(عرض احوال) ختم نبوت فیصلہ کے پچاس سال اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ - خورشید انجم

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ختم نبوت فیصلہ کے پچاس سال
اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ


آج ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان پر ہدیہ شکر بجالاتے ہیں کہ ٹھیک پچاس سال پہلے ۷ ستمبر۱۹۷۴ء کو قادیانیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عجیب اتفاق ہے کہ اس فیصلہ میں عوام‘ تمام سیاسی جماعتیں بشمول حزبِ اقتدار ‘ حزبِ اختلاف اور تمام مذہبی جماعتیں متفق تھیں اور کسی بھی جماعت یا گروہ نے اس کے خلاف رائے نہیں دی۔ البتہ قادیانیوں نے یہ فیصلہ دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنے مذموم عزائم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ فیصلہ سرد خانے میں جاکر غیر فعال ہوجائے۔ حالیہ مبارک ثانی کیس بھی ان کے مذموم ارادوںکی ایک مثال ہے۔
مبارک ثانی نامی قادیانی ۲۰۱۹ء میں ایک بدنام زمانہ کتاب کو تقسیم کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا‘ جس کو قادیانی ’’تفسیر صغیر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس میں قرآن مجید کے تحریف شدہ ترجمہ کے ساتھ قادیانیوں کے گمراہ عقائد پر مبنی تشریح کی گئی ہے ۔ اس کتاب پر ۲۰۱۶ءمیں حکومت پنجاب نےپابندی عائد کر دی تھی۔ پھر۲۰۱۹ء میں بھی اس کے خلاف ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر ہوئی ‘جس پر جسٹس شجاعت علی خان نے بڑا واضح فیصلہ دیا تھا کہ کوئی غیر مسلم قرآن مجید کا نہ توترجمہ شائع کر سکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا کوئی حصہ ۔ اس کے باوجود بھی قادیانی باز نہیں آئے۔ دو دن بعد ہی انہوں نے چناب نگر(جسے قادیانی ربوہ کہتے ہیں) میں پروگرام کیا اور وہاں اس کتاب کو دوبارہ تقسیم کیا گیا ۔ اس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی گئی لیکن حکام بالا کی طرف سے اس میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔ یہاں تک کہ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء میں جا کر پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں مبارک ثانی سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔ مدّعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۵ بی‘ ۲۹۸ سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے ۔ ایف آئی اےکی فرانزک رپورٹ کے مطابق یہ متنازع تفسیر جہاں جہاں تقسیم ہوئی اور جہاں جہاں اَپ لوڈ ہوئی اس کا ذمہ دار مبارک ثانی تھا ۔ ۷ جنوری ۲۰۲۳ء کو ملزم کی گرفتاری ہوئی ۔اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج نے کیس کی سماعت کی اور ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کو ملزم کی ضمانت خارج کر دی ۔اس کے بعد کیس لاہور ہائی کورٹ میں گیا اور ۲۷ نومبر ۲۰۲۳ءکواس نے بھی ملزم کی ضمانت خارج کردی ۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے۶ فروری ۲۰۲۴ء کو فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف مبارک ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیابلکہ اُس کے خلاف مقدمہ سرے سے ہی ختم کردیا ۔ پھر یہ کہ بعض آیاتِ قرآنی سے غلط استدلال کرتے ہوئے گویا قادیانیت کے لیے چور دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ فیصلہ اس قدر جلد بازی میں کیا گیا کہ مدعی کے وکیل کا موقف سننے کی بھی زحمت گوارا نہ کی گئی۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ مجھے ایک دن کی مہلت دی جائے تاکہ میں تیار ی کر سکوں لیکن چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ان کو بھی جھڑک دیااور صرف قادیانی وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دے دیا ۔
۶ فروری ۲۰۲۴ء کے اس غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف مسلمانانِ پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور تمام مذہبی جماعتوں ‘ دینی حلقوں اور اہل علم و دانش نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے نظر ثانی کا تقاضا کیا ۔ دینی جماعتوں کی جانب سے نظر ثانی کے لیے باقاعدہ درخواست دی گئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے ایف آئی آریا فردجرم میں شامل دفعات کو رائٹ آف اورسٹرائیک آف کر تے ہوئےفیصلہ دیا ہے ۔ ایف آئی آر میں ’’ پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء‘‘ کی دفعات ۷ اور ۹ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا ۔ فردِ جرم میں آرٹیکل ۲۹۵ بی اور ۲۹۸ سی کاحوالہ دیا گیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے ان تمام دفعات کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے ۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ فیصلے کے دوسرے حصے میں چیف جسٹس نے آئین کےآرٹیکل ۲۰ اور ۲۲ کی جو تشریح کی ہے‘ اس میں سقم موجود ہیں ۔ ان آرٹیکلز میں مذہبی آزادی کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے وہ قادیانیوں کے لیے نہیں ہے۔ تیسری بات درخواست میں یہ بھی شامل کی گئی تھی کہ چیف جسٹس صاحب نے جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا وہ موقع و محل کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے تمام مکاتب فکر کے ۱۰ بڑے اداروں سے آراء مانگیں ۔ قرآن اکیڈمی لاہور سمیت چھ اداروں نے متفقہ write-up جمع کروایا ۔۲۴ جولائی ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کی ضمانت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا جس پر دینی حلقوں میں ایک بار پھر اضطراب پھیل رہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ فیصلہ آئینی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئےدیا گیا ہے ۔
متنازعہ فیصلے میں ایک بار پھر وہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین‘ قانون اور امنِ عامہ سے مشروط ہے۔حالانکہ آئین کے آرٹیکل ۲۰ اور ۲۲ کے مطابق مذہبی آزادی ان کے لیے ہے جو قانون ‘ آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مانیں ۔ قادیانی تو پہلی شق پر ہی عمل نہیں کرتے۔ وہ اس قانون کو نہیں مانتے جس میں ان کو غیر مسلم قراردیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ کی شق ۳اےمیں مسلمان کی تعریف جبکہ ۳بی میں قادیانی کی تعریف موجود ہے۔ قادیانی خود کو اقلیت نہیں مانتے بلکہ وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر دھوکا دے رہے ہیں۔ لہٰذا مذہبی آزادی کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہبی آزادی والے آرٹیکل میں ان کا ذکر ہے ۔عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے۔ پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی۔ دوسرا معاملہ فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے لکھا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل ۱۲ واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ چوں کہ ’’تفسیرِ صغیر‘‘ ۲۰۱۹ء میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا‘ اس لیے ’’پنجاب اشاعت قرآن قانون‘‘ کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔
چیف جسٹس صاحب کو معلوم ہوگا کہ قرآن ایکٹ ۲۰۱۱ء میں بنا ہے ‘جس میں سزا تین سال اور جرمانہ ۲۰ ہزار روپے تھا۔۲۰۲۱ء میں اس قانون میں معمولی سی ترمیم کرکے سزا بڑھائی گئی اور جرمانہ ایک لاکھ روپے کر دیا گیا۔قرآن بورڈ گورنمنٹ کا ادارہ ہے ‘جس کے تحت جب تک رجسٹریشن نہ کروائی جائے ‘ قرآن کا کوئی بھی نسخہ یا تفسیر شائع نہیں کی جا سکتی۔ غیر مسلم کو تو اس کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہے‘ لہٰذا اس کو کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے ؟سپریم کورٹ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرناکے حوالے سے کہا کہ نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان کے حوالے سے کوئی ذکرہے۔ اس وجہ سے عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔درحقیقت ایف آئی آرمیں پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی دفعہ ۷ میں بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ قرآن مجید کے جو مسلّمہ تراجم اور تفاسیر ہیں ان سے ہٹ کر کوئی تحریف شدہ ترجمہ ‘ تفسیر یا قرآن کا کوئی حصہ شائع کرے گا تو اس ایکٹ کی دفعہ ۹ کے تحت اس کو باقاعدہ سزا ہوگی ۔ پھر یہ کہ فرد جر م میں ۲۹۵ بی اور ۲۹۸ سی کو بھی شامل کیا گیاتھا۔ ۲۹۵ بی کے مطابق اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید کے کسی حصہ یا ترجمہ میں تحریف کرتا ہے اور اس کو شائع کرتا ہے تو اسے تین سال سے تاحیات قید ہو سکتی ہے ۔ ۲۹۸ سی کے مطابق قادیانی ‘ احمدی یالاہور ی گروپ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کو اپنا سکتے ہیں ‘ نہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی کتابوں کو قرآن کہہ سکتے ہیں ۔ وہ اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتےاور نہ ملعون مرزا قادیانی کے لیے’’ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔قادیانیوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے تو پھر عدالت انہیں مذکورہ تفسیر شائع اور تقسیم کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے؟
سب سے خطرناک بات یہ کہ نظر ثانی درخواست کے اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قادیانیوں (جنہیں نہ جانے کیوں ہر مقام پر احمدی لکھا گیا ہے ) کو مذہبی آزادی اور گھر کی خلوت کے نام پر اپنے گھروں ‘ عبادت گاہوں اور نجی اداروں کے اندر تحریف قرآن اور توہین رسالت ﷺکی اجازت دے دی ہے ۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا اور اسلام کا عملی نفاذ ہی اس کا مستقبل ہے ۔ مقاصد ِشریعت میں شرطِ اوّل حفاظت ِدین ہے ۔ دین کی حفاظت کا محور کتاب اللہ اور ناموس رسالت مآب ﷺہیں ۔ اگر مذہبی آزادی کے دلفریب نعرہ کے نام پر تحریف قرآن اور اہانت ِرسولﷺ کی گھر اور گراؤنڈ کی خلوت میں اجازت دی گئی تو شریعت ِاسلامیہ کے تمام مقاصد ہی فوت ہو جائیں گے ۔
آج پوری قوم‘ علماء کرام ‘ مشائخ‘ عوام ‘ تاجر ‘ وکلاء اور تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ۶ فروری اور ۲۴جولائی ۲۰۲۴ء کے فیصلے آئین اور قانون سے مکمل طور پر متصادم ہیں۔ لہٰذا ان پرنظر ثانی کی جانی چاہیے۔ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے نظر ثانی کیس دائر کرنے کا فیصلہ صادر کیا تھا۔ کمیٹی کی سفارشات کے باوجود پنجاب حکومت کی جانب سے ایک مبہم سی پٹیشن کا سپریم کورٹ میں دائر کیا جانا بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ در اصل ہمارے حکمران غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہی ملک میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ جس کی ان کو ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہم تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار سے گزارش کریں گے کہ اس معاملہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔ ماضی میں ایسا ہوچکا ہے کہ اس مسئلہ سے بعض گروہوں اور سیاسی پارٹیوں نے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کو حکومت بمقابلہ اپوزیشن مسئلہ بنادیا جس کے نتیجہ میں یہ حل ہونے کے بجائے لاینحل بن گیا۔
ہم عوام سے بھی درخواست کریں گے کہ یہ معاملہ کسی صورت میں بھی ہنگامہ اور دنگے فساد کی شکل اختیار نہ کرنے پائے۔اسے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہ بننے دیا جائے‘ورنہ یہ قادیانیوں کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہوگا اور مسئلہ مزیدگمبھیرہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام صاحبانِ حل و عقد کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین!