(تجلّیاتِ سیرت) فکر و عمل کی تعمیرکا نبویؐ طریق - راحیل گوہر

10 /

فکر و عمل کی تعمیرکا نبویؐ طریقراحیل گوہر صدیقی

عام طور سے انسان کے فکر و عمل کے دو زاویے ہوتے ہیں۔ایک میں وہ اپنے معاش اور دیگر مادی ضروریات کو پیش نظر رکھتا ہے جبکہ دوسری جانب اسے اپنے معبود ِحقیقی سے بھی ربط وتعلق استوار رکھنا پڑتا ہے۔اس دوگانہ تعلق میں اسے یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تہذیب کی میزان برابر رکھنی پڑتی ہے‘ورنہ جھکاؤ کسی ایک طرف بھی ہوگیا تو توازن بگڑ جائے گا۔ ایک طرف اس کا زیادہ جھکاؤ مادہ پرستی‘الحاد‘خواہشات و جذبات کی غلامی پر منتج ہو گا تو دوسری جانب بہت زیادہ میلان اسے رہبانیت‘ ترکِ دنیا اور نفس کُشی کی راہوں پر لے جائے گا۔ یہ دونوں ہی صورتیں انسانی شخصیت کو غیر متوازن کر دیتی ہیں۔ روحانی اور مادی حوالے سے اس کشمکش نے انسان کے وجود میں ایک ہیجان اور تناؤ کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔یوں اس کے وہ باطنی جواہر مضمحل ہو گئے ہیں جواس کی شخصیت کی صورت گری کرنے‘ اس کو فکری ترفع دینے اور معاشرے میں ایک ذمہ دار اور فعال کردارادا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
انسان کی اس باطنی شکست و ریخت کے مظاہر اس کی زندگی کے اجتماعی اور انفرادی گوشوں میں عیاں ہوتے رہتے ہیں۔انسان کو اس کے نفس کے تقاضوں اور مغربی تہذیب کے جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی چمک دمک نے احساسِ کمتری‘ذہنی انتشار‘قلبی سکون سے محرومی‘ اخلاقی بگاڑ‘ تشکیک و تردّد اور انحراف و اختلاف میں ایسا الجھا دیا ہے کہ نظروںکے سامنے پھیلی ہوئی دھند کے سوا اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔یہ دھند دراصل انسان کی بصیرت کے شفاف آئینے پر پڑی وہ گرد ہے جو اس کے فکر و عمل کی کج روی اور فہم و فراست کی غیر فعالیت کی بنا پر آئینے کو بے نور کر دیتی ہے۔
زندگی میں عظمت بصیرت سے حاصل ہوتی ہے جبکہ بصیرت کا حصول عرفان کے بغیر ممکن نہیں۔کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ زندگی کو سمجھنے کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آتا ہے۔انسان نے جب سے غور و فکر کرنا سیکھا ہے‘ وہ اس کائنات کے رموز اور اس کی معنویت سمجھنے میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اسی فہم و تدبر کی ادھیڑ بن کے سبب دنیا میں علم و دانش کا ارتقا ہو ااورمختلف فلسفہ ہائے مذہب وجود میں آئے۔ مذہب زندگی کی گرہیں کھولنے کا بہترین آلہ ہے‘لیکن انسانی ذہن کی عیاریوں اور فلسفیانہ موشگافیوں نے اسے الجھا دیا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں!
فلسفیانہ افکار انسان کو زندگی کے حقائق سے دور کر کے اس کے فکر و عمل میں شکوک و شبہات کا بیج بو دیتے ہیں۔اسباب میں اپنی فکر لگانا یا اس سے دست بردار ہوجانا آپ کی قدرت و اختیار میں نہیں۔اسباب میں بار بار غور و خوض کرنے سے نفس پر کچھ ایسا رنگ چڑھ جاتا ہے کہ پھر وہ اسباب ہی کابندہ بن جاتا ہے ۔ وہ اپنے قابو سے باہر ہوجاتا ہے اور اس بے بسی کا اس کے نفس کوبھی علم نہیں ہوتا۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسباب پر نظر نہ ڈالی جائے کہ پھر اس کے جال سے نکلنا دشوار ہوجائے گا۔ اسباب کی فکر میں پڑنے اور اسی پر بھروسا کرنے سے ایمان دل سے نکل جاتا ہے اورانسان کفر کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔وہ اسباب کے سمندر ہی میں غوطہ زنی کرتا رہتا ہے‘لیکن پھر بھی ناکام و نامراد ہی رہتا ہے۔ ؎
تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے
تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں
دنیا میں ہر نظام اپنا ایک بنیادی فلسفہ اور تصور رکھتا ہے جس کی بنیاد پر وہ زندگی کی تمام تفصیلات طے کرتا ہے ۔اسی تصور حیات کی بنیاد پر وہ کچھ لوگوں کو اپنے سے قریب اور کچھ کو اپنے سے الگ قرار دیتا ہے۔اسلام نے اپنے نظام کی بنیاد کے طور پر جغرافیائی وحدت‘ علاقائی قربت‘ نسلی عصبیت‘لسانی یک جہتی یا ایسے ہی دوسرے تعصبات کو قبول نہیں کیا ۔اس نے صرف ایک چیز کو اپنے نظام کی بنیاد مانا اوراعلان کیا کہ یہ کائنات کی سب سے بڑی اور اوّلین حقیقت ہے‘ جس پر تمام انسانوں کو متحد کر کے ایک بین الاقوامی نظام اور بین الانسانی نظریہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ صرف نظریہ اور عقیدہ ہی کی بنیاد پر انسانوں کو بلا امتیاز ِرنگ ونسل متحد کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بنیادوں کے بر عکس کوئی بھی عقیدہ اور نظریہ انسان اپنی آزاد مرضی اور شعوری ارادے سے اپناتا ہے۔غلط نظریات سے تائب ہو کروہ جب چاہے درست نظریہ اختیار کر سکتا ہے۔ رنگ‘ نسل اورجائے پیدائش انسان کے اپنے اختیار سے باہر کی چیزیں ہیںاس لیے ان کی بنیاد پر اسلام کے بین الاقوامی قانون کی عمارت استوار نہیں کی جاسکتی۔
انسان کے ترک و اختیار اور ردّ و قبول کی صلاحیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت وحکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ انسان کو جن استعدادات اور طبیعی قوتوں سے نوازا گیا ہے ان کے پیچھے بھی کوئی خاص مقصد کار فرما ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کی منشا اور اس کی رضا مندی کے عین مطابق استعمال کرے۔ زندگی اس ڈھب سے گزارے جس میں اس کا خالق راضی ہو۔اپنی ذات کی نفی کردینا‘ اپنے منہ زور نفس کی لگام کو کھینچ کر رکھنا اور راضی برضا رہنا ربّ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے ذرائع ہیں۔
بعثت ِانبیاء و رسلؑ اور ان کے فرائض منصبی
سوال یہ ہے کہ بندہ اپنے ربّ کی مرضی و منشا کو کیسے معلوم کرے!خالق ومخلوق کے درمیان پڑے حجابات کو اٹھانا انسان کے قبضہ قدرت میں نہیں ہے۔یہاں وہ لاچار و بے بس ہے۔ یہ تمام چیزیں تو ما بعد الطبیعیات کے اسرار و رموزہیںجبکہ اس سوال کے جواب کا حصول تو خودانسان کی اپنی فلاح و نجات کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ جس منزل کی طرف وہ رواں دواں ہے‘اس تک پہنچنے کا راستہ کون سا ہے تو وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائے گا۔ انجانے راستوں کے نشیب و فراز مسافر کو ان گھاٹیوں میں لے جاسکتے ہیں جو اس کی ہلاکت و بربادی کا ٹھکانہ ثابت ہوں گی۔ایسے میںاسے کسی ایسی رہنمائی اور سواء السبیل کی ضرورت ہوتی ہے جو صحیح سمت کی طرف اس کے رخ کو موڑ سکے۔چونکہ انسان کی نظر پیکر محسوس کی عادی ہے اس لیے ہدایت و رہنمائی کے لیے اسے کسی اپنے ہی جیسے انسان کا وجود بطورِ نمونہ چاہیے تھا۔لہٰذا خالق ِکائنات نے انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کا سلسلہ شروع کیا‘ جس کی آخری کڑی یا رشد و ہدایت کی مضبوط عمارت کی آخری اینٹ خاتم الانبیاء والمرسلین محمد عربی ﷺ کو بنایا گیا۔ سورۃ الجمعہ میں ارشادِ ربانی ہے:
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۲)}
’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں‘ انہی میں سے (یعنی محمد ﷺکو) پیغمبر بنا کر بھیجا‘ جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتے‘ ان کا تزکیہ کرتے اور اللہ کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔اور اس سے پہلے یہ تو صریح گمراہی میں تھے۔‘‘
حق کی راہ سے بھٹکے ہوئے یا شعور و آگہی سے محروم انسانوں کے کردار و عمل کی درستی کے لیے یہ چار صفات رسول مکرمﷺ کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سورۃ البقرہ میں دو مقامات پر اور سورئہ آلِ عمران میں بھی اس کا اعادہ کیاگیاہے۔
انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا اصل مقصد یہی رہا ہے کہ بندوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط کیا جائے۔ اپنے قول و فعل سے دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو واضح اور مبر ہن کیا جائے۔ قرآن مجید میں خصوصی توجّہ دلائی گئی کہ رسول ﷺکی پیروی اور اطاعت کرو کیوں کہ رسولؐ کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔اللہ ربّ العالمین نے انبیاء ورسلؑ کو اپنا نائب بنا کر اس کارزارِ حیات میں بھیجا ہے۔چنانچہ یہ اُنؑ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانوں کے ذہنی اشکالات اور فکری اُلجھنوں کو حکمت و موعظت کے ساتھ دور کریں ۔ان کو یہ آگہی دیں کہ خالق کائنات کا اس محیر العقول کائنات سے ربط و تعلق کیا ہے۔ایک بندہ ہونے کی حیثیت سے اللہ سے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کس مقام و مرتبہ پر فائز ہے؟ انسانوں کے مابین حقوق و فرائض کے حدود کا پیمانہ کیا ہے؟ اخلاقی ضابطے‘ سماجی تعلقات‘ تمدنی تقاضے اور خیر و شر کے خارجی اور داخلی داعیات کے معیارات کیا ہیں؟ ان سارے امور کی پردہ کشائی رسولوں کا فرضِ منصبی ہے۔
انسان کی کردار سازی کا اصل راز ہی یہ ہے کہ اس کے اندر روحِ ربانی کی بالیدگی‘ نشو ونما اور ارتقا کی منازل درجہ بدرجہ طے ہوتی چلی جائیں۔قرآن کریم میں ربّ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹) } (الانشقاق)
’’تم یقیناً درجہ بدرجہ آگے بڑھوگے۔‘‘
اسی امر کے پیش نظر انبیاء و رسل علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا اور انہیں انسانی نفوس کے تزکیہ اور ان کے آئینہ روح کو فسق و فجور کی گرد سے صاف کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔چنانچہ عقلی موشگافیوں‘ منطق و فلسفہ اور علم الکلام کی نکتہ آفرینوں سے صرفِ نظر کر کے محض وحی ربانی پر منحصر ان اساسی عوامل پر اپنی پوری توجہ مرکوز کی گئی جو انسان کی مثبت فعالیت کے اصل محرکات ہیں۔ ان ہی کو قرآن حکیم میں انسان کے فائدہ اور خسران کا اصل منبع و محور قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ِالٰہی ہے:
{وَالْعَصْرِ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّلا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳) } (العصر)
’’قسم ہے زمانے کی۔ تمام انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے اُن کے جو ایمان لائے اورجنہوں نے نیک عمل کیے اور جو ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرتے رہے‘اور جو ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
انسان کے روحانی ارتقا کے عوامل
انسان کے اعلیٰ کردار اور روحانی ارتقا کے لیے تین عوامل ناگزیر ہیں:(i)اللہ‘اس کے رسول اور آخرت پر کامل ایمان(ii)عمل ِصالح (iii) اخلاقِ حسنہ۔ یہ سب اعلیٰ اوصاف اور فکری بلندی کے وہ مضبوط ستون ہیں جن سے انسانی وجود میں ناقابل ِتسخیر قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے لیے اس فلسفہ و حکمت کو حرزِ جان بنانا لازمی ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔
اس بلند و بالا منزل پر پہنچنے کے لیے پہلی سیڑھی ایمانِ راسخ ہے۔ایمان کی جڑیں انسان کے باطن میں اپنی جگہ بنالیں تو اس کے ارادوں‘ ولولوں اور قربِ الٰہی کی تڑپ کو تازہ اور توانا خون مہیا ہوتا ہےاور اُس کی شخصیت کی نشوونما کو نئی زندگی ملتی ہے۔ ایمان و یقین کی قوت ہی الحاد و مادہ پرستی کی جڑوں پر تیشہ چلاتی ہے۔ حق و صداقت کی روشنی سے اس کی ذات کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔زیغ و ضلال کی گمراہیاں انسانی وجود کو تارِ عنکبوت کی مانند گھیرے رہتی ہیں۔ ایسے میں اگر ایمان کی شمع روشن ہوجائے تو فسق و فجور کی تیرگی یوںمعدوم ہوجاتی ہے جیسے سورج طلوع ہونے کے بعد چاند کی کرنیں بے نور لگنے لگتی ہیں۔
انسان کے ارتقا کے لیے دوسری شے اس کی عملی زندگی کی شفافیت اور صالحیت ہے۔ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔اگر دل کی گہرائیوں میں ایمان راسخ ہوگا تو اس کا اظہار عمل سے ہونا لازمی ہے۔بوتل صاف ہو تو اندر کامادہ باہرہی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ اگر فکر درست ہوگی تو انسان کا عمل بھی تیر کی طرح سیدھا ہوگا اور اگر فکر میں ہی کوئی کج روی اور بگاڑ ہے تو اس کا اظہار عمل سے مترشح ہوگا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جو عمل بھی انجام دیتا ہے وہ اس کے باطن اور نفس ناطقہ میں ایک پائیدار اثر چھوڑتا ہےجو اس عمل کا نتیجہ ہوتا ہےکہ عمل کی نوعیت کی مطابق اس کا نفس یا نورانی بنتا جاتا ہے یا اس پر ظلمت چھا جاتی ہے۔‘‘
قلبی ایمان اعمال ظاہرہ کا متقاضی اور اس میں مداومت سے مشروط ہے۔اسی طور سے اعمالِ صالحہ پر استقامت قلبی ایمان کی حرارت کو برقرار رکھتی ہے‘اس میں ترو تازگی اور رعنائی کے عنصر کو ختم ہونے نہیں دیتی۔انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر پہنچنے کے لیے تیسری چیز اخلاقِ حسنہ ہے۔یہ انسانی اوصاف کا وہ عطر ہے جس سے پورا معاشرہ مہکتا رہتا ہے۔رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ (وفی روایۃ صَالِحَ) الْاَخْلَاقِ)) (السلسلۃ الصحیحۃ:۴۵)
’’مجھے تو عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ہے۔‘‘
ایک موقع پر نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سی چیز اکثر لوگوں کو جنت میں لے جائے گی؟ آپﷺ نے فرمایا:((تَقْوَی اللہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ))(صحیح ابن حبان) ’’اللہ کا تقویٰ اور خوش خلقی۔‘‘
حسن اخلاق انسانی معاشرے میں امن و سلامتی کا ضامن ہو تا ہے۔ اخلاقی تقاضے حیاتِ دنیوی کے ہر شعبہ میں ہونا لازم ہیں۔ کسی معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر بگاڑ پیدا ہونا دراصل اخلاقیات سے غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے۔رسولِ کریم ﷺ سے سوال کیا گیا : نحوست کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:((الشُّؤْمُ:سُوءُ الْـخُلُقِ))(رواہ احمد) یعنی دین میں اگر نحوست والی کوئی شے ہے تووہ بُرا اخلاق ہے۔بالعموم ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بد تمیزیوں‘اکڑ فوں اورلفنگے پن سے لوگ خوف زدہ رہتے ہیں کہ نہ جانے کب یہ کسی کی بھی عزّت خاک میں ملادیں۔ایسا انسان جو دوسروں کے لیے خوف کی علامت ہو ‘ درحقیقت شرفِ انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
رسول اکرمﷺ سےہمارے تعلق کی بنیادیں
غور طلب امر یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سے ازروئے قرآن حکیم ہمارے تعلق اور نسبت کی نوعیت کیا ہے! اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے:
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۵۷)} (الاعراف)
پس وہ لوگ جو ایمان لائے ان(نبیﷺ) پر اور جنہوں نے ان کی توقیر و تعظیم کی اور جنہوں نے ان کی مد د اور حمایت کی اور جنہوں نے اس نور کا اتباع کیا جو اُنؐ پر نازل کیا گیا‘یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
آیت کے اس حصے سے رسول ﷺ سے ہمارے تعلق کی اصل بنیاد سامنے آتی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اس آیت کا مصداق بنتے ہیں کہ ’’رسول کی اطاعت ہی دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔‘‘
رسول اکرمﷺ کی اطاعت کا اوّلین تقاضا تو یہ ہے کہ ان پر صمیم قلبی سے ایمان لایا جائے۔ آپ ﷺ اوراُمّت ِمسلمہ کا مضبوط ترین تعلق ایمان بالرسالت کے حوالے سے ہے۔ اللہ کے رسولﷺ پورے عالم کے لیے ہادی و رہنما بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔اس اعتبار سے آخرت میں بھی وہی شخص مؤمن قرار پائے گا جس نے اللہ کے رسولﷺ کی رسالت پر زبانی اقرار کے ساتھ دل سے بھی اس کی تصدیق کی ہو۔ اقرارٌ باللسان اور تصدیقٌ بالقلب لازم و ملزوم ہیں۔ایمان کی تکمیل ان دونوں کے اشتراک و ارتباط سے ہوتی ہے۔
دوسرے درجے میں ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے۔اس کی وضاحت سورۃ الحجرات میںان الفاظ میں کی گئی ہے:
{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَـکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَـہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُـکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (۲)}
’’ اے ایمان والو! مت بلند کرو اپنی آوازوں کو نبی( ﷺ) کی آواز پر اور نہ ان سے گفتگو میںآواز کو اس طرح بلند کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے باہم گفتگو کرتے ہو‘ مبادا تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور تک نہ ہو۔‘‘
نبی اکرمﷺ سے ہمارا تعلق ایمان بالرسالت کے دو اہم اجزاء کے باہمی ربط سے اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے ۔ایک ہے رسولﷺ کی بے ریا اطاعت اور دوسرے محبت رسولﷺ ۔ اللہ کے رسولﷺ سے محبت کا دعویٰ محض جھنڈے لگا کر‘سیرت کانفرنسیں کروا کر‘آپﷺ پر درود و سلام بھیج کر اور وجد کی کیفیت میں نعتیں پڑھ کر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا اور نہ اس طرح حق اطاعت و اتباع ہی ادا ہوسکتا ہے۔اس کی وضاحت رسالت مآب ﷺ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:
((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ))(شرح السنۃ)
’’تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش ِنفس اس(ہدایت) کے تابع نہ ہوجائے جو مَیں لے کر آیا ہوں۔ ‘‘
گویا ایمان کے دعویدار جب تک ان تمام احکامِ شریعت‘حدود و قیود اور اوامر و نواہی کو دل کی پوری آمادگی کے ساتھ تسلیم نہ کر لیں جو رسولِ بر حقﷺ نے قرآن و سُنّت کے حوالے سے تعلیم فرمائے ہیںتب تک ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا۔اس روئے ارض پر اللہ نے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا جس کی قلبی اور شعوری اطاعت لازمی قرار نہ دی ہو۔ارشاد الٰہی ہے:
{وَمَــآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط} (النساء :۶۴)
’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
اسی سورئہ مبارکہ میں فرمایا:
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج} (آیت ۸۰)
’’جس شخص نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اللہ کے احکام و فرامین بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسولوں ہی کو بنایا جاتا ہے‘اس لیے رسولﷺ کی اطاعت گویا اللہ ہی کی اطاعت ہے۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول صرف تبلیغ ِوحی کے لیے نہیں آتے بلکہ عملی طور پر کتاب اللہ کا نمونہ بھی ہوتے ہیں‘ اس لیے ہر عمل میں ان کی اطاعت لازمی ہے۔اسی بات کو خود رسول کریمﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا:
((مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ)) (متفق علیہ)
’’جس نے میری اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی‘ اور جس نے میری نافرمانی کی تو اُس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘
ایمان بالرسالت کا دوسرا اہم پہلو آپﷺ سے سچی اور والہانہ محبت ہے جس میں کسی قسم کی مجبوری اور ریا کاری نہ پائی جاتی ہو۔یہ دل کی پوری آمادگی اور پورے شرح صدر کے ساتھ کی جائے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ)) (متفق علیہ)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ مَیں اُس کے لیے اُس کے باپ‘اُس کی اولاد اور تمام انسانوں سے محبوب تر نہ ہوجاؤں۔‘‘
رسول اللہﷺ کے ہر حکم اور ہر فرمان کی محض اطاعت ہی مطلوب نہیں بلکہ آپؐ کی ہر ہر ادا کی پیروی بھی باعث سعادت ہے۔جن کاموں کے کرنے کی ترغیب و تشویق دلائی گئی ہے وہ طوعاً و کرہاً واجب الادا ہیں‘ لیکن جن کا حکم دربارِ رسالت سے جاری نہیں ہوا‘ان معمولاتِ زندگی کو اپنے لیے از خود لازم کرلینا حب ِرسولﷺ کا ثبوت ہے ۔ اسی کا نام اتباع رسول ﷺ ہے۔گویا بقول مرزا غالب ؎
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم د یکھتے ہیں
رسول کریم ﷺ کی محبت تکمیل ایمان کی نشانی ہے۔ اگر اس میں کوئی فکری اور عملی سقم موجود ہوگا تو ایمان نامکمل ہوگا۔ رسول کریم ﷺ کے لیے صداقت سے لبریز اور دل کی گہرائیوں میں جاگزیں محبت اور جذبۂ اطاعت ایک مؤمن کا بیش بہا سرمایہ ہے اور کسی مؤمن کا دل اس نعمت عظمیٰ سے خالی نہیں ہوسکتا ۔یہی اپنے محبوبِ حقیقی کے قرب اور اس کی ذات و صفات کے صحیح تصوّر کا واحد وسیلہ ہے۔اگر دل میں محبت ہوگی تو اتباع و اطاعت کا جذبہ بھی لازماً پروان چڑھے گا‘ کیونکہ یہ محبت کا منطقی تقاضا ہے۔
بحیثیت اُمتی ہمارے فرائض
ان سب داعیات سے جو فکری اور عملی روح بیدار ہوگی وہ ایک مسلمان کے قلب و ذہن میں یہ حقیقت واضح کردے گی کہ بحیثیت اُمتی اس کا کیا فرض بنتا ہے۔اب جبکہ نبوت و رسالت کی تکمیل محمد عربی ﷺ پر ہوچکی ہے‘اس کا رِرسالت کو کون آگے بڑھائے گا‘ اس لیے کہ ؎
وقت ِفرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!
یہ ختم نبوت و رسالت کا لازمی تقاضا ہے کہ اب وہ سارے کام جو اللہ کے رسولﷺ کیا کرتے تھے‘اس اُمّت کے ذمے ہیں۔دعوت و تبلیغ‘ انذار و تبشیر‘ تعلیم و تربیت ‘ اصلاح و تزکیہ‘ شہادتِ حق ‘ اعلاء کلمۃ اللہ‘ اقامت ِدین اور اظہارِ دین حق‘یہ سب فرائض اب ان لوگوں پر عائد ہوتے ہیں جوحضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نام لیوا ہیں‘ اور جو آپﷺ کے امتی ہونے کو باعث ِسعادت سمجھتے ہیں ۔درحقیقت انسان کی کردار سازی اور اس کی مؤمنانہ تعمیر شخصیت کے لیے اللہ کے رسولﷺ کی ذات میں بہترین اُسوہ(نمونہ) ہے۔صرف اسی کو اختیار کر کے انسان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتا ہے اور شافعِ محشرﷺ کی شفاعت سے بھی اپنے دامنِ عصیاں کو بھر سکتا ہے ؎
کی محمد(ﷺ) سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں!