دین میں حدیث و سُنّت کا مقامعبدالرشید عراقیحدیث کی تعریف
بمصطفےٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حدیث نبویﷺ کا معنی اور مطلب کیا ہے۔ حدیث کے معنی لغت کی کتابوں میں بات چیت اور گفتگو کے آئے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ(۵۰)} (المرسلات)
’’اب اس (قرآن) کے بعد یہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟‘‘
شریعت ِاسلامیہ میں آنحضرتﷺ کے ارشادات ‘ افعال اور تقریر کے مجموعے کا نام سُنّت اور حدیث ہے۔ سُنّت کو کبھی حدیث اور حدیث کو کبھی سُنّت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ علمائے اسلام نے سُنّت کی تعریف اس طرح فرمائی ہے :
اَلسُّنَّۃُ تُطْلَقُ عَلٰی قَوْلِ الرَّسُوْلِ وَفِعْلِہٖ وَسُکُوْتِہٖ وَعَلٰی اَقْوَالِ الصَّحَابَۃِ وَاَفْعَالِـھِمْ(۱)
’’سُنّت کا اطلاق رسول اللہﷺ کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اقوال وا فعال پر ہوتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں متعدد جگہ پر حدیث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’النساء۴:۱۴۰‘ الانعام۶:۸۶‘ الاعراف۷:۱۸۵‘ الکہف۱۸:۶‘ طٰہ۲۰:۹‘ لقمان۳۱:۶‘ الاحزاب۳۳:۵۳‘الزمر۳۹:۲۳‘الجاثیہ۴۵:۶‘الذاریات۵۱:۲۴‘الطور۵۲:۳۴‘ النجم۵۳:۵۹‘الواقعہ۵۶:۸۱‘القلم۶۸:۴۴‘المرسلات۷۷:۵۰‘ النازعات۷۹:۱۵‘ البروج۸۵:۱۷‘ الغاشیہ۸۸:۱‘‘ (۲)
قرآن مجید کے لیے’’اَحْسَنَ الْحَدِیْث‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں:
{اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ} (الزمر:۲۳)
’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ۔‘‘
آنحضرتﷺ کو اس دنیا میں مبلغ و معلم بنا کر بھیجا گیا تھا اور آپﷺ کودین الٰہی اور مکمل کتاب (قرآن مجید) عطا کی گئی تھی۔ اس مقدّس کتاب کو آپﷺ نے لوگوں کو سنایا‘ سمجھایا‘ لکھوایا اور اس پر کامل طو رپر عمل کر کے دکھایا۔ گویا آپﷺ قرآن مجید کی عملی تصویر تھے۔ چنانچہ حدیث کی یہ تعریف کی گئی ہے :
’’رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال اور ایسے واقعات جوآپﷺ کے سامنے پیش آئے اور اس میں کوئی ردّوبدل نہیں کیا گیا(جسے اصطلاحاً تقریر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)۔‘‘
ڈاکٹرعبدالرئوف ظفر لکھتے ہیں:
’’شرعی اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال و اعمال و تقریر جن کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف ہو۔ تقریر سے مراد محدثین کے ہاں کسی آدمی کا قول یا فعل جو آنحضرتﷺ کے سامنے لایاگیا ہو اورآپﷺ نے اس کی تصحیح یا تغلیط نہ فرمائی ہو ۔گویا آپﷺ کی خاموشی رضامندی ہے۔ یہ بھی حدیث میں داخل ہے۔ ‘‘(۳)
مولانا عبدالمالک مجاہد مدیر دارالسلام لکھتے ہیں :
’’عربی زبان میں حدیث کا لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر یہ لفظ گفتگو‘ نئی بات‘ قابل ذکر واقعہ ‘نئی چیز یا کلام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر جب حدیث کا لفظ ایک اصطلاح کے بطور استعمال ہو تو اس سے مراد رسول کریمﷺ کے اقوال و افعال اور اعمال و احوال ہوتے ہیں‘ یا یوں کہیے کہ رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی اور رسالت سے متعلق (راویوں‘ صحابہ کرام اور ان کے فیض یافتگان کے ذریعے سے ) جو کچھ ہم تک پہنچا ہے وہ حدیث کہلاتا ہے۔ حدیث کو دیگر اصطلاحات میں سُنّت‘ خبر اور اثر بھی کہتے ہیں۔ اور یہ تمام ذخیرئہ حدیث قولی‘ فعلی‘ تقریری نوعیت سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘ (۴)
امام حدیث مولانا ابوالعلی محمد عبدالرحمٰن بن حافظ عبدالرحیم مبارک پور رحمہ اللہ (م۱۳۵۳ھ) نے مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں علامہ محمد بن یوسف بن علی الکرمانی (م۷۸۶ھ) کا یہ قول نقل کیا ہے :
اعلم ان علم الحدیث موضوعہ ذات رسول اللہﷺ من حیث انہ رسول اللہ وحدہ‘ ھو علم یعرف بہ اقوال رسول اللہﷺ وافعالہ واحوالہ وغایتہ ھو الفوز بسعادۃ الدارین(۵)
’’ علم حدیث کا موضوع رسول اللہﷺ کی ذات گرامی ہے‘ اس حیثیت سے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اس علم کی تعریف یہ ہے جس کے ذریعہ سے رسول اللہﷺ کے ارشادات گرامی‘ آپ کے افعالِ پاکیزہ‘ اور احوالِ شائستہ معلوم کیے جاتے ہیں اور اس علم کی غرض و غایت دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنا ہے۔ ‘‘
علم حدیث
حدیث ِنبویﷺ کا علمائے اسلام کے نزدیک مرتبہ و مقام کیا ہے اور وہ شریعت اسلامیہ میں اسے کس درجہ پر رکھتے ہیں‘ اس بارے میں برصغیر کے نامور علمائے کرام نے اپنی تصانیف میں مقام حدیث پر روشنی ڈالی ہے۔ ذیل میں چند ایک تحریریں پیش خدمت ہیں۔
(۱) مولانا حکیم سید عبدالحی حسنیؒ(م۱۳۴۱ھ) لکھتے ہیں:
’’علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعہ آنحضورﷺ کے اقوال‘ احوال اور افعال جانے جائیں۔ علم حدیث کی اس تعریف سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ فن حدیث کاموضوع آنحضورﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اس علم کی غرض و غایت دنیاوی و اُخروی سعادت کی تحصیل ہے۔احکامِ شرعیہ اور فقہیہ میں کتاب اللہ کے بعد حدیث شریف حُجّت ہے۔اس علم کے اصول و احکام اور اس کے قواعد و اصطلاحات کو علماء نے اور محدثین و فقہاء نے بڑی وضاحت و تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ ‘‘ (۶)
(۲) علامہ سیّد سلیمان ندویؒ (م ۱۳۷۳ھ) فرماتے ہیں :
’’علم القرآن اگر اسلامی علوم میں دل کی حیثیت رکھتا ہے تو علم حدیث شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شہ رگ اسلامی علوم کے تمام اَعضاء وجوارح تک خون پہنچا کر ہر آن اُن کے لیے تازہ زندگی کا سامان پہنچاتا رہتا ہے۔ آیات کا شانِ نزول اور ان کی تفسیر‘ احکام القرآن کی تشریح و تعیین ‘ اجمال کی تفصیل‘ عموم کی تخصیص ‘سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔اسی طرح حامل قرآن محمد رسول اللہﷺ کی سیرت اور حیاتِ طیبہ ‘اخلاق و عاداتِ مبارکہ اورآپﷺ کے اقوال و افعال اورآپ ؐکے سنن و مستحبات اور احکام وارشادات اسی علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔ اسی طرح خود اسلام کی تاریخ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے احوال اور ان کے اعمال و اقوال اور اجتہادات و استنباطات کا خزانہ اسی کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ اس بنا پر اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہے کہ اسلام کے عملی پیکر کا صحیح مرقع اسی علم کی بدولت مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے موجود و قائم ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ تاقیامت رہے گا۔‘‘ (۷)
(۳) مولانا شاہ معین الدین احمد ندویؒ (م ۱۹۷۴ء) لکھتے ہیں:
’’کلام مجید اگرچہ ایک واضح اور کھلی ہوئی کتاب ہے اور اس میں کوئی غمو ض و خفانہیں ہے‘ لیکن اس میں اسلام کی تعلیمات کی پوری تفصیل اور تمام جزئیات کا احاطہ نہیں ہو سکتا تھا‘ اس لیے بہت سے احکام مجمل یا کلیات کی شکل میں ہیں جن کی وضاحت و تشریح اور کلیات سے جزئیات کی تفریع رسول اللہﷺ نے اپنے قول و عمل سے فرمائی۔ آپﷺ کا کام محض کلامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچا دینا نہیں تھا‘بلکہ اس کی تبیین و تشریح بھی تھا۔ نبیﷺ کی بعثت‘ اسلام کا ظہور ‘اس کی تبلیغ‘ اس راہ کی صعوبتیں‘ غزوات‘ اسلام کا غلبہ و اقتدار اور حکومت ِالٰہیہ کا قیام‘ اس کا نظام‘ رسول اللہﷺ کی حیات ِطیبہ اور آپؐ کی سیرت معلوم کرنے کا ذریعہ صرف حدیث ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو اسلام کی بہت سی تعلیمات اور تاریخ اسلام کے بہت سے گوشے مخفی رہ جائیں گے۔ اس لیے حدیث نبویؐ اسلام اور اسلامی تاریخ کا بڑ ا قیمتی سرمایہ ہے اور اس پر ان کی عمارت قائم ہے۔‘‘ (۸)
(۴) مفکر ِاسلام مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ؒ(م ۱۹۹۹ء)فرماتے ہیں:
’’حدیث نبویؐ ایک ایسی میزان ہے جس میں ہر دور کے معلّمین و مجددین اس اُمّت کے اعمال‘ عقائد‘ رجحانات اور خیالات کو تول سکتے ہیں اور اُمّت کے طویل تاریخی عالمی سفر میں پیش آنے والے تغیرات اور انحرافات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اخلاق و اعمال میں کامل اعتدال و توازن اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک قرآن و حدیث کو بیک وقت سامنے نہ رکھا جائے۔ اگر حدیث ِنبویؐ کا وہ ذخیرہ نہ ہوتا جو معتدل اور کامل و متوازن زندگی کی صحیح نمائندگی کرتا ہے اور اگر وہ حکیمانہ تعلیمات نہ ہوتیں جن کی پابندی رسول اللہﷺ نے اسلامی معاشرہ سے کرائی تو یہ اُمّت افراط و تفریط کا شکار ہو کر رہ جاتی اور اس کا توازن برقرار نہ رہتا اور وہ عملی مثال موجود نہ رہتی جس کی اقتداء کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اس فرمان میں ترغیب دی ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱)
’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ(ﷺ) کی ذات اُسوئہ حسنہ ہے۔‘‘
اور اس کے بعد یہ ارشاد فرما کر آپﷺ کے اتباع کی دعوت دی ہے :
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)} (آل عمران)
’’آپ(ﷺ) کہہ دیجیے اگر تمہیں اللہ سے محبّت ہے تو میری اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا‘ اور اللہ بہت بخشنے والا‘ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ ایک ایسا عملی نمونہ ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے اور جس سے وہ زندگی اور قوت و اعتماد حاصل کر سکتا ہے اور یہ اطمینان کر سکتا ہے کہ دینی احکام کا زندگی پر نفاذ نہ صرف آسان بلکہ امرواقعہ ہے۔
حدیث نبویﷺ زندگی‘ قوت اور اثرانگیزی سے بھرپور اور ہمیشہ اصلاح وتجدید کے کام‘ فساد اور خرابیوں اور بدعتوں کے خلاف صف آراء اور برسرجنگ ہونے اور معاشرہ کا احتساب کرنے پر اُبھارتی رہی ہے ۔اور اس کے اثر سے ہر دور و ہر ملک میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اصلاح و تجدید کا جھنڈا بلند کیا‘ کفن بردوش ہو کرمیدان میں آئے‘ بدعتوں اور خرافات اور جاہلی عادتوں سے کھلی جنگ کی‘ اور دین خالص اور اسلام کی دعوت دی۔ اسی لیے حدیث نبویؐ اُمّت ِاسلامیہ کے لیے ایک ناگزیر حقیقت اور اس کے وجود کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ اس کی حفاظت‘ ترتیب و تدوین‘ حفظ اور نشرو اشاعت کے بغیر اُمت کا یہ دینی اور ذہنی و اخلاقی دوام و تسلسل برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔ (۹)
(۵) شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ (م ۱۹۶۸ء) برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین‘ خطیب‘ مقرر‘ واعظ‘ مبلغ‘ مصنّف‘ مدرس‘ ادیب‘ دانشور‘ مفکر‘ مدبر‘ محدث‘ مفسر اور سیاست دان تھے۔ تصنیف و تالیف میں ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔تفسیر قرآن کے بعد مولانا سلفیرحمہ اللہ کاپسندیدہ موضوع حجیت ِحدیث‘ تدوین حدیث‘ مدافعت ِحدیث‘ خدمات ِمحدثین‘ اور مسلک اہل حدیث سے محبّت اور شیفتگی تھی۔ فتنہ انکارِ حدیث کی تردید میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
متعلقاتِ حدیث کے بارے میں مولانا سلفی رحمہ اللہ نے درج ذیل مقالات تحریر فرمائے: (۱)حدیث کی تشریعی اہمیت (۲) سُنّت :قرآن کے آئینہ میں (۳) حجیت ِحدیث (۴) حدیث شریف کا مقامِ حُجّت (۵) حدیث علمائے اُمّت کی نظر میں (۶) امام بخاریؒ کا مسلک (۷)جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(۸) جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اور مدیر فاران کراچی (۹)اضاحۃ الحق (۱۰) حضرت ابراہیمؑ کے کذباتِ ثلاثہ (۱۱) عجمی سازش کا افسانہ (۱۲) عجمی سازش کا تجزیہ :واقعات کی روشنی میں (۱۳) ایک سوال دو جواب (۱۴) امام محمد بن مسلم زہریؒ اور تحریک انکار حدیث (۱۵) مولانا تمنّا کے تنقیدی مضامین کا علمی محاسبہ (۱۶)واقعہ افک کے متعلق نئی تمنائی ریسرچ (۱۷) مقدمہ نصرۃ الباری فی بیان صحۃ البخاری (۱۸)مسئلہ درایت و فقہ کا تاریخی و تحقیقی جائزہ (عراقی)
محقق العصر حضرت مولانا ارشاد الحق عصری اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے کچھ بندوں کو اس کی توفیق بخشی کہ وہ ان باطل پرستوں کی سرکوبی اور ان کے باطل نظریات کی بیخ کنی کریں۔ انہی خوش نصیبوں میں ایک استاذ العلماء حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ تھے جنہوں نے دفاعِ حدیث کا بیڑہ اٹھایا اور اس کا حق ادا کیا۔ (۱۰)
مولانا سلفی رحمہ اللہ اپنے مقالہ ’’حدیث کی تشریعی اہمیت‘‘ کے آغاز میں لکھتے ہیں:
’’ادلہ شرعیہ کے تذکرہ میں قرآن عزیز کے بعد ائمہ سُنّت علی العموم علوم نبوت کے متعلق چار لفظ ذکر فرماتے ہیں: (۱) خبر (۲) اثر(۳) حدیث (۴) سُنّت
خبر: زبان کے لحاظ سے تو واقعہ کی ہر اطلاع اور تذکرہ کو ’’خبر‘‘ کہا جاتا ہے‘ مگر آنحضرتﷺ کے ارشادات پر یہ لفظ بولا جائے تو حدیث کے مترادف ہو گا۔ یعنی ’’اخبار الرسول‘‘ احادیث ِ نبویؐ کے ہم معنی ہو گا۔
اثر: اثرکسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں:
{فَانْظُرْ اِلٰٓی اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰہِ} (الروم:۵۰)
’’پس آپ رحمت ِ الٰہی کے آثار دیکھیں۔‘‘
نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
صحابہؓ اور تابعینؒ سے جو مسائل منقول ہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے:
{اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ} (الاحقاف:۴)
’’(اس سے پہلے کی)کوئی کتاب لائو یاکوئی علمی نقل‘‘
آنحضرتﷺ کے ارشادات پر بھی ’’اثر‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اور عموماً اس کا استعمال اضافت سے ہوتا ہے۔ جب ’’آثارالرسول‘‘ کہا جائے تو یہ حدیث اور سُنّت کے مترادف ہو گا‘ اور مطلقاً بولا جائے تو آثار ِصحابہؓ مراد ہوں گے یا اس کا لغوی مفہوم۔
حدیث : آنحضرت ﷺکے ارشادات کو اور قرآن عزیز کو بھی حدیث کا نام دیا گیا ہے:
{اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًاج} (التحریم:۳)
’’جب آنحضرت(ﷺ) نے اپنی بیویوں سے آہستہ بات کی۔‘‘
{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا(۸۷)} (النساء)
’’اوراللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے۔‘‘
سُنّت: اصولِ فقہ کے متون میں بعض علماء نے فرمایا ہے کہ سُنّت کا لفظ صرف آنحضرتﷺ کے اعمال پر بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ اقوال پر‘ لیکن ادلہ شرعیہ کے تذکرہ میں وہ حدیث اور سُنّت کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ سُنّت کا لفظ جب اضافت سے استعمال ہو تو سُنّت ِنبوی سے مراد احادیث ہی لی جاتی ہیں۔‘‘ (۱۱)
مسلّم الثبوت میں سُنّت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
ما صدر عن الرسول ﷺ غیر القرآن من قول و فعل وتقریر (۱۲)
سُنّت کے لغوی معنی مروّجہ طریقہ کے ہیں‘ لیکن علمائے اسلام کی اصطلاح میں سُنّت سے رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال اور دوسروں کے وہ اقوال و افعال مراد ہیں جن سے آپﷺ نے سکوت فرمایا اور جن کو قائم و برقرار رکھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اقوال و افعال بھی اس بنیاد پر سُنّت میں داخل ہیں کہ ان کے پاس اس کے لیے رسول اللہﷺ کی قولی یا فعلی سند موجود ہوگی۔ سُنّت کا اطلاق رسول اللہﷺ کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہمکے اقوال و افعال پر ہوتا ہے۔(۱۳)
سُنّت ِمطہرہ قرآن کی شارح ہے
رسول اکرمﷺ کا کام محض کلامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچا دینا نہیں تھا بلکہ اس کی تشریح و تبیین بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی وضاحت یوںفرمائی ہے:
{وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۴۴)} (النحل)
’’یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپؐ کی طرف اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں شاید کہ وہ غورو فکر کریں۔‘‘
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ آپﷺ کی ذِمّہ داری یہ ہے کہ قرآن کی آیات کی وضاحت فرما دیں تاکہ لوگ اس میں غور و فکر کر کے ہدایت کی راہ پر گامزن ہوں اور فلاحِ دارین حاصل کریں۔
قرآن مجید اگرچہ ایک واضح اور کھلی کتاب ہے‘ اس میں کسی قسم کا غموض و خفا نہیں ہے‘ لیکن اس میں دین اسلام کی تعلیمات کی پوری تفصیل اور تمام جزئیات کا احاطہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے بہت سے احکام مجمل یا کلیات کی شکل میں ہیں جن کی وضاحت و تشریح اور کلیات سے جزئیات کی تشریح رسول اللہﷺ نے اپنے قول و عمل سے فرمائی۔
قرآن مجید باوجود اپنی جامعیت اور جملہ ضروریہ پر حاوی ہونے کے زیادہ تر ایمان و عقائد اور اصولِ دین بیان کرتا ہے۔ اس لیے اس کی حیثیت ایک بنیادی قانون اور دستورِ اساسی کی ہے۔ اسے تفصیلی شکل دینا اور اس کی دفعات کی وضاحت کرنا دراصل حدیث کا کام ہے۔
امام اوزاعیؒ نے امام مکحولؒ سے نقل کیا ہے :
الکتاب احوج الی السنۃ من السنۃ الی الکتاب(۱۴)
’’کتاب اللہ سُنّت کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہے جتنی کہ سُنّت کتاب اللہ کی محتاج ہے۔‘‘
امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
فکان السنۃ بمنزلۃ التفسیر والشرح لمعانی احکام الکتاب(۱۵)
’’پس گویا سُنّت کتاب اللہ کے احکام کے لیے بمنزلہ تفسیر اور شرح کے ہے۔‘‘
اگر حدیث کو قرآن سے علیحدہ کر دیا جائے‘ تو بہت سے احکام مشتبہ رہ جائیں گے اور ان کا سمجھنا اور ان پر عمل کرنا نہایت دشوار ہوجائے گا۔ جس طرح قرآن کے اوامر و نواہی کاماننا ضروری ہے‘ا سی طرح حدیث کے اوامر و نواہی کو ماننا بھی ضروری ہے۔ قولِ رسولﷺ کا نام حدیث اور عمل متواتر کا نام سُنّت ہے۔ اور کلام اللہ کے بعد اسی حدیث و سُنّت کا درجہ ہے۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ؒ(م۱۹۷۴ء) لکھتے ہیں :
’’درحقیقت اسلام کی پوری عمارت قرآن مجید اور احادیث نبویؐ پر قائم ہے۔ وہ کلام اللہ کی تفسیر بھی ہے‘ اس کے اجمال کی تفصیل بھی‘ اس کے کلی احکام کے جزئیات کی تفریع اور اسلام کے قرنِ اوّل کی تاریخ بھی۔ اس کے بغیر اسلام کی تعلیم اور اس کی ابتدائی تاریخ کے بہت سے اوراق سادہ رہ جاتے ہیں۔ اسلام کے ارکانِ اربعہ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کے تفصیلی احکام بھی معلوم نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ ان کو حدیث کی مدد کے بغیر ادا کیا جا سکتا ہے۔دین کے صرف کلی احکام قرآن مجید میں ہیں‘ اس کی تفصیل حدیث و سُنّت سے معلوم ہوتی ہے۔ یہی حال اکثر اوامر و نواہی اور حلال و حرام کا ہے۔ ‘‘ (۱۶)
مولانا عبدالقیوم ندویؒ لکھتے ہیں :
’’حدیث سے اگر قطع نظر کر لی جائے تو اسلامی زندگی کا بقا ایک دن بھی متصور نہیں ہو سکتا ہے۔ وضو اور اس کے مسائل‘نماز کی تفصیلات ‘نماز کی رکعات‘ اسی طرح حج‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ جہاد اور دیگر اہم ضروری مسائل یا اسلام کی تفصیلات سے ہم کو قطعی طور پر محروم ہونا پڑے گا۔ اس لیے ایک مسلمان کے لیے حدیث سے استغناء کلیتاً ناممکن اور محال ہے۔‘‘(۱۷)
حدیث کے بغیر قرآن مجید کے بعض مقامات کا سمجھنا محال ہے
قرآن مجید میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جن کا حدیث نبویﷺ کے بغیر سمجھنا محال ہے۔ ذیل میں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے کہ بغیر حدیث کی مدد کے اس کا مفہوم اور مطلب مبہم اور بڑی حد تک تشنہ رہ جاتا ہے:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷)} (الحجر)
’’(اے نبیﷺ!)یقینا ًہم نے آپ کو سات آیات دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے۔‘‘
مفسرین کرام کے اقوال
اس آیت کے بارے میں مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
(۱) ’’ سبع مثانی‘‘ سے مراد سورۃ الفاتحہ ہے جس کی سات آیات بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے ۔یہ کتاب کا شروع ہیں اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں ‘خواہ فرض نماز ہو‘ خواہ نفل نماز ہو۔ (۱۸)
(۲) نبی کریمﷺ کو کُفّارِ قریش کی اذیتوں پر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار عظیم نعمتوں سے نواز رکھا ہے ‘جن میں سب سے بڑی نعمت سورۃ الفاتحہ اور قرآن کریم ہے۔ اس لیے آپؐ دل چھوٹا نہ کیجیے اور پیغام رسانی کے کام میں لگے رہیے‘ کیونکہ آدمی جب اپنے اوپر اللہ کی عظیم نعمتوں کو یاد کرتا ہے تو دعوت کی راہ میں مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ (۱۹)
(۳) سبع من المثانی : سات دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورۃ الفاتحہ ہے۔ ارشادِ نبوی ؐہے: قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے {اَلْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} یہی سبعاً من المثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھےدیا گیا۔ (بخاری تفسیر سورۃ الفاتحہ)(۲۰)
(۴) بہت سے مفسرین نے ’’سبع مثانی‘‘ سے مراد سورۃ الفاتحہ اور ’’قرآن عظیم‘‘ سے مراد باقی قرآن لیاہے‘ حالانکہ یہ بات درست نہیں‘ کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس آیت میں مذکور سبع مثانی بھی اور قرآن العظیم بھی سورۃ الفاتحہ ہی کو کہا ہے۔ بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں آپﷺ کے الفاظ ہیں: ((اُمُّ الْقُرآن ھی السَّبع المثانی وَالقُرآن العظیم)) ’’اُمّ القرآن ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔‘‘ (۲۱)
(۵) سبع مثانی کیا ہے؟ حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ سبع مثانی سورۃ الفاتحہ ہے۔ یہ سات آیات ہیں جو ہر نماز میں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔آپﷺ کافرمان ہے: {اَلْحَمْدُ لِلٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ‘جو مجھے دیا گیا ہے ۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۃ الفاتحہ)(۲۲)
(۶) مولانا ابوالکلام آزادؒ (م ۱۹۵۸ء) فرماتے ہیں:
’’اور بلاشبہ ہم نے تمہیں دہرائی جانے والی آیتوں میں سے سات آیتوں کی سورت عطا فرمائی ہے (یعنی سورۃ الفاتحہ) اور قرآن عظیم‘ اور اس کا دہرا دہرا کر ہر نماز میں پڑھنا تمہارے لیے کفایت کرتا ہے ۔ احادیث سے ثابت ہے کہ یہاں سبعًا من المثانی سے مقصود سورئہ فاتحہ ہے۔‘‘ (۲۳)
(۷) مولانا سیّد مودودی رحمہ اللہ (م ۱۹۷۹ء) سورۃ الحجر کی آیت ۷۸ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ہم نے تم کو سات آیتیں دے رکھی ہیں ‘یہ بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمہیں قرآن عظیم عطا کیاہے۔‘‘
اور اس کی تفسیر میں سیّد مودودی لکھتے ہیں:
’’یعنی سورئہ فاتحہ کی آیات۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد سات بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو سو آیتیں ہیں‘ یعنی البقرۃ‘ آلِ عمران‘ النساء‘ المائدۃ‘ الانعام‘ الاعراف اور یونس یا انفال یا توبہ‘ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورئہ فاتحہ مراد ہے‘ بلکہ امام بخاریؒ نے د ومرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خود نبی کریمﷺ نے سبع مثانی سے مراد سورئہ فاتحہ لی ہے۔‘‘ (۲۴)
اطاعت ِرسول ﷺکا حکم الٰہی
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے اور بہت سی آیات میں ’’اَطِیْعُوا اللّٰہَ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں:
(۱) {وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(۱۳۲)} (آل عمران)
’’اور اللہ اور رسول (ﷺ)کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(۲) سورۃ النساء میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے :
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج} (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی تو اُس نے اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی۔‘‘
(۳) ارشادِ نبویﷺ ہے:
((مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ))(۲۵)
’’جس نے میری اطاعت کی‘ اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ دورِ رسالت میں بھی اور اس کے بعد بھی نبی کریمﷺ کے قول وفعل کو اسی طرح واجب الاطاعت سمجھا گیا جس طرح کتاب اللہ کو ‘اور دونوں (قرآن اور سُنّت و حدیث ) کو وحی الٰہی تسلیم کیا گیا ۔ارشادِ ربانی ہے :
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی(۳) اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴)} (النجم)
’’اورنہ اپنی خواہش نفس سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اُن کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘
اس لیے آپﷺ کے تمام احکام واجب التعمیل ہیں۔
مولانابد رعالم میرٹھی (م ۱۹۶۵ء) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۶۱ھ) کی کتاب ’’اعلام الموقعین عن ربّ العالمین‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حافظ صاحب ؒفرماتے ہیں:
’’اگر رسول (ﷺ)کی اطاعت صرف ان احکام تک محدود رہے جو قرآن مجید میں صاف صاف موجود ہیں تو پھر {اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} کی آیت کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہتا‘ جب کہ یہ آیت یہ چاہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک رسولﷺ کی اطاعت بھی ایک مستقل مد ہے ۔ بیسیوں آیات میں اطاعت ِرسول کا علیحدہ حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اُسؐ کی براہِ راست اطاعت کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ایک حکم ہے ۔اس لحاظ سے جو شخص رسول اللہﷺ کی اطاعت نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی نہیں کرتا۔‘‘ (۲۶)
حدیث کی تشریعی حیثیت
علمائے اسلام کے نزدیک حدیث کی تشریعی حیثیت مسلّم ہے ‘کیونکہ احادیث کا تمام ذخیرہ قرآن مجید کا بیان اور اس کی شرح ہے۔ اگر قرآن کی حیثیت تشریعی ہے تو اس کے بیان کی حیثیت بھی تشریعی ہونی چاہیے۔ یہی عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور جمہور علمائے اسلام کا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حدیث کی تشریعی حیثیت کو تسلیم کیا ہے اور تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتاکہ صحابہ کرامؓ نے حدیث کو تاریخی حیثیت دی ہو۔ حدیث کی تشریعی حیثیت کے بے شمار واقعات حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔ مثلاً آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا اختلاف آپﷺ کی تدفین کے متعلق ہوا ۔کیا اس کے خلاف کوئی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس مسئلہ کا فیصلہ اُس حدیث کے سوا جو اُس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پڑھ کر سنائی‘ کسی اور دلیل سے کیا گیا تھا؟ کیا تاریخ سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کوئی آواز بھی اس حدیث کے خلاف اٹھائی گئی ہو؟ سب نے اس کو تسلیم کیا اور اسی کے مطابق آنحضرتﷺ کی تدفین عمل میں آئی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ مَیں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نبی کا بھی انتقال ہوا اس کو اُسی جگہ دفن کیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا تھا۔ (۲۷)
ایک اور واقعہ بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓسے ایک عورت نے ان کے عہدِخلافت میں اپنے پوتے کے ترکہ میں اپنے حصّہ کا مطالبہ کیا تھا۔ آپؓ نے اُس عورت سے فرمایا:’’مَیں تیرا حصّہ کتاب اللہ میں نہیں پاتا‘‘۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے دادی کو۶/۱حصّہ دلوایا تھا۔حضرت ابوبکر صدیق ؓنے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے شہادت طلب کی تو حضرت محمد بن مسلمہؓ نے کہا : مَیں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ رسول اکرمﷺ نے دادی کو پوتے کی وراثت سے۶/۱ حصّہ دلوایا تھا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر ؓنے حضرت محمد بن مسلمہ کی شہادت پر فیصلہ کر دیا۔(۲۸)
حافظ ابن عبدالبر قرطبیؒ نے اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں امام زہری (تابعی) کا یہ قول نقل کیا ہے : الاعتصام بالسنن نجاۃ ’’سُنّت پر عمل کرنا نجات ہے۔‘‘
مولانا عبدالغفار حسن عمر پوریؒ(م۲۰۰۷ء) لکھتے ہیں:
’’قابل اعتماد روایات اور مستند اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ معتزلہ اور خوارج میں سے چند افراد کے سوا پوری اُمّت کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن حکیم کے بعد اسلامی قانون کا ماخذ رسول اللہﷺ کی احادیث ہیں۔ ‘‘(۲۹)
حجیت ِحدیث
منکرین ِحدیث ’’حدیث ‘‘ کو حُجّت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن ہی کافی ہے۔حالانکہ ان کا یہ موقف سراسرباطل ہے اور ان کی جاہلیت و کم علمی کا واضح ثبوت ہے۔ حدیثِ نبویؐ بھی دین اسلام میں حُجّت ہے۔ علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ جب نبی کریمﷺ سے کسی حدیث کا صادر ہونا ثابت ہو جائے تو اُس کے حُجّت ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘ کیونکہ سند کی صحت کے بعد اگر حدیث کو حُجّت نہ مانا جائے تو اس سے پورے دین کا انکار لازم آجائے گا۔(۳۰)
آنحضرتﷺ کے ذمہ صرف قرآن مجید کی تلاوت و تبلیغ نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کی تعلیم اور تزکیہ بھی تھا۔اور آپﷺ کتاب اللہ کے ساتھ حکمت کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ یہ حکمت اگرچہ قرآن اور وحی الٰہی سے ماخوذ ہے مگر اس سے الگ چیز ہے۔
’’کتاب ‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے اور ’’حکمت‘‘ کا لفظ سارے قرآن میں تقریباً بیس مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اس کے معنی دانائی‘ بصیرت‘ قرآن فہمی ‘ دین کی سمجھ اور ہر عمدہ کام کے آتے ہیں۔ جس حکمت کی تعلیم آنحضرتﷺ نے دی ہے اس کی نظیر دنیا میں موجود نہیں ہے اور اس حکمت سے مراد مفسرین کرام و ائمہ عظام کی تصریح کے مطابق ’’سُنّت‘‘ ہے۔
حافظ ابن کثیر (م۷۷۴ھ) نے حکمت کے معنی ’’سُنّت‘‘ کیے ہیں: الحکمۃ یعنی السنۃ کہ حکمت سے مراد ’’سُنّت ‘‘ہے۔(تفسیر ابن کثیر ‘سورۃ البقرۃ‘ آیت ۱۲۹)۔ چنانچہ جس طرح کتاب اللہ کے احکام و ارشادات پر عمل کرنا فرض ہےاسی طرح احادیث میں جو احکام و ارشادات رسول اللہﷺ نے فرمائے ہیں ان پر بھی عمل کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح الفاظ میں حکم فرمایا ہے :
{لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱)
’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ(ﷺ) کی ذات گرامی بہترین نمونہ ہے۔‘‘
اصلِ دین آمد کلام اللّٰہ معظّم داشتن
پس حدیث مصطفیٰؐ بر جاں مسلّم داشتنقرآن مجید کی اصل حیثیت متن کی ہے اور حدیث اس کی شرح و تفسیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے کبھی بھی قرآن مجید کو حدیث سے آزاد ہو کر نہیں دیکھا۔شیخ ابن باز رحمہ اللہ (سابق مفتی اعظم سعودی عرب) فرماتے ہیں:
’’اگر ہم یہ نظریہ قائم کر لیں کہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث غیر محفوظ ہے یا یہ کہ وہ قابل حُجّت نہیں ہے تو اللہ کے فرمان {اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} اور کسی معاملہ میں تنازع کے وقت {فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ} پر عمل کیسے ممکن ہو گا۔ اور پھر یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک ایسی چیز کا مکلّف کیا ہے جس کا سرے سے ہی وجود نہیں ہے اور یہ نہایت کفر اور اللہ کے ساتھ سوئے ظن ہے۔‘‘ (۳۱)
ایک دوسرے موقع پر شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں:
’’یہ دونوں اصل (قرآن و سُنّت) آپس میں لازم و ملزوم ہیں‘ایک کا انکار و تکذیب دوسرے کے انکار و تکذیب کو مستلزم ہے ‘جس کا مرتکب اہل علم و ایمان کے نزدیک کافر‘ گمراہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (۳۲)
تدوین ِحدیث
اہل ِاسلام نے جتنا اہتمام آنحضرتﷺ کے کلام کی حفاظت کے لیے کیا ہے آج تک روئے زمین پر کسی دوسری قوم نے اپنے پیشوا کے کلام کی حفاظت کے لیے نہیں کیا۔ اپنے پیشوا کے کلام کی حفاظت تو دور کی بات ہے وہ تو اپنے نبیؑ پر نازل کردہ کتاب کی حفاظت نہ کر سکے۔ لیکن پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے جاں نثاروں نے آپﷺ کے اقوال ہی نہیں‘ بلکہ افعال بھی حتیٰ کہ ہر حرکت و سکون‘ اندازِ گفتگو اور طرزِ تکلّم کو اس طرح محفوظ کیا ہے کہ اس سے زیادہ حفاظت تصوّر میں نہیں آ سکتی۔
منکرین حدیث کی طرف سے یہ اعتراض عام کیا جاتا ہے کہ تدوین حدیث کا کام زمانہ نبویﷺ کے ۱۵۰ سال بعد شروع ہوا ۔ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے ۔ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں کئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حدیث کے کئی مجموعے تیار کر لیے تھے۔ علامہ سیّد سلیمان ندویؒ اپنے ایک مکتوب بنام مولانا عبدالماجد دریابادیؒ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’مسلمانوں کے اس فقرے کا معنی کہ حدیث کی تدوین ہجرت کے ڈیڑھ سو برس بعد ہوئی ہے‘ یہ ہے کہ تصنیف اور کتاب کی حیثیت میں‘ ورنہ محض تحریر و کتابت کی حیثیت سے زمانہ نبویؐ میں ان کی جمع و تحریر کا آغاز ہو چکا تھا۔‘‘ (۳۳)
مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ مصنف ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ و سابق استاذِ تفسیر ندوۃ العلماء لکھنؤ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’تحقیق یہ ہے کہ تدوین ِحدیث کا کام خود نبی اکرمﷺ کے زمانہ سے شروع ہو چکا تھا۔ خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ہو۔‘‘ (۳۴)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ۹۹ھ میں منصب خلافت پر فائز ہوئے جن کی ذات سرتاپا اسلام کا اعجاز تھی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ روافض‘ خوارج اور قدریہ وغیرہ نئے نئے فرقے سر اٹھا رہے ہیں‘جو دین اسلام کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں‘ اس لیے حدیث و سُنّت کی باقاعدہ تدوین کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے قاضی ابوبکر بن حزم انصاری رحمہ اللہ (م۱۲۰ھ) جو کہ بہت بلند پایہ محدث تھے‘ اُس وقت مدینہ کے گورنر تھے‘ ان کو حدیث کی تدوین کی طرف توجّہ دلائی اور ان کو لکھا:
انظر ما کان من حدیث رسول اللہِ ﷺ فاکتبہ‘ فانی خِفتُ دروس العلم وذھاب العلماء ولا یقبل الا حدیث النبیﷺ (۳۵)
’’احادیث نبویہ کی تلاش کر کے ان کو تحریرکر لو‘ کیونکہ مجھے علم کے مٹنے اور علماء کے فنا ہونے کا خوف محسوس ہوتا ہے ‘اور صرف رسول اللہﷺ کی احادیث قبول کی جائیں۔‘‘
تدوین ِحدیث کا کام عہد صحابہ کرامؓ میں شروع ہو چکا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسے آگے بڑھایا اور انہوں نے اپنی حکومت کے گورنروں کے نام سرکلر جاری کیا۔ چنانچہ حافظ ابونعیم اصبہانی اپنی ’’تاریخ اصبہان ‘‘ میں لکھتے ہیں:
کتب عمر بن عبد العزیز الی الآفاق انظروا حدیث رسول اللہِ ﷺ فاجمعوہ
’’حضرت عمربن عبدالعزیز نے دُور دُور ملکوں میں یہ حکم بھیجا کہ رسول اللہﷺ کی حدیثوں کو تلاش کر کے جمع کرو۔‘‘ (۳۶)
چنانچہ ہر صوبہ کے گورنر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکے اس فرمان کی تعمیل کی۔ حافظ ابن عبدالبر قرطبیؒ اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ ہم کو عمر بن عبدالعزیزؒ نے جمع حدیث کا حکم دیا اور ہم نے دفتر کی دفتر حدیثیں لکھیں اور انہوں نے ایک ایک مجموعہ حدیث ہر جگہ جہاں ان کی حکومت تھی‘ بھیجا۔‘‘ (۳۷)
مولانا عبدالسلام ندویؒ لکھتے ہیں :
’’صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں فن حدیث مدوّن ہو چکاتھااور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے انہی اجزائے پریشان کو ایک مجموعے کی صورت میں جمع کیا۔‘‘(۳۸)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ کارنامہ تاریخ حدیث میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ اُس وقت کے علمائے کرام نے آپ کے حکم کی تعمیل کر کے حدیث نبویﷺ کو (جو مسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہے) محفوظ کر دیا۔
کتابت ِحدیث
منکرین حدیث کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ آپﷺ نے ایک موقع پر ضرور منع فرمایا تھا‘ لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی۔ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں مکتوباتِ نبوی‘ معاہداتِ نبویﷺ‘ مسائل نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ و صدقات وغیرہ لکھے جاتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ اسلام کے اساسی احکام پر مشتمل تھا۔ اس بارے میں ایک صحابی ابوشاہ یمنی ؓنے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے یہ خطبہ لکھوا کر دے دیا جائے ۔ آپ ﷺنے حکم دیا: ((اُکْتُبُوْا لِاَبِی شَاہ)) ’’اَبو شاہ کے لیے یہ خطبہ لکھ کر اس کے حوالہ کرو۔‘‘ آپﷺ کے اس حکم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عہد ِرسالت میں گوناگوں مسائل کو تحریری شکل میں لایا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں حجۃ الوداع کے موقع پر ہی آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ))(۳۹) یعنی جو لوگ اِس وقت موجود ہیں وہ ان لوگوں تک احکام پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔اسی کا نام روایت حدیث ہے۔مولانا شاہ معین الدین احمدندویؒ (م ۱۹۷۴ء) سابق ایڈیٹر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ لکھتے ہیں:
’’اس لیے عہد رسالت سے لے کر بعد کے ہردور میں حدیث نبوی کی نقل و روایت کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ پوری حدیثیں دنیائے اسلام میں بکھری ہوئی تھیں۔ محدثین کرام کا یہ بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اس زمانہ میں جبکہ سفر کی سہولتیں نہ تھیں اور سفر ہم معنی سقر سمجھا جاتا تھا ‘اور نہ نشرو اشاعت کے موجودہ سامان تھے‘ تعلیم بھی محدود تھی‘ دنیائے اسلام کا چپہ چپہ چھان کر رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال یعنی حدیث و سُنّت کو تحقیق و صحت کے پورے اہتمام کے ساتھ جمع و مرتب کیا اوران کے ردّ و قبول اور صحت و سقم کے جانچنے اور رواۃ کی جرح و تعدیل کے اصول بنائے‘ اصولِ حدیث کا مستقل فن ایجاد کیا‘ نیز راویانِ حدیث کے حالات نہایت صحت و تحقیق کے ساتھ قلمبند کیے ‘جو مسلمانوں کا قابل فخر کارنامہ ہے۔ ‘‘(۴۰)
عہد نبویؐ میں صحابہ کرامؓ کے تحریری مجموعے
عہد ِنبویﷺ میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث کے جو تحریری مجموعے مرتب فرمائے ان کی تفصیل یہ ہے :
(۱) صحیفہ صادقہ:حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے مرتّب فرمایا تھا۔ اس بارے میں وہ فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے زندگی کی چاہت صرف اس صحیفہ صادقہ کی وجہ سے ہے۔‘‘
(۲) کتاب عمرو بن حزمؓ :آنحضرتﷺ نے ان کے ذریعہ سنن و فرائض کے کچھ مسائل لکھ کر اہل یمن کے پاس بھیجے تھے۔
(۳) حضرت انس بن مالکؓ کے صحیفے۔ (۴) صحیفہ علی بن ابی طالبؓ
(۵) صحیفہ وائل بن حجرؓ (۶) خطبہ حجۃ الوداع
(۷) کتاب الصدقہ:حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں زکوٰۃ کے موضوع پر ایک کتاب لکھوائی تھی جو مکمل ہو چکی تھی‘ لیکن آپ ﷺکی رحلت کی وجہ سے کتاب عاملوں کے پاس بھیجی نہ جا سکی۔حافظ ابن عبدالبر قرطبیؒ فرماتے ہیں :
’’ حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق ؓنے اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کتاب پر عمل کیا۔‘‘ (۴۱)
(۸) صحیفہ جابر بن عبداللہؓ (۹) مسند ابی ہریرہؓ
(۱۰)صحیفہ ابی بکر صدیقؓ (۱۱)صحیفہ سمر ہ بن جندبؓ
(۱۲)صحیفہ سعد بن عبادہؓ (۱۳) صحیفہ عبداللہ بن عباسؓ
(۱۴)صحیفہ عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ (۱۵)صحیفہ اسماء بنت عمیسؓ
(۱۶)صحیفہ محمد بن مسلمہ انصاریؓ
تابعین عظام رحمہم اللہ نے بھی حدیث کے مجموعے مرتّب فرمائے تھے۔حضرت جابر بن عبداللہؓ کے دو تلامذہ وہب بن منبہ اور سلمان بن قیس رحمہما اللہ نے حدیث کے مجموعے مرتّب فرمائے تھے۔(۴۲)
حضرت ابوہریرہؓکے تلمیذ رشید حضرت ہمام بن منبہؒ نے حدیث کا ایک مجموعہ مرتب فرمایا تھا‘جو صحیفہ ’’ہمام بن منبہ‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ اور یہ صحیفہ مسند امام احمد بن حنبلؒ جلد۲‘ ص ۳۱۲ تا ۳۱۸ مکمل درج ہے۔ احادیث کی تعداد ۱۳۸ ہے۔
صحیفہ ہمام بن منبہ علیحدہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی رحمہ اللہ کی تحقیق و تخریج سے شائع ہوچکاہےاور اس کا اردو ترجمہ بھی کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔
محدثین کرام کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے احادیث کی جمع و تدوین میں قابل قدر خدمات انجام دیں اور ان کی یہ خدمات ان شاء اللہ العزیز ان کے لیے ذریعہ نجات ہوں گی۔
حواشی
(۱) فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر‘ ص ۹۴۔ (۲) کلید القرآن‘ ص ۳۴۵۔
(۳) علوم الحدیث‘ ص ۲۴۔
(۴) سنن ابی داوٗد مترجم‘ مطبوعہ دار السلام‘ ج۱‘ ص ۳۲۔
(۵) صحیح البخاری مترجم‘ نعمانی کتب خانہ لاہور‘ ج۱‘ ص ۴۹
(۶) اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں‘ ص ۱۹۰۔
(۷) مقدمہ تدوین حدیث‘ مولانا مناظر احسن گیلانی
(۸) مقدمہ تذکرۃ المحدثین ‘مولانا ضیاء الدین اصلاحی
(۹) تاریخ دعوت و عزیمت‘ ج۵‘ ص ۱۷۰
(۱۰) مقالاتِ حدیث‘ ص ۳۰ (۱۱) مقالات حدیث‘ ص ۷۸ تا ۸۱
(۱۲) شرح مسلم الثبوت بحر العلوم‘ ص ۳۸۶۔ مقالات حدیث‘ ص۸۲
(۱۳) فقہ اسلامی کاتاریخی پس منظر‘ ص ۹۸ (۱۴) جامع بیان العلم وفضلہ‘ ج۲‘ ص ۱۹
(۱۵) ترغیب و ترہیب مترجم طبع دہلی‘ ج۱‘ ص ۹۶
(۱۶) مقدمہ تذکرۃ المحدثین ‘مولانا ضیاء الدین اصلاحی‘ ج۱‘ ص ۶
(۱۷) فہم حدیث‘ ص ۵۰
(۱۸) تفسیر ابن کثیر مترجم‘ نعمانی کتب خانہ لاہور‘ ج۳‘ ص ۱۴۱
(۱۹) تیسیر الرحمن لبیان القرآن‘ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ‘ مطبوعہ الریاض سعودی عرب‘ ص ۴۵۲
(۲۰) تیسیر القرآن از مولانا عبدالرحمٰن کیلانی‘ ج۲‘ ص ۵۰۰
(۲۱) تیسیر القرآن الکریم ‘مولانا عبدالسلام بن محمد بھٹو‘ ج۲‘ ص ۳۴۷
(۲۲) احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ ‘ ص ۷۲۴
(۲۳) ترجمان القرآن‘ ج۲‘ ص ۳۰۵‘ ۳۰۶
(۲۴) تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۵۱۷
(۲۵) صحیح مسلم
(۲۶) ترجمان السنۃ‘ ج۱‘ ص ۱۴۷
(۲۷) نبی رحمتﷺ‘ ص ۵۴۹
(۲۸) ترجمان السنۃ‘ج۱‘ ص ۱۳۵
(۲۹) عظمت حدیث‘ ص ۲۸۲
(۳۰) ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۲۹ / اکتوبر۱۹۹۹ء
(۳۱) وجوب العمل بسنۃ رسول اللہ ﷺ
(۳۲) وجوب العمل بسنۃ رسول اللہ ﷺ
(۲۳) مکتوبات سلیمانی‘ ص ۱۱۲‘ مکتوب نمبر۸۱
(۳۴) ماہنامہ الفرقان لکھنؤ ‘ ذی قعدہ ۱۳۷۵ھ‘ ص ۳۷
(۳۵) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب کیف یقبض العلم
(۳۶) مقدمۃ التعلیق الممجد مولانا عبدالحی ؒ ‘ص ۱۴
(۳۷) جامع بیان العلم بحوالہ سیرت عمر بن عبدالعزیز از مولانا عبدالسلام ندوی‘ ص ۱۴۱
(۳۸) اسوئہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘ ج۲‘ ص ۲۱۰
(۳۹) صحیح بخاری و مسلم
(۴۰) مقدمہ تذکرۃ المحدثین از مولانا ضیاء الدین اصلاحی‘ ج۱‘ ص ۱۸
(۴۱) جامع بیان العلم‘ ج۱‘ ص۱۷۱
(۴۲) تدوین ِحدیث از مولانا مناظر احسن گیلانی‘ ص ۱۸
tanzeemdigitallibrary.com © 2025