(علومِ قرآنی) تفسیر کے ناقابل ِاعتبار مآخذ - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

7 /

تفسیر کے ناقابل ِاعتبار مآخذ
بسلسلہ علم تفسیر اور مفسرین کرام(۸)
پروفیسر حافظ قاسم رضوان


اسرائیلیات کےرواۃ (مسلسل)
(د) حضرت وھب بن منبہؒ
حضرت وھب بن منبہ یمنی صنعانی کیکنیت ابوعبداللہ ہے۔ یہ یمن کے علاقے صنعاء کے باشندے اور فارسی ٔالاصل تھے۔ ان کے والد اہل ِہرات میں سے تھے ۔ کسریٰ ٔایران نے ان کے والد منبہ کو یمن کی جانب بھیج دیاتھا اور وہ عہد ِرسالت میں مسلمان ہو چکے تھے۔ وہب نے ہرات کے سفر بھی کیے تھے‘ بعض علماء کے مطابق آپ صنعاء کے قاضی بھی مقرر ہوئے۔اسحٰق بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن حِضروی کا کہنا ہے کہ وھب ۳۴ھ میں خلافت ِعثمانی کے عہد میں پیدا ہوئے اور بقول ابن ِسعد ‘صاحب ِطبقات آپ کی وفات ۱۱۰ھ میں ہوئی۔ وھب عابد و زاہد تابعی تھے‘ انہوں نے حضرات ابوہریرہ‘ ابوسعید خدری‘ عبداللہ بن عمر‘ ابن عباس‘ جابر‘ عبداللہ بن عمرو بن العاص اور انس(رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) سے کسب ِفیض کیا اور روایتیں لی ہیں۔ حضرت وھب سے روایت کرنے والوں میں ان کے دونوں بیٹے عبداللہ و عبدالرحمٰن اور عمرو بن دینار وغیرہ شامل ہیں۔ وھب بن منبہ کے پاس علماء اہل کتاب کی روایات اور کتابوں کا وسیع علم تھا‘ یہاں تک کہ اس معاملےمیں وہ اپنے آپ کو حضرت عبداللہ بن سلامؓ اور حضرت کعب الاحبارؒ کے علوم کا جامع سمجھتے تھے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ وھب نے ان روایات پر مشتمل ایک کتاب ’احادیث الانبیاء‘ کے نام سے تالیف کی تھی۔ آپ قصص و واقعات اور آغازِ کائنات کے متعلق بھی بہت کچھ جانتے تھے۔ مروّج الذہبی کے مطابق انہوںنے ایک کتاب ’المبدأ‘ کے نام سے لکھی تھی۔ حاجی خلیفہ نے ’کشف الظنون‘ میں شاید اسی کو ’کتاب الاسرائیلیات‘ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ اسی طرح یاقوت الحموی اور قاضی ابن خلکان نے وھب کی ایک اور کتاب کا ’ذکر الملوک المفتوحۃ من حمیر و اخبارھم وغیرذٰلک‘ کے نام سے تذکرہ کیا ہے۔ ابن خلکان نے ایک جلد پر مشتمل یہ کتاب خود دیکھی تھی۔ وھب بن منبہ سے منقول ہے کہ انہوں نے مغازی سے متعلق بھی ایک کتاب تحریر کی تھی۔
حضرت وھب بن منبہ کا علمی مرتبہ
امام احمد بن حنبلؒ ‘ عبدالرزاقؒ سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ۱۰۰ھ میں بکثرت فقہاء فریضہ ٔحج کی ادائیگی کے لیے گئے۔ ایک رات عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد وھب کے پاس کچھ لوگ آئے جن میں عطاءؒ اور حسن بصری ؒجیسے اشخاص بھی شامل تھے۔دراصل وہ تقدیر کے مسئلے میں وھب بن منبہ سے گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ وھب طلوعِ فجر تک بات چیت کرتے رہے‘ چنانچہ یہ لوگ رخصت ہو گئے اور ان سے مزید کچھ بھی دریافت نہیں کیا۔ امام احمد کا بیان ہے کہ وھب منکر ِتقدیر تھے مگر بعد ازاں اس سے رجوع کر لیا۔ حماد بن سلمہ‘ ابوسنان سے نقل کرتے ہیں کہ مَیں نے وھب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مَیں تقدیر کا انکار کیا کرتا تھا‘ حتیٰ کہ مَیں نے انبیاءؑ پر نازل شدہ ستّر سے زائد کتابیں مطالعہ کیں‘ پھر مَیں نے اس نظریے سے رجوع کرلیا۔ یہ واقعات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ وھب قدیم آسمانی کتب میں گہری بصیرت و مہارت رکھتے تھے ‘نیز انہوں نے انکارِ تقدیر کے عقیدہ سے رجوع کر لیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اس نظریے کو ترک کر دینے کے بعد وھب کو انکارِ تقدیر کا مجرم قرار دینا بالکل درست نہیں۔ مثنیٰ بن صباح کا بیان ہے کہ وھب نے بیس سال تک عشاء کے وضو کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی۔ آپ کے صدق و امانت پر محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے کوئی کلام نہیں کیا۔ حافظ ابن حجرؒ تحریر کرتے ہیں کہ وھب تابعی کو جمہور نے ثقہ قرار دیا ہے۔ محدث العجلیؒ کا کہنا ہے کہ وھب بڑے ثقہ تابعی اور صنعاء کے قاضی تھے۔ حافظ ذہبی ؒکا بیان ہے کہ وھب نہایت ثقہ اور صادق تھے‘ اور اسرائیلی کتابوں سے بکثرت نقل کرتے تھے۔ ابوزرعہؒ ‘امام نسائی ؒ اور ابن حبانؒ نے بھی وھب کی تعدیل کی ہے۔ امام بخاری ؒاور امام مسلمؒ دونوں نے اپنی اپنی صحیح میں ان کی روایات ذکر کی ہیں۔ وھب کے بھائی ہمام بن منبہؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک مشہورِ زمانہ صحیفہ روایت کیا ہے ‘ جس کا اکثر حصّہ صحاحِ ستہ میں موجود ہے‘ یہ صحیفہ معمر نے ھمام سے روایت کیا۔
وھب بن منبہ نے جو روایات آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کی ہیں‘ اگر ان کی سند اصولِ حدیث کی شرائط پر پوری اُترتی ہو تو ان کو بلاشک و شبہ قبول کیا جائے گا‘ البتہ زمانہ ماضی کے جو قصے اور مستقبل کی جو خبریں انہوں نے بغیر کسی حوالے کے بیان کی ہیں ‘ وہ زیادہ تراسرائیلی روایات ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ حکم ہے کہ نہ تو ان کی تصدیق کریں اور نہ ہی تکذیب۔ دراصل اسرائیلی روایات کا محض بیان کرنا کوئی جرم نہیں جس کی بنا پر کسی کو ضعیف قرار دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان روایات پر کسی اسلامی عقیدے یا حکم کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ بعض لوگوںنے وھب کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اگرچہ وھب نے بکثرت اسرائیلی قصص اور اخبار روایت کیے ہیں‘ لیکن اس حوالے سے انہوں نے دروغ گوئی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی اسلامی عقائد و احکام کے بگاڑنے سے ان کا کوئی واسطہ ہے۔ قصور وار تو دراصل متاخرین میں سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان واقعات و حکایات کو کتب تفسیر میں داخل کیا‘ بلکہ بہت سے مَن گھڑت واقعات اور باتیں بھی ان میں شامل کر دیں۔
(ھ) حضرت ابن جریجؒ
آپ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج القریش المکی ہیں‘ کنیت ابوالولید یا ابوخالد ہے۔ آپ تبع تابعین میں سے ہیں اورمکہ کے محدثین اور علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے حضرات طائوس‘ عطاء بن ابی رباح‘ مجاہد‘ ابن ابی ملیکہ اور نافع سے تحصیل علم کی۔علاوہ ازیں ابن جریج نے اپنے والد ‘ زید بن اسلم‘ امام زہری وغیرہ سے بھی اپنی علمی پیاس بجھائی۔ خود ابن جریج سے ان کے دونوں بیٹوں عبدالعزیز و محمد نیز امام اوزاعی‘ لیث‘ یحییٰ بن سعید انصاری‘ حماد بن زید اور دیگر اہل علم نے استفادہ کیا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور مختلف روایات کے حوالے سے آپ نے ۱۵۰ھ یا ۱۵۶ھ میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا۔عبادت و زہد میں بھی ابن جریج بلند پایہ بزرگ تھے‘ مہینے میں صرف تین دن روزے کے بغیر رہتے تھے‘ ورنہ سارا مہینہ روزے رکھتے تھے (تھذیب التھذیب)۔ امام عبدالرزاق کا بیان ہے کہ جب کبھی مَیں ابن جریج کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یقین ہو جاتا کہ آپ کا دل خشیت اللہ سے معمور ہے۔ ابن جریج نے تحصیل علم کے لیے کئی سفر کیے۔ آپ مکہ میں پیدا ہوئے اور تلاشِ علم میں بصرہ‘ یمن اور بغداد وغیرہ کی خاک بھی چھانی ۔
حضرت ابن جریج ؒ کا علمی مرتبہ
ابن خلدون اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ابن جریج نے ادھیڑعمر میں علم حاصل کیا‘ اگر آپ بچپن میں تحصیل ِعلم کرتے تو بہت سے صحابہؓ سے کسب ِفیض کے مواقع میسّر آتے۔ ابن جریج کا اپنا بیان ہے کہ مَیں عربی اشعار اور علم الانساب کی تحصیل میں لگارہتاتھا‘ مجھ سے کہا گیا کہ کاش! آپ عطاء بن ابی رباح کے دامن سے وابستہ ہوجائیں‘ چنانچہ مَیں نے اٹھارہ سال عطاء کی صحبت و رفاقت میں گزار دیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عطاء سے سوال ہوا کہ آپ کے بعد ہم کس سے مسائل پوچھا کریں؟ تو عطاء نے ابن جریج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ نوجوان زندہ رہے تو اس سے۔ اسی لیے حضرت عطاء بن ابی رباح کی روایات کے معاملے میں آپؒ کو ’اثبت النّاس‘ (تمام لوگوں میں سب سے زیادہ قابل ِاعتماد)کہا گیا ہے۔ ابن جریج کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ ارضِ حجاز کے اولین مصنف تھے۔ آپ کا شمار امام مالک کے طبقہ میں ہوتا ہے جنہوں نے جمع و تدوین ِحدیث کا بیڑا اٹھایا اور علوم کی پہلی بار تدوین کی۔ عبدالرزاق بن ہمام کے مطابق خودآپ کا کہنا ہے : ما دوّن العلم تدوینی احد (مجھ سے پہلے کسی نے بھی میری طرح علم کی تدوین نہیں کی)۔امام احمد بن حنبل ؒکے بیٹے عبداللہ کا کہنا ہے کہ مَیں نے اپنے والد سے عرض کیا کہ سب سے پہلے کس نے کتاب تصنیف کی؟آپ نے فرمایا کہ ابن جریج اور ابن ابی عَروبہ نے ۔ بیشتر محدثین نے ابن جریج کو ثقہ قرار دیا ہے‘ صحاحِ سِتّہ میں آپ کی روایات بکثرت مروی ہیں ۔(تھذیب التھذیب)
سلیمان بن نضرکا قول ہے کہ مَیں نے ابن جریج سے بڑھ کر سچ بولنےو الا نہیں دیکھا۔ محدث ابن معین کے بیان کے مطابق ابن جریج اپنی کتاب سے جو روایات بیان کرتے ہیں وہ صحیح ہوتی ہیں۔ یحییٰ بن سعید کا کہنا ہے کہ ہم ابن جریج کی تصانیف کو ’کُتب ِامانت‘ کہا کرتے تھے اور اگر وہ اپنی اس کتاب سے حدیث بیان نہ کرتے تو اس سے استفادہ نہیں کیا جاتا تھا۔ ابن حبان کی رائے ہے کہ ابن جریج ثقہ تھے اور حجاز کے قراء اور ثقات میں شامل تھے۔ البتہ بعض علماء نے آپ پر جرح بھی کی ہے۔ امام مالکؒ کا کہنا ہے کہ ابن جریج اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ وہ کس (ثقہ یا غیر ثقہ) سے حدیث روایت کر رہے ہیں۔ آپ ابن جریج کو ’حاطب اللیل‘ کہتے تھے جو کہ اندھیرے میں خشک و تر ہرقسم کی لکڑیاں جمع کر لیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرجاتے تھے۔اسی بنا پر محققین کا فیصلہ ہے کہ جو روایات ابن جریج نے صراحتاً حَدَّثَنِی یا اَخْبَرنِی کے الفاظ سے نقل کی ہیں ‘ وہ تو صحیح ہیں اور جو روایات عَن کے لفظ سے نقل کی ہیں‘ وہ مشتبہ ہیں۔ابن جریج اپنے عہد میں اسرائیلیات کے محور میں شامل تھے۔ جو آیاتِ قرآنی سابقہ اُمتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور تفسیر ابن جریر میں ان کی جو تشریح و توضیح بیان ہوئی ہے‘ اس کا دار و مدار ابن جریج کی روایات پر ہی ہے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی بکثر ت تفسیری روایات نقل کی ہیں‘ ان میںصحیح و سقیم ہر نوع کی روایات شامل ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ابن جریج نے ان میںاور دیگر مرویات میں بھی صحت کا پورا التزام نہیں رکھا‘ ہر آیت کی تفسیر میں وارد شدہ اقوال و آثار کو بلاامتیاز اور بغیر جانچے یکجا کر دیا ہے۔ ان سے استفادہ کرنے والے مفسر پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ابن جریج سے منقول تفسیری روایات و اقوال کو تنقیدی نگاہ سے دیکھے اور غیر مستند ضعیف و سقیم روایات کو قطعاً قبول اور نقل نہ کرے۔
اسرائیلیات کے بارے میں علامہ ابن خلدونؒ کی رائے
اس میں شک نہیں کہ تفسیر منقول کے بارے میں متقدمین نے بڑا مواد فراہم کیا‘ مگر صد حیف کہ ان کی تصانیف رطب و یابس اور مقبول و مردود سبھی قسم کی روایات پر مشتمل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل ِعرب پڑھے لکھے نہ تھے‘بلکہ ان پر جہالت و بداوت کا غلبہ تھا ۔ انسانی فطرت ہمیشہ سے تکوینی اسباب اور آغازِ تخلیق سے متعلق اُمور کی ٹوہ میں لگی رہی ہے‘ چنانچہ عربوں نے جب بھی ایسی کوئی بات پوچھنی ہوتی تو وہ اپنے معاصر یہود و نصاریٰ سے دریافت کرتے۔ دوسری طرف اہل ِکتاب بھی اس ضمن میں تقریباً عربوں ہی کی طرح اَن پڑھ تھے اور صرف انہی باتوں سے آگاہ تھے جو اہل ِکتاب میںزبانِ زد عام تھیں۔ اکثر یہود قبیلہ حَمیر سے تعلق رکھتے تھے مگر انہوں نے یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔یہ لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے بعد بھی بدستور ان امور کے معتقد رہے جن کا شرعی احکام سے کچھ تعلق نہیں تھا‘ مثلاً یہ کہ تخلیق بنی نوعِ انسان کا آغاز کب ہوا؟فلاں فلاں واقعات و حوادث اور جنگیں کب اور کیسے رونما ہوئیں؟ اور اس قسم کے دیگر امور وغیرہ۔ ایسے واقعات کے راوی زیادہ تر کعب الاحبار‘ وھب بن منبہ اور عبداللہ بن سلام جیسے لوگ ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی نقل کردہ روایات سے کتب ِتفسیر بھر گئیں۔ ان میں سے کچھ ایسی روایات بھی تھیں جو مرفوع نہیں بلکہ محض ان اشخاص کے اقوال ہیں جن کا شرعی احکام سے کوئی تعلق نہیں۔چنانچہ مفسرین نے اس ضمن میں سہل انگاری سے کام لیا اور ان کی مرتب کردہ کتب تفسیر ایسے اقوال کا پلندہ بن گئیں‘ حالانکہ یہ اقوال بلا تحقیق نقل کر دیے گئے تھے اور ان کو شہرت محض اس لیے حاصل ہو گئی تھی کہ ان کے قائلین کو مذہبی تقدس حاصل تھا‘ جس کی بنا پر ان کی جانب منسوب اقوال بلاشک و شبہ تسلیم کر لیے جاتے تھے۔ (مقدمہ ابن خلدون)
مسلم دنیا میں فلسفہ ٔتاریخ کے بانی ابن خلدون کا مذکورہ بالا بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ان کی رائے میں تفسیری اقوال میں اسرائیلی روایات کی اشاعت دو امور کی مرہونِ منت ہے۔ پہلی وجہ تو عربوں پر جہالت و بداوت کا غلبہ اور اسبابِ تکوین و اسرارِ وجود کا بڑھا ہوا شوق ہے‘ جو ہر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ عربوں کو یہ سب باتیں اہل ِ کتاب سے یا جو ان میں سے مسلمان ہو گئے تھے‘ انہی سے دریافت کرنا ہوتی تھیں۔ دوسری وجہ یہ بنتی ہے کہ چونکہ ان امور ‘ معاملات اور قصص کا دینی و شرعی احکام سے کچھ تعلق نہیں تھا‘ اس لیے یہ مرویات اور اقوال بلا جرح و نقد تسلیم کر لیے گئے۔ اس مسئلے کو یوں سمجھیں کہ قرآن پاک میں تخلیق ِکائنات اور پچھلی اُمتوں کے واقعات مختصراً بیان ہوئے ہیں اور صرف انہی پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو کہ سبق آموز ہیں۔ اس کے برعکس سابقہ کتب سماوی‘متعلقہ تشریحی کتب اور دیگر صحائف میں ان تمام باتوں کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت متجسس واقع ہوئی ہے‘ اس لیے واقعات اور قصص کی درمیانی اور تفصیلی کڑیاں ملانے کے لیے ذوق و شوق سے اہل ِ کتاب سے تفصیلات لی گئیں اور اس میں صحت‘ سند اور تفکر و تدبر کسی چیز کا بھی دھیان نہ رکھا جا سکا۔ مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ بعض لوگوں نے بالکل من گھڑت واقعات بھی اعتماد پیدا کرنے کے لیے صحیح راویوں کی طرف منسوب کر دیے اور یہ تمام افکار و آراء اسی طرح سہل نگاری سے کتب ِتفسیر میں بھی جگہ پا کر اپنے بعد والوں کے لیے گویا تقدیس اور سند کا درجہ حاصل کر گئے۔
مفسر ِقرآن کااسرائیلیات کے بارے میں رویّہ
یہ امر بالکل پوشیدہ نہیں کہ صحیح و سقیم میں امتیاز کے بغیر اہل کتاب سے نقل و روایت دین کے حوالے سے ایک عظیم فتنہ سے کم نہیں۔اس ضمن میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ’’اہل ِکتاب کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب‘ ‘ایک بنیادی ضابطہ ہے جس سے انحراف کسی طور سے بھی ممکن نہیں۔ اس تناظر میں ایک مفسر کو درج ذیل فرائض مدّ ِنظر رکھنے چاہئیں:
(۱) اس پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ حد درجے مستعدی اور بیدار مغزی سے کام لے‘ اور اسرائیلیات کے پلندے سے وہ مواد چھانٹ لے جو روحِ قرآن سے لگّاکھاتا اور عقل و نقل کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
(۲) اسی طرح مفسر کے فرائض میں یہ امر بھی شامل ہے کہ جب قرآن کی کسی مجمل آیت کی تفسیر حدیث نبویؐ میں موجود ہو تو اس صورت میں اسرائیلی روایات سے بالکل اخذ و استفادہ نہ کرے ۔ جیسے کہ قرآن میں سورئہ صٓ کی آیت :{وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا} (آیت ۳۴) ’’اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا‘‘کی تشریح صحیح بخاری میں موجود ہے‘ اس کو نظر انداز کر کے یہ واقعہ دوسرے مَن گھڑت واقعات اور روایات پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ ایک مرتبہ حضرت سلیمانؑ نے کہا: مَیں آج اپنی ایک سو بیویوں سے مجامعت کروں گا اور ان میں سے ہر کوئی ایک مجاہد بچہ جنے گی۔ آپؑ کے ساتھی نے کہا کہ ’ان شاء اللہ‘ کہہ لیجیے مگر آپ کی توجہ نہ ہوئی ۔چنانچہ ان میں سے صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور جو بچہ اس نے جنا وہ بھی ادھورا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا :’’ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے‘ اگر سلیمان ان شاء اللہ کہہ لیتے تو (تمام بیویوں سے) مجاہد بچے جنم لیتے‘ جو سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔‘‘
(۳) ایک مفسر قرآن کا یہ بھی فرض ہے کہ متعلقہ واقعہ کو بقدر ضرورت و حاجت ہی بیان کرے۔ کسی آیت کی تشریح و توضیح کرتے وقت صرف اتنا ہی واقعہ بیان کرے جس سے قرآن کے اجمال کی تفصیل ہو سکے‘ اس سے زیادہ کی بالکل ضرورت نہیں۔
(۴) البتہ اگر کوئی بات متقدمین کے ہاں متنازع فیہ ہو اور اس بارے میں ان کے متعدد اقوال ہوں‘ تو ایک مفسر کو جملہ اقوال ذکر کر کے صحیح قول کی نشان دہی کرنے میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر یہ بات کسی طور سے بھی مناسب نہیں کہ اختلاف کا ذکر کر کے اسے یونہی چھوڑ دیا جائے‘ قاری کے سامنے اقوالِ صحیحہ و سقیمہ کا انبار لگاکے اسے ورطۂ حیرت میں ڈبو دیا جائے اور مفسر یہ واضح ہی نہ کرے کہ صحیح تر قول کون سا ہے؟
(۵) ایک مفسر کے لیے بہتر طریقۂ کار یہی ہے کہ وہ امکانی حد تک غیر ضروری اسرائیلیات سے صرفِ نظر کرے اور ایسے بے کار اسرائیلی روایات اور افسانے بیان کرنے سے بالکل اجتناب کرے جو قرآن پاک کا معنی و مفہوم سمجھنے میں رکاوٹ اور سنگ راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی دلیل میں سورۃ الکہف کی آیت۲۲ پیش کی جا سکتی ہے‘ فرمانِ الٰہی ہے:
{سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ ۚ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُھُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِ ۚ وَیَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُھُمْ کَلْبُھُمْ ۭ قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ۵ فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاھِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْھِمْ مِّنْھُمْ اَحَدًا (۲۲)}
ََ’’بعض (اہل ِکتاب) کہتے ہیں کہ وہ (اصحابِ کہف) تین تھے‘ چوتھا ان کا کتّا تھا‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے‘ چھٹا ان کا کتّا تھا‘ یہ لوگ بلاثبوت اٹکل پچو ہانک رہے ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ وہ سات تھے‘آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ (اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیں کہ میرا ربّ ہی ان کی گنتی کو خوب جانتا ہے‘ بہت کم لوگ اس سے واقف ہیں۔ آپ اس بارے میں ان سے زیادہ بحث و مباحثہ نہ کریں اور نہ ہی اس بارے میں ان میں سے کسی سے سوال کریں۔‘‘
اس آیت ِقرآنی میں اللہ تعالیٰ نے یہ سبق سکھایا ہے کہ اس طرح کی غیر ضروری گفتگو اور بحث سے بچنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں تین اقوال ذکر کیے‘ جن میں سے پہلے دو کی تضعیف کی اور تیسرے پر سکوت اختیار کیاجواس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اگر تیسرا قول بھی صحیح نہ ہوتا تو پہلے دو کی طرح اس کی بھی تردید کی جاتی۔ پھر بتایاگیا کہ اصحابِ کہف کی متعین تعداد معلوم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دین و دنیا کا فائدہ اس میں مضمر ہے۔ ان کی صحیح تعداد خدائے بزرگ و برتر ہی جانتا ہے یا پھر چندگنے چنے لوگ جنہیں اصحابِ کہف کی درست تعداد سے آگاہ کیا گیا۔ایسی ذہنی آوارگی اور بے مقصد باتوں میں اپنے آپ کو الجھانے اور دماغی طور پر تھکانے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
قرونِ اولیٰ کے ضعیف اور مختلف فیہ مفسرین
اب تابعین اور تبع تابعین کے عہد کے بعض ان مفسرین کا مختلف تعارف پیش کیا جا رہا ہے ‘ جنہیں یا تو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور یا جن کے قابل ِاعتماد ہونے میں قابل ِلحاظ اختلاف رہا ہے ۔(علوم القرآن‘ از مفتی محمد تقی عثمانی)
(۱)سُدّی کبیر : کتب ِتفاسیر میں ’سُدّی‘ کے نام سے دو صاحب معروف ہیں‘ دونوں کا الگ الگ تذکرہ کیا جا رہا ہے۔پہلے اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ابی کریمہ السّدّی الکوفی ہیں‘ کنیت ابومحمد اور ’السدّی الکبیر‘ کےنام سے معروف ہیں۔ تفسیر کی کتابوں میں جب صرف ’سُدّی‘لکھا جاتا ہے تو عموماً یہی مراد ہوتے ہیں۔ ان کو سُدّی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کوفہ کی جامع مسجد کے دروازے پر ایک چبوترہ سا تھا جس پربیٹھ کر یہ اوڑھنیوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ دروازے کے ایسے چبوترے کو عربی میں ’سُدّہ‘ کہتے ہیں‘ اسی لیے ان کو سُدّی کہا جانے لگا۔ ان کو تفسیر قرآن کی درس و تدریس کا خاصا ذوق و شوق تھا‘ چنانچہ تفسیر کی کتابیں ان کے اقوال اور روایات سے بھری ہوئی ہیں۔ البتہ علم تفسیر اور روایات کے معاملے میں یہ کس حد تک قابل اعتماد ہیں‘ اس مسئلے میں محققین کی آراء مختلف ہیں۔ بعض حضرات نے ان کی توثیق کی ہے‘ مثلاً حضرت یحییٰ بن سعید القطان کا کہنا ہے کہ ان کی روایات میں کوئی حرج نہیں‘ مَیں نے جس کسی کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنا‘ ذکر ِخیر کرتے سنا۔ امام احمد کا قول ہے کہ وہ ثقہ ہیں۔ امام ابن عدی کا بیان ہے کہ میری نظر میں حدیث کے معاملے میں وہ ٹھیک ہیں‘ سچے ہیں‘ ان میں کوئی حرج نہیں۔ العجلی کے مطابق سُدّی کبیر تفسیر کے ثقہ عالم اور راوی ہیں۔ امام نسائی انہیں صالح کہتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں ان کے بارے میں کوئی جرح نقل نہیں فرمائی اور نہ ہی خود کی ہے‘ بلکہ اسماعیل بن ابی خالد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سُدّی قرآن کریم کے شعبی سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔ امام مسلم کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے اپنی صحیح میں ان سے حدیث لی ہے۔
اس کے برعکس بہت سے دوسرے علماء نے سُدّی الکبیر پر جرح بھی کی ہے‘ مثلاً حضرت یحییٰ بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کی احادیث میں ضعف ہے۔ ابوحاتم کابیان ہے کہ ان کی احادیث لکھ لی جائیں مگر ان سے استدلال درست نہیں۔ امام شعبی سے کسی نے کہا کہ سُدّی کو قرآن حکیم کے علم کا بڑا حصّہ ملا ہے‘ اس کے جواب میں امام شعبی نے فرمایا کہ ان کو قرآن کریم سے جاہل ہونے کا بڑا حصّہ ملا ہے۔ ابوزرعہ انہیں لیّن (نرم)کہتے ہیں‘ جو کہ بالکل ادنیٰ درجے کی توثیق ہے۔ ساجی کا سُدّی کے بارے میں کہنا ہے کہ سچے ہیں مگر محل نظر ہیں۔ امام طبری کا قول ہے کہ ان کی احادیث سے استدلال درست نہیں۔ اما م عقیلی کا بیان ہے کہ ضعیف ہیں اور شیخین (حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ) کی بدگوئی کرتےتھے۔ حسین المروزی تحریر کرتے ہیں کہ مَیں نے سُدّی سے احادیث سنی ہیں اور ان کو اس وقت چھوڑا جب مَیں نے ان کو سنا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے خلاف بدزبانی کر رہے ہیں‘ اس کے بعد مَیں ان کے پاس نہیں گیا۔
حافظ ابن حجر نےسُدّی الکبیر کے بارے میں ساری بحث کا خلاصہ یہ نکالا ہے : ’’صَدوق یھم ورمی بالتشیّع‘‘(وہ سچے ہیں مگر ان کو روایت میں وہم ہو جاتا ہے اور ان پر تشیع کا الزام بھی ہے)۔ لفظ ’صدوق‘ محدثین کی اصطلاح میں اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو جھوٹا تو نہ ہو لیکن اس کا حافظہ بھی معیاری نہ ہو۔ لہٰذاسُدّی کی صحیح حیثیت یہ ہے کہ قوتِ حافظہ کے اعتبار سے یہ محدثین کے معیار پر پورا نہیں اترتے‘ دوسرے ان پر شیعہ ہونے کا بھی الزام ہے۔ لیکن سُدّی کو تبراباز (شتّام) کے ساتھ کذاب صرف امام جوزجانی نے کہا ہے ۔ آپ نے ۱۲۷ھ میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا۔
(۲)سُدّی صغیر : دوسرے صاحب جوسُدّی کے نام سے معروف ہیں‘ وہ محمد بن مروان السُدّی ہیں‘ جو عبدالرحمٰن بن زیدؓ بن خطاب کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کی تفسیری روایات سُدّی کبیر کے مقابلے میں کم ہیں اور ان کو سُدّی کبیر سے ممتاز کرنے کے لیے ’السُدّی الصغیر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کوفہ کے باشندے ہیں اور ان کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ سُدّی صغیر مشہور مؤرخ کلبی کے شاگرد ہیں۔ امام بخاری کا فرمان ہے کہ ان کی احادیث ہرگز نہ لکھی جائیں۔ ابن معین کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ نہیں۔ حافظ ذہبی کا سُدّی صغیر کے بارے میں قول ہے کہ محدثین نے انہیں چھوڑدیا ہے اور بعض لوگوں نے ان پر جھوٹ کا الزام بھی لگایا ہے۔ ایک دوسری جگہ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انتہائی واہیات راوی ہیں۔ امام احمد کا کہنا ہے کہ مَیں نے ان کو اس وقت پایا جب وہ بوڑھے ہو چکے تھے‘ لہٰذا مَیں نے ان کو چھوڑ دیا۔ امام نسائی کے مطابق ان کی احادیث ترک کر دی جائیں گی۔ ابوعلی صالح بن محمد کے بقول (سُدّی صغیر) ضعیف تھے اور احادیث گھڑا بھی کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تذکرے میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ’تنویر المقیاس فی تفسیر ابن عباسؓ‘ (المعروف تفسیر ابن عباسؓ) کا مروجہ نسخہ انہی سُدّی الصغیر سے مروی ہے اور علامہ سیوطی و دیگر محدثین نے اس کی سند کو ’سلسلۃ الکذب‘ (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے ‘ اس لیے اس کا کوئی اعتماد اور اعتبار نہیں۔ ان کی وفات کے حوالے سے ۱۸۱ھ سے لے کر ۱۹۰ھ تک مختلف اقوال ملتےہیں۔
(۳)مقاتل بن سلیمان : مقاتل نام کے بھی دو صاحب مشہور ہیں۔ ایک ابوبسطام مقاتل بن حیان اور دوسرےابوالحسن مقاتل بن سلیمان۔ دونوں ایک ہی شہریعنی بلخ کے رہائشی ہیں‘ دونوں کا زمانہ بھی ایک ہے‘ دونوں روایت بھی ایک ہی طرح کے اساتذہ سے کرتے ہیں اور دونوں کا سال وفات بھی ایک ہے ‘اسی لیے بسا اوقات ان دونوں میں التباس ہو جاتا ہے۔ ان میں سے مقاتل بن حیان راجح قول کی بنا پر ثقہ ہیں اور جلیل القدر علماء میں سے ہیں‘ لیکن کتب ِ تفسیر میں ان کا حوالہ کم آتا ہے۔ عموماً تفاسیر میں جب صرف مقاتل لکھا جاتا ہے تواس سے مرادمقاتل بن سلیمان ہوتے ہیں‘ کیونکہ یہی مفسر کے لقب سے مشہور ہیں او ر انہی کی روایات اور اقوال کتب تفسیر میں زیادہ ہیں‘ اس لیے انہی کا حال کچھ تفصیل سے پیش ِخدمت ہے۔
مقاتل بن سلیمان نے بذاتِ خود ایک تفسیر لکھی تھی (یہ غالباًتفسیر کی اوّلین کتاب ہے جو کہ ہم تک محفوظ پہنچی ہے)‘ جس کے حوالے کتب تفسیر میں بھی بکثرت آتے ہیں۔ چند علماء نے ان کی تعریف کی ہے لیکن اکثر علماء اور محدثین نے انہیں مجروح اور ناقابل اعتبار بتایا ہے۔ امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ لوگ تفسیر کے معاملے میں مقاتل کے محتاج ہیں۔ حضرت بقیّہ کا قول ہے: حضرت شعبہ سے مقاتل کے بارے میں بکثرت سوال کیا جاتا تھا‘ مَیں نے ان کو مقاتل کا ذکرخیر کرتے ہوئے ہی پایا۔ مقاتل بن سلیمان کو مقاتل بن حیان علم کا سمندر کہا کرتے تھے‘لیکن بیشتر اَئمہ حدیث نے ان پر شدید جرح اور تنقید کی ہے۔ مقاتل پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ وہ بے اصل‘ وضعی روایات نقل کرتے ہیں۔ جیسے وکیع کا کہنا ہے کہ ہمارا ارادہ ہوا کہ ہم سفر کر کے مقاتل کے پاس جائیں لیکن وہ خود ہی ہمارے شہر آ گئے‘ ہم ان کے پاس پہنچے مگر ہم نے انہیں کذاب پایا‘ اس لیے ان سے کچھ نہیں لکھا۔ جوزجانی کا ان کے بارے میں قول ہے کہ بڑا ڈھیٹ کذاب ہے۔ ابن معین کے بقول وہ ثقہ نہیں۔ ایک دوسرے موقع پر انہوں نے مقاتل کےبارے میںـ کہا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔
ابن سعد رقم طراز ہیں کہ علمائے حدیث اس کی حدیث سے بچتے اور اسے منکر سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن حکم کے بقول وہ (مقاتل) قصّہ گو تھا‘ لوگوں نے اس کی احادیث ترک کر دی ہیں۔ امام نسائی کا ارشاد ہے کہ رسول اللہﷺ کی طرف جھوٹی احادیث گھڑ کر منسوب کرنے والے چار آدمی بہت مشہور ہیں‘ ان میں سے ایک مقاتل بھی ہے۔ امام دارقطنی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ امام حاکم کے مطابق وہ علماء کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبدالصمد بن عبدالوارث بیان کرتے ہیں کہ مقاتل ہمارے پاس آئے اور ہمیں عطاء کے واسطے سے کچھ حدیثیں سنانے لگے‘ پھر وہی حدیثیں ضحاک کے واسطے سے سنائیں اور پھر وہی احادیث عمرو بن شعیب کے واسطے سے سنائیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ روایات آپ نے کس سے سنی ہیں؟تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ ان سب سے سنی ہیں‘ مگر پھر کہنے لگے کہ نہیں‘ خدا کی قسم! مجھے یاد نہیں کہ یہ کس سے سنی ہیں۔ امام بخاری کا فرمان ہے کہ وہ ہرگز کوئی شے نہیں۔ عبداللہ بن مبارک‘ مقاتل کی عبادت گزاری کی تعریف کرتے تھے لیکن ان کی روایات قبول کرنے سے اجتناب برتتے۔
مقاتل پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ عقائد کے اعتبار سے فرقۂ مجسمہ سے تعلق رکھتے تھے (یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ قرار دیتے اور اللہ تعالیٰ کے لیے مختلف اعضاء وغیرہ کے قائل تھے)۔ عباس بن مصعب مروزی کہتے ہیں کہ مقاتل بن سلیمان اصلاً بلخ کے باشندے تھے ‘ پھر مرو میں آ گئے‘ یہاں انہوں نے جامع مسجد میں قصہ گوئی شروع کر دی۔ یہیں پر ان کے اور جہم بن صفوان (بانی فرقۂ جہمیہ) کے درمیان مباحثے شروع ہو گئے‘ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھیں۔ امام ابوحنیفہ ؒکا قول ہے کہ ہمارے ہاں مشرق کی جانب سے دو بڑے خبیث نظریات گھس آئے ہیں:ایک جہم (کا نظریہ) جو معطلہ میں سے تھا اور ایک مقاتل (کا نظریہ) جو مشبّہ میں سے تھا۔ نیز امام ابوحنیفہ ؒکا بیان ہے کہ جہم نے نفی (صفات) میں غلو سے کام لیا‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو کالعدم بنا دیا اور مقاتل نے اثبات (صفات) میں غلو کیا‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو اُس کی مخلوقات کے مشابہ قرار دےدیا۔ حافظ شمس الدین ذہبی نے ان کو ضعفاء میں شمار کر کے لکھا ہے کہ مقاتل بن سلیمان مفسر‘ تباہ حال ہیں‘ وکیع اور نسائی نے ان کو کذاب کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ان کے احوال کا خلاصہ یوں نکالاہے کہ علماء نے ان (مقاتل) کی تکذیب کی ہے اور ان کی روایات کو چھوڑ دیا ہے اور ان پر فرقۂ مجسمہ میں سے ہونے کا الزام بھی ہے۔
اتنی شدید جرح و تنقید کے باوجود کتب ِتفسیر میں مقاتل بن سلیمان کے اقوال بڑی کثرت سے ذکر کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اگرچہ روایت ِحدیث کے حوالے سے وہ قابل بھروسہ نہیں لیکن وہ وسیع المعلومات آدمی تھے۔ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا مشغلہ علم تفسیر ہی کو بنایا تھا اور اس بارے میں مختلف طریقوں اور حوالوں سے معلومات جمع کی تھیں‘ اس لیے ان کی تفسیر میں بعض کام کی باتیں بھی نکل آتی ہیں۔ اس لیےیہ معلومات بھی مفسرین نے ذکر کر دی ہیں تاکہ محقق علماءان میں سے کوئی بات مفید یا صحیح پائیں تو قبول کر لیں‘ ورنہ پھر ردّ کردیں۔ امام احمدؒ کا کہنا ہے کہ ان (مقاتل) کے پاس کچھ کتابیں تھیں جنہیں وہ دیکھتے رہتے تھے‘ مگر میرا خیال ہے کہ قرآن کا کچھ علم ان کے پاس تھا۔ ابراہیم نخعی ؒکا بیان ہے کہ مقاتل نے مختلف لوگوں کی تفسیریں جمع کر کے ان کے مطابق تفسیر کی ہے‘ مگر کسی سے ان تفسیروں کو براہِ راست نہیں سنا۔ عباس بن مصعب مروزی ؒبتاتے ہیں کہ انہیں تفسیر تو یاد تھی مگر سند یاد نہ تھی ۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے مقاتل کی تفسیر دیکھی تو کہا کہ اس میں علم تو بڑا عجیب ہے‘ کاش! کہ اس کی (صحیح) اسناد بھی ہوتیں۔ ابن حبانؒ تحریر کرتے ہیں کہ وہ (مقاتل) یہود و نصاریٰ سے قرآن کا علم حاصل کرتے جو ان کی کتابوں کے موافق ہے۔ خلیلی کا قول ہے کہ وہ وسیع العلم تھے لیکن حفاظ حدیث نے روایت میں ان کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لہٰذا مقاتل بن سلیمان کےتفسیری اقوال پر روایتی نقطۂ نظر سے تو ہرگز بھروسہ نہیں کرنا چاہیے‘ البتہ لغت و ادب‘ تاریخ و قصص‘ کتب سابقہ کے حوالہ جات اور معلوماتِ عامہ کے لحاظ سے ان میں کام کی باتیں بھی مل جاتی ہیں‘ جن سے محقق اہل ِعلم کچھ نہ کچھ فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اسی لیے عام مفسرین نے ان اقوال کو نقل کرنےمیں کوئی خاص قباحت نہیں سمجھی۔ مقاتل بن سلیمان۱۵۰ھ میںاس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
(۴)ربیع بن انس : یہ ربیع بن انس البکری ہیں‘ اصلاًبصرہ کے باشندے ہیں‘ پھر خراسان چلے گئے تھے‘ اس لیے ان کو بصری بھی کہا جاتا ہے اور خراسانی بھی۔ ربیع نے حضرت انسؓ‘ ابوالعالیہ اور حسن بصریؒ وغیرہ سے روایات لی ہیں۔ ابوحاتم‘ العجلی اور امام نسائی نے ان کے لیے ’صَدوق‘ یا ’لیس بِہٖ بأس‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ادنیٰ درجے کی توثیق ہے۔ البتہ یحییٰ بن معین کا ربیع کے بارے میں قول ہے کہ وہ شیعہ تھے اور (تشیع میں) افراط سے کام لیتے تھے۔ ابن حبان نے اگرچہ ان کو ثقات میں شمار کیا ہے‘ مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ ابوجعفر رازی نے ان کی جو روایات ذکر کی ہیں‘ لوگ ان سے احتراز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی روایات میں اضطراب بہت ہے۔ (اضطراب سے مراد ہے کہ راوی سند کی ترتیب یا متن کے الفاظ کی ترتیب بدل دیتا ہو یا اسےالفاظ کی ترتیب یاد ہی نہ رہتی ہو) حافظ ابن حجر ؒنے ان کے بارے میں یہ خلاصہ نکالا ہے کہ وہ سچ بولتے ہیں‘ مگر ایک تو ان کو روایات (کے ضمن ) میں وہم بھی ہو جاتا ہے‘ دوسرے ان پر تشیع کا الزام ہے۔
(۵)عطیۃ العوفی : آپ عطیہ بن سعد بن جنادہ العوفی الجدلی ہیں اور کنیت ابوالحسن ہے۔ آپ تابعی اور کوفہ کے رہائشی ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ‘ حضرت ابوہریرہؓ‘ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ سے روایات نقل کرتے تھے۔ امام نسائی‘ امام احمد‘ یحییٰ بن سعید القطان‘ ہشیم‘ ابوحاتم‘ ابن عدی‘ جوزجانی‘ ابن حبان‘ امام ابودائود اور ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔ صرف ابن سعد ؒنے اتنا لکھا ہے کہ وہ ٹھیک احادیث روایت کرتے ہیں اور بعض لوگ ان سے استدلال نہیں کرتے۔ ابوزرعہ ؒنے عطیہ کو ’لیّن‘ اور یحییٰ بن معین ؒنے ان کو صالح کہا ہے‘ گویا دونوں نے ادنیٰ اور ہلکے درجے کی توثیق کی ہے۔ دراصل عطیۃ العوفی پر چار قسم کے اعتراضات ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ انہوں نے روایات کی سند میں مغالطہ انگیزی کا ارتکاب کیا ہے۔ امام احمدؒ اور ابن حبانؒ نے اس کی یہ تفصیل بتائی ہے کہ یہ کلبی کے پاس جا کر اس سے تفسیر کے بارے میں سوالات کیا کرتے تھے اور اس سے روایات اخذ کرتے‘ لیکن کلبی چونکہ ضعیف اور بدنام مشہور ہیں‘ اس لیے انہوں نے اس (کلبی) کی کنیت اپنی طرف سے ابوسعید رکھ لی تھی‘ اور عطیہ جو روایات کلبی سے سنتے ‘ان کو کلبی کا نام لینے کی بجائے ابوسعید کی کنیت سے روایت کر دیتے۔ چونکہ عطیہ العوفی نے حضرت ابوسعید خدریؓ سے بھی بعض احادیث سنی تھیں‘ اس لیے ناواقف لوگ یہ سمجھتے کہ یہ روایت بھی حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہو گی‘ حالانکہ وہ روایت حقیقت میں کلبی سے اخذ کردہ ہوتی تھی (تھذیب التھذیب) ۔ ان پر دوسرا یہ اعتراض ہے کہ وہ شیعہ ہیں۔ تیسرا یہ اعتراض ہے کہ روایات نقل کرنے میں غلطیاں کرتے ہیں اور چوتھا اعتراض عطیہ پر یہ ہے کہ وہ مدلّس ہیں۔حافظ ابن حجرؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں: صَدوق یخطیٔ کثیراً‘ کان شیعیاً مدلّسًا(سچ بولنے والے مگر غلطیاں بہت کرتے ہیں‘ شیعہ اور مدلس تھے)۔ شمس الدین ذہبیؒان کا تذکرہ ضعفاء میں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’تابعی مشھور‘ مجمع علی ضعف‘‘(مشہور تابعی ہیں‘ ان کے ضعف پر اجماع ہے)۔ البتہ امام ترمذیؒ نے عطیۃ العوفی کی بعض روایات کو حسن قرار دیا ہے‘ لیکن امام ترمذیؒ کی اصطلاح میں حسن سے مراد ہر وہ حدیث ہوتی ہے۔ جس کی سند میں کوئی راوی متہم بالکذب نہ ہو اور وہ ایک سے زائد طرق سے مروی ہو۔ عطیہ کی روح ۱۱۱ھ میں اس قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
(۶)عبدالرحمٰن بن زید: آپ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم المدنی ہیں۔ ان کو اکثر و بیشتر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے‘ صرف امام بن عدی کا قول ہے:’’ ان سے حسن احادیث مروی ہیں‘ وہ ان راویوں میں سے ہیں جن کو لوگوں نے گوارا کیا ہے‘ اور بعض حضرات نے ان کی تصدیق کی ہے ‘ ان کی احادیث لکھی جا سکتی ہیں‘‘۔باقی تمام علمائے جرح و تعدیل نے ان کی تضعیف کی ہے۔ امام بخاری کا کہنا ہے کہ علی بن المدینی نے ان کو بہت ضعیف کہا ہے۔ امام نسائی‘ امام احمد اور ابوزرعہ نے بھی عبدالرحمٰن بن زید کی تضعیف کی ہے۔امام ابودائود ؒکا قول ہے کہ زید بن اسلم کے تمام بیٹے (روایت کے حوالے سے) ضعیف ہیں۔ ابوحاتم ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اپنی ذات میں صالح آدمی تھے مگر حدیث میں بہت کمزور۔ ابن حزیمہ رقم طراز ہیں:
لیس ھو ممن یحتج اھل العلم بحدیثہ لسوء حفظہ‘ وھو رجل صناعتہ العبادۃ والتقشف
(وہ ان لوگوں میں سے نہیں کہ جن کی حدیث سے اہل علم استدلال کر سکیں‘ کیونکہ ان کاحافظہ کمزور تھا‘ اور ان کا اصل کام عبادت و زہد ہے۔)
عبدالرحمٰن کے بارے میں ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ روایات کو غیر شعوری طور پر پلٹ دیتے تھے‘ یہاں تک کہ ان کی روایت میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ مرسل (حدیث) کو مرفوع بنا دیا اور موقوف کو مسند کر دیا‘ اس لیے وہ ترک کر دینے کے مستحق ہیں اور بقول امام طحاویؒ: حدیثہ عند اھل العلم بالحدیث فی النھایۃ من الضعف (علمائے حدیث کی نظر میں ان کی احادیث انتہائی ضعیف ہیں)۔اس کے علاوہ امام مالک‘ ابن معین ‘ ابن سعدؒ ‘ معن‘ ساجی‘ جوزجانی‘ حاکم اور ابونعیمؒ سے بھی ان پر سخت جرح منقول ہے۔تھذیب التھذیب کے مطابق ابن جوزیؒ نے لکھا ہے : اجمعوا علی ضعفہ (ان کے ضعف پر اجماع ہے) اس لیے ابن حجر نے بھی عبدالرحمٰن بن زید کے بارے میں یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ضعیف ہیں (التقریب التھذیب) آپ ۱۸۲ھ میں راہی ملک عدم ہوئے۔
(۷)محمد کلبی : یہ محمد بن السائب بن بشر بن عمرو بن عبدالحارث بن عبدالعزی الکلبی ہیں اور کنیت ابوالنظر ہے۔ یہ کوفہ کے باشندے اور بنوکلب کی طرف منسوب ہیں۔ علمائے حدیث ان کے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہونے پر متفق ہیں۔ صرف ابن عدیؒ نے ان کے بارے میں اتنا لکھا ہے:’’ وہ تفسیر میں مشہور ہیں اور کسی کی تفسیر ‘ ان کی تفسیر سے زیادہ طویل نہیں ہے‘ اور ان سے بعض ثقہ لوگوں نے بھی حدیثیں لی ہیں‘ اور تفسیر میں انہیں گوارا کیا ہے‘ البتہ حدیث میں ان کی روایات منکر ہیں‘‘۔ لیکن باقی تمام اہل ِعلم نے کلبی پر شدید جرح کی ہے۔ ان پر سب سے سنگین الزام جھوٹی روایتیں بیان کرنے کا ہے۔ معتمر بن سلیمان اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ کوفہ میں دو کذاب تھے اور ان میں سے ایک کلبی ہیں۔تفسیر میں ان کی بیشترروایات ابوصالح سے مروی ہیں‘ لیکن ابوجناب کلبی بیان کرتے ہیں کہ ابوصالح نے قسم کھا کر کہا کہ مَیں نے کلبی کو کوئی بات تفسیر کی نہیں سنائی۔ سفیان ثوریؒ کا کہنا ہے کہ کلبی نے ایک مرتبہ خود اعتراف کیا کہ مَیں نے ابوصالح سے ابن عباسؓکی جو روایتیں بیان کی ہیں ‘ وہ جھوٹ ہیں‘ تم انہیں آگے روایت نہ کرو۔ سفیان ثوریؒ سے بعض احادیث کلبی کی سند سے مروی ہیں‘ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جب سفیان ثوری جیسا محدث کلبی سے روایت کرتا ہے تو وہ ثقہ ہی ہوں گے۔ لیکن اس کی حقیقت ابوحاتم بتاتے ہیں کہ سفیان ثوری کا مقصد ان سے روایت لینا نہیں تھا‘ بلکہ انہوں نے بعض اوقات اظہارِ تعجب کے لیے کلبی کی روایات مجلس میں سنائیں‘ اس پر بعض حاضرین نے ان روایات کو سفیان ثوریؒ سے نقل کر دیا۔ (تھذیب التھذیب)
حافظ ذہبی ؒنے خود سفیان ثوریؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ کلبی سے بچو۔ حضرت قرۃ بن خالد کا قول ہے کہ لوگوں کا خیال عام طور سے یہ تھا کہ کلبی جھوٹ بولتے ہیں۔ ان پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ انتہائی غالی شیعہ تھے۔ ابوجزء کہتے ہیں کہ مَیں نے اس (کلبی) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ حضرت جبریلؑ حضور پر وحی لے کر آئے تھے‘ حضورﷺ کسی کام سے اٹھ کر چلے گئے‘ حضرت علیؓوہاں بیٹھے تھے تو جبریلؑ نے وہ وحی حضرت علیؓ پر نازل کر دی ۔ ابو جزء کا یہ قول محدث یزید بن زریع کے سامنے نقل کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے کلبی سے یہ بات تو نہیں سنی‘ لیکن مَیں نے یہ خود دیکھا ہے کہ وہ سینہ پیٹ پیٹ کر کہہ رہے تھے کہ مَیں سبائی ہوں‘ مَیںسبائی ہوں۔ یہی قول حافظ ذہبی نے ہمام سے بھی نقل کیا ہے کہ مَیں نے اس (کلبی) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مَیں سبائی ہوں۔ ابن حبان کا کہنا ہے کہ کلبی سبائی تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی وفات نہیں ہوئی‘ وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور اس کو ایسے وقت میں عدل و انصاف سے بھر دیں گے جب وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ یہ لوگ جب کوئی بادل دیکھتے ہیںتو کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین (حضرت علیؓ) اس میں ہیں۔ (میزان الاعتدال)
مختصراً یہ کہ محمد کلبی قرونِ اولیٰ کے مفسرین میں سے ضعیف ترین مفسر ہیں۔ امام احمدؒ سے پوچھا گیا کہ کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ حافظ ذہبیؒ ان کے تذکرے کے بعد لکھتے ہیں: لا یحل ذکرہ فی الکتب فکیف الاحتجاج بہ؟ (کتابوں میں ان کا ذکر ہی درست نہیں‘ تو ان سے استدلال کیونکر درست ہو سکتا ہے؟)کلبی نے ۱۴۶ھ میں وفات پائی۔
خلاصۂ کلام
ویسے تو کتب تفسیر میں اور بھی بہت سے ضعیف رواۃ کے نام آتے ہیں‘ لیکن اس ضمن میں جن حضرات کاذکر اوپر ہو چکا ہے‘یہی وہ راوی ہیں جن کے حوالے تفاسیر میں انتہائی کثرت سے آئے ہیں۔ اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ بعد میں آنےو الی تمام تفاسیر کا بنیادی ماخذ یہی حضرات ہیں اور اکثر و بیشتر کتب تفاسیر انہی کی روایات اور اقوال کے گردگھومتی ہیں۔ ان رواۃ کے احوال معلوم ہونے سے‘ ان شاء اللہ‘ ان تمام تفاسیر کے مطالعے میں بصیرت پیدا ہوگی جن میںتفسیر بالروایۃ کا طریقہ اختیار کیا گیاہے ‘جیسے تفسیر ابن جریر‘ تفسیر ابن کثیر وغیرہ‘ یا جن تفاسیر میں سند کے بغیر قدیم اَئمہ تفسیر کے اقوال بیان ہوئے ہیں‘ مثلاً تفسیر روح المعانی اور تفسیر القرطبی وغیرہ۔

***