سورۃ الکہف : ایک اجمالی جائزہخورشید انجم
مرکزی ناظم تربیت‘ تنظیم اسلامی پاکستان(جامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی لاہور میں۳ دسمبر ۲۰۲۱ء کا خطابِ جمعہ)
سورۃالکہف ایک طویل سورت ہے او ر اس کے مضامین میں بہت تنوع ہے۔ آج کی نشست میں ہم اس کے مضامین پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے‘ان شاء اللہ!نبی اکرمﷺ کی احادیث میں اس سورت کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔کئی احادیث ہیں جن میں دجال سے بچائو کے لیے سورۃالکہف کی تلاوت کی ترغیب دی گئی ہے‘ بالخصوص جمعہ کے دن۔ان میں پہلی دس آیات کا بھی ذکر ہے‘آخری دس آیات کا بھی اورپوری سورت کا بھی ۔ دجال کے بارے میں نبی اکرمﷺنے فرمایاکہ ہرنبی اور ہررسول نے اپنی اُمّت کو دجال سے خبردار کیااور مَیں آخری نبی ہوں‘ میری اُمّت میں ہی دجال کا فتنہ رونما ہوگا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اگردجال سے بچائو کے لیے اس سورت کو پڑھنے کی تاکید کی ہے توہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سورت کے مضامین کیا ہیں‘اس حوالے سے کیاخاص گفتگو اس میں کی گئی ہے۔ جہاں تک پوری سورت کا عمود ہے‘ وہ اس سورئہ مبارکہ کی آیت ۷ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷) }
’’یقیناً ہم نے بنا دیا ہے جو کچھ زمین پر ہے اسے اس کا بنائو سنگھار‘ تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون بہتر ہے عمل میں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا تخلیق کی ہے۔یہ زمین بنائی ہے او ر اس زمین کو ہر قسم کی زیب و زینت اور آرائش سے آراستہ کیاہے۔اس زیب و زینت سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ ’’ہم آزمائیں‘ پرکھیں کہ ان میں سے کون ہے جو نیک اعمال کرتا ہے۔‘‘ دنیا کی زیب و زینت اس سورت کا عمود ہے جس کے گرد یہ پور ی سورت گھومتی ہے۔باقی اس کے پہلے اور آخری رکوع میں پوری سورت کا خلاصہ آگیاہے۔اس کے ساتھ چار قصے بھی اس سورئہ مبارکہ میں بیان کیےگئے ہیںجو اسی عمود کے گرد گھومتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کسی کو دے کر آزماتاہے اور کسی سے لے کرآزماتا ہے۔ کسی پرکوئی تکلیف آتی ہے تب آزماتاہے‘ کسی کواللہ تعالیٰ فراوانی د ےکرآزماتاہے۔وہ جوداغ دہلوی نے کہا ہے : ؎
رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کروہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے!اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پروانہ کس طرف جاتا ہے ۔ پہلے رکوع کا مضمون اور اسی کا ایک عکس پھر آخری رکوع میں بھی آتا ہے‘ یہی ہے کہ اللہ نے زمین پر یہ جوزیب و زینت رکھی ہے‘یہ زیب و زینت کیا ہے؟اس ضمن میں سب سے بنیادی چیز یہ بتائی گئی کہ: {اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ} (آیت ۴۶)’’یہ مال اور اولاد دُنیا کی زیب وزینت ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک داعیہ رکھا ہے مال اور اولاد کا۔ انسان اسی لیے شادی کرتا ہے ‘ گھر گرہستی کے جھمیلے برداشت کرتا ہے‘اولاد ہی کے آرام و آسائش اور بہترتعلیم و تربیت کے لیے مال کمانے کی جدّوجُہد کرتا ہے۔ اسی زیب و زینت کے بارے میں سورئہ آل عمران کی آیت ۱۴ بہت جامع ہے:
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)} (آل عمران)
’’مزین کر دی گئی ہے لوگوںکے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے‘ اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے‘اور نشان زدہ گھوڑے‘اور مال مویشی‘ اور کھیت ‘یہ سب دُنیوی زندگی کا سروسامان ہے۔لیکن اللہ کے پاس ہے اچھا لوٹنا۔‘‘
یہ ساری زیب و زینت کی چیزیں ہیں۔مرد کے لیے عورت میں کشش (attraction) رکھی گئی ہے اور عورت کے لیے مرد میں۔پھراولاد کی محبت ہے۔ کسی سے پوچھ لیں‘ وہ یہی کہے گا کہ بس جی ہم تو یہ سب کچھ اپنے بچوں کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ کہیں سیٹل ہوجائیں ‘ان کی دنیا بن جائے۔اس کے بعد سونے چاندی کا ذکر کیا گیا۔ اس کے ساتھ بینک بیلنس کو بھی شامل کر لیجیے۔ ’’اور نشان زدہ گھوڑے‘‘۔ اب گھوڑوں کا زمانہ نہیں رہا بلکہ اس کی جگہ پراڈو‘بی ایم ڈبلیواور او ڈی آ گئی ہیں۔ آپ نے دیکھاہوگا خاص نمبرلکھاہوتاہے 1کے ساتھ۔ یہ خاص نمبر ہے‘ عام شخص نہیں لے سکتا۔’’اور مویشی‘‘۔ دیہاتی زندگی کے اندر مال مویشی کی اپنی اہمیت ہے‘ دیہاتوں میں اسے کہا ہی ’’مال‘‘ جاتا ہے ۔’’اور کھیتیاں‘‘ ۔ اب وہ فارم ہائوسز بن گئے ہیں او ر مربعے ہوگئے ہیں۔یہ سب کچھ کیا ہے؟’’یہ سب دنیا کے برتنے کا سامان ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ انسان کو مثبت انداز میں فراہم کیا تاکہ دنیا کی سرگرمیاں جاری رہیں‘ نظامِ ہستی چلتا رہے‘ لیکن شیطان نے اسے منفی بنادیااور ہم اسی دنیا کی زلف ِگرہ گیر کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ اب اسی کے لیے دن رات دوڑ دھوپ ہے۔ یہ امتحان ہمیشہ سے رہاہے۔پتھر کے دور میں بھی یہ امتحان تھاجب ضروریات محدود تھیں‘جبکہ اب ضروریات لامحدود ہو گئی ہیں۔ اس آزمائش میں انسان کو اس لیے ڈالا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھ لے کہ انسان دنیا کا بندہ بننا چاہتا ہے یا میرا بندہ !
اسی حوالے سے آخری رکوع میں بیان کیا گیا:{ قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا(۱۰۳)}’’کیا ہم تمہیں آگاہ کریں کہ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے لوگ کون ہیں!‘‘ وہاںتھا:’’اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘یعنی بہترین عمل کرنے والے۔ یہاںـ کیا ہے؟سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ۔{ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا}’’جن کی ساری سعی و کوشش اسی دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی‘‘۔{وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴)} ’’اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے تو بڑا کام کیا ہے!‘‘ ہم نے تو بہت کامیاب زندگی گزاری ہے! یُحْسِنُوْنَ‘ حسن سے ہے اور صُنْعًا کاریگری کرنا یا بنانا۔پہلے ایک فیکٹری تھی‘ آج ہماری پانچ فیکٹریاں ہو گئیں۔ پروفیشن کے لیے دن رات ایک کر دیا ہے‘ ہمارا نام چلتاہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں یہی طرزِعمل ہے۔ ساری زندگی اسی میں گھلا دی ۔ بس یہی مقصد رہا کہ کسی طرح کچھ حاصل ہو جائے‘ ہمارا کیریئر بن جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ {بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا(۱۰۳)} یہ سب سے زیادہ گھاٹے میں ہیں۔ شدّاد نے تو ایک جنّت بنائی تھی‘ آج ہرایک نے اپنی جنّت بنائی ہوئی ہے ۔اسی دنیا کو ہم نے جنّت بنالیا ہے۔ بڑی بڑی کالونیز ’’پیراڈائز‘‘ کے نام سے بن رہی ہیں اور بعض کالونیز کے مین گیٹ پر لکھا ہوتا ہے : اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ آمِنِیْنَ۔ گویا جو کچھ جنتیوں کے لیے ہوگا‘ وہ ہم نے یہیں پر بنا لیا ہے۔ ایسے میں کس کا دل چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ چھوڑ کر قبر کے گڑھے میں جا کر پڑ جائے۔ موت کا نام سننا کوئی پسند نہیں کرتا‘ نحوست ہوتی ہے۔ہمارے شعور میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ہم نے مرنا بھی ہے۔ دنیاوی طور پر ہم اپنی پوری پلاننگ کرتے ہیں کہ یہ کرنا ہے‘ وہ کرنا ہے‘ لیکن اس میں موت کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس کے بارے میں تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں‘ البتہ اللہ جب چاہے گا‘ اچانک بھیج دے گا۔
سورۃ الکہف میں بنیادی طو رپر چار قصے بیان کیے گئے ہیں اور وہ دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آرائش کے گرد گھوم رہے ہیں۔ انسان دنیا کو زیادہ اہمیت دیتا ہے یا اللہ کو! پہلا قصّہ اصحابِ کہف کا ہے ‘جو بہت معروف ہے۔یہ یہود کا سوال تھا جو مشرکین نے کیا تھا کہ اصحابِ کہف کون تھے؟ جس کے بعد یہ سورئہ مبارکہ نازل ہوئی۔ وہ کچھ نوجوان تھے جنہوں نے اللہ ربّ العزت کی وحدانیت کا اعلان کر دیا تھا۔حضرت عیسیٰؑ کے رفع سماوی کے بعد ۷۰ عیسوی میں رومی جنرل ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کر کے اسے بالکل تباہ و برباد کر دیا۔ یہودیوں کو قتل یا ملک بدر کر دیا گیا۔ ہیکل مسمار کر دیا گیا۔ عیسائیوں کو ملک بدر تو نہ کیا لیکن انہیں حضرت عیسیٰ ؑکے پیروکار اور مؤحد ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا۔ اسی دور میںرومن ایمپائر پر ایک بُت پرست رومی بادشاہ دقیانوس حکمران تھا۔اُس نے حضرت عیسیٰؑ کے پیروکاروں پرموحد ہونے کی وجہ سے ظلم وستم روارکھاہوا تھا۔چنانچہ ان نوجوانوں کی دربار میں پیشی ہوئی اور بادشاہ نے الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو اپنا عقیدۂ توحید چھوڑ دو‘ یا پھر موت کے لیے تیار ہو جائو۔ بادشاہِ وقت کے سامنے انہوں نے کھل کررب کی وحدانیت کااقرار کیااور بین السطور اس کو بھی توحید کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور ہم اس کے علاوہ ہرگز کسی معبود کو نہیں پکاریں گے۔
پھر انہوں نے ایک غار میں پناہ لے لی اور تین سو سال تک وہاں پر نیند کی حالت میں رہے ۔ اس دوران اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا رہا۔ قرآن مجید میں الفاظ آئے ہیں : {فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِھِمْ فِی الْکَھْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا(۱۱)}’’تو ہم نے تھپکی دے دی ان کے کانوں پر غار میں کئی سال کے لیے۔‘‘جیسے بچے کو لوری دی جاتی ہے ان کے کانوں پر وہ لوریاں بھی دی جاتی رہیں۔ ان کی کروٹیں بھی بدلتی رہیں۔ ان کے جسم بھی محفوظ رہے۔ روشنی بھی منعکس ہو کر آتی تھی ۔تین سو سال میں ان کو کچھ نہیں ہوا۔ پھر بیدار ہونے کے بعد وہ باہر گئے تو پتہ چلا کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ پوری رومن ایمپائر نے عیسائیت اختیار کر لی ہے۔ پھر ان کے ساتھ پیرزادوں اور بزرگوں جیسا سلوک کیا گیا۔ اس واقعے میں سبق یہ ہے کہ ایمان زندگی کی سب سے بڑی اور بیش بہانعمت ہے۔ جان جاتی ہے تو جائے لیکن ایمان نہ جائے۔ آج کل اگر کہیں ایس ایچ او کے سامنے پیش ہونا پڑجائے توخوف سے بُرا حال ہوجاتا ہے۔ عدلیہ اگر بلالے توہمارے بڑے بڑے سیاست دانوں کی حالت غیرہوجاتی ہے۔اُس وقت کے بادشاہ نے جبر کے ساتھ انہیں بلایا اور کہا کہ آخری وارننگ ہے ‘ سیدھے ہو جائو! انہوں نے جواب دیا کہ کچھ بھی ہو جائے ‘ ایمان تو ہم نہیں چھوڑیں گے‘ اس ایمان پر ہم قائم ہیں۔ جب انہوں نے رب کی کبریائی کا اعلان کردیا‘بادشاہ کے سامنے ثابت قدم رہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی حفاظت کا ذمہ لے لیا اور غار کے اندر ان کو محفوظ رکھا۔ سب سے بنیادی چیز کیا ہے؟ ایمان۔ جان جائے توجائے لیکن ایمان نہ جائے۔آج ہمارے نزدیک ایمان کی کیاحیثیت ہے ‘ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پرہم اسے بیچ دیتے ہیں۔
دوسرا قصّہ دو دوستوں کا مکالمہ ہے جن میں ایک کے دو باغ تھے۔ وہ دو دوست تھے۔ جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ دورانِ تعلیم اکٹھے رہے۔ پھرایک کو وسائل مل گئے اور اس نے مزید تعلیم حاصل کی۔ سی ایس ایس کرگیا یا باہر چلا گیا۔ ایک ایک منٹ اس کا ہزاروں میں ہے اور دن کی کمائی اس کی لاکھوں میں ہو رہی ہے۔ جبکہ دوسرا دوست کسی عام جگہ پر معمولی ملازمت کر رہا ہے۔ اب ان دونوں کا مکالمہ ہو رہا ہے۔ ایک کے دو باغ ہیں جن کے گرد کھجوروں کی باڑ لگی ہوئی ہے۔ انگوروں کے باغ ہیں‘ ساتھ کھیتی لہلہارہی ہے‘ نہریں چل رہی ہیں۔ یعنی سب کچھ موجود ہے۔ دوسرا غریب سا آدمی ہے۔ باغوں کا مالک اپنی خوش حالی میں اس قدر مگن ہوا کہ اس کی نگاہ اللہ سے ہٹ کر مادی وسائل پر ہی جم گئی اور انہی اسباب و وسائل کو وہ اپنے توکّل اور بھروسے کا مرکز بنا بیٹھا۔ وہ اپنے غریب ساتھی سے کہنے لگا کہ دیکھو مَیں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میرے بیٹے بھی زیادہ ہیںـ ۔مَیں نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی برباد ہو سکتا ہے۔ مَیں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ بنارکھا ہے۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ مزید کہنے لگاکہ مَیں یہ گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے۔ اور اگر قیامت ہوئی بھی تو مَیں وہاں بھی تم سے بہتر زندگی پائوں گا اور تم وہاں بھی ایسے ہی جوتیاں چٹخاتے پھرو گے ۔اُس کےغریب ساتھی نے جواب دیا کہ یہ سارا کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اور یہ سب اسی کی جانب سے ہے۔باغ والا کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے ‘بلکہ یہ تو میرا علم ہے‘ میری محنت ہے‘ میری منصوبہ بندی ہے۔ مجھے پتا تھا کہ آگے کیسا دور آنے والا ہے۔ (جیسے آج کوئی سرمایہ دار کہے کہ یہ سب میری منصوبہ بندی ہے۔ مَیں نے ایک فیکٹری لگائی اور اس فیکٹری سے مَیں نے تین فیکٹریاں بنا لیں۔) یہ سارا کچھ میری ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے ۔ مادہ پرستی شرک ہی کی ایک شکل ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں‘ خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!ہندو لکشمی دیوی کو پوجتے ہیں‘ ہم نے بھی دولت کو ہی دیوی بنا لیا اور اسی کو پوج رہے ہیں۔ پھر جب اللہ کی جانب سے آفت آئی تو اس کے دونوں باغ بالکل اجڑ کر رہ گئے۔ان باغوں پر اُس نے زرِکثیر خرچ کیا تھا اور مسلسل محنت کی تھی۔ اُس کا یہ تمام سرمایہ آناً فاناً نیست و نابود ہو گیا اور وہ اس کی بربادی پر کف ِافسوس ملنے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ اُس وقت وہ کہنے لگا کہ کاش مَیں نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا! اس نے کسی دیوی یا دیوتا کو نہیں پوجا تھا‘ بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اُس کے اختیار کو بھلا کر ظاہری اسباب اور مادی وسائل پر توکّل کیا تھا۔ گویا یہ مادّہ پرستی کا شرک تھا‘ جو اس وقت بھی ہمارے معاشرے پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ غریب ہو یا امیر‘ بے دین ہو یا دین دار ‘ سب اس کے اندر مبتلا ہیں۔ کوئی زیادہ‘ کوئی کم۔
تیسرا قصّہ اس سورئہ مبارکہ میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرکاہے۔یہ بڑا معروف واقعہ ہے۔ حضرت موسیٰؑ ایک شخص خضر سے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ سیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں چلتے ہیں اور ایک کشتی میں سوارہوتے ہیں تو حضرت خضرکشتی میں شگاف ڈال دیتے ہیں۔ پھر ایک بستی میں جاتے ہیں تو ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیتے ہیں۔اسی طرح ایک اوربستی میں جاتے ہیں تو بستی والوں سے کھانا کھلانے کو کہتے ہیں‘ مگر بستی والے اتنے کٹھور دل ہیں کہ کھانے کو کچھ نہیں دیتے۔وہاں وہ دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرا چاہتی ہے تو حضرت خضر کسی معاوضے کے بغیر وہ دیوار سیدھی کر دیتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ نے ان تمام واقعات پر سوال کیے۔ آخر کار حضرت خضر نے ان کی اصل حقیقت بتائی۔ فرمایاکہ کشتی دو غریب نوجوانوںکی تھی لیکن دوسری طرف ایک ظالم بادشاہ تھا جواچھی کشتیوں کو قبضے میںلے لیتا تھا۔ مَیں نے اسے عیب دار بنادیاتاکہ ان کی کشتی محفوظ رہے۔جس نوجوان کوقتل کیاگیا‘یہ بڑا ہو کر نافرمان بنتا اور اپنے صالح والدین کے لیے سوہانِ روح ہوتا۔ بڑی منتوں اورمُرادوں سے یہ لڑکا انہیں حاصل ہواتھالیکن اس نے بڑے ہوکرنافرمان بننا تھا۔اللہ تعالیٰ اس کے عوض ان کو دوسرا بیٹاعطا کردے گا۔رہا دیوار کا معاملہ تو اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ ہے۔ بستی والوں کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے ہم مسافروںکو کھانا بھی نہیں دیا۔ یہ دیوار اگر گر جاتی تو خزانہ نکل کر باہر آ جاتا اور ان لوگوں کے قبضےمیں آجاتا۔مَیں نے اللہ کے حکم سے اس کو برابر کیاہے تاکہ جب یہ یتیم بچے جوان ہوجائیں توان کویہ خزانہ مل جائے۔ اس سارے واقعے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ یہ سب کچھ جو ہم دیکھ رہے ہیں اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی حکمت ِتکوینیہ ہے۔ {بِیَدِکَ الْخَیْر} اللہ کے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے۔ ہمیںبعض اوقات کچھ چیزیں بُری محسوس ہوتی ہیں‘ دیکھنے پراچھی نہیںلگتیں۔مثلاً کسی کا جوان بیٹا فوت ہوگیاتووہ اللہ سے شکوہ کرتا ہے کہ کیا میرا ہی گھر رہ گیا تھا‘ میرے اوپر ہی مصیبت نے آنا تھا ! لیکن اُس کے ہاں خیر ہی خیر ہے ۔بظاہر جو ہمیں شر نظر آ رہا ہے ‘ وہ بھی دراصل خیر ہی ہے۔
اس حوالے سے ایک حدیث بھی ہے‘ اسی کا وہ لب ِلباب کہہ لیجیے ۔حضرت سفیان ثوری ؒکا یہ قول ہے کہ ’’ہمیں اسلاف سے یہ بات پہنچی ہے کہ مؤمن کو اپنے اعمال نامے میں جو نیکیاں دیکھنے کو ملیں گی وہ دکھ اور پریشانیاں ہوں گی۔‘‘لیکن ہمیںکوئی دکھ اور پریشانی آئے توگھبرا جاتے ہیں‘حالانکہ اسی میں ہمارے لیے خیر ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں انسان کا رویّہ یہی ہونا چاہیے کہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے جس کے تحت یہ دنیا چل رہی ہے۔ یہاں ہر چیز میں خیرہے ‘ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے۔
چوتھا اور آخری قصّہ ذوالقرنین کاہے۔ ایک وہ کیفیت تھی کہ کچھ انتہائی غریب نوجوان بادشاہ کے جبر سے مجبور ہوکرغار میں چلے گئے تھے اور وہاں جاکرانہوں نے پناہ لی تھی۔اب اس کے بالکل برعکس ایک بادشاہ ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے شان وشوکت اور استیلاءعطا کیاہےلیکن وہ انتہائی دین دار انسان ہے۔ اللہ کافرماں بردار بندہ اور عادل بادشاہ ہے۔ اس کا ذکر کیاگیا ہے کہ کس طرح وہ اللہ کی مخلوق کوفائدہ پہنچا رہاہے۔انسان چاہے کسی بھی حیثیت میںہو‘چاہے اس کے پاس کچھ نہ ہواور چاہے دنیا کی ساری دولت ہو‘ اس کا رویہ کیاہونا چاہیے یہ اس کے اندر بیان کیاگیاہے۔پھر اس سورت کے درمیان قصّہ آدم و ابلیس بھی بیان ہوا ہے ۔ اس میں بیان کیاگیاہے کہ تمام فتنوں کامحرک شیطان ہی ہے۔ وہی پھونکیں مارتا ہے اور چابی دیتا ہے ۔
مختصراًیہ کہ دجال قیامت سے پہلےیہ چار فتنے لے کرآئے گا۔ایک‘ لوگوںسے اپنی عبادت کامطالبہ کرے گا۔یہ اصحابِ کہف کو درپیش معاملہ تھا۔ دوسرا ‘ دُنیوی اسباب و وسائل پر توکّل کے حوالے سے باغ والوں کا قصّہ تھا۔ دجال کے پاس بھی جدید ترین ٹیکنالوجی ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ وہ آسمان کو حکم دے گاکہ بارش برساتووہ بارش برسائے گااور اپنے پاس موجود دُنیوی نعمتوں سے لوگوں کو دھوکا دے گا۔یہ مال کا فتنہ ہے جس کے اندر ہم سب مبتلا ہیں۔ تیسرا ‘لوگوں کو بعض غیبی امورکی اطلاع دے گا۔کسی کے مرے ہوئے باپ سے اس کی ملاقات کرا دے گااوراس طرح کے دیگر معاملات ۔چوتھا یہ کہ زمین پراس کا راج اور استیلاء ہو گا۔ یہ فتنہ شوکت وسلطان ہے۔دنیا پر اس کا پوری طرح کنٹرول ہوگا۔
ان چارفتنوں کا علاج چار چیزیں ہیں جوسورۃالکہف میں موجود ہیں۔ایک‘دین کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ وابستگی لازم ہے۔ قرآن کے ساتھ جڑ جائو!اس سورۃ میں اور اس سے پچھلی سورۃ بنی اسرائیل جس میں قرآن کا ذکر خاص طور پرآیاہے ۔علّامہ اقبال کا بڑا سادہ سا شعر ہے:؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر!دوسری چیزہے نیک صحبت۔نیک لوگوں کے ساتھ رہو !ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۹) } (التوبۃ)
’’اے ایمان والو!اللہ کاتقویٰ اختیار کروا ور سچوںکے ساتھ ہوجائو۔‘‘
اصحابِ کہف کے کتے کا بھی ذکر آ گیا قرآن میں اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
تیسری چیز فتنۂ مال ہے۔ اس سے حفاظت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ دنیا کی حقیقت ہماری سمجھ میں آجائے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی ہے :
{اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلًا(۴۶) } (الکھف)
’’مال اور بیٹے دنیوی زندگی کی زینت ہیں۔ اور باقی رہنے والی نیکیاں بہت بہتر ہیں تیرے رب کے نزدیک‘ ثواب کے لحاظ سے بھی اور اُمید کے اعتبار سے بھی۔‘‘
یہ سب کچھ برتنے کا سامان ہے ‘ جسے ’’متاع الحیٰوۃ الدنیا‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔ کفن کے اندر کوئی جیب نہیں ہوتی۔ پرانے زمانے میں کیلاش اور چترال کے علاقوں میں لوگ میت کے ساتھ اسلحہ بھی رکھ دیتے تھے ۔ کیا وہ اس کو کوئی فائدہ دیتا تھا! باغ والوں کے قصے میں یہی چیز سمجھائی گئی ہے کہ اللہ پر توکّل‘ اللہ پر اعتماد‘ اللہ پربھروسا کیا جائے۔ فتنۂ علم سے حفاظت کا ذریعہ تواضع اور انکساری ہے۔ حضرت موسیٰؑکس طرح عاجزی اور تواضع کے ساتھ حضرت خضر سے علم حاصل کر رہے ہیں۔
چوتھی چیز فتنۂ شوکت و سلطان ہے۔ ضروری نہیں کہ ہمیں بھی بادشاہت مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرایک کو کچھ نہ کچھ اختیار دیا ہواہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ کیاوہ واقعتاً اپنے آپ کواللہ کا بندہ سمجھ رہاہے یاجوجہاں ہے وہاں فرعون بنا ہواہے۔ اس کا حل اخلاص لِلہ ہے۔ہرکام کرتے ہوئے انسان دیکھے کہ یہ مَیںاللہ ہی کے لیے کررہا ہوں! پھر وہ چاہے دفتر میں بیٹھاہو‘دوکان میں بیٹھاہو‘کھیت میں ہو‘جہاں بھی ہوگاوہ عبادت کی حالت میں ہو گا۔ پوری زندگی اگر اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت محبت کے جذبے کے ساتھ ہوتویہ عبادت ہی ہے۔یہ ہیں وہ چار قصے اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق۔
سورۃ الکہف میں وارد اہم ترین بات ذہن نشین کر لیجیے۔ پہلے رکوع میں فرمایا:
{اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷) }
’’یقیناً ہم نے بنا دیا ہے جو کچھ زمین پر ہے اسے اس کا بنائو سنگھار‘ تاکہ انہیں ہم آزمائیں کہ ان میں کون بہتر ہے عمل کے لحاظ سے۔‘‘
جبکہ آخری رکوع میں فرمایا:
{قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا(۱۰۳)}
’’آپؐ کہیے: کیا ہم تمہیں آگاہ کریں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟‘‘
{اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴)}
’’وہ لوگ جن کی ساری سعی وجُہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا تصنع عارضی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان فتنوں سے بچائےاوراس کے لیے ہمیں اپنی زندگی کے رخ بدلنے کی توفیق عطا فرمائے۔میری گزارش ہوگی کہ آپ سورۃالکہف کو اپنے جمعہ کے معمولات میں شامل کرلیجیے۔اس کو سمجھ کرتلاوت کیجیے تاکہ پتا چل سکے کہ قرآن کیاکہہ رہاہے۔ کم از کم اس سورت کو تفسیر کے ساتھ ‘اس کے معانی اور اس کے مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
بہت سی احادیث میں ہمیں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ دجالی فتنہ کے ساتھ سورۃ الکہف کی ایک خاص مناسبت ہے اور اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس سورۃ کے ساتھ ذہنی اور قلبی تعلق قائم کرنا بہت مفید ہے۔ اس مقصد کے لیے احادیث میں جمعہ کے روز سورۃ الکہف کی تلاوت کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے‘ اوراگر پوری سورت کی تلاوت نہ کی جا سکے تو کم از کم اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کرنا بھی مفیدبتایاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے! آمین
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025
Text