(دعوت و عزیمت) امر بالمعروف ونہی عن المنکر - انجینئر محمد رشیدعمر

11 /

امر بالمعروف ونہی عن المنکرانجینئر محمد رشید عمر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ فرائض ِ نبوت و رسالت کا نچوڑ ہے۔ نبی کریمﷺ کی صفات سورۃ الاعراف میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہیں:
{.....یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰىہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰۗئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ۭ} (آیت ۱۵۷)
’’..... وہ (نبی کریمﷺ) حکم کرتے ہیں ان کو نیک کام کا اور منع کرتے ہیں برے کام سے اور حلال کرتے ہیں ان کے لیے سب پاک چیزیں اور حرام کرتے ہیں ان پر ناپاک چیزیں۔ اور اتارتے ہیں ان پر سے ان کے وہ بوجھ اور طوق جو اُن پر تھے۔‘‘
ختم نبوت کے بعد اس فریضہ کی ادائیگی اُمّت کے ذمہ ہے۔ اگر افراد اُمّت یہ فریضہ ادانہیں کررہے یااس کی ادائیگی کا تصوّر ذہنوں میں واضح نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی ذِمہ داریوں کا تصوّر ہی مکمل نہیں ہے۔ اُمّت ِمسلمہ کا فرد ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ فریضہ اس کی زندگی کے کاموں کالازمی جزو ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ۭ} (آل عمران:۱۱۰)
’’تم ہوبہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی ہے عالم میں‘ حکم کرتے ہواچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے ‘اور ایمان لاتے ہو اللہ پر ۔‘‘
ہر مسلمان ایسی اجتماعیت کا حصّہ ہے جس کے لیے لازم ہے کہ وہ زندگی کے ہر گوشہ میں اللہ کے دین پر عمل پیرا ہو۔ اس اجتماعیت کے اصحابِ حل و عقد کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ فریضہ ادا کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ(۴۱)} (الحج)
’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو اقتدار دیں ملک میں تو وہ قائم رکھیں نماز اور ادا کریں زکوٰۃ اور حکم کریں بھلے کام کا اور منع کریں برائی سے ۔اور اللہ کے اختیار میں ہے آخر ہر کام کا۔‘‘
حالات کا تنزل ان اصحابِ حل و عقد کو کہاں لا کھڑا کرتا ہے ‘ اس کی نشاندہی رسول اللہﷺ نے فرما دی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَـقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ ۔ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ومَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ومَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ))(صحیح مسلم)
’’مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی کسی اُمّت پر اللہ نے مبعوث فرمایا تو اس کو اُمّت میں مخلص احباب اور ساتھی مل گئے جو اس کی سُنّت پر عمل کرتے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے۔ پھر ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آ ئے جن کا عمل ان کے قول کے مطابق نہ تھااوروہ ایسے کاموں کا ارتکاب کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا ۔ پس جو شخص ان کے ساتھ قوتِ بازو سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے ‘ان کے ساتھ دل سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو ان کے ساتھ زبان سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان کا درجہ بھی باقی نہیں۔‘‘ (رواہ مسلم‘ ماخوذ از ریاض الصالحین)
ان حالات میں فرمانِ خداوندی کے مطابق:
{وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ۭ وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴)} (آل عمران)
’’اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کریں برائی سے ۔اور وہی ہیں فلاح پانے والے۔‘‘
ایسے گروہ کے لیے امتیازی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں بیان کردہ اہل ایمان کی صفات میں بھی ان حضرات کا ذکر مضمر ہے۔
نیکی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوت سے برائی کا قلع قمع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کا بھرپور استعمال اگر نہیں ہوگا تو نیکی سمٹتے سمٹتے ناپید کے درجہ پر پہنچ جائے گی۔ برائی تو گندگی کے ڈھیر پر اُگنے والے خود رو پودوں کی طرح پھیلتی ہے اور نظروں کو بھلی لگتی ہے (گندگی کا ایک ڈھیر سودی معیشت ہے)۔ نیکی کی حفاظت بہترین قوتیں اور صلاحیتیں استعمال کیے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ فریضہ کس قدر اہم ہے ‘ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ خالق کائنات خود یہ کام کرتا ہے:
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاۗءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ۚ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۹۰)} (النحل)
’’بے شک اللہ حکم کرتا ہے عدل اور بھلائی کرنے کا اور قرابت داروںکو (اُن کے حقوق) دینے کا‘ اور منع کرتا ہے بے حیائی سے‘ نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے ۔ وہ خود تمہیں نصیحت کر رہا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
عدل و احسان پر مبنی معاشرہ جس میں درجہ بدرجہ تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو‘ اس کا قیام ممکن نہیں جب تک بے حیائی وبرائی کا تدارک اور سرکش طبیعتوں کا علاج نہ کیا جائے۔اِس وقت معاشرتی بے حیائی عروج پر ہے ‘لیکن اس سے بھی بڑھ کر وہ معاشی بے حیائی ہے جس کا نام ’’سود‘‘ ہے۔ یہ تمام بے حیائیوںکی ماں ہے اور اس وقت طاقتور باطل قوتوں نے پوری دنیا کو اس کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ان برائیوں کا خاتمہ کیے بغیر عدل و انصاف ممکن نہیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے ‘بالخصوص ان حالات میں جبکہ برائی کو تحفظ دینے والے اقتدار کے چشموں پر قابض ہوں۔ اس لیے داعیانِ خیر کے لیے ضروری ہو جاتا ہے وہ ایک جماعت کی شکل میں منظم ہوں اور اس جماعت کی قوتوں اورصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر برائی کے قلعوں کی دیواروں کو ڈھانے میں کوئی دریغ نہ کریں۔
قوت و وسائل کی کمی اور کمزوری کے خدشات تو جنم لیتے ہیں اور ناصحین بھی حق نصیحت ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ لیکن غور کیجیے‘ کیا یہ فریضہ ادا کیے بغیر محاسبہ ٔ الٰہی کا سامنا کرنا ممکن ہے؟ تو ان کمزوریوں کا علاج کہاں سے ہوگا؟ ان تمام کمزوریوں کا علاج ایمان کی قوت ہی سے ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُس کی راہ میں اُس کے دیے ہوئے سے ایک دانہ لگائیں گے تو وہ سات سو گنا بڑھا کر دیتا ہے اور صبر کرنے والوں کو بے حساب دیتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہےتو اگر ہم اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کو اللہ کے حکموں سے بغاوت یعنی بے حیائی اور برائی کو نیست و نابود کرنے میں استعمال کریں گے تو وہ تمام قوتوں کا مالک ہمیں مطلوبہ قوتوںسے مالامال کر دے گا۔ اس کے سامنے قلت و کثرت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ازروئے الفاظِ قرآنی:
{کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًۢ بِاِذْنِ اللہِ ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۲۴۹)} (البقرۃ)
’’بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے ۔اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس فریضہ کی ادائیگی سے غفلت کی صورت میں قرآن اور حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور دعائوں کی عدم قبولیت کی وعید سنائی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں اولاً جو کمزوری رونما ہوئی یہ تھی کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے سے ملاقات کرتا تو اسے کہتا : اے فلاں‘ تُو اللہ س ڈر اور جو کام تُو کر رہا ہے اس کو چھوڑ دے‘ یہ تیرے لیے حلال نہیں ہے۔ پھر دوسرے دن اس کو اسی حالت میں پاتا تو یہ بات اس کو نہ روکتی کہ وہ اس کے ساتھ کھانے پینے بیٹھنے میں شامل ہو جائے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کر دیا۔ پھر آپﷺ نے(سورۃ المائدۃ کی) یہ آیات تلاوت فرمائیں:’’جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریم ؑ کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد ود سے تجاوز کرتے تھے ۔ وہ ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے روکتے نہیں تھے جو وہ کرتے تھے۔ بہت ہی برا طرزِعمل ہے جس پر وہ کاربند تھے۔ تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے ‘ بہت برا ہے (وہ یہ کہ)اللہ ان سے ناخوش ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔اگر وہ اللہ پر‘ پیغمبرؐ پر اورجو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے ‘لیکن ان میں اکثر بدکردار ہیں۔‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم تمہیں لازماً نیکی کا حکم دینا ہو گا اور تمہیں لازماً برائی سے روکنا ہو گا‘ اور تمہیں لازماً ظالم کے ہاتھ کو قوت کے ساتھ پکڑ لینا ہو گا اور تمہیں اس کو لازماً حق کی طرف موڑنا ہوگا اور اسے حق کے اوپر قائم رکھنا ہو گا۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کے دلوں کو یکساں کر دے گا ‘ پھر تم پر بھی لعنت اتار دے گا جیسے کہ بنی اسرائیل پر لعنت کی۔ ‘‘
متذکرہ بالا الفاظ ابودائود کے ہیں‘ جبکہ ترمذی کے الفاظ یہ ہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جب بنی اسرائیل نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے تو ان کو ان کے علماء نے منع کیا‘ لیکن وہ باز نہیں آئے۔ پھر علماء ان کی مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھنے لگے اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کے دلوں کو یکساں کر دیا۔اور دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے ان کو ملعون قرار دیا۔ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حدود سے متجاوز ہو گئے تھے۔ (راوی کہتا ہے کہ) رسول اللہﷺ ٹیک لگائے بیٹھے تھے ‘آپؐ اُٹھ بیٹھے اور آپؐ نےفرمایا :’’تمہیں قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ‘ تمہیں ان کو حق پر آمادہ کرنا ہو گا۔‘‘ (ریاض الصالحین)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :’’ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے‘‘۔ (ابودائود اور ترمذی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’جو شخص برائی کو دیکھے وہ اس کو ہاتھ (کی قوت) سے روکنے کی کوشش کرے ۔اگر اس کی استطاعت نہیں تو زبان سے منع کرے ۔اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں برا جانے ۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)
اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :’’ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں جہاں ضرورت ہو اس فریضہ کو ادا کرے۔ گھر کے سربراہ کو اپنے اہل و عیال اور ادارے کے سربراہ کو اپنے ماتحتوں کے اخلاق و اعمال کی اصلاح کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔‘‘
ا س ذمہ داری کی ادائیگی کی اہمیت جاننے کے لیے اجتماعی قومی اعمال کا معروفات اور منکرات کے حوالے سے چٹھا تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ معروفات اگر کوئی ہوں گی بھی تو درج ذیل منکرات کی موجودگی میں وہ بے وزن اور غیر مؤثر ہو کر رہ جائیں گی:
(۱) {وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵) فَلَمَّآ اٰتٰىھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ (۷۶) فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ(۷۷)} (التوبۃ)
’’ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا اگر وہ ہم کو اپنے فضل سے مال دے تو ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور نیکوکاروں میں سے ہو جائیں گے۔پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دیا تو اس میں بخل کیا اور پھر گئے۔ ٹال مٹول کر کے پھر اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اُس دن تک جب کہ وہ اس سے ملیں گے‘ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتےر ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں یعنی جھوٹ‘ خیانت اور وعدہ خلافی۔ ہمارے معاشرے میں‘ الا ماشاء اللہ جتنا کوئی بڑا ہے اتنا ہی زیادہ ان اخلاقی بیماریوں کا شکار ہے۔ ایسی منافقت کا شکار معاشرہ درج ذیل فرمانِ خداوندی کی تصویر بنا ہوا ہے:
{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْ ۢ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِیَہُمْ ۭ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۶۷)} (التوبۃ)
’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے میں سے ہیں (یہ ایک دوسرے کے ساتھی‘ مددگار اور پشت پناہ ہیں)۔ یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے سو اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بے شک منافق ہی فاسق و بدکردار ہیں۔‘‘
(۲) ملک عزیز کا ہر فرد قومی سطح پر لاکھوں کے سودی قرض کا مقروض ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
{فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ج} (البقرۃ:۲۷۹)
’’پھر اگر ایسا نہیںکرتے (سود نہیں چھوڑتے) تو اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔‘‘
جن کے خلاف اللہ اور اُس کا رسول جنگ کا اعلان کر دے انہیں امن کیسے نصیب ہو سکتا ہے!
(۳) ہمارا عدالتی نظام اسلامی شرعی قوانین کی بجائے انگریزوں کے قانون پر چل رہا ہے۔ اللہ کا فتویٰ ایسے لوگوں کے لیے یہ ہے:
{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴)…… فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵) …… فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)}
’’جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی تو کافر ہیں… وہی تو ظالم ہیں … وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
(۴) اللہ تعالیٰ فحاشی ‘عریانی اور بے حیائی سے منع کرتا ہے‘مَردوں اور عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ لیکن ہمارا نظامِ حکمرانی انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اداروں میں غیر محرم مَردوں اور غیر محرم عورتوں کے اختلاط پر کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ لازمی کوٹہ مقرر ہے۔ معاملات نظر بازی سے بہت آگے جا چکے ہیں۔
(۵) تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کے واقعات کی آڑ میں سیکولر اندازِ فکر پروان چڑھایا جارہا ہے ۔ ۲۰۰۷ء کی آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرزم کے معانی بیان کرتےہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ معاملات کو سمجھنے میں اللہ اور آخرت کوزیرغور ہی نہ لایا جائے۔
(۶) اجتماعی سطح پر نماز اور زکوٰۃ کے نظام کے قیام کا تصوّر تک موجود نہیں۔
(۷) طاقتور کا کمزوروں پر ظلم الگ کہانی ہے جس کے نمونے سوشل میڈیا پر آئے دن باتصویر نشر ہوتے رہتے ہیں۔
(۸) حد تو یہ ہے کہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے سدوم اور عامورہ کی بستیوں کا ہم جنس پرستی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔
(۹) عوام کا دین اور ہے ‘حکمرانوں کا دین اور ہے ۔ ایک عام آدمی کا دین اور ہے‘ فرقوں اور جماعتوں کا دین اور ہے۔ دین پر چلنے کے اعتبار سے ہر کسی کی اپنی ترتیب اور ترجیحات ہیں۔ایسے لوگوں کا مقدر آخرت میں شدید ترین عذاب اور دنیاوی زندگی میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
ان سب کبیرہ جرائم کی موجودگی میں ع ’’ہوئےتم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!‘‘ کے مصداق جس قوم نے ان جرائم کو مرغوب بنا لیا ہو اور وہ ان کی پشت پناہ بن گئی ہواس کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کے لیے کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں چھیانوے فیصد مسلمان آباد ہیں‘ جس کے حکمران عمرہ‘ حج اور روضہ ٔ رسول ﷺپر حاضری اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اور عوام‘ مؤمنین‘ مسلمین حاجی ‘نمازی ‘روزہ دار‘ زکوٰۃ دینے والے‘ دعواتِ اسلامیہ کے کارکنان‘مبلغین دین‘ عاشقانِ رسولؐ اور محافظین ِختم نبوت اور مجاہدین ہیں اور جس کے علماء اور شیوخ کے ناموں کے ساتھ ولی زمانہ‘ فقیہہ عصر‘ امام زمانہ‘ شیخ الاسلام اور معلوم نہیں کیا کچھ لکھا جاتا ہے۔ ان سب کی موجودگی میں کفر ‘ ظلم اور فسق و فجور‘ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ جاری ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو‘ تم یہ آیت پڑھتے ہو: { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ۚ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۭ} (المائدۃ:۱۰۵) ’’اے ایمان والو! تم صرف اپنا خیال رکھو ۔تمہیں وہ لوگ ضرر نہیں پہنچاسکتے جو گمراہ ہو گئے‘ جب تم ہدایت پر رہو گے‘‘ اور مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ‘ فرماتے تھے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں‘ تو قریب ہے کہ عذابِ خداوندی ان سب کو اپنی لپٹ میں لے لے۔‘‘ (ابودائود ‘ ترمذی‘ نسائی‘ ریاض الصالحین)
آج یہ سب جانتے بوجھتے اس فریضہ کی ادائیگی سے کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ دین کا کوئی فریضہ جس قدر اہم ہوتا ہے اس کو ادا کرنے کے راستے میں شیطان اور شیطانی قوتوں کی مزاحمت بھی اسی قدر شدید ہوتی ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں بڑی رکاوٹ انسان کا نفس بنتا ہے۔ شیطان اس کو ایسی پٹیاں پڑھاتا ہے کہ اس فریضہ کو ادا کرنے کی جرأت اور ہمت پیدا ہی نہیں  ہونے دیتا۔ مزید نزغ الشیٰطن کا اندیشہ بھی ہر وقت لگا رہتا ہے۔ چنانچہ یہ کام کرتے ہوئے اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
یہ فریضہ اس قدر سچا اور اہم ہے کہ اس کو ادا کرنے والوں کی آوازوں سے نظام باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور وہ پوری قوت سے ایسی زبانوں کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔ داعیانِ حق کی آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مذکورہ بالا مؤمنین مسلمین حاجی نمازی دعواتِ اسلامیہ کے کارکنان‘ مبلغین دین‘ عاشقان رسولؐ ‘ اولیائے زمانہ‘ شیوخ الاسلام جو اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے مزے لے رہے ہیںان کو جان لینا چاہیے کہ جس طرح ع ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ‘‘اگر آج کے فرعونوں کی ناک رگڑوانی ہے تو یہ منزل بگرام کے جیل خانوں او ر گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں سے گزر کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ فرمانِ رسولﷺ کی صداقت کا ظہور کہ آخری دور اسلام کے غلبہ کا ہےتو اس کے لیے ایسی ہی جدّوجُہد ناگزیر ہے۔