ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور اُن کی دینی خدمتمولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ کی نگاہ میں
مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ(ڈائریکٹر حضرت شیخ الہندؒ اکیڈمی دیوبند) برصغیر پاک و ہند کی نہایت مشہور و معروف دینی اور علمی شخصیت تھے۔آپ کے کراچی میں قیام کے دوران ۱۹ ؍مارچ۱۹۸۵ء کو شیخ جمیل الرحمٰن مرحوم مولانا موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ مولانا کا محاضراتِ قرآنی (منعقدہ ۲۳ تا ۲۸ /مارچ ۱۹۸۵ء )میں شرکت کا پختہ ارادہ تھا لیکن علالت مانع رہی۔ شیخ صاحب سے ملاقات پر موصوف نے اپنے ارشادات ریکارڈ کرادیے‘ نیز از راہِ کرم سوالات کے جوابات بھی عنایت فرمائے۔ یہ دونوں چیزیں قریباً لفظ بلفظ کیسٹ سے منتقل کرکے میثاق (مئی ۱۹۸۵ء) میں شائع کی گئیں اور بعد ازاں کتاب ’’جماعت شیخ الہندؒ اور تنظیم اسلامی‘‘ کا حصّہ بنیں۔
بسم اللہ الرحمن الرَّحیم
ڈاکٹر صاحب کا کتابچہ یعنی ’’میرے تصوّرِ فرائض دینی کا خلاصہ‘‘ مجھے دیا گیا‘ اسے مَیں نے بڑی توجّہ سے پڑھا ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تمام تحریریں جو میثاق میں نکلتی رہی ہیں یا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں وہ بھی میری نظر سے گزری ہیں۔ ان سب کو پڑھنے کے بعد میرا مجموعی تأثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص ایک تحریک شروع کرتا ہے تو اس کا نقطہ آغازیہ ہوتا ہے کہ جو کام کرنے مَیں جارہا ہوں اِس وقت تک کسی نے نہیں کیا ۔اس رویے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے اس بات کے کہ وہ اپنے پیش رو اور اپنے اسلاف کے کارناموں کی تعریف و تحسین کرے اور ان کی ستائش کرے اور ان کی روشنی میں وہ یہ بتلائے کہ اس نے اپنے لیے یہ راہِ عمل متعین کی ہے‘ اس کی بجائے وہ تنقید کرتا ہے اور اپنے لیے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ جو کام اب تک اُمّت میں نہیں ہوا تھا وہ کرنے جارہا ہے۔ یہ ایک عام روش ہے ان حضرات کی جو کہ تحریک ِاسلامی کے بانی ہیں‘ اور اس کی ایک نہیں کئی ایک مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے جب کہ وہ ایک ڈاکٹر تھے اور ان کاکیریئر میڈیکل پریکٹیشنر کا تھا اور اس میںوہ بہت کامیاب تھے‘جب یہ فیصلہ کیا کہ انہیں اپنے آپ کو دین ِاسلام کی خدمت کے لیے اپنے خاص نظریے کے ماتحت جو انہوں نے مطالعہ ٔ قرآن سے اخذ کیا ہے‘ وقف کردینا ہے تو انہوں نے باقاعدہ علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی اور بڑے غور وفکر اور دقت ِنظر سے اپنا لائحۂ عمل طے کیا۔ پھر تاریخ ِاسلام میں جو تحریکیں پیدا ہوئی ہیں ان کا انہوں نے بنظر غائر مطالعہ کیا ‘اور اس کے بعد پھر جب انہوں نے کام شروع کیا تو نہایت ہی عاجزی اور انکساری کے ساتھ کیا۔ کوئی تعلّی نہیں ہے‘ کوئی انانیت نہیں ہے ‘اس میں اپنی بالاخانی نہیں ہے ----- تو یہ ایک خاص چیز ہے جس نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے متعلق بہت ہی متأثر کیا۔
ڈاکٹر صاحب جو کچھ بھی فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں وہ کھلے دل سے لکھتے ہیں اور لوگوں کو پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جو لوگ ان کے معترضین ہوتے ہیں ان کا وہ بڑی خوش دلی کے ساتھ بغیر کسی بیزاری کے اور ناگواری کے جواب دیتے ہیں اور ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مَیں یہ عرض کروں کہ مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کی جو خط و کتابت ہوئی ہے اس میں ڈاکٹر صاحب کی زبان سے ایک تقریر میں یہ لفظ نکل گیا تھا کہ مَیں نیم مقلد ہوں‘ مولانا اخلاق حسین صاحب کو ناگوار گزرا اور انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔ لیکن میرا اپناخیال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب نیم مقلد نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ میرا تقلید کے معاملے میں وہی رویّہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کا تھا اور جو شاہ ولی اللہؒ کا تھا تو بات نہ بگڑتی۔وہ محض نیم مقلد کے معنی کچھ سے کچھ سمجھے۔ چونکہ حضرت شاہ ولی اللہؒ اپنے آپ کوحنفی لکھتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے لکھا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ میرا مسلک جو ہے وہ ’’تلفیق بین المذاہب‘‘ ہے۔ یعنی مَیں ہوں حنفی‘ لیکن اگر مَیں کہیں دیکھتا ہوں کہ امام شافعیؒ کا مذہب قابل ِترجیح ہے تو مَیں اس کو اختیار کرلیتا ہوں۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب کی کتابوں میںاس کی ایک نہیں دسیوں مثالیں ملیں گی۔ تو صرف ایک تعبیر کی وجہ سے بات کچھ سے کچھ ہوگئی‘ ورنہ ڈاکٹر صاحب اگر یہ کہہ دیتے تو میرے نزدیک بالکل درست تھا۔
بہر حال یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر صاحب میں بڑی عاجزی اور انکساری ہے‘ خلوص اور للّٰہیت ہے ‘اپنے بزرگوں کا احترام ہے۔ وہ یہ بتلاتے ہیں کہ جو کام مَیں کرنے جارہا ہوں وہ ہمارے بزرگ برابر کرتے رہے‘ لیکن زمانے کے حالات کے زیر ِاثر بعض ایسی چیزیں پیش آئیں کہ وہ اپنے راستے سے ہٹ کر ایک دوسری طرف لگ گئے۔ تو یہ ایک الگ چیز تھی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ چیزیں جاری نہیں رہ سکیں۔ اب ڈاکٹر صاحب نے ع ’’من از سرِ نو جلوہ دہم دارورسن را!‘‘کے مصداق اسی کام کو آگے بڑھانا شروع کیا ہے اور اس کے لیے مستقل ایک تنظیم انہوں نے قائم کی ہے۔
تنظیم کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ ایک بڑی اہم بات ہے کہ انہوں نے تنظیم کے مقاصد میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو بہت اہم درجہ دیا ہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکران دونوں کے درمیان عام و خاص کی نسبت ہے۔ یعنی جہاں کہیں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پایا جائے گا وہاں تبلیغ ضرور ہوگی‘ لیکن جہاں تبلیغ ہو وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہمارے مبلغین ہیں ‘کتنے عمائدین تبلیغ ہیں جو تبلیغ کرتے ہیں‘ لیکن ان کے سامنے منکرات ومنہیات ہوتے رہتے ہیں‘ اس کے لیے وہ کچھ بھی نہیں کرتے اور کچھ نہیں کہتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا بھی قرآن نے حکم دیا ہے اور حدیث شریف میں تو سب سے زیادہ زور نہی عن المنکر پر ملتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اِس اُمّت کو خیر اُمم کہا ہے: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آل عمران:۱۱۰)اور اسی طرح فرمایا: {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط} (البقرۃ:۱۴۳) تو اس کے صاف معنی یہ ہیںکہ جو نسبت ہمارے رسولؐ کو ہمارے ساتھ ہے وہی نسبت ہم کو دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ ہے‘ یعنی جو حضورﷺ کا فریضہ تھا‘ جس طرح سے کہ آپؐ نے دین ِ حق ہم تک پہنچایا اور ہم کو ایک قوم بنایا‘ اب ہمارا فرض ہے کہ اُسی کو لے کر ہم آگے چلیں اور اُسے دوسروں تک پہنچا دیں۔
تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بہت ہی اہم چیز ہے جسے قرآن کریم میں بہت اہم کام قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لیے محض تبلیغ کافی نہیںہے‘ بلکہ اس کے لیے مستقل ایک تنظیم ہونی چاہیے اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ اسلام میں قرونِ اولیٰ کے اندر تو اس کا کچھ نشان ملتا ہے کہ وہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے کچھ ادارے تھے لیکن اس کے بعد کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تبلیغ بھی ہوتی رہی‘ درسِ قرآن بھی ہوتا رہا‘ درسِ حدیث بھی ہوتا رہا‘ علماء بھی پیدا ہوتے رہے لیکن سماج برابر بگڑتا رہا۔ اسلامی سماج میں جو خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں وہ برابر پھیلتی رہیں اور یہاں تک کہ اس بگاڑ کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔اس کی بڑی وجہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے امر بالمعروف بالخصوص نہی عن المنکر جیسی چیز کو چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اساسی اور بنیادی حیثیت سے اپنے پروگرام میں شامل کرنے کی بنا پر مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ چیز ہے جو اصل میں خود قرآن کا مطلوب اور مقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ کام تمام مسلمان تو نہیں کرسکتے‘ حالانکہ ہے تو سبھی کا فریضہ۔ اس بنا پر اس کو فرضِ کفایہ بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط}(آل عمران:۱۰۴) یعنی تم سب تو نہیں کرسکتے۔ اپنی اپنی جگہ پر تو ہر ایک کو کرنا ہے: ((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعَیَّتِہٖ)) یعنی تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اپنی رعیت کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا۔ باپ اپنی اولاد کے اوپر ہے ‘استاد اپنے شاگردوں کے اوپر ہے۔یوں تو اپنی انفرادی زندگی میں ہر مسلمان راعی ہے ہی ‘لیکن قرآن مجید {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ }بھی کہتا ہے۔اُس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ایسی 'Organization' ہونی چاہیے‘ مستقل طور پر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو اپنے آپ کو وقف کردے اس کے لیے۔ اور اس کا کام کیا ہوگا! امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ تو گویا یہ جو خود قرآن کے نزدیک بڑی اہم اور بنیادی چیز ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کو اپنی تنظیم میں شامل کرکے ایک اتنا بڑا اہم اقدام کیا ہے جو کہ میرے خیال میں اب تک بہت کم لوگوں کے لیے قابل ِتوجّہ رہا ہے ۔اور اس بنا پر مَیں سمجھتا ہوں کہ ہرمسلمان کا یہ فرض ہے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب کی اعانت کرے ‘قدمے‘ دامے ‘درمے جس طرح سے بھی ہو۔ اور مجھے توقع ہے کہ یقیناً ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ادارہ بہت ہی اہم ‘ مفیداور اسلام اور دین کے لیے بہت ہی زیادہ نفع بخش ثابت ہوگا۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo
سوال و جواب
سوال:مولانا! مَیں سب سے پہلے تو آپ کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے قیمتی خیالات سے مستفید فرمایا۔ ہماری خواہش تو یہ تھی کہ آپ بذاتِ خود بنفس ِنفیس محاضرات میں شرکت فرماتے ‘لیکن آپ کی علالت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا‘ مگر ہمارے لیے یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ آپ کے خیالات اس طرح سے ٹیپ ہوگئے ہیں۔ چند چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں مَیں آپ کی رہنمائی کا طالب ہوں۔ ایک چیز تو اشارۃً آپ کی اس گفتگو میں آگئی ہے کہ اُمّت کے برپا کرنے کے مقاصد میں اہم ترین مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ گویاپوری اُمّت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے اور اُمّت بحیثیت اُمّت جب اس کام سے غافل ہوجائے تو خود ہی قرآن رہنمائی فرماتا ہے کہ: {وَلْـتَـکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ}تو اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ ایک گروہ تو ایسا ہونا قرآن کے نزدیک ضروری ہے ‘لازم ہے کہ جو اسی فریضے یعنی دعوت الی الخیر کو انجام دے۔اس دعوت الی الخیر میں جملہ ایمانیات کی دعوت‘ اعمالِ صالحہ کی دعوت‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی دعوت سب شامل ہو ہی جاتی ہے۔ پھر اس جماعت کا اہم کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حصر کے اسلوب میں فرمایا ہے:{وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴)}(آل عمران) ’’یہی لوگ ہیں کہ جو کامیاب ہوںگے۔‘‘
مَیں نے جہاں تک سمجھاہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں بھی کامیاب ہوںگے اور آخرت میں تو ان شاء اللہ کامیابی اور اللہ کی رحمت ان کے شامل ِحال ہوگی اور وہ اللہ کی رحمت کے سائے میں جگہ پائیں گے۔ لیکن ہمارے ہاں بعض حضرات جماعت سازی کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اور اس کی وجہ بھی ہے کہ کچھ تلخ تجربات ایسے ہیں کہ جو جماعتیں کسی اچھے کام کے لیے بنتی ہیں وہ آگے جاکر کوئی نہ کوئی ایسی صورت اختیار کرلیتی ہیں کہ جو اُمّت میں تفرقے کا باعث ہوتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ امکان موجود رہتا ہے‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ جب ہم کوئی کام اور خاص طور پر دین کا کام کرنے کے لیے اُٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی ہیئت ِاجتماعیہ ہمیں بنانی پڑے گی۔ اب سڑک پر حادثات ہوتے ہیں تو لوگ حادثات کی وجہ سے سڑک پر چلنا تو نہیں چھوڑدیتے۔ انسان کی نیت اگر اللہ کی رضا کا حصول ہے اور وہ یہ کام خلوص کے ساتھ کررہا ہے تو بہرحال جو لوگ اخلاص کے ساتھ کام کریں گے وہ تو ‘ان شاء اللہ ‘ اللہ کے ہاں ماجور ہوں گے۔ اب ایک امکان اور اندیشے کی وجہ سے ایسی جماعتوں کے متعلق تشویش میں مبتلا ہوجانا کیا آپ کے نزدیک صحیح ہوگا؟
جواب:میرے نزدیک تو لوگ جماعت کے بنانے سے غالباً اس لیے ڈرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام طور پر تجربہ یہ رہاہے کہ جو جماعت بنتی ہے وہ آگے جاکر تحز ّب کے اندر مبتلا ہوجاتی ہے۔ تحز ّب کے معنی یہ ہیں کہ ہم چو ما دیگرے نیست! لیکن یہ ضروری ہے۔{ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ}کا صاف مطلب یہ ہے کہ جماعت تو ہونی چاہیے‘ یقیناً ہونی چاہیے‘ لیکن اب جو جماعت ہے ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس سے تحز ّب کا خطرہ ہے! کیا وہ اپنے اندر کوئی ایسی انانیت پیدا کرے گی کہ وہ یہ کہے گی کہ راہِ حق پر بس ہم ہی ہیں‘ دوسرے اس پر نہیں ہیں! تو مجھ کو اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب قبلہ جس طرح تنظیم اسلامی کا کام لے کر چل رہے ہیں اور جو خود ان کی اپنی فطرت ہے ‘جو خود ان کی افتادِ طبع ہے‘ جو خود ان کا مزاج اور ان کی طبیعت ہے وہ ہم کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ‘ ان شاء اللہ تعالیٰ‘ یہ جماعت تحز ّب سے الگ تھلگ رہے گی اور اپنا کام برابر اسی طرح پر کرتی رہے گی۔ پھر میرے خیال میں جماعت تو ہونا ضروری ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ بغیر'organization' کے کام نہیں ہوگا۔'organization'تو ضروری ہے‘ لازمی ہے ‘لیکن 'organization' سے جو لوگ عام طور پر کچھ مشتبہ ہوتے ہیں وہ اس وجہ سے ہوتے ہیں۔ اور اگر اس کا ان کو اطمینان ہوجائے کہ نہیں یہ جماعت مخلصوں کی جماعت ہے‘ یہ جماعت مؤمنینِ قانتین کی جماعت ہے‘ یہ جماعت ان لوگوں کی ہے جن کے اندر کسی قسم کا کوئی تحز ّب نہیں ہے جس کو کہ قرآن نے خودcondemn کیا ہے اور فرمادیا ہے: {کُلُّ حِزْبٍم بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ(۳۲)} (الروم) یہ بات واضح ہے کہ جو شخص خود قرآن کی تعلیمات کو ا س طرح پر عام کررہا ہو وہ اس سے بے خبر نہیں ہوسکتا ہے کہ تحز ّب سے بچنا بہت ضروری ہے ۔اب تک جو کچھ بھی ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے اس سے ہرگز بھی یہ بو پیدا نہیں ہوتی کہ کہیں جا کر ان کی تنظیم تحز ّب کا شکار ہوجائے گی۔
سوال:اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الحمد للہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ انہوں نے جب تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا تو بہت واضح طور پر اس بات کا اعلان کردیا کہ ہرگز ہرگز ہماری جماعت’’ الجماعۃ‘‘ کے حکم میں نہیں ہے۔ ’’الجماعۃ‘‘ تو یہ پوری اُمّت ہے‘ اور ہماری جماعت میں شامل ہونا اسلام میں شامل ہونا نہیں ہے‘بلکہ اسلام کے عائد کردہ فرائض کو اجتماعی طور پر ادا کرنے کے لیے ہم جمع ہورہے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کو مجھ پر‘ میری جماعت اور تنظیم پر اعتماد نہ رہے تو اس کا علیحدہ ہوجانا ہرگز ہرگز اسلام سے باہر نکلنا نہیں ہے۔ تو یہ وضاحتیں ڈاکٹر صاحب نے ایک بار نہیں کئی بار کی ہیں اور ہماری مطبوعات میںموجود ہیں۔ اسی طرح تنظیم کے رفقاء کو اُن کی ہدایت ہے کہ جو جس مسلک پر ہے اس پروہ شرحِ صدر کے ساتھ عمل کرے۔ تو ان وضاحتوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب:یہی وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی ضمانت ہیں کہ یہ جماعت ‘ان شاء اللہ تعالیٰ‘ اس سے (مراد ہے تحز ّب) بالکل محفوظ رہے گی۔
سوال:مولانا! ایک اور مسئلہ ہے جس میں رہنمائی مطلوب ہے کہ عام طور پر ہمارے ہاں یا تو ادارے اور انجمنیں ہیں‘ جو 'associations'کی طرز پر محدود کام کررہے ہیں۔ کوئی تعلیمی کام کررہا ہے اور کوئی تحقیقی کام کررہا ہے‘ لیکن اگر کوئی انقلابی کام پیش نظر ہو جس میں امربالمعروف اور نہی عن المنکرسر فہرست ہو تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے تو جماعت بنے گی۔ تو اس کی جماعتی ہیئت کے لیے ایک طریقہ تو وہ ہے جو ہم نے مغرب سے اخذ کیا ہے‘ یعنی اس کے کچھ ممبرز ہوں‘ پھر وہ ووٹوں سے اپنا کوئی سربراہ یا صدر منتخب کریں۔ ہم جب تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اس طرز کی کوئی دینی تنظیم سلف میں نظر نہیں آتی‘ بلکہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے میں کوئی داعیہ پیدا کرتا ہے‘ وہ اٹھتا ہے اور لوگوں کو بلاتا ہے کہ مَیں اس کام کے لیے اٹھا ہوں۔ جیسے کہ سید احمد شہید بریلویؒ کھڑے ہوئے‘ انہوں نے دعوتِ جہاد دی‘ جن لوگوں نے بیعت کی وہ ان کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ تو ہمیں سلف سے یہی ملتا ہے کہ اس طرز پر وہ جماعت قائم ہوتی ہے جو خالص اسلام کے لیے بن رہی ہو۔ انتخابی اور صدارتی طرز کی تنظیم ہمیں سلف میں نظر نہیں آتی۔ کیا آپ اتفاق فرمائیں گے کہ ایسی تنظیم جو اعلائِ کلمۃ اللہ یا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے بنے وہ بیعت کی بنیاد پر بنے؟
جواب:جی ہاں‘ جماعت کے جو معنی ہیں یعنی جو جماعت ہم بنائیں گے‘ یقیناً اس کا ایک امیر جماعت ہوگا اور امیر جماعت پر اعتماد کر کے آپ کو اپنا کام کرنا ہو گا۔ تو ویسے اعتماد کی شکل کیا ہے! اعتماد کی شکل یہی ہے کہ بیعت کی جائے اور میرے خیال میں تو ہر امیر کو اس بات کا حق حاصل ہے۔ امر کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو اس معاملے میں رہنمائی کر رہا ہے وہ سب کے لیے قابل ِ قبول ہے۔ تو اس بنا پر تو میرے نزدیک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ‘بلکہ یہ تو لازمی ہو جاتا ہے۔
سوال:مولانا جزاک اللہ!آپ نے یہ مسئلہ صاف کر دیا۔ اب ایک مسئلہ یہ ہے کہ بعض ہمارے اہل ِعلم اس بات پر اشکال پیدا کرتے ہیں کہ بیعت صرف خلافت کے لیے ہو سکتی ہے یا پھر جو بیعت رائج ہے وہ صرف بیعت ارشاد ہے ‘وہ لی جا سکتی ہے۔بیعت سمع و طاعت لینے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ‘جبکہ ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ ہے کہ ہم نے قرآن کا ‘ اسلام کا ‘سیرتِ مطہرہ کااور پوری تاریخ کا جومطالعہ کیا ہے اور معروضی مطالعہ کیا ہے تو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک بیعت تو وہ ہے کہ جب اسلامی نظام قائم ہوتو خلیفہ اپنی ذات میں کیسا ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر شریعت کے مطابق عدالتیں قائم ہیں‘ شریعت کا نفاذ ہے ‘اسی کے مطابق انفرادی و اجتماعی معاملات چل رہے ہیں تو اُس وقت توصحیح ہے کہ سربراہ کی بیعت ہوگی اور اس کے درمیان میں کوئی شخص بھی اپنی بیعت ِ سمع و طاعت لینے کے لیے کھڑا ہو گا تو وہ خروج کی تعریف میں آجائے گا‘ اِلَّا یہ کہ وہ شرائط جو فقہاء نے عائد کی ہیں وہ پوری ہو رہی ہوںجو بہت مشکل ہے۔ لیکن جب خلافت کا ادار ہ بالکل درہم برہم ہوجائے اور کسی ملک میں بھی اسلامی نظام ‘اسلامی حکومت اور شریعت کا نفاذ معمولی شکل میں بھی نظر نہ آئے تو اُس وقت اس ملک کے اندر پُر امن طریقے سے اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے اگرکوئی شخص بیعت ِسمع و طاعت لیتا ہے تو آیا اس پر اُن احادیث کا اطلاق ہوتا ہے؟ میرے ناقص مطالعے کے مطابق تو ان کا اطلاق صرف اس وقت ہوتا ہے جب کہ خلافت کا ادارہ اور اسلامی نظام کا ادارہ بالفعل قوتِ نافذہ کے ساتھ اس ملک میں نافذ و رائج ہو ۔اس سلسلے میں کچھ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:بات یہ ہے کہ بیعت کے تو معنی یہ ہیں کہ ہم نے ایک شخص کو اپنا امیر بنا لیا ہے ‘وہ ہمارا سربراہ ہے ‘اس معاملے میں اور اس کے لیے جو کچھ بھی وہ ہم سے کہے گا قرآن و سُنّت کی روشنی میں تو ہم اُس کی بات مانیں گے۔ دیکھئے یہ تو ایسا ہے کہ خلیفہ سے بیعت ہورہی ہے‘ لیکن جناب عالی ! لَا طَاعَۃَ اِلَّا فِیْ مَعْرُوْفٍ ----- کیسی ہی آپ نے بیعت کرلی ہو‘ لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات کہہ رہا ہے جو کہ معروف کے خلاف ہے تو مت کرو۔ صاف طور پر‘ بالکل کھلی بات ہے۔ اچھا‘ ویسے مجھے معلوم ہے کہ ایک مرتبہ پنجاب میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت بنایا گیا تھا اور کسی اور نے نہیں بلکہ خود میرے استاد محترم حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی‘ حالانکہ ہم لوگوں کو تعجب بھی ہوا کہ شاہ صاحب عطاء اللہ شاہ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں‘ لیکن شاہ صاحب نے ان کو مانا۔ گویا کوئی بھی تنظیمی کام اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا ہے۔ طاعت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا ہے۔ فوج بھی جو ہوتی ہے اس کا ایک کمانڈر انچیف ہوتا ہے‘اس کے ماتحت ہوتی ہے اور وہ واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ تو بیعت ایک اصطلاحی لفظ ہے ۔
بیعت کے معنی بالکل یہ نہیں ہیں کہ ہر بات مانی جائے گی‘ بلکہ مجھے اس کا افسوس ہوتا ہے کہ تصوّف میں جاکر بیعت کے معنی بالکل بگڑ گئے۔ یعنی ایک وقت وہ تھا جب بیعت کا مفہوم یہ تھا کہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور آپ ہمارے مرشد ہیں‘ ہمارے رہنما ہیں‘ لیکن اس میں آگے بڑھ کر اتنا غلو کیا گیا کہ مرشد کے حکم کے برخلاف اگر اسلام کا کوئی حکم ہے تو لوگوں نے اس کی پرواہ نہیں کی (الّا ما شاء اللہ) حالانکہ یہ چیز بالکل غلط ہے۔ وہ تو حضرت عمرؓتک نے فرمایاکہ دیکھو تم نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے‘ لیکن اگر میں غلطی کروں تو فوراً تم مجھے مطلع کردینا اور ایسے دسیوں بیسیوں واقعات ہیں۔ وہ تو جب حضورﷺ نے فرمادیا کہ خواہ کتنا ہی بڑا تمہارا کوئی امام ہو ‘اگر معروف کے خلاف وہ تم کو کوئی حکم دے رہا ہے تو اس کی اطاعت تمہارے اوپر ضروری نہیں ہے بالکل ’’لَاطَاعَۃَ‘‘ اُس کی اطاعت کرنی ہی نہیں ہے۔ایک طرف اسلام‘ جوبیعت کرنے والے ہیں ان کو آزادی دیتا ہے کہ تم خود اس کو دیکھتے رہو امیر کو‘ اور دوسری طرف یہ کہ قرآن اور سُنّت کی تعلیمات کے دائرے کے اندر رہ کر جو امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کر رہا ہے اس کی اطاعت تمہارے اوپر ضروری ہوگی ۔یہ دونوں چیزیں اگر ہوں تو اس کے اندر کوئی حرج نہیں ہے ۔بلکہ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ کوئی تنظیم اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی جب تک کہ ایک شخص کے اوپر آپ مکمل اعتماد نہ کریں اور اس کو امیر نہ بنائیں۔ اور امیر بنانے کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ لہٰذا اس سے لوگوں کا بھڑکنا صرف اس لیے ہے کہ ہماری تاریخ اسلام میں اس بیعت کو بہت غلط معنی میں استعمال کیا گیا ہے‘ اگر صحیح معنی میں استعمال کیا جائے تو بغیر اس کے کوئی تنظیم چل ہی نہیں سکتی ‘یہ تو ضروری ہے۔
سوال:مولانا!ایک بات اور ہے کہ عام طور پر بات کہی جاتی ہے کہ دین کا کام کرنے اور درسِ قرآن دینے کاحق صرف اس شخص کو حاصل ہے جو کسی دارالعلوم سے باقاعدہ سند یافتہ ہو اور کسی بزرگ ہستی کا فیض یافتہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب پر عام طور پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے۔ جب کہ ایک شخص خود محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فہم دیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جس کو بھی ذہانت ملتی ہے وہ اللہ کی ودیعت کردہ ہوتی ہے‘ انسان کی خود اپنی تو پیدا کردہ نہیں ہوتی۔ اب اگر وہ اپنی ذہانت وفطانت کواللہ کے دین کے لیے صَرف کرتا ہے ‘محنت کرتا ہے ‘مطالعہ کرتا ہے‘ لوگوں کی خدمت میں جاتا ہے‘ غوروفکر اور افہام و تفہیم سے ایک رائے بناتا ہے ‘اور اس کا جو اپنا اندرونی جذبہ ہے وہ اُسے اس بات پر اُبھارتا ہے کہ میرا دین مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہے اور پھر وہ دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیتا ہے‘ لوگوں کو اس طرف دعوت دیتا ہے۔ اس پر یہ اشکال اور یہ اعتراض کہ وہ کسی دارالعلوم کا سند یافتہ اور فارغ التحصیل نہیں ہے اور کسی سے اس نے فیض حاصل نہیں کیا یعنی اپنا تزکیہ نہیں کرایا اُسے درسِ قرآن دینے اور بیعت لینے کا حق نہیں ہے ۔تو آیا دین کے کام کے لیے یہ شرائط قرآن و سُنّت سے عائد ہوتی ہیں یا یہ لوگوں نے بطور احتیاط خود عائد کی ہوئی ہیں۔ آپ اس میں کیا رہنمائی فرمائیں گے؟
جواب:سوال یہ ہے کہ جب تک یہ مدارس قائم نہیں ہوئے تھے اس وقت تک جو حضرات درسِ قرآن کا کام کرتے تھے ‘درسِ حدیث کا کام کرتے تھے وہ کس طرح پر کرتے تھے! ان کو کون سی اتھارٹی حاصل تھی!! بات یہ ہے کہ وہ تو ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے‘ مقصود تو نہیں ہے۔ اور اگر آپ یہ قید لگادیں کہ وہ کسی مدرسے کا فارغ ہوگا‘ کسی دارالعلوم کا سند یافتہ ہوگا جہاں اس نے باقاعدہ استادوں سے تعلیم پائی ہوگی صرف اُسی کو حق حاصل ہے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک نہیں کئی ایک بڑے بڑے نامی گرامی جو علماء تھے ‘جنہوں نے بڑھ کر کام کیے ہیں‘ وہ بھی سب نکل جائیں گے اور خارج ہوجائیں گے۔ وہ تو صرف یہ ہے کہ آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ جو کچھ بھی وہ لکھ رہاہے‘ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس پر آپ اعتراض کیجئے۔ لیکن یہ کہ خود وہ ذاتی طور پر کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہے تو یہ تو کوئی چیز نہیں ہے ‘یہ تو کوئی معیار نہیں ہے۔ بہت سارے خدا کے بندے ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے چند سبق پڑھے اور جاکر بیٹھ گئے۔ خود ابوالکلام آزاد کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کون سے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے! مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ کون سے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے! تو ایک نہیں کتنی ہی آپ کو مثالیں ملیں گی کہ انہوں نے ابتدائی کچھ کتابیں پڑھیں اور اس کے ذریعے پھر کچھ مطالعہ کیا اور یہ کیا اور وہ کیا۔ اور پھر جہاں تک کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہے تو ڈاکٹر صاحب نے تو صاف طور پر لکھا ہے کہ وہ شروع سے اس میں لگے ہی رہے ‘برابر لگے رہے ‘پڑھتے رہے ‘لوگوں سے فیض حاصل کیا ‘اُن سے پوچھا ‘غور کرتے رہے ۔اور پھر جہاں تک کہ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کا تعلق ہے وہ عالمانہ تحریریں ہیں اور بتلاتی ہیں کہ ان کی استعدادِ علمی جو ہے وہ پختہ ہے اور اس کی روشنی میں وہ قرآن مجید کی جو تشریح کرتے ہیں اور جو تقریریں کرتے ہیں وہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بعض اچھے اچھے علماءاس طرح سے نہیں کرسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ تو بہت ہی ناقص قسم کا اعتراض ہے۔ یہ تومحض اعتراض برائے اعتراض والا معاملہ ہے۔
سوال:مولانا جزاک اللہ! آپ نے اس مسئلہ میں بڑی مفید رہنمائی عطا فرمائی ہے۔ مولانا! آپ نے شروع میں مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ کی خط و کتابت کا حوالہ دیا تھا جو ’میثاق‘ میں شائع ہوئی ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب نے اس کی جو وضاحت فرمائی ہے وہ بھی آپ کی نظر سے گزری ہوگی (اس موقع پر مولانا نے فرمایا: جی ہاں! وہ مَیں نے پوری پڑھی ہے۔) تو الحمدللہ مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب بھی اس سے مطمئن ہوگئے ۔پھر یہ کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی مدظلہ جو ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی کے مدیر اعلیٰ ہیں انہوں نے بھی الحمد للہ اس پر اظہارِ اطمینان کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ آج آپ نے جو رہنمائی فرمائی ہے‘ اس کے متعلق مَیں ‘ان شاء اللہ‘ ڈاکٹر صاحب سے عرض کروں گا کہ وہ غور فرمائیں کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے جو مسلک اختیار کیا تھا وہ ڈاکٹر صاحب جیسے شخص کے لیے بہت محفوظ اور مامون نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں کیا آپ ڈاکٹر صاحب کے لیے کوئی مزید رہنمائی عطا فرمائیں گے؟
جواب:اگرکوئی تعلّی نہ ہو تو مَیں خود یہ عرض کرسکتا ہوں کہ خود میرا مسلک بھی یہی ہے۔ چنانچہ مَیں نے جو مضامین لکھے ہیں‘ ان میں کئی جگہ امام شافعیؒ کے مسلک کو ترجیح دی ہے امام ابوحنیفہؒکے مسلک پر۔ تو’’ تلفیق بین المذاہب‘‘ خاص طور پر موجودہ زمانہ میں بہت ضروری ہے‘ اس کے بغیرتو ہم چل ہی نہیں سکتے۔ اس دور میں کسی خاص ایک امام کا دامن پکڑ کرچلتے رہیں اور اِدھر اُدھر نہ دیکھیں‘ دوسرے ائمہ فقہاء کی اجتہادی آرا سے استفادہ نہ کریں تو یہ بالکل ناممکن ہے۔ اگر آپ کو دنیا کے موجودہ مسائل حل کرنے ہیں تو لازمی طور پر آپ کو تلفیق بین المذاہب پر عمل کرنا ہوگا۔
----------------
جزاک اللہ‘ مولانا! مَیں آپ کا انتہائی ممنون ہوں اور دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت ِ کاملہ عطا فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ آپ کا جذبۂ تعاون علی البرو التقویٰ ہے کہ اس علالت اور ضعف کے باوجود آپ نے ہمیں وقت عنایت فرمایا اور اپنے ارشاداتِ عالیہ نیز اس عاجز کے سوالات کے مفصل جوابات ریکارڈ کرائے۔ آخر مَیں آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے لیے اور ڈاکٹر صاحب کے لیے دُعا فرماتے رہیے۔ خاص طور پر ڈاکٹر صاحب آپ جیسے بزرگوں کی دُعائوں کے بہت محتاج ہیں۔ چونکہ جب کوئی شخص دینی خدمت کے لیے کھڑا ہوتا ہے‘ دعوت دیتا ہے تو شیطان اس پر جو جال ڈالتا ہے وہ عُجب کا ‘تکبّر کا‘ اور انانیت کا ڈالتا ہے۔ دُعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان مہلکات سے ڈاکٹر صاحب کو محفوظ رکھے۔
راقم کی اس درخواست پر مولانا مدظلہ نے فرمایا:
’’ڈاکٹر صاحب کے لیے اور آپ لوگوں کے لیے مَیں کیا ہوں۔ مَیں تو یقین رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کے لیے سمندرکی مچھلیاں اور آسمان کے فرشتے دعا کرتے ہیں۔ بہر حال میری دُعائیں اور نیک تمنّائیں آپ حضرات کے ساتھ ہیں۔‘‘
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025