(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ التَّحْرِیْم - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

دورۂ ترجمۂ قرآن  سُوْرَۃُ التَّحْرِیْمڈاکٹر اسرار احمد

تمہیدی کلمات

جیسا کہ قبل ازیں سورۃ الطلاق کے تمہیدی کلمات میں بھی ذکر ہو چکا ہے ‘سورۃ الطلاق میں میاں بیوی کے اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ سورۃ التحریم کے آغاز میں عائلی زندگی کے دوسرے رخ کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یعنی شوہر اپنی بیوی کی محبّت یا اس کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو شریعت میں جائز نہ ہو یا بیوی کی دلجوئی کے لیے کوئی ایسا کام نہ کرنے کی قسم کھا لے جو کہ شریعت کے مطابق جائز ہو۔ اگرچہ یہ مضمون یہاں پر حضورﷺ کی ذات کے حوالے سے بیان ہوا ہے لیکن اصل مقصد اس سے اُمّت کی تعلیم ہے۔ ظاہر ہے حضورﷺ کے لیے تو یہ قطعاً ممکن نہیں تھا کہ آپؐ اپنی کسی بیوی کی دلجوئی کے لیے کوئی خلافِ شریعت عمل کرتے۔ البتہ آپؐ کی سیرت میں دو تین واقعات ایسے ملتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی بیویوں کی دلجوئی کے لیے کوئی ایسی چیز نہ کھانے کی قسم کھائی تھی جو کہ آپؐ کے لیے حلال تھی۔ سورت کی ابتدائی آیات میں یہی موضوع زیربحث آیا ہے۔
آیات ۱ تا۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱)قَدْ فَرَضَ اللہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ ۚ وَاللہُ مَوْلٰىکُمْ ۚ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (۲)وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْھَرَہُ اللہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَکَ ھٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ (۳)اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا ۚ وَاِنْ تَظٰھَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللہَ ھُوَ مَوْلٰىہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ وَالْمَلٰئِۗکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ (۴)عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا (۵)

آیت ۱{یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ ج}’’اے نبی (ﷺ!) آپ کیوں حرام ٹھہرا رہے ہیں (اپنے اوپر) وہ شے جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے؟‘‘
{تَـبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط} ’’آپؐ چاہتے ہیں اپنی بیویوں کی رضا جوئی!‘‘
{وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱)}’’اور اللہ بہت معاف کرنے والا‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی اللہ کو یہ بات پسند نہیں آئی ‘لیکن اُس نے معاف فرما دیا ہے ۔
آیت۲ {قَدْ فَرَضَ اللہُ لَــکُمْ تَحِلَّۃَ اَیـْمَانِکُمْ ج }’’اللہ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کو کھولنے کا طریقہ مقرر کردیاہے۔‘‘
یعنی کفّارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ سورۃ المائدۃ کی اس آیت میں بتایاگیا ہے :
{لَا یُـؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّـغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّـؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّـمُ الْاَیْمَانَ ج فَـکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍ ط فَمَنْ لَّـمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَـکُمْ ط کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۸۹)}
’’اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرے گا تم سے تمہاری ان قسموں میں جو لغو ہوتی ہیں لیکن وہ(ضرور) مؤاخذہ کرے گا تم سے ان قسموں پر جن کو تم نے پختہ کیا ہے‘ سواس کا کفّارہ ہے کھانا کھلانا دس مساکین کو‘ اوسط درجے کا کھانا جیسا تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ‘یا ان کو کپڑے پہنانا ‘یاکسی غلام کو آزاد کرنا۔ پھر جو کوئی اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ کفّارہ ہے تمہاری قسموں کا جب تم قسم کھا (کرتوڑ)بیٹھو۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کو واضح فرما رہا ہے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
گویا آپ اپنی یہ قسم توڑ دیجیے اور اس ضمن میں کفّارہ ادا کیجیے۔ بعض مترجمین نے یہاں ’’قَدْ فَرَضَ‘‘ کا ترجمہ ’’فرض کر دیا ہے‘‘ بھی کیا ہے اور اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ خلافِ شرع قسم کا توڑنا فرض ہے۔
{وَاللہُ مَوْلٰىکُمْ ج وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ(۲)}’’اور اللہ تمہارا مددگار ہے ‘اور وہ سب کچھ جاننے والا‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘
آیت ۳{وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًاج} ’’اور جب نبی (ﷺ) نے رازداری سے اپنی کسی زوجہ کو ایک بات بتائی۔‘‘
یہاں اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں کہ حضورﷺ نے اپنی کسی زوجہ محترمہؓ کو راز کی کون سی بات بتائی تھی یا آپؐ نے کن حالات میں کس چیز کو استعمال نہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔ تفاسیر میں ان آیات سے متعلق واقعات بڑی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے کسی بھی تفسیر سے استفادہ کیاجا سکتا ہے۔ بہرحال یہاں جو اصل بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہ ؓکو ایک بات بتائی اور فرمایا کہ یہ میرا راز ہے کسی اور سے اس کا ذکرنہ کرنا۔
{فَلَمَّا نَبــَّــاَتْ بِہٖ} ’’تو جب اُس نے اس کو ظاہر کر دیا‘‘
عورتوں کے بارے میں عام طو ر پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ راز چھپانے کے حوالے سے طبعی طور پر کمزورہوتی ہیں‘ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ کمزوری بہت سےمَردوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بہرحال ’’نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کمزوری انسان میں طبعی طور پر پائی جاتی ہے اور اسی بنا پر اس کا صدور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہنسے بھی ہوا۔ چنانچہ جس زوجہ محترمہؓ کو وہ بات بتائی گئی تھی انہوں ؓنے اس کا اظہار آپؐ کی کسی دوسری زوجہ محترمہؓ سے کر دیا۔
{وَاَظْھَرَہُ اللہُ عَلَیْہِ} ’’اور اللہ نے اس بارے میں اُنؐ کو مطلع کر دیا‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو آگاہ کر دیا کہ آپؐ کا وہ راز اب راز نہیں رہا۔
{عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْ  بَعْضٍ ج } ’’تو نبی (ﷺ) نے اس پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے چشم پوشی کی۔‘‘
یعنی حضورﷺ نے اس بات کا جزوی انداز سے ذکر فرما کر اپنی زوجہ محترمہ ؓکو اشارتاً بتا دیا کہ مجھے اس راز کے افشا ہونے کا علم ہو چکا ہے۔
{فَلَمَّا نَـبَّــاَھَا بِہٖ} ’’توجب آپؐ نے اسے یہ خبر دی‘‘
{قَالَتْ مَنْ اَنْبَـاَکَ ھٰذَاط} ’’اُس نے کہا کہ آپؐ کو یہ کس نے بتایا؟‘‘
عام میاں بیوی کے درمیان تو ایسے مکالمے میں کوئی حرج نہیں ‘لیکن یہاں معاملہ اللہ کے رسولﷺ کا تھا۔ اس حوالے سے سورۃ الحجرات میں یہ تنبیہہ ہم پڑھ چکے ہیں : {وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہِ ط} (آیت۷) ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔ یعنی آپﷺ کے ساتھ تم لوگ دنیوی تعلقات اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر معاملہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس معاملے میں محتاط طرزِعمل تو یہی تھا کہ فوراً معذرت کر لی جاتی کہ حضورﷺ مجھ سے واقعتاً غلطی ہو گئی‘ بس بے دھیانی میں بات میرے منہ سے نکل گئی …
{قَالَ نَبَّـاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ(۳)}’’آپؐ نے کہا: مجھے اُس نے بتایا ہے جو العلیم اور الخبیر ہے۔‘‘
مجھے اس اللہ نے بتایا ہے جو سب کچھ جاننے والا ہے اور ہر چیزسے باخبر ہے۔ اس جواب کے اسلوب اور انداز میں حضورﷺ کے اظہارِ ناراضی کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔
آیت۴{اِنْ تَـتُوْبَآ اِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَاج } ’’اگر تم دونوں اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو (یہی تمہارے لیے بہتر ہے‘ کیونکہ) تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تعبیر میں اہل تشیع کا نقطہ نظر یقیناً انتہا پسندانہ ہے‘ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ ہمارے بعض مترجمین اور مفسرین نے بھی انہی کی روش اختیار کی ہے۔ البتہ مولانا حمید الدین فراہیؒ نے عربی اسلوب کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اس آیت کی جو وضاحت کی ہے میری رائے میں وہ بہت جامع اور بالکل درست ہے۔ اس حوالے سے میں ذاتی طور پر خودکو مولانا صاحب کا احسان مند مانتا ہوں کہ ان کی اس تحریر کی بدولت مجھے قرآن کے اس مقام کا درست فہم اور شعور نصیب ہوا۔
اہل تشیع کے ہاں{فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا} کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو چکے ہیں۔ دراصل صَغَتْ ایسا لفظ ہے جس میں منفی اور مثبت دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔جیسے مَالَ اِلٰی کے معنی ہیں کسی کی طرف میلان یا توجّہ ہونا جبکہ مَالَ عَنْ کے معنی ہیں کسی سے نفرت ہو جانا۔ اسی طرح لفظ رَغِبَ اِلٰی راغب ہونا ‘ محبّت کرنا اور رَغِبَ عَنْ ناپسند کرنا کے معنی دیتا ہے۔ صَغٰی کا معنی ہے جھک جانا‘ مائل ہوجانا۔ جب ستارے ڈوبنے لگتے ہیں تو عرب کہتے ہیں: صَغَتِ النُّجُوم ۔ چنانچہ یہاں اس لفظ کا درست مفہوم مائل ہو جانا ہی ہے کہ اب تمہارے دل میں تو یہ بات آ ہی چکی ہے اور تمہارے دل تو خطا کو تسلیم کر ہی چکے ہیں‘ بس اب تم زبان سے بھی اس کا اعتراف کر لو۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خطا کا احساس ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اعتراف اور توبہ کے الفاظ بھی سکھا دیے : {فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَـیْہِ ط}(البقرۃ:۳۷) اور آپؑ نے سکھائے ہوئے طریقے سے توبہ کر لی۔
اس بارے میں عام رائے یہ ہے کہ مذکورہ بات حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتائی تھی۔ چونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دربارِ رسالت میں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل تھا اسی نسبت سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں ممتاز تھیں۔
{وَاِنْ تَظٰھَرَا عَلَیْہِ} ’’اور اگر تم دونوں نے ان کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا ہے‘‘
یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ قرآن مجید کے ایسے مقامات کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر یہ اصول ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ ‘ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ۔ اور یہ بھی کہ جن کے مراتب جتنے بلند ہوں ان کا ہلکا سا سہو بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل ِ گرفت ہو جاتا ہے۔ جیسے عربی کا مقولہ ہے : حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن یعنی عام لوگوں کے لیے جو کام بڑی نیکی کاسمجھا جائے گا ہو سکتا ہے کہ وہی کام اللہ تعالیٰ کے مقربین اولیاء اور محبوب بندوں کے لیے تقصیر قرار پائے اور ان کے مرتبہ کے اعتبار سے قابل ِگرفت شمار ہوجائے۔اسی قاعدہ اور اصول کے تحت یہاں یہ سخت الفاظ آئے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمارے رسولﷺ کے خلاف کوئی متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو سن لو:
{فَاِنَّ اللہَ ھُوَ مَوْلٰـىہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ج   وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ(۴)} ’’اُنؐ کا پشت پناہ تو خود اللہ ہے اور جبریل اور تمام صالح مؤمنین ‘اور مزید برآں تمام فرشتے بھی اُنؐ کے مددگار ہیں۔‘‘
لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ تم لوگ ہمارے رسولؐ کے ساتھ جو بھی معاملہ کرو اُن کے مقام و مرتبے کی مناسبت سے کیا کرو۔ تمہارا میاں بیوی کا رشتہ اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور تم سب لوگ اُمتی ہو۔ تمہارا اُن ؐکے ساتھ بنیادی تعلق یہی ہے۔ اس تعلق کے مقابلے میں تمہارے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کے بعد آگے مزید سخت الفاظ آ رہے ہیں:
آیت ۵{عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ} ’’بعید نہیں کہ اگر وہ تم سب کو طلاق دے دیں تو ان کا رب انہیں تم سے کہیں بہتر بیویاں عطا کردے‘‘
{مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا(۵)} ’’اطاعت شعار‘ ایمان والیاں‘ فرمانبردار‘ توبہ کرنے والیاں‘ عبادت گزار ‘ لذاتِ دنیوی سے بیگانہ‘ شوہر دیدہ بھی اور کنواری بھی۔ ‘‘
ان الفاظ میں ازواجِ مطہراتؓ کی سیرت و کردار کی ایک جھلک بھی سامنے آتی ہے کہ تمہارے اندرجو یہ اوصاف ہیں کہ تم اطاعت شعار ہو‘ ایمان والیاں ہو‘ فرماں بردار ہو‘ توبہ کرنے والیاں ہو‘ زُہد و قناعت کرنے والیاں ہو‘ ان پر تمہیں ناز اں نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان اوصاف کی حامل تم سے بہتر خواتین اپنے نبی مکرمﷺ کے لیے ازواج کے طور پر فراہم کر سکتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لائق ِتوجّہ ہے کہ مذکورہ اوصاف کے درمیان ’’و‘‘ بطور حرفِ عطف نہیں آیا‘ سوائے ایک ’’و‘‘ کے جو کہ آخر میں آیا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی اسلوب ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین ایسی شخصیات ہوں گی جن میں یہ تمام اوصاف بیک وقت موجود ہوں گے۔ سوائے آخری دواوصاف کے کہ وہ دونوںاوصاف ایک شخصیت میں بیک وقت اکٹھے نہیں ہو سکتے‘ اس لیے ان کے درمیان میں ’’و‘‘ عطف آ گئی ہے ----ثَیِّبٰتٍ سے مراد ایسی عورتیں ہیں جنہیں نکاح کے بعد طلاق ہو گئی ہو یا وہ بیوہ ہو گئی ہوں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باقی تمام ازواجِ مطہرات ؓ ثَیِّبٰت ہی کی حیثیت سے حضورﷺ کے نکاح میں آئیں۔
ان ابتدائی پانچ آیات کا تعلق عائلی زندگی سے ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان روز مرہ زندگی کے معاملات کو حدّ ِ اعتدال میں رہنا چاہیے ۔ ایک دوسرے کے حقوق کاخیال بھی رکھا جائے اور دوسرے کے حوالے سے اپنے فرائض کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے‘لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تمام معاملات پر فوقیت دی جائے۔ اگر میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہو جائیں اور اصلاح کی کوئی صورت نہ رہے تو قواعد و ضوابط کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے شرافت کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لی جائے ۔ لیکن اگر گھر کے ماحول میں محبّت و یگانگت کا رنگ غالب ہو تو بھی محتاط رہا جائے کہ کہیں بے جامحبّت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود نہ ٹوٹنے پائیں اور ایسا نہ ہو کہ بیوی بچوں کی محبّت انسان کو غلط راستے پر لے جائے۔
اس کے بعد کی تین آیات کا تعلق خصوصی طور پر مَردوں سے ہے اور یہ دراصل سورۃ الحدید ہی کے مضمون کا تسلسل ہے جو یہاں اس گروپ کی آخری سورت کے اختتام پر آگیا ہے ۔
آیات ۶ تا ۸

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰئِۗکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (۶)یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ۭ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ہۧ۷ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ۭ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۚ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِھِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۸)

آیت ۶{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} ’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
اس سے پہلے سورۃ التغابن میں اہل ِایمان کو اُن کے اہل و عیال کے بارے میں اس طرح متنبہ کیا گیا ہے : {یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ج}(آیت ۱۴) ’’اے ایمان کے دعوے دارو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں تمہارے دشمن ہیں ‘پس ان سے بچ کر رہو‘‘۔سورۃ التغابن کے اس حکم کے تحت اہل ِایمان کو منفی انداز میں متنبہ کیا گیا ہے ‘جبکہ آیت زیر مطالعہ میں انہیں ان کے اہل و عیال کے بارے میں مثبت طور پر خبردار کیاجا رہا ہے کہ بحیثیت شوہر اپنی بیویوں کو اور بحیثیت باپ اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈالنا تمہاری ذِمّہ داری ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کے حوالے سے تمہاری ذِمّہ داری صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی حد تک ہے‘بلکہ ایک مؤمن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالے سے تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ تم انہیں جہنّم کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔اس کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرو جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ ‘اللہ کا تقویٰ اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی جہنّم کی اس آگ سے بچ جائیں:
{وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ} ’’جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر‘‘
{عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ} ’’اس پر بڑے تندخُو‘ بہت سخت دل فرشتے مامور ہیں‘‘
وہ فرشتے مجرموں کو جہنّم میں جلتا دیکھ کر ان پر رحم نہیں کھائیں گے ‘اور نہ ہی وہ ان کے نالہ و شیون سے متأثر ہوں گے۔ تو کیا ہم ناز و نعم میں پالے ہوئے اپنے لاڈلوں کو جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے ان سخت دل فرشتوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں؟ بہرحال ہم میں سے ہر ایک کو اس زاویے سے اپنی ترجیحات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے اہل و عیال کو جنّت کی طرف لے جا رہے ہیں یا جہنّم کا راستہ دکھا رہے ہیں؟ اپنے بہترین وسائل خرچ کر کے اپنی اولاد کو ہم جو تعلیم دلوا رہے ہیں کیا وہ ان کو دین کی طرف راغب کرنے والی ہے یاان کے دلوں میں دین سے بغاوت کے بیج بونے والی ہے؟ اگر تو ہم اپنے اہل و عیال کو اچھے مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہے اور ان کے لیے ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کر رہے جو انہیں دین کی طرف راغب کرنے اور فکر ِآخرت سے آشنا کرنے کا باعث بنے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم محبّت کے نام پر ان سے عداوت کر رہے ہیں۔
{لَّا یَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ } ’’اللہ ان کو جو حکم دے گا وہ فرشتے اس کی نافرمانی نہیں کریں گے‘‘
اللہ تعالیٰ جس کو جیسا عذاب دینے کا حکم دے گا وہ فرشتے اسے ویسا ہی عذاب دیں گے۔ کسی کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔
{وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶)} ’’اور وہ وہی کریں گے جس کا انہیں حکم دیا جائے گا۔‘‘
آیت ۷{یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ط} ’’(اُس دن کہہ دیا جائے گا:) اے کافرو! آج تم عذر مت پیش کرو۔‘‘
آج تم معذرتیں نہ تراشو‘ بہانے مت بنائو!
{اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۷)} ’’آج تمہیں بدلے میں وہی کچھ دیا جا رہا ہے جو تم عمل کرکے لائے ہو۔‘‘
آیت ۸{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط} ’’اے اہل ِایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔‘‘
یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے زیر مطالعہ سورتوں کے گروپ میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں پُل صراط کے اس ماحول کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے جس کی تفصیل سورۃ الحدید میں آئی ہے۔اس آیت کے ابتدائی حصّے میں اہل ِایمان کو توبہ سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے اس حکم میں بہت جامعیت ہے۔ اس سے مراد صرف کسی ایک برے عمل کی توبہ نہیں کہ کوئی شخص شراب نوشی سے توبہ کر لے یا کوئی رشوت خوری سے باز آجائے‘بلکہ اس سے مراد غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ ہے ۔بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ زندگی کا رخ بدلنے کا حکم ہے‘ کہ اے ایمان کے دعوے دارو! ذرااپنی زندگی کے شب و روز پر غور تو کرو کہ تمہارا رخ کس طرف ہے؟تمہاری زندگی کے سفر کی منزل کیا ہے؟ تم محمد رسول اللہﷺ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہو یا کسی اور کی پیروی کر رہے ہو؟ {فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ (۲۶)} (التکویر) ----- تو اے اللہ کے بندو!اپنی زندگی کے شب و روز اور معمولات کاجائزہ لو‘ اپنی دوڑ دھوپ اور اپنی ترجیحات پر غور کرو۔پھر اگر تم محسوس کرو کہ تم غلط رخ پر جا رہے ہو تو اپنے بڑھتے ہوئے قدم فوراً روک لو{فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ ط} (الذاریات:۵۰) اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب کی طرف پلٹ آئو ! تمہارے پلٹنے کے لیے اللہ کی رحمت کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔چنانچہ ابھی موقع ہے کہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو ‘ زندگی کے جو ماہ و سال غفلت کی نذر ہو گئے ہیں ان پر اشک ندامت بہائو ‘ صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے معافی مانگو اور غلط روش کو ترک کرنے کے بعد زندگی کا سفر از سر ِنو شروع کرو۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ سفر ِزندگی کی سمت درست کرنے کے لیے فرائض ِدینی کا درست فہم اور ادراک بھی ضروری ہے۔ظاہر ہے دین صرف نمازیں پڑھنے اور رمضان کے روزے رکھنے ہی کا نام نہیں‘ بلکہ ایک بندئہ مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشرت اور معیشت کو بھی ’’مسلمان‘‘ کرے۔ پھر یہ کہ جو ہدایت اسے نصیب ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور کسی جماعت میں شامل ہو کر دین کے سب سے اہم فرض کی ادائیگی یعنی باطل نظام کے خاتمے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت کے قیام کی جدّوجُہد میں سرگرمِ عمل ہوجائے۔ اس کے لیے انقلابِ نبویؐ کے منہج کو سمجھنا اور اس منہج کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ آج ہماری جدّوجُہد میں حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محنت اور کوشش کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہو سکتی کہ ع ’’وہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا!‘‘ لیکن ہمیں آپؐ کے منہج پر چلنے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں سہی آپؐ کی تحریک کے ساتھ اپنی جدّوجُہد کی کچھ نہ کچھ مماثلت اور مشابہت تو پیدا کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک دعوت پہنچانے کا اہتمام‘ دعوت پر لبیک کہنے والوں کی تنظیم و تربیت کا انتظام‘ صبر و مصابرت کی حکمت عملی‘جیسے ضروری مراحل ہمیں اسی طریقے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس طریقے سے خود حضورﷺ نے یہ مراحل طے فرمائے تھے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری کتاب ’’منہج ِ انقلابِ نبویؐ‘‘ اور اسی عنوان سے تقاریر کی ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
{عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ} ’’امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری بُرائیوں کو دور کردے گا‘‘
تمہارے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال سے تمام دھبے دھو ڈالے گااور تمہارے دامن ِکردار کے تمام داغ صاف کر دے گا۔ حضورﷺ کا ارشادہے: ((اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَـہٗ))(۱) کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہو جاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو۔
{وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُلا}’’اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘‘
{یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج}’’جس دن اللہ اپنے نبی (ﷺ) کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔‘‘
{نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ} ’’(اُس دن) ان کانُور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف‘‘
یہ مضمون اس سے پہلے انہی الفاظ میں سورۃ الحدید کی آیت ۱۲ میں بھی آ چکا ہے۔نُورِ ایمان ان کے سامنے ہو گا جبکہ اعمالِ صالحہ کا نُور داہنی طرف ہو گا۔
{یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا}’’وہ کہتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے نُور کو کامل کر دے‘‘
{وَاغْفِرْلَنَاج  اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(۸)}’’اور تُو ہمیں بخش دے‘ یقیناً تُو ہر شے پر قادر ہے۔‘‘
ہر بندئہ مؤمن کا نُور اس کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہو گا۔ حضرت قتادہؒ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’کسی کا نُور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہو گا اور کسی کا نُور مدینہ سے صنعاء تک‘ اور کسی کا اس سے کم‘ یہاں تک کہ کوئی مؤمن ایسابھی ہوگا جس کا نُور اُس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔‘‘ (ابن جریر) (۲)
حضورﷺ کے اس فرمان کے مطابق تصوّر کریں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے نُور کا کیا عالم ہو گا۔ بہرحال ہم جیسے مسلمانوںکو اُس دن اگر ٹارچ کی روشنی جیسا نُور بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہاں توجّہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں کا نُور کم کیوں ہو گا۔ یقیناً وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ایمان میں کسی پہلو سے کوئی کمزوری رہ گئی ہو گی اور اعمال میں کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں گی۔ یقیناً انہوں نے اپنی استعداد کو‘ اپنے مال کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بچا بچا کر رکھا ہو گا اور اللہ کے راستے میں انہیں اس حد تک خرچ نہیں کیا ہو گا جس حد تک خرچ کرنے کے وہ مکلّف تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیں حرزِجاں بنا لینی چاہیے : ؎
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں!
بہرحال پُل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر جن اہل ِایمان کا نُور کم ہو گا وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ !تُو اپنے فضل اور اپنی شانِ غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے اور ہمارے نُور کو بھی مکمل فرمادے۔
آیت ۹

یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ ۭ وَمَاْوٰىھُمْ جَھَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (۹)

آیت ۹{یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط}’’اے نبی(ﷺ!) جہاد کیجیے کافروں سے بھی اور منافقوں سے بھی اور ان پر سختی کیجیے۔‘‘
یہ آیت جوں کی توں سورۃ التوبہ میں (آیت ۷۳کے طور پر) بھی آ چکی ہے۔ منافقین چونکہ بظاہر کلمہ گو اور قانونی لحاظ سے مسلمان تھے ‘اس لیے حضورﷺ ان سے مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ حضورﷺ اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے ان کی بہت سی شرارتوں کو نظرانداز بھی فرماتے رہتے تھے۔ چنانچہ اپنی مسلسل سازشوں پر جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ حضورﷺ کے بارے میں گستاخانہ جملے بھی کستے رہتے تھے ۔مثلاً کہتے: {ھُوَ اُذنٌ} (التوبۃ:۶۱) کہ آپؐ تو نرے کان ہیں۔ ہر بات سن لیتے ہیں‘ سمجھتے کچھ بھی نہیں(معاذ اللہ!)۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں حضورﷺ کو ان لوگوں پر سختی کرنے کا کہا جا رہا ہے ۔
{وَمَاْوٰىہُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۹)}’’ان کاٹھکانہ جہنّم ہے ‘اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
آیات ۱۰ تا ۱۲

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ (۱۰)وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ۘ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (۱۱) وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ(۱۲)

ان آیات میں عورتوں کا معاملہ ایک اور پہلو سے زیربحث آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں سورتوں (الطلاق اور التحریم) کی ایک مشترک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان دونوںمیں عورتوں کے معاملات بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ اب عورتوں پر واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ خودکو اپنے شوہروں کے تابع سمجھتے ہوئے آخرت کے حساب سے نچنت نہ ہو جائیں۔ اسلام میں عورت اور مرد کادرجہ انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہے۔ لہٰذا عورتیں اپنے دین و ایمان اور اعمال و فرائض کی خود ذِمّہ دار ہیں۔ اگر ان کا ایمان درست ہو گااور اعمالِ صالحہ کا پلڑا بھاری ہو گا تبھی نجات کی کوئی صورت بنے گی۔ ان کے شوہر خواہ اللہ کے کتنے ہی برگزیدہ بندے کیوں نہ ہوں اس معاملے میں وہ ان کے کچھ کام نہیں آ سکیں گے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان آیات میں چار خواتین کی مثالیں دی گئی ہیں:
آیت ۱۰{ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط}’’اللہ نے مثال بیان کی ہے کافروں کے لیے نوح ؑکی بیوی اور لوط ؑکی بیوی کی۔‘‘
{کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ} ’’وہ دونوں ہمارے دو بہت صالح بندوں کے عقد میں تھیں‘‘
{فَخَانَتٰــھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْھُمَا مِنَ اللہِ شَیْئًا} ’’تو انہوں نے ان سے خیانت کی ‘ تو وہ دونوں اللہ کے مقابل میںان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے‘‘
وہ جلیل القدر پیغمبر علیہما السلام اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہ تو دنیا میں بچاسکے اور نہ ہی آخرت میں بچا سکیں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی سیلاب میں غرق ہو گئی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ پتھرائو کے عذاب سے ہلاک ہوئی۔ واضح رہے کہ یہاں جس خیانت کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد کردار کی خیانت نہیں ہے ‘اس لیے کہ کسی نبی ؑکی بیوی کبھی بدچلن اور بدکار نہیں رہی ہے۔ ان کی خیانت اور بے وفائی دراصل دین کے معاملے میں تھی کہ وہ دونوں اپنے شوہروں کی جاسوسی کرتی تھیں اور ان کے راز اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچاتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کی عصمت اُس کے شوہر کی عزّت و ناموس ہے جس کی حفاظت کرنا شوہر کی طرف سے اس پر فرض ہے ‘لیکن اس کے علاوہ ایک بیوی اپنے شوہر کے رازوں اور اس کے مال وغیرہ کی محافظ بھی ہوتی ہے۔ سورۃ النساء کی آیت ۳۴ میں نیک اور مثالی بیویوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں ایک صفت حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بھی ہے ۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے گھر باراور حقوق کی محافظ ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے اس حفاظت میں شوہر کی عزّت و ناموس کے ساتھ ساتھ اس کے مال اور اس کے رازوں وغیرہ کی حفاظت بھی شامل ہے۔ چنانچہ یہاں خیانت سے صرف عزّت و ناموس ہی کی خیانت مراد لینا درست نہیں۔
{وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ(۱۰)} ’’اور (آخرت میں) کہہ دیا جائے گا کہ تم دونوں داخل ہوجائو آگ میں دوسرے سب داخل ہونے والوں کے ساتھ۔‘‘
ان دو عبرت انگیز مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ اولواالعزم پیغمبر ؑجنہوں نے ساڑھے نو سو سال اللہ تعالیٰ کے پیغام کی دعوت میں صَرف کیے وہ اگر اپنی بیوی کو بُرے انجام سے نہیں بچا سکے تو اور کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی عزیز رشتے دار کی سفارش کر سکے گا؟ نبی اکرمﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز میں قبیلہ قریش بالخصوص اپنے قریبی اعزّہ و اقارب کو جمع کر کے فرمایا تھا :
((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! اشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ اللہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا، یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللہِ شَیْئًا، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللہِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللہِ! سَلِیْنِیْ بِمَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا))(۳)
’’اے قریش کے لوگو! اپنے آپ کو اللہ (کی گرفت) سے بچانے کی کوشش کرو‘ مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنی عبدالمطلب!مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہار ے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا۔اے عباس بن عبدالمطلب! مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آ سکوں گا۔ اے صفیہ ‘ اللہ کے رسول کی پھوپھی! مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آ سکوں گا۔ اے فاطمہ‘ اللہ کے رسولؐ کی بیٹی! تم مجھ سے (میرے مال میں سے) جو چاہو طلب کر لو‘ لیکن مَیں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام نہ آ سکوں گا۔‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
((یَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ‘ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا))(۴)
’’اے محمد(ﷺ) کی لخت ِجگر فاطمہؓ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو‘ کیونکہ مجھے تمہارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں ہو گا۔‘‘
آیت۱ ۱{وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ م }’’اور اہل ِا یمان (خواتین) کے لیے اللہ نے مثال بیان کی ہے فرعون کی بیوی کی۔‘‘
اُن کا نام حضرت آسیہ ؓ(بنت مزاحم)بیان کیاجاتا ہے۔ دریائے نیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صندوق ان ہی نے نکالا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ کی پرورش کا اہتمام کیا تھا۔ بعد میں وہ مسلمان ہو گئی تھیں اور ہمیشہ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف داری کیا کرتی تھیں۔ جب فرعون کو پتا چل گیا کہ آسیہ اُسے خدا نہیں مانتی اور موسیٰؑ پر ایمان لا چکی ہے تو اُس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
{اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ} ’’جب اُس نے کہا :اے میرے پروردگار! تُومیرے لیے بنا دے اپنے پاس ایک گھر جنّت میں‘‘
{وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ}’’اور مجھے نجات دے دے فرعون سے بھی اور اس کے عمل سے بھی‘‘
{وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۱۱)}’’اور مجھے اس ظالم قوم سے (جلد از جلد) چھٹکارا دلا دے۔‘‘
حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس دعا سے ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مطلق العنان فرمانروا کی بیوی تھیں۔ اس حیثیت سے انہیں عزّت ‘ دولت ‘ شہرت اور محلات میں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ لیکن ان کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے ان کی محبّت کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے کافرانہ اعمال سے بیزارہو کر موت کی آرزو مند تھیں۔
ان دو مثالوں میں دو انتہائوں کی تصویر دکھا دی گئی ہے ۔یعنی ایک طرف بہترین شوہروں کے ہاں بدترین انجام والی بیویاں ہیں اور دوسری طرف ایک بدترین مرد کے گھر میں بہترین سیرت و کردار کی حامل بیوی ہے۔ ظاہر ہے حضرت آسیہؓ قیامت کے دن حضرت مریم‘ حضرت خدیجہ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن جیسی عظیم مراتب کی حامل خواتین میں شامل ہوںگی۔
آیت ۱۲{وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا}’’اور عمران کی بیٹی مریمؑ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی‘‘
یہ تیسری مثال ایسی خاتون کی ہے جو خود بھی نیک تھیں اور ان کی تربیت بھی انتہائی پاکیزہ ماحول میں ہوئی: {وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا}(آل عمران:۳۷) ۔ یعنی انہوں نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت زکریا علیہ السلام کی آغوشِ محبّت میں پرورش پائی اور یوں ان کی سیرت نُورٌ علیٰ نُور کی مثال بن گئی۔
{فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا}’’تو ہم نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا‘‘
{وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ}’’اور اُس نے تصدیق کی اپنے رب کی تمام باتوں کی اور اُس کی کتابوں کی‘‘
حضرت مریم سلامٌ علیہا کو وحی کے ذریعے فرشتے جو کچھ بتاتے رہے انہوں نے وہ سب باتیں دل و جان سے تسلیم کیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے تمہیں دنیا بھر کی عورتوں میں سے چُن لیا ہے اور یہ کہ اللہ کے حکم سے تمہارے ہاں بیٹاہوگا۔ اسی طرح حضرت مریم نے زبور‘ تورات اور عہد نامہ قدیم سمیت تمام الہامی کتب اور صحائف کی تصدیق بھی کی۔
{وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ(۱۲)}’’اور وہ بہت ہی فرمانبرداروں میں سے تھیں۔‘‘
ان تین مثالوں کے ذریعے خواتین کے حوالے سے تین ممکنہ صورتیں بیان کی گئی ہیں‘ یعنی بہترین شوہر کے ہاں بدترین بیوی‘ بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی‘ اور بہترین ماحول میں بہترین خاتون۔ چوتھی ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ شوہر بھی بدطینت ہو اور اس کی بیوی بھی بدطینت ہو۔ یعنی میاں بیوی دونوں کا ظاہر و باطن {ظُلُمٰتٌ م بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ ط} (النُّور:۴۰)  کا نقشہ پیش کرتا ہو اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ ان دونوں میں کون زیادہ بدطینت اور بدسرشت ہے۔ اس ممکنہ صورت کی مثال سورۃ اللہب میں ابولہب اور اُس کی بیوی (اُمّ جمیل) کی بیان ہوئی ہے۔
حواشی
۱۔ سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ- صحیح الجامع للالبانی‘ ح:۳۰۰۸۔ راوی: عبداللہ بن مسعود وابوسعید الخدری رضی اللہ عنھما۔ السنن الکبریٰ للبیھقی: ۱۰/۱۵۴۔
۲۔ اس ضمن میں ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:
((… فَمِنْھُمْ مَنْ یُعْطٰی نُوْرَہٗ مِثْلَ الْجَبَلِ الْعَظِیْمِ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ‘ وَمِنْھُمْ مَنْ یُعْطٰی نُوْرَہٗ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ ‘ وَمِنْھُمْ مَنْ یُعْطٰی مِثْلَ النَّخْلَۃِ بِیَدِہٖ‘ وَمِنْھُمْ مَنْ یُعْطٰی اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ‘ حَتّٰی یَکُوْنَ آخِرُھُمْ یُعْطٰی نُوْرَہٗ عَلٰی اِبْھَامِ قَدَمِہٖ یُضِیْءُ مَرَّۃً وَیُطْفِأُ مَرَّۃً…)) [الترغیب والترھیب للمنذری:۲۹۶/۴ ‘راوی : عبداللہ بن مسعودؓ۔ امام البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔]
’’… پس ان میں سے بعض کو اتنا نُور عطا کیا جائے گا جو بہت بڑے پہاڑ کی مانند ہو گا اور وہ ان کے دائیں طرف دوڑتا ہو گا‘ اور کسی کو اس سے کم نُور عطا کیا جائے گا۔ اور ان میں کسی کو اتنا نُور عطا کیا جائے گا گویا اس کے ہاتھ میں کھجور کا درخت ہے اور کسی کو اس سے کم نُور عطا ہو گا۔ حتیٰ کہ ان میں سے سب سے آخری شخص کاحال یہ ہوگا کہ اس کو بس اتنا سا نُور عطا کیا جائے گا جو اس کے پائوں کے انگوٹھے پر ہو گا‘ جو کبھی جلتا اور کبھی بجھتا ہو گا… ‘‘ (حاشیہ از مرتب)
۳۔ صحیح البخاری‘ کتاب الوصایا‘ باب ھل یدخل النساء والولد فی الاقارب‘ ح:۲۷۵۳ و ۴۷۷۱۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب فی قولہ تعالٰی وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ‘ح:۲۰۶ (واللفظ لہ)
۴۔ صحیح مسلم کتاب الایمان‘ باب فی قولہ تعالٰی وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘ ح:۲۰۴۔ وصحیح ابن حبّان‘ ح:۶۴۶ (واللفظ لہ)