(تذکیر و موعظت) موت :ایک اٹل حقیقت - حافظ محمد اسد

10 /

موت :ایک اٹل حقیقتحافظ محمد اسد

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو فرارممکن نہیں۔دنیا میں بیشتر لوگ اس کائنات کے بہت سے حقائق کو نہیں مانتے اورغیب کی باتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔یہ مادی چیزوں کو جو ان کے مشاہدے میں آتی ہیں‘ ان کو ہی مانتے ہیں‘اور جو چیزیں حواسِ خمسہ سے ما وراء ہیں وہ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔وہ جو اقبال نے کہا تھا ؎
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیوں کر؟
چنانچہ ان کے نزدیک جو شے دائرئہ نظر سے غائب ہے ‘اس کا کوئی وجود نہیں۔یہ سیکولر ذہنیت کی علامت ہے۔ اس فکری گمراہی کے باوجود دنیا کا کوئی شخص خواہ وہ کسی مسلک‘ کسی مذہب اور نقطہ نظر کا حامل ہو‘ موت کا انکار نہیں کر سکتا۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر ایک سے خود کو منوا کر ہی رہتی ہے۔قرآن حکیم میں اس حقیقت کو تین مقامات پر بیان کیا گیا ہے:
{کُلُّ نَفْسٍ ذَاۗئِقَۃُ الْمَوْتِ       ۭ}(آلِ عمران:۱۸۵‘ الانبیاء:۳۵‘ العنکبوت:۵۷)
’’ ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘
جب بچہ دنیا میں آتاہے تو اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہی جاتی ہے۔ گویا یہ بچے کے لیے اعلان ہے کہ تیری زندگی کی اذان اور اقامت ہو چکی ہے ۔ چنانچہ جتنا وقت اقامت اور نماز کے دوران ہوتا ہےبس اتنی ہی ہر شخص کے لیے زندگی کی مہلت ہے۔
یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ یہ دنیا محض کھانے پینے‘ جنسی خواہش پوری کرنے اور زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے ‘بلکہ ہماری زندگی کا ایک بڑا اورعظیم مقصد ہے جو خالق کائنات نے اس طرح بیان کیا ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)}(الذاریات)
’’ مَیں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پید اکیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
اس امر کو پیش نظر رکھا جائے تو انسان کے سارے اعمال میں درستگی پیدا ہوجائے گی۔دنیا میں اپنے عمل سے بندگی کا حق ادا کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔۔اللہ سبحا نہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا(۷۲) }(بنی اسرائیل)
’’اور جو شخص بنا رہا اس دنیا میں اندھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور بڑا گم راہ کردہ ہوگا۔‘‘
مفسرین فرماتے ہیں یہاں اندھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں حق کو دیکھنے سے محروم رہا‘چنانچہ آخرت میں بھی نجات کا راستہ نہیں دیکھ سکے گا ۔
یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن ختم ہوجائے گی ۔اس دنیا میں ہر انسان ایک امتحان گاہ میں ہے‘ اس کا امتحانی پرچہ اس کے اعمال ہیں۔جو عمل بھی وہ کرے گایا کرائے گا‘ وہ سب اس پرچہ میں درج ہوتا رہے گا۔گویا ہر شخص اپنی زندگی کی کتاب خود لکھ رہا ہے۔ اس کی آنکھ بند ہونے کے ساتھ ہی یہ کتاب بھی بند کردی جائے گی اورجب انسان اپنے ربّ کے سامنے پیش ہوگا تب یہ کتاب اس کے ہاتھ میں یہ کہہ کر دے دی جائے گی کہ:
{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۱۴)} (بنی اسرائیل)
’’لو پڑھ لواپنا اعمال نامہ! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہر شخص کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی کتاب میں کیا لکھ رہا ہے۔یہ قلم و قرطاس دونوں اس کے چھوٹے بڑے تمام اعمال کو کھول کر بیا ن کر دیں گے۔اُس وقت کوئی اپنے اس اعمال نامہ سے انحراف بھی نہیں کر سکے گا‘زبان پرمہر لگا دی جائے گی اوراس کے اعضاء و جوارح کلام کریں گے۔ ازروئے قرآن حکیم:
{اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(۶۵)} (یٰسٓ)
’’آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے‘ اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے‘ اور ان کے پاؤں گواہی دیں گےکہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے۔‘‘
امام غزالی رحمہ اللہ نے آخرت کی زندگی کے بارے میں فرمایا ہے:’’اگر زمین اور آسمان کے درمیان رائی کے دانے بھر دیے جائیں اور ہر ایک ہزار سال بعد ایک پرندہ آئے اور اس کا ایک دانہ کھا ئے ‘پھر ہزار سال بعد آئے اور دوسرا دانہ کھائے‘ اسی طرح کھاتا جائے تو ایک وقت آئے گا کہ سارے دانے ختم ہو جائیں گے لیکن آخرت کی زندگی پھر بھی ختم نہیں ہوگی۔ ‘‘
وہاں انسان کو ایک لامتناہی زندگی گزارنی ہوگی ۔اگر اعمال اچھے نہ ہوئے تو اتنی طویل زندگی بھلا کیونکر گزرے گی۔یہ دنیا تو دار العمل ہے‘یہاں ہر شخص اپنے حصے کی کھیتی اپنے طریقے اور اپنے انداز سے بو رہا ہے۔جو کچھ یہاں بوئے گا وہ وہاں جاکر کاٹے گا ۔یہ وہ سچائی ہے جو انسان کی نظروں سے اکثر اوجھل رہتی ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ہستی انسان کی نظر سے دور ہوتی ہے جس نے اسے دنیا میں بھیجتے وقت کہہ دیا تھا:
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸)} (البقرۃ)
’’پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہیں پہنچے ‘ تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
ہدایت سے محرومی انسان کو راندئہ درگا ہ کر دیتی ہے۔اس کے اندر فکری اور عملی گمراہیاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیاہے!وہ جب اپنے خالق و مالک کو بھلا دیتا ہے تو پھراس کا خالق اسے اس کی ذات سے ہی بیگانہ کر دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
{وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹)}(الحشر)
’’اور تم ان جیسے نہ ہوجاناجو اللہ کو بھول بیٹھے تھےتو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔یہی ہیں جو نافرمان ہیں۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس بات سے غافل ہو گئے کہ خود ان کی جانوں کے لیے کون سی بات فائدے کی ہے اور کون سی بات نقصان کی ہے ۔یوں غفلت کے عالم میں ایسے کام کرتے رہے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے غافل ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کو اس بات کا شعور ہی نہیں رہتا کہ وہ دنیا میں کیوں آیا اور اسے کیا کرنا چاہیے!
اسی کو غفلت اور دھوکاکہتے ہیں اور قرآن نے اس دنیا کودھوکے کا گھر (دار الغرور) کہا ہے۔ اس دنیا سے صرف اَن پڑھ ہی دھوکا نہیں کھاتے بلکہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی فریب کھا جاتے ہیں۔ وہ دنیا میں ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ نہ عبادات کی ادائیگی کا ہوش رہتا ہے اور نہ معاملات میں ہی کھرے ہوتے ہیں۔اپنے معاشرے پر اگر غور کریں تو بالعموم ہر شخص اسی دنیا کو جنت بنانے میں مصروفِ عمل نظر آئے گا۔ میرا گھر ‘میراکاروبار ‘ امیر ترین گھرانے میں رشتے کی خواہش ‘بچوں کے مستقبل کی فکر ‘بس یہی ہمارے فکر وعمل کا محور ہے‘ چاہے ہماری آخرت برباد ہوجائے۔مادی لحاظ سے ایک بہتر زندگی گزارنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ اللہ تو خود یہی چاہتا ہے کہ میرے بندے دنیا میں میری عطا کی ہوئی نعمتوں سے فیض یاب ہوں۔ رنگ و نور کی یہ دنیا اللہ نے انسان کے لیے ہی تو سجائی ہے‘بس اتنا خیا ل رہے کہ یہاں کی ہر شے انسان کو تصرف اور برتنے کے لیے دی گئی ہے۔ کسی بھی شے پر ملکیت کا حق نہیں دیا ہے کہ اس پر قبضہ جما کر بیٹھ جاؤ اور اپنے منعم کو فراموش کر دو۔ اس فانی دنیا کی بے ثباتی کا احساس ہمہ وقت قلوب و اذہان میں مستحضر رہنا چاہیے۔ بقولِ اکبر الٰہ آبادی ؎
دنیا میں ہوں‘ دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں‘ خریدار نہیں ہوں!
اس نقطہ نظر کے تحت زندگی گزارنا اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔انسان کو سوچنا چاہیے کہ آخر وہ اس دنیا کی لذتوں‘ عیش کوشی اورنفسانی خواہشات کی حلاوتوں سے کب تک آسودہ ہو سکتا ہے!اس دنیا کی زندگی کا ہر راستہ موت کی وادی میں ہی جا کر ختم ہوتا ہے۔آگے ایک ایسی دیوار آجاتی ہے کہ اس کے دوسری طرف جانے کا کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔دراصل یہ موت ہی ایک مقررہ مدّت تک ہماری حفاظت کرتی ہے ‘ جس کے ختم ہوتے ہی وہ ہمارا خاتمہ کر دے گی۔روزِ ازل سے اللہ تعالیٰ کا یہی قانون چل رہا ہے اور اس دنیا کی بساط لپیٹے جانے تک اسی طرح چلتا رہے گا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
اللہ کے رسولﷺ نے ایک موقع پر یوں ارشاد فرمایا :
يَقُولُ ابْنُ آدَمَ:‏‏‏‏ مَالِي مَالِي‘ ‏‏‏‏‏‏وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ‘ ‏‏‏‏‏‏أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ  (سنن الترمذی:ح۲۳۴۲)
’’ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال‘ میرا مال! حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلا دیا‘ اور کھایا اور اسے ختم کر دیا ‘یا پہنا اور اسے پرانا کر دیا۔‘‘
اللہ سبحا نہ وتعالیٰ انسان کو بار بار پلٹنے کاموقع عنایت فرماتے ہیں ‘کبھی کوئی تکلیف دے کر‘ کبھی بیماری میں مبتلا کر کے کہ شاید میرا بندہ میری طرف لوٹ آئے‘ توبہ کر لے۔ لیکن جب انسان اپنے نفس کو ہی معبود بنالے اور اللہ سبحا نہٗ وتعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ اب وہ حق کی بات سن کر بھی اس کااثر نہیں لیتا۔پھر اس کی روش شیطانِ لعین کی سی ہو جاتی ہے‘ جیسے اس مردود نے کہا تھا کہ (معاذاللہ!) میرے رب تُو نے مجھے گم راہ کر دیا جب کہ مَیں تو سیدھے راستے پر تھا ۔
لہٰذا ہمیں اپنی روش کو بدلنا ہو گا اور اس دھوکے کے گھر ( دنیا ) کی حقیقت کو سمجھنا ہو گا ۔اپنی توجّہ کا مرکز و محور آخرت کو بنانا ہو گا۔قرآن کریم جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے آخری پیغام ہدایت ہے‘سمجھ کر پڑھنا ہو گا ۔جب ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ ہمیں آخرت کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے ‘جہنم سے ڈرایا گیا ہے اور خبر دار کیا گیا ہے کہ یہ دنیا دار الفنا ہے۔اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے سو رۃ الصف میں ارشاد فرمایا ہے :
{یٰٓـاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُـنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰) تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۱۱) یَغْفِرْلَــکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۲) وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۳)}
’’اے ایمان والو! کیا مَیں ایسی تجارت پر تمہاری رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور پاکیزہ رہائش گاہوں میں جوہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور ایک دوسری (نعمت تمہیں دے گا) جسے تم پسند کرتے ہو۔ (وہ) اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح (ہے)۔ اور (اے حبیبﷺ!) مسلمانوں کو خوشخبری سنادو۔‘‘
دنیا میں کھانے پینے‘ پہننے اور دیگر ضروریات کے لیے کسب مال کی ضرورت ہوتی ہے جسے بہت سے لوگ تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں ۔اس میں اکثر لوگ بہت زیادہ انہماک کرلیتے ہیں‘ بایں طور کہ موت کے بعد کے حالات اور آخرت کے اجرو ثواب پر دھیان ہی نہیں دیتے۔مال کی زیادہ سے زیادہ طلب میں ایسے لگتے ہیں کہ آخرت میں کام دینے والے اعمال کو بھول ہی جاتے ہیں۔ تجارت میں دونوں چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ نفع ہو‘ دوسرے یہ کہ نقصان نہ ہو ۔ یہاں بھی دوسری چیز کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور یہ مقولہ مشہور ہے کہ’’ دفع مضرت جلب منفعت سے بہتر ہے۔ ‘‘ لہٰذا مذکورہ بالا آیات میں عذاب سے نجات دینے کو پہلے بیان فرمایا جبکہ جنت میں داخلہ کی بشارت بعد میں دی گئی۔جنت کے حوالے سے سورة الکہف میں فرمایا گیا:
{خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا(۱۰۸)}
’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘ وہاں سے وہ جگہ بدلنا نہیں چاہیں گے۔‘‘
اور سورئہ فاطر میں اہل جنت کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے:
{اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرٌ(۳۴) الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ ط}
’’بیشک ہمارا پروردگار غفور ہے شکور ہے ‘جس نے اپنے فضل سے ہمیں رہنے کی جگہ میں اتارا۔‘‘
دنیا میں تقریباً ہر شخص مادی فائدے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں کو سنوارتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں خیر سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کے لیے خیر و بھلائی ہے‘ نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا ۔
پاک ہے وہ ذات جس نے ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کے لیے عزم و ارادہ پیدا کیا۔ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جسے چاہے چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{وَمَا تَشَآءُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)} (التکویر)
’’ اور اللہ ربّ العالمین کی مرضی کے بغیر تمہاری کوئی مرضی نہیں ہے۔‘‘
لہٰذا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے۔ اس دنیا میں ہر ذی روح کی انتہا موت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر بھی موت لکھ دی ہے چاہے وہ جبریل‘ میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں‘ حتیٰ کہ ملک الموت (عزرائیل ؑ)بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(۲۶) وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ(۲۷)}(الرحمٰن)
’’اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی ۔صرف تیرے پروردگار کی ذات ِ ذوالجلال و الاکرام باقی رہے گی۔‘‘
موت دنیاوی زندگی کی انتہا جبکہ اُخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت کے ساتھ ہی دنیاوی تکالیف اور آسائشیں ختم ہو جاتی ہیں۔مرنے کے بعد میت یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب۔موت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے۔
{وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ۭ حَتّیٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ(۶۱)} (الانعام)
’’اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے‘ یہاں تک کہ جب تمہارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘
دنیا کی حقیقت انسان کے لیے ایک امتحان گاہ کی سی ہے۔ ہر انسان کو اپنے اعمال کے مطابق اس کا نتیجہ اچھا یا بُرا ملے گا۔ پھر انسان اپنی موت کو کیوں بھلا بیٹھا ہے ؟ دنیا کے عیش و عشرت میں اتنا مشغول ہوگیا ہےکہ اس کو موت کی ذرا بھی فکر نہیں رہی ۔ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ‘وہ کہیں بھی اورکبھی بھی آسکتی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار عشرئہ مبشرہ میں ہوتا ہے جن کو جنت کی خوشخبری دنیا ہی میں سنادی گئی تھی‘ لیکن اس کے باوجود آپؓ کا یہ حال تھا کہ عذابِ قبر کے خوف سے اس قدر روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی تھی۔
ہم جب بھی کوئی گناہ کرتے ہیں تو تین باتوں کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اﷲ دیکھ رہاہے ‘ فرشتے لکھ رہے ہیں اور موت آنی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ جتنا ہوسکے ‘اﷲ کی عبادت بندگی کے جذبہ کے ساتھ کریں۔ اچھے اعمال‘ اﷲ کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک اور صلہ رحمی کا معاملہ کریں۔ ایسے میں امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہمیں کامیابی سے نوازے گا اور ہماری قبر کشادہ اور روشن کردی جائے گی ۔ منکر و نکیر کے سوالات ہمارے لیےآسان کردیے جائیں گے۔ اس کے برعکس اگر اعمال بُرے ہوئے تو انسان پر قبر تنگ کردی جائے گی جس میں اندھیرا اور گھٹن ہوگی ۔ دوزخ کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جائے گا جس سے وہاں کا منظر نظر آئے گا ۔ جہنم کا لباس پہنایا جائے گا ۔ قبر دوزخ کا ایک گڑھا بن جائے گی اور قیامت تک کا عرصہ اس پر طویل ہوتا چلا جائے گا ۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی اور موت سے پہلے اُس اُخروی زندگی کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ آمین!