اہل ِجہنّم کی چیخ و پکار اور آرزوپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
انسان خالق ِکائنات کی شاہ کار تخلیق ہے جسے اس نے عقل و شعور دے کر اپنی پسند اور ناپسند کے کام بتادیے ہیں۔کچھ اچھائیاں اور بُرائیاں اس کی فطرت میں رکھ دی گئیں۔ ہر انسان جانتا ہے کہ سچ بولنا اچھا ہے اور جھوٹ بولنا غلط ہے‘اسی طرح کسی کو ناحق تکلیف دینا یا قتل کرنا بُرا ہے اور ضرورت مند کی مدد کرنا مستحسن ہے۔ فطرت کی اس صلاحیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ انسانوں کو اچھے اوربرے کاموں سے آگاہ کریں۔ گویا ہر انسان دنیا کی زندگی میں سراسر امتحان میں ہے ۔ یہاں بُرائیاں کرنے والے بھی ہیں اور اچھے کام کرنے والے بھی ‘ مگر نہ اچھے کام کرنے والوں کو یہاں جزا ملتی ہے‘ نہ بُرائی کرنے والوں کو سزا ۔ کسی کو برے کام کے بدلے میں اوّل تو سزا ملتی ہی نہیں‘ اگر ملتی بھی ہے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ اسی طرح جو لوگ اچھے کام کرتے ہیں‘ اکثر و بیشتر نہ ان کوبدلے میں خوشحالی ملتی ہے اور نہ وافر نعمتیں۔ ایسی صورتِ حال کا لازمی تقاضا ہے کہ کوئی ایسا وقت ہو جہاں عدل کی حکمرانی ہو اور ہر شخص کو اپنے نیک و بد اعمال کا بدلہ دیاجائے۔ عدل و انصاف کی یہ عدالت قیامت کو لگے گی جب سارے لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ دُنیا کی یہ زندگی دارالعمل میں ہے اور موت کے بعد ایک دوسری زندگی ہو گی جس میں ہر شخص کو اس کے اعمال کی جزا ملے گی۔
دنیا کی زندگی میں بڑی کشش ہے۔ یہاں رشتہ دار اور دوست ہیں جن کے ساتھ پیار اور اخلاص کا تعلق ہے۔ یہاں مال متاع ہے جس سے انسان اپنے لیے مادّی فائدے حاصل کرتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ زندگی موت کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ مرنے والے کسی صورت واپس نہیں آ سکتے ۔ جانے والا دارالعمل کو چھوڑ جاتا ہے اور دار الجزاء میں چلا جاتا ہے۔ اس دنیاوی زندگی کے ساتھ انسان اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مہربان خالق کو بھول جاتا ہے اور وہ کام کرنے لگتا ہے جس سے اس کی فطرت اِبا کرتی ہے۔ وہ یہ بات بھی فراموش کر بیٹھتا ہے کہ ایک دن اُسے اپنےا عمال کا بدلہ پانا ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و شعور سے کام لے تو وہ خود اس نتیجے پر پہنچ سکتاہے کہ یہ زندگی ایک امتحان ہے ‘ جس میں لوگ کامیاب بھی ہوںگے اور ناکام بھی۔ کامیاب ہونے والوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جن کا آج تصوّر بھی نہیں کیاجا سکتاجبکہ ناکام ہونےوالے جہنّم کے انتہائی خوفناک عذابوں میں ڈالے جائیں گے۔ آخرت کی یہ زندگی کبھی ختم نہ ہوگی۔ کامیاب ہمیشہ آسائش میں رہیں گے جب کہ بدانجام ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔
ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا جو اپنے وقت کے لوگوں کو اچھے کاموں کی دعوت دیتے ‘ بُرائیوں سے روکتے اور آخرت کا خوف دلاتے رہے۔ لیکن اکثر لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور بُرائیوں میں مشغول رہے۔ گویا انہوں نے نہ انبیاء و رسل علیہم السلام کا کہنا مانا نہ اپنے عقل و شعور سے کام لیا۔
اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہادی بنا کر بھیجے گئے اوران کے ساتھ جامع اور کامل ضابطہ حیات یعنی قرآن مجید نازل کیاگیا۔ چونکہ آپؐ خاتم النّبیین ہیں اس لیے آپؐ کے ساتھ جو ضابطہ حیات یعنی قرآن مجید بھیجا گیا اب وہی حتمی ہے اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہو گی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ پہلے انبیاء کو دی گئی کتب ان کے وقت کے لیے موزوں تھیں جبکہ قرآن مجیدکسی خاص وقت یا قوم کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہے۔گویا اب دنیا میں جو انسان ہیں یا جو آئندہ آئیں گے ان کی راہنمائی کے لیے یہی قرآن کافی ہے۔
دنیا کی زندگی میں جن لوگوں نے عقل و شعور اور فطرت کے تقاضوں سے کام نہیں لیا‘بلکہ دنیاوی لذتوں میں کھو کر اپنے خالق کو بھول بیٹھے ‘گویا ع ’’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ جیسے طرزِعمل کا مظاہرہ کیااور ایمان بالآخرۃ سے غافل رہے وہ جہنّم کا ایندھن بنیں گے۔ اسی طرح جو لوگ ایمانیات کو توجانتے ہیں مگر اس ناپائیدار زندگی میں نہ حقوق اللہ کا دھیان رکھا اور نہ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کو اہمیت دی وہ بھی جہنّم کی سزا پائیں گے۔ جس طرح جنتی حیاتِ جاودانی سے متمتع ہوں گے‘ اسی طرح دوزخی سدا کے عذاب میں رہیں گے۔
دوزخی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ آگ کی صورت میں پائیں گے۔ وہاں وہ چیخیں گے‘چلائیں گے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ اُن کا حال قرآن مجید میں اس طرح بیان ہوا ہے : {فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ(۱۱)}(المؤمن) ’’(وہ کہیں گے کہ )ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا اس عذاب سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟‘‘ جہنّمی جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو چاہیں گے کہ انہیں کچھ مہلت مل جائے۔ سورۂ ابراہیم میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا:
{وَاَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْہِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ۙ نُّجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ط} (آیت۴۴)
’’(اے نبی ﷺ!)آپ لوگوں کو(اُس دن سے) خبردار کیجیے جس دن آئے گا ان پر عذاب تو کہیں گے وہ جنہوں نے ظلم کیا تھا: اے ہمارے مالک!تُو ہمیں تھوڑی سی مدّتِ مہلت عطا کر‘ تاکہ ہم قبول کریں تیری دعوت اور پیروی کریں پیغمبروں کی۔‘‘
دوزخی جب عذاب کی تکلیف پائیں گے تو تمنّا کریں گے کہ اگر انہیں جہنّم سے نکال دیا جائے تو وہ دوبارہ اللہ کی نافرمانیوں سے باز رہیں گے‘ مگر اس کے جواب میں انہیں ڈانٹ پلائی جائے گی۔ قرآن مجید میں اس کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا گیا :
{رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ (۱۰۷) قَالَ اخْسَئُوْا فِیْھَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ(۱۰۸)} (المؤمنون)
’’اے ہمارے رب !نکال دےتُو ہمیں یہاں سے‘ پھر اگر ہم دوبارہ ایسا کریں تو یقیناً ہم ظالم ہوں گے۔ ارشاد ہوگا: (دور ہو جائو میرے سامنے سے اور) پڑے رہو اسی میں پھٹکارے ہوئے اور مجھ سے بات نہ کرو!‘‘
دوزخیوں کے پچھتانے کا ذکرقرآن مجید میں کئی بار آیا ہے‘سورۃ الشعراء میں الفاظ آئے ہیں: {فَلَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۰۲)} ’’کاش ہوتا ہمارے سامنے پلٹنے کا ایک موقع تو ہم ہو جاتے مؤمنین میں سے۔‘‘جب کہ دوسرے مقامات پر ان کی حسرت بایں الفاظ ذکر ہوئی ہے: {اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ کَرَّۃً فَاَکُوْنَ مِنَ الْمُحْسنِیْنَ(۵۸)} (الزمر) ’’یاکہے جب عذاب دیکھے‘ کاش مل جائے مجھے ایک اور موقع اورہو جائوں میں شامل نیکوکاروں میں۔‘‘اور{یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا ۡ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۷)}(المائدہ) ’’وہ چاہیں گے کہ نکل جائیں آگ سے مگر وہ نہیں نکل پائیں گے اس میں سے‘اور ان کے لیے ہو گاہمیشہ رہنے والا عذاب۔‘‘
دوزخی عذاب کی شدّت سے گھبرا کر چاہیں گے کہ ان کی تکلیف میں کچھ کمی کر دی جائے۔ وہ جہنّم کے کارندوں سے سزا میں تخفیف کی خواہش کریں گے مگر ایسا نہیں ہوگا ۔سورۃ المؤمن میں فرمایاگیا : {وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَھَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ(۴۹)}’’اورکہیں گے وہ لوگ جو آگ میں جل رہے ہوں گے جہنّم کے کارندوں سے کہ درخواست کرو اپنے رب سے کہ وہ تخفیف کر دے ہمارے لیے عذاب میں ایک ہی دن کی۔‘‘ عذاب دور کرنا تو کجا ‘اس میں کمی بھی نہیں کی جائے گی بلکہ وہ لگاتار بغیر وقفے کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔
سخت تپش کے باعث جہنمی اہل ِجنت سے گزارش کریں گے کہ ان پر تھوڑا سا پانی ہی ڈال دیں تاکہ ان کی تپش میں کچھ کمی ہو جائے:
{وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاۗءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ ۭ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۵۰)}(الاعراف)
’’اورپکاریں گے اہل ِدوزخ اہل ِجنت کو کہ ڈال دو ہم پر تھوڑا سا پانی یا اس میں سے ہمیں کچھ دے دو جو دیا ہے تم کو اللہ نے۔ وہ جواب دیں گے: یقیناً اللہ نے حرام کر دیا ہے ان چیزوں کو کافروں پر۔‘‘
گویااہل جنت کا کھانا جہنمیوں کو ہر گز نہیں ملے گا۔ ان کی غذا بدذائقہ‘ سخت کڑوی اور بدشکل ہوگی۔ فرمانِ الٰہی ہے : {اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ(۴۳) طَعَامُ الْاَثِیْمِ(۴۴)} (الدخان) ’’بلاشبہ زقوم (تھوہر) کا درخت گناہگار کا کھانا ہے۔‘‘ یہ کانٹے دار درخت اتنا کڑوا ہے کہ گلے سے نہیں اُترتا۔
دوزخی جب محسوس کریں گے کہ انہوں نے گناہ اور نافرمانی کے کام فلاں فلاں کے کہنے پر کیے تھے اور اب ہم سزا میں مبتلا ہیں تو خواہش کریں گے کہ بُرائی پر آمادہ کرنے والے انسانوں اور شیطانوں کوسامنے لایا جائے تاکہ وہ انہیں اپنے پائوں تلےروندیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ (۲۹)}(حٰـمٓ السجدۃ)
’’اور کہیں گے کافر: اے ہمارے رب !دکھا تُو ہمیں وہ دونوں گروہ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا جنوں اور انسانوں کے‘ تاکہ روند ڈالیں ہم انہیں اپنے پائوں تلے ۔‘‘
اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر شخص کو نیک نہاد اشخاص کے ساتھ دوستی اور صحبت رکھنی چاہیے تاکہ وہ اسے اچھا مشورہ دیں۔ بُرا شخص تو ہمدردی کے روپ میں نافرمانی کرنے والے کام ہی کا مشورہ دے گا۔
شیطانی غلبے کے تحت انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ کراماً کاتبین اُس کا ہر عمل نوٹ کررہے ہیں‘او ر یہی اس کا نامہ اعمال ہے ۔اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں ہے۔روزِ محشر انسان کے اپنے اعضاء گواہی دیں گے کہ اس شخص نے ہمیں کس طرح استعمال کیا۔ دُنیا کی زندگی میں اعضاء انسان کا حکم مان رہے ہیں مگر آخرت میں وہ اعضاء سچی گواہی دیں گے ۔ اُس وقت انسان اپنے اعضاء کو کہے گا کہ تم میرے خلاف کیوں گواہی دے رہے ہو؟لیکن اس کا یہ شکوہ کسی کام نہ آئے گا ۔اس حوالے سے قرآن مجید میں فرمایا گیا :
{وَقَالُوْا لِجُلُوْدِھِمْ لِمَ شَھِدْتُّمْ عَلَیْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ}(حٰمٓ السجدۃ:۲۱)
’’اور وہ کہیں گے اپنی کھالوں(اور اعضاء) سے کہ کیوں گواہی دی ہے تم نے ہمارے خلاف؟ وہ کہیں گے کہ گویائی دی ہے ہمیں اس اللہ نے جس نے گویائی بخشی ہر چیز کو۔‘‘
اگر یہ حقیقت ہر وقت انسان کے سامنے رہے کہ اس کے اپنے اعضاء اللہ کے حکم کے تحت اس کے برے اعمال بتا دیں گے تو وہ کبھی کوئی بُرائی نہ کرے ۔
چونکہ موت سے انسان ہر قسم کے جسمانی دکھ اور بیماری سے آزاد ہو جاتا ہے‘ اسی تجربے کے تحت دوزخی موت کی تمنّا کریں گے کہ شاید اس طرح ہمارا عذاب ختم ہو جائے۔
{وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْھَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ھُنَالِکَ ثُبُوْرًا(۱۳) لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا(۱۴) }(الفرقان)
’’اورجب وہ ڈالے جائیں گے دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں باندھ کر تو مانگنے لگیںگے وہ اس وقت موت۔ (کہا جائے گا:) مت مانگو آج صرف ایک موت بلکہ مانگو بہت سی موتیںـ۔‘‘
دوزخی اس انداز سے بھی موت مانگیں گے کہ انہیں زمین میں دفن کر کے مٹی برابر کر دی جائے تاکہ ان کا نام و نشان تک مٹ جائے اور اس طرح وہ عذاب سےچھوٹ جائیں : {یَوْمَئِذٍ یَّـوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ ۭ} (النساء:۴۲) ’’اس دن آرزو کریں گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور نافرمانی کی رسول کی کہ اے کاش برابر کردی جائے ان پر زمین ۔‘‘ مگرزمین کے نیچے دب جانے کا عمل تو دنیا کی زندگی میں ہی ہو سکتا تھا‘جبکہ یہ تو آخرت ہے۔
جہنّم مشرکوں‘ کافروں‘ بے ایمانوں‘ نافرمانوں‘ بدکرداروں اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والوںکو ان کی بداعمالیوں کے سبب ملے گی۔جہنّم سے بری جگہ تصوّر میں بھی نہیں آ سکتی۔ جہنّمی ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہوکر آرزو کریں گے کہ انہیں وہاں سے نکال کر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے ‘مگر ایسا نہیں ہوگا۔جہنمیوں کی یہ آرزو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورۃ الانعام میں مذکورہے :
{وَلَوْتَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (۲۷) بَلْ بَدَالَھُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ (۲۸)}
’’اور اگر آپ انہیں دیکھیں کہ جس وقت وہ کھڑے کیے جائیں گے دوزخ پر اور کہیں گے کاش ہم واپس بھیج دیے جائیں‘ پھر نہ جھٹلائیں ہم اپنے ربّ کی نشانیوں کو اور شامل ہو جائیں ایمان والوں میں-----بلکہ جو(عقائد واعمال) وہ پہلے سے چھپاتے تھے وہ سب ان کے سامنے ظاہر ہوجائیں گے----- اوراگر وہ واپس بھیج دیے جائیں تو پھر وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور وہ ہیں ہی جھوٹے۔‘‘
کچھ انسان ایسے ہیں جو زندگی میں اللہ کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اپنا کارساز سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ انہیں عاقبت کی گرفت سے بچا لیـں گے۔ وہ عاقبت کی شفاعت کودنیا کی بے تکی سفارش کی مانند سمجھ کر دھوکے میں پڑ کر جہنّم کا ایندھن بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : {قُلْ لِّلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًاط} (الزمر:۴۴)’’(اے نبی ﷺ! آپ) کہہ دیجیے کہ شفاعت تو سب کی سب اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ عاقبت کی بخشش کے لیے اگر انسان اس دنیا میں کچھ کر سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے۔ باری تعالیٰ ہی دعائوں کو سنتا ہےاور کون ہے جو یہ اختیار رکھتا ہو! جن لوگوں نے دنیا کی زندگی میں اپنے سفارشی بنا رکھے تھے وہ قیامت میں انہیں تلاش کریں گے مگر کہیں نہ پائیں گے :
{فَھَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ۭ} (الاعراف:۵۳)
’’(جہنّمی کہیں گے:) کیا ہمارے لیے کچھ سفارش کرنےوالے ہیں جو ہماری سفارش کریں یا ہمیں (دنیا میں) واپس بھیج دیا جائے تاکہ ہم ایسے اعمال کریں جو مختلف ہوں ان سے جو ہم کیا کرتے تھے۔‘‘
توحید ورسالت اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ صرف ایمان کو کافی نہ سمجھیں بلکہ ایمانیات کے تقاضوں کے مطابق عمل بھی کریں۔ کتنے ہی مسلمان ہیںجو پشت ہا پشت سے ایمانیات پر یقین رکھتے ہیں مگر بے محابا کافرانہ اور مشرکانہ اعمال بھی کر رہے ہیں‘حالانکہ قرآن مجید میں باربار ایمان کے ساتھ عمل ِصالح کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ یقیناً کافرانہ اور مشرکانہ اعمال سزا کا باعث ہیں اگرچہ کرنے والے مؤمن ہی کیوں نہ ہوں ‘کیونکہ عمل کے بغیر ایمان کامل نہیں اور ایمان کے بغیر عمل بے فائدہ ہے۔ { وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ(۱۰۶)}(یوسف) ’’اوران میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ اس کے سامنے دست ِسوال دراز کیا جائے۔ وہی حاجتوں کا پورا کرنے والا ہے اور وہی فریاد رس ہے۔ دعا خود ایک عبادت ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (( إِنَّ الدُّعَاءَ ھُوَ الْعِبَادَۃُ )) (سنن الترمذی) ’’بیشک دعا ہی اصل عبادت ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کے لیے کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ وہ تو ہردعا کو سنتا ہے‘چاہے کسی بھی وقت کی جائے: {وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶)} (قٓ) ’’اورہم زیادہ قریب ہیں اُس کے اُس کی رگ جان سے بھی ۔‘‘جو شخص اللہ کے سامنے دعا کرتا ہے وہ غایت درجے اطمینان پاتا ہے۔{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف}(آل عمران:۱۹) ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں دین تو صرف اسلام ہی ہے‘‘۔ اور دین ِاسلام اصل میں دین ِتوحید ہے ۔قرآن مجید میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ :{وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۘ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ قف} (القصص:۸۸) ’’اورنہ پکارو تم اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود (جس سے دعا کی جائے)۔کوئی معبود نہیں اُس کے سوا۔‘‘اللہ کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی کو حاجت روا یا دعائوں کو سننے والا اور پورا کرنے والا ماننا شرک ہے۔ شرک وہ واحد گناہ ہے جس کے بارے میں ایک سے زیادہ بار کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشے گا:
{اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُط}(النساء:۴۸‘۱۱۶)
’’بے شک اللہ نہیں معاف کرتا یہ(گناہ) کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور معاف کر دیتا ہے شرک کے علاوہ (باقی گناہ) جس کے لیے چاہے۔‘‘
الغرض ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے‘ خاص طو رپر اہل ِایمان شرکیہ اعمال سے بچتے رہیں ‘ اللہ کے سوا کسی سے گناہوں کی بخشش نہ مانگیں اور نہ ہی کسی طرح کی دعائیں مانگیں۔ سارے چھوٹے بڑے اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُسی کے محتاج ہیں۔ نماز میں یہ الفاظ بار بار دہرائے جاتے ہیں:{اِیَّاکَ نَعْبُدُ واِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ) یعنی اے ہمارے خالق و مالک! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گےاور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںاور چاہتے رہیں گے۔ جس طرح عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اسی طرح استعانت بھی اُس کے سوا کسی اور سے نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ سے بھی کبھی استعانت نہیں چاہی۔ رسول اللہﷺ خود بھی {اِیَّاکَ نَعْبُدُ واِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ) پر ہی عمل کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے۔ دو زخ سے بچنے کے لیے رسول اللہﷺ کی پیروی کرنا لازم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمانِ حقیقی کی دولت سے مالا مال فرمائے‘نیک اعمال کرنے اور بُرے اعمال بالخصوص شرک اور شرکیہ اعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے‘تاکہ ہم دوزخ اور اس کے عذاب سے بچ کر ہمیشگی کی راحت حاصل کرسکیں۔آمین!اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025