(عرض احوال) حالیہ سیلاب اور سینٹ کام - ایوب بیگ مرزا

10 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حالیہ سیلاب اور سینٹ کام۱۹۴۶ءمیں امریکی کانگریس کے ایک وفد نے برصغیر ہند کا دورہ کیا۔ قائداعظم سے بھی اُن کی ملاقات ہوئی‘ جس کے بعد ایک بیان جاری ہوا کہ امریکہ اور آزاد پاکستان خطہ میں باہمی تعاون کریں گے اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ ہمارے وہ دانشور جو کمیونزم کی طرف رجحان رکھتے تھے‘ وہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان تو اپنے جنم سے پہلے ہی امریکہ کے سپرد ہوگیا تھا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جب دنیا بائی پولر ہوگئی تو دو عالمی قوتیں ابھر کر سامنے آئیں‘ ایک سوویت یونین جو بے خدا ریاست تھی اور مذہب سے نفرت اُس کی بنیاد میں شامل تھی‘ اُس سے اسلامی نظریہ کی بنیاد رکھنے والی ریاست کیسے دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کرتی؟ لہٰذا مملکت خداداد پاکستان کا دوسری سپر پاور امریکہ کی طرف رجحان ہونا اور دوستی کا ہاتھ بڑھانا فطری‘ منطقی اور عقلی سطح پربالکل درست تھا۔ بالکل آغاز میں شاید امریکہ بھی اس حوالہ سے مخلص تھا۔ اُس کا فوری مسئلہ کیپٹلزم کے مقابلے میں کمیونزم کو شکست دینا تھا۔
دنیا کی خاص طور پر عالم اسلام کی بدقسمتی کہ پاکستان کے قیام کے نو ماہ بعد اسرائیل نے جنم لیا۔ اُس کا دعویٰ بھی ایک نظریاتی ریاست کا تھا‘ اگرچہ حقیقت میں وہ ایک نسلی ریاست تھی‘ جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا۔ قائداعظم نے اس ریاست کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دے دیا‘ کیونکہ مغرب مکمل طور پر پنجۂ یہود میں تھا۔ لیکن چونکہ جنگ عظیم دوم برپا ہی اس لیے کی گئی تھی کہ عالمی قوت کا مرکز یورپ سے امریکہ منتقل کیا جائے‘ کیونکہ یہودی وہاں پوری طرح پاؤں جما چکے تھے‘ لہٰذا امریکہ کا اس ناجائز بچے کو گود لینا لازم ٹھہر گیا۔ اُس وقت چونکہ امریکہ کی اصل پریشانی کمیونسٹ ریاست سوویت یونین تھی لہٰذا امریکہ نے کوشش کی کہ ان دونوں نظریاتی ریاستوں یعنی اسرائیل اور پاکستان میں ہم آہنگی بلکہ دوستی کا رشتہ قائم کر دیا جائے۔
یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ تقسیم ہند سے پہلے ہی برصغیر کے ہندوؤں میں خاص طور پر اُن کے دانشوروں میں کمیونزم کی طرف بڑی رغبت تھی۔ امریکہ سمجھ رہا تھا کہ اگر پاکستان کو کمیونزم کے اثرات سے بچایا نہ گیا تویہ سارا خطہ اُس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اُدھر چین بھی انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا اور وہاں بھی کیپٹلزم مخالف ہوا چل رہی تھی‘ لہٰذا امریکہ کا پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا لازم تھا ‘وگرنہ وہ سارے خطے سے آؤٹ ہوجاتا۔اُدھر اسرائیل ایک قبضہ گروپ بن کرامریکہ پر اپنا تسلط قائم کر چکا تھا۔ گویا امریکہ کی آنکھوں پر ایک ایسی عینک چڑھ چکی تھی کہ اسرائیل سے ہٹ کر اُس پر اندھا پن طاری ہو جاتا تھا۔ لہٰذا اسرائیل اور پاکستان کو ایک پیج پر لانے کی بھرپور اور پُر خلوص کوشش کی گئی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی گئی‘ وہاں اُن کا شاندار استقبال ہوا۔ یہودیوں نے لیاقت علی خان کو ایک زبردست عشائیہ دیا‘ جس میں یہودی نمائندے نے کھل کر پاکستان کو کہا کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے تو یہودی پاکستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اُن کے لیے لیاقت علی خان کا جواب انتہائی مایوس کن تھا۔ لیاقت علی خان نے اُس عشائیہ میں ایک تاریخی جملہ بولا:
" Gentlemen! our souls are not for sale."
اس سے پہلے قائداعظم اسرائیل کے حوالے سے ایک فیصلہ کن بیان دے چکے تھے‘ لہٰذا یہودی اب پاکستان کو ایک دشمن ریاست کے طور پر دیکھنے لگے۔ البتہ چونکہ پاکستان امریکہ کی ایک ضرورت تھی لہٰذا مکمل طور پر پنجۂ یہود کی گرفت میں آجانے والے امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے ایک منافقانہ پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا۔ یعنی پاکستان کو ظاہری اور اعلانیہ طور پر دوست کہو‘ اس پالیسی کو سپورٹ دینے کے لیے اُس کی اقتصادی اور عسکری سطح پر مدد بھی کرو‘ لیکن اصلاً اور عملاً اُس سے بدترین دشمنوں والا سلوک کیا جائے۔ یہاں سے ہماری یعنی پاکستان کے حکمرانوں کی غلطیوں کا آغاز ہوا اور بھرپور انداز سے ہوا‘ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم نے اپنی حماقت سے اور دنیوی لالچ میں آکر ملک و قوم کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کیا تو غلط نہ ہوگا۔
ہمارے حکمرانوں نے امریکی امداد سے گلچھرے اُڑائے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن سے نہ صرف امریکہ کے مفادات کی تکمیل ہوئی بلکہ پاکستان کے مفادات کا بری طرح قتل عام ہوا۔ امریکہ نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان امریکہ کا دوست بننے کی بجائے امریکہ کا غلام بن گیا۔ قدرت نے پاکستان کو ایک اور چانس دیا اور یہ سنہری چانس تھا۔ وہ یوں کہ اس خطے میں چین جو پاکستان کا ہمسایہ بھی ہے اقتصادی اور عسکری لحاظ سے ایک عالمی قوت بن کر اُبھرا۔ مزید خوش قسمتی ہوئی کہ چین اور ہمارے دشمن بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔ ہمارے پاس سنہری موقع تھا کہ دشمن کے دشمن کے ساتھ مل کر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرتے یعنی امریکہ سے دوری اختیار کرکے چین کو اپنا دوست بناتے۔ ہم نے یہ کام کیا‘ لیکن تاخیر سے اور نیم دلی سے۔ تقریباً سات آٹھ سال پہلے جب راحیل شریف پاکستان کے آرمی چیف تھے پاکستان نے امریکہ سے دور کھسکنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ کام بڑی آہستگی اور احتیاط سے کر رہی تھی کیونکہ مفادات دو طرفہ تھے۔ جس سطح اور جس انداز کے یہ مفادات تھے اُنہیں بالائے طاق رکھنے کے لیے جرأت کی ضرورت تھی۔ سابقہ حکومت نے اس میں تیزی دکھائی اور شاید ضرورت سے زیادہ تیزی دکھائی جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو ناگوار گزری۔ اُدھر امریکہ دیکھ رہا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے اہم‘ زبردست پروفیشنل فوج رکھنے والا اسلامی ایٹمی ملک اُس سے دور ہوتا جا رہا ہے‘ لہٰذا ایک رائے کے مطابق ناراض عسکری قیادت اور اپوزیشن سے مل کر پاکستان میں رجیم چینج کر دی گئی‘ اور وہ پاکستان جو ایک طویل عرصہ تک امریکہ سے منسلک رہنے کے بعد چند سالوں سے آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی کوششوں میں تھا یکدم دوبارہ امریکہ کے چرنوں میں جا بیٹھا۔ ستم بالائے ستم پاکستان میں بارشوں اور سیلاب نے زبردست تباہی مچا دی۔ اب ہمارے حکمران کشکول اٹھائے دربدر پھر رہے ہیں اور امریکہ کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستان کا ناک رگڑے۔چنانچہ اب امریکہ ایک دوسرا روپ دھار کر پاکستان میں داخل ہونا چاہتا ہے۔
پہلے ایک بات سمجھ لی جائے کہ’’سامراج‘‘ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نئے روپ میں سامنے آئی۔ نوآبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی نظام ہوتا ہے جس میں ایک طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور ان کا سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی استحصال کیا جاتا ہے۔ فوجی قوت اور سازشوں کے ذریعے مقامی اداروں اور ثقافت کو تباہ وبرباد کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس زیر تسلط خطے کو’’ سونے کی چڑیا‘‘ تصور کرتے ہیں۔ ایک ملک کا اپنی سرحدوں سے باہر جاکر دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنا ہی سامراجیت ہے ۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی ‘ سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے ۔ کسی ملک یا کسی خطے کو زیرتسلط کرکے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا ‘ اِس نظام کی اوّلین ظاہری صورت ہے ۔ نوآبادیات کے ذریعہ سامراجیت کو وسعت دینے والا یہ نظام خوفناک اقتصادی ‘ تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب قوت کا مرکز امریکہ منتقل ہوا تو اُس نے کمال تندہی کے ساتھ اس نظام کو آگے بڑھانے کا بیڑا اُٹھایا۔ عسکری‘ اقتصادی‘ تہذیبی‘ جغرافیائی ہر طریقے سے اُس جدید نوآبادیاتی نظام کی بنیاد رکھی جو کہیں جلی اور کہیں خفی سطح پر آج دنیا بھر پر مسلط ہے۔
قصہ کوتاہ گزشتہ چند سالوں سے ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کا رخ قدرے بدلا اور امریکہ کی بے چون و چرا غلامی سے نکلنے اور 'مشرق کی طرف دیکھنے کا سلسلہ شروع کیا‘ لیکن مبینہ رجیم چینج کے بعد ہمارا رخ ایک مرتبہ پھر امریکہ کی طرف ہوگیا۔ پہلے سینٹ کام کے کمانڈر نے ایک عرصہ بعد ہماری سول وعسکری قیادت کو اپنی ملاقاتوں کا شرف بخشا۔ پھر سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے یو ایس ایڈ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب امارات سے۲۲ لاکھ ڈالر مالیت کی ترسیلات پاکستان پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔یہ ایک الگ داستان ہے کہ یو ایس ایڈ جیسے ادارے امریکہ کی سامراجی پالیسی کو دنیا بھر میں کس طرح نافذ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکی فوج کی ایک بڑی شاخ یعنی سینٹ کام کو پاکستان کے عسکری دل یعنی نور خان ائیربیس چکلالہ میں رسائی کیوں دی جائے؟ کیا یو ایس ایڈ کی امداد سویلین طیاروں اور دیگر غیر عسکری ذرائع سے پاکستان نہیں پہنچائی جا سکتی؟ قطر نے بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ایئر برج قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور اس مقصد کے لیے قطر ایئر ویز کی خصوصی پروازوں کا استعمال کیا جائے گا۔ پھر یہ کہ آخر امریکہ کے دل میں پاکستان کے لیے آخر کون سی ایسی محبت جاگ اُٹھی کہ اچانک اُس نے ہمیں ایف سولہ طیاروں کی 'سروس اوردیکھ بھال کے لیے۴۵ کروڑ ڈالر کی منظوری بھی دے دی اور اس اعلان کے تقریباً ایک ہفتہ بعد تک بھارت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ آیا۔ پھر جب اعتراض کیا بھی گیا تو بھارت نے ڈونلڈلو جو ایک خاص امریکی سفارت کار اور ڈیپ سٹیٹ کا نمائندہ ہے‘ کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ کیا پاکستان کو کوئی پیغام دیا جا رہا ہے؟ امریکہ کے وزارت دفاع کے ترجمان کا یہ بیان کیا معنی رکھتا ہے کہ پاکستان کوایف سولہ طیاروں کے لیے رقم اس لیے دی جا رہی ہے کہ تمام دہشت گردوں کے خلاف مکمل اور فوری کارروائی کی جائے۔
عربوں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ایک بدو نے صحرا میں خیمہ لگایا اور اونٹ کو باہر ہی کھڑا کرکے سوگیا۔ رات کواونٹ نے سردی کا بہانہ بنا کر پہلے اپنی گردن اور پھر اگلے پاؤں اندر کرنے کی اجازت چاہی جو بدو نے دے دی اور وہ بدو کو بہت مہنگی پڑی۔ اب امریکہ اپنی اگلی ٹانگیں اور دھڑ ہمارے خیمے میں داخل کرنے کے لیے بہانے بنا رہا ہے۔ ہم نے بھی امداد یا اقتدار کے لالچ میں اُسے یہ اجازت دے دی تو یہ ہمیں بھی اپنی سلامتی کے حوالے سے بڑی مہنگی پڑے گی۔ اب تو مخصوص لوگوں اور دانشوروں کو بھی رجیم چینج کا اصل مقصد سمجھ میں آگیا ہوگا۔ یاد رہے اس جکڑ بندی سے مستقبل میں آسانی سے نکلا نہیں جا سکے گا۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین یا ربّ العالمین!