(حقیقتِ دین) اَعمال میں اِخلاص - احمد علی محمودی

10 /

اَعمال میں اِخلاصاحمد علی محمودیاخلاص کی تعریف
’’ خَلَصَ یَخْلُصُ خُلُوصًا و خَلاصًا‘‘ کے معنی صاف ہونے اور آمیزش کے زائل ہوجانے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے:’’خَلَصَ مِن وَرَطَتِہ‘‘ یعنی وہ اپنے بھنور سے محفوظ رہا اور نجات پاگیا۔ اسی طرح :’’خَلَّصَہ تخلیصًا‘‘ یعنی اس نے اسے چھٹکارااور نجات دلوائی۔ اطاعت میں اخلاص کے معنی ریاکاری ترک کر دینے کے ہیں۔ ( اَخْلَصَ الطَّاعَۃَ وَفِی الطَّاعَۃِ)
اخلاص کسی عمل کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنے اور اس سے قربت حاصل کرنے کا نام ہے‘ جس میں کوئی ریا ونمود اور بناوٹ نہ ہو۔ بندہ صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید کرے‘ اس کے عذاب سے ڈرے اور اس کی رضا مندی کا حریص ہو۔
اخلاص کی اہمیت اور قرآنی آیات
(۱) اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق یعنی جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے‘ جس کا کوئی شریک نہیں اور تمام مکلفین (جن پر شریعت کے احکام لاگو ہوتے ہیں) کو اخلاص کا حکم دیا ہے ۔فرمایا:
{وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُو اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ} (البینۃ:۵)
’’اورانہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں ایک رخ ہوکر خالص اسی کی اطاعت کی نیت سے ۔‘‘
(۲) اخلاص تمام عبادات اور نیک اعمال کی روح ہے۔ قرآن مجید میں اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا :
{فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ(۲) اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ۭ} (الزمر)
’’پس تم خالص اللہ ہی کی فرماں برداری مدّ ِنظر رکھ کراسی کی عبادت کرو۔خبردار!خالص فرماں برداری اللہ ہی کے لیے ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں انسان کو عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے ‘جو ظاہر ہے اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن یہاں جو بات اہمیت رکھتی ہےوہ یہ ہے کہ اس کی عبادت کس حال میں کی جائے۔ دو بار اخلاص یعنی مخلص اور خالص کے ذکر سے معلوم ہوا کہ بندگی میں مخلص ہونا اور اللہ کے لیے اطاعت گزاری کو خالص کر لینا ہی اس کی عبادت میں اخلاص ہے ۔اور عبادت اگر اخلاص سے خالی ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاسکے گی۔
(۳) {قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲) لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۚ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳)} (الانعام)
’’فرما دیجیے! بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں‘ اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے‘ اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘
(۴) {الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:۲)
’’جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے۔‘‘
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اچھا عمل یعنی سب سے خالص اور درست ترین عمل‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا: اے ابو علی! سب سے خالص اوردرست عمل کیا ہے؟ فرمایا:’’ عمل جب خالص اللہ کے لیے ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا‘ اور اگر درست ہو مگر خالص نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا‘ یہاں تک کہ( بیک وقت) خالص اور درست ہو۔ خالص کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو اور درست کا مطلب یہ ہے کہ سُنّت ِ نبویﷺ کے مطابق ہو۔‘‘پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
{قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا(۱۱۰)} (الکہف)
’’فرما دیجیے! میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں‘ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو‘ اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔‘‘
(۵) {فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَ(۱۴)} (غافر)
’’پس تم اللہ کی عبادت اسی کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو‘ اگرچہ کافروں کویہ ناگوار ہی ہو‘‘۔
اخلاص کی اہمیت اوراحادیث مبارکہ
(۱) حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا :
((اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ‘ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوَی‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهُ اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهِ فَھِجْرَتُهُ اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهِ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهُ لِدُنْیَا یُصِيْبُھَا‘ اَوِ امْرَاَةٍ یَتَزَوَّجُھَا‘ فَھِجْرَتُهُ اِلَی مَا ھَاجَرَ اِلَيْهِ)) (رواہ البخاري:۱ / ۳۰‘ ۵۴)
’’ بے شک اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے‘ اور بے شک ہر شخص کے لیے وہی ہےجس کی اُس نے نیت کی ۔پس جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کی اُسی کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے لیے ہی شمار ہو گی‘ اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوئی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہےجس کی طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘
(۲) حضرت سہل بن حُنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ سَاَلَ اللهَ الشَّھَادَةَ بِصِدْقٍ‘ بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّھَدَاءِ‘ وَاِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِهِ)) (رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُد وَابْنُ مَاجَه)
’’جس نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل کے ساتھ شہادت (کی موت) طلب کی تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کا مقام عطا فرمائے گا‘ خواہ اسے بستر پر ہی موت (کیوں نہ) آئی ہو۔‘‘
(۳) حضرت ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضورنبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد (آج بھی) یاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
((دَعْ مَا یَرِيْبُکَ اِلَی مَا لَا یَرِيْبُکَ‘ فَاِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِيْنَةٌ‘ وَاِنَّ الْکَذِبَ رِيْبَةٌ)) (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ)
’’شک و شبہ والی چیز چھوڑ کر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو۔ بے شک سچ سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ شک و شبہ ہے۔‘‘
(۴) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ فَارَقَ الدُّنْیَا عَلَی الْإِخْلَاصِ ِللّٰهِ وَحْدَهُ‘ وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيْکَ لَهُ‘ وَاِقَامِ الصَّلَاةِ‘ وَاِيْتَاءِ الزَّکَاةِ‘ مَاتَ وَاللهُ عَنْهُ رَاضٍ)) (رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ)
’’جو شخص اللہ وحدہ لا شریک کے لیے کامل اخلاص پر اور بلا شرک اس کی عبادت پر‘ نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ دینے پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گا‘ اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا۔‘‘
(۵) حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :
جَآء رَجُلٌ اِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: اَرَاَيْتَ رَجُـلًا غَزَا یَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَهُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ((لَا شَيْئَ لَهُ)) فَاَعَادَهَا ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ،یَقُوْلُ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ((لَا شَيْئَ لَهُ)) ثُمَّ قَالَ : ((اِنَّ اللهَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْھُهُ)) (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ)
’’ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : دیکھئے! اگر کوئی شخص لالچ اور طمع کی خاطر یا ناموری کے لیے جہاد کرے تو اسے کیا ملے گا؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا‘‘ ۔ اُس شخص نے یہی سوال تین دفعہ کیا اور حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر بار یہی جواب عنایت فرمایا کہ اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور اسے کرنے سے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو۔‘‘
(۶) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہکو جب یمن کی طرف(گورنر بناکر) بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
((اَخْلِصْ دِيْنَکَ‘ یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ)) (رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْھَقِيُّ)
’’ دین میں اخلاص پیدا کر‘ تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔‘‘
(۷) حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((طُوْبَی لِلْمُخْلِصِيْنَ اُوْلٰئِکَ مَصَابِيْحُ الْهُدَی تَتَجَلَّی عَنْھُمْ کُلُّ فِتْنَةٍ ظَلْمَاءَ)) (رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ)
’’ اخلاص سے کام کرنے والوں کے لیے خوش خبری ہے۔ یہ لوگ ہدایت کے چراغ ہیں‘ ان کے ذریعے ہر سیاہ فتنہ چھٹ جاتا ہے۔‘‘
(۸) حضرت منصور بن معتمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
((تَحَرَّوُا الصِّدْقَ وَاِنْ رَاَيْتُمْ فِيْهِ الْهَلَکَةَ فَاِنَّ فِيْهِ النَّجَاةَ)) (رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا)
’’سچ بولو اگرچہ اس میں تمہیں ہلاکت نظر آئے (کیونکہ) نجات اسی میں ہے۔‘‘
ایک عجیب واقعہ
امام محمد غزالی ؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک جماعت اس کے پاس آئی اور کہا کہ یہاں ایک قوم ہے‘ جو ایک درخت کو پوجتی ہے۔ یہ سن کر اس کو غصہ آیا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس کو کاٹنے کے لیے چل دیا۔ راستے میں اسے شیطان ایک پیر مرد کی صورت میں ملا۔ عابد سے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا :فلاں درخت کو کاٹنے جارہا ہوں۔ شیطان نے کہا: تمہیں اس درخت سے کیا غرض‘ تم اپنی عبادت میں مشغول رہو۔ تم نے اپنی عبادت کو ایک مہمل اور بے کار کام کے لیےچھوڑ دیا۔ عابد نے کہا :لوگوں کو شرک سے بچانا بڑی عبادت ہے۔شیطان نے کہا: میں تمہیں نہیں کاٹنے دوں گا۔ اس پر دونوں کا مقابلہ ہوا۔ وہ عابد اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے اپنے کو عاجز دیکھ کر خوشامد کی اور کہا کہ اچھا ایک بات سن لے۔ عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ شیطان نے کہا: خدا نے تجھ پر اس درخت کو کاٹنا فرض تو کیا نہیں۔ تیرا اس سے کوئی نقصان نہیں۔ تو اس کی پرستش و پوجا نہیں کرتا۔ خدا کے بہت سے نبی ہیں‘ اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعے اس کو کٹوا دیتا۔ عابد نے کہا کہ میں ضرور کاٹوں گا۔ دونوں میں پھرمقابلہ ہوا۔ وہ عابد پھر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے کہا :اچھا سن‘ ایک فیصلہ کن بات جو میں تیرے نفع کی کہوں گا۔ عابد نے کہا: کہہ ۔ شیطان نے کہا کہ تو غریب آدمی ہے۔ دنیا پر بوجھ بنا ہوا ہے ۔تو اس کام سے باز آ۔ میں تجھے روزانہ تین دینار دیا کروں گا‘ جو روزانہ تیرے سرہانے کے نیچے رکھے ہوئے ملا کریں گے۔ تیری بھی ضرورتیں پوری ہو جایا کریں گی‘ اپنے اعزہ و اقارب پر بھی احسان کر سکے گا۔ فقیروں کی بھی مدد کرسکے گا اور بہت سے ثواب کے کام حاصل کرے گا۔ درخت کاٹنے میں تو فقط ایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی رائیگاں جائے گا‘ وہ لوگ پھر دوسرا درخت لگالیں گے۔ عابد کو سمجھ میں آگیا (کسی نے پنجابی میں کیا خوب کہا ہے: ’’جدوں رب رُسّے تے مت کھسے‘‘ یعنی جب رب ناراض ہو تو عقل ختم ہو جاتی ہے)۔ عابد نے اس پیشکش کوقبول کرلیا اور گھر آگیا۔ دو دن تک دینار تکیے کے نیچے سے ملے‘ تیسرے دن کچھ بھی نہ ملا۔ عابد کو پھر غصہ آیا اور اسی طرح کلہاڑا لے کر چلا۔ راستہ میں وہ بوڑھا اسے پھر ملا‘ تو پوچھا :جناب کہاں جا رہے ہو؟ عابد نے کہا کہ اسی درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں۔ بوڑھے نے کہا :تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ دونوں میں لڑائی ہوئی اور وہ بوڑھا (یعنی شیطان) غالب آگیا اور عابد کے سینے پر چڑھ گیا۔ عابد کو بڑا ہی تعجب ہوا۔ اس سے پوچھا :یہ کیا بات ہے کہ تو اس مرتبہ غالب آگیا؟ شیطان نے کہا کہ پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص خدا کے لیے تھا‘ اس لیے خدا نے مجھے مغلوب کردیا اور تجھے غالب۔ اس مرتبہ تیرے دل میں دیناروں کی طلب تھی‘ خدا کی رضا اور اخلاص نہ تھا۔ اس لیے تو مغلوب ہوا اور میں غالب۔
حق یہ ہے کہ جو بھی کام اخلاص اور رب تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیےکیا جائے تو اس میں بڑی قوت و برکت ہوتی ہے اور جس کام میں حرص و لالچ کا دخل ہو‘ اس عمل میں کوئی طاقت اور برکت نہیں ہوتی۔
نیت :عمل کی محرک
اخلاص نیت کے حوالہ سے حجۃ الاسلام امام محمد غزالیؒ ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ نیت کسی عمل کے محرک و متقاضی کو کہتے ہیں۔ یہ باعث و محرک اگر ایک ہے تو اس نیت کو خالص کہتے ہیں اور جب دو یا دو سے زیادہ چیزیں اس عمل کی محرک ہوں تو چونکہ اس میں شرکت ہوگئی اس لیے وہ خالص نہ رہی۔ اس شرکت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے خدا کے واسطے روزہ رکھا‘ ساتھ ہی اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ کھانا ترک کرنے سے تندرستی حاصل کرے‘ ساتھ ہی خرچ کچھ کم ہوجائے گا‘ یا کھانا پکانے کی مشقت سے نجات حاصل ہو‘ یا اطمینان کے ساتھ ایک کام کو انجام دے سکے‘ یا صوم کے سبب سے بیدار رہے اور بیدار رہ کر کچھ کام کرسکے۔
اخلاص کیا ہے ؟
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے دریافت کیا کہ اخلاص کیا چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا :میں نے حضور نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا تھا کہ اخلاص کی حقیقت کیا ہے؟تو حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے جبریل علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ اخلاص کیا ہے؟ جبریل ؑ نے کہا :میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اخلاص کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’وہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے ‘میں اپنے بندوں سے جس کے دل میں چاہتا ہوں اس کو امانت کے بطور رکھ دیتا ہوں۔‘‘
کسی دانا سےمخلص کی پہچان و نشانی دریافت کی گئی۔ فرمایا: مخلص وہ ہوتا ہے جو اپنی بھلائیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے اپنی برائیوں کو۔پھر عرض کیا گیا :اخلاص کی آخری حد کیا ہے؟ فرمایا: اخلاص کی انتہا یہ ہے کہ مجھے لوگوں سے اپنی تعریف سننا پسند نہ آئے۔
اخلاص کی مثاليں
سیر و تواریخ کے مطالعہ کے دوران جب ہماری نگاہوں سے سلف صالحین کے اخلاص وللہیت سے متعلق واقعات گزرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں‘ نیز ایمانی روح عش عش کر اٹھتی ہے ۔اس سلسلے میں بے شمار مثاليں موجودہیں‘جن میں سے چند ایک پر اکتفاکيا جاتاہے۔
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار بڑی کشاکش کے بعد کسی دشمن کافر پر غالب آئے اور اُس کے سینے پر اس نیت سے بیٹھ گئے کہ تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیں‘ لیکن اسی دوران اس کافر نے آپ کے چہرئہ مبارک پر تھوک دیا ۔اس کے تھوکتے ہی آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس پر اس کو بڑا تعجب ہوا ۔پوچھا: اے علی! بڑی مشکل سے تم مجھ پر غالب آئے تھے ‘پھر تم نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ فرمایا کہ پہلے خالص لوجہ اللہ تجھے واصل جہنم کرنے کا ارادہ تھا۔ جب تم نے میرے چہرے پر تھوک دیا تو اس سبب سے نفس کا معاملہ آڑے آگیااور اخلاص نہ رہا۔اسی وجہ سے میں نے تیرے قتل سے ہاتھ روک لیا۔یہ سن کر وہ مسلمان ہوگیا۔
حضرت سفیان ثوریؒ اخلاص کے معاملہ میں اس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے کہ وہ کسی سے ہدیہ تک بھی قبول نہیں فرمايا کرتے تھے۔ ایک بار ایک شخص ہدیہ لے کر آپ کی خدمت ميں حاضرہوا اوراسے قبول کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے کہ تم نے کبھی مجھ سے درسِ حدیث لیا ہو۔ اس شخص نے کہا: مَیں سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے کبھی آپ سے درسِ حدیث نہیں لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو‘ لیکن تمہارا بھائی مجھ سے پڑھتا ہے‘ تو مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اس ہدیہ کی وجہ سے مَیں تمہارے بھائی پر زیادہ شفقت نہ کرنے لگ جاؤں۔
اخلاص کی برکت
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اخلاص کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچنے والے اعمالِ صالحہ کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے حساب ہے۔ بندہ مخلص اسے بروز قیامت اپنی آنکھوں سے دیکھے گا اور انعامات سے مستفیض ہوگا‘ لیکن دنیا میں بھی مخلص بندے کو متعدد برکات و حسنات سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت مالک بن دینارؒ ریاضت کے ابتدائی ایام میں شام کے مشہور شہر دمشق کی ایک مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ یہ خیال آیا کہ کوئی صورت ایسی ہو جائے کہ مجھے اس مسجد کا متولی بنا دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اعتکاف پر اعتکاف کیے اور اتنی کثرت سے نمازیں پڑھیں کہ ہر شخص آپ کو ہمہ وقت نمازمیں مشغول دیکھتا لیکن آپ کی جانب توجّہ نہ دیتا ۔ایک سال بعد جب آپ مسجد سے باہر آرہے تھے تو ندائے غیبی آئی: ’’اے مالک بن دینار! تجھے اب تائب ہو جانا چاہیے ‘‘۔چنانچہ اب آپ کو اپنی ایک سال کی خود غرضانہ عبادت پر شدید رنج و شرمندگی ہوئی اور آپ نے اپنے قلب کو ریا سے مبرا کر کے ایک شب خلوص نیت کے ساتھ عبادت کی تو صبح کے وقت دیکھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک مجمع ہے جو آپس میں کہہ رہا ہے کہ مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے‘ لہٰذا اس شخص کو متولی بنا دیا جائے اورتمام انتظامی امور اس کے سپرد کر دیے جائیں۔
اس کے بعد متفق ہو کر پورا مجمع آپ کے پاس پہنچا اور عرض کیاکہ ہم باہمی متفقہ فیصلے سے آپ کو مسجد کا متولی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ حیران رہ گئے اوربارگاہِ خداوندی میں عرض پرداز ہوئے :’’اے اللہ! میں ایک سال ریا کارانہ عبادت میں اس لیے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تولیت مل جائے مگر ایسا نہ ہوا اور اب جب میں صدق دل کے ساتھ ایک رات تیری عبادت میں مشغول ہوا تو تمام لوگ تیرے حکم سے مجھے متولی بنانے آ پہنچے اورمیرے اوپر یہ بار ڈالنا چاہتے ہیں‘ لیکن میں تیری عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نہ تو اب تولیت قبول کروں گا اور نہ مسجد سے باہر نکلوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر عبادت میں مشغول ہوگئے۔
اللہ کے پسندیدہ بندے
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت ہے کہ حضورخاتم النّبیین و رحمۃ للعالمین ﷺ نےارشاد فرمایا:
((اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ)) (مسلم)
’’اللہ تعالیٰ متقی ‘ مخلوق سے مستغنی اور اخفا پسند بندے کو پسند فرماتے ہیں۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں تین صفات کے حامل بندے کواللہ کے پیارے نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا محبوب قراردیا ہے:
(۱) تقی:وہ بندہ جو ظاہر وباطن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہواور اس کی معصیت سے بچتا ہو۔
(۲) غنی:وہ بندہ جو لوگوں کے مال وجاہ سے کوئی غرض اور کوئی حرص ومفاد وابستہ نہ رکھتا ہوبلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے فقر وحاجت کااظہار کرتا ہو۔وہ مخلوق سے استغنا برتتا ہو اور اللہ کے سامنے خود کومحتاج بنا کررکھتا ہو۔
(۳) خفی: وہ بندہ جو اپنے نیک اعمال بھی مخلوق کے دکھاوے سے بچنے کے لیے چھپ کرکرتا ہو اور اگر کوئی گناہ صادر ہوجاتا ہو تو اس کوبھی چھپاتا ہواور اس پر خوب توبہ واستغفار کرتا ہو‘کیونکہ بندوں کے سامنے اپنے گناہوں کااظہار بھی شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے ۔
ہدایت کے چراغ
اخلاص اور نیک نیت سے انسان کو رفعت و بلندی عطا ہوتی ہے اور یہ اس کو ابرار کی منازل پر لے جاتی ہے۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((طوبٰی لِلْمُخْلِصِیْنَ: الَّذِیْنَ اِذَا حَضَرُوا لَمْ یَعْرِفُوْا،اِذَا غَابُوْا لَمْ یفتقدوا۔ اُولٰئِکَ مَصَابِیْحُ الْھُدٰی تَنْجَلِی عنھم کُلَّ فِتْنَۃٍ ظُلَماء))(رواہ البیھقی)
’’مخلصین کے لیے بشارت ہو‘ وہ لوگ کہ جب کسی جگہ موجود ہوں تو کوئی انہیں جانتا نہ ہو‘ اور جب وہ کسی جگہ موجود نہ ہوں تو ان کی کمی محسوس نہ ہو۔یہی لوگ ہدایت کے چراغ ہیں‘ انہی کی برکت سے انسان پر آئی ہوئی مصیبت ٹلتی ہے۔‘‘
جو شخص صفت اخلاص سے متصف ہو گا اسے کامیابی حاصل ہو گی۔ جس جماعت میں ایسے افراد ہوں گے اس میں خیر و برکات کا دور دورہ ہو گا‘ گھٹیا صفات اس میں معدوم ہوں گی۔ دنیاوی شہوات ان سے مرتفع ہوں گی۔ ملت میں اعلیٰ مقاصد کا حصول ان کا مطمح نظر ہو گا اور معاشرے میں امن و سلامتی عام ہو گی۔
یہ اخلاص ہی کی برکت تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں ریا‘ نفاق اور جھوٹ بالکل معدوم تھا۔ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا حصول ہی ان کا مقصد ِحیات تھا۔ تمام صحابہؓ اقامت ِدین‘ اعلاء کلمۃ اللہ‘ عدل و انصاف کو عام کرنے اور رضائے خداوندی کو اصل مقصود سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکومت و شوکت عطا فرمائی‘ دنیا کا مقتدا بنایا اور وہ تمام عالم کے سردار بن گئے۔
عمل میں اگر بشری کمزوری کی وجہ سے کچھ کمی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اخلاص کی برکت سے اس عمل کا پورا پورا اجر فرما دیتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے غزوۂ تبوک میں ہم نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپؐ نے فرمایا: (ہم تو یہاں جہاد کر رہے ہیں لیکن) مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی سفر نہیں کیا ‘کوئی وادی طے نہیں کی مگر (ثواب میں) وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ انہیں مرض نے گھیر لیا(ورنہ نیت ان کی بھی جہاد کی تھی)۔ اور ایک روایت میں ہے ’’مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ شریک ہیں‘‘۔ (ابوداؤد اور ترمذی)
اچھی نیت:عمل خیر سے بہتر
ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے:((نِیَّةُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِہٖ))(المعجم الکبیر:۵۹۴۲) ’’مو من کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ ‘‘ اس حدیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں ہیں۔ بظاہر اس حدیث میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ عمل کرنے سے نیت کا درجہ کیسے بڑھ سکتا ہے ‘ کیوں کہ نیت تو عمل سے پہلے ہوتی ہے؟ پھر اس میں مشقت بھی کچھ نہیں جبکہ عمل میں مشقت ہے ؟ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ انسان کئی قسم کے ہیں۔ ایک وہ کہ جو نیک نیتی کرے اور عمل نہ کرے اور دوسرا وہ جو عمل تو کرتا ہے مگر نیت ٹھیک نہیں ہے۔ مثلاً عمل میں ریا کا شائبہ ہے یا کسی دنیوی غرض کو حاصل کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے ۔ چونکہ دوسرے شخص کی نیت ٹھیک نہیں ‘ اس لیے اس کے عمل کا بھی کوئی ثواب نہیں بلکہ ریا وغیرہ کا گناہ ہو گا بخلاف اس شخص کے کہ جس نے صرف نیت کی تھی۔ اس کو نیت کا ثواب تو مل گیا‘ گو وہ عمل نہ کر سکا جبکہ پہلے شخص کو نہ نیت کا ثواب ملا اور نہ عمل کا ۔ اس صورت میں نیت عمل سے بڑھ گئی۔
بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوںکہ عمل تو محدود ہوتا ہے جبکہ نیت انسان غیر محدود کی بھی کر سکتا ہے تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ مثلاً حدیث میں ہے کہ ایک تو ایسا شخص ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے مال بھی عطا فرمایا ہے اور علم بھی اور وہ اس مال کو اپنے علم کے مطابق صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے ‘ ظاہر ہے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کو اجر اورثواب بہت ملے گا۔ایک دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس نہ مال ہے اور نہ علم ہے‘ وہ اس کو دیکھ دیکھ کر حسرت کرتا ہے کہ کاش الله تعالیٰ مجھے بھی اس طرح مال دیتا اور میں اس کو الله تعالیٰ کی راہ میں اس شخص کی طرح خرچ کرتا ۔نبی کریم ﷺنے فرمایا :(( ھما فی الأجر سواء)) یعنی یہ دونوں اجر اور ثواب میں برابر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے کے پا س اگرچہ مال ودولت نہیں ہے‘ مگر اس کی نیت تو ہے کہ اگر ہوتا تو میں خرچ کرتا۔ تو چوںکہ یہاں اس کی نیت شامل ہو گئی ‘ اس لیے اس کو اجرو ثواب میں پہلے کے برابر کر دیا گیا۔
تیسرا وہ شخص کہ الله تعالیٰ نے اس کو مال دیا‘ مگر اس نے علم حاصل نہیں کیا‘ اس لیے اپنے مال کو عیش پرستیوں اور فضول خرچیوں میں خرچ کر رہا ہے ۔ کسی مفلس آدمی نے اس کو دیکھ کر کہ یہ شخص تو خوب مزے اڑا رہا ہے اور عیش کر رہا ہے ‘یہ حسرت کی کہ اگر مجھے مال ملے تو میں بھی یوں ہی عیش اڑاؤں اور دنیا کے مزے لوٹوں۔ فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ یہ برابری محض نیت کی وجہ سے ہوئی۔
دو عجیب وغریب چیزیں
بعض اولیائے کرام کے مطابق دو چیزیں عجیب وغریب ہیں: ایک توبہ اور دوسری نیت۔ نیت کا کام ہے معدوم چیز کو موجود بنا دینا‘ مثلاً ہم نے کوئی عمل نہیں کیا مگر نیت کر لی تو ثواب ملے گا۔دوسری چیز توبہ ہے جو موجود کو معدوم کر دیتی ہے‘ کیوں کہ انسان خواہ ستر (۷۰) برس تک گناہ کرتا رہے ‘ جب بارگاہ الٰہی میں ایک سجدہ کیا اور معافی مانگی تو سب یک قلم معاف ۔گناہوں کے ایک بے شمار ذخیرہ کو ایک مخلصانہ توبہ نے معدوم کر ڈالا۔ یہ دونوں نعمتیں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کوعطا کی ہیں۔ فللہ الحمد حمداً کثیرا
ریا اور بری نیت
جس طرح صفت اخلاص اور نیک نیت سے متصف ہونے سے انسان کو اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوتا ہے‘ اسی طرح سے ریا اور بری نیت کی وجہ سے انسان اسفل سافلین کے درجے میں جا گرتا ہے‘ کیونکہ عمل کا اصل باعث اخلاقی عنصر ہے اور وہی رب تعالیٰ سبحانہ کی نظر کا محور ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اسی اخلاقی عنصر کو دیکھتے ہیں‘ عمل کا درجہ ثانوی ہے)۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلواریں سونت کر آمنے سامنے آتے ہیں (اور نتیجے میں ایک قتل ہو جاتا ہے) تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘۔ مَیں نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ!قاتل کا دوزخی ہونا تو سمجھ میں آگیا‘ لیکن مقتول کیونکر دوزخی ہوا؟ آپؐ نے فرمایا:’’ مقتول بھی تو اپنے مدّ ِمقابل کو قتل کرنے پر حریص تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اللہ سبحانہ تعالیٰ حساب تو نیتوں پر لیں گے خواہ وہ ظاہر کرے یا اسے چھپائے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ط} (البقرہ: ۲۸۴)
’’خواہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو اللہ تعالیٰ تم سے حساب ضرور لیں گے۔‘‘
اسی حکم الٰہی کو نبی اکرم ﷺ نے حدیث قدسی سے واضح فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ اللہَ تَعَالٰی کَتَبَ الحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ۔ فَمَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا کَتَبَھَا اللہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ۔ وَاِنْ ھَمَّ بِھَا فَعَمِلَھَا کَتَبَھَا اللہُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ اِلٰی اَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ۔ وَاِنْ ھَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَاکَتَبَھَا اللہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً۔ وَاِنْ ھَمَّ بِھَا فَعَمِلَھَا کَتَبَھَا اللہُ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً)) (رواہ البخاری و مسلم)
’’اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور بدیوں کو لکھا اور ہر ایک کو واضح کر دیا۔ پھر جس کسی نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس نیکی پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں۔ اور اگر نیکی کا ارادہ کر کے وہ نیکی بھی کر گزرے تو اسے ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اجر عطا فرماتے ہیں۔ (یعنی اخلاص میں جتنی قوت ہو گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا) لیکن اگر برائی کا ارادہ کیا لیکن وہ برائی نہیں کی تو اس (اجتناب) پر بھی ایک کامل نیکی اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ اور اگر بدی کا ارادہ کر کے وہ گناہ بھی کر لیا تو صرف ایک گناہ ہی لکھا جائے گا۔‘‘
یعنی اگر برائی کا ارادہ کر کے خوفِ خدا کی وجہ سے برائی سے باز رہا تو عند اللہ یہ ایک نیکی گنی جائے گی۔ مزید برآں حضورﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللہ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِیْ مَا حَدَّثَتْ بِہٖ اَنْفُسَھَا))(متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے دلوں کے وسوسوں کو معاف فرما دیا ہے۔‘‘
ریا اور دکھاوے کا اثر یہ ہے کہ وہ بندے اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتا ہے اور اسے حیوانوں کے زمرے میں لا شامل کرتا ہے۔ پھر اس کے نفس کا تزکیہ نہیں ہو پاتا۔ اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا‘ کیونکہ دکھلاوے کے کام کرنے والے کی نہ کوئی رائے ہوتی ہے نہ اس کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے‘ بلکہ وہ ’’گرگٹ‘‘ کی طرح ہوتا ہے کہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے رخ پر چلتا ہے۔ عمل کی پختگی اس سے زائل ہو جاتی ہے۔ ریا کا مطلب ہے عبادات کے ذریعے جاہ و منزلت کا طلب کرنا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سے بچنے اور اسے ترک کرنے کا صریحاً حکم فرمایا ہے‘ کیونکہ اس سے انفرادی اور اجتماعی برائیاں پھیلتی ہیں۔فرمایا:
{ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ط وَمَکْرُ اُولٰۗئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ(۱۰)} (فاطر)
’’اور جو لوگ برائیوں کے داؤ گھات میں لگے رہتے ہیں ‘ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ۔ اور ان کایہ مکر برباد ہوجائے گا۔‘‘
جو لوگ بُرائی کے مکر کرتے ہیں یہی اہل الریا ہیں اور ریا منافقین کی صفت ہے جن کا مبدا و معاد پر ایمان نہیں اور نہ ہی وہ صالح عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی ۙ یُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِیْلًا(۱۴۲)} (النساء)
’’بے شک یہ منافقین اللہ سےدھوکہ بازی کرتے ہیں جب کہ اُس نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اور جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو بددلی سے‘ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں‘ اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا۔‘‘
عنقریب اللہ تعالیٰ اس دھوکا دہی کا پردہ فاش کر دے گا اور یہ چھپانا اس آدمی کے لیے باعث ذلت و رسوائی بنے گا ۔دکھلاوے کے لیے دھوکا دینے والے کی جگ ہنسائی ہو گی اور یہی اس کے دکھلاوے کی سزا ہو گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا :((مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَ مَنْ رَائَی رَائَی اللہُ بِہٖ)) ’’جس نے دکھلاوے کے لیے کام کیا اللہ تعالیٰ یہ کام اس کے لیے باعث رسوائی بنا دے گا۔ اور جس نے کوئی نیک کام اس نیت سے کیا کہ لوگوں کو معلوم ہو اور وہ اس کی عزت کریں تو اللہ تعالیٰ ایسے اسباب فرما دیں گے کہ لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ اس کی اصل نیت کیا تھی۔‘‘
ریا شرک ہی کی ایک قسم ہے ‘جس سے عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ محمود بن لبیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہارے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا :یا رسول اللہﷺ! یہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: ’’ریا۔ جب قیامت کے روز لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ (دکھلاوے کے لیے کام کرنے والوں کو) فرمائے گا:جن لوگوں کو تم دنیا میں دکھا کر کام کرتے تھے ‘ان کے پاس جاؤ‘ذرا دیکھو تو تمہیں ان کے ہاں سے کوئی بدلہ ملتا ہے!‘‘(رواہ احمد)
بعض لوگ دکھلاوے کے لیے ایسے کام کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کا خوب چرچا ہوتا ہے لیکن ان کا کام چونکہ خلوص پر مبنی نہیں ہوتااس لیے اس پر نیک اثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔ امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث نقل کی ہے‘ فرماتے ہیں‘مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ ہو گا وہ شہید ہو گا۔ اسے دربارِ خداوندی میں حاضر کیا جائے گا۔ پھر اس سے سوال ہو گا: تو نے دنیا میں کیا کیا؟ وہ جواب دے گا:مَیں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو نے جھوٹ بولا ہے‘تو نے جنگ اس لیے لڑی تھی کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا بہادر تھا۔ چنانچہ لوگوں نے تیری تعریف کر دی (اب ہمارے ہاں تیرے لیے کچھ نہیں)۔ پھر اس کے متعلق فیصلہ صادر ہو گا اور وہ منہ کے بل دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر دوسرا شخص لایا جائے گا۔ اس نے علم سیکھا اور سکھایا ہو گا اور قرآن کا قاری ہو گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی‘ وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ پھر سوال ہو گا کہ ان نعمتوں کے بدلے میں تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے قرآن کی تلاوت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تُو نے جھوٹ بولا ہے۔ تُو نے اس لیے علم سیکھا تھاکہ لوگ تجھے عالم کہیں۔ پس یہ کچھ کہا گیا‘ اور تُو نے قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور یہ بھی کہا گیا (اب ہمارے پاس اس کا کچھ اجر نہیں) ۔پھر اس کو حسب الحکم منہ کے بل دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر تیسرا شخص لایا جائے گا۔ اسے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی وسعت عطا فرمائی ہو گی۔ ہر قسم کا مال و دولت اسے میسّر تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے‘ وہ ان کا اعتراف بھی کرے گا۔ پھر سوال ہو گا: ان نعمتوں کے بدلے میں دنیا میں تو نے کیا کیا؟ وہ جواب دے گا: میں نے تیری رضا کے لیے ہر نیک کام کیا اور ان کاموں میں مال خرچ کیا۔ ارشاد ہو گا: تو جھوٹا ہے۔ تو نے خرچ اس لیے کیا تھا کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا سخی ہے۔ پس یہ کچھ کہا گیا (اب تیرے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں)۔ پھر اسے حسب الحکم منہ کے بل دوزخ میں جھونک دیا جائے گا ۔(سنن نسائی)
حدیث ِمذکورہ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اگر لوگ تعریف کریں گے تو عمل اکارت جائے گا۔ اگر کوئی کام نیک نیت اور اخلاص سے کیا جائے اور لوگوں نے اس کی تعریف کی (اور اس تعریف پر اس کا اپنا مقصد نہیں تھا) تو اس کا عمل ضائع نہیں ہوگا‘ خواہ ان کی یہ تعریف اسے بھلی ہی معلوم کیوں نہ ہو۔
امام ترمذی ؒنے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے‘ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہﷺ! ایک شخص لوگوں سے چھپا کر کوئی عمل کرتا ہے لیکن لوگوں کو اس کی اطلاع ہو جاتی ہے‘ اب وہ شخص اس بات پر خوش ہوتا ہے (تو کیا اس عمل کا اسے ثواب ملے گا)؟ آپ ﷺنے فرمایا :’’اسے دو ثواب ملیں گے‘ ایک تو چھپانے کا ثواب اور ایک ظاہر ہونے کا ثواب۔ بلکہ لوگوں کی یہ تعریف ایک قسم کی بشارت ہے جو دنیا میں اسے مل گئی۔ ‘‘
امام مسلمؒ نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے‘ مَیں نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ! ’’ایک شخص نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ مومن کے لیے دنیا میں ہی بشارت ہے۔‘‘
زندگی کا ہر لمحہ عبادت
ہم اپنی زندگی میں بہت سے عمل بلا جھجک کرتے ہیں لیکن وہ رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل نیت اور ارادے کے بغیر کیا جائے وہ عمل نہیں بلکہ فعل کہلاتا ہے۔ اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا‘ کیونکہ یہ اعمال ہماری عادتیں ہیں۔ افعال اور اعمال میں فرق ہے۔ جو کام بغیر ارادے کے کیے جائیں وہ افعال و عادات ہیں اور جو کام ارادے کے ساتھ کیے جائیں وہ اعمال ہیں۔ فعل پر اجر نہیں چونکہ وہ عادت ہے‘ عمل کا اجر ہے اس لیے کہ وہ عبادت ہے۔
اگر ہم چاہیں تو زندگی کا ہر لمحہ عبادت بنا لیں‘ لیکن افسوس کہ بالعموم ہم نے ساری زندگی بے کار کر رکھی ہے۔ ہماری زندگی کے بہت سے لمحے رائیگاں جا رہے ہیں۔ ہم روز کھانا کھاتے ہیں مگر ایسی نیت نہیں کرتےجس سے ہمارا کھانا بھی عبادت میں بدل جائے‘ حالانکہ یہ ممکن ہے۔ اگر ہم یہ نیت کر کے کھائیں کہ اس کھانے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور دین مبین کی خدمت کے لیے میرے جسم کو قوت میسّر آئے تو جو کچھ رزق حلال میں سے ہم کھائیں گے‘ اس کا ایک ایک لقمہ عبادت بن جائے گا۔
اسی طرح نیت نیند کو بھی عبادت بنا دیتی ہے۔ اہل اللہ کی نیند دوسرے لوگوں کی نفلی عبادت سے افضل ہے‘ کیونکہ وہ جب سوتے ہیں تو اس نیت سے سوتے ہیں کہ جسم کو آرام ملے تاکہ صبح تازہ دم ہوکر پھر اللہ کے دین کی خدمت بجا لاسکیں‘ عبادت و اطاعت کر سکیں‘ فرائض دین قوت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ پس اس نیت سے سونے سے بیدار ہونے تک ان کا ہر لمحہ عبادت بن جاتا ہے۔
گویا نیت کی قوت اتنی ہے کہ اُس نے نیند‘ چلنے پھرنے‘ اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کو بھی عبادت بنا دیا۔ ہم اپنی زندگی میں بے شمار عمل کرتے ہیں‘ جن میں نیت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے افعال اور عادات ردّی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا نامہ اعمال میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صرف نیت کا مسئلہ اگر سمجھ آجائے تو پوری زندگی بدل جائے اورہماراہرہر لمحہ عبادت بن جائے۔ لہٰذا جو کام بھی کرنے لگیں تو یہ دیکھیں کہ آیا یہ کام اللہ تعالی کی رضا کا ہے‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے امر کی متابعت و مطابقت میں ہے! یعنی اس کا تعین کرلیں کہ وہ کام اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو‘ کیونکہ ہر وہ کام جو مباحاتِ زندگی میں سے ہے اگر اللہ کے لیے اس کی نیت کرلی جائے تو وہ عادت نہیں رہے گی بلکہ عبادت ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کی حقیقت اور اس کا نور نصیب فرمائے ‘ اپنے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے اور اپنی رضا والی زندگی اوررضا والی موت نصیب فرمائے۔ آمين یا ربّ العالمین!