قضیۂ فلسطین:تاریخی پس منظر اور ہولناک مستقبلبانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ
۱۶؍اپریل۲۰۰۴ء کا خطابِ جمعہنحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ۭ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۱)} (بنی اسراء یل)
{وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْۢبِیَاۗءَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا ڰ وَّاٰتٰىکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۰) یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ(۲۱) اِلٰی قولہٖ تعالی : قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴) قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵)قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ۚ یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۶)} (المائدۃ) صدق اللہ العظیم
آج کا موضوع میرے لیے نیا نہیں ہے۔ اس پر مَیں تقریباً پچیس سال سے گفتگو کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے مَیں نے ۱۹۸۰ء میں کینیڈا اور امریکہ کے مابین واقع’ نیاگرا‘ کے مقام پر اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے اجلاس میں اسی موضوع پر تقریر کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایران میں تازہ انقلاب آیا تھا اور اس کا ایک بڑا غلغلہ اور زور شور تھا۔ ’’ Times‘‘اور’’News week ‘‘جیسے کثیر الاشاعت ہفت روزہ جرائد نے اس پر خاص نمبر شائع کیے تھے۔ نیوز ویک کا ٹائٹل تھا: "The Militant Islam on the March" یعنی اب عسکری اسلام آگے بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ گویا کہ دنیا کانپ رہی تھی کہ دنیا کے ایک ملک میں اتنا زبردست انقلاب آگیا۔ دوسری طرف افغانستان میں روسیوں کے خلاف جہاد زوروں پر تھا‘ جس میں افغان اپنی سرفروشی‘ بہادری اور جاں فشانی کے تاریخ میں نئے باب رقم کر رہے تھے۔ دنیائے اسلام میں عام طور پر یہ خیال تھا کہ اب بس غلبۂ اسلام کا دَورشروع ہو رہا ہے۔
مَیں نے اُس وقت عرض کیا تھا کہ مسلمانوں کا یہ موجودہ اُبھار اور اُبال ہانڈی کے اُبال کی طرح بہت عارضی ہے۔ ابھی اُمّت ِمسلمہ پر بڑے سخت دَور آنے والے ہیں اور اسے بڑی بڑی سزائیں ملنے والی ہیں۔ البتہ اس کے بعد پھر یقیناً ایک دَور آنے والا ہے کہ پوری دُنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔ اس کے بعد مَیں نے۱۹۹۲ء میں مضامین لکھے جو ’’نوائے وقت‘‘ میں چھپتے رہے ‘جو بعد ازاں۱۹۹۳ء میں ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ سابقہ اُمّتِ مسلمہ حضرت موسیٰؑ کی قوم یعنی بنی اسرائیل تھی جسے اللہ تعالیٰ نے کتابِ ہدایت اور میزانِ شریعت دی ۔ وہ قوم دو ہزار برس تک اس منصب پر فائز رہی کہ وہ دنیا میں اللہ کی نمائندہ تھی۔ انہیں ۱۴۰۰ قبل مسیح میں (یعنی آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل) تورات عطا کی گئی ۔ اُس وقت وہ اُمّت ِمسلمہ تھے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ولادتِ مبارکہ ۵۷۱ء میں ہوئی اور آپؐ پر وحی کا آغاز۶۱۰ء میں ہوا۔ آپﷺ کی بعثت کے چودہ سال بعد۶۲۴ء میں تحویل ِقبلہ کا حکم آیا کہ {فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط} (البقرۃ:۱۴۴)یعنی اب نماز میں رُخ بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کی طرف کر لو! یہ حکم اس بات کی واضح علامت تھا کہ سابقہ اُمّت ِمسلمہ جس کا مرکز یروشلم (بیت المقدس) تھا‘ وہ اپنی اس حیثیت سے معزول کر دی گئی ہے‘ اور جو نئی اُمّت اس منصب پر فائز کی گئی ہے وہ اُمّت ِمحمدﷺ ہے‘ جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے۔ اس حوالے سے حضورﷺ کی بعثت تک بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ تھی‘ جبکہ حضورﷺ کی بعثت کے بعد سے تقریباً ساڑھے چودہ سو برس اس اُمّت محمدؐ کے گزر چکے ہیں۔
ارضِ فلسطین :تاریخ کے آئینے میں
فلسطین کے بارے میںمَیںنے ایک بڑا پیاراجملہ’’نیوز ویک‘‘ میں پڑھا تھا: "Too small a geography but too big a history" ۔ فلسطین جغرافیہ کے اعتبار سے بہت چھوٹی جگہ ہے۔ جب تک مغربی کنارے پر یہودیوں کاقبضہ نہیں ہواتھا اُس وقت تک اسرائیلی ریاست ایک خنجر کی مانند تھی جو عالم ِعرب کے سینے میں پیوست ہے۔ اس کا رقبہ ہماری سابقہ ریاست بہاول پور کے برابر ہےلیکن اس کی تاریخ پانچ ہزار سال تک پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے مانند دنیا کے کسی علاقے کی تاریخ محفوظ نہیں ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز انبیاء کرام ؑکے سلسلے سے ہوتا ہے۔۲۰۰۰ قبل مسیح میں حضرت ابراہیمؑ ہجرت کر کے فلسطین آئے‘ جواِمامُ الناس اور خلیل اللہ ہیں۔ آپؑ عراق کے جنوبی حصے اُر میں پیدا ہوئے تھے جو خلیج فارس کے بہت قریب واقع تھا۔ یہ سلطنت کلدانیہ کا صدر مقام تھا‘ جہاں کے بادشاہوںکو نمرود کہتے تھے۔ آپؑ کی تمام زندگی امتحانات اور آزمائشوں میں گزری ۔ آگ میں بھی ڈال دیے گئے۔ اس کے کافی عرصے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کا بہت بڑا امتحان لیا گیا جب جوان بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ لیکن دشمنوں کی طرف سے آپؑ کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان یہ تھا کہ آپ کو آگ میں ڈال دیا گیا۔ اللہ نے آگ کو حکم دیا تو وہ گل و گلزار بن گئی۔
اس کے بعد آپؑنے وہاں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون رہا ہے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ قوم اس کی جان لینے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسے ہجرت کی اجازت ہو جاتی ہے۔ حضورﷺ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔ جب قریش کے سرداروں نے دارالندوہ میں بیٹھ کر آپﷺ کے قتل کا فیصلہ کر لیا تب ہجرت کی اجازت آگئی۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ عراق سے ہجرت کر کے فلسطین چلے گئے۔عراق اور فلسطین کے درمیان چونکہ بہت بڑا ناقابل ِعبور صحراہے (جو اَب صحرائے اردن کہلاتا ہے) لہٰذا آپؑ پہلے جنوبی عراق سے چل کرشمالی عراق گئے اور پھر وہاں سے مغرب کو ہو کر فلسطین میں اترے ۔یہاں انہوں نے اپنا مسکن اور مرکز بنا لیا۔ اگرچہ بڑے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو آپ نے حجاز میں بیت اللہ کے قریب آباد کیا لیکن حضرت ابراہیمؑ کا اپنا قیام یہیں فلسطین میں رہا۔ پھر اُن کے بیٹے حضرت اسحاق اورپوتے حضرت یعقوبؑ کا مقام بھی یہیں رہا۔ ان تین انبیاء کے وہاں تسلسل کے ساتھ قیام کو بھی بنی اسرائیل اپنی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ’’اسرائیل‘‘ حضرت یعقوبؑ کا لقب تھا اور ’’بنی اسرائیل‘‘ کا اطلاق آپؑ کے بارہ بیٹوں اور ان کی آئندہ نسلوں پر ہوتا ہے۔ عبرانی میں اسرائیل کا مطلب ہے عبداللہ (اللہ کا بندہ)۔ بہرحال اُس وقت تک بنی اسرائیل کا ایک قوم کی حیثیت سے کوئی تصورموجود نہیں تھا۔
حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے اور چار پانچ سو سال وہاں رہے۔ اس دوران ان کا فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کی تاریخ کے ساتھ اُن صدیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی بعثت کے وقت بنی اسرائیل شدید ترین غلامی اور تعذیب کی زندگی گزار رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت موسیٰؑ کے ذریعے سے فرعون کی غلامی سے نجات دی۔ پانچ چھ سو سال قبل ستّرافراد کا قافلہ جو حضرت یوسفؑ کی دعوت پر مصر میں داخل ہوا تھا ‘اب اس کی تعداد بوڑھے‘ بچے‘ جوان‘ عورتیں‘ مرد سب ملا کر چھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔۱۴۰۰ قبل مسیح میں حضرت موسیٰؑ کو کوہِ سینا پر بلا کر تورات دی گئی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی اور حضرت موسیٰؑاپنے چھ لاکھ کے قافلے کو لے کر مصر سے چلے اور فلسطین کی سرحد پر پہنچ گئے۔ وہاں حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ اب جنگ کے لیے تیّار ہو جائو اور اس ارضِ مقدّس میں داخل ہو جائو۔
سورۃ المائدۃ میںحضرت موسیٰؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ بایں الفاظ نقل ہوا ہے: {وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ}’’یاد کرو جبکہ کہا تھا موسیٰ نے اپنی قوم سے‘‘ {یٰــقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ} ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کے انعام و اِکرام کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے‘‘{اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْۢبِیَاۗءَ } ’’جبکہ اُس نے تمہارے اندر انبیاء پیدا کیے‘‘۔حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰؑ اللہ کے نبی ہیں جو اسرائیل کی نسل سے ہیں۔ {وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًاق} ’’اور تمہارے اندر بادشاہ بھی بنائے۔‘‘یہ دراصل پیشین گوئی ہے کہ تمہارے اندر طالوت‘ حضرت دائود اور حضرت سلیمانؑ جیسے بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے۔ { وَّاٰتٰىکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۰)}’’اور تمہیں اللہ نے وہ سب کچھ دیا جو پوری دنیا میں کسی اور قوم کو نہیں دیا۔‘‘{یٰــقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَــکُمْ} ’’اے میری قوم کے لوگو! سب داخل ہو جائو اس ارضِ مقدّس میں جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔‘‘ اللہ کی طرف سے اُس کا رسول یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تمہارے لیے اللہ کی طرف سے مقدّر ہے۔ {وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ(۲۱)} ’’(اب دیکھو بزدلی کا مظاہرہ نہ کرنا!) اور اپنی پیٹھوں پر نہ لوٹ جانا مبادا کہ تم خسارے والے ہو جائو۔‘‘
لیکن پوری قوم نے اپنے رسول ؑ کو کورا جواب دے دیا۔{قَالُوْا یٰـمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا}’’انہوں نے کہا: اے موسیٰ ! ہم ہرگز ہرگز کبھی بھی اس (ارضِ فلسطین) میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ (جو لوگ اس پر قابض ہیں) وہاں موجود ہیں۔‘‘ یعنی اگر وہ وہاں سے نکل جائیں گے تو ہم داخل ہو جائیں گے‘ جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ { فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰــھُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)} ’’تو جائو تم اور تمہارا ربّ جا کر لڑو‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ}’’(اس پر حضرت موسیٰ ؑنے اللہ سے) عرض کیا : اے میرے ربّ! (پوری قوم نے جواب دے دیا ہے) مجھے اختیار ہے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی (ہارون) کی جان پر۔‘‘{فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۵)}’’پس تُو ہمارے اوران فاسقوں کے درمیان علیحدگی کر دے۔‘‘ ہم ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے علیحدگی تو نہیں ہونے دی البتہ یہ فرما دیا کہ یہ بزدلی نہ دکھاتے تو ہم ابھی ان کو فلسطین دے دیتے۔ {قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج} ’’فرمایا (انہوں نے بزدلی دکھائی ہے) تو یہ (ارضِ مقدّس) چالیس برس تک اُن پر حرام کر دی گئی ہے‘‘ {یَـتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۶)} ’’اب وہ اسی زمین کے اندر بھٹکتے پھریں گے۔ پس اب تم افسوس نہ کرو اِن فاسقوں کے بارے میں (کہ ان کا یہ حشر ہو رہا ہے)۔‘‘
بنی اسرائیل پر یہ چالیس برس ایسے گزرے کہ اس دوران حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کا انتقال ہو گیا۔ ساری نسل جو کہ مصر میں غلام رہی تھی‘ ختم ہو چکی تھی۔ اب نئی نوجوان نسل اُبھری جو صحرا میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ صحرا کی زندگی چونکہ بڑی سخت ہوتی ہے لہٰذا اس سختی کو جھیلنے والی نسل میں عزم و ہمت اور جوش و ولولہ تھا۔ اس نسل نے حضرت موسیٰؑ کے جانشین حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں فلسطین پر حملہ کیا اور اریحہ نامی شہر (جو اَب جریکو کہلاتا ہے) فتح کر لیا۔ اسی طرح رفتہ رفتہ پورا فلسطین فتح ہوگیا۔ لیکن فاتح قوم نے ایک بہت بڑی غلطی یہ کی کہ پورے فلسطین پر کوئی ایک حکومت قائم نہیں کی‘ بلکہ بارہ میں سے دس قبیلوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیںجبکہ دو قبیلوں کا پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں گئے۔ انہیں "The lost tribes of the house of Israel"کہا جاتا ہے۔ ان کا تاریخ میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ بھارت میں آکر آباد ہو گئے اور یہاں کا برہمن وہی یہودی طبقہ ہے جو اُس وقت یہاں آیا اور اپنے آپ کو ’’برہما‘‘ یعنی حضرت ابراہیمؑ سے منسوب کیا۔ ’’صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی‘‘ کا قرآن مجید میں دو جگہ ذکر ہے‘ لیکن وہ آج ہمارے پاس کہیں نہیں ہیں۔ تورات بگڑی تگڑی ہے لیکن ہے تو سہی‘ زبور محرّف ہے لیکن ہے تو سہی‘ انجیل کیسی بھی ہو وجود تو رکھتی ہے‘ لیکن آج دنیامیں صحف ِابراہیم کے نام سے کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ میری رائے ہے کہ ہندوئوں کے اپنشد درحقیقت صحف ِ ِابراہیم کی بگڑی ہوئی صور ت ہے۔ مَیں نے یہ رائے اپنشد کا کچھ مطالعہ کر کے قائم کی ہے۔واللہ اعلم!
بہرحال انہوں نے دس چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں جو باہم دست و گریبان رہنے لگیں‘ یہاں تک کہ انہوں نے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جو ہندوستان میں انگریز کی آمد کے وقت بعض مسلم ریاستوں نے اختیار کیا تھا۔ جب انگریز جنوبی ہند پر حملہ آور ہوا تو میسور کے سلطان حیدر علی نے زبردست مزاحمت کی‘ پھر سلطان ٹیپو اُن کے خلاف ڈٹا رہا۔ اُس وقت چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں آپس میں لڑ رہی تھیں اور ٹیپوکے خلاف انگریز کی مدد کر رہی تھیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل کی ان ریاستوں کا یہ حشر ہوا کہ آس پاس کی مشرک قومیں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میںا ن سے مدد لیتی تھیں۔ ہوتے ہوتے اُن قوموں کا اتنا اثر و نفوذ ہو گیا کہ وہ تقریباً پورے فلسطین پر قابض ہو گئے اور بنی اسرائیل کو اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ یہ ان کی تین سو برس کی تاریخ ہے۔ پھر انہیں ہوش آیا کہ ہمیں تو جہاد کرنا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک سپہ سالار معین کر دیں کہ جس کی سربراہی میں ہم اللہ کے راستے میں جنگ کریں۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت کو سپہ سالارمقرر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کو جالوت کے مقابلے میں فتح دی۔ اس جنگ میں حضرت دائودؑ نے جو اُس وقت ایک نوجوان چرواہے تھے‘ اپنے گوپیے سے غرقِ آہن جالوت کی آنکھ پر ایسا پتھر مارا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔
اس فتح سے یہود کی تاریخ کا ایک زرّیں باب شروع ہوا‘ جیسے ہمارے خلفاءِ ثلاثہ کا دَور تاریخ ِاسلام کا زرّیں باب ہے۔ حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ کا دور اسلام کی اصل عظمت کا دور ہے۔ اسی طرح وہاں بھی تین حکمرانوں کا دور میرے نزدیک ان کی خلافت راشدہ ہے جو۱۰۰۰ق م سے ۹۰۰ ق م تک تقریباً ۱۰۰ برس پر محیط ہے۔ اس میں پہلے بادشاہ حضرت طالوت تھے‘ پھر اُن کے داماد حضرت دائود اور پھر حضرت دائودؑ کے بیٹے حضرت سلیمانؑ بادشاہ ہوئے۔ اس کے بعد اُن کا دورِز وال شروع ہو گیا۔ حضرت سلیمانؑ کے بعد یہ سلطنت اُن کے دو بیٹوں کے درمیان تقسیم ہو گئی۔ شمالی حصّہ ’اسرائیل ‘اور جنوبی حصّہ ’یہودیہ‘ کہلایا۔ شمالی سلطنت کا دارالخلافت ’سامریہ‘ اور جنوبی کا ’یروشلم‘ تھا۔ دونوں سلطنتوں کی باہمی آویزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ۷۰۰قبل مسیح میں آشوریوں نے اسرائیل کی شمالی سلطنت ختم کر دی‘ صرف چھوٹی سی جنوبی سلطنت یہودیہ باقی رہ گئی‘ جس میں یروشلم بھی موجود تھا۔ پھر اُن کے ہاں فسق و فجور کا بازار گرم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے عراق کے بادشاہ اور اُس وقت کے نمرود بخت نصر(Nebuchadnezzar) کے ہاتھوں ان پر زبردست عذاب مسلط کیا۔ حضرت سلیمانؑ نے جو معبد (ہیکل ِ سلیمانی) تعمیر کیا تھا (جو اصل مسجد اقصیٰ تھی)‘ بخت نصر نے اسے اس طرح مسمار کیا کہ کوئی ایک اینٹ بھی سلامت نہیں رہنے دی۔ لاکھوںافراد کو یروشلم میں موقع پر قتل کر دیا گیا‘ جبکہ چھ لاکھ یہودی مَردوں‘ عورتوں اور بچوں کوقیدی بنا کر بابل لے جایا گیا جو اَب سلطنت ِعراق کا صدر مقام بن چکا تھا۔ ڈیڑھ سوبرس تک فلسطین یہودیوں سے خالی رہا۔ اس دور کو وہ اپنا دَورِ اسارت (Era of Captivity) کہتے ہیں۔ اس کے بعد ایران کا بادشاہ سائرس منظر عام پر آیا‘ جس نے عراق پر حملہ کیا اور نمرود کو شکست دے کر یہودیوں کو واپس فلسطین جانے کی اجازت دے دی۔
فلسطین واپسی کے بعد بنی اسرائیل میں حضرت عزیرؑکی ایک زبردست تجدیدی و اصلاحی دعوت اُٹھی کہ توبہ کرو‘ اپنی حرام خوریوں اور حرام کاریوں سے باز آجائو! تم نے جو مشرکانہ اوہام اختیار کر لیے ہیں ان کو ترک کر دو اور جن مشرک عورتوں سے تم نے شادیاں کر رکھی ہیں ان کو چھوڑ دو۔ اس اصلاحی تحریک کے ذریعے بنی اسرائیل کی تطہیر (Purgation) کی گئی اورانہیں مشرکانہ اعمال سے پاک کیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے معبد سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس کو تاریخی اصطلاح میں’’معبد ِثانی‘‘(Second Temple) کہتے ہیں۔
اس کے بعد اُن پر یونانی حملہ آور ہوئے۔ سکندرِ اعظم یہیں سے گزر کر تباہی و بربادی مچاتا ہوا پنجاب تک آیا۔ پھر اس کے سپہ سالار سلیوکس کی اُن پر حکومت رہی۔ کچھ عرصے بعد رومیوں نے یہاںپر حکومت قائم کر لی‘ البتہ انہوں نے براہِ راست قبضہ نہیں کیا بلکہ وہاں پر مقامی بادشاہتیں رہنے دیں۔ اس کے بعد فلسطین میں ایک عظیم مکابی سلطنت قائم ہوئی جو ۱۷۰ ق م سے ۶۳ ق م تک پورےسوسال قائم رہی اوراس نے بالکل وہی نقشہ دکھا دیا جو حضرت دائود اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے کا تھا۔ اس دوران پورے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ رہا۔ پھر اُن کے اندر زوال آیا اور اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو اُن پر مسلط کیا۔ حضرت مسیحؑاسی زمانے میںمبعوث کیےگئے۔ یہودیوں نے حضرت مسیحؑ کا کفر کیا۔ انہیں ۳۳یا۳۴ ء میں اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا۔
۷۰ عیسوی میں یہودیوں کی پیٹھ پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دوسرا کوڑا برسا جب ایک رومن جنرل ٹائٹس نے ان پر حملہ کیا اور یروشلم کی دوبارہ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ Second Temple گرا دیا گیا۔چنانچہ ۷۰ء سے آج ۲۰۰۴ء تک۱۹۳۴ برس سے یہودیوں کا ’’خانہ کعبہ‘‘ گرا ہوا ہے۔ ٹائٹس نے یروشلم میں ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ہزار یہودی قتل کیے اور۶۶ ہزار کو وہ قیدی بنا کر یورپ لے گیا۔ قیدیوں میں سے جوان اور ذرا دراز قد لڑکیاں اُس نے چن کر اپنے لیے رکھ لیں‘ باقی سب مَرد و زن کو غلاموں کی حیثیت سے فروخت کر دیا گیا۔ اس دور میں وحشی درندوں کی چیر پھاڑ کا تماشا دیکھنے کے لیے یہودیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ باقی ماندہ یہودیوں کو فلسطین سے نکلنے کا حکم دے دیا گیا۔ اُس وقت سے۱۹۱۷ء تک یہودی فلسطین سے بے دخل رہے ہیں۔
فلسطین پر یہود کے دعوے کی حقیقت
فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ کتنے عرصے رہا‘وہ دور مَیں نے گِنوا دیے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے بعدتین سوبرس تک ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں رہیں۔ پھر حضرت طالوت‘ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑکے دورِ حکمرانی میں سوبرس تک ان کامستحکم قبضہ رہا۔ اس کے بعد دو سلطنتیں قائم ہوئیں اور جلد ہی پہلی سلطنت ختم ہو گئی۔ کچھ عرصے کے بعد ۵۸۷ قبل مسیح میں دوسری بھی ختم ہو گئی۔ پھر سو برس سے زائد حالت اسیری (Captivity) میں رہے۔ پھر صرف سوبرس کا دور آیاہے جس کے دوران انہوںنے اپنی ایک عظیم الشان حکومت قائم کی۔ اس کے بعد وہاں سے نکال دیے گئے اور یروشلم منہدم کر دیا گیا۔ یہ ساری داستان مَیں نے آپ کو اس لیے بتائی ہے کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطین کی سرزمین اللہ نے ہمیں دی ہے اور اس پر ہمارا پیدائشی حق ہے۔ آج بدقسمتی سے لبرل مسلمان‘ یہاں تک کہ بعض ’’وسیع النظر‘‘ علماء بھی ان کے اس دعوے کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قرآن کریم کے ان الفاظ کا حوالہ دیا جاتا ہے : {اُدْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَــکُمْ}(المائدۃ:۲۱)’’داخل ہو جائو اس ارضِ مقدس میں جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے‘‘ لیکن یہ لکھ دیا جانا اِن معنوں میں تھا کہ اگر جہاد کر کے فتح کر لو گے تو یہ تمہاری ہوگی۔ جب انہوں نے جہاد و قتال نہیں کیا تو یہ وعدہ ختم ہو گیا اوران سے کہہ دیا گیا :{فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج}(المائدۃ:۲۶) ’’پس اب یہ چالیس برس تک اُن پر حرام رہے گی۔‘‘ اس کے بعد بہت تھوڑے عرصے تک وہاں ان کا قبضہ رہا۔ ۷۰ء میں ان کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا تھا اور وہاں ان کا داخلہ تک ممنوع تھا۔ یروشلم کا شہر تو بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ قریباً ۱۵۰ سال کے بعد رومی بادشاہ ہیڈریان نے اسے دوبارہ آباد کیا اور اس کا نام ’’ایلیا‘‘ رکھا۔ حضورﷺ کے زمانے میں بھی اس کا نام ’’ایلیا‘‘ تھا ’’یروشلم‘‘ نہیں تھا۔ چنانچہ حدیث کے اندر اس کا یہی نام آیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ((یَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَأْیَاتُ سُوْدٌ فَـلَا یُرَدُّھَا شَیْئٌ حَتّٰی تُنْصَبَ بِاِیْلِیَاءَ))(سنن الترمذی) یعنی خراسان کے علاقے سے سیاہ علَم لے کر فوجیں چلیں گی‘ اُن کا رُخ کوئی نہیں موڑ سکے گا یہاں تک کہ ایلیا میں جا کر وہ جھنڈے نصب ہوجائیں گے۔‘‘ بہرحال فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ دو ہزار سال پہلے یہاں سے نکال دیے گئے تھے اور اس عرصے کو وہ اپنا دَورِ انتشار (Diaspora) کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں اُن سے شدید نفرت کی جاتی تھی۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کے اندر انہیں ستایا اور مارا جاتاتھا۔ان کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور ان کی بستیاں شہروں سے باہر ہوتی تھیں جہاں یہ جھونپڑیوںمیں رہتے تھے۔ دِن بھر میں صرف دو گھنٹے کا وقت مقرر تھا کہ ضروریاتِ زندگی کی خرید و فروخت کے لیے آ جا سکتے ہیں۔
فلسطین پر یہودیوں کے دعوے میں عیسائیوں کا بھی ایک بہت بڑا مؤثر حلقہ اُن کا ہمنوا ہے۔ عیسائیوں کو دو فرقوں پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس میں تقسیم کرنے والے بھی یہودی تھے‘ ورنہ اس سے پہلے سب عیسائی کیتھولکس یعنی پوپ کو ماننے والے تھے۔ پوپ کے خلاف بغاوت یہودیوں نے کرائی تھی۔ چنانچہ پروٹسٹنٹس نے پوپ کی اس حیثیت کو چیلنج کر دیا کہ وہ جو حکم دے وہ واجب الاطاعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بائبل موجود ہے‘ ہم خود اسے پڑھیں گے‘ خود سمجھیں گے‘ خود عمل کریں گے‘ خود قانون بنائیں گے۔ سب سے پہلے اس بغاوت کا ظہور انگلستان میںہوا اور انگریزوں نے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کے نام سے اپنا چرچ علیحدہ کر لیا‘ جو پوپ کے تحت نہیں تھا۔ سب سے پہلا پروٹسٹنٹ ملک بھی برطانیہ تھا اور وہیں پر یہودیوں نے سب سے پہلا بینک ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ قائم کیا۔ اس سے پہلے دنیا میں کوئی بینک نہیں تھا‘ کوئی سودی معاملہ نہیں تھا۔ پوپ کے زیر اثر کسی بھی علاقے میں سود کی اجازت نہیں تھی۔ بہرحال یہودیوں نے عیسائیوں کو پروٹسٹنٹس اور کیتھولکس میں تقسیم کر دیا‘ جیسے انہوںنے ہمیں شیعہ اور سُنّی میں تقسیم کیا ہے۔
عبداللہ بن سبا ایک بدبخت یہودی تھا جو حضرت عثمانؑ کے دورِ خلافت میں یمن سے آیا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگیا۔ اس نے آ کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ عثمان کیسے خلیفہ ہو سکتے ہیں‘ یہ تو بنو اُمیہ میں سے ہیں جب کہ خلافت تو بنو ہاشم کا حق ہے‘ اس لیے کہ حضرت محمدﷺ تو ہاشمی تھے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر بھی غاصب تھے‘ حضرت عمر بھی غاصب تھے‘ حضرت عثمان بھی غاصب ہیں (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ اس نے یہ فتنہ اٹھایا اور اُمّت کو دو حصوں (شیعانِ علی ؓ اور شیعانِ عثمانؓ) میں تقسیم کر دیا۔ اُس نے اِن باطل نظریات کا پرچار کیا کہ حضرت علیؑ کی ذات میں خدا نے حلول کیا ہوا ہے۔ اس طرح اس نے حضرت علیؑ کو خدا ئی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوسر ے یہ کہ وہ چونکہ حضور ﷺکے قریب ترین رشتہ دار ہیں ‘بنو ہاشم میں سے ہیں‘ لہٰذا خلافت پر اوّلین حق انہی کا ہے۔ اِس بنیاد پر اُس نے اُمّت میں تفرقہ ڈالا اور اس قدر خوں ریزی ہوئی کہ ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے قتل ہوئے۔ حضرت علیؑ کا پورا دورِخلافت باہمی خوں ریزی اور جنگ و جدال میں گزرا۔
سو سال پہلے تک پروٹسٹنٹس کا امام برطانیہ تھا‘ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس کا امام امریکہ ہو گیا۔ کچھ یہودی اور پروٹسٹنٹس برطانیہ اور امریکہ کو ’’ New Israel‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی اصل میں یہ اسرائیل ہی ہے۔ وہاں پر اگرچہ بظاہر اسرائیل کا قبضہ نہیں ہے‘ لیکن کنٹرول یہود کا ہے۔ برطانوی حکومت ہو یا امریکی حکومت ہو‘ اس پر کنٹرول یہودیوں کا ہے۔ علامہ اقبال چونکہ امریکہ نہیں گئے لہٰذا وہاں کے حالات تو وہ نہیں دیکھ سکے‘ لیکن ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک انہوں نے تین سال برطانیہ اور یورپ میں گزارے اور انہوں نے وہاں دیکھ لیا کہ ع‘’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘ آج فرنگ کا امام امریکہ ہے‘ لہٰذا آج ’’امریکہ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘
ارضِ فلسطین : عیسائیوں کی نظر میں
ارضِ فلسطین سے عیسائیوںکا بھی تعلق ہے۔ حضرت عیسٰیؑاگرچہ ناصرہ (یا نضارت) کے رہنے والے تھے‘ لیکن جس مقام پر حضرت مریم سلامٌ علیہا کے‘ بطن مبارک سے آپؑ کی پیدائش ہوئی وہ بیت اللحم ہی تھا۔ پھر جہاں انہوں نے تبلیغ کی وہ سارا علاقہ فلسطین ہی کا تو ہے! آپؑ گلیلی جھیل سے ‘ جو بالکل شمال میں ہے‘ یروشلم تک اِس پورے علاقے میں تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ پھر عیسائیوں کے قول کے مطابق اسی یروشلم شہر کے اندر انہیں صلیب دی گئی۔ وہ صلیب آج تک محفوظ ہے جس پر اُن کے خیال کے مطابق حضرت عیسیٰؑ ‘مصلوب کیے گئے تھے۔ لہٰذا عیسائیوں کی پوری تاریخ بھی فلسطین سے وابستہ ہے اور یہودیوں کی تاریخ بھی اسی سے وابستہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے جبل ِطور پر تورات دی تھی جو صحرائے سینا میں واقع ہے۔ جیسے حضورﷺ پر پہلی وحی جبل ِنور پر غار حرا میں نازل ہوئی اسی طرح جبل ِطور پر حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اور پھر وہیں پر اُن کو تورات دی گئی۔عیسائیوں کی نظر میں بھی فلسطین مذہبی اعتبار سے اہم ترین اور مقدّس ترین علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑکے آسمان پر اٹھائے جانے کے ایک ہزار سال بعد (جدید اصطلاح میں سیکنڈ ملینیم کے آغاز پر) انہوں نے اپنی ارضِ مقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے واگزار کرنے کے لیے صلیبی جنگیں (Crusades)کیں‘ جن میں انتہائی خوں ریزی ہوئی ۔ ان کروسیڈز کے پہلے ریلے میں‘ جبکہ مسلمان ابھی تیّار نہیں تھے‘ بحیرئہ روم کے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثر بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے یروشلم فتح کر لیا اور وہاں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ یورپی مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب عیسائی فاتحین کے گھوڑے یروشلم میں داخل ہوئے تو اُن گھوڑوں کے گھٹنوں تک خون کا دریا بہہ رہا تھا۔ مسلمانوں پر ایسا عذاب آیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ۸۸سال بعد ۱۱۸۷ء میں اُس نے ایک مردِ مجاہد صلاح الدین ایوبی کو اٹھایا‘جس نے عیسائیوں کو شکست دی اور یروشلم واپس لے لیا۔ اس کے بعد بھی تین چار کوششیں ہوئی ہیں۔ کروسیڈز ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوئے ہیں۔ اب امریکہ کے پروٹسٹنٹ عیسائی کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ کن ’’The Last Crusade‘‘ شروع ہونے والا ہے‘ جب مسلمانوں کے ایک ایک بچے کو فلسطین سے نکال دیا جائے گا اور یہ زمین پاک کر دی جائے گی۔
’’The Philadelphia Trumpet ‘‘کی اشاعت بابت اگست۲۰۰۱ء میں اس کے ایڈیٹر Gerald Flurryکی طرف سے یہ عبارت شائع ہوئی ہے کہ :
" Most people think the crusades are a thing of the past over forever. But they are wrong. Preparations are being made for a final crusade, and it will be the bloodiest of all."
’’اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ صلیبی جنگیں تو پرانے زمانے کی ایک بات ہے‘ جو اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہیں۔ لیکن اُن کا یہ خیال غلط ہے۔ اب ایک فائنل کروسیڈ کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں‘ اور یہ (آخری صلیبی جنگ) پچھلی تما م جنگوں سے زیادہ خونی ہو گی۔‘‘
یہود کا ایجنڈا اور فلسطین کا مستقبل
سن ۷۰ء سے نکالے ہوئے یہودی جن کی انتہائی تعذیب(persecution) ہوئی ہے‘اب ارضِ فلسطین پر قابض ہیں۔ پہلے کروسیڈز میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے ‘ اس کے برابر یہودیوں کا بھی ہوا ہے ‘کیونکہ عیسائیوں کو یہودیوں سے بھی شدید نفرت تھی۔ ایک قوم (عیسائی) حضرت عیسٰیؑ کو خدا کا بیٹا مانتی ہے جبکہ دوسری (یہود) انہیں حرام زادہ‘ واجب القتل‘ کافر اور مرتد ٹھہراتی ہے (نعوذ باللہ!) تو اِن دونوں قوموں میں کوئی مصالحت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تاریخ کا معجزہ ہے اور یہودیوں کی محنت ‘ جدّوجُہد‘ کوشش‘ سازشی انداز‘منصوبہ بندی اور دوراندیشی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے عیسائیوں کو ‘جو یہودیوں کے خون کے پیاسے تھے اور اُن سے انتہائی نفرت کرتے تھے‘ رفتہ رفتہ دو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔پروٹسٹنٹس کو انہوں نے اپنا آلۂ کار بنایا اور آج پوری عیسائی دنیا اُن کے قبضہ قدرت میں ہے۔
یہودیوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ بائبل میں ہرمجدون (Armageddon)کی خبر دی گئی ہے کہ بہت بڑی جنگ ہوگی۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ جلد از جلد ہو جائے۔ اس جنگ کی حدیث میں بھی خبر ہے اور اسے اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی اور اَلْمَلْحَمَۃُ الْکُبْرٰی کہا گیا ہے۔ تاریخ ِانسانی کی یہ سب سے بڑی جنگ کئی سالوں پر پھیلی ہوگی۔ انگریزی میں جنگ کے لیے دو لفظ warاور battleاستعمال ہوتے ہیں۔ warایک بڑا لمبا پراسیس ہوتا ہے۔ اس سے ایسی جنگ مراد ہوتی ہے جو کئی سالوں پر محیط ہو۔ جیسے حضرت محمد رسول اللہﷺ اور مشرکینِ مکّہ کے درمیان چھ سالہ جنگ (war)رہی‘ جس کے دوران کئی جنگیں (battles) ہوئیں۔جنگ بدر‘ جنگ اُحد اور جنگ احزاب سب battles تھیں۔ تو تاریخ ِانسانی کی سب سے بڑی جنگ (battle) اگرچہ چھوٹے سے علاقے میں ہوگی‘ لیکن خون ریزی کے اعتبار سے دنیا کی تاریخ کی کوئی جنگ اس کے مساوی نہیں ہوگی۔ یہود چاہتے ہیں کہ پہلے تو آرمیگاڈان کے نتیجے میں عظیم تر اسرائیل قائم ہو جائے۔ اس کے لیے کوشش ہو رہی ہے۔ امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا؟ ابھی تک کوئی وجہ سامنے نہیں آسکی۔ کوئی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) وہاں سے برآمد نہیں ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تیل کے لیے کیا گیا۔ قطعاً نہیں! یہ دراصل گریٹر اسرائیل کی طرف پہلا قدم ہے۔ ۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ کے اتحادی کمانڈر انچیف نے بعد میں صاف کہہ دیا تھا کہ"We fought for the protection of Israel." یہودیوں کا claimہے کہ ہم نے گریٹر اسرائیل بنانا ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ فرات تک ہمارا علاقہ ہے‘ اب کہتے ہیں دریائے دجلہ بھی ہمارا ہے۔ سقوطِ بغداد کے وقت اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے صاف کہہ دیا تھا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا۔ یہ ساری تیاری اس کے لیے ہے۔ یہ یہودی ہیں جو بش اور اس کے ساتھیوں کو چابی دے رہے ہیں۔
اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ کرنے والے بھی یہودی ہیں۔ تازہ ندائے خلافت (شمارہ۱۵:۲۰۰۴ء) میں عابد اللہ جان کا چشم کشا مضمون شائع ہوا ہے‘ جس میں انہوں نے Alex Jones کی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ نائن الیون درحقیقت CIAکا کارنامہ تھا۔سیمپوزیم آف ملٹری اینڈ سویلین پائیلٹس کے سیمینار میں تمام پائلٹس نے یہ بات کہی کہ اس طرح کا اٹیک کسی پائیلٹ کے لیے ممکن ہی نہیں۔ امریکہ میں اب اس بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہو رہی کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ کس نے کیا تھا! شروع میں کچھ کارروائی ہوئی تھی ‘ لیکن اس کی بعض باتیں لیک ہونے پر معاملہ فوراً ٹھپ کر دیا گیا‘ کیونکہ وہ کُھرا تو اسرائیل تک پہنچ رہا تھا۔ بہرحال یہودیوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ سب سے پہلے آرمیگاڈان جلد از جلد ہو جائے جس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل قائم ہو۔ وہاں پر وہ اپنا تیسرا معبد سلیمانی (Third Temple) تعمیر کریں گے‘ جس کے لیے مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ دونوں کو گرایا جائے گا۔ تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کے بعد وہاں پر تخت دائود لاکر رکھا جائے گا اور اس پر وہ ’’مسیحا‘‘ آ کر بیٹھے گا جس کا انہیں انتظار ہے۔ پروٹسٹنٹ عیسائی بھی یہودیوں کے اس ایجنڈے کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ آرمیگاڈان جنگ جلد ہو‘ گریٹر اسرائیل قائم ہو اور تھرڈ ٹمپل بنے۔
میثاق کی خصوصی اشاعت (بابت اپریل ۲۰۰۴ء) کے بیک ٹائٹل پر ہم نے
’’ The Philadelphia Trumpet ‘‘ سے منقول مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کی ایک تصویر اور اندرونی صفحہ پر یہود و نصاریٰ کے عزائم کے بارے میں تحریر شائع کی ہے۔
یہودی جو ’’تھرڈ ٹمپل‘‘ تعمیر کرنا چاہتے ہیں یہ ٹمپل آف مائونٹ کہلاتا ہے۔ یروشلم کے مشرقی علاقے کے اندر اونچی پہاڑی جگہ پر ایک بالکل ہموار میدان ہے جس کو وہ ’’Temple of Mount‘‘کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی مستطیل ہے جو شمالاً جنوباً لمبی ہے لیکن شرقاً غرباً اس کی چوڑائی کم ہے۔ اس کے شمالی علاقے میں قبۃ الصخرۃ(Dome of the Rock)ہے‘ جو اُموی حکمران عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک نے اس چٹان پربنوایا تھا جس سے معراج شریف میں نبی اکرمﷺ کا آسمانی سفر شروع ہوا تھا۔ اسی مناسبت سے مَیں نے آغاز میں اس آیۂ مبارکہ کی تلاوت کی تھی :
{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَــیْـلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـــرَکْنَا حَوْلَـہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰــتِنَا ط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)}(بنی اسراء یل)
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی سب کچھ سننے والا‘دیکھنے والا ہے۔‘‘
اس علاقے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اس کا ماحول ہم نے بابرکت بنایا ہے۔ اس لیے کہ سینکڑوں انبیاء وہاں دفن ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ سے دو ہزا ر برس بعد تک جتنے انبیاء کا ذکر ہمیں ملتا ہے‘ سب کے سب وہیں دفن ہوئے ہیں۔اب پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور یہودیوں کا اس بات پر گٹھ جوڑ ہے کہ یہاں تھرڈ ٹمپل تعمیر ہونا چاہیے۔
دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائیوں اور کیتھولکس کے درمیان مذہب کے نام پر جتنی خوںریزی ہوئی ہے‘ دنیا میں کبھی نہیں ہوئی۔ ’’The Blood on the Cross‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی تھی جس میں عیسائیوں کی باہمی خانہ جنگیوں کا ذکر ہے۔ یورپ میں اس بنیاد پر جس قدر خانہ جنگیاں ہوئی ہیں‘ اس کا آپ تصوّر نہیں کر سکتے۔ سارے پروٹسٹنٹس یہاں سے مار مار کر بھگا دیے گئے‘ جو امریکہ میں جا کر آباد ہوئے۔ یورپ کا بڑا حصّہ کیتھولکس پر مشتمل ہے۔ سپین‘ اٹلی‘ فرانس ‘ جرمنی سب کیتھولکس ہیں۔ پروٹسٹنٹس یورپ سے جان بچا کر بھاگے ۔انہوں نے امریکہ کے اندر اپنی نئی دنیا بسائی ہے اور وہاں وہ غالب ہیں۔ یہاں یہودیوں کو طاقت اور کنٹرول حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری ذلّت اور کمزوری کا دور ختم ہوا‘ اب دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہماری مٹھی میں ہیں اور پوری دنیا کی اقتصادیات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ امریکی حکومت یہودیوں کے بینکوں کی کھرب ہا کھرب ڈالر کی مقروض ہے۔ لہٰذا اس وقت امریکہ کی رگِ جاں پوری طرح پنجۂ یہود میں ہے۔ بہرحال کیتھولکس کی چونکہ پروٹسٹنٹس کے ساتھ دشمنی ہے اس لیے درحقیقت اب یورپ میں’’Last Crusade‘‘ کی تیاری ہو رہی ہے۔ یورپ کو دوبارہ متحد کیا جا رہا ہے‘ جیسے کبھی رومن ایمپائر ہوتی تھی اور پورا یورپ تقریباً ایک بادشاہ کے تحت ہوتاتھا۔ یہ اصل میں پوپ کی طرف سے کروایا جا رہا ہے تا کہ ایک بڑی رومن کیتھولک امپیریلزم قائم ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ پروٹسٹنٹ عیسائی پوپ کو شیطان کہتے ہیں۔ نیٹو (NATO)سے علیحدہ ہو کر یورپ کی اپنی الگ فوج بنانے کی تیاریاں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں تاکہ یہ امریکی کنٹرول سے آزاد ہو سکیں۔ گویا یہ صرف اقتصادی معاملہ نہیں ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے درمیان ایک بنیادی معاملہ ہے۔
پروٹسٹنٹس کا کہنا یہ ہے کہ کیتھولک عیسائی فلسطین کو فتح کرنا چاہتے ہیں تا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کو ختم کر کے وہاں پر کیتھولک عیسائی ریاست قائم ہو جائے‘ جیسے انڈونیشیا کے ایک بڑے جزیرے کو تقسیم کرا کے ایسٹ تیمور میں کیتھولک عیسائیوں کی حکومت قائم کر دی گئی۔ اسی طرح کی کوششیں نائجیریا میں بھی ہو رہی ہیں۔ وہاں پر کیتھولک عیسائی مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور نائجیریا کے ایک بڑے حصے پر رومن کیتھولک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہودیوں‘ رومن کیتھولکس اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں تینوں کی نگاہ اس وقت ارضِ فلسطین پر ہے ۔ ؎
الٰہی خیر میرے آشیاں کی
زمیں پر ہیں نگاہیں آسماں کی!اس کا حل کیا ہے؟ ایک اصولی اور مبنی بر انصاف حل تو وہ ہے جو شروع سے ’تنظیم آزادیٔ فلسطین‘(PLO) کا مطالبہ تھا ‘اور اب بھی ’حماس‘ کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کا قیام ناجائز طور پر ہوا تھا‘ ہمارے اوپر ظلم کر کے یہاں یہودیوں کو آباد کیا گیا‘ اس لیے اسرائیل کو ختم ہونا چاہیے اور پورے کا پورا فلسطین اس کے اصل رہنے والوں کو دیا جانا چاہیے۔ ان کے اس مطالبے میں تقریباً تمام عرب ممالک ان کے ساتھ تھے۔ لیکن اصل فیصلہ تو طاقت کرتی ہے۔ ع ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘دنیا کی واحد سپریم پاور امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے۔ اہل یورپ سے بھی کبھی کبھی اُمیدیں باندھ لی جاتی ہیں کہ وہ کچھ یہودیوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق کی بات کر دیتے ہیں‘ لیکن ان کا بھی اصل ایجنڈا یہی ہے کہ یہاں سے یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نکال کر رومن کیتھولک حکومت قائم کی جائے ۔ ؎
ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے!جنہوں نے ہم سے صلیبی جنگیں لڑیں اور لاکھوں مسلمانوں کو تہ ِتیغ کیا‘ ان سے اُمید کی جارہی ہے کہ وہ اہل ِفلسطین کو ان کا حق دلا دیں گے!
ہمارے ہاں بھی کہا جاتا ہے کہ زمینی حقائق کودیکھو۔اصولی بات تو یہ ہے کہ پورا کشمیر پاکستان کا حصّہ ہے‘ لیکن بھارت آپ کو ایک انچ زمین بھی دینے کو تیار نہیں‘ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر بات کر لی جائے۔ بھارت سے اس سے زیادہ کوئی توقع نہیں کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنا دیا جائے۔ اسی طرح کا معاملہ فلسطین کا ہے کہ ایک زمانہ ہوا پی ایل او اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہو چکی ہے اور اب اس کا موقف یہ ہے کہ اچھا ٹھیک ہے‘ اسرائیل بھی رہے لیکن ایک فلسطینی ریاست بھی بن جائے۔ اب اس صورتِ حال کو بھی بارہ تیرہ سال گزر گئے ہیں۔اس پر کبھی اوسلو‘ کبھی میڈرڈ اور کبھی کیمپ ڈیوڈمیں مذاکرات ہو رہے ہیں‘ لیکن بظاہر اس مسئلے کا کوئی حل ہے ہی نہیں۔ اس چھوٹے سے جغرافیہ پر اتنے لوگوں کی نگاہیں ہیں اور بے چارہ مسلمان وہاں پر پٹ رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں پی ایل او کی بات بھی کسی درجے میں صحیح ہے۔ امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ اور کیا چارئہ کارہے!
بہرحال صورتِ حال یہ ہے کہ ’’آرمیگاڈان‘‘ اب زیادہ دور نہیں ہے۔ اس کے لیے یورپ بھرپور تیاریاں کر رہا ہے اور متحد ہو رہا ہے۔ پوپ کی طرف سے بھی یہ بات آگئی ہے کہ یورپ کے دستور میں لکھ دیا جائے کہ اس کا سرکاری مذہب کیتھولک عیسائیت ہے۔
آج کل ایک عجیب بات قبرص کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کوفی عنان صاحب وہاں بار بار آ رہے ہیں۔ نیٹو افواج کا صدر مقام پہلے جرمنی تھا‘ وہاں سے یہ کوسوو کی طرف منتقل ہوا۔ اب وہاں سے ان کا اگلا قدم قبر ص ہے۔ وہیں اصل ’’جمپنگ پیڈ‘‘ بنے گا۔ فلسطین یہاں سے بہت قریب ہے‘ لہٰذا یہیں سے حملہ ہوگا۔ اس حملے میں اتنی خوں ریزی ہوگی کہ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ جب تک یہود مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو نہ گرائیں ان کا تھرڈ ٹمپل نہیں بنتا۔ قبضہ ان کے پاس ہے اور دنیا کی عظیم ترین عسکری قوت ان کی پشت پر ہے۔ اب اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے فیصلہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر قائم چند یہودی بستیوں کو تو ہم خالی کر دیں گے‘ جس کا رقبہ محض۱۴۰مربع میل ہے‘ لیکن مغربی کنارے پر ہم اپنی بستیاں نہیں گرائیں گے اور وہ یہودی علاقہ ہی رہے گا۔مغربی کنارے کے بارہ چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی مکمل طور پر یہودیوں کے ہو جائیں گے۔ اس طرح فلسطین کے مسلم علاقے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائیں گے اور یہودی جب چاہیں گے ان کے مابین مواصلات روک دیں گے۔ ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو ایک ریاست کی شکل کیسے دی جا سکتی ہے؟
اس سے پہلے امریکہ کا موقف یہ تھا کہ اسرائیل پورا مغربی کنارہ واپس کر دے جس پر اُس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور یہاں غزہ کی پٹی میں فلسطینی ریاست قائم کر دی جائے ۔ لیکن اب صدر بش نے شیرون کے منصوبے کی نہ صرف منظوری دے دی ہے بلکہ اس پر اسے دادبھی دی ہے۔ اس سے آگے یہ معاملہ ہوا ہے کہ صدر حسنی مبارک نے اپنے حالیہ دورئہ امریکہ کے دوران بش پر یہ واضح کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا عمل طویل ہونے اور روڈ میپ پر اسرائیل کے کاربند نہ ہونے سے عرب دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے۔ عوام یہ صورتِ حال کب تک برداشت کریں گے! عرب نوجوانوں کے اندر یہودیوں کی نفرت رچی ہوئی ہے۔ لہٰذا ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق وہ اٹھیں گے۔ پھر Holocaust ہوگا۔ اس میں سب سے پہلے امریکہ کے ایجنٹوں کی صورت میں جو مسلمان حکمران بیٹھے ہوئے ہیں وہ اپنے نوجوانوں کو ختم کریں گے۔ ملّت ِعرب کے لیے انتہائی خوں ریز معاملہ آنے والا ہے‘ ازروئے حدیث ِنبویؐ: ((وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ))(صحیح البخاری)’’عربوں کے لیے تباہی ہے اس آفت سے جو قریب ہی آ لگی ہے۔‘‘یہ ہے وہ ہولناک منظر جسے حضور ﷺ نے اَلْـمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی اور اَلْـمَلْحَمَۃُ الْکُبْرٰی یعنی تاریخ ِانسانی کی عظیم ترین جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ مستقبل سوائے اس کے اور کوئی نہیں۔ کوئی راستہ نہیں ہے!
اقول قولی ھٰذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات00
tanzeemdigitallibrary.com © 2025