(تزکیۂ نفس) اِصلاحِ قلب :کیوں اورکیسے ؟ - احمد علی محمودی

11 /

اِصلاحِ قلب :کیوں اورکیسے؟احمدعلی محمودیانسان دو چیزوں سے مرکب ہے: ایک جسم اور دوسری روح۔ جسم کی نشوونما اور پرورش کے لیےمادی غذا کی جب کہ روح کو طاقت ور اور مضبوط رکھنے کے لیے روحانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان کے جسم میں کوئی تکلیف ہو تو اسے جسمانی مرض کہتے اور جب نیت میں فتور پیدا ہو تو اسے روحانی یا باطنی روگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جسمانی امراض کا بروقت اور صحیح علاج نہ کیا جائے تو انسان قبر کےگڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر روحانی یا باطنی امراض سے بے پروائی برتی جائے‘ علاج نہ کروایا جائے تو انسان جہنّم کے گڑھے میں پہنچ سکتا ہے۔ مادّہ پرستی کے اس دور میں لوگ جسمانی امراض کے علاج کے لیے توبہت فکر مند ہوتے ہیں لیکن باطنی امراض سے عمومی طور پر غافل ہیں۔ جسمانی امراض سے زیادہ مہلک باطنی امراض ہیں۔یہ انسان کی عقبیٰ تو برباد کرتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ انسان کی دنیاوی زندگی کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إنَّ اللہَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی اَجْسَامِكُمْ وَلَا إِلٰی صُوَرِكمْ ‘ وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِكُمْ وَاَعْمَالِكُمْ)) (رَوَاهُ مُسْلِم)
’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا‘ بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔‘‘
قلب ربّ العالمین اور احکم الحاکمین کے نظر فرمانے کا مقام ہے۔ اُس شخص پر تعجب ہے جو محض اپنے چہرے کا خاص خیال رکھتا ہے‘ جو مخلوق کے دیکھنے کی چیز ہے۔اس کو دھوتا ‘ گندگیوں اور میل کچیل سے صاف کرتا اور حتی الوسع خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہےتاکہ مخلوق کسی عیب پر مطلع نہ ہو۔ اس کے برعکس اپنے اُس قلب کا خیال نہیں کرتا جو ربّ العالمین کے نظر فرمانے کا مقام ہےکہ کسی عیب ‘ برائی ‘ گندگی اور آفت کو اس میں نہ دیکھےبلکہ اس کو تو فضیحتوں‘ گندگیوں اور برائیوں میں ڈالے رکھتا ہے۔ اگر مخلوقات میں سے کوئی اس کو دیکھ لے تو اس سے علیحدگی اور جدائی اختیار کرلے۔ قلب ایسا بادشاہ اور رئیس ہے کہ اطاعت اور فرماں برداری کے قابل ہے اور تمام اعضاء انسانی اس کے تابع اور ماتحت ہیں۔لہٰذا جب متبوع میں صلاحیت پیدا ہوگی تو تابع میں یقینی طور پر ظاہر ہوگی اور جب بادشاہ راہ ِراست اختیار کرے گا تو اس کی رعایا خود راہ راست پر آجائے گی۔ اس چیز کو نبی اکرمﷺ نے یوںارشاد فرمایا:
((أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً ‘ إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ‘ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ))(رواہ ابن ماجہ)
’’سن رکھو!بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے اور وہ خراب ہو تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے۔سن رکھو ! وہ قلب ہے۔‘‘
﴿حرام و حلال اور مشتبہ امور میں احتیاط سے کام وہی شخص لے سکتا ہے جسے قلب ِسلیم حاصل ہو۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ قلب کی صحت اور سلامتی پر جسمانی صحت و صلاح کا اصل دارومدار ہے۔ ہمارے اعمال درست ہوں ‘اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قلب کو درست رکھیں۔ جس کا دل ایک خدا کا ہو گیا تو لازماً وہ انسان مشتبہات کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتا‘ لیکن اگر دل میں یکسوئی اور انابت الی اللہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوسکی تو اسے قلب سلیم نہیں کہہ سکتے۔ ایسی صورت میں مشتبہات تو کیا‘ انسان ممنوعات و محرمات کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے۔ قلب ِسلیم تمام بھلائیوں کا سر چشمہ اور بذاتِ خود بڑی نعمت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
{یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ(۸۹) }(الشعراء)
’’جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔ بجز اس کے کہ کوئی صحیح سالم دل لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس آیا ہو۔‘‘
صحت ِقلب کی پہچان کے لیے قرآن حکیم کی یہ آیات بہت اہم ہیں:
{وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ (۳۱) ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ (۳۲) مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ(۳۳)} (قٓ)
’’اور جنت پرہیزگاروں کے لیے بالکل قریب کر دی جائے گی‘ ذرا بھی دور نہ ہوگی۔ یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘ ہر اُس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والااور پابندی کرنے والا ہو۔ جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور رجوع کرنے والا گرویدہ دل لے کر آیا ہو۔‘‘
معلوم ہوا کہ قلب ِسلیم وہی ہو سکتا ہے جس کی حیثیت دلِ گرویدہ کی سی ہو ‘ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب برابر رجوع رہتا ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں حضورِ اَقدسﷺ نے تقویٰ کا مستقر دل کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرمایا: ((اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا)) (صحیح مسلم) ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے!‘‘ معلوم ہو ا کہ تقویٰ کا اصل مرکز انسان کا دل ہے ۔ دل میں اگر خدا کا خوف اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس پایا جاتا ہے تو اس کا اثر انسان کی پوری زندگی میں نمایاں ہو کر رہے گا ۔کوئی اگر زندگی میں خوش گوار تبدیلی کا خواہش مند ہے تو اسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اُس کے دل کی حالت درست ہو‘ اور دل کی درستی تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں ۔ تقویٰ دل کا ادب ہے۔ دل اپنی فطری حالت میں رہ سکے ‘اس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں تقویٰ کو جگہ دی جائے۔
حجۃ الاسلام امام محمد غزالی ؒ فرماتے ہیں: ’’ظاہری اَعمال کا باطنی اَوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد‘ رِیا اور تکبّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔ ‘‘ (منہاج العابدین: ص۱۳)
باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اِصلاح بہت ضروری ہے۔ امام محمد غزالی ؒایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’جس کی حفاظت اور نگہداشت بہت ضروری ہے وہ دل ہے کیونکہ یہ تمام جسم کی اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تیرا دل خراب ہو جائے تو تمام اعضاء خراب ہوجائیں گے اور اگر تُو اس کی اصلاح کرلے تو باقی سب اعضاء کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی۔ کیونکہ دل درخت کے تنے کی مانند ہے اور باقی اعضاء شاخوں کی طرح‘ اور شاخوں کی اصلاح یا خرابی درخت کے تنے پر موقوف ہے۔ تو اگر تیری آنکھ‘ زبان‘ پیٹ وغیرہ درست ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا دل درست اور اصلاح یافتہ ہے اور اگر یہ تمام اعضاء گناہوں کی طرف راغب ہوں تو سمجھ لے کہ تیرا دل خراب ہے۔ پھر تجھے یقین کرلینا چاہیے کہ دل کا فساد اور سنگین ہے۔ اس لیے اصلاحِ قلب کی طرف پوری توجہ دے تاکہ تمام اعضاء کی اصلاح ہوجائے اور تُو روحانی راحت محسوس کرے۔ پھر قلب کی اِصلاح نہایت مشکل اور دشوار ہے‘ کیونکہ اس کی خرابی خطرات ووَساوِس پر مبنی ہے جن کا پیدا ہونا بندے کے اختیار میں نہیں۔ اس لیے اس کی اصلاح میں پوری ہوشیاری ‘بیداری اور بہت زیادہ جدّوجُہد کی ضرورت ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر اصحاب ِمجاہدہ و ریاضت اِصلاحِ قلب کو زیادہ دُشوار خیال کرتے ہیں اور اَربابِ بصیرت اُس کی اصلاح کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔‘‘ (منہاج العابدین : ص۱۶۴)
امام غزالی ؒمزید فرماتے ہیں: ’’قلب ایک قلعہ ہے اور شیطان دشمن ہے اور وہ چاہتا ہے کہ قلعہ میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرلے۔ دشمن سے قلعہ کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے کہ اس کے دروازوں کی حفاظت کی جائے اور تمام گزرگاہوں کو بچایا جائے۔ جو شخص حفاظت کرنا نہ جانتا ہو‘ وہ حفاظت بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ وسواسِ شیطانی سے دل کی حفاظت کرنا واجب ہے‘ بلکہ یہ کام ہر مکلّف پر بھی واجب ہوتا ہے‘ جب تک شیطانی گزرگاہوں سے واقف نہ ہو تب تک شیطان کو دور نہیں کرسکتا‘ اس لیے ان گزر گاہوں کاعلم حاصل کرنا واجب ہے اور ان دروازوں سے آگاہ ہونا بھی واجب ہے۔ یہی بندے کی صفات ہیں اور یہ کئی ایک ہیں‘ مثلاً:

۱۔ غضب وشہوت: غضب وشہوت انسانی عقل پر جناتی اثر کی طرح ہے۔ جب عقل کمزور ہو تو شیطانی لشکر حملہ آور ہوتا ہے اور جب انسان غصّہ کرتاہے تو شیطان اس کے ذریعہ سے اپنا کھیل کھیلتا ہے‘ جیساکہ بچّے گیند سے کھیلتے ہیں۔

۲۔ حسد وحرص: ان دونوں کی وجہ سے انسان ہرچیز کا حریص بن جاتا ہے۔یہ چیزیں اسے لالچی اور اندھا بنادیتی ہیں۔ اب شیطان کو موقع ملتا ہے‘ حرص کے وقت وہ شہوت تک پہنچ جاتا ہے‘ چاہے کس قدر بُرا اور بے حیائی کا کام ہو۔
۳۔ سیر ہوکر کھانا: سیر ہو کرکھانے سے‘ اگرچہ وہ حلال اور پاک ہو‘ شہوات کو قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔
۴۔ مکان‘ لباس اور سامانِ خانہ کی زینت کا غلبہ: شیطان جب انسان کے دل میں مکان‘ لباس اور سامانِ خانہ کی زینت کا غلبہ دیکھتا ہے تو اس کو بڑھاتا ہے۔وہ اسے ہمیشہ مکان بنانے‘ اس کی چھتیں‘ دیواریں سجانے اور عمارات کو وسیع کرنے میں لگائے رکھتا ہے۔ اس کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ تیری عمر بہت لمبی ہے‘تجھے ابھی موت نہیں آنی۔ جب وہ ان کاموں میں گھر گیا تو اب دوبارہ اس کے پاس اسے آنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب بعض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں کہ وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں‘ خواہشات کے مطیع ہوتے ہیں۔ اس سے انجام خراب ہونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ ‘‘
دنیا:ایک دار الامتحان
دنیا دار الامتحان ہے۔ یہ زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے‘ اس کو ہم اپنی مرضی کی مطابق نہیں گزار سکتے۔ ہرکام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور حضورﷺکا کیا طریقہ ہے! زندگی کا انجام موت ہے اور موت اُس زندگی کی ابتدا ہے جو اصل اور ابدی ہے‘ لہٰذا اس دنیا میںانسان کی ابدی زندگی سنوارنے کے لیے دو طریقے ہیں۔ اول دل اور دوم جسم۔ دل جسم کا بادشاہ ہے۔اگر وہ سنور گیا تو پورا جسم یا یوں کہیے پوری زندگی سنور گئی اور اگر وہ خراب یا فاسد ہوگیا تو پوری زندگی خراب ہوجائے گی۔ دل کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے۔دل احساسات کی کائنات ہے۔دل مسکن الٰہی ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرامؒ نے ہمیشہ لوگوں کے دلوں پر محنت کی۔ اللہ تعالیٰ بندہ مؤمن کے دل میں اپنے سوا کسی غیر کی محبّت‘ خوف ‘ امید اور یقین نہیں دیکھنا چاہتے۔
ایمان دل کی کیفیت کا نام ہے اور جسم سے اس کا ظہور اطاعت ِالٰہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس طرح رات دن کا فرق ہے‘ اسی طرح نور و ظلمت کا فرق ہے۔ نورِ حقیقی کے ظاہر ہوجانے کے بعد (یعنی اپنے اعمال نظر آجانے کے بعد) رات اور دن کے فرق کی طرح دین اور دنیا کا فرق معلوم ہوگا۔ دن کی روشنی اعمال میں کامیابی دکھاتی ہے ۔ دنیا کی چیزوں سے متنفر کرتی اور صراطِ مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے۔ سورج کی روشنی بغیر محنت کےآجائے گی ۔لیکن اعمال دکھانے والی روشنی محنت سے آتی ہے اور جب یہ روشنی نصیب ہوگئی تو پھر مطلب حاصل ہوگا۔ اس روشنی کے حصول کے بعد ایک مسلمان نہ سود کے نزدیک جائے گا‘ نہ کسی کو دھوکا دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ رشوت یا دیگر منکرات کے قریب جائے گا۔ جو کام کرے گا مرضی ٔمولیٰ کی خاطر کرے گا۔ اگر کسی کو دوست بنائے گا تو بھی اسی کی مرضی مطلوب ہوگی اور اگر کسی کو دشمن سمجھے گا تو بھی اسی کی رضا کے لیے۔کسی کوعطاکرے گا تو بھی اسی کی رضا کے لیے اورکسی سے ہاتھ روکے گا تو بھی اسی کی رضا کے لیے۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ)) (رواہ ابوداود)
’’جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز دے اور اللہ ہی کے لیے روکے (نہ دے) تو اُس نےاپنا ایمان مکمل کر لیا۔ ‘‘
ایک بزرگ کا ارشاد ہے:

خواہی کہ شود دل تو چوں آئینہ

دہ چیز بروں کن ازدرونِ سینہ
حرص وامل وغضب دروغ وغیبت

بخل و حسد و ریا و کبر و کینہ
خواہی کہ شدی منزلِ قرب مقیم

نُہ چیز بنفس خویش فرما تعلیم
صبر و شکر و قناعت و علم و یقین

 تفویض و توکّل و رضا و تسلیم

’’اگرتوچاہتاہے کہ تیرادل مثل آئینہ کے صاف وشفاف ہو جائے تو دس چیزوں کو اپنے دل سے نکال دے ۔وہ دس چیزیں یہ ہیں: حرص‘طولِ امل(لمبی آرزو)‘غصہ‘ جھوٹ‘ غیبت‘ حسد‘ کنجوسی‘ ریاکاری‘ تکبر اورکینہ۔ (یہ چندبہت ہی قابلِ توجہ امراض قلب ہیں‘ جن سے اوربہت سی باطنی بیماریاںبلکہ ظاہری بیماریاں بھی پیداہوتی ہیں) اور اگر چاہتا ہے کہ قربِ الٰہی حاصل ہو تو نو چیزیں اپنے نفس میں پیدا کر: صبر‘شکر‘ قناعت‘ علم‘ یقین‘ تفویض(ذمہ داری)‘ توکّل‘رضااورتسلیم۔‘‘
حاصل کلام
باطنی یا قلبی اصلاح سے مراد دل کاکینہ و حسد سے پاک ہو جانا‘نفاق کی بیماری سے شفایاب ہو جانا‘ گناہوں کی آلودگی سے دورہو جانا‘ کردار کی کجی رفع ہوجانا‘ توبہ واصلاحِ احوال سے دلوں کی پاکی کا بحال ہو جانا‘ نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن ہو جانااور دلوں سے میل اور کدو رتوں کا دور ہو جانا وغیرہ ہے ۔
قلب کی اصلاح کے لیے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریںاور بری صحبت سے مکمل اجتناب کریں۔ باوضو رہیں اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔فرض نمازیں تکبیر اولیٰ کے ساتھ اداکرنے کا اہتمام کریں۔ حرام ‘فضول ‘بے ہودہ اورمشتبہ امور سے اجتناب کریں۔ رزقِ حلال خود بھی کھائیں اوراپنے اہل وعیال کو بھی کھلائیں۔ ان شاء الله ‘اس سے جلد قلب کی حالت میں تغیّر محسوس ہو گا اور دل کی دنیا بدلنا شروع ہو گی۔ زیادہ وقت قرآن کریم کی تلاوت ‘ترجمہ اور تفسیر کو دیں ‘اس سے قلوب بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۲) الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳) اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ(۴)} (الانفال)
’’پس ایمان والے تو ایسے ہو تے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ تازہ کر دیتی ہیںاوروہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اورجو ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ یہی سچے ایمان والے ہیں ‘ ان کے رب کے ہاں ان کے لیے بڑے درجات اوربخشش ہے اور عزّت کا رزق ہے۔ ‘‘
سیرت النبی ﷺ اوراحادیث کے مطالعہ کا بھی اپنے اندر ذوق پیدا کریں‘اس سے بہت نفع ہو گا ۔ چند دعائیں نقل کی جاتی ہیں‘ اپنی دعاؤں میں ان کو بھی شامل کریں۔
{رَبَّـنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَـنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ(۸)} (آل عمران)
’’اے ربّ ہمارے! جب تُو ہم کو ہدایت کر چکا تو ہمارے دلوں کو نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بے شک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔‘‘
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِيْنِكَ (سنن الترمذی)
’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘
اَللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ (مسلم‘ نسائی)
” اے الله!دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔“
(([أَسْئَلُکَ] اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ رَبِيعَ قَلْبِي‘ وَنُورَبَصَرِیْ‘ وَجِلَاءَ حُزْنِي‘ وَذَهَابَ هَمِّي)) (ابن احبان‘ حاکم‘ طبرانی)
’’( اے الله! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں) کہ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار او رمیری آنکھ کا نور اورمیرے غم کی کشائش اور میرے تفکرات کی دوری کا ذریعہ بنادے۔ ‘‘
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ قُلُوْبًا اَوَّاھَةً مُخْبِتَةً فِیْ سَبِیْلِکَ (کنزالعُمال)
” اے الله! ہم تجھ سے مانگتے ہیں ایسے دل جومتاثر ہوں اور بہت عاجزی کرنے والے ہوں اور بہت رجوع کرنے والے ہوں تیری راہ میں۔ “
اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ‘ وَ عَمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ‘ وَ لِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ‘ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ‘ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ
(رَوَاہُ الْبَیْھَقِی)

’’اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے‘ میرےعمل کو ریا سے‘میری زبان کو جھوٹ سے اورمیری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے‘ کیونکہ تُو آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے اندر چھپی باتوں کوخوب جانتا ہے۔‘‘
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُكَ اِيْمَانًا دَائِمًا‘ وَاَسْاَلُکَ قَلْبًا خَاشِعًا‘ وَاَسْاَلُك يَقِيْنًا صَادِقًا‘ وَاَسْاَلُك دِيْنًا قَيِّمًا‘ وَاَسْاَلُك الْعَافِيَةَ مِنْ كُلِّ بَلِيَّةٍ‘ وَاَسْاَلُك دَوَامَ الْعَافِيَةِ‘ وَاَسْاَلُك الشُّكْرَ عَلَى الْعَافِيَةِ‘ وَاَسْاَلُك الْغِنٰى عَنِ النَّاسِ (کنزالعُمال)
’’اے الله! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ہمیشہ رہنے والا ایمان‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں خشوع والا دل‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں سچا یقین‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں دین مستقیم‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں ہر بلا سے امن‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں ہر امن کا دوام‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں امن پر توفیق شکر‘ اور تجھ سے طلب کرتا ہوں خلق کی طرف سے بے نیازی۔ ‘‘(آمین یا ربّ العالمین!)