یہودیوں پر اُمّت ِمسلمہ کے احساناترضی الدین سیّدیہودی جو آج مسلم دنیا کے بدترین دشمن بنے ہوئے ہیں‘ کبھی وہ بھی ماہ وسال تھے جب ہم ان کے محافظ تھے اور ان کے علوم و فنون کو پروان چڑھانے میں معاون ومددگار تھے۔ یہودیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا طرزِعمل ریاست ِمدینہ کے قیام کے بعد ہی شروع کردیاگیا تھا۔ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے تحت کسی بھی تعصب کے بغیر انہیں اس شہر کا یکساں شہری قرار دیا گیا تھا۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ اپنی فطرت سے مغلوب ہوکر وہ اسی محسن ریاست کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ اگر دشمنوں کے ساتھ مل کر وہ سازشیں کرنے کھڑے نہ ہوتے تو شاید ہمیشہ مدینہ یا عرب ہی میں مقیم رہتے۔
فتح ِ یروشلم کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہر کانظم ونسق سنبھالا تو یہودیوں کو بھی وہاں آباد ہونے کی اجازت دی‘ حالانکہ عیسائیوں نے انہیں وہاں سے نکال باہر کیا تھا۔ ان کی ’’دیوارِگریہ‘‘ کو بھی حضرت عمر فاروقؓ ہی نےدریافت کرکے انہیںدیا تھا۔دوسری طرف چارسو سال تک یورپ جس طرح یہودیوں کے خلاف پنجے جھاڑ کر کھڑاہواتھا اور ایک ایک مرد‘ عورت اور بچے کو کولھو میں پیل کر انہیں اجتماعی طورپر ہلاک کررہا تھا‘ اس پورے دور میں مسلم خلافتیں ہی انہیں اپنے ہاں پناہ و تحفظ مہیّا کررہی تھیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو ناممکن تھاکہ یہ قوم پھرکبھی دنیا میں باقی رہ جاتی۔ ان مسلم حکومتوں میں ا نہیں اہم عہدے اور وزارتیں تک دی گئیں اوران کے عبادت خانوں کا مکمل تحفظ بھی کیاگیا ۔
امریکہ میں مقیم معروف رِبی بنجامن بلیخ اگرچہ بہت متعصّب ہے لیکن اپنی ضخیم کتاب "Jewish History and Culture"(شائع شدہ الفا‘ امریکہ) میں وہ بہرحال مسلمانوں کے احسانات کا ذکر بہت فخر سے کرتاہے۔ لکھتا ہے کہ مغربی تعصب کے برعکس اسلامی دور میں یہودیوںکو حیرت انگیز طورپر برداشت‘ تہذیب اور علم و د انش کی معراج سے واسطہ پڑا‘اور برداشت کا یہ دورانیہ سینکڑوں سال تک جاری رہا۔ عظیم رومی سلطنت پر قابو پانے کے بعد اسلامی ریاستوں میں یہودیوں نے اپنی زندگی کا عمدہ ترین تخلیقی و پُرامن دورپایا۔ اپنے اندر موجود علمی صلاحیتوں سے انہوں نے عربوں کو بھی فیض پہنچایاجسے انہوں نے قبول بھی کیا۔ آج جبکہ عیسائیوں کو یہودیوں کی ہمدرد قوم اور مسلمانوں کو اُن کی دشمن قوم سمجھا جاتا ہے‘ اسلام کے ابتدائی دور میں یہ معاملہ بالکل برعکس تھا۔ اسلامی دور میں یہودیوں کی علمی صلاحیتوں میں خاصا اضافہ ہوا تھا۔ یہودیوں کا سب سے بڑا فقہی مفکرمامون بن موسیٰ بھی دراصل سلطان صلاح الدین کا طبیب ِ اعظم رہاتھا۔ (باب: یروشلم۔ ’’The Crescent and the Cross‘‘)
ایک اور خاتون مستشرق کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب ’’یروشلم: ایک شہر ‘ تین مذاہب‘‘ میں تحریر کرتی ہے کہ آخری صلیبی جنگ میں فتح یابی کے بعدسلطان صلاح الدین ایوبی نے یہودیوں کو بھی یروشلم آنے کی دعوت دی۔ فتح یابی کے بعد صلیبیوں نے انہیں یروشلم سے نکال باہر کیا تھا۔ ۱۱۹۰ء میں سلطان نے اسقلون کے یہودیوں کو اپنا صومعہ تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی اوران کے لیے مسلمانوں کے ساتھ کا علاقہ مختص کیا گیا تھا۔۱۵۳۵ء میں ایک اطالوی یہودی ڈیوڈ ڈئی روزی نے یروشلم کا سفرکرنے کے بعد لکھا کہ فلسطین میں یہودی سرکاری منصبوں اور عہدوں پر فائز ہیں‘یورپ میں جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں یہودیوں کے لیے کوئی خصوصی ٹیکس بھی نہیں ہے۔ کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہے کہ یہودی برادری کی خودمختاری کو عثمانی حکام نہ صرف تحفظ دیتے تھے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ یہودی یہاں خود کو اس قدر محفوظ و خوش حال سمجھتے تھے کہ۱۵۲۳ء میں وہ اس یہودی کے خلاف خود اُٹھ کھڑے ہوئے تھےجو اپنے آپ کو یہودیوں کا مسیحا قرار دیتا تھا۔(باب : عثمانیوں کا شہر)
رواداری کی ہماری تاریخ سفر کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے ۔ عثمانی دور کے ایک ترک سفارت کار نے جنگ عظیم دوم میں اپنی جان کا خطرہ مول لے کر ۸۰ یہودیوں کاتحفظ کیا تھا۔ اس کا انتقال ۹۱ سال کی عمر میں جون ۲۰۰۲ء میں استنبول میں ہوا ۔ سفارت کار کو اُس کی زندگی ہی میں‘ ۲۰۰۱ء میں‘ ترکی میں مقیم اسرائیلی سفیر یوری بارنیر(Uri Bar Ner) نے یہودیوں کی جان بچانے پراپنے ملک کی طرف سے ایک میڈل سے نوازا اور اُس کاخصوصی شکریہ ادا کیا تھا۔ ترک سفیر۹۴۱ ۱ء تا ۱۹۴۴ء فرانس میں متعین تھا۔ ۱۹۴۳ء کی ایک صبح اسے کسی یہودی مزدور نے آگا ہ کیا کہ سمندری شہر’’مارسیلی ‘‘کے ۸۰ ترک یہودی مزدوروں کو ایک مویشی گاڑی میں گرفتار کرکے لے جایا گیا ہے۔ خبر سنتے ہی سفیر ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگا جہاں ایک ڈبے میں اُس نے کئی یہودیوں کو ایک دوسرے کے اوپر پھینکا ہواپایا۔ گسٹاپو کمانڈر نے غصےمیں اُس سے سوال کیا: ’’آپ کا یہاں کیا کام؟‘‘ سفیر نے کہا کہ یہ میرے ملک کے شہری ہیں‘ انہیں چھوڑدو! اُس نے کہا: ’’یہودی یہودی ہوتا ہے‘ اس کا کسی ملک سے تعلق نہیں ہوتا۔‘‘ بہادر ترک سفیر گاڑی پر چڑھ گیا۔ اگلے اسٹیشن پر اُسے جرمن افسران ملے اور بتایا کہ یہودیوں والی ٹرین تو یہاں سے نکل چکی ہے‘ ہم آپ کواپنی کار کے ذریعے واپس آپ کے شہر چھوڑ دیتے ہیں۔ سفیر نے بتایا کہ ہمارے ۸۰ یہودی شہری جانوروں والی ٹرین میں ڈالے گئے ہیں اور مَیں یہاں ترک حکوځمت کا سفیرہوں۔ جرمن حکام اس کی یہ جرأت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور انہوں نے ٹرین سے تمام ۸۰ یہودیوں کومجبوراً نیچےاتار دیا۔ اترتے ہی قیدی یہودیوں نے سفیر کا دلی شکریہ اداکیا اور ایک ایک مزدور اس کے گلے لگا۔ ترک سفیرنے بتایا کہ انہیں متوقع موت سے بچانے پر اُسے جتنی خوشی ہوئی‘ اتنی خوشی اسے اب تک کبھی نہیں ہوئی ہے۔ ایک یہی نہیں بلکہ ترکی کے کئی اور سفارت کاروں نےبھی یہودیوں کی جان بچانے میں ا ہم کردار ادا کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ عظیم دوم میں غیر جانبدار ترکی نے جرمنی کی گسٹاپو سے کم از کم بیس ہزار یہودیوں کی جانیں بچائی تھیں۔ (حوالہ: لوس اینجلیس ٹائمز‘ ۲۱نومبر۲۰۰۲ء)
اسی طرح مراکش کے بادشاہ سلطان محمد نےجنگ عظیم دوم کے دوران اپنے ملک کے یہودیوں کو فرانسیسی حکومت کی درخواست کے باوجود کسی قسم کی ایذا پہنچانے یافرانس کے حوالے کرنے سے سختی سے انکار کردیا تھا۔ سلطان نے کہا تھا: ’’ہمارے پاس یہودی نہیں بلکہ صرف مراکشی بستے ہیں‘‘۔ خود یہودی بھی مراکش ہی کو اپناوطن کہتے تھے۔ سلطان نے فرانسیسی حکومت سے دوٹوک طور پر کہہ دیاتھا کہ ’’مَیں یہود مخالف قوانین کو اپنے ہاں اختیار کرنے سے یکسر انکار کرتا ہوں۔ یہودی میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں‘‘۔۱۹۶۱ ءمیں سلطان کی وفات پر وہاں کے ۷۵۰۰۰ یہودی مغموم و افسردہ تھے۔ ایک اور ترک سفارت کا ر صلاح الدین نے بھی درجنوں ترک یہودیوں کو جرمنی منتقل ہونے سے بچایا تھا۔ وہ لوگ یونان کی سرحد سے متصل علاقے میں مقیم تھے۔ (لوس اینجلیس ٹائمز‘ ۲۵ اپریل ۲۰۰۲) واضح رہے کہ یہ دور خلافت عثمانیہ کا تھا۔
معروف اسرائیلی اخبار ’’ہیریٹز‘‘ ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں انکشاف کرتاہے کہ ترک یہودی شہری جو یورپ کے مختلف حصوں میں تلاشِ معاش کے لیے سرگرداں تھے‘ انہیں Holocaustسے محفوظ رکھنے کی خاطر کئی ترک سفیروں اور قونصل جنرلوں نے گاڑیوں کا انتظام کرکے ہنگامی طورپر واپس استنبول روانہ کیا تھا۔ اس طرح ترکی نے اپنے ہزاروں یہودی شہریوں کو ہٹلر کے سفاکانہ قتل عام سے بچایا تھا۔
وکی پیڈیا اس حوالے سے بتاتی ہے کہ اسپین میں جب یہودیوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی‘ مسلم دنیا میں انہیں خوش آمدید کہا جا رہا تھا۔ عثمانی خلافت میں ایک اہم اقلیتی گروپ کی حیثیت سے وہ تجارت میں بھی مصروف رہے اور بے حد پُرسکون ومطمئن زندگی گزارتے رہے۔ (حوالہ: Jews in the Muslim World)
اگر ہم معروف مغربی مصنّفین کی کتابیں پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہودی قوم پر مسلمانوں کے احسانات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے وہ شرماتے نہیں ہیں۔ اسی باعث راقم سوچتاہے کہ یہودیوں یا اسرائیل کی ہربات کوتسلیم کرلینے یا مذاکرات کی خاطر اُن کے ساتھ میز پر جابیٹھنے سے پہلے ہمار ے مقتدر طبقے‘ خصوصاً عرب شاہوں اور پاکستانی حکمرانوں پر لازم ٹھہرنا چاہیے کہ وہ مسلم تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں جو اوّل تا آخر رواداری و کشادہ دلی سے بھری ہوئی ہے۔ اس طرح خود مرعو ب ہونےکی بجائے وہ صہیونیوں ہی کو مرعو ب کرکے اُٹھیں گے۔ ہمارے بادشاہ اور وزرائے اعظم انہیں بتائیں کہ وہ ہم ہی تھے جنہوں نے عیسائیوں کے تشدد سے تمہیں بچایا تھا اور تمہارے علم و فن کو صیقل کیاتھا‘ ورنہ دنیا میں نہ تو تم موجود ہوتے اور نہ تمہارا علم باقی رہتا۔ لہٰذاکم از کم تم ہمارے اس احسان کاکوئی صلہ توہمیں دو۔ بجائے ہمارے فیاضانہ سلوک کے بدلے کے ‘تم الٹا فلسطینیوں ہی کو انفرادی واجتماعی طورپر ہلاک کرتے رہتے ہو۔ اُن کی آبائی زمینیں بھی تم نے اُن سے چھین لی ہیں۔ وہ دن آخر کب آئے گا جب تم ہمارے ساتھ بھی برابری کا سلوک کروگے؟تمہاری تاریخ آپ ہی گواہی دے رہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ تم نے ہمیشہ کھلی چھپی دشمنی روا رکھی ہے۔ دنیا میں اگر تمہارے خلاف کوئی ’’ہولوکاسٹ‘‘ ہوا ہے تو اس کی ذمہ دار مغربی اقوام ہیں ‘نہ کہ مسلمان۔ سو اپنے ظلم کا بدلہ تمہیں ا نہی سے لینا چاہیے۔ ہمارے ساتھ تمہارا کیا لینا دینا!
انہی حقائق و شواہد کی بنا پر آخری ترک خلیفہ عبدالمجید نے یروشلم یہودیوں کے حوالے کردینے کی درخواست کے جواب میں ان سے کہا تھا کہ ’’یروشلم تمہیں صرف میر ی لاش ہی پر مل سکتا ہے!‘‘ اور شاہ عبدالعزیز ابن سعودنے انہیں جواب دیا تھا کہ یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم کا ہم مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اعتماد بھر ی اس گفتگو کے بعد مجال نہیں ہونی چاہیے کہ یہودی و صہیونی کسی مسئلے پر ہم پر کوئی دبائو ڈال سکیں یا کوئی غلط فیصلہ ہم پرمسلط کر سکیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ اوّل تو ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے اور دوم تاریخ کے مطالعے سے بھی مطلق دلچسپی نہیں رکھتا۔ ایسے میں ان میں جرأت و بے خوفی پیدا ہو تو کہاں سے ہو!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025