(سیرتِ صحابہؓ) حضرت طلحہ بن عبید اللّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ - ارسلان اللہ خان

10 /

حضرت طلحہ بن عبید اللّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہارسلان اللہ خان

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جماعت میں مہاجرین اور انصارافضل ہیں۔ پھر مہاجرین کو انصار پر فضیلت حاصل ہے اور مہاجرین میں سے بھی عشرئہ مبشرہ کو فضیلت حاصل ہے۔ انہی عشرئہ مبشرہ میں سے ایک حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔آپ ؓ کا نامِ نامی طلحہ‘کنیت ابو محمد تھی۔والد کانام عبید اللہ اور والدہ کانام صعبہ تھا۔آپؓ کا تعلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے قریش کی شاخ بنو تیم سے تھااور آپ ؓ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رشتے دار تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح آپؓ کا سلسلۂ نسب بھی چھٹی پُشت میں حضرت مرہ بن کعب پر جا کرنبی اکرم ﷺ سے جاملتا ہے۔
آپؓ تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے اورآپؓ کی روزانہ کی آمدن ایک ہزار دینار تھی۔ اس کے باوجود غذا‘لباس وغیرہ کے معاملے میں سادگی ہی سے کام لیتےتھے۔آپؓ کے والد قبل از اسلام فوت ہو گئے تھےجبکہ والدہ ماجدہ نہ صرف مشرف بہ اسلام ہوئیں بلکہ انہوں نے طویل عمر بھی پائی۔
حضرت طلحہؓ ہجرت ِنبویؐ سے چوبیس یا پچیس برس قبل پیدا ہوئے۔آپؓ اوائل عمری میں ہی تجارت کی غرض سے شام جایا کرتے تھے۔آپؓ قریش کے اُن گنے چُنے لوگوں میں تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔آپؓ اکثرکاروبار کے سلسلے میں شام کا سفر کرتے ‘جیسا کہ سورۃ قریش میں قریشیوں کے سفر کا تذکرہ ہے۔آپؓ کا قد میانہ بلکہ ایک حد تک پست‘ چہرے کا رنگ سرخ و سفید‘ بدن خوب گٹھا ہوا‘ سینہ چوڑا‘ پائوں نہایت پُرگوشت تھے۔ آپؓ کا ایک ہاتھ غزوئہ اُحد میں شل ہو گیا تھا۔آپؓ خاموش طبع تھے اور تجارت میں مشغول رہتے تھے۔
شام کے شہر بصرہ کے بازار میں جہاں تجارت کے لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد ورفت کا سلسلہ رہتا تھا‘ وہیں ایک مرتبہ ایک گرجے میں ایک عیسائی راہب کو دیکھا جو سب سے پوچھ رہا تھا کہ کیا کوئی یہاں مکہ سے آیا ہے؟ حضرت طلحہؓ نے فرمایا:’’جی ہاں! مَیں مکہ سے آیا ہوں۔‘‘ اُس نے پوچھا:’’کیا احمد نبی ظاہر ہوچکے ہیں؟‘‘مَیں نے کہا:’’ کون احمد؟‘‘کہنے لگا:’’ابن ِ عبداللہ ابن ِعبد المطلب ------ہماری کتاب کے مطابق یہی مہینہ ہے ‘جس میں اُن کا ظہور ہونا ہے‘ وہ آخری نبی ہیں‘تم واپس جاکر فوراًاُن پر ایمان لے آئو!‘‘حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں نے واپس مکّہ آکر لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا میری غیر موجودگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ رونُما ہوا ہے؟لوگوں نے کہا:ہاں محمد بن عبداللہ (ﷺ)نے نبوت کا دعویٰ کردیا ہے اور ابوبکرؓ نے اُن کا دین قبول کرلیا ہے۔ حضرت طلحہ نے صدیق ِاکبر سے مُلاقات کی تو اُنہوں نے کہاکہ محمد ﷺ اللہ کے سچّے نبی ہیں اور اللہ کے سچّے دین کی جانب بلاتے ہیں‘تُم بھی اُن کی دعوت قبول کرلو۔ حضرت طلحہؓ نے اُنہیں عیسائی راہب کا واقعہ سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہیں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور اس طرح حضرت طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔اس طرح حضرت طلحہؓ ان آٹھ صحابہ کرام ؓ میں سے ہیں جو ابتدائے اسلام میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد آپؓ کے چچا اور بڑے بھائی آپؓ اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سخت دُشمن بن گئے اورآپ دونوں پر بہت سختیاں کیں‘لیکن آپ دونوں کے پایۂ استقلال میں ہر گز جنبش نہ آئی۔ شروع میں والدہ بھی اسلام کی مخالف تھیں‘ لیکن اللہ کاایسا کرم ہوا کہ بعد میں والدہ بھی مسلمان ہوگئیں اور صحابیہ ؓ ہونے کا شرف حاصل کرلیا۔
اسلام لانے کے بعد تیرہ برس تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنوں اور بیگانوں کا ظُلم برداشت کرتے رہے اور ہدفِ تضحیک اور نشانِ ملامت بنتے رہے۔ آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اس نازک ترین دور میں بھی تبلیغ ِ دین فرماتے رہے۔دار ِ ارقم میں صحابہؓ کے ساتھ شامل رہتے۔یہاں تک کہ کُفّار کا ظُلم و جبر حد سے بڑھ گیا اور ہجرت کا حکم نازل ہوگیا۔مدینہ میں حضور ﷺ نے مواخات کے وقت حضرت اُبی بن کعب انصاریرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُن کا بھائی بنا دیا۔
اُحد کی لڑائی میں آپؓ نے حضور ﷺ کی ایسی حفاظت فرمائی کہ کسی اور کو یہ مقام حاصل نہ ہوا۔ جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی تھی اور آپﷺ پر کُفّار بالکل سامنے سے حملے کر رہے تھے‘ایسے میں آپﷺ پر ہونے والے سارے وار حضرت طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جسم پر لیتے رہے ۔آپؓنے آقا کریمﷺ پر جاں نثاری کا وہ حق ادا کیا کہ جب بھی آپﷺ پر کیے گئے وار کو اپنے اوپر لیتے تو خوشی کا اظہار فرماتے کہ اپنے محبوب نبیﷺ کو بچانے میں کامیاب ہوگیا ۔اسی جاں نثاری میں آپؓ کا تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا اور ایک ہاتھ بھی شل ہوگیا تھا۔ اُحد کے دن میں اُن کی اس بہادری‘ جاں نثاری اور شجاعت پر دربار ِ رسالت ﷺ سے اُنہیں ’’خیر‘‘ کا لقب ملا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ غزوئہ اُحد تو طلحہ کا دن تھا۔ اسی طرح حضرت عُمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کو ’’صاحب ِ اُحد‘‘ فرماتے تھے۔
غزوئہ خندق‘ بیعت ِ رضوان‘صلح حدیبیہ‘ خیبر اورفتح ِ مکّہ غرض آپؓہر موقع پر شریک رہے۔ حُنین کی لڑائی میں جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑنے لگے تو اُس وقت نبی مکرمﷺ کا یہ عاشق آگے بڑھا اور جانفشانی کا وہ مظاہرہ کیا کہ بار گاہ ِ نبوت سے ’’طلحۃ الجواد‘‘کا لقب ملا۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر جب مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی تو حضرت طلحہرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خطیر رقم پیش کی ‘جس پر آپﷺ نے اُنہیں’’فیاض‘‘ کا لقب عطافرمایا ۔
جنگ جمل (۳۶ ہجری)کے دوران حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کے بعد آپؓ حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت سے دست کش ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اسلام کا یہ عظیم سپوت اپنے ہی لشکر میں چھپےایک فتنہ پرور شخص مروان بن حکم کے تاک کر پھینکے گئے زہریلے تیر کی تاب نہ لاکر شہادت کے رُتبے پر فائز ہوگیا۔اس وقت آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر ۶۴ برس تھی۔ آپؓ کی شہادت پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ زار وقطار روئے۔
خوف ِ خُدا‘رسول اللہﷺ سے انتہا ئی درجے کی محبّت‘جودوسخا‘شُجاعت اور انفاق فی سبیل اللہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اعلیٰ خصوصیات تھیں۔آپؓ اتنے سخی اور فیا ض تھے کہ قبیلہ بنو تیم کاکوئی ایسا نادار نہ تھا کہ جس کی آپؓ نے حاجت روائی نہ فرمائی ہو۔تنگ دستوں کو خادم دیتے‘مقروضوں کا قرض ادا کرتے‘بیوائوںکے نکاح کراتے اور غلاموں کی گردنیں چھڑاتے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہر سال دس ہزار درہم بھیجتے۔ذی القرد میں ایک چشمہ تھا جو آپؓنے بھاری رقم ادا کر کےمسلمانوں کے لیے وقف کردیا ۔طبیعت میں سادگی کا غلبہ تھا‘البتہ بے خوفی اور بے باکی اس درجہ تھی کہ حق بات کہنے سے کبھی نہ ہچکچاتے۔ عتبہ بن ربیعہ کی صاحبزادی اُمّ ربان کو بہت سے معزز‘دولت مند‘ حسین اور ذہین افراد نے شادی کے پیغامات دیے لیکن انہوں نے آپؓ کی انہی صفات کی وجہ سےحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترجیح دی۔ وجہ پوچھنے پر بتایا :
’’مَیں طلحہ ؓ کے اوصافِ حمیدہ سے خوب واقف ہوں۔ وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے‘ باہرجاتے ہیں تو مُسکراتے ہوئے‘کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کاانتظار نہیں کرتے۔ کوئی کام کردو تو شکر گزار ہوجاتے ہیں‘خطا ہوجائے تو معاف کردیتے ہیں۔‘‘
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف اوقات میں کم و بیش سات شادیاں کیں۔آپؓ کے صاحبزادوں میں محمد‘ عمران‘ عیسیٰ‘ اسماعیل‘ اسحاق‘ زکریا‘ یعقوب‘ موسیٰ‘ یوسف اور چار صاحبزادیاں تھیں‘ جن کے نام اُمّ اسحاق‘ عائشہ‘ صعبہ اور مریم ہیں۔ آپؓکے سب سے بڑے بیٹے محمد(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا‘ وہ بھی آپؓہی کے ساتھ جنگ جمل میں شہید ہوگئے۔آپؓحجاز کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ اپنی دولت اللہ کے راستے میں لٹاتے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے پیچھے لاکھوں دینار اور ایک بڑی جائیداد چھوڑی۔آپ کا دسترخوان مہمانوں سے بھرا رہتا۔پاکیزہ اخلاق کے حامل ‘دیانت دار اور سخی تھے۔صلۂ رحمی اور مہمان نوازی آپؓکے اہم اوصاف تھے۔
رسول اللہﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جو جملہ کہا وہ آپؓ کی عظمت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جو شخص زمین پر شہید کو چلتا پھرتا دیکھنا چاہے وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔‘‘ رضی اللہ عنہ۔ ان کی قبر مبارک پر کروڑہا رحمتوں کا نزول ہو۔ (آمین ثم آمین!)
استفادہ:
(۱) سیر الصحابہؓ
(۲) ’’الدین‘‘ کا خصوصی شُمارہ ’’عشرئہ مبشرہ ‘‘
(۳) الریاض المنضر فی مناقب العشرۃ
(۴) ترمذی اور ابن ِماجہ میں موجودعشرہ مبشرہ ؓ کے اَبواب