(بیان القرآن) سور ۃ الحدید(آیات۱تا۱۱) - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْحَدِیْدڈاکٹر اسرار احمد

تمہیدی کلمات

سورۃ الحدید سے قرآن حکیم کی مکّی مدنی سورتوں کے چھٹے گروپ کی مدنی سورتوں کے سلسلے کا آغاز ہو رہا ہے جو سورۃ التحریم پر اختتام پذیر ہو گا۔ اس ضمنی گروپ میں دس مدنی سورتیں ہیں۔ ان سورتوں کا حجم تقریباً سواپارے کے برابر ہے‘لیکن تعداد کے اعتبار سے یہ پورے قرآن میں مدنی سورتوں کا سب سے بڑا گلدستہ ہے۔ اس حوالے سے پہلے پانچ گروپس کی مدنی سورتوں کی ترتیب کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیں۔ پہلے گروپ میں سورۃ البقرۃ‘ سورئہ آل عمران ‘ سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ چار مدنی سورتیں ہیں جو تقریباً سوا چھ پاروں پر پھیلی ہوئی ہیں اور حجم کے اعتبار سے یہ مدنی قرآن کا سب سے بڑا گلدستہ ہے ۔ اس کے بعد دوسرے گروپ میں سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ دو مدنی سورتیں ہیں ۔پھر تیسرے اور چوتھے گروپ میں صرف ایک ایک مدنی سورت ہے ‘یعنی تیسرے گروپ میں سورۃ النور اور چوتھے گروپ میں سورۃ الاحزاب۔ جبکہ پانچویں گروپ میں سورئہ محمد‘ سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات تین مدنی سورتیں ہیں۔
زیر مطالعہ گروپ کی ان مدنی سورتوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے پانچ سورتوں کا آغاز سَبَّحَ لِلہِ یا یُسَبِّحُ لِلہِ سے ہوتا ہے۔ یعنی ان کے آغاز میں اللہ کی تسبیح کا ذکر فعل ماضی میں بھی ہے اور فعل مضارع میں بھی ۔ عربی کا فعل مضارع چونکہ حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے معنی دیتا ہے اس لیے ماضی اور مضارع کے ان دو صیغوں سے گویا پورے زمانے کا کلی طور پر احاطہ ہو گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے اندر جو چیز بھی ہے اس نے ہمیشہ اللہ کی تسبیح بیان کی ہے‘ہر چیز اب بھی اُس کی تسبیح بیان کر رہی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ اس کی تسبیح کرتی رہے گی۔ ان سورتوں کے آغازکے اس مضمون کی مناسبت سے انہیں اَلْمُسَبِّحَات کا نام دیا گیا ہے۔ بعض لوگ سورۃ الاعلیٰ کو بھی اَلْمُسَبِّحَات کے اس گروپ میں شامل کرتے ہیں ‘لیکن یہ سورت اس لحاظ سے ان سے مختلف ہے کہ اس کے آغاز میں تسبیح کا صیغہ فعل امر {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلـٰی(۱)} یعنی حکم کی صورت میں آیا ہے۔ اب تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مکّی مدنی سورتوں کے زیر مطالعہ (چھٹے) گروپ میں دس مدنی سورتیں ہیں جن میں سے پانچ اَلْمُسَبِّحَات ہیں اور سورتوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ مدنی سورتوں کا سب سے بڑاگلدستہ ہے۔
ان مدنی سورتوں کے بارے میں تیسری اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہ سب سورتیں (سوائے سورۃ التغابن کے) آنحضورﷺ کے مدنی دور کے نصف آخر میں یعنی سن ۵ ہجری کے بعد نازل ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کی صفوں میں جوشِ جہاد‘ ذوقِ شہادت‘ جذبۂ انفاق وغیرہ کے حوالے سے بحیثیت مجموعی ضعف و اضمحلال کے آثار نمایاں ہورہے تھے ۔ اس کا مطلب ‘ معاذ اللہ ‘یہ ہرگز نہیں کہ ’’السابقون الاوّلون ‘‘ کے جذبے میں کوئی کمی آگئی تھی ‘بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ہجرت کے بعد ایمان لائے تھے اور وہ سب لوگ تربیت اور آزمائش و ابتلاء کے ان تمام مراحل سے نہیں گزرے تھے جن کا سامنا مکّی دور کے اہل ِایمان کر چکے تھے ۔چونکہ ابتدائی دور کے مسلمانوں کے مقابلے میں نئے شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ تھی‘ اس لیے جماعت کے اجتماعی کردار و عمل پر بھی ان ہی کا رنگ غالب تھا۔ ظاہر ہے اس رنگ کے ’’اوسط معیار‘‘ کو السابقون الاوّلون کے خصوصی معیار کے پیمانہ سے نہیں پرکھا جا سکتا تھا ۔
مسلمانوں کی صفوں میں مذکورہ ضعف کا ذکر سورۃ الانفال کی آیت ۶۶ میں {عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًاط} کے الفاظ میں بھی آیا ہے۔ آیات ۶۵‘۶۶ کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے تو ایک مؤمن دس کُفّار پر بھاری ہوسکتا تھا‘ لیکن اب چونکہ تم میں کمزور ی آ چکی ہے اس لیے اب ہم نے تمہارے مقابلے کے معیار میں بھی نرمی کردی ہے۔ چنانچہ اب اگر تم اپنے سے دوگنا کُفّار کا مقابلہ بہادری اور جواںمردی سے کرو گے تو ہم ان پر تم لوگوں کو فتح دیں گے۔ بہرحال مذکورہ کمزوری کے اثرات کے باعث ان سورتوں میں جابجا مسلمانوں کو جھنجوڑنے اور ان کی گرفت کرنے کا انداز ملتا ہے۔ اس حوالے سے سورۃ الصف کی دوسری آیت کا اسلوب بہت واضح ہے : {یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)} ’’ اے اہل ِایمان! کیا ہو گیا ہے تمہیں‘ کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟‘‘ زیر مطالعہ سورت یعنی سورۃ الحدید کی اس آیت کا انداز بھی بالکل ایسا ہی ہے : {وَمَالَـکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ج} (آیت ۸) ’’تمہیں کیا ہے‘ تم اللہ پر پختہ ایمان کیوں نہیں رکھتے؟‘‘ پھر سورۃ الحدید کی اس آیت کا لب و لہجہ بھی ملاحظہ کریں: {وَمَالَـکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ} (آیت۱۰) ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ؟‘‘ سورۃ الجمعہ کی آخری آیت کا یہ انداز بھی بہت سخت ہے : {وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَۃٍ اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْآ اِلَـیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًاط} ’’ جب انہوں نے دیکھا کسی کاروبار یا کسی اور دلچسپی کی چیز کو تو وہ اس کی طرف لپک گئے اور چھوڑ گئے آپ کو (اے نبیﷺ!) کھڑے ہوئے۔ ‘‘
اس سورت میں یقیناً روئے سخن منافقین کی طرف بھی ہے(ان سورتوں میں منافقت کے موضوع پر ایک مکمل سورت (سورۃ المنافقون) بھی موجود ہے اور پھر سورۃ الحدید میں منافقت کے مرض کی علامات سے لے کر تشخیص تک گویا پوری پتھالوجی بیان ہوئی ہے) لیکن مجموعی طو رپر اصل خطاب منافقین سے نہیں بلکہ ’’ضعفاء‘‘ سے ہے۔ یعنی ان میں ان کمزور مسلمانوں کو مخاطب کیا گیاہے جو ’’ہرچہ بادا باد‘‘ کے سے جذبے کے ساتھ ہر حالت اورہر قیمت پر اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنے سے معذور ہیں۔ چنانچہ منافقت یا منافقین کے معاملے میں ان سورتوں کا انداز سورۃ النساء اور سورۃ التوبہ جیسا نہیں ہے‘ کیونکہ ان دو سورتوں کی متعلقہ آیات میں اصل خطاب ہی منافقین سے ہے ‘جبکہ زیر مطالعہ سورتوں میں اگر کہیں مسلمانوں کی صفوں کے اندر موجود کمزوری کو موضوع بنایا گیا ہے تو وہاں اصل خطاب ضعفاء سے ہے نہ کہ منافقین سے۔
جہاں تک ایمان کی پختگی اور کمزوری کے حوالے سے اہل ِایمان کے درمیان انفرادی سطح پر فرق و تفاوت کا تعلق ہے تویہ ایک فطری بات ہے اور یہ فرق شروع سے تھا۔ جیسا کہ سورۃ التوبہ کی اس آیت میں بیان ہوا ہے :
{وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ} (آیت ۱۰۰)
’’اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘اور وہ جنہوں نے اُن کی پیروی کی نیکوکاری کے ساتھ ‘اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین درجات پر فائز اہل ایمان کے درمیان بھی فرق تھا۔ کچھ لوگ ’’السابقون الاوّلون ‘‘ تھے اور کچھ وہ تھے جو ان کے نقشِ قدم پر چلے رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ! (اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ التوبہ کی آیت ۱۰۰ کی تشریح۔) سورۃ التوبہ کی درج بالا آیت سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اہل ایمان کے درجات کے فرق کوسمجھنا اور ان کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے : ع ’’گر حفظ ِمراتب نہ کنی زندیقی!‘‘بہرحال جب تک اس فلسفے کو نہیں سمجھا جائے گا نہ ’’کمزور مسلمان‘‘ کی اصطلاح سمجھ میں آئے گی اور نہ ہی ان آیات کا مفہوم واضح ہو گا جن میں’’ضعفاء‘‘ یعنی کمزور مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔
’’حفظ ِمراتب ‘‘کا یہ فلسفہ آج کل ہم جیسے مسلمانوں کو ’’اہل ِایمان‘‘ کی صفوں میں جگہ دلانے کا جواز اور راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگ ’’نسلی مسلمان‘‘ ہیں۔یعنی ہم میں سے اکثر اس لیے مسلمان ہیں کہ ہم مسلمان والدین کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔اس میں ہمارے ارادے‘ اختیار یا انتخاب کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا عام مسلمان اپنے حالات اور ماحول کے مطابق اللہ‘ رسول‘ آخرت‘ نماز روزہ وغیرہ کا تعارف تو بچپن میں ہی سیکھ لیتا ہے‘لیکن ایمانِ حقیقی اور عمل کے اعتبار سے اس کا دامن خالی ہی رہتا ہے (اِلا ماشاء اللہ)۔ اس اعتبار سے آج ہم مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا تعلق اس ’’مسلمانی‘‘ سے ہے جس کا ذکر سورۃ الحجرات کی اس آیت میں ہوا ہے:
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰــکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط}(آیت ۱۴)
’’یہ بدو کہتے ہیں :ہم ایمان لے آئے ہیں۔ (اے نبیﷺ!) ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں(یعنی ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے) جبکہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ ‘‘
سورۃ الحجرات کے مطالعے کے دوران اس آیت کا پس منظر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال جس طرح اس آیت کے مخاطب لوگوں کی اکثریت نے حالات کا رخ دیکھ کر ’’حادثاتی‘‘ طور پر اسلام قبول کیا تھا‘ اسی طرح ہم بھی اپنی پیدائش کے ’’حادثے‘‘ کی وجہ سے مسلمان ہیں۔ ہم نے اسلام کو ایک موروثی نظریے کے طور پر توقبول کیا ہے‘لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اکثریت ایمان اور اسلام کے تقاضے پورے کرنے کی فکر سے بالکل ہی لاتعلق ہو چکی ہے (اِلا ماشاء اللہ)۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ایسے تمام لوگ حقیقی ایمان سے تہی دامن ہونے کے باوجود منافق نہیں‘اس لیے کہ وہ کسی کو دھوکہ دینے کے لیے اسلام نہیں لائے۔ چنانچہ ان سب لوگوں کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ ’’کمزور مسلمان‘‘ ہیں۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ سب مسلمان ’’بحیثیت مسلمان‘‘ برابر نہیں ہیں۔ ایمان کی پختگی اور عمل کے معیارسے ان کے اپنے اپنے درجات ہیں اور ان درجات کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جن لوگوں نے مسلمانوں کے درجات میں پائے جانے والے اس فرق کو نہیں سمجھا انہیں سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت کے بارے میں بھی مغالطہ ہوا ہے کہ اس میں منافقین کا تذکرہ ہے۔ حالانکہ اسی آیت میں آگے ان اسلام قبول کرنے والوں کو یہ ضمانت بھی دی گئی ہے : {وَاِنْ تُطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًاط} ’’اوراگر تم اللہ اور اس کے رسول ؐکی فرمانبرداری کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں وہ مسلمان ہی تھے ‘کیونکہ منافق کا توکوئی عمل قابل ِقبول ہے ہی نہیں۔بلاشبہ ان لوگوں کی صفوں میں منافق بھی تھے لیکن مذکورہ آیت میں خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اگرچہ دیکھا دیکھی مسلمان ہوئے تھے ‘لیکن اس میں ان کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔
آج ہماری غالب اکثریت بلاشبہ’’کمزور مسلمانوں‘‘ پر مشتمل ہے ‘اس لیے آج ہماری ہدایت کے لیے قرآن کا یہ حصّہ (سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم) بہت اہم ہے۔ آج کا مسلمان اگر ان دس سورتوں کو سمجھ لے تو اس کا یہ عمل ایسے ہو گا جیسے اس نے پورے قرآن کو سمجھ لیا ۔کیونکہ ان دس سورتوں میں پورے قرآن حکیم کا خلاصہ آگیا ہے۔ مثلاً منافقت اور منافقین کا تذکرہ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ خصوصاً سورۃ النساء ‘ سورۃ التوبہ اور سورئہ محمد میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ لیکن اس مجموعے میں شامل گیارہ آیات پر مشتمل ایک مختصر سی سورت یعنی سورۃ المنافقون میں اس پورے مضمون کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایمان کی بحث سے پورا قرآن بھرا پڑا ہے۔ دو تہائی قرآن مکّی سورتوں پر مشتمل ہے اور ان مکّی سورتوں میں تذکیر بآلا ء اللہ کے علاوہ توحید‘ رسالت اور آخرت کے موضوعات کے تحت ساری بحث ایمان سے ہی متعلق ہے ۔ اس قدر وسیع اور مفصل مضمون کو اس مجموعے کی سورۃ التغابن (۱۸ آیات) میں سمو دیا گیا ہے۔
بہرحال واقعہ یہ ہے کہ ان دس سورتوں میں پورے قرآن کے مضامین کا عطر کشید کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے چھ سورتوں (سورۃ الحدید‘ سورۃ الصف‘ سورۃ الجمعہ‘ سورۃ المنافقون ‘ سورۃ التغابن اور سورۃ التحریم) کو ہم نے اپنے منتخب نصاب میں شامل کیا ہے۔ جہاں تک سورۃ الحدید کے تعارف کا تعلق ہے ‘یہ بہت جامع اور بہت بلند مرتبہ سورت ہے۔ اَلْمُسَبِّحَات میں ممتاز مقام کی وجہ سے اسے اُمُّ الْمُسَبِّحَات کہا جاتا ہے۔ ہمارے منتخب نصاب کا حصّہ ششم اسی سورت کے ۷ دروس پر مشتمل ہے۔ میں اکثر تحدیث ِنعمت کے طور پر ذکر کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اس سورت کا خصوصی فہم اور انشراح عطا فرمایا ہے‘ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے مجھے یہ سورت عطا فرما دی ہے ۔ پچھلی نصف صدی سے اس پر میراغور و فکر جاری ہے اور میں نے اس پر بہت طویل اور مفصل دروس بھی دیے ہیں۔ بہرحال اس مضمون کے لیے یہ سطور زیادہ تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ اس سورت پر میرے سلسلہ وار دروس کی آڈیو‘ ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ مفصل دروس کی ریکارڈنگ ۱۵ گھنٹے پر مشتمل ہے‘ جبکہ نسبتاً مختصر دروس کا دورانیہ چھ گھنٹے ہے۔ مزید تفصیل جاننے کے خواہش مند حضرات میرے ان دروس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔(محترم ڈاکٹر صاحبؒ کے متذکرہ بالا دروس کی ترتیب و تدوین کے بعد انہیں ۳۶۸ صفحات پر مشتمل کتاب بعنوان ’’اُمّ المُسَبِّحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح‘‘ کی صورت میں مکتبہ خدام القرآن لاہور نے شائع کیا ہے۔)

آیات ۱ تا ۶

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱)لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ۚ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۲)ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ (۳)ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۭ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْھَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْھَا ۭ وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۴)لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (۵)یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ ۭ وَھُوَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۶)

آیت ۱ {سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج} ’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔‘‘
ان سورتوں (اَلْمُسَبِّحَات) کا یہ مضمون بہت اہم ہے۔ آگے چل کر سورۃ الحشر اور سورۃ الصف میں یہ آیت ’’مَا فِیْ‘‘ کے اضافے کے ساتھ اس طرح آئے گی : {سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج} اور پھر سورۃ الجمعہ اور سورۃ التغابن میں مزید پُرزور انداز میں فعل مضارع کے ساتھ یوں آئے گا: {یُسَبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ}۔ کائنات کی ہر چیز کس طرح اللہ کی تسبیح کرتی ہے؟ اس کی ایک صورت تو ’’تسبیح حالی‘‘ کی ہے جو ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ ہر چیز اپنی زبانِ حال سے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ اس کی مثال ایک تصویر ہے جو اپنے مصور کے کمالِ فن یا عدمِ مہارت پر دلالت کرتی ہے ۔چنانچہ جس طرح ایک خوبصورت تصویر زبانِ حال سے اپنے مصور کی تعریف کرتی نظر آتی ہے اسی طرح اس کائنات کاذرّہ ذرّہ اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ میرا پیدا کرنے والا‘ میرا صانع‘ میرا خالق ‘ میرا مصور ہر عیب سے پاک‘ ہر نقص سے بالا اور ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے‘ اُس کے علم‘ اُس کی قدرت اور اُس کی حکمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری صورت ’’زبانی تسبیح‘‘ کی ہے جو کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورئہ حٰمٓ السَّجدۃ کی آیات ۲۰ اور ۲۱ میں قیامت کے اس منظر کا ذکر ہے جب انسانوں کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ اس پر وہ لوگ حیرت سے اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ جواب میں ان کی کھالیں کہیں گی : {اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ}(آیت ۲۱) کہ آج اُس اللہ نے ہمیں بھی زبان دے دی ہے جس نے ہر شے کو زبان دی ہے۔اس کے علاوہ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنی تسبیح کے لیے ایک طریقہ تفویض کر رکھا ہے :
{تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ ط وَاِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ط} (آیت ۴۴)
’’اُسی کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور (وہ تمام مخلوق بھی ) جو ان میں ہے۔اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اُس کی حمد کے ساتھ ‘لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔‘‘
بہرحال کائنات کی ہر چیز اپنی زبانِ حال سے بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اللہ کی عطا کردہ اپنی مخصوص زبان سے بھی اس کی تعریف و توصیف میں مشغول و مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس کی تسبیح کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔
{وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۱)} ’’اور وہ بہت زبردست ہے ‘کمال حکمت والا۔‘‘
ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے یہ دو اسماء اکٹھے ایک ساتھ بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اسمائے حسنیٰ کا یہ جوڑا معنوی اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ العزیز وہ ہستی ہے جس کا اختیار مطلق ہو ۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی سطح پرمطلق العنانیت کا تجربہ ہمیشہ بہت تلخ رہا ہے۔ عملی طو ر پر ہمارے ہاں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں مطلق العنانیت آتی ہے‘ وہاں اختیارات کا ناجائز استعمال ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ پولیٹیکل سائنس کاتو اس حوالے سے آزمودہ فارمولا یہ ہے:
" Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."

چنانچہ جب کسی ملک کا آئین بنایا جاتا ہے اور معاشرے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں تو متعلقہ ماہرین کی ساری کوشش اختیارات کو مشروط کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ایسی صاحب ِاختیار ہستی ہے جس کے اختیارات کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات کسی شرط سے مشروط ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ’’الحکیم‘‘ بھی ہے۔ وہ اپنے مطلق اختیارات میں خود ہی اپنی حکمت سے توازن قائم رکھتا ہے۔ چنانچہ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ زبردست ہے‘ وہ اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے‘ اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘لیکن اس کا کوئی کام‘ اس کا کوئی عمل اور اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
آیت۲ {لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج}’’اُسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔‘‘
آیت کے آغاز میں جو حرفِ جار ’’ل‘‘ آیا ہے یہ تملیک کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور استحقاق کے لیے بھی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی de factoبھی اُسی کی ہے اور de jureبھی --- اُسی کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے۔ اُسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک ہو اور بالفعل بھی وہی مالک ہے۔
اس سورئہ مبارکہ میں دین کا ذکر خصوصی طور پر بطور ایک نظام کے کیا گیا ہے اور یہ نظام صرف حکومت ِالٰہیہ کے زیر سایہ ہی قائم ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات بار بار نمایاں کی گئی ہیں جن کا تعلق طاقت‘ حکومت‘ قدرت اور اختیار سے ہے۔
{ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(۲)}’’وہی زندہ رکھتا ہے ‘وہی مارتا ہے۔اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
اس سورئہ مبارکہ کی پہلی چھ آیات پورے قرآن حکیم میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا ذکر فلسفے اور منطق کی سطح پر جامع ترین انداز میں ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ موقع ایسی تفصیلات میں جانے کا نہیں۔
آیت ۳{ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج} ’’وہی اوّل ہے ‘وہی آخر ہے‘ وہی ظاہر ہے ‘وہی باطن ہے۔‘‘
ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقیناً مشکل ہے کہ ہر زمان‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورتِ حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
اس آیت کے بارے میں امام رازیؒ کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں: اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُھیبٌ ’’جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘بہت گہرا اور بڑاپُرہیبت مقام ہے! ‘‘اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ’’ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را!‘‘اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آ گیا ہے !
صوفیاء نے ’’وحدت الوجود‘‘ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ’’وحدت الوجود ‘‘کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ’’ہمہ اوست‘‘ کا تصوّر گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ’’وحدت الوجود‘‘ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم(۱۸۹۶۔۱۹۸۴ء) سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے ۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ’’وحدت الوجود‘‘ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہو گئے ہیں ‘لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کر سکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں ۔تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورۃ الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ’’حادث‘‘ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اُس وقت کون موجود تھا؟ ظاہر ہے اللہ اُس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اللہ سے! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ {کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ (۲۶)}(الرحمٰن) ’’جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔‘‘ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اُس وقت کون موجود ہو گا؟ {وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (۲۷)} (الرحمٰن) ’’اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔‘‘ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اُس وقت بھی موجود ہو گا۔ تو پھر ’’آخر‘‘کون ہوا؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اوّل اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔
اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کر دیا ہے۔ حضورﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :
((اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْءٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْءٌ))(صحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع)
’’اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرشِ عظیم کے مالک! اے ہمارے رب اور ہر چیز کے پروردگار! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر چیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ ٔ قدرت میں ہے۔اے اللہ !تُو ہی اوّل ہے‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تُو ہی آخر ہے ‘تیرے بعد کوئی چیز نہ ہو گی ‘اور تُو ہی ظاہر ہے ‘تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں‘ اور تُو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔‘‘
{وَہُوَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ(۳)} ’’اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرّہ بھر چیز بھی اُس سے پوشیدہ کیسے ہو سکتی ہے! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورئہ قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں: {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶)}’’اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اُس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر (عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ) ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اُس کے علم ِکل کا بیان ہے کہ اُسے ہر چیز کا علم ہے (وَھُوَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ) ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن مجیدمیں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔
آیت۴{ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ط} ’’وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں‘پھر وہ متمکن ہوا عرش پر۔‘‘
{یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَاط} ’’وہ جانتا ہے جو کچھ داخل ہوتا ہے زمین میں اور جو کچھ نکلتا ہے اس سے‘ اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ چڑھتا ہے اس میں۔‘‘
بالکل یہی الفاظ اس سے پہلے سورئہ سبا کی آیت ۲ میں بھی آ چکے ہیں۔ اس فقرے میں بہت سی چیزوں کا احاطہ ہو گیا‘ مثلاً زمین میں پانی جذب ہوتاہے‘ مختلف قسم کے بیج بوئے جاتے ہیں‘ مُردے دفن ہوتے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور فرشتے احکامِ الٰہی لے کر اُترتے ہیں۔ آسمان کی طر ف چڑھنے کی مثال بخارات کی ہے‘ اور پھر فرشتے بھی فوت ہونے والے انسانوں کی ارواح اور دنیا کے حادثات و واقعات کی رپورٹس لے کر اوپر جاتے ہیں۔
{وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۴)}’’اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
جو کچھ اچھے یا بُرے اعمال تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ بذاتِ خود ان کا چشم دید گواہ ہے۔
آیت ۵{ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط} ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اُسی کی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ’’بادشاہی‘‘ کے بارے میں تکرار و تاکید کا خصوصی اسلوب ملاحظہ ہو۔ آیت۲ کے الفاظ ہوبہویہاں پھر دہرائے گئے ہیں۔
اس مضمون کے حوالے سے یہ نکتہ بھی سمجھنے کا ہے کہ جس طرح اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں اسی طرح اس کے علاوہ کوئی اور حاکم و مقتدر بھی نہیں۔چنانچہ جس طرح اللہ کو اکیلے معبود کے طور پر ماننا ضروری ہے‘ اسی طرح توحید کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ کی زمین پر صرف اُسی کی بادشاہی قائم ہو اور اُس کے تمام احکام عملاً نافذ ہوں۔
{ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(۵)} ’’اور تمام معاملات اُسی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔‘‘
آیت ۶{یُوْلِجُ الَّـیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّـیْلِ ط} ’’وہ پرو لاتا ہے رات کو دن میں اور پرولاتا ہے دن کو رات میں۔‘‘
یہ مضمون ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے۔
{وَہُوَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۶)} ’’اور وہ جانتا ہے اس کو بھی جو سینوں کے اندر ہے۔‘‘
نوٹ کیجیے! ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ ہوا ہے ‘ پہلے فرمایا: {وَہُوَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ(۳)} پھر فرمایا: {یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا…} (آیت۴) اور اب یہاں اس آیت میں بتایا گیا کہ وہ سینوں کے رازوں کا بھی علم رکھتا ہے۔
ان چھ ابتدائی آیات پر مشتمل یہ پُرشکوہ تمہید گویا ایک اعلان ہے کہ خبردار! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم یہ کس کا کلام پڑھ رہے ہو‘ کس سے ہم کلام ہو رہے ہو! ان تمہیدی آیات میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت ‘ اُس کی قدرت‘ اُس کی بادشاہی اور خصوصی طور پر اُس کے علم کا تعارف ہے۔ یہ گویا توحید فی العقیدہ کا بیان ہے۔ توحید کا یہ عقیدہ عملی میدان میں بندوں سے کیا تقاضا کرتا ہے اس کا ذکر اب آگے آ رہا ہے۔ چنانچہ اگلی آیات میں توحید کے دو بنیادی تقاضے بتائے گئے ہیں۔

آیات ۷ تا ۱۱

اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیہِ ۭ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ (۷) وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۚ وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بَرَبِّکُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (۸) ھُوَ الَّذیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللہَ بِکُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (۹) وَمَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۱۰) مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(۱۱)
آیت ۷{اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط} ’’ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسول ؐپرا ور خرچ کرو اُن سب میں سے جن میں اُس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔‘‘
خلافت کے حوالے سے انسان کو سب سے زیادہ اختیار تو اپنے جسم پر عطا کیا گیا ہے۔ اس میں اس کے مختلف اعضاء ہیں‘ طاقت ِ جسمانی‘ طلاقت ِلسانی ‘ ذہانت و فطانت اور دوسری بہت سی صلاحیتیں ہیں ۔پھر مال و دولت ‘ اولاد اور دوسری بے شمار نعمتیں ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ کی رضا کے لیے اس کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہے۔ واضح رہے کہ ’’نفق‘‘ کالفظ مال و دولت خرچ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور جان خرچ کردینے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ نَفَقَتِ الدَّرَاھِم کے معنی ہیں رقم ختم ہو گئی اور نَفَقَ الْفَرس کے معنی ہیں گھوڑا مر گیا۔ یہاں یہ آیت پڑھتے ہوئے ضروری ہے کہ سورۃ الحجرات کی اس آیت کو بھی ذہن میں تازہ کر لیں:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)}
’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ‘پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچّے ہیں۔‘‘
ان دونوں آیات میں د و دومطالبات آئے ہیں ‘ پہلا مطالبہ دونوں میں مشترک ہے یعنی {اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ} کہ ایمان لائو اللہ اور اُس کے رسولؐ پر‘ جیساکہ ا یما ن لانے کا حق ہے ۔جبکہ دوسرے مطالبے کے حوالے سے سورۃ الحجرات کی مذکورہ بالا آیت میںجہاد کا ذکر ہے کہ اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کرو‘اور زیر مطالعہ آیت میں ہر اُس چیز کے انفاق کا حکم ہے جس پر انسان کو خلیفہ بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں انفاقِ مال بھی شامل ہے اور بذلِ نفس یعنی انفاقِ جان بھی۔
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ(۷)} ’’پس جولوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے (اپنے مال و جان کو ) خرچ کیا ‘ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
جس خوش نصیب نے مذکورہ دونوں مطالبات پورے کر دیے‘ یعنی اسے یقین والا ایمان بھی نصیب ہو گیا اور اس نے اپنی زیر ِملکیت ہر چیز کو اللہ کی رضا کے لیے پیش بھی کر دیا تو اس کے گویاوارے نیارے ہو گئے۔وہ بہت بڑے اجر کا مستحق ٹھہرا------ مضمون کے حوالے سے یہاں آیات کے ربط و نظم کی خوبصورتی اور مندرجات کی ترتیب ملاحظہ کیجیے کہ پہلے ایک آیت میں دو مطالبات کا ذکر کر کے ان کے بارے میں ترغیب دی گئی ہے۔ اب اس کے بعد ان میں سے ہر مطالبے سے متعلق دو دو آیات اس طرح آ رہی ہیں کہ پہلی آیت میں زجر یعنی ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے‘ جبکہ دوسری میں راہنمائی اور ترغیب دی گئی ہے۔
آیت ۸{وَمَالَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ج } ’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نہیں ایمان رکھتے اللہ پر!‘‘
یہ پہلے مطالبے یعنی ’’ایمان‘‘ سے متعلق گویا زجر و ملامت اور ایک طرح سے تنبیہہ کا انداز ہے۔
{وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ} ’’جبکہ رسول (محمدﷺ) تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم ایمان رکھو اپنے رب پر‘‘
ہمارے رسولؐ ابھی تمہارے مابین موجودہیں‘ اور وہ تم لوگوں کو براہِ راست ایمان کی دعوت دے رہے ہیں۔
{وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ} ’’اور دیکھو! وہ تم سے عہد بھی لے چکا ہے‘‘
اگر تم ایمان کے دعوے دار ہو تو ذرا غور کرو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کتنے عہد کر رکھے ہیں۔ ایک عہد تو وہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے تم سے عالم ِارواح میں لیا تھا: {اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ} ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ‘‘ اور تم سب نے اس سوال کے جواب میں {بَلٰی} کہا تھا (بحوالہ الاعراف:۱۷۲) ۔ اس کے بعد تم {سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا} (بحوالہ البقرۃ:۲۸۵ و المائدۃ:۷) کا عہد بھی کر چکے ہو۔اس عہد ِاطاعت کے علاوہ تم نے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو اللہ کے ہاتھ بیچنے کا عہد بھی کر رکھا ہے : {اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ} (التوبۃ:۱۱۱) ’’یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنّت ہے‘‘۔توتم لوگ اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے اپنے وعدوں اور معاہدوں کا تو لحاظ کرو:
{ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۸)} ’’اگر تم حقیقتاً مؤمن ہو!‘‘
یہ ڈانٹ سننے کے بعد ہر بندئہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنا جائزہ لے کہ کیا اس کے دل میں حقیقی ایمان موجود ہے یا کچھ خلا سا ہے؟ الحمد لِلہ ہم سب مسلمان تو ہیں ‘کسی نہ کسی درجے میں نماز روزہ وغیرہ کا تقاضا بھی پورا کر رہے ہیں‘ لیکن اللہ کرے ہمیں احساس ہوجائے اور ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ اسلام کے ساتھ ساتھ کیا ابھی تک ہمیں حقیقی ایمان بھی نصیب ہوا ہے یا نہیں! اور اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ واقعی اس کے دل میں اس پہلو سے ابھی خلا موجود ہے تو پھر اسے یہ معلوم کرنے کے لیے بھی تگ و دو کرنی چاہیے کہ وہ یقین والا ایمان کہاں سے ملے گا۔ اگلی آیت میں اس حوالے سے راہنمائی فرمائی جا رہی ہے۔
آیت ۹{ھُوَ الَّذِیْ یُـنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖ اٰیٰتٍ بَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط} ’’وہی توہے جو اپنے بندے (ﷺ) پر یہ آیاتِ بینات نازل کر رہا ہے تاکہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف۔‘‘
یعنی یقین والے ایمان کا منبع و سرچشمہ اللہ کی یہ کتاب ہے ۔اگر تم اس کتاب کو سمجھ کر پڑھو گے ‘ اس پر فکرو تدبر کرو گے تو تمہارے اندر ایک ہلچل برپا ہو جائے گی ‘تمہاری روح کے تاروں میں خود بخود سرسراہٹ پیدا ہو گی اور تم خود محسوس کرو گے ۔ بقولِ اقبال ؎
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بُوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے ‘ تشنہ ٔمضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے!
دراصل ایمان تمہاری روح کے اندر خفتہ (dormant)حالت میں پہلے سے موجود ہے‘ بس اسے فعال (active) کرنے کی ضرورت ہے۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان کو فعال کرنے کا نسخہ پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے ‘یعنی آیاتِ قرآنیہ۔
{وَاِنَّ اللہَ بِکُمْ لَـرَئُ وْ فٌ رَّحِیْمٌ(۹)}’’اور یقیناً اللہ تمہارے حق میں بہت رئوف اور رحیم ہے۔‘‘
وہ تمہارے حال پر نہایت ہی شفیق اور مہربان ہے۔
اس آیت میں واضح طور پر بتا دیاگیا کہ ایمانِ حقیقی کا منبع اور سرچشمہ قرآن ہے۔ اس سے پہلے سورۃ الشوریٰ میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ خود حضورﷺکو بھی ایمان قرآن مجید ہی سے ملا :
{وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰـہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاط  وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۵۲)}
’’اور (اے نبیﷺ!) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے۔آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے‘ لیکن اس (قرآن) کو ہم نے ایسا نُور بنایا ہے جس کے ذریعے سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔اور آپ یقیناً سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
یعنی اس سے پہلے نہ توآپؐ تورات سے واقف تھے اور نہ ہی آپؐ انجیل کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔ آپ تو اُمی تھے۔لیکن جب ہم نے قرآن کریم کو نُور بنا کر آپؐ کے دل پر اُتارا تو اس سے آپؐ کا باطن نُورِ ایمان سے جگمگا اٹھا اور آپؐ نوعِ انسانی کے لیے روشنی کامینار بن گئے۔ اب آپؐ لوگوں کو ہدایت دیں گے اور انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائیں گے۔اسی مضمون کو مولانا ظفر علی خان نے بڑی خوبصورتی اور سادگی سے یوں بیان کیا ہے : ؎
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں
ان دو آیات میں پہلے مطالبے یعنی ’’ایمان‘‘ سے متعلق پہلے ڈانٹ پلائی گئی کہ تمہارا ایمان پختہ کیوں نہیں ہے؟ یہ ڈِھل مل ایمان لیے کیوں پھر رہے ہو جس میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھے ہوئے ہیں؟اگر تمہارے ایمان میں کمزوری ہے تو اس کمزوری کو دورکیوں نہیں کرتے ہو؟کمزور ایمان کے ساتھ گزارا کیوں کررہے ہو؟ پھردوسری آیت میں راہنمائی بھی کردی گئی کہ ایمان کی کمزوری کودور کرنے اور حقیقی ایمان کے حصول کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرو! قرآن کا یہی مطالبہ ہم سے بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لیجیے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے نہ تو قرآن دل میں اترتا ہے اور نہ ہی اس سے جذبے کو تحریک ملتی ہے ۔ ترجمہ پڑھنے سے آپ کچھ آیات کا مفہوم تو سمجھ لیں گے اور کچھ معلومات بھی آپ کو حاصل ہو جائیں گی‘ مگر قرآن آپ کے دل کے تاروں کو چھوئے گا نہیں ‘اور نہ ہی اس کی تاثیر آپ کی روح تک پہنچے گی۔ لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی روح کو فیوضِ ملکوتی سے سیراب اور آپ کے دل کو نُورِ ایمانی سے منورکرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرآن کو اس کی زبان میں پڑھیں اور سمجھیں۔ بقول اقبال : ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف!
ظاہر ہے کسی کے ضمیر پر قرآن کا نزول تبھی ممکن ہے جب وہ قرآن کی زبان یعنی عربی سے واقف ہو گا اور قرآن کے الفاظ اور اس کی عبارت کو براہِ راست سمجھے گا۔ اس کے لیے وہ پڑھے لکھے حضرات جو عربی زبان سے نابلد ہیں خصوصی طو رپر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک علوم و فنون سیکھتے رہے لیکن قرآن کی زبان سیکھنے کے لیے انہوں نے کوئی منصوبہ بندی اور کوئی کوشش نہ کی۔ ایسے تمام حضرات کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک سال اس کام کے لیے ضرور وقف کریں اور کم از کم اس حد تک عربی زبان ضرور سیکھیں کہ قرآن مبین کو پڑھتے ہوئے انہیں اس کی آیاتِ بینات کا مفہوم تو معلوم ہو۔ (خواہش مند حضرات اس مقصد کے لیے قرآن اکیڈمی کے تحت چلنے والے رجوع الی القرآن کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔)----- یہ تو تھی توحید کے پہلے مطالبے (ایمان) سے متعلق ڈانٹ ڈپٹ اور راہنمائی ۔اور اب دوسرے مطالبے سے متعلق ڈانٹ:
آیت ۱۰{وَمَالَـکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلِلہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط}’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘ جبکہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی وراثت!‘‘
یہ جو تم بڑے بڑے محل تعمیر کر رہے ہو اور فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگاتے چلے جا رہے ہو‘ ان سے آخر کب تک استفادہ کرو گے؟ تم تو آج ہو‘کل نہیں ہو گے۔ تمہارے بعد تمہاری اولاد میں سے بھی جو لوگ ان جائیدادوں کے وارث بنیں گے وہ بھی اپنے وقت پر چلے جائیں گے۔ پھر جو اُن کے وارث بنیں گے وہ بھی نہیں رہیں گے۔ بالآخر تمہارے اس سب کچھ کا اور پوری کائنات کا حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔تو جب یہ سب کچھ تم نے اِدھر ہی چھوڑ کر چلے جانا ہے تو پھر غیر ضروری دولت اکٹھی کرنے میں کیوں وقت برباد کر رہے ہو؟ اور کیوں اسے سینت سینت کر رکھ رہے ہو؟ واضح رہے کہ انفاق سے مراد یہاں انفاقِ مال بھی ہے اور بذلِ نفس (جان کھپانا) بھی۔ یہ نکتہ قبل ازیں آیت ۷ کے مطالعے کے دوران بھی زیر بحث آیا تھا اور اب اگلے فقرے میں مزید واضح ہو جائے گا :
{لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَـبْلِ الْفَتْحِ وَقٰــتَلَ ط} ’’تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے انفاق کیا اور قتال کیا فتح سے پہلے وہ (فتح کے بعد انفاق اور قتال کرنے والوں کے) برابر نہیں ہیں۔‘‘
وضاحت کے لیے یہاں انفاق اور قتال کا ذکر الگ الگ آ گیا ہے۔ یعنی ’انفاق‘ مال خرچ کرنے کے لیے اور ’قتال‘ جان کھپانے کے لیے ۔ چنانچہ یہاں واضح کر دیا گیا کہ آیت۷ میں جس انفاق کا ذکر ہوا تھا اس سے مال و جان دونوں کا انفاق مراد تھا اور ظاہر ہے انفاقِ جان کا سب سے اہم موقع تو قتال ہی ہے۔ میدانِ جنگ سے غازی بن کر لوٹنے کا انحصار تو حالات اور قسمت پر ہے ‘لیکن میدانِ کارزار میں اترنے کا مطلب تو بہرحال یہی ہوتاہے کہ اس مردِ مجاہد نے اپنی نقد ِجان ہتھیلی پر رکھ کر قربانی کے لیے پیش کر دی۔
اس آیت میں خاص بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ِایمان جنہوں نے ابتدائی دور میں اس وقت قربانیاں دیں جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی ‘ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ اور بعد کے مسلمان جنہوں نے یہی اعمال بعد میں سرانجام دیے‘ ثواب و مرتبہ میں برابر نہیں۔
{اُولٰٓـئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰــتَلُوْاط} ’’ان لوگوںکا درجہ بہت بلند ہے ان کے مقابلے میں جنہوں نے انفاق اور قتال کیا فتح کے بعد۔‘‘
{وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ط وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۰)} ’’اگرچہ ان سب سے اللہ نے بہت اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
حضورﷺ کی سربراہی میں کفر و باطل سے جنگ میں پہلی واضح فتح تو صلح حدیبیہ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے خود فتح مبین قرار دیا : {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (۱)} (الفتح)۔ یہ فتح مبین مسلمانوں کو ۶ ہجری میں عطا ہوئی جبکہ ظاہری فیصلہ کن فتح انہیں ۸ ہجری میں فتح مکّہ کی صورت میں حاصل ہوئی۔ چنانچہ اس آیت میں فتح کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سورۃ الحدید کم از کم ۶ ہجری یعنی صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔
اب سنیے ‘کھلے اور بیدار دل کے ساتھ ایک اہم پکار! ذرا دھیان سے سنیے!میرا خالق‘ آپ کا خالق‘ میر۱ مالک‘آپ کا مالک اور پوری کائنات کا مالک کیاندا کر رہا ہے ؟
آیت۱۱{مَنْ ذَا الَّذِیْ یُـقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا}’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرضِ حسنہ ؟‘‘
{فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَــہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(۱۱)}’’ کہ وہ اس کے لیے اسے بڑھاتا رہے اور اُس کے لیے بڑا باعزّت اجر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور بھلا کون اجر دے سکتا ہے؟ایسا منافع اور بھلا کہاں سے مل سکتا ہے؟ چنانچہ اے اہل ایمان ! آگے بڑھو ! لبیک کہو اپنے رب کی اس پکار پر! اور اپنا مال اور اپنا وقت قربان کر دو اس کی رضا کے لیے! اپنی صلاحیتیں اور اپنی جان کھپا دو اُس کی راہ میں!
یہاں پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر سے ذہن نشین کر لیجیے کہ انفاقِ مال اور انفاقِ جان ایک اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔ مال اور جان کے باہمی تعلق کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک شخص اپنی جان‘ یعنی جسمانی قوت‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کی مدد سے مال کماتا ہے۔ پھر اپنے اس مال سے ایک طرف وہ اپنی جان کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اسی کی مدد سے وہ دوسروں کی قوت‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کو خریدنے کی استعداد بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی مہلت ِزندگی یعنی ’’وقت‘‘ بھی اُس کی دولت ہے جس کے ذریعے سے وہ مال کماتا ہے۔ چنانچہ عام طو رپر کہا جاتا ہے :time is money کہ وقت اصل دولت ہے ۔ گویاانسان کی جان‘ اُس کا مال اور وقت باہم یوں متعلق و مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے انفاق میں عملی طور پر باقی دو چیزوں کا انفاق بھی شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں جس انفاق کی بات ہو رہی ہے اس میں آپ کا مال‘ آپ کا وقت‘ آپ کی جسمانی قوت‘ ذہانت‘ فطانت‘ جان وغیرہ سب شامل ہیں۔
اب اگلی آیات میں روزِ محشر کے اس مرحلے کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے جب منافقین کو چھانٹ کر سچّے اہل ِ ایمان سے الگ کر دیا جائے گا۔ اس مرحلے کو ہمارے ہاں عموماً’’پُل صراط‘‘ کا مرحلہ کہاجاتا ہے۔ میدانِ حشر کا یہ نقشہ ذہن میں رکھیے کہ وہاں مختلف مواقع پر مختلف قسم کے لوگوں کی چھانٹی ہوتی چلی جائے گی۔ اس چھانٹی کے عمل کو سمجھنے کے لیے بجری بنانے والے کرشرز (crushers) میں لگی چھلنیوں کی مثال ذہن میں رکھیے ۔ جس طرح ان مشینوں میں لگی مختلف قسم کی چھلنیاں مختلف سائز کے پتھروں کو الگ کرتی چلی جاتی ہیں بالکل اسی طرح میدانِ محشر میں مختلف مراحل پر مختلف قسم کے انسان بھی اپنے اعتقادات و اعمال کی بنیاد پر الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ چنانچہ سب سے پہلی چھانٹی میں تمام کُفّار و مشرکین کو الگ کر لیا جائے گا۔ پھر کسی مرحلے پر ایمان کے دعوے داروں میں سے سچّے مؤمنین اور منافقین کو الگ الگ کرنے کے لیے چھانٹی کی جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کا نقشہ آئندہ آیات میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس چھانٹی کے لیے تمام مسلمانوں کو گھپ اندھیرے میں پُل صراط پر سے گزرنا ہو گا جس کے نیچے جہنّم بھڑک رہی ہوگی۔ جن لوگوںکے دلوں میں سچا ایمان تھا اور انہوں نے ایمان کی حالت میں نیک اعمال بھی کیے تھے ‘ان کے قلوب اور داہنے ہاتھوںسے اُس وقت نُور پھوٹ رہا ہو گا اور وہ اس روشنی میں راستہ پار کر کے جنّت میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن جو لوگ دنیا میں سچّے ایمان سے محروم رہے اور اعمالِ صالحہ کی پونجی بھی ان کے پاس نہیں ہو گی‘وہ خواہ دنیا میں مسلمانوں ہی کے ساتھ شریک رہے ہوں اور خواہ وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے قائدین بن کر رہے ہوں اُس وقت وہ روشنی سے محروم کر دیے جائیں گے ۔ اس حالت میں وہ ٹھوکریں کھاتے جہنّم میں گرتے چلے جائیں گے۔آئندہ آیات میں اس مرحلے کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کے بعد روزِ محشر کے اس مرحلے کی ایک جھلک سورۃ التحریم کی آیت ۸ میں بھی دکھائی گئی ہے۔