(حقیقتِ دین) دعا: عبادت کا مغز - احمد علی محمودی

7 /

دُعا:عبادت کا مغزاحمد علی محمودی

دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا۔ شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دُعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے‘ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: { وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِیْبًا اِلَیْہِ}(الزمر: ۸) ’’جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘ حضور اکرمﷺ نے دُعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا ہے۔((اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ)) (ترمذی‘باب ماجاء فی فضل الدُعاء) حضور اکرمﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ((اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ)) ’’دُعا عین عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء)
حاجت روائی کا عظیم دروازہ
دُعا ہی وہ عظیم دروازہ ہے جہاں سے لوگوں اور تمام مخلوقات کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخلوقات کی ضروریات لا تعداد ہیں اور انہیں جاننے والی صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے جو خالق و قادر اور علیم و رحیم ہے۔ وہی سب کی ضروریات کو پوری کرسکتا ہے۔ وہی ہر امید وار کی اُمیدیں پوری کرتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے با وجود اُس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی‘ اور نہ ہی اس کے خزانے کبھی ختم ہو سکتے ہیں‘ جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: {وَلِلہِ خَزَاۗئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}(المنافقون:۷) ’’آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔‘‘ پھر فرمایا: { اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہٗ مِنْ نَّفَادٍ(۵۴)}(صٓ) ’’ یہ ہماری عنایت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔‘‘
ہمارا ربّ تمام عیوب سے پاک ہے۔ وہ یکتا ہے ‘اورتما م خوبیوں کا مالک ہے۔اُس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔وہ بیک وقت سب کی پکارسنتااورسب کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: { یَسْئَلُہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (۲۹)} (الرحمٰن) ’’آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی موجود ہے سب اُسی سے (اپنی حاجات) مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔‘‘
حضرت ابو درداءؓکہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ہر دن کسی نہ کسی کام میں ہوتا ہے کہ کسی کے گناہوں کو معاف کردیا تو کسی کی مشکل کشائی کردی‘ یا دُعا قبول کی اور قوموں کو ترقی یا تنزلی سے دوچار کردیا۔‘‘ اسے بزار نے روایت کیاہے۔
خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: ’’مجھے دُعا کی قبولیت کی فکر نہیں ہوتی۔ میر اکام صرف مانگنا ہے‘ اگر تمہیں مانگنا آگیا تو سمجھو دُعا قبول ہوگئی۔‘‘
دُعا میں پوشیدہ خیروبرکات
تمام خیرو برکات دُعا میں پوشیدہ ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دُعا مانگیں کہ اِس سے اُس کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ دُعا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایت دی ہے‘ جس سے دُعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (۱۸۶)}(البقرۃ) ’’اور (اے پیغمبرﷺ) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) مَیں تو (تمہارے بہت ہی) قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کی دُعا قبول کرتا ہوں‘ تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔‘‘
دُعاکی عظمت
اللہ کے پیارے نبی حضرت محمدمصطفیٰﷺ نے دُعاکی عظمت‘ اس کی بر کتیں‘ اس کے آداب اور دُعا کرنے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں دُعا کا ذکر ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دُعا کارآمد اور نفع بخش ہوتی ہے ان حوادث میں بھی جو نازل ہو چکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے۔ پس اے خدا کے بندو! دُعا کا اہتمام کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ سے اُس کا فضل مانگو‘ کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ اُس کے بندے اُس سے دُعا مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے اُمید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مادے گا‘ اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)
دُعا کی ضرورت
ہر شخص محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں۔ وہی سائلوں کوعطا کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنتُمُ الْفُقَرَاءُج} (محمد:۳۸)’’اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔‘‘ انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضا یہی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے‘ کیونکہ یہ مقامِ عبدیت اور دُعا کے منافی ہے۔
دُعا کی اہمیت
اس حوالے سے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دُعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ} (غافر:۶۰) ’’تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دُعا کرو‘ مَیں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔‘‘غرضیکہ دُعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دُعا قبول کی جاتی ہے‘ اس سے بڑھ کر دُعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے!
حضور اکرمﷺ نے بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنے کی ترغیب دی ہے بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے یہاں دُعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی میںاللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔‘‘(ابن ماجہ‘ باب فضَل الدُعاء)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جس کے لیے دُعا کا دروازہ کھل گیا ‘اُس کے لیےرحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔‘‘(ترمذی)
حضور اکرمﷺ نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے: ((الدُّعَاءُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ))(رواہ ابویعلیٰ وغیرہ)۔ یہتشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے‘ اسی طرح دُعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے‘ جب بندہ اُس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تواُس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے‘ یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابی داوٗد) حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد درحقیقت سائل کے لیے اُمید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جومانگنے والوں کوکبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی مصلحت کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔
دُعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی
قرآن وحدیث سے جہاں دُعا کی اہمیت و فضیلت اور پسندیدگی معلوم ہوتی ہے‘ وہیں احادیث میں دُعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بھی وعید آئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جوبندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی‘باب ماجاء فی فضل الدُعاء) دنیا میں ایسا کوئی نہیں جو سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہو‘ حتیٰ کہ والدین بھی اولاد کے ہروقت مانگنے اور سوال کرنے سے بسا اوقات ناراض ہو جاتے ہیں‘ مگر اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ جوبندہ اُس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا نہ کرنا تکبر کی علامت ہے جبکہ مانگنے پر اُسے پیار آتا ہے۔
دُعا کے چند اہم آداب
دُعا چونکہ ایک اہم عبادت ہے‘ اس لیے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے اس بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں‘ دُعا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دُعا کرنا‘ یعنی یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری ضرورتوں کوپوری کرنے والا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} (المؤمن:۱۴) ’’تم لوگ اللہ کو اُس کے لیے دین کو خالص کرکے پکارو ! ‘‘
(۲) دُعا کے قبول ہونے کی پوری اُمید رکھنا ۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔‘‘ (ترمذی)
(۳) دُعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجّہ رکھنا۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک !اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپرے دل سے اور توجّہ کے بغیر دُعا کرتا ہے ۔‘‘ (ترمذی) دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو‘ حضور ِقلب کی کوشش کرے اور رِقّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہو ۔
(۴) دُعا کرنے والے کی غذا اور لباس حلال کمائی سے ہو۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشانی وپراگندگی کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتے ہوئے دُعا کرے جب کہ اُس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کمائی ہی استعمال کرتا ہو تواُس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟‘‘ (صحیح مسلم)
(۵) دُعا کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اللہﷺ پردرود بھیجنا۔ حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرے‘ پھر مجھ پردرود بھیجے‘اور پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی) حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ دُعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اللہﷺ پر درود نہ بھیجا جائے۔ (ترمذی)
(۶) دُعا کے وقت گناہ کا اقرار کرنا‘ یعنی پہلے گناہ سے باہر نکلنا‘ اس پر اظہارِندامت کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔
(۷) دُعا آہستہ اور پست آواز سے کرنا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط}(الاعراف:۵۵) ’’تم لوگ اپنے پروردگار سے دُعا کیا کرو گڑ گڑا کر اور آہستہ آہستہ‘‘۔ ( البتہ اجتماعی دُعا تھوڑی بلند آواز کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔)
دُعا کے چند اہم مستحبات
دُعا سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً نماز‘ روزہ اور صدقہ وغیرہ کا اہتمام کرنا۔قبلہ کی طرف رُخ کرکے دوزانو ہوکر بیٹھنا اوردونوں ہاتھوں کا مونڈھوں تک اس طرح اُٹھانا کہ ہاتھ ملے رہیں اور انگلیاں بھی ملی ہوئیں اور قبلہ کی طرف ہوں۔اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات ِعالیہ کا ذکر کرکے دُعا کرنا۔اس بات کی کوشش کرنا کہ دُعا دل سے نکلے۔دُعا میں اپنے خالق ومالک کے سامنے گڑ گڑانا‘ یعنی رو رو کر دُعائیں مانگنا یا کم از کم رونے جیسی صورت بنانا۔دُعا کوباربار مانگنا۔ دُعا کے وہ الفاظ اختیار کرنا جوقرآن کریم میں آئے ہیں یاجو حضور اکرمﷺ سے منقول ہیں۔ تمام چھوٹی اور بڑی حاجتیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا۔نمازبالخصوص فرض نماز کے بعد دُعا مانگنا۔دُعا کرانے والے اور دُعا کرنے والے کا دُعا کے بعد آمین کہنا ‘ اور آخر میں دونوں ہاتھ اپنے چہرے پرپھیرلینا ۔
منہیاتِ ومکروہاتِ دُعا
دُعا کے وقت اسباب کی طرف نظر نہ ہو‘ بلکہ اسباب و تدابیر سے قطع تعلق ہوکر مسبّب الاسباب کی ذات پریقین رکھنا۔دُعا میں حد سے تجاوز کرنا غلط ہے‘ یعنی کسی ایسے امر کی دُعا نہ کرنا جوشرعاً یاعادۃً محال ہو یاجوبات پہلے ہی طے ہوچکی ہو ۔مثلاً یوں نہ کہے کہ فلاں مُردہ کوزندہ کردے یاعورت یہ دُعا کرے کہ مجھے مَرد بنادے۔ ایسی دُعا ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔اپنی جان‘ مال اور اولاد کے لیے بددُعا نہ کرے۔ ممکن ہے کہ قبولیت کی ساعت میں یہ بددُعا نکلے اور بعد قبولیت پشیمانی اٹھانی پڑے۔دُعا کی عدم قبولیت پرمایوس ہوکر دُعا کرنا نہ چھوڑنا‘ بلکہ حتی الامکان پُرامید رہنا اور دُعا قبول ہو یانہ ہو‘ اپنے مالک کے روبرو ہاتھ پھیلاتے رہنا۔ عجب نہیں کہ کس وقت اورکس گھڑی دُعا قبول ہوجائے۔
مخصوص اوقات اور مقامات
دُعا اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصو ص تعلق اور براہ راست رابطہ ہے جس میں بندہ اپنے دل کا حال سیدھے سادھے طریقے سے بیان کر تا ہے۔ بندہ اپنے پر ور دگار سے دن یا رات کے کسی بھی حصے میں د عا مانگ سکتا ہے‘ کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں۔تاہم احادیث مبارکہ سے دُعا کے لیے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں‘ ان وقتوں میں دُعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں :(۱) رات کا آخری حصہ (یعنی پچھلی شب بیدار ہو کر نماز تہجد پڑھنے کے بعد کی دُعا۔(۲) جمعہ کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت (گھڑی) ہے‘ اس میں دُعا قبول ہوتی ہے۔ اس گھڑی کے تعیین میں روایات اور علماء کے اقوال مختلف ہیں‘تاہم دو وقتوں کی ترجیح ثابت ہے۔ اوّل: امام کے خطبہ کے لیے ممبرپر جانے سے نمازِ جمعہ سے فارغ ہونے تک (مسلم)‘ خاص طور پر دونوں خطبوں کے درمیان کا وقت۔ دوسرا:جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک۔(ترمذی) (۳) شب قدر میں مانگی جانے والی دُعا۔ (۴) اذان واقامت کے درمیان کی دُعا۔ (ترمذی) (۵)فرض نمازوں کے بعد کی دُعا۔ (۶) سجدے کی حالت میں مانگی جانے والی دُعا۔(۷)قرآن مجید کی تلاوت اور ختم قرآن کے وقت مانگی جانے والی دُعا۔ (۸) رمضان شریف کے مہینے میں افطارکے وقت کی دُعا۔(۹)ماہ رمضان المبارک کے تمام دن ورات ‘ اور عید الفطر کی رات میں مانگی جانے والی دُعا ۔(۱۰)عرفہ کے دن کی دُعا (۹ ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے غروبِ آفتاب تک)۔ (ترمذی)(۱۱)مزدلفہ کی دُعا(۱۰) ذی الحجہ کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سے طلوعِ آفتاب سے پہلے تک۔(۱۲)جمعہ کی رات میںدُعا۔ (ترمذی‘ نسائی) (۱۳)آدھی رات کے بعد سے صبح صادق تک ۔(۱۴)آب زم زم پینے کے بعد۔ (مستدرک حاکم)(۱۵)جہاد میں عین لڑائی کے وقت۔ (ابوداؤد)(۱۶)مسلمانوں کے اجتماع کے وقت۔ (صحاح ستہ)(۱۷)بارش کے وقت۔ (ابوداؤد)(۱۸)بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑتے وقت۔ (ترمذی)
اسی طرح دُعا کے لیے مخصو ص مقامات کی بھی کوئی قید نہیں‘ البتہ احادیث و آثار میں درج ذیل مقامات پر دُعائیں قبول ہونے کی صراحت موجود ہے:(۱) بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے۔ (۲)مسجد نبویﷺ میں (۳)ملتزم‘ یعنی وہ جگہ جو حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے‘اس پر چمٹ کر دُعا کرنا۔ (۴) میزابِ رحمت کے نیچے۔(۵) بیت المقدس میں۔ (۶) رکن و مقامِ ابراہیم کے درمیان۔ (۷) صفا و مروہ پر۔ (۸) مقامِ ابراہیمؑ کے پیچھے۔ (۹)اس جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے۔(۱۰) عرفات میں۔ (۱۱)آبِ زم زَم پیتے وقت۔ (۱۲) مشعر ِ حرام ‘ مزدلفہ میں۔ (۱۳) رکنِ یمانی اور حجرِا سود کے درمیان۔ (۱۴) جمرۂ صغریٰ اور جمرۂ وسطیٰ کے پاس کنکریاں مارنے کے بعد۔
مستجاب الدعوات بندے
وہ حضرات جن کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور احادیث میں جن کی دُعاؤں کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے:
مظلوم کی دُعا یعنی ایسا شخص جس پر کسی طرح کا ظلم ہوا ہو ۔ (بخاری ومسلم)
مضطر یعنی مصیبت زدہ کی دُعا۔ (بخاری ومسلم)
والدین کی دُعائیں اولاد کے حق میں تیزی کے ساتھ اثر کرتی ہیں‘لہٰذا ہمیشہ ان کی دُعائیں لیتے رہنا چاہیے اور اُن کی بددُعا سے بچنا چاہیے۔ (مسلم)اسی طرح وہ اولاد جووالدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور دل وجان سے ان کی خدمت کرے ان کی دُعاؤں میں بھی شانِ قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔مسافر یعنی جو اپنے گھر بار اوراہل وعیال سے دور ہو۔ مسافرآرام نہ ملنے کی وجہ سے مجبور اور پریشان ہوتا ہے۔ جب اپنی مجبوری اور حاجت مندی کی وجہ سے دُعا کرتا ہے تو اُس کی دُعا اخلاص سے بھری ہوتی ہے اور صدق دل سے نکلنے کی وجہ سے قبول ہوتی ہے۔ (ابوداؤد)
افطار کے وقت روزہ دار کی دُعا۔ یہ وقت لمبی بھوک پیاس کے بعد کھانے پینے کے لیے نفس کے شدید تقاضے کا ہوتا ہے۔ چونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ایک فریضہ کو انجام دیا ہے اور اُس کی خوشنودی کے لیے بھوک پیاس برداشت کی ہے اس لیے روزہ کے اختتام پربندہ کو یہ مقام دیا جاتا ہے کہ اگروہ اس وقت دُعا کرے توضرور قبول کی جائے گی۔ (ترمذی)
ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کے لیے غائبانہ دُعا بھی مقبول ہے۔ اپنے لیے توسب دُعا کرتے ہیں مگراس کے ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی خصوصی اور عمومی دُعا کرنی چاہیے۔ خواہ کوئی دُعا کے لیے کہے یانہ کہے‘ دوسروں کے لیےدُعا کرتے رہیں‘ کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ سب دُعاؤں سے بڑھ کر جلداز جلد قبول ہونے والی دُعا وہ ہے جوغائب کی غائب کے لیےہو۔ (ترمذی) کیونکہ یہ دُعا ریاکاری سے پاک ہوتی ہے‘ محض خلوص اور محبت کی بنیاد پر کی جاتی ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کی غیرحاضری میں کی جانے والی دُعا قبول ہوتی ہے اور اُس کے سرکے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے بھائی کے لیے دُعا کرتا ہے توفرشتہ آمین کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ :تُونے اپنے بھائی کے حق میں جودُعا کی ہے‘ تیرے لیے بھی اس جیسی نعمت ودولت کی خوش خبری ہے۔ (مسلم)
حجاج ومعتمرین کی دُعا۔ جوشخص حج یاعمرہ کے سفر پر نکلا ہواس کی دُعا قبول ہونے کا وعدہ حدیث میں ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ حج وعمرہ کے مسافر بارگاہ الٰہی کے خصوصی مہمان ہیں۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں تووہ قبول فرمائے گا اور اگر اُس سے مغفرت طلب کریں توان کی بخشش فرمادے گا۔ (ابن ماجہ ونسائی)
مریض اور مجاہد فی سبیل اللہ کی دُعا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ مریض جب تک شفایاب نہ ہو اور مجاہد جب تک واپس نہ ہو ان کی دُعا بھی قبول ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب تم بیمار کے پاس جاؤ تواس سے دُعا کے لیے کہو۔ (ابن ماجہ) مجاہد ‘ اللہ کے راستہ میں اپنی جان ومال کی قربانی دینے کے لیے نکل کھڑا ہوا توجب وہ دُعا کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی دُعا قبول فرماتا ہے۔
دُعا قبول ہونے کی علامت
دُعا مانگتے وقت اپنے گناہوں کویاد کرنا‘ اللہ کا خوف طاری ہونا‘ بے اختیار آنسوآجانا‘ بدن کے روئیں کھڑے ہوجانا‘ اس کے بعد اطمینانِ قلب اور ایک قسم کی فرحت محسوس ہونا‘ بدن ہلکا معلوم ہونے لگنا‘ گویا کندھوں پر سے کسی نے بوجھ اُتار لیا ہو۔ جب ایسی حالت پیدا ہو تو اللہ کی طرف خشوعِ قلب کے ساتھ متوجّہ ہوکر اُس کی خوب حمد وثنا اور درودکے بعد اپنے لیے‘ اپنے والدین‘ رشتہ داروں‘ اساتذہ اور مسلمانوں کے لیے گڑگڑا کر دُعا کریں۔ ان شاء اللہ اس کیفیت کے ساتھ کی جانے والی دُعا ضرور قبول ہوگی۔ دُعا کی قبولیت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کا وقت معیّن ہے ۔نااُمید بھی نہیں ہونا چاہیے اور یوں نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے دُعا کی تھی مگر قبول نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناامید ہونا مسلمان کا شیوہ نہیں۔ دُعا کی قبولیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مطلوب سے بہتر کوئی دوسری شے انسان کو عطا فرماتا ہے‘ یا کوئی آنے والی مصیبت دور کردیتا ہے۔
خلاصہ کلام
دُعا مظہر ِعبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ یہ مضطربِ قلوب کے لیے سامانِ سکون‘ گمراہوں کے لیے ذریعۂ ہدایت‘ متقیوں کے لیے قربِ الٰہی کا وسیلہ اور گناہگاروں کے لیے اللہ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لیے ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم دشمنوں سے نجات اور طرح طرح کی مصیبتوں کے دور ہونے کے لیے بہت سی تدابیرکرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور مفید ہے (یعنی دُعا)۔ ہمیں چاہیے کہ اس اہم اور مہتم بالشان عبادت کے ارکان وشرائط اورواجبات ومستحبات کے ساتھ منہیات ومکروہات سے بچتے ہوئے اپنے خالق و مالک کے سامنے وقتاً فوقتاً خوب دُعائیں کریں۔نیز ہمارا طرزِعمل ایسا ہو کہ ہمیں کسی سے دُعا کے لیے کہنا نہ پڑے جبکہ اس کے دل سے ہمارے حق میں خود بخود دُعاؤں کے چشمے پھوٹیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام آداب کو ملحوظ ِ خاطررکھتے ہوئے‘ قبولیت ِدُعا کے کامل یقین کے ساتھ‘ خوب دُعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!