(حسن معاشرت) اپنے آپ اور اپنے اہل ِخانہ کو آگ سےبچاؤ! - سعادت محمود

10 /

اپنے آپ اور اپنے اہل ِخانہ کو آگ سےبچاؤ!اخذ و ترتیب: سعادت محمود

گزشتہ مضمون میں قرآن حکیم کے حوالے سے اہل ِ ایمان کے لیے ایک اعزاز کا ذکر تھا کہ اُن کی وہ اولاد جو اپنے عمل کے لحاظ سے اگرچہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو گی جو اُن کے آباء کو اُن کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا‘ پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی۔
انہی آیات میں اس اعزاز کے پانے والوں کی ایک صفت جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ بہت ہی قابلِ توجّہ ہے:
{وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(۲۵) قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ (۲۶)} (الطور)
’’یہ(جنّت میں پہنچ جانے والے) لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم پہلے(دنیا میں) اپنے گھر والوں میں(اللہ سے) ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔‘‘
سورۃ الحا قۃمیں ارشاد فرمایا :
{فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ لا فَیَقُوْلُ ہَآؤُمُ اقْرَءُوْا کِتٰبِیَہْ(۱۹) اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ(۲۰)}
’’اُس وقت جس کا نامہ ٔاعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا‘ وہ کہے گا لو دیکھو! پڑھو میرا اعمال نامہ۔مَیں سمجھتا (یقین رکھتا) تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔‘‘
اس کے برعکس جس کو اُس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں یا پیٹھ پیچھے دیا جائے گا‘ اُس کے بارے میں فرمایا:
{اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا(۱۳) اِنَّـہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ(۱۴) بَلٰٓی ج  اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا(۱۵) } (الانشقاق)
’’وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اُس نے سمجھا تھا کہ اُسے کبھی (اپنے ربّ کی طرف) پلٹنا ہی نہیں ہے۔کیوں نہیں! اُس کا ربّ اُس (کے کرتوتوں )کو دیکھ رہا تھا۔‘‘
ان آیات میں بڑی وضاحت سے دو کردا رسامنے آتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جنہیں اُن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جنّت میں داخل کیے جائیں گے‘ اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں میں مگن ہو کر اللہ سے غافل نہیں ہو جاتے تھے بلکہ اس ماحول میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے اور انہیں یہ احساس رہتا تھا کہ انہیں ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
دوسرے وہ لوگ جنہیں اُن کا نامہ ٔ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنّم میں داخل کیے جائیں گے ‘اُن کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے گھروالوں میں مگن ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے تھے۔ اور انہیں یہ احساس نہیں رہتا تھا کہ اُنہیں ایک دن اپنے ربّ کے پاس حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کو خبردار کیا ہے اور فرمایاہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُــکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹) } (المنفقون)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ اورجو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔‘‘
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّـکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ج وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴)} (التغابن)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘ اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘
احادیث میں اہل ایمان کے لیے ایک اور اعزاز کا ذکر ہے۔ صحیح مُسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طویل روایت ہے‘ جس میں حضورِاَقدسﷺ نے فرمایا :
’’اس کے بعد جہنّم کے اوپر پُل (صراط) رکھا جائے گا۔اور شفاعت شروع ہو گی تو لوگ کہیں گے: اے اللہ! ہمیں بچا‘ اے اللہ! ہمیں بچا۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ یہ پُل کیسا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا :یہ ایک پھسلنےکا مقام ہو گا۔ وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے ملک ِنجد میں ایک کانٹا ہوتا ہے جس کو سعدان (ٹیڑھے منہ والا)کہتے ہیں۔اہلِ ایمان اُس پر سے پار ہوں گے۔بعض پلک جھپکنے میں‘ بعض بجلی کی طرح‘ بعض پرندے کی طرح‘ بعض تیز گھوڑوں کی طرح اور بعض اُونٹ کی طرح۔کچھ لوگ پُل (صراط) سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو خراشیں آئیں گی لیکن وہ بھی پار ہو جائیں گے۔(ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک آدمی پُل صراط کو گھسٹ کر عبور کرے گا) اور کچھ لوگ جہنّم میں گر جائیں گے۔‘‘
تصوّر کریں اُن کی خوشی کا جو پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی پُل صراط سے صحیح سلامت گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! پھر ارشاد فرمایا:
’’اہلِ ایمان جب اپنے آپ کو جہنّم کی آگ سے محفوظ پائیں گے توقسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے‘تم میں سے کوئی بھی اپنے حق کے لیے اتنا جھگڑنے والا نہیں ہے جتنا وہ اپنےاُن بھائیوں کے لیے جو جہنّم میں گر چکے ہوں گے‘اللہ سے جھگڑنے والے ہوں گے۔وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! یہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے‘ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھےاور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ (اللہ ) کہے گا اچھّا جاؤ اور ہر اُس شخص کو نارِ جہنّم سے باہر نکال کے لے آؤ جس کو تم جانتے ہو۔‘‘
کیا آپ اُن لوگوںکی خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں ‘ جنہیں پتہ چلے گا کہ وہ اُن میں سے جو جہنّم میں گر چکے ہیں‘ اپنے جاننے والوں کو نکال سکتے ہیں۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان جھگڑنے والوں میں شامل کر دےاور اپنےاُن جاننے والوں کو جو جہنّم میں گر چکے ہوں گے نکالنے کی توفیق دے۔آمین مزید ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ آگ کو گنہگاروں کے چہروں کو جلانے سے روک دے گا۔ (تاکہ اہل ایمان انہیں پہچان سکیں) اور مؤمنین بہت سے آدمیوں کو جہنّم سے نکال لیں گے۔‘‘
اس کے بعدمزید تفصیل ہے جس کو مذکورہ حدیث میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک بات تو یہ قابلِ غور ہےکہ اہلِ ایمان اتنے نازک موقع پر بھی اپنے جاننے والوں کو یاد رکھیں گے اور اُن کے لیے اللہ سے دُعا کریں گے۔ اوردوسرے اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی دُعا قبول کرتے ہوئے اُنہیں یہ اعزاز بخشے گا کہ وہ جسے جانتے ہوں اُسے جہنّم سے نکال لیں۔
گزشتہ مضمون میں جس خوبصورت منظر کا ذکر آیا تھا وہ تصویر کا ایک رخ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے کلام ِمجید میں اس منظر (تصویر) کے دوسرے رُخ کا بھی ذکر کیاہے۔ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے:
{لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ ج یَوْمَ الْقِیٰمَۃِج یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۳)} (الممتحنۃ)
’’قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں تمہارے کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد۔ اُس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا‘ اور و ہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔‘‘
{وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ط} (فاطر:۱۸)
’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصّہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖز وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْئًاط اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفہ وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ(۳۳) } (لقمٰن)
’’لوگو! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا‘ اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے‘ اور نہ وہ بڑا دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے۔ ‘‘
ان آیات میں تو صرف اتنا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی سخت کیفیت کا ذکر ہے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے:
{فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ(۳۳) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ (۳۴) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ(۳۵) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ(۳۶) لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(۳۷)} (عبس)
’’آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔‘‘
اور پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ نہ صرف ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے بلکہ اپنی نجات کے بدلے ان سب قریبی رشتہ داروں کو فدیہ میں دینے کو تیار ہوں گے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے:
{یَوْمَ تَـکُوْنُ السَّمَآئُ کَالْمُہْلِ(۸) وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ(۹) وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا (۱۰) یُّبَصَّرُوْنَہُمْ ط یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ (۱۱) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ (۱۲) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُــئْوِیْہِ (۱۳) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ(۱۴)} (المعارج)
’’جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اون جیسے ہو جائیں گے۔ اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو‘ اپنی بیوی کو‘ اپنے بھائی کو‘اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے‘ پھر یہ تدبیر اُسے (عذاب سے) نجات دلا دے۔‘‘
اللہ تعالیٰ مجھے‘ آپ کو اور تمام اہل ایمان کو ایسے اعمال کرنے کی توفیق دے کہ ہم اس بُرے انجام سے بچ سکیں۔آمین !
اسی تناظر میں ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں۔ سورۃ الحدید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یَوْمَ یَـقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ ط قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَکُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاط فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ ط بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ(۱۳) یُنَادُوْنَھُمْ اَلَمْ نَـکُنْ مَّعَکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی وَلٰـکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْکُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمْرُ اللّٰہِ وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ(۱۴) فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاط مَاْوٰىکُمُ النَّارُ ۭ ھِیَ مَوْلٰىکُمْ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۵)}

’’اُس روز مُنافق مردوں اور مُنافق عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر اُن سے کہا جائے گا پیچھے پلٹ جاؤ اور اپنا نور کہیں اور تلاش کرو! پھر اُن کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہی رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہی عذاب۔وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم (دنیا میں) تمہارے ساتھ نہ(رہتے) تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں‘ مگر تم نےخود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا‘ موقع پرستی کی‘ شک میں پڑے رہے‘ اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں‘ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا‘ اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نےکھلم کُھلا کفر کیا تھا۔ تمہارا ٹھکانا جہنّم ہے‘ وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے‘اور یہ بدترین انجام ہے۔‘‘
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ التحریم میں ارشاد فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِٓکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ط اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۷)}
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ جس پر نہایت تُند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔(جنہوں نے ایمان لانے کے بعد بھی اپنے آپ کو آگ سے بچانے کا سامان نہیں کیا ہو گا اُن سے کہا جائے گا:) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو‘ تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔‘‘
پھر اہل ایمان کو جو ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘ کہا جارہا ہے :
{یٰٓـاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لا یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۸) یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ ط وَمَاْوٰىھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۹)}
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے حضور توبہ کرو‘ خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمہاری بُرائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنّتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی(ﷺ) کو اور اُن لوگوں جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے ربّ! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما‘ یقیناً تُو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے نبی(ﷺ)! کُفّار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنّم ہے ‘اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ الحدید کی مذکورہ بالا آیات کے بعد والی آیات میں اہلِ ایمان کو جھنجوڑا گیا ہے کہ اگر تم اب تک غفلت میں پڑے رہے ہو تو اب بھی وقت ہے کہ خوابِ غفلت سے جاگواور اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ۔بہت ہی قابلِ غور ‘ قابلِ توجّہ اور فکر کرنے والی آیت ہے ۔ خطاب کُفّار اور منافقین سے نہیں اہلِ ایمان سے ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ لا     وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ ط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ(۱۶) اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَاط قَدْ بَیَّنَّا لَـکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۱۷)}
’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھک جائیں؟ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی‘ پھر ایک لمبی مدّت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔ اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں‘ شاید کہ تم عقل سے کام لو! ‘‘
اللہ تعالیٰ مجھے‘ آپ کو اور تمام اہل ایمان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین