔
بیعت مسنونہ
اس کے بعد بیعت مسنونہ کا اہتمام کیا گیا۔ نئے شامل ہونے والے رفقاء نے امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس دوران پنڈال میں موجود تمام رفقاء نے بھی امیر محترم کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرائے۔آخر میں امیرمحترم نے دعاکروائی ۔