(عرض احوال) اوآئی سی کا افغانستان پر اجلاس - ادارہ

7 /

اوآئی سی کا افغانستان پر اجلاس

آغاز میں ہم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ماہنامہ میثاق کے مارچ ۱۹۷۴ء کے شمارے سے ایک تحریر کا کچھ حصّہ نقل کیے دیتے ہیں :
’’جمعہ ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء کا دن اس اعتبار سے عرصہ دراز تک یاد رہے گا کہ اس دن جملہ مسلمانانِ پاکستان کو بالعموم اور زندہ دلانِ لاہور کو بالخصوص ایک طرف حد درجہ مسرّت وفرحت اور انتہائی نشاط و انبساط کا احساس ہوا تو دوسری طرف اسی قدر شدید رنج و غم اور اتنی ہی سخت افسردگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ------ یوں تو انسانی زندگی میں مسرت و شادمانی اور رنج وغم کچھ لازم و ملزوم ہی سے ہیں اور زندگی کا سفر مستقلاً اسی کیفیت میں گزرتا ہے کہ ؎
چند کلیاں نشاط کی چُن کر مدتوں محو ِیاس رہتا ہوں!تاہم اکثر و بیشتر ہوتا یہ ہے کہ ایک مسرت بخش واقعہ پیش آیا‘ خوشی حاصل ہوئی وہ تدریجاً اپنی انتہا کو پہنچی‘ پھر فطری طور پر اس کے احساس کی شدّت میں کمی ہونی شروع ہوئی اور جب اس کے اثرات بالکل زائل ہو گئے تویا تو کوئی نیا رنج دہ واقعہ پیش آگیا یا کوئی پرانا غم جاگ اُٹھااور کسی نیم مندمل شدہ زخم میں درد کی ٹیسیں اٹھنی شروع ہوگئیں اور اس طرح خوشی و غم اور راحت و اَلم کے دَور آتے رہے اور زندگی اپنی منزلیں طے کرتی گئی۔
جو کچھ ۲۲فروری کو ہوا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اتفاقاً ہو گیا یا ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کیا گیا‘بہرحال تھا اس کے بالکل برعکس! یعنی یہ کہ خوشی و مسرت اور راحت و شادمانی کے احساسات تدریجاً ترقی کرتے ہوئے جیسے ہی اپنے نقطہ عروج (climax)کو پہنچے‘ فوراً ہی غم اپنی پوری شدّت کے ساتھ ظاہر ہو گیا اور دفعتاً رنج و الم کا ایک مہیب پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بعض دوسرے معاملات میں تو فوری تقابل اور اجتماعِ ضدین(simultaneous contrast)کا تجربہ اس سے پہلے بھی ہوا ہے لیکن خوشی اور غم‘ مسرت اور رنج اور راحت و اَلم کا اس قدر شدید اور اتنا فوری و بیک وقت اجتماع کم از کم راقم کی یادداشت کے ذخیرے میںموجود نہیں!
اس کا ایک فائدہ البتہ ہوا‘جسے اگر یہ سب کچھ از خود ہوا تو رحمت ِخداوندی سے تعبیر کرنا چاہیے اور اگر یہ جان بوجھ کر کیا گیا تو کسی کے تدبر اور حکمت ِعملی کا شاہکار قرار دیا جانا چاہیے۔ یعنی یہ کہ نتیجۃً مسرّت و غم اور راحت و اَلم کے احساسات کچھ اس طرح مل جل بلکہ گھل مل سے گئے کہ اکثر وبیشتر لوگ کچھ کھوئے کھوئے سے تو رہے لیکن متعین طور پر خود بھی طے نہ کر پائے کہ انہیںخوشی زیادہ ہے یا غم! یا دونوںکے حاصل ضرب میں غلبہ مثبت فرحت و مسرت کو ہے یا منفی رنج و الم کو!
ََعالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان کے دل یعنی ارضِ لاہور میں انعقاد یقیناً ایک حد درجہ نشاط انگیز‘ وجد آگیں اور کیف آور واقعہ تھا۔ جیسے جیسے اس کے دن قریب آتے گئے اور خصوصاً اہل لاہور کی نگاہوںکے سامنے اس کے اہتمام کے مراحل طے ہوتے گئے دلوںکی کلیاں چٹکنی شروع ہو گئیں‘احساس کی افسردہ زمیں سے مسرّت کے سوتے پھوٹنے شروع ہو گئے‘دکھ درد کا احساس ماند پڑتا گیا اور اِنشراح و اِنبساط کی ایک کیفیت رفتہ رفتہ قلوب کی دنیا پر طاری ہوتی چلی گئی۔ ملّت کے اجتماعی شعور نے کچھ ایسے محسوس کیا جیسے کم و بیش ایک صدی کے دوران متعدد بار دیکھے گئے خواب کی تعبیر قریب آرہی ہے۔ چنانچہ اجتماعی یادداشت کے ذخیرے سے کبھی جمال الدین افغانی کا ہیولیٰ اُبھرتا تھا‘کبھی تحریک ِخلافت کی یادیں تازہ ہوتی تھیں اور کبھی قافلہ ملّی کے اس آخری حدی خواںکی شخصیت اُبھر کر سامنے آتی تھی جو اسی ارضِ لاہور میں خوابیدہ ہے۔
۲۲فروری ۱۹۷۴ء کو روئے ارضی کی وسیع ترین مسجد میںکرئہ ارضی کے کم و بیش تین درجن مسلمان ممالک کے سربراہوں یا نمائندوںکا اجتماع یقیناً اس خوشی اور مسرّت و انبساط کا نقطہ عروج تھا! ہر اُس مسلمان کی فرحت و شادمانی انتہائی بلندیوںکو چھو رہی تھی جس کے دل کی کسی دُور دراز گہرائی میں جذبۂ ملّی کی کوئی چنگاری خواہ امتدادِ زمانہ کی خاکستر اور تلخ حالات و واقعات کی راکھ کی دبیز تہوں میں دبی ہوئی ہی سہی بہرحال کسی درجے میں سلگتی ہوئی موجود تھی۔ خصوصاً اہل لاہور کے دل تو بلیوں اُچھل رہے تھے اور ان کا جوش و خروش انتہا کو پہنچاہوا تھا-----کہ دفعتاً غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
ٹیلی ویژن کے ناظرین نے دیکھا اور ریڈیو کے سامعین نے سنا کہ وزیر اعظم بھٹو نے گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ اور ممبران سینٹ و اسمبلی کے مشترکہ اجتماع میں ’’بنگلہ دیش‘‘ کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا!جو ش و خروش ایک دم ختم ہو گیا۔ جذبات سرد پڑ گئے۔ خوشی کی جگہ غم نے لے لی۔ صبح ِاُمید کی بجائے شامِ یاس کا سا منظر چھا گیا۔ فی الجملہ ایک سکتے کا سا عالم طاری ہوگیا! -----اوریہ کیفیت اس درجہ محیط و ہمہ گیر تھی کہ وہ لوگ بھی اس کے تسلط سے بچ نہ پائے جو خود بنگلہ دیش کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے پُرزور حامی تھے!‘‘ (میثاق‘ مارچ۱۹۷۴ء)
اتفاق دیکھئے کہ ۱۶ دسمبر ۲۰۲۱ء گزرے ابھی چند ہی دن ہوئے کہ افغانستان میں درپیش عالمی المیہ کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم(OIC) کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔ آج بھی اُمّت ِ مسلمہ کو اِسی طرح کے خوشی اور غم کا بیک وقت سامنا ہے۔ ایک طرف تو اُمّت ِ مسلمہ خوشی سے نہال ہے کہ بیس سالہ جدّوجُہد کے بعد افغان طالبان نے امریکہ کی سرکردگی میں طاغوتی طاقتوں کو افغانستان سے نکال باہر کیا اور افغانستان میں ایک بار پھر امارتِ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اِس پر اُمّت ِ مسلمہ کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کرے کم ہے۔ البتہ دوسری طرف اُمّت ِ مسلمہ کو شدید شرم ساری کا سامنا ہے کہ ان کے حکمران ایک بار پھر مسلمانوں کو درپیش ایک چیلنج کو حل کرنے کے لیے غیروں اور اسلام دشمن قوتوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے نظر آرہے ہیں۔ کاش کہ ۵۷ مسلم ممالک اور اُن کا ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘کے نام سے قائم ادارہ اسلامی اخوت‘ اتفاق و اتحاد اور خود کفالت کا مظاہرہ کرتا اور غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود افغانستان کے موجودہ معاشی بحران کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔
بہرحال اسلام آباد میںپاکستان کی میزبانی میں او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اتوار ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سمیت بیس ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ۔ جبکہ دس ممالک کے نائب وزرائے خارجہ یا وزررائے مملکت نے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی ۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ عالمی مالیاتی اداروں‘ علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں‘ جاپان‘ جرمنی اور دیگر نان او آئی سی ممالک کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔اس اجلاس کا بنیادی مقصد افغانستان کو موجودہ معاشی بحران کی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے طے شدہ حکمت عملی کے تحت اقدامات کے لیے عالمی حمایت اور تعاون حاصل کرناتھا ۔
افغانستان کے معاملے پر او آئی سی کے اس اجلاس کا انعقاد خوش آئنداور حوصلہ افزا بھی ہے جس سے یہ تأثر اُبھرتا ہے کہ عالم ِاسلام نے مل کر افغانستان کو معاشی بحران سے نکالنے کی ایک مشترکہ کوشش کا آغاز کر دیا ہے ۔جیسا کہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں پُر امن‘ مستحکم‘ متحد اور خود مختار افغانستان کے لیے افغان عوام سے اظہارِ یکجہتی کا اظہار کیا گیا‘ اقوامِ متحدہ کے اداروں اور او آئی سی کے تعاون سے افغانستان میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے پر زوردیا گیا‘عالمی برادری سے افغانستان کے شہریوں اور افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے ممالک کی فوری امداد کا مطالبہ کیا گیا۔ شرکاء نے عالمی برادری‘ اقوام متحدہ‘سکیورٹی کونسل سے متفقہ مطالبہ کیا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت پر لگائی گئی عالمی پابندیاں انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئیں ۔ علاوہ ازیں طارق علی بخیت کو اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل کا افغانستان کے حوالے سے خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا۔
عالمی برادری سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان سے مسلسل رابطہ رکھے تاکہ افغان عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اجلاس کے شرکاء نے اتفاق کیا کہ او آئی سی افغان عوام کو امداد فراہم کرنے کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ شرکاء کی جانب سے او آئی سی کے جنرل سیکرٹیریٹ کو کابل میں مالی اور لاجسٹک اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ۔ ازبکستان میں اقوام متحدہ کے لاجسٹک مرکز تعمیر کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ۔ اجلاس میں منجمد اثاثوں کی بحالی کے اقدامات کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ رکن ممالک‘ اسلامی مالیاتی ادارے‘ عطیہ دہندگان اور دیگر بین الاقوامی شراکت دار افغانستان کے لیے ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے ساتھ ساتھ افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کے وعدوں کا اعلان کریں۔ فیصلہ کیا گیا کہ او آئی سی جنرل سیکرٹیریٹ‘ عالمی ادارۂ صحت اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ویکسین کے ساتھ ساتھ دیگر طبّی سامان‘تکنیکی اور متعلقہ امداد کی افغانستان کے لوگوں تک فراہمی میں مدد کرے گا۔ اجلاس میں افغانستان فوڈ سکیورٹی پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسلامک آرگنائزیشن فار فوڈ سکیورٹی (IOFS)سے درخواست کی گئی کہ جب ضروری ہو‘ تنظیم کے غذائی تحفظ کے ذخائر کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں۔کہا گیا کہ او آئی سی کے رکن ممالک‘ بین الاقوامی عطیہ دہندگان‘ اقوام متحدہ کے فنڈز اور پروگرامز اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ افغانستان فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنائیں۔ اجلاس میں او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے افغان عوام اور پڑوسی ممالک میں افغان پناہ گزینوں کو ضروری انسانی اور اقتصادی امداد فراہم کرنے کے لیے ڈونر مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا ۔ اسی طرح اجلاس میں افغانستان سے تمام دہشت گرد تنظیموں بالخصوص القاعدہ‘ داعش اور اس سے وابستہ تنظیموں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔
اب دل تھام لیجیے کہ میری باری آئی! اجلاس کے شرکا ء نے فیصلہ کیا کہ افغان عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے قانونی بینکنگ سیکٹر تک آسان رسائی پر توجّہ دی جائے گی۔افغانستان کے لیے ایک انسانی ٹرسٹ فنڈ قائم کیا جائے گا جو اسلامی ترقیاتی بینک کے ماتحت ہوگا۔ یعنی افغان عوام کو جو بھی امداد ملے گی وہ طالبان حکومت کے نظام کے ذریعے نہیں بلکہ براہِ راست بینکنگ نظام کے تحت ملے گی ۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ شریعت کے بالمقابل عالمی معاشی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس بات کی تصدیق اجلاس کے اس اعلامیہ سے بھی ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ‘ او آئی سی جنرل سیکرٹیریٹ‘ اسلامی ترقیاتی بینک اور انسانی ٹرسٹ فنڈ کے تعاون سے معاشی وسائل اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور اس حوالے سے حکمت عملی وضع کرے گا۔ یعنی امداد کے نام پر جو بھی کھیل کھیلا جائے گا اس کی باگ ڈور نہ تو افغان طالبان کے ہاتھ میں اور نہ ہی او آئی سی کے ہاتھ میں ہوگی‘بلکہ براہِ راست عالمی اداروں کے تحت سب کچھ ہوگا ۔ اسی ضمن میںاو آئی سی کے رکن ممالک نے بین الاقوامی برادری بشمول اقوام متحدہ‘ بین الاقوامی تناظیم اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے لیے ہر ممکن اور ضروری بحالی‘ تعمیر نو‘ ترقی‘ مالی‘ تعلیمی‘ تکنیکی اور مادی امداد ’’پالیسی ٹولز ‘‘ کے طور پر فراہم کریں۔ بات بالکل واضح ہے کہ جو بھی امداد ملے گی وہ پالیسی ٹولز کے طور پر ہوگی۔ اسی طرح اجلاس میں طے کیا گیا کہ ممتاز مذہبی اسکالرز اور علماء کے ایک وفد کا اہتمام کیا جائے گا جس کی قیادت انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی اور دیگر متعلقہ مذہبی ادارے کریںگے ۔ یہ وفد افغان طالبان کے ساتھ اہم مسائل پر بات چیت کرے گا‘جیسے کہ رواداری سمیت اسلام میں اعتدال‘ تعلیم تک مساوی رسائی اور خواتین کے حقوق وغیرہ ۔ یعنی یہ وفد اسلام کا ایک ایسا سوفٹ(اور روشن خیال) امیج افغان طالبان کے سامنے متعارف کروائے گا جواستعماری قوتوں کے لیے قابل قبول ہو ۔
اسی ضمن میں اجلاس میں افغان طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایک روڈ میپ تیار کر کے ’’تمام افغانوں‘‘ بشمول خواتین اور لڑکیوں کی افغان معاشرے کے ’’تمام پہلوؤں‘‘ میں شرکت کو تقویت دیں۔الغرض ۵۷مسلم ممالک کی تنظیم‘ اہم مغربی ممالک‘چین اور روس سمیت تقریباً تمام عالمی سیاسی و مالیاتی اداروں نے افغانستان کو معاشی بحران سے نکالنے‘ افغان عوام کی خوشحالی کے لیے اقدامات کرنے اور افغانستان کو انسانی المیہ سے بچانے کے لیے پُرزور اور پُر تاثیر تقاریر بھی کیں اور مشترکہ کوششوں کا اعلان بھی کیا ۔ ایسے میں ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آخر افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں کیا شے مانع ہے ؟ افغانستان میں ساڑھے چار ماہ سے فرائض اداکرتی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا نکتہ ایجنڈے کا حصہ نہ ہونا درحقیقت رنج و غم کے پہاڑ ٹوٹ جانے سے کم نہیں۔ پھر یہ طرزِعمل ۵۷مسلم ممالک سمیت مغربی دنیا اور چین اور روس کی اس پالیسی کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کا قیام اور اس کی کامیابی دنیا کے لیے نہ صرف قابل قبول نہیں بلکہ شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جب اپنے کمزوری دکھائیں تو دشمن تو فائدہ اٹھاتے ہی ہیں ۔ لہٰذا جس دن اسلام آباد میں اوآئی سی کا اجلاس افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے ہو رہا تھا اسی دن انڈیا میں بھی ’’بھارت وسطی ایشیا ڈائیلاگ‘‘کے نام پر ایک اجلاس ہوا جس میں وسطی ایشیائی ممالک کرغزستان‘ تاجکستان‘ قازقستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے ۔اس ایک روزہ انڈیاسینٹرل ایشیا ڈائیلاگ جس کی صدارت انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کر رہے تھے اس میں پاکستان کے بالمقابل جتھا بنانے کی کوشش کی گئی ۔ دشمن سے کیا گِلہ‘افسوس تو یہ ہے کہ عالم ِاسلام سمیت گویاپوری دنیا افغانستان کی مدد کو تیار بلکہ بے تاب ہے‘مگر شرط یہ ہے کہ افغان طالبان اپنے نظریہ سے تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹنا شروع ہوجائیں اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کی طرف بڑھنا شروع ہو جائیں ۔ یہی مقصد ہمیں نام نہاد عالمی برادری کے مطالبات میں نظر آتاہے ۔ افغانستان کے وزیر خانہ امیر خان متقی نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ طالبان حکومت عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کی محافظ ہے لیکن عالمی میڈیا غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے عالم ِاسلام اور او آئی سی کے شرکاء سے شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمارا حق ہے کہ ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے لیکن دنیا ہماری جائز حکومت کو تسلیم نہ کرکے ظلم و ناانصافی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔
اِس اُمّت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب الہدیٰ اور دین ِحق دے کر اس لیے کھڑا کیا تھا کہ یہ پوری دنیا پر اللہ کے عدل و انصاف پر مبنی نظام کو قائم کرے۔ افسوس کہ آج اس اُمّت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا موقع ملا ہے تو بجائے اس کے نفاذ اور استحکام میں مدد کرنے کے اُس کے عزمِ مصمم کے راستہ میں دیوار بن کر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ ع حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے! ***