دورۂ ترجمۂ قرآن سُورۃُ الْحَشْرڈاکٹر اسرار احمدآیات ۱ تا ۵
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۚ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱)ھُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِھِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڲ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ مَّا نِعَتُھُمْ حُصُوْنُھُمْ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىھُمُ اللہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ۤ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ۤ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ (۲) وَلَوْلَآ اَنْ کَتَبَ اللہُ عَلَیْھِمُ الْجَلَاۗءَ لَعَذَّبَھُمْ فِی الدُّنْیَا ۭ وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ (۳) ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَاۗقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ۚ وَمنْ یُّشَاۗقِّ اللہَ فَاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۴) مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَاۗئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ (۵)
آیت ۱{سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج} ’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمان میں ہے اور ہروہ شے جو زمین میں ہے۔‘‘
’’المُسَبِّحات‘‘کے سلسلے کی پہلی سورۃ یعنی سورۃ الحدید کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے : {سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج}۔یہاں ’’مَا فِی‘‘ کا اضافہ ہے ‘جس سے گویا مفہوم میں مزید زور (emphasis) پیدا ہو گیا ہے۔ باقی ساری آیت کے الفاظ وہی ہیں۔
{وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱)} ’’اور وہ زبردست ہے‘ کمال حکمت والا۔‘‘
اُس کے اختیارات مطلق ہیں‘ لیکن وہ اپنے اختیارات کا استعمال بہت حکمت سے کرتا ہے۔
آیت۲{ہُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِط}’’وہی ہے جس نے نکال باہر کیا اُن کافروں کو جواہل ِکتاب میں سے تھے اُن کے گھروں سے‘ پہلے جمع ہونے کے وقت۔‘‘
یہ یہودی قبیلہ بنو نضیر کی مدینہ منورہ سے جلاوطنی کے واقعہ کا ذکر ہے ۔ اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ حضورﷺ کی ہجرت کے وقت مدینہ (یثرب) میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع‘ بنونضیر اور بنوقریظہ آباد تھے۔ حضورﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے فوراً بعد ان قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو تاریخ میں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بنیادی طور پر یہ مدینہ کے ’’مشترکہ دفاع‘‘ کا معاہدہ تھا۔ ان میں سے قبیلہ بنوقینقاع نے تو معاہدے کے کچھ ہی دیر بعد مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ چنانچہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی بنا پر حضورﷺ نے غزوئہ بدر کے بعد اس قبیلہ کو مدینہ بدر کر دیا۔ غزوئہ اُحد (۳ ہجری) کے بعد قبیلہ بنو نضیر نے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ غزوئہ اُحد میں مسلمانوں کی وقتی شکست سے ان کی کمزوری کا تأثر لے کر جہاں عرب کے بہت سے دوسرے قبائل نے سر اٹھانا شروع کیا‘ وہاں یہ قبیلہ بھی اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی میں شامل ہو گیا۔ان کے سردار کعب بن اشرف نے قریشِ مکّہ سے گٹھ جوڑ کر کے انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کی باقاعدہ دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ تم لوگ باہر سے حملہ کرو ‘ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ اسی دوران کعب بن اشرف نے حضورﷺ کو (نعوذباللہ) شہید کرنے کی ایک سازش بھی تیار کی۔ اس کے لیے ان لوگوں نے حضورﷺ کو کسی اہم بات چیت کے بہانے اپنے ہاں بلایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ کسی دیوار کے بالکل ساتھ آپؐ کی نشست کا انتظام کیا جائے اور جب آپؐ وہاں بیٹھے ہوں تو دیوار کے اوپر سے چکی کا بھاری پاٹ آپؐ پر گرا دیا جائے ۔ آپؐ ان کے بلانے پر ان کے محلے میں تشریف لے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے جب وحی کے ذریعے آپؐ کو ان کی اس گھنائونی سازش سے آگاہ کیا تو آپؐ واپس تشریف لے آئے۔
بنونضیر کی ان ریشہ دوانیوں اور مسلسل بدعہدی کی وجہ سے بالآخر ربیع الاوّل۴ ہجری میںحضورﷺ نے ان کے خلاف لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ البتہ جب مسلمانوں نے ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کیا تو انہوں نے چند دن محصور رہنے کے بعد لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ اس پر حضورﷺ نے ان کی جان بخشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا‘ بلکہ آپﷺ نے مزید نرمی فرماتے ہوئے انہیں یہ اجازت بھی دے دی کہ جاتے ہوئے وہ جس قدر سامان اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے ہیں‘ لے جائیں۔ غزوئہ احزاب (۵ہجری) کے بعد بنوقریظہ کو بھی ان کی عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس طرح یہودِ مدینہ کے تینوں قبائل میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کے باعث ایک ایک کر کے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
آیت میں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ کا ایک مفہوم تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ ہی جب ان پر لشکرکشی کی تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے علاوہ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ سے جلاوطنی تو ان لوگوں کا پہلا حشر ہے‘ پھرایک وقت آئے گا جب انہیں خیبر سے بھی نکال دیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں جزیرہ نمائے عرب کو بھی خیرباد کہنا پڑے گا (چنانچہ حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا) اور پھر ایک حشر وہ ہو گا جو قیامت کے دن برپا ہو گا۔
{مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا}’’(اے مسلمانو!) تمہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ (اتنی آسانی سے) نکل جائیں گے‘‘
{وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللہِ}’’اور وہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی پکڑ) سے بچا لیں گے‘‘
{فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاق}’’تو اللہ نے ان پر حملہ کیا وہاں سے جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا۔‘‘
{وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ}’’اور ان کے دلوں میں اُس نے رعب ڈال دیا‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو جس طریقے سے چاہے ہزیمت سے دوچار کر دے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قدر مرعوب کردیا کہ وہ اپنے مضبوط قلعوں کے اندر بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور اپنے تمام تر وسائل کے باوجود بھی مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے ۔
{یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ق}’’وہ برباد کر رہے تھے اپنے گھروں کو ‘خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور اہل ِایمان کے ہاتھوں سے بھی۔‘‘
چونکہ انہیں یہ اجازت مل چکی تھی کہ اپنے سامان میں سے جو کچھ وہ اپنے ساتھ اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں اس لیے وہ اپنے گھروں کی دیواروں اور چھتوں میں سے دروازے ‘ کھڑکیاں ‘ کڑیاں‘ شہتیر وغیرہ نکالنے کے لیے خود ہی انہیں مسمار کر رہے تھے۔ ان کی اس تخریب میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ہوگا۔
{فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ(۲)}’’پس عبرت حاصل کرو اے آنکھیں رکھنے والو!‘‘
یہ گویا پیچھے رہ جانے والے قبیلے بنی قریظہ کو سنایا جا رہا ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے اس انجام سے عبرت حاصل کرو اور سازشوں سے باز آجائو!
آیت ۳{وَلَوْلَآ اَنْ کَتَبَ اللہُ عَلَیْہِمُ الْجَلَآئَ}’’اور اگر اللہ نے پہلے سے نہ لکھ دیا ہوتا ان پر جلاوطن ہونا‘‘
{لَعَذَّبَہُمْ فِی الدُّنْیَاط وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ(۳)}’’تو انہیں سخت عذاب دیتا دنیوی زندگی میں‘ اور آخرت میں ان کے لیے آگ کا عذاب ہے ۔‘‘
آیت۴{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَآقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ج}’’یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی مخالفت کی۔‘‘
{وَمَنْ یُّشَآقِّ اللہَ فَاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۴)} ’’اور جو اللہ کی مخالفت پر کمرکس لے تو (سمجھ لوکہ) اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘
آیت ۵{مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللہِ} ’’تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جن کو چھوڑ دیا ان کی جڑوں پر کھڑے ‘تو یہ اللہ کے اِذن سے ہوا‘‘
لِینَہ ایک خاص قسم کی کھجور کے درخت کو کہتے ہیں۔ یہودیوں کی گڑھیوں اور حویلیوںکے گرد یہ درخت باڑ کی شکل میں کثرت سے موجود تھے۔مسلمانوں نے جب ان کا محاصرہ کیا تو حملہ کے لیے راستے بنانے کی غرض سے حسب ِضرورت ان میں سے کچھ درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے اس عمل کو ہدفِ تنقید بنایا اور پروپیگنڈا کیا کہ یہ لوگ خود کو مؤمنین کہتے ہیں اور ان کے قائد اللہ کے رسول (ﷺ)ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لیکن ان لوگوں کی اخلاقیات کا معیار یہ ہے کہ پھل دار درختوں کو بھی کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہودیوں کے اس پراپیگنڈے کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود دیا۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مذکورہ اقدام پر اپنی منظوری (sanction) کی مہر ثبت کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ مسلمانوں نے یہ درخت جنگی ضرورت کے تحت اللہ کے رسولﷺ کی موجودگی میں کاٹے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ کے رسولﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تو پھر سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے اس کی اجازت دی گئی تھی۔
{وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ(۵)} ’’اورتاکہ وہ فاسقوں کو ذلیل و رسوا کرے۔‘‘
اب اگلی آیات میں مالِ فے کا ذکر آ رہا ہے جو اس سورت کا اہم ترین مضمون ہے۔ چنانچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مالِ فے کیا ہے اور یہ مالِ غنیمت سے کس طرح مختلف ہے ۔ مالِ غنیمت تو وہ مال ہے جو باقاعدہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہو ۔ اس سے پہلے سورۃ الانفال کی آیت ۴۱ میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں حکم آ چکا ہے۔اس حکم کے مطابق مالِ غنیمت کا پانچواں حصّہ اللہ‘ اُس کے رسولﷺ‘ رسولؐ کے قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو گا ‘جبکہ باقی چار حصّے اس جنگ میں حصّہ لینے والے مجاہدین کے مابین تقسیم کر دیے جائیں گے ‘اور اس تقسیم میں سوار کو پیدل کے مقابلے میں دو حصّے ملیں گے۔ اس کے برعکس ’’مالِ فے‘‘ وہ مال ہے جو مسلمانوں کوکسی جنگ کے بغیر ہی حاصل ہو جائے‘ جیسے زیر مطالعہ واقعہ میں باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی ‘ مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور انہوں نے مرعوب ہو کر ہتھیار ڈال دیے۔ چنانچہ اس مہم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمینیں اور دوسری تمام اشیاء مالِ فے قرار پائیں۔آگے آیت ۷ میں مالِ فے کے بارے میں واضح کردیاگیا کہ یہ مال کل کاکل اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ہے۔ اس میں سے اللہ کے رسولﷺ اپنی مرضی سے غرباء و مساکین کو تو دیں گے لیکن عام مسلمانوں کو اس میں سے حصّہ نہیں ملے گا۔
آیات ۶ تا۱۰وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ وَّلٰکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۶) مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۙ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَاۗءِ مِنْکُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۭ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۷) لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُھٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ۭ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ (۸) وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ڵ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۹) وَالَّذِیْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآاِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (۱۰)
آیت ۶{وَمَـآ اَفَـآئَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ} ’’اور جو مال کہ ہاتھ لگا دیا ہے اللہ نے اپنے رسولؐ کے ان (بنونضیر) سے‘‘
{فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ} ’’تو (اے مسلمانو!) تم نے اس پر نہیں دوڑائے گھوڑے اور نہ اونٹ‘‘
{وَّلٰـکِنَّ اللہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط } ’’لیکن مسلط کر دیتا ہے اللہ اپنے رسولوں ؑکو جس پر چاہتا ہے۔‘‘
{وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْــرٌ(۶)} ’’اوراللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت اور قدرت سے بنونضیر کے حوصلے پست کر دیے اور انہوں نے تم لوگوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس مہم میں ان کے خلاف تمہیں جنگ تو لڑنا ہی نہیں پڑی۔ لہٰذا تم پر واضح ہونا چاہیے کہ بنونضیر کی جلاوطنی کے نتیجے میں جو مال تمہارے ہاتھ لگا ہے وہ مالِ غنیمت نہیں ہے۔ اب اگلی آیت میں اس مال کے مصارف کے بارے میں حکم دیاجا رہا ہے۔
آیت ۷{مَآ اَفَــآئَ اللہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی} ’’جو مال بھی ہاتھ لگا دے اللہ اپنے رسولؐ کے بستیوں والوں سے‘‘
{فَلِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا} ’’تو وہ ہے اللہ کے لیے‘ رسول ؐکے لیے ‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے‘‘
واضح رہے کہ اللہ اور رسولؐ سے مراد یہاںاسلامی ریاست ہے ۔ پھر چونکہ رسول اللہﷺ کا اپنا ذاتی ذریعہ معاش تو کوئی تھا نہیں ‘اس لیے یہ مال آپؐ کے ذاتی اخراجات مثلاً ازواجِ مطہراتؓکے نان نفقہ اور دوسری معاشرتی ذِمّہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بھی تھا۔ اس کے علاوہ اس میں حضورﷺ کے قرابت داروں کی مد بھی رکھی گئی تاکہ آپؐاپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضے پورے کر سکیں ۔ اسی طرح اس مال میں ان تمام اقسام کے ناداروں اور محتاجوں کا بھی حق رکھا گیا جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے ۔
{کَیْلَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً م بَیْنَ الْاَغْنِیَـآئِ مِنْکُمْ ج} ’’تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ معاشرے میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور اس کی گردش کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچیں۔یہ اسلامی معیشت کا بہت اہم اور بنیادی اصول ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ نے مالِ فے زیادہ تر ناداروں اور محتاجوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مختص فرما دیا۔مالِ فے بھی اگر مالِ غنیمت کی طرح تقسیم کیا جاتا تو یہاں بھی سواروں کو دوہرا حصّہ ملتا اور ظاہر ہے جس شخص کے پاس گھوڑا یا اونٹ ہے وہ تو پہلے ہی سے کچھ خوشحال ہے۔ تو اس تقسیم سے مالِ فے کا بھی زیادہ تر حصّہ خوشحال لوگوں کو ہی ملتا۔
واضح رہے کہ اسلام کے نظامِ عدل و قسط میں تمام انسانوں کو معاشی طور پر برابر کر دینے کا تصوّر نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہونا عملی طور پر ممکن بھی نہیں ۔ ظاہر ہے ایک سپاہی اور سپہ سالار کسی طرح بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم اپنے تمام تردعووں اور انقلابی نعروں کے باوجود ایسی ’’معاشی مساوات‘‘ کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی دنیا کو نہیں دکھا سکا۔ اس کے برعکس اسلام کا نظامِ معیشت معاشرے سے معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے اور امیر و غریب کے درمیان فرق و تفاوت کو کم سے کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے لیے اسلام ہر وہ دروازہ بند کر دینے کا حکم دیتا ہے جس کی وجہ سے چند ہاتھوں میں ارتکازِ دولت کا خدشہ ہواور ہر وہ راستہ کھولنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس سے گردشِ دولت کا رُخ اُمراء سے غرباء کی طرف پھرنے اور معاشی محرومیوں کے ازالے کا امکان ہو۔ آج معاشی پیچیدگیوں کی وجہ سے جدید معاشرے میں جو گمبھیر صورتحال جنم لے رہی ہے اس کا ادراک سب سے پہلے جس عالم دین کو ہوا وہ شاہ ولی اللہ دہلوی mتھے۔شاہ ولی اللہ ؒایسی صورت حال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس ملک یا معاشرے میں تقسیم ِدولت کا نظام غیر منصفانہ ہوگا وہاں کچھ لوگ دولت کے انبار جمع کرکے مسرفانہ عیاشیوں اور بدمعاشیوں میں مبتلا ہو جائیں گے ‘جبکہ محروم طبقے کے لوگ باربَرداری کے جانور بن کر رہ جائیں گے۔ ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں حضورﷺ کا فرمان ہے :((کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا))[المقاصد الحسنۃ للسخاوی‘ ح:۳۶۸۔ اللآلی المنثورہ للزرکشی (بدر الدین)‘ ح:۲۰۹ لہ شاھد] کہ محرومی اور احتیاج انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ گویا تقسیم ِدولت کا غیر منصفانہ نظام ایسی دودھاری تلوار ہے جس کی دو طرفہ کاٹ سے مذکورہ دونوں طبقوں کے افراد مذہبی و انسانی اقدار سے بیگانہ و بے نیاز ہو کر عملی طور پر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔ اُمراء کو تو اپنے اللوں تللوں سے ہی فرصت نہیں ملتی جبکہ غریب و نادار عوام دنیا و مافیہا سے بے خبر صبح سے شام تک کمرتوڑ مشقّت میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آگے بڑھتا ہے اور محروم طبقے کے افراد کے دلوں میں ظالم استحصالی طبقے کے خلاف بغض و عداوت کی آگ سلگانا شروع کر دیتا ہے: {اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ} (المائدۃ:۹۱)’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے ‘‘۔تصوّر کریں اگر ایک سیٹھ صاحب کی بیٹی کی شادی کے موقع پر کروڑوں روپے کا اسراف صرف بے جا نمود و نمائش کی مد میں ہو رہا ہو گا تو یہ سب کچھ دیکھ کر اس کے اس غریب ملازم کے دل میں نفرت و عداوت کے کیسے کیسے جذبات پیدا ہوں گے جس کی بیٹی گھر میں بیٹھی صرف اس لیے بوڑھی ہو رہی ہے کہ وہ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ پھر ہمارے معاشرے میں جب ایک کروڑ پتی کی بیٹی لاکھوں کا جہیز لے کر دوسرے کروڑ پتی کی بہو بن جاتی ہے تو دولت مال داروں ہی کے مابین گردش میں رہتی ہے۔
{وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُج وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج} ’’اور جو کچھ رسولؐ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیںاس سے رک جائو۔‘‘
ان الفاظ میں گویا اہل ِایمان کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مالِ فے سے متعلق نئے قانون کے تحت رسول اللہﷺ کے فیصلوں کو بخوشی قبول کریں۔ ظاہر ہے لشکر ِاسلام میں شامل لوگ تو بنونضیر کے علاقے سے حاصل ہونے والے مال و اسباب کو مالِ غنیمت سمجھتے ہوئے اس میں سے حصّے کی توقع کر رہے تھے۔ اب جب مذکورہ حکم کے تحت اس مال کو مالِ فے قرار دے کر اس کی تقسیم کا نیا قانون بنا دیا گیا تو لشکر کے شرکاء کو طبع بشری کے تحت ایک دھچکا تو ضرور لگا ہو گا۔چنانچہ اس حکم کے تحت بنونضیر کے محاصرے میں شامل اہل ایمان کو بالخصوص اور تمام اہل ایمان کو بالعموم دین کا بنیادی اصول بتا دیا گیا کہ تمہارے لیے اللہ کے رسولﷺ کا ہر فیصلہ آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ معاملہ چاہے کوئی بھی ہو ‘اللہ کے رسولﷺ تم لوگوں کو جو دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے آپؐ منع کردیں اس سے منع ہو جایا کرو۔
{وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۷)} ’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘
اب اگلی آیات میں مالِ فے کی تقسیم کے بارے میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ جب یہ مال مذکورہ قانون کے تحت بیت المال میں آجائے گا تواس کی تقسیم میں بنیادی طور پر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے گی۔ ظاہر ہے اللہ کے رسولﷺ تو اس میں سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے وہی کچھ قبول کریں گے جو آپؐ کی انتہائی بنیادی ضروریات کے لیے ناگزیر ہو گا۔ آپﷺ نے تو اپنی ذات اور ازواجِ مطہراتؓپر شروع دن سے ہی فقر طاری کر رکھا تھا ۔سورۃ الاحزاب کے چوتھے رکوع میں واقعہ ایلاء کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ ازواجِ مطہراتؓکی طرف سے نان نفقہ بڑھانے کے مطالبے پر حضورﷺ نے ان ؓسے علیحدگی اختیار فرما لی تھی۔ چنانچہ مالِ فے کا بڑا حصّہ کس کے لیے مختص کیا جائے گا :
آیت ۸{لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ} ’’یہ (خاص طور پر) اُن تنگ دست مہاجرین کے لیے ہے جو نکال دیے گئے اپنے گھروں اور اپنے اموال سے‘‘
{یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَـہٗ ط}’’وہ اللہ کے فضل اور اُس کی رضا کے متلاشی ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی مدد کر رہے ہیں۔ ‘‘
{ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۸)} ’’یہی لوگ ہیں جو سچّے ہیں۔‘‘
یہاں سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کر لیں:{وَلِیَعْلَمَ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط}یعنی حق و باطل کی کشمکش سے دراصل اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے (ظاہر کر دینا چاہتا ہے )کہ کون لوگ غیب میں ہونے کے باوجود اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کے لیے جاں بکف کھڑے ہوتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں نہ صرف مالِ فے کی تقسیم کے حوالے سے فقراء مہاجرین کی ترجیح واضح کر دی گئی بلکہ ان کی بے لوث قربانیوں کی تصدیق و توثیق بھی فرما دی گئی کہ یہ لوگ صرف اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر گھروں سے نکلے ہیں۔ اب چونکہ ان کے پاس اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بھی کچھ نہیں تو مالِ فے کی تقسیم میں ان کے لیے خصوصی حصّہ رکھا جائے گا۔
آیت ۹{وَالَّذِیْنَ تَـبَـوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَـبْلِہِمْ} ’’اور (اس مال میں اُن کا بھی حق ہے) جو آباد تھے اپنے گھروں میں اور جن کے پاس ایمان بھی تھا ان (مہاجرین کی آمد) سے پہلے‘‘
یہ انصارِ مدینہ کا ذکر ہے کہ مہاجرین کی آمد پر ان کا طرزِعمل کیا تھا :
{یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَـیْہِمْ} ’’وہ محبّت کرتے ہیں ان سے جنہوں نے ہجرت کی ان کی طرف‘‘
مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مکّہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ ان میں سے کسی کے دل میں قطعاً کوئی ایسا خیال نہیں آیا کہ ان لوگوں کے آنے سے ہماری آبادی بڑھ جائے گی اور ان کی ناداری و محرومی ہماری معیشت پر بوجھ بن جائے گی۔
{وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّـآ اُوْتُوْا} ’’اور وہ نہیں پاتے اپنے سینوں میں کوئی حاجت اس بارے میں کہ جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے‘‘
انصارِ مدینہ کے دل اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی کے اعلیٰ جذبات سے لبریز ہیں ‘اور یہ جذبات ان کے دلوں میں اس دولت ِایمان کے باعث پیدا ہوئے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہرہ ور فرمایا ہے۔ یہ آیت دراصل انصارِ مدینہ کی تسکین وتشفی کے لیے ان کے جذبۂ ایمان کو اپیل کرتے ہوئے نازل ہوئی تاکہ اگر ان میں سے کچھ لوگوںکے دلوں میں بنونضیر کے چھوڑے ہوئے مال سے متوقع حصّہ نہ ملنے کے باعث کچھ ملال وغیرہ کے احساسات پیدا ہوئے ہوں تو وہ ختم ہو جائیں۔
{وَیُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَـوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط} ’’اور وہ تو خود پر ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔‘‘
ایثار کے معنی کسی کے لیے قربانی دینے اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کے ہیں۔ ظاہر ہے انصارِ مدینہ میں سے بھی سب لوگ دولت مند تو نہیں تھے‘ ان میں بھی بہت سے لوگ نادار اور تنگ دست تھے‘ لیکن ان میں سے ہر ایک نے اپنی احتیاج اور ضرورت کو پس ِپشت ڈال کر استطاعت بھر اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی تھی۔ ان کے اسی جذبۂ ایثار کا اعتراف یہاں اس آیت میں کیا گیا ہے۔
{وَمَنْ یُّـوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۹)} ’’اور جوکوئی بھی بچا لیا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔‘‘
اب اس کے بعد جو آیت آ رہی ہے وہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایران‘ عراق‘ مصر‘ شام وغیرہ کے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے اس آیت سے استدلال کیا تھا۔ ان علاقوں کی زمینیں بہت زرخیز ہیں‘ خصوصی طو رپر عراق اور شام کے درمیان صحرا میں واقع وہ علاقہ جو Fertile Crescent کہلاتا ہے‘ اپنی زرخیزی کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب یہ وسیع و عریض علاقے فتح ہوئے تو ان کی زرعی زمینوں کے نظم و نسق کا مسئلہ سامنے آیا ۔اس معاملے میں زیادہ تر صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے اصول کے مطابق پانچواں حصّہ بیت المال کے لیے مختص کر کے باقی زمینیں ہر محاذ کے مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں۔ البتہ حضرت عمرؓاس رائے سے متفق نہیں تھے۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ ان ممالک کی زمینیں مالِ غنیمت کے بجائے مالِ فے کے زمرے میں آتی ہیں‘ اس لیے ان پر مالِ فے کے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مالِ غنیمت صرف وہ مال ہے جو جنگ میں دشمن کو شکست دینے کے بعد عین محاذِ جنگ سے مسلمان مجاہدین کے ہاتھ لگے۔ جیسے اسلحہ‘ راشن ‘ بھیڑ بکریاں‘ اونٹ گھوڑے‘ جنگی قیدی وغیرہ۔ لیکن اگر کسی ایک جنگ کے نتیجے میں کوئی پورا ملک فتح ہو جائے (جیسے ابراہیم لودھی پانی پت کے میدان میں بابر سے صرف ایک جنگ ہارا تو اس کے نتیجے میں پورے ہندوستان پر بابر کا قبضہ ہو گیا) تو میدانِ جنگ سے باہر کی اراضی‘ املاک اور آبادی کو مالِ فے شمار کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓنے اس معاملے میں اگلی آیت کے ان الفاظ سے استدلال کیا تھا: {وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْ بَعْدِہِمْ}’’اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘۔ پچھلی آیات کے مضمون سے اس آیت کے ان الفاظ کا ربط یوں بنتا ہے کہ مالِ فے پر حق ہے اللہ و رسولؐ کا‘ رسول اللہﷺ کے عزیز و اقارب کا‘ غرباء و مساکین کا‘ انصار و مہاجرین کا (بحوالہ آیات ۷ اور ۸) اور اُن لوگوں کا جو اُن کے بعد آئیں گے۔ ان آیات کے سیاق و سباق میں حضرت عمرؓ کا موقف یہ تھا کہ آج کے مالِ فے میں اس اُمّت کے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا بھی حق ہے اور اگر آج یہ زمینیں چندہزار مجاہدین میں تقسیم کر دی گئیں تو بعد میں آنے والے مسلمان گویا اس حق سے محروم رہ جائیں گے۔
حضرت عمرؓ کے اس استدلال سے بعض معتبر صحابہؓ نے اختلاف بھی کیا اور مذکورہ زمینوں کو مالِ غنیمت کے قانون کے تحت متعلقہ مجاہدین میں تقسیم کرنے پر اصرار کیا۔ اس اختلافِ رائے کے بعد حضرت عمرؓ نے اس معاملے میں غور و خوض کے لیے اوس‘ خزرج اور مہاجرین میں سے چند صحابہؓ پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے دیا۔ کمیشن کے ارکان نے مسئلے سے متعلق مختلف آراء اور دیگر پہلوئوں کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ حضرت عمرؓ کی رائے کے عین مطابق تھا اور بعد میں اسی فیصلے پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہوا۔ صحابہؓ کے اس اجماع یا فیصلے کے مطابق تمام مسلم ممالک کی اراضی دو اقسام میں بٹ گئی۔ جن علاقوں کے لوگ لڑے بھڑے بغیر ایمان لے آئے ان کی زمینیں ’’عشری زمینیں‘‘ (ایسی زمین جو انفرادی ملکیت میں ہو اور اس کی پیداوار سے باقاعدہ عشر وصول کیا جاتا ہو) قرار پائیں۔ جبکہ بزورِ شمشیر فتح ہونے والے ممالک کی زمینوں کو ’’خراجی زمینوں‘‘ (ایسی زمینیں جو بیت المال کی ملکیت ہوں اور ان کو کاشت کرنے والے لوگ اسلامی حکومت کو خراج ادا کریں) کا درجہ دیا گیا۔ مثلاً مدینہ کو حضورﷺ نے کسی جنگ کے نتیجے میں فتح نہیں کیا تھا بلکہ مدینہ کے لوگوں نے حضورﷺ کو وہاں آنے کی خود دعوت دی تھی‘ اس لیے اوس اور خزرج کی تمام زمینیں ’’عشری‘‘ قرار پائیں اور متعلقہ لوگوں کی انفرادی ملکیت میں ہی رہیں‘ جبکہ ایران‘ عراق‘ مصر‘ شام وغیرہ ممالک کی زمینیں خراجی زمینوں کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی تحویل میں چلی گئیں۔ اس طرح حضرت عمرؓ کے اجتہاد کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ زمین کی اجتماعی ملکیت (collective ownership of land) کا نظام متعارف ہوا۔ اس وقت مفتوحہ علاقوں کی زمینیں اگر مالِ غنیمت کی حیثیت سے چند ہزار مجاہدین میں تقسیم کردی جاتیں تو اسلامی حکومت کے تحت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جاگیرداری وجود میں آجاتی۔ اور پھر یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہ ہوتا بلکہ جس ملک کی اراضی و املاک پر مالِ غنیمت کے قانون کا اطلاق ہوتا اس ملک کی پوری آبادی کو جنگی قیدیوں کی حیثیت سے غلام اور لونڈیاں بنا کر تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی آتا۔
اسی قانون کے تحت پچھلی صدی تک ہندوستان کی زمینوں کے بارے میں بھی یہاں کے علماء کا اجماع تھا کہ یہاں کی تمام زمینیں خراجی ہیں اور اس حیثیت سے یہ زمینیں یہاں کے مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں اور یہ کہ ہندوستان میں کوئی عشری زمین نہیں ہے۔ اس کا ذکر ہندوستان کے عظیم مفسر و محدث قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنے فقہ کے مسائل سے متعلق اپنے رسالے ’’مَالَا بُدَّ مِنْہ‘‘ میں بھی کیا ہے۔قاضی صاحب موصوف بہت بڑے صوفی اور مفتی بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی ’’تفسیر مظہری‘‘ جسے انہوں نے اپنے مرشد مرزا مظہر جانِ جاناںؒکے نام سے منسوب کیا ہے ‘آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ قاضی صاحب کا مرتّب کردہ مذکورہ رسالہ فقہ کے بنیادی اور ابتدائی مسائل پر مشتمل ہے اور برصغیر کے تمام عربی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے عشر سے متعلق مسائل شامل ہی نہیں کیے اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب ہندوستان میں کوئی عشری زمین ہے ہی نہیں اورعشر سے متعلق احکام کی تنفیذ و تعمیل کا کوئی امکان ہی نہیں تو ان مسائل کو لکھنے‘ پڑھنے یا سمجھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں جب کبھی اسلامی حکومت قائم ہو تو نئے بندوبست اراضی کے تحت بڑے بڑے جاگیرداروں سے وہ زمینیں واپس لی جا سکتی ہیں جو ماضی کے بادشاہوں‘ انگریز حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی ’’نظر ِکرم‘‘ کے باعث انہیں عطا ہوئی تھیں۔
آیت ۱۰{وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ} ’’اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے (مالِ فے پر ان کا بھی حق ہے) وہ کہتے ہیں :اے ہمارے ربّ! تُو بخش دے ہمیں بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے‘‘
{وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رُئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۰)} ’’اور ہمارے دلوں میں اہل ِایمان کے لیے کوئی کدورت نہ پیدا ہونے دے ‘ اے ہمارے رب ‘ بے شک تُو نہایت شفیق اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ مالِ فے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کے علاوہ بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصّہ بھی ہے۔ مزید برآں اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے کوئی بغض‘ کینہ یا کدورت نہیں ہونی چاہیے‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح طرزِعمل یہی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں‘ نہ یہ کہ انہیں سب و شتم کا نشانہ بنائیں۔
یہاں پر پہلا رکوع اختتام پذیر ہو ا ۔ اس رکوع میں بنونضیر کے مدینہ سے انخلاء اور ان کی چھوڑی ہوئی املاک (مالِ فے) سے متعلق احکام کا ذکر تھا۔ اب اگلی آیات میں منافقین کا تذکرہ ہے کہ ان لوگوں نے غزوئہ بنونضیر کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025