(علومِ قرآنی) علم تفسیر اور مفسرین کرام(۴) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

7 /

علم تفسیر اور مفسرین کرام(۴)پروفیسر حافظ قاسم رضوان

(د)تابعینؒ کے تشریحی و تفسیری اقوال

تابعین عظام میں سے کچھ مشہور مفسرین کا ذکر درج ذیل ہے:
(۱)حضرت مجاہد ؒ
مجاہدبن جبر ابوالحجاج مخزومی‘۲۱ھ میں خلافت ِفاروقی کے دور میں پیدا ہوئے۔ حالت سجدہ میں آپ نے ۱۰۳ھ میں وفات پائی۔ آپ ؒحضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے خاص شاگردوں میں سے اور سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ؒاور امام بخاری ؒنے ان کی تفسیر کی صحت کو تسلیم کیاہے۔امام بخاری ؒاپنی الجامع الصحیح کی کتاب تفسیر میں بکثرت مجاہد کے اقوال نقل کرتے ہیں‘ اس سے بڑھ کر آپ ؒکی ثقاہت وعدالت کی اور کیا شہادت ہو سکتی ہے۔ فضل بن میمون روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مجاہد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ کو تیس مرتبہ قرآن پاک سنا یا۔ نیز مجاہد سے یہ قول بھی مروی ہے کہ میں نے تین مرتبہ ابن عباس ؓ کو قرآن سنایا۔ ہر آیت پر ٹھہر کر دریافت کرتا کہ یہ کیسے اور کہاں نازل ہوئی! ان دونوں روایتوں میں تعارض نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ حفظ و ضبط اور تجوید وقراءت کے لیے مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ کو تیس مرتبہ قرآن سنایا ہو۔ پھر اس کے بعد قرآن کے معانی و مطالب اور اسرار و رموز معلوم کرنے کے لیے تین مرتبہ مزید سنایا ہو‘ جیسا کہ ابن ابی ملیکہ ؒروایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مجاہد‘ ابن عباس ؓ سے قرآن کی تفسیر دریافت کر رہے ہیں اور ان کے ہمراہ ان کی تختیاں بھی ہیں۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ لکھتے جائو‘ حتیٰ کہ مجاہد نے مطلوبہ تفسیر لکھ لی (مقدمہ اصول تفسیر از ابن تیمیہؒ) ۔ اپنی تفسیر میں ابن جریر‘ ابوبکر الحنفی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوریؒ کویہ کہتے سنا کہ جب مجاہد سے منقول تفسیر تمہیں میسّر آجائے تو اسے کافی خیال کرو۔ امام ذہبی ؒتحریر کرتے ہیں کہ پوری اُمت مجاہد کی امامت اور ان سے اخذ و احتجاج کرنے پر متفق ہے۔ صحاحِ ستہ کے جامعین نے بھی آپ سے روایت کی ہے۔ قتادہ کا کہنا ہے کہ تفسیر کے جو علماء باقی ہیں‘ ان میں مجاہد سب سے بڑے عالم ہیں۔ علمائے کرام کے ان اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مجاہدکا پایۂ فضیلت کس قدر بلند تھا۔مجاہد اگرچہ تابعین میں سے ہیں لیکن صحابۂ کرامؓ ان کی قدر کرتے تھے۔ مجاہد کا خود کہنا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کی صحبت میں رہا اور میں ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا‘ لیکن وہ میری خدمت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کی رکاب پکڑ کر فرمایا : ’’کاش! میرا بیٹا سالم اور میرا غلام نافع حافظہ میں آپ جیسے ہو جائیں۔‘‘
(۲)حضرت سعید بن جبیرؒ
آپ کا نام سعید بن جبیر بن ہشام اسدی اور کنیت ابو محمدیا ابوعبد اللہ ہے۔ حبشی الاصل ‘ سیاہ فام اور اعلیٰ سیرت وکردار کے حامل تھے۔ سعید بن جبیرؒ نے حضرات عبد اللہ بن عباس‘ عبد اللہ بن عمر‘ عبد اللہ بن زبیر‘ انس بن مالک‘ عبد اللہ بن مغفل اور ابومسعود البدری جیسے ممتاز صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے استفادہ کیا۔ آپ عبادت و زہد میں معروف ہیں‘ رات کو نماز میں کثرت سے رونے کی بنا پر ان کی بینائی میں نقص پیدا ہو گیا تھا۔ سعید بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے قراءت و تفسیر کا درس لیا اور زیادہ تر ان کے دامن ہی سے وابستہ رہے۔ آپ نے مختلف صحابہ کی قراءتیں حفظ کر رکھی تھیں اور ان کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اسماعیل بن عبدالملکؒ بیان کرتے ہیں کہ سعید بن جبیر ماہ رمضان میں ہمیں نمازپڑھایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک رات ابن مسعودؓ کی قراءت کے مطابق پڑھتے‘ دوسری رات زید بن ثابتؓ کے مطابق اور اسی طرح ہر شب جداگانہ انداز میں تلاوت کیا کرتے۔ مختلف قراءتیں جمع کرنے کی بنا پرآپ قرآن پاک کے معانی و مطالب سے بھی پوری طرح آگاہ ہو گئے تھے‘ مگر تفسیر بالرائے کرنے سے احتراز کیاکرتے تھے۔
سعید بن جبیر کی ذات میں تمام تابعین کا علم یکجا ہو گیا تھا۔ دوسرے لوگ صرف ایک دوفنون میں مہارت وبصیرت رکھتے تھے‘ جبکہ آپ جامع الفنون تھے۔ خصیفؒ کا ان کے بارے میں قول ہے کہ تابعین میں طلاق کے مسائل سب سے زیادہ سعید بن المسیّبؒ جانتے تھے‘ مناسک ِحج کا علم عطاء ؒکو حاصل تھا‘ حلال و حرام کے عالم طائوسؒ‘تفسیر کے جاننے والے مجاہدؒ اور ان سب کے جامع سعید بن جبیرؒ تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پرحضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان کے علم پر بھروسا کرتے‘ اور جب اہل کوفہ آپؓ سے مسائل دریافت کرنے اور فتویٰ لینے آتے تو آپؓ فرماتے کہ کیا سعید بن جبیر تمہارے یہاں موجود نہیں! عمر و بن میمونؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:سعید بن جبیرؒ اللہ سے جا ملے‘ سطح زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں جو ان کے علم کا محتاج نہ ہو۔ قتادہ کا قول ہے کہ سعید تابعین میں سب سے بڑے مفسر تھے۔ ابوالقاسم طبری کا کہنا ہے کہ سعیدثقہ‘ حُجّت اور امام المسلمین تھے۔ ابن حبان نے سعید بن جبیر کو ثقات میں شمار کیا ہے اور کہا کہ وہ فاضل اور متقی انسان تھے۔ اصحابِ صحاحِ ستہ بھی آپ سے روایت کرنے میں متفق ہیں۔ سعید بن جبیر کی بہت سی روایات مرسل (جس میں صحابی کا واسطہ محذوف ہو) ہیں‘ لیکن ان کی مرسلات قابل اعتماد ہیں۔ یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ سعید بن جبیر کی مرسلات مجھے عطاء اور مجاہد کی مراسیل سے زیادہ پسند ہیں۔ ۹۵ھ میں آپ نےحجاج بن یوسف کے ہاتھوں ۴۹ برس کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ حضرت سعید بن جبیر کا شہادت سے قبل حجاج کے ساتھ ایک مناظرہ منقول ہے‘جس سے آپ کی قوت ایمانی ‘ایقان اور توکّل علی اللہ کی مضبوطی ظاہر ہوتی ہے۔
سعید بن جبیر ؒنے عبد الملک بن مروان کی فرمائش پر ایک تفسیر لکھی تھی اور خلیفہ نے اسے شاہی خزانہ میں محفوظ کرا دیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ تفسیر عطاء بن دینارؒ(متوفی ۱۲۶ھ) کے ہاتھ آگئی اور وہ اس نسخہ کی بنیاد پراس تفسیر کی روایات کو حضرت سعید بن جبیرؒ سے مرسلا ً روایت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عطاء بن دینار ؒسے سعید بن جبیر کی جو (تفسیری) روایات منقول ہیں‘ وہ محدثین کی اصطلاح کے مطابق ’وجادہ‘(اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ذاتی طور پر کسی عالم کی صحیح طور پر پہچانی ہوئی تحریر کے کسی تحریری مجموعہ سے روایت کرے اور اس عالم سے اس کا سماع نہ ہوا ہو) ہیں اور بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں۔
(۳)حضرت عکرمہؒ
آپ عکرمہ مولیٰ ابن عباس کے نام سے مشہور اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ یہ بربری غلام تھے اور حصین بن ابی الحرالعنبری نے انہیں بطور ہدیہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کو پیش کیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ان کو انتہائی محنت سے تعلیم دی۔ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کے علاوہ حضرات علی ‘ ابوہریرہ ‘ ابن عمر ‘ ابو سعید خدری‘ عقبہ بن عامر‘جابر‘ معاویہ‘ حسن بن علی اور بعض دوسرے صحابہؓ سے بھی روایات نقل کی ہیں۔ عکرمہ کا اپنا قول ہے کہ میں نے چالیس سال طلب علم میں گزارے۔ ابن کثیر کے مطابق انہوں نے مصر‘ شام‘ عراق اور افریقہ تک کے سفر کیے۔ امام شعبی کا کہنا ہے کہ ہمارے زمانہ میں کتاب اللہ کا کوئی عالم عکرمہ سے بڑا باقی نہیں رہا۔ قتادہ کا قول ہے کہ تابعین میں چار آدمی سب سے زیادہ عالم تھے :عطاء‘ سعید بن جبیر‘ عکرمہ اور حسن بصری رحمہم اللہ۔ عکرمہ ؒ قرآن کی تفسیر میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے اور علماء نے فراخ دلی سے اس کا اعتراف کیا ہے ۔ ابن حبان کا کہنا ہے کہ عکرمہ اپنے زمانے کے بہت بڑے فاضل قرآن وفقہ تھے۔ عمر وبن دینار کا قول ہے کہ جابر بن زید نے مجھے چند سوالات بتلا کر کہا کہ عکرمہ سے ان کے بارے میں پوچھئے‘ وہ علم کے بحر بیکراں ہیں۔ امام عکرمہ روایت حدیث میں امین‘ علم وفضل میں دوسروں پر فائق اور کتاب اللہ کے فہم و ادراک میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ نے ۱۰۴ھ میں انتقال فرمایا۔
حضرت عکرمہ پر اعتراضات کی حقیقت :بعض محدثین نے عکرمہ پر کچھ اعتراض کیے ہیں اور ان کی ثقاہت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محقق علماء نے ان اعتراضات کو پوری تحقیق و تفتیش کے بعد ردّ کیا ہے۔ اس مسئلے پر حافظ ابن حجرؒ نے مقدمہ فتح الباری میں نہایت مبسوط اور کافی بحث کی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ متعدد ائمہ حدیث نے عکرمہ کے حالات کی تحقیق اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کی تفتیش کے لیے مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں‘ جن میں حافظ ابن جریر طبری‘ امام محمد بن نصر مروزی‘ ابو عبد اللہ بن مندہ‘ ابو حاتم بن حبان اور ابو عمر بن عبد البرجیسے حضرات شامل ہیں۔ ابن حجر نے یہ بھی تحریر کیا کہ عکرمہ پر جو اعتراض وارد کیے جاتے ہیں‘ ان کا دارومدار تین باتوں پر ہے۔ پہلے یہ کہ انہوں نے بعض غلط باتیں حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب کردی ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ عقیدۃً خارجی تھے ۔ تیسرے یہ کہ وہ اُمراء و حکام سے ہدایا وصول کر لیتے تھے۔ جہاں تک آخری اعتراض کا تعلق ہے تویہ کوئی ایسی غلط بات نہیں کہ جس پر ان کی روایات کو رد کیا جائے‘ سلف سے یہ طرزِعمل ثابت ہے۔ باقی دو اعتراضات کے بارے میں ابن حجرؒنے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ ان میں سے کوئی اعتراض یا الزام ان پر ثابت نہیں ہوپایا۔ اس ضمن میں جتنے قصے عکرمہ کی طرف منسوب ہیں ‘حافظ ابن حجرنےایک ایک کو نقل کر کے اس کی مدلل تردید یا توجیہہ کی ہے۔ مثلاً ان پر جھوٹ کا جوالزام لگایا گیا ہے اس کی وجہ ایک غلط فہمی ہے۔ بسا اوقات عکرمہ نے ایک حدیث دو آدمیوں سے سنی ہوتی تھی۔اب ایک موقع پر وہ ایک آدمی سے روایت کرتے‘ پھر اسی حدیث کے بارے میں کوئی پوچھتا تو دوسرے آدمی سے روایت کر دیتے۔ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ یہ حدیث کے حوالے سے افترا باندھتے ہیں‘ حالانکہ دونوں مرتبہ ان کی روایت صحیح اور درست تھی۔ اس لیے عکرمہ کا کہنا ہے کہ بھلا وہ لوگ جو میرے پیٹھ پیچھے میری تکذیب کرتے ہیں‘ میرے سامنے میری تکذیب کیوں نہیں کرتے! مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ لوگ میرے سامنے تکذیب کریں تو میں ان کو حقیقت حال سے آگاہ کردوں۔ اسی طرح عکرمہ پر جو خارجی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے‘ تو اس حوالے سے ابن حجر لکھتے ہیں کہ اگر عکرمہ کا خارجی ہونا ثابت بھی ہو جائے تو اس سے ان کی روایت میں فرق نہیں آتا‘ کیونکہ وہ اس بدعت کے داعی نہ تھے‘ مگر یہ بات (کہ وہ خارجی تھے) کسی دلیل و برہان سے ثابت نہیں ہوتی۔
اسی طرح عکرمہ پر ایک یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ حضرت ابن عباسؓ کی طرف غلط بات منسوب کرنے کے خوگر تھے۔ اس کی اصلیت یہ ہے کہ عکرمہ حضرت ابن عباسؓ ہی کی صحبت و رفاقت میں رہا کرتے تھے‘اس بنا پر حضرت ابن عباسؓ سے کثرتِ روایات کی وجہ سے ان کی صداقت و عدالت میں کوئی فرق نہیں آتا۔یہ ایک فطری امر ہے اور اسےکسی طرح بھی افترا پردازی قرار نہیں دیاجا سکتا۔کثرت ِروایت ایسا کوئی عیب نہیں کہ جس سے راوی کی ثقاہت و عدالت جاتی رہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی زندگی میں بھی بعض لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ حدیث کے حوالے سے کثیر الروایت ہیں۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ دوسرے اصحاب اپنے کاروبارِ دنیا میں بھی مصروف رہتے جبکہ مجھے رفاقت نبوی ؐکے سوا کوئی دوسرا کام نہ تھا۔ اب اس کے قطعاً یہ معنی نہیں کہ اس وجہ سے حضرت ابوہریرہؓ کی ثقاہت و صداقت خدانخواستہ مشکوک ہو گئی۔ عکرمہ بھی اس اعتراض سے نابلدنہ تھے‘ وہ کہا کرتے کہ کاش جو لوگ میری تکذیب کرتے ہیں وہ میرے روبرو کریں اور میں انہیں جواب دوں (یعنی مطمئن کروں)۔ عثمان بن حکیمؒ بیان کرتے ہیں کہ میں ابوامامہ سہل بن حنیفؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ عکرمہ بھی آ گئے۔ کہنے لگے: ابوامامہ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں‘ سچ بتایئے کہ کیا آپ نے ابن عباسؓ کو یہ کہتے سنا تھا: عکرمہ جو کچھ بھی مجھ سے سن کر بیان کرے‘ اس کی تصدیق کیجیے کہ اس نے مجھ پر جھوٹ نہیں باندھا۔ ابوامامہ ؒنے جواب دیا:جی ہاں!
صاحب ِعدل نقاد حدیث کے اقوال ظاہر اور ثابت کرتے ہیں کہ عکرمہ جلیل القدر تابعی اور قابل اعتماد تھے۔ان کی ثقاہت و عدالت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تھی۔ ان کے بارے میں جو بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں‘ وہ رقابت کا شاخسانہ اور ان کا مقصد ان کی عظمت گھٹانا اور لوگوں کی توجہ ان کی طرف سے ہٹانا ہے۔ ذیل میں علمائے جرح و تعدیل کے ان کے بارے میں چند اقوال درج کیے جاتے ہیں:
محدث ابن معینؒ کہتے ہیں کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص عکرمہ اور حماد بن ابی سلمہ پر نکتہ چینی کررہا ہے تو سمجھ لو کہ اس کا اسلام مشکوک ہے۔ امام العجلیؒ کا قول ہے کہ عکرمہ ایک ثقہ تابعی ہیں‘ ان پر خارجی ہونے کا الزام ایک بہتان ہے۔ امام بخاریؒ کا کہنا ہے کہ ہمارے سب اصحاب عکرمہ کی روایات سے احتجاج کرتے ہیں۔ امام نسائی ؒنے عکرمہ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ امام بخاری ‘ ابودائود اور دیگر ممتاز محدثین آپ سے روایت کرتے ہیں۔ امام مسلمؒ بھی آخر کار آپ کی تعدیل کرنےاور آپ سے روایت لینے لگے۔ امام مروزیؒ کا بیان ہے کہ عکرمہ سے اخذ و نقل پر جملہ محدثین کا اجماع منعقد ہو چکا ہے‘ہمارے معاصر اکابرمحدثین نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے‘ مثلاً احمد بن حنبل‘ ابن راہویہ‘ یحییٰ بن معین‘ ابوثور وغیرہم۔میں (یعنی امام مروزی) نے ابن راہویہ سے عکرمہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے اس سوال پر اظہارِ حیرت کرتے ہوئے کہا :عکرمہ توہمارے نزدیک امام الدنیا ہیں۔ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا کہ: کیا عکرمہ کی روایت سے احتجاج کیا جا سکتا ہے ؟آپ نے فرمایا:ہاں!
(۴)حضرت طائوس ؒ
آپ طائوس بن کیسان الحمیری الجندی ہیں اور کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے۔ یہ غلام تھے اور یمن کے شہر جند کے رہنے والےتھے۔ انہوں نے حضرات عبداللہ بن عباس‘ عبداللہ بن مسعود‘ عبداللہ بن عمر‘ زید بن ثابت‘ زید بن ارقم‘ عبداللہ بن عمرو بن العاص اور متعدد دوسرے صحابہ کرامؓ سے کسب فیض کیا۔ حضرت عائشہؓ ‘ حضرت معاذ بن جبلؓ اور خلفائے راشدین سے ان کی روایات مرسل ہیں۔ طائوس تفسیر قرآن‘ علم و فضل کے علاوہ عبادت و زہد میں بھی بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے چالیس بار حج کی سعادت حاصل کی۔ خود طائوس کا قول ہے کہ میں پچاس صحابہ کی صحبت میں رہ کر ان سے استفادہ کر چکا ہوں۔دیگر صحابہ کی نسبت آپ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کےچشمہ علم و فضل سے خوب سیراب ہوئے۔ حضرت ابن عباسؓ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں طائوس کو جنّتی خیال کرتا ہوں ۔عمرو بن دینارؒ کا قول ہے کہ میں نے طائوس جیسا صالح آدمی نہیں دیکھا‘ (اور) میں نے لوگوں کے مال و دولت کے معاملے میں طائو س سے زیادہ سیرچشم کوئی نہیں دیکھا۔ ابن معین کے مطابق طائوس ثقہ ہیں۔ ابن حبان کا کہنا ہے کہ طائوس اہل یمن کے عبادت گزاروں میں شامل تھے‘ آپ تابعین کے سردار اور مستجاب الدعوات تھے۔ علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ ان (طائوس) کی جلالت ِقدر‘ فضیلت‘ وفورِ علم‘ صلاح و تقویٰ ‘ قو ّتِ حافظہ اور احتیاط پر علماء کا اتفاق ہے۔ ابونعیم اصفہانی ؒنے حلیۃ الاولیاء میں ان کے صلاح و تقویٰ کے واقعات اور ملفوظات تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔ ۱۰۵ھ میں منیٰ یا مزدلفہ میں طائوس کی وفات ہوئی۔ جنازے میں علماء و صلحاء ‘ارکانِ حکومت اور عوام کی کثیر تعداد شریک تھی۔
(۵)حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ
اسم گرامی عطاء بن ابی رباح‘ مکی قرشی اور کنیت ابومحمد ہے۔ آپ ابن خیثم قریشی کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) تھے۔ ۲۷ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور ۱۱۴ھ میں راہی ٔملک عدم ہوئے۔ تابعین کے دور میں عطاء نام کے چار بزرگ عطاء بن ابی رباح‘ عطاء بن یسار‘ عطاء بن السائب اور عطاء الخراسانی رحمہم اللہ بہت مشہور ہیں۔ ان میں پہلے دو بالاتفاق ثقہ ہیں‘ آخری دو کے بارے میں کچھ کلام ہوا ہے۔ مگرعلومِ دینیہ کی کتابوں میں جب صرف عطاء لکھا جاتا ہے تو عموماً عطاء بن ابی رباح ہی مراد ہوتے ہیں۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت عبداللہ بن زبیر ‘ حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عائشہ اور دوسرے کئی صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے استفادہ کیا۔ ان کا خود کہنا ہے کہ میں نے دو صد صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ہے۔ آپ ثقہ ‘عالم‘ محدث اور فقیہہ تھے‘خاص طور پر علمِ فقہ میں آپ بہت مشہور ہوئے‘ عبادت و زہد میں بھی معروف تھے۔اہل مکّہ کی فتویٰ نویسی آپ پر ختم ہو گئی تھی۔ جب اہل مکّہ حضرت ابن عباسؓ سے استفادہ کرنے اور فتویٰ پوچھنے آئے تو آپ فرماتے : اے اہل مکّہ! تم میرے پاس آتے ہو‘ حالانکہ تمہارے درمیان عطاء جیسا شخص موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ اپنے زمانے میں مناسک حج کے سب سے بڑے عالم تھے۔
امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ میں نے اپنے ملنے والوں میں سے عطاء جیسا کسی کو نہیں پایا۔ امام اوزاعی ؒکے مطابق عطاء جب فوت ہوئے تو وہ سب لوگوں کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھے۔ ابن جریحؒ کہتے ہیں کہ بیس سال تک مسجد کا فرش ان کا بستر رہا۔ ابن حبانؒ لکھتے ہیں کہ علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے اعتبار سے عطاء تابعین کے سرخیل تھے۔ محمد بن عبداللہ الدیباج کا قول ہے کہ میں نے کوئی مفتی عطاء سے بہتر نہیں دیکھا‘ ان کی مجلس مسلسل ذکر اللہ کی معمور رہتی تھی جس کا سلسلہ ٹوٹتا نہیں تھا‘ اسی دوران ان سے (فقہی) سوال کیا جاتا تو بہترین جواب دیتے۔ اصحاب صحاح ستہ ‘عطاء بن ابی رباح سے اخذ و نقل کرتے ہیں۔
درج بالا بیانات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عطاء بلند پایہ عالم‘ ثقہ اور راست گفتار تھے۔ ان کے استاد حضرت ابن عباسؓ نے بھی اس کی شہادت دی ہے۔ قتادہؒ کہا کرتے تھے کہ تابعین کے جید علماء چار تھے۔ مناسک حج کے سب سے بڑے عالم عطاءؒ تھے‘ سب سے بڑے مفسر قرآن سعید بن جبیرؒ تھے‘ سیرومغازی میں سب سے زیادہ شہرت عکرمہؒ کو حاصل ہوئی اور حلال و حرام کے بڑے عالم حسن بصریؒ تھے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے تلامذہ میں سے عطاء کثیر الروایت نہ تھے‘ دوسرے ساتھی (تلامذہ) اس ضمن میں ان سے سبقت لے گئے۔ مگر عطاء بن ابی رباح کو تفسیر میں جو مقام حاصل ہے‘ اس سے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ قلت روایت کی وجہ ان کی حد درجے احتیاط اور کسی بھی قسم کی تفسیر بالرائے سے اجتناب ہے۔ عبدالعزیز بن رفیع بیان کرتے ہیں کہ عطاء سے ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا‘ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ سائل نے کہا کہ اپنی رائے (اور سوچ) سے بیان کر دیں۔ عطاء نے کہا کہ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ میری رائے کو دین قرار دیا جائے۔ البتہ عطاء بن ابی رباح جن صحابہ کرامؓ سے روایت کرتے ہیں‘ ان سب سے ان کاسماع ثابت نہیں‘ جیسے حضرات عبداللہ بن عمر‘ ابوسعید خدری‘ ابوالدرداء‘ اسامہ‘ اُم سلمہ اور اُمّ ہانی‘ فضل بن عباس‘ رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ۔اس لیے ان تمام حضرات سے ان کی بلاواسطہ روایتیں مرسل ہیں۔
(۶) حضرت سعید بن المسیّبؒ
آپ سعید بن المسیّب بن حزن القرشی المخزومی‘ حضرت ابوہریرہؓ کے داماد ہیں‘ اسی لیے حضرت ابوہریرہؓ کی بہت سی روایات آپ ہی سے مروی ہیں۔ عبادت و زہد کا یہ حال تھا کہ چالیس سال تک کوئی اذان ایسی نہیں ہوئی جو انہوںنے مسجد میں نہ سنی ہو۔ مسلسل روزے رکھتے تھے اور چالیس مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ ہدایہ قبول نہیں کرتے تھے اور گزربسر تیل وغیرہ کی تجارت پر تھی۔ امام مالکؒ نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ میں بعض اوقات صرف ایک حدیث کی طلب میں کئی کئی دن رات کا سفر کیا کرتا تھا۔ آپ کی ولادت حضرت عمرؓ کی خلافت کے تیسرے سال ہوئی ‘ اس لیے آپؓ نے بہت سے صحابہ کرامؓ سے احادیث سنی ہیں۔ جن اصحابِ رسول سے سعید بن المسیّبؒ نے براہِ راست احادیث نہیں سنیں‘ ان سے اکثر بلاواسطہ (مرسلا ً) روایت کرتے ہیں۔ ان کی مراسیل بہت سے ایسے علماء اور فقہاء کے نزدیک بھی قابل قبول ہیں جو مرسل کو حُجّت نہیں مانتے‘ جیسے امام شافعیؒ مرسل کو قابل استدلال نہیں سمجھتے لیکن ان کا قول ہے کہ ابن مسیّب کی مرسل روایات ہمارے نزدیک حسن ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ ثقہ راویوں سے ہی روایات لیتے تھے اور غیر ثقہ کی روایات بیان نہیں کرتے تھے۔امام نوویؒ کے مطابق شوافع میں مرسل روایت کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی مسند روایت سے یا کسی اور مرسل سے یا بعض صحابہ کے اقوال سے یاصحابہؓ کےبعد اکثر فقہاء کے اقوال سے اس کی تائید ہو جائے تواسے قبول کیا جائے گا ورنہ نہیں۔ البتہ احناف کے نزدیک سعید بن المسیّب کی مراسیل علی الاطلاق قابل اعتماد اور حُجّت ہیں۔ آپ کی رحلت کے بارے میں ۹۱ھ سے لے کر ۱۰۵ھ تک مختلف اقوال ہیں۔
(۷) حضرت زید بن اسلمؒ
آپ زید بن اسلم العمری المدنی ہیں‘ کنیت ابوعبداللہ اور تعلق مدینہ منورہ سے ہے۔ آپ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ آپ نے حضرت ابن عمر‘ حضرت ابوہریرہ‘ حضرت جابر‘ حضرت انس‘ حضرت سلمہ بن الاکوع اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایات اخذ کی ہیں۔ علم تفسیر کے بہت بڑے عالم اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔ مسجد ِنبوی میں ان کا اپنا حلقہ درس ہوتا تھا۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰنؒ کے بقول میرے والد کبھی مجھے اپنے کسی شاگرد کے پاس بھیجتے تو وہ میرے سر کو بوسہ دے کر فرماتے کہ خدا کی قسم! تمہارے والد ہمیں اپنے اہل و عیال سے بھی زیادہ محبوب ہیں اور اگر ہمیں یہ خبر دی جائے کہ یا ہمارے اہل و عیال کو موت آئے گی یا زید بن اسلم کو اور ہمیں یہ اختیار ملے کہ جس کی موت کو چاہیں اختیار کر لیں‘ تو ہماری خواہش ہوگی کہ زید بن اسلم زندہ رہیں۔ حضرت ابوحازم کا کہنا ہے کہ ہم حضرت زید بن اسلم کی مجلس میں چالیس فقہاء کے ساتھ رہتے تھے‘ ہم سب کی ادنیٰ خصلت یہ تھی کہ اپنی املاک سے ایک دوسر ے کی غم خواری کرتے تھے اور اس مجلس میں مجھے کبھی دو آدمی بھی ایسے نظر نہیں آئے جو کسی بے فائدہ گفتگو (موضوع) پر بحث یا جھگڑا کر رہے ہوں۔
حضرت زید بن اسلم کا شمار ان کبار تابعین میں ہوتا ہے جنہوں نے روایت تفسیر میں شہرت پائی۔ امام احمد بن حنبلؒ ‘ ابوزرعہؒ‘ ابوحاتمؒ‘ نسائیؒ اور دیگر محدثین نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کی ثقاہت و عدالت پراس سے بڑھ کر کیا شہادت ہو سکتی ہے کہ اصحابِ صحاحِ ستہ ان سے اخذ و روایت کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ زید بن اسلم اپنے معاصرین میں کثرتِ علم کی بنا پر ممتاز تھے اور بعض ہم عصر بھی آپ سے استفادہ کیا کرتے تھے ۔ امام بخاری ؒنے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت علی بن حسین (امام زین العابدینؒ )‘زید بن اسلم کے پاس حاضر ہو کر علمی استفادہ کرتے تھے۔ نافع بن جبیر بن مطعمؒ نے ان سے کہا کہ آپ اپنی قوم کی علمی مجالس چھوڑ کر آلِ خطاب کے غلام زید بن اسلم کے یہاں آتے ہیں! (اس پر) علی بن حسین ؒنے فرمایا کہ آدمی اس شخص کی صحبت اختیار کرتا ہے جس سے کچھ دینی فائدہ ہوتا ہو۔ علمائے مدینہ میں سے جنہوں نے زید بن اسلم سے تفسیر کا درس لیا‘ ان میں درج ذیل مشہور ہیں: (ا) ان کے صاحب زادے عبدالرحمٰن بن زیدؒ (ب) امام مالکؒ بن انس‘ صاحب موطا ۔ یہاں واضح رہے کہ عبدالرحمٰن اپنے زہد و تقویٰ کے باوجود اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔حافظ ذہبی کا کہنا ہے کہ حضرت زید بن اسلم کی ایک تفسیر ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰن بن زیدروایت کرتے تھے‘ لیکن زید بن اسلم کی جو تفسیری روایات ان کے صاحب زادے عبدالرحمٰن سے مروی ہیں وہ پوری طرح قابل اعتماد نہیں۔ آپ نے ۱۳۶ھ میں سفر آخرت اختیار فرمایا۔
(۸) حضرت ابوالعالیہ ؒ
آپ رفیع بن مہران الریاحی ہیں اور کنیت ابوالعالیہ ہے۔ بنی رباح کی ایک عورت کے آزاد کردہ غلام تھے۔ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوچکے تھےلیکن حضور اقدسﷺ کی وفات کے دوسال بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ ابوالعالیہ حضرات علی‘ ابن مسعود‘ اُبی بن کعب‘ ابن عباس‘ ابوموسیٰ‘ ابوایوب اور ابوبرزہ وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے روایت کرتے ہیں۔ قرآن پاک کے بہترین حافظ اور قاری تھے۔ اپنی علمی فضیلت کی بنا پر ابوالعالیہ کو حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے تھے جبکہ دوسرے لوگ نیچے بیٹھے ہوتے اور فرماتے تھے کہ علم اس طرح انسان کے شرف میں اضافہ کرتا ہے۔ حلیۃ الاولیاء کے مطابق ماوراء النہر کے علاقے میں سب سے پہلے اذان دینے والے ابوالعالیہ ہی تھے۔ اکابر تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ابن معین‘ ابوزرعہ‘ ابوحاتم اور دیگر محدثین نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ صحاح ستہ کے اصحاب کا ابوالعالیہ سے روایت کرنے پر اتفاق ہے۔ حضرت اُبی بن کعب سے تفسیر قرآن کا ایک ضخیم نسخہ منقول ہے‘ جسے ابوجعفر رازی نے بروایت ربیع بن انس از ابوالعالیہ از اُبی بن کعب نقل کیا ہے‘ یہ سند صحیح ہے۔ مفسر ابن جریر ‘ ابن حاتم اور حاکم نے اپنی مستدرک میں اس نسخہ سے بکثرت روایات نقل کی ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں اس سے استفادہ کیا ہے۔ صحیح تر قول کے مطابق ۹۰ھ میں ابوالعالیہ نے وفات پائی(تہذیب التہذیب)۔
(۹) حضرت محمد بن کعب القرضیؒ
آپ محمد بن کعب بن سلیم بن اسد القرضی المدنی ہیں اور ابوحمزہ یا ابوعبداللہ کنیت ہے۔ آپ کے والد بنوقریظہ سے تعلق رکھتے تھے اور غزوئہ بنو قریظہ کے موقع پرنابالغ ہونے کی وجہ سے انہیں امان دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی حضورﷺ کی حیات میں ہی پیدا ہوچکے تھے۔ آپ نے حضرات علی‘ ابن مسعود‘ ابن عباس‘ ابن عمر‘ ابوہریرہ‘ جابر‘ انس بن مالک‘ براء بن عازب‘ معاویہ‘ کعب بن عجرہ‘ زید بن ارقم‘ مغیرہ بن شعبہ‘ عبداللہ بن جعفر اور دوسرے بہت سے صحابہ کرامؓ سے روایات اخذ کی ہیں۔ محمد بن کعب قرظی کے بارے میں ابن سعد کا کہنا ہے کہ ثقہ اور کثیرالحدیث عالم تھے۔ امام عجلی کے مطابق ثقہ اور صالح ہیں اور قرآن کریم کے عالم ہیں۔عون بن عبداللہ کا قول ہے کہ میں نے تفسیر قرآن کا ان سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ امام نووی کا کہنا ہے کہ ان کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے۔ محدث ابن ِحبان کے بقول محمد بن کعب مدینہ کے فضلاء میں شمار ہوتے تھے ‘ ایک مرتبہ مسجد میں وعظ کہہ رہے تھے کہ اچانک چھت گر پڑی‘ جس سے آپ اور چند رفقاء کی موت واقع ہوگئی۔ آپ شروع میں کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے‘ بعد میں دوبارہ مدینہ واپسی ہو گئی۔ مختلف اقوال کے مطابق محمد بن کعب القرضی کا ۱۰۸ھ اور ۱۲۰ھ کے درمیان وصال ہوا (تہذیب الاسماء)۔
(۱۰) حضرت علقمہؒ
آپ علقمہ بن قیس بن عبداللہ النخعی الکوفی ہیں اور کنیت ابوشُہیل ہے۔ آپ کوفہ کے باشندے ہیں۔ پیدائش حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی ہو چکی تھی۔ علقمہ نے حضرت عمر‘ حضرت عثمان‘ حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے روایت کی ہے۔ آپ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد خاص اور ان کے علم و فضل سے خوب آشناتھے۔ صورت و سیرت میں بھی ان کے بڑے مشابہ تھے۔ حضرت ابن مسعودؓ کی روایات کے حوالے سے آپ پر خاص اعتماد کیا جاتا ہے۔ نہایت خوش الحان قاری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آپ کو بلا کر قرآن پاک سنا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ علقمہ نے ایک رات میں مکمل قرآن پاک ختم کر لیا۔بالاتفاق ثقہ ہیں اور علم فقہ میں خصوصاً آپ کا مقام بہت بلند ہے۔ آپ انتہائی متواضع بزرگ تھے اور ذاتی حلقہ درس بنانا آپ کو پسند نہیں تھا۔ آپ کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ لوگ میرے پیچھے پیچھے چلیں اور ایک دوسرے سے کہیں کہ یہ علقمہ ہیں۔آپ نے اپنے مکان کے علاوہ قرآن پاک کا ایک نسخہ اور ایک گھوڑا ورثہ میں چھوڑا۔ ابوالمثنیٰ کا قول ہے کہ جب تم علقمہ کو دیکھ لو تو ابن مسعود کو نہ دیکھنےمیں کوئی مضائقہ نہیں‘ وہ ان سے بڑی حد تک مشابہ تھے۔ عبدالرحمٰن بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا:’’میں جو کچھ پڑھتا یا جانتا ہوں ‘ علقمہ بھی جانتے ہیں‘‘۔آپ نہایت ثقہ‘ امین‘ راست باز اور زہد و تقویٰ میں بلند مقام کے حامل تھے۔ احمد بن حنبل کا قول ہے کہ علقمہ صالح اور ثقہ شخص ہیں‘ اصحابِ ستہ آپ سے روایت کرنے میں متفق ہیں۔ آپ کے سفر آخرت کے بارے میں۶۲ھ سے ۷۳ھ تک مختلف اقوال ملتے ہیں(تہذیب التہذیب)۔
(۱۱) حضرت مسروقؒ
آپ مسروق بن اَجدع بن مالک الکوفی ہیں اور ابوعائشہ کنیت ہے۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے ان کا نام دریافت کیا تو جواب دیا کہ میرانام مسروق بن اجدع ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اَجدع تو شیطان کو کہتے ہیں‘ آپ مسروق بن عبدالرحمٰن ہیں۔ آپ نے خلفائے راشدین‘ حضرت اُبی بن کعب‘ حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے علمی استفادہ کیا۔ آپ حضرت ابن مسعودؓ کے خاص شاگردوں میں سب سے ممتاز اور زہد و تقویٰ میں بلند مقام رکھتے تھے۔ کوفہ کے مشہور قاضی شریح مشکل مسائل میں آپ سے مشورہ لیا کرتےتھے۔ امام شعبی کا کہنا ہے کہ میںنے مسروق سے بڑھ کر علم کا شائق نہیں دیکھا۔ امام بخاری کے استاد محدث علی بن مدینیؒ کا بیان ہے کہ میں ابن مسعودؓکے تلامذہ میں سے مسروق پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔امام حدیث علی بن مدینی کی شہادت کی اساس یہ ہے کہ مسروق نے اکابر صحابہؓ خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی صحبت و رفاقت حاصل کر کے علم وفضل کا لاجواب خزانہ جمع کر لیا تھا۔ یہ اصحاب رسولؐ اور حضرت ابن مسعودؓکے فیض ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنے عہد کے امام تفسیر اور کتاب اللہ کے معانی و مطالب کے جید عالم و فاضل قرار پائے۔
مسروق کے درج ذیل قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کتنا استفادہ کیا تھا۔ فرماتے ہیں کہ ابن مسعودؓ ہمیں قرآن پاک کی کوئی سورت سناتے اور پھر دن بھر اس کی تفسیر بیان کرتے رہتے۔ جہاں تک مسروق کی ثقاہت و عدالت کا تعلق ہے‘ یہ ایک ایسا امر ہے جس پر علمائے جرح و تعدیل نے اتفاق کیا ہے۔ ابن معین کہتے ہیں کہ مسروق جیسے شخص کی عدالت کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ابن سعدکا بیان ہے کہ مسروق ثقہ تھے اور انہوں نے احادیث ِصالحہ روایت کی ہیں۔ ابن حبان نے بھی آپ کا شمار ثقہ رواۃ و رجال میں کیا ہے۔ صحاح ستہ کے جامعین نے بالاتفاق آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔ محدث شعبہ نے ابواسحاق کا قول نقل کیا ہے کہ مسروق حج کو گئے تو کیفیت یہ تھی کہ سوتے بھی سجدہ کی حالت میں تھے۔ مشہور قول کے مطابق آپ کا انتقال ۶۳ھ میں ہوا۔
(۱۲)حضرت نافعؒ
آپ نافع بن ہرمزاوربعض کےنزدیک نافع بن کائوس ہیں اور کنیت ابوعبد اللہ ہے۔آپ نیشاپور کے باشندے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ نافع نے حضرات ابوہریرہ ‘ ابوسعید خدری‘ ابولبابہ‘ ابن عمر‘ نافع بن خدیج اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے تحصیل علم کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے تلامذہ میں سے دو حضرات کو سب سے زیادہ قابل ِ اعتماد قرار دیا گیا ہے‘ ایک ان کے صاحبزادے سالمؒ اور دوسرے ان کے غلام نافعؒ۔ امام نووی کا کہنا ہے کہ ان کی جلالت قدر اور توثیق پر اجماع ہے۔ امام بخاریؒ کا بیان ہے کہ (حدیث کی)تمام اسانید میں سے سب سے زیادہ صحیح سند(سلسلۃ الذھب) عن مالک عن نافع عن ابن عمرؓ ہے۔ خود حضرت عبداللہ بن عمرؓکا قول ہے کہ لقد منّ اللہُ تعالیٰ علینا بنا فع (اللہ تعالیٰ نے نافع کے ذریعے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے) ۔تہذیب التہذیب کے مطابق ابن حجرؒ تحریر کرتے ہیں کہ جتنی احادیث انہوں نے روایت کی ہیں‘ ان میں کوئی غلطی نہیں دریافت ہوئی۔ حضرت نافع کے خاص شاگرد امام مالکؒ کا بیان ہے کہ آپ بہت متواضع بزرگ تھے‘ عموماً ایک سیاہ چادر اوڑھے رہتے اور بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ خود نافع کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کی تیس سال خدمت کی‘ اس کے بعد ابن عامر نے انہیں پیشکش کی کہ وہ مجھے تیس ہزار درہم میں ان کے ہاتھ فروخت کردیں۔اس پر حضرت ابن عمر ؓ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں ابن عامر کے دراہم مجھے فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں‘ جائو تم آزاد ہو۔ ۱۱۷ھ میں نافع سفر آخرت کو روانہ ہوئے۔
(۱۳) حضرت شعبی ؒ
آپ عامر بن شراحیل الشعبی الحمیری ہیں اور کنیت ابوعمرو ہے۔شعبی کوفہ کے مشہور فقہائے تابعین میں سےہیںاور آپ وہاں کے قاضی بھی رہے۔شعبی نے تقریباً پانچ سو صحابہ کرامؓ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کا حافظہ غیر معمولی طور پر قوی تھا‘ عمر بھر احادیث لکھ کر کبھی یاد نہیں کیں ۔ خود فرماتے کہ جو شخص مجھے کوئی بات سناتا ہے‘ مجھے فوراً یاد ہو جاتی ہے۔ آپ کا اپنا بیان ہے کہ مجھے سب سے کم جو چیز یاد ہے وہ اشعار ہیں‘ اس کے باوجود اگر میں چاہوں تو مہینہ بھر تک شعر سناتا رہوں اور کوئی شعر مکررنہ ہو۔ شعبیؒ امام ابوحنیفہؒ کے خاص اساتذہ میں سے ہیں۔آپ کی عظمت اور جلالت قدر پر اتفاق ہے۔ محدث العجلی کے مطابق شعبی نے اڑتالیس صحابہؓ سے احادیث نبویہ کا سماع کیا ۔ امام احمد اور عجلی کا کہنا ہے کہ ان(شعبی) کی مراسیل بھی صحیح ہیں‘ کیونکہ وہ صرف صحیح روایات کو ہی مرسلا ً بیان کرتے ہیں۔ مکحول کا قول ہے کہ میں نے شعبی سے بڑھ کر فقیہہ آج تک نہیں دیکھا۔ ابن عیینہؒ تحریر کرتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ صحابہ کے بعد اپنے اپنے زمانے میں تین آدمی یکتائے روزگار تھے:(ا)حضرت ابن عباسؓ(ب)شعبیؒ (ج) سفیان ثوریؒ۔ محدث ابن شبرمہ کے مطابق انہوں نے شعبی کو یہ کہتے سنا: جو بات بھی میں نے لکھی یا کسی سے سنی وہ مجھے ازبر ہو گئی‘ جب بھی کسی نے کوئی حدیث مجھے سنائی تومیں نے اس کے اعادہ کی ضرورت محسوس نہ کی۔ ابو جعفر طبری کا قول ہے کہ شعبی بڑے عالم اور فقیہہ تھے۔ ابو اسحاق الحبال لکھتے ہیں کہ شعبی مختلف علوم میںماہر تھے۔ سلیمان بن ابی مجلز کا بیان ہے کہ میں نے شعبی سے بڑا فقیہہ نہیں دیکھا‘ حتیٰ کہ ابن المسیّب‘ طائوس‘ عطاء‘ حسن بصری اور ابن سیرین بھی ان کے ہم پلہ نہ تھے۔ ابن معین‘ ابوزرعہ اور بکثرت دیگر محدثین کے مطابق شعبی ثقہ ہیں۔ صحاح ستہ کے جامعین نے بالاتفاق آپ سے روایت لی ہے۔
ایک فاضل جید عالم اور بلند پایہ فقیہہ ہونے کے باوجود امام شعبی قرآن مجید کی تفسیر بالرائے سے اجتناب کرتے تھے۔ جب کسی آیت کی تفسیر کے حوالے سے انہیں علمائے سلف کا کوئی قول معلوم نہ ہوتا تو سوال کا جواب نہ دیتے۔ ابن عطیہ کا کہنا ہے کہ اکابر علمائے سلف مثلاً سعید بن المسیّب اور شعبی تفسیر قرآن کو بڑی وقعت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور علم وفضل کے باوصف زہد و تقویٰ کی بنا پر تفسیر بالرائے سے کنارہ کش رہتے تھے۔ ابن جریر طبری اپنے مقدمہ ٔ تفسیر میں شعبی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے ہر آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا ہے مگر اس میں احتیاط کی ضرورت ہے‘ یہ کلام الٰہی کی تفسیر کا معاملہ ہے۔ شعبی کی ولادت اور وفات کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ مشہور ترین قول یہ ہے کہ آپ۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور۱۰۹ھ میں انتقال فرمایا۔ (تہذیب التہذیب)
(۱۴)حضرت قتادہ ؒ
آپ قتادہ بن دِعامہ السدوسی البصری ہیں اور ابوالخطاب کنیت ہے۔ آپ پیدائشی طور پر نابینا ‘ عربی الاصل اور بصرہ کے رہائشی تھے۔ قتادہ نے حضرت انس ؓ ‘ ابوالطفیلؒ ‘ عکرمہؒ ‘عطاء بن رباحؒ اور ابن سیرینؒ سے احادیث روایت کیں۔ آپ وافر قوتِ حافظہ سے بہرہ ور‘ عربی اشعار کے عالم‘ ایام العرب اور علم الانساب کے زبردست ماہر اور عربی زبان وادب میں بصیرتِ تامہ رکھتے تھے۔ مفسر قرآن کی حیثیت سے بھی قتادہ ایک عظیم مقام کے حامل ہیں۔ عمر وبن عبد اللہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ سعید بن المسیّب کے ہاں قتادہ آئے اور کئی روز قیام کر کے ان سے دینی مسائل و احکامات دریافت کرتے رہے۔ آخر میں سعید نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جو کچھ مجھ سے پوچھا ہے‘ وہ سب یاد ہے؟ قتادہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! میں نے آپ سے فلاں بات پوچھی اور آپ نے اس کا یہ جواب دیا اور فلاں سوال کا آپ نے یہ حل پیش کیا کہ حسن بصریؒ نے یوں کہا۔ سعید بن المسیّب بولے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ جیسا اور انسان بھی پیدا کیا ہے۔ اپنی قوتِ حافظہ کے بارے میں قتادہ کا اپنا بیان ہے کہ میں نے کبھی کسی محدث سے حدیث کو دوبارہ سنانے کی فرمائش نہیں کی اور میرے کانوں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جسے میرے دل نے یاد نہ کر لیا ہو۔ مزید کہا کہ قرآن پاک کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں کچھ نہ کچھ(یعنی کوئی نہ کوئی روایت یاقول) میں نے سن نہ رکھا ہو۔ امام احمد کے مطابق قتادہ تفسیر کے زیادہ بڑے عالم ہیں۔ ابن سیرین کہا کرتے تھے کہ قتادہ جیسا دوسرا کوئی حافظے والا میں نے نہیں دیکھا۔ ابو حاتم کا قول ہے کہ حضرت انس ؓ کے اصحاب و تلامذہ میں سے ثقہ ترین زہری ہیں اور پھر قتادہ ۔ ان کی ثقاہت و عدالت کے لیے یہی کافی ہے کہ صحاح ستہ کے مولفین ان سے اخذواحتجاج کرتے ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ کے مطابق قتادہ کا انتقال ۱۱۸ھ میں طاعون کی وبا سے شہر واسط میں ہوا۔
(۱۵) حضرت حسن بصریؒ
آپ الحسن بن ابی الحسن یسار البصری ہیں اور کنیت ابوسعید ہے۔ آپ حضرت زید بن ثابت ؓ (بعض حضرات کے قول کے مطابق جمیل بن قطبہ) کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ آپ کی والدہ خیرہ‘ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ ؓ کی آزاد کردہ کنیز تھیں‘ چنانچہ آپ نے گاہے بگاہے حضرت اُمّ سلمہ ؓ کا دودھ بھی پیا ہے۔ ابن سعد تحریر کرتے ہیں کہ حسن بصریؒ خلافت فاروقی کے آخری دو سالوں میں کسی وقت پیدا ہوئے اور وادی القریٰ میں پروان چڑھے۔ آپ بڑے فصیح وبلیغ‘ عابد وزاہد اور یکتائے روزگار خطیب تھے اور سامعین ان کے وعظ سے بے حد متاثر ہوتے تھے۔ آپ نے حضرات علی ‘ ابن عمر‘انس رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور کثیر صحابہ و تابعین سے احادیث روایت کیں۔ حسن بصری نے بہت سے صحابہ کی زیارت کی اور ان سے علم بھی حاصل کیا۔ علم وفضل اور عبادت و زہد میں آپ کی جلالت ِقدر مسلّم ہے۔ قرآن وحدیث اور فقہ کے بھی بلند پایہ عالم تھے۔ صحاح ستہ کے جامعین نے بھی حضرت حسن بصری سے روایت کی ہے۔ آپ کے پُر حکمت ملفوظات بھی بہت مشہور ہیں۔ اس کے ساتھ آپ نہایت بہادر مجاہد بھی تھے‘ متعدد معرکوں میں شریک ہوئے۔
حضرت انس بن مالک ؓ کا قول ہے کہ دینی مسائل حسن بصری سے پوچھا کریں‘ انہیں وہ مسائل یاد ہیں اور ہم(اس عمر میں) بھول گئے۔ سلیمان التیمی کا کہنا ہے کہ حسن بصری اہل بصرہ کے استاد ہیں۔ قتادہ کے بقول : میں جس فقیہہ کی صحبت میں بیٹھا‘ حسن بصری کو اس سے بڑھ کر پایا۔ بکرالمزنی کا بیان ہے کہ جو شخص دورِ حاضر کے منفرد عالم کو دیکھنا چاہے‘ وہ حسن بصری کو دیکھ لے‘ ہم نے ان سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا۔ ابن سعد کے مطابق حسن بصری عظیم عالم‘ بلند پایہ فقیہہ ‘ نہایت ثقہ‘ بڑے عابد و زاہد‘ حد درجہ فصیح و بلیغ اور حسین وجمیل تھے۔ ابوجعفر الباقر کے سامنے جب حسن بصری کا ذکر آتا تو یوں گویا ہوتے: ان کا کلام انبیاء کے کلام سے ملتا جلتا ہے۔ اصحابِ صحاحِ ستہ نے آپ سے روایت کی ہے۔ حسن بصری نے بہت سی احادیث مرسلا ً (جس میں صحابی کے واسطے کا ذکر نہ ہو) روایت کی ہیں۔ ایسی احادیث کی صحت کے بارے میں محدثین کے درمیان اختلاف رہا ہے‘ بعض حضرات انہیں قبول کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک ان میں ضعف پایا جاتا ہے۔ ا مام ابن المدینی کا کہنا ہے کہ حسن بصری کی مرسلات اگر ثقہ راویوں سے مروی ہوں تو وہ صحیح ہیں اور بہت کم ساقط الاعتبار ہیں۔ ’تہذیب التہذیب‘ کے مطابق ابوزرعہ کا بیان ہے کہ وہ تمام احادیث جو حسن بصری نے ’’قال رسول اللہ ﷺ ‘ کہہ کر (بلا واسطہ) روایت کی ہیں‘ میں نے تحقیق سے ان کو ثابت (صحیح) پایاسوائے چار احادیث کے( جن کی بنیاد مجھے نہیں ملی)۔ حسن بصریؒ نے ۱۱۰ ھ میں داعی ٔ اجل کولبیک کہا۔ (جاری ہے)