(سیرتِ صحابیات) حضرت خولہ بنت ِثعلبہؓ کا ربُّ العالمین سے خصوصی تعلق - سعادت محمود

11 /

حضرت خولہ بنت ِثعلبہؓ

کا ربُّ العالمین سے خصوصی تعلقاخذ و ترتیب: سعادت محمود

تاریخ انسانی میں بہت سی خواتین کو اللہ تعالیٰ نے مختلف اعزازات سے نوازا ہے‘ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ‘ حضرت مریم‘ فرعون کی بیو ی حضرت آسیہ‘حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن۔اسی سلسلے میں ایک منفرد اعزاز صحابیہ رسول حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حصے میں آیا۔ وہ خود فرماتی ہیں :’’اللہ کی قسم! اس سورۃ (سورۃ المجادلہ) کی ابتدائی چار آیات میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بارے میں اُتری ہیں۔ مَیں ان کے گھر میں تھی۔ یہ بڑی عمر کے تھے اور کچھ چڑچڑے بھی ہو گئے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران مَیں نے ان کی کسی بات سے اختلاف کیا اور انہیں کچھ جواب دیا۔ اس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں کہنے لگے تُو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے باہر چلے گئے اور کسی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے۔ پھر گھر آئے اور مجھ سے ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہا۔ مَیں نے کہا :اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے‘ تمہارے اس طرح کہنے (یعنی ظِہار کرنے) کے بعد اب یہ بات نا ممکن ہے‘ یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ہمارے بارے میں فیصلہ نہ ہوجائے۔ وہ نہ مانے اور زبر دستی کرنے لگے۔ چونکہ وہ کمزور اور ضعیف تھے تو مَیں ان پر غالب آگئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔مَیں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی ۔ اس واقعہ کو بھی بیان کیا اور اپنی دوسری مصیبتیں اور تکلیفیں بھی بیان کرنا شروع کر دیں۔ آپﷺ یہی فرماتے جاتے تھے: اے خولہ! اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آنحضرت ﷺ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ جب وحی اُتر چکی تو آپ ﷺ نے فرمایا :اے خولہ! تمہارے اور تمہارے خاوند کےبارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ پھر آپﷺ نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں:
{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ق  وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط  اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌم بَصِیْرٌ(۱) اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ ط اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اللّٰٓئِیْ وَلَدْنَہُمْ ط وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًاط وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ(۲) وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاط ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۳) فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَـبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاط فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًاط ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴)}
’’ اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں آپؐسے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ آپ دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت نا پسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کریں‘ پھر اپنی بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی‘ تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور جو شخص غلام نہ پائے ‘وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں۔ اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
محترم طالب ہاشمی نےتذکارِ صحابیات میں یہ قصّہ تفصیل سے لکھا ہے:
’’ ظِہار کرنے کے بعد جب حضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر کا غصّہ اترا تو سخت پریشان ہوئے کہ مَیںیہ کیا حرکت کر بیٹھا ہوں۔ اب گھر کو بچانے کی کیا صورت ہو‘حضرت خولہؓ بھی دم بخود بیٹھی تھیں۔ جب حضرت اوسؓ نے ان کے سامنے ندامت کا اظہار کیا تو بولیں: گو تم نے طلاق نہیں دی لیکن مَیں نہیں کہہ سکتی کہ یہ الفاظ کہنے کے بعد تمہارے اور میرے درمیان میاں بیوی کا رشتہ باقی رہ گیا ہے یا نہیں۔ تم رسول اللہ ﷺکی خدمت میں جاؤ اور اس بات کا فیصلہ کرواؤ۔ ‘‘
طالب ہاشمی صاحب کے مطابق:
’’حضرت اوس ؓنے کہا: مجھے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺکے سامنے بیان کرنے سے شرم آتی ہے۔ اللہ کے واسطے تم ہی ہادئ برحق سے اس کے متعلق فیصلہ پوچھ کر آؤ۔ اس پر حضرت خولہؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں(یہاں عورت کی سمجھ داری ‘ اس پر ڈٹ جانے کی کیفیت اور بے باکی قابل غور ہے)۔‘‘
حضرت خولہؓ جب حضور اکرمﷺ کے پاس پہنچیں تو آپ ؐاس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےحجرہ میں تشریف فرما تھے۔حضرت خولہ ؓ نے سارا قصّہ بیان کر کے عرض کیا : ’’یارسول اللہﷺ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ مختلف روایات میں رسول اللہﷺ کے مختلف جوابات منقول ہیں:
(۱) تم اس پر حرام ہو گئی ہو۔
(۲) میرے خیال میں تم اس پر حرام ہو گئی ہو۔
(۳) اس مسئلے میں ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں آیا۔
محسوس ہوتا ہے کہ اُنؓ کے بار بار اصرار پر حضور اکرمﷺ ان کو مختلف جواب دیتے رہے۔
سرورِ عالمﷺ کے جواب سن کر حضرت خولہؓ نالہ و فریاد کرنے لگیں اور بار بار حضورﷺ سے عرض کرنے لگیں کہ اوس ؓ میرا ابن عم (چچا کا بیٹا) ہے۔ اس کی تند مزاجی اور بڑھاپے کاحال آپؐ پر روشن ہے۔ اُس نے غصّہ میں آکر ایسی بات کہہ دی ہےجس کے بارے میں مَیں اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ طلاق نہیں ہے۔ خدارا کوئی ایسی صورت بتائیں کہ میری اور میرے بوڑھے شوہر اور بچّوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔
سرورِ عالم ﷺ اپنی رائے پر قائم رہے‘ لیکن حضرت خولہؓ مایوس نہ ہوئیں اور برابر آپﷺ کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی:
’’اے مولائے کریم! میں تجھ سے اپنی سخت ترین مصیبت کی فریاد کرتی ہوں۔ اے اللہ! جو بات ہمارے لیے رحمت کا باعث ہو‘ اپنے نبیﷺ کی زبان سے اسے ظاہر فرما۔ ‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ منظر اتنا دردناک تھا کہ مَیں اور گھر کے سارے لوگ اشک بار ہو گئے۔حضرت خولہؓ کا اصرار جاری تھا کہ یکایک رحمت عالمﷺ پر نزولِ وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا :ذرا ٹھہرو‘ شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ حضرت خولہؓ کے لیے یہ سخت امتحان کی گھڑی تھی۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف ہوا تو شاید اس صدمہ سے وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ لیکن جب حضورﷺ کی طرف دیکھا تو آپؐ کو متبسم پایا۔ اس سے ان کے دل کو قرا رآگیا اور وہ فیصلہ سننے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’خولہ! اللہ تعالیٰ نے تمہارا فیصلہ کر دیا ہے۔ پھر آپﷺ نے سورۃ المجادلہ شروع سے آخر تک پڑھی۔ اس کی پہلی ہی آیت{ قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا } حضرت خولہؓ کے بارے میں تھی۔
سورۃ المجادلہ کی تفسیر میں سیّد قطبؒ کی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ (اردوترجمہ) سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اس سورۃ میں ہم مشاہدہ کریں گےکہ اس جماعت (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) پر کس طرح اللہ کی طرف سے مسلسل مہربانیاں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی نگرانی میں اس جماعت کو تیّار کر رہا ہے۔ اپنے ٹھوس منہاج (طریقہ کار) کے مطابق اس جماعت(صحابہؓ) کی تربیت فرما رہا ہے۔ اسے یہ شعور اور احساس بھی دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہر لحظہ تمہارے شامل حال ہے۔ اس جماعت کے دل میں یہ یقین پیدا کیا جا رہا ہے کہ اللہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہےاور وہ (ا للہ) مشکل ترین حالات میں بھی تمہاری دستگیری کر رہا ہے۔ اُنگلی پکڑ کر دشوار گزار راہوں سےتمہیں گزار رہا ہے۔وہ (اللہ ) جہاں تمہارے بڑے بڑے معاملات کو دیکھ رہا ہے‘وہیں تمہارے چھوٹے چھوٹے معاملات کو بھی وہ دیکھ رہا ہے۔تمہاری نیتوں کو بھی وہ دیکھ رہا ہے۔تم اس کی نگرانی اور حفاظت میں ہو۔‘‘
اس کے بعد سیّد قطبؒ لکھتے ہیں:
’’اس سورۃ کا آغاز اُس دور کی ایک عجیب تصویر سے ہوتا ہے۔انسانی تا ریخ کے اُس منفرد دَور میں آسمان زمین کے ساتھ آ ملا تھا۔ (یہاں ایک عمومی غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ اکثر ایسے الفاظ سے یہ تأثر بن جاتا ہے کہ شاید یہ کیفیت اسی وقت کے لیے تھی۔ آسمان تو زمین کے ساتھ ازل سے جڑا ہوا ہےاور ابد تک جڑا ر ہے گا۔)‘‘
اسی بات کو علّامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ ؎
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ‘ اٹھتے ہیں حجاب آخر
اور مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب فرمایا ہے ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!
اس تصویر میں آسمان اور زمین کے درمیان‘عالم بالا اور انسانوں کے درمیان براہِ راست رابطہ نظر آتا ہے اوریہ رابطہ بالکل ظاہر اور محسوس ہے۔عالم بالا اسلامی معاشرے کے روز مرّہ کے معاملات میں شریک ہےاور یہ شرکت بالکل عیاں ہے۔یوں نظر آتا ہے کہ ایک چھوٹے سے خاندان(حضرت خولہؓ )کے روز مرّہ کے معاملات میں سےایک معاملے میں عالم بالا سے مداخلت ہو گئی ----- اس خاندان کے لیے بڑی مشکل صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔اس کے معاملے میں اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے۔اور یہ متذکرہ بالا آیات نازل ہوتی ہیں کہ اللہ نے اُس (خاندان کی) عورت کی بات سن لی تھی جو حضورِ اکرمﷺ سے تکرار(جھگڑا) کر رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کناں فریاد کر رہی تھی۔ اور صرف بات ہی نہیں سنی بلکہ اُس کے مسئلے کو حل بھی فرما دیا ۔
تھوڑا سا غور کریں تو بڑا دلچسپ منظر نامہ بنتا ہے ۔اللہ تعالی نے ’’مُجَادَلہ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مادہ جدل ہے۔ مترجمین نے اس کا ترجمہ تکرار بھی کیا ہے اور جھگڑا بھی ۔ ایسا نہیں ہوا کہ عورت نے آکر مسئلہ پوچھا اور اللہ کے رسول ﷺنے وحی کی روشنی میں اس کا فیصلہ سنا دیا۔بلکہ قرآن کے الفاظ دیکھیں:
{قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ق …}
’’بے شک اللہ نے سُن لی اُس (عورت) کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں آپؐ سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے شکوہ کناں‘فریاد کیے جاتی ہے‘‘
گویا حضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صرف سوال نہیں کر رہی تھیں ‘بلکہ تکرار کر رہی تھیں‘ جسے دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جھگڑ رہی تھیں۔واقعہ یہ ہے کہ تکرار اللہ کے رسولﷺ سے کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ اللہ کی طرف بھی متوجّہ تھیں۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ وہ کہہ رہی تھیں:’’یا رسول اللہﷺ! میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی‘ بچّے ان سے ہوئے ‘اب جب کہ مَیں بوڑھی ہو گئی‘ بال بچوں جوگی نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کر لیا۔ اے اللہ! مَیں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں۔ اگر ہم علیحدہ ہو گئے تو ہم دونوں برباد ہو جائیں گے …‘‘اسی طرح کی اور بھی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔
صاحب ِتفہیم القرآن سیّد مودودی ؒلکھتے ہیں کہ وہ خاتون اپنے شوہر کے ظِہار کا قصّہ سنا سنا کر بار بار حضورﷺ سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں میں جدائی ہو گئی تو مَیں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچّے تباہ ہو جائیں گے۔ سیّد قطب ؒلکھتے ہیں:
’’خولہؓ کی روایت میں یہ اہم بات ہے کہ اس حادثہ یا واقعہ کا پیش آنا‘اس میں اس عورت کی کارروائی یعنی رسول اللہﷺ تک پہنچنا‘ اپنی بات پر اصرار‘ تکراراور جھگڑا کرنا‘پھراس عورت کے معاملے پر قرآن کا نازل ہونا۔‘‘
ان سب باتوں سے اس زندگی کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے جو انسانی تاریخ کا یہ منفرد معاشرہ گزار رہا تھا۔ یہ عجیب دور تھا‘ لوگوں کا براہِ راست رابطہ عالم بالا سے قائم تھا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے منتظر رہتے تھے۔ گویا سب لوگ اللہ کا کُنبہ تھے۔ لوگوں کی نظریں عالم بالا پر اس طرح لگی رہتی تھیں جس طرح ایک بچّہ ہر وقت ماں باپ کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔
اسی ضمن میں سورۃ الحدید کی تفسیر میں سید قطبؒ لکھتے ہیں:
’’یہ لوگ جو اللہ (سبحانہ وتعالیٰ)کے ساتھ رہتے تھے ‘ جو اُس کی مخلوق تھے‘جن کو اللہ تلقین فرماتا تھا‘اور جن کے ساتھ یوں ہم کلام ہوتا تھا‘ وہ اپنے اندر یہ شدید احساس رکھتے تھے کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں۔ اُن پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ اللہ رات کی تاریکیوں میں بھی اُن کی فریادیں سن رہا ہےاور اُن کو قبول کرتا ہے۔ قدم قدم پر اُن کی رہنمائی کرتا ہے اور اُن کی طرف متوجّہ ہے۔ اگر ہمارے آج کے گئے گزرے دَور میں کوئی اس قسم کے تصوّر کو اپنے ذہن میں جمائے اور بسائے ہوئے ہو تو یہ اُس فضل سے بھی بڑا فضل ہے۔ اس لیے کہ یہ بات زیادہ قابلِ قدر ہے کہ کوئی شخص دَورِ صحابہؓ سے دُور پندرھویں صدی میں یہ تصوّر رکھتا ہو۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تمہارے نزدیک کون سا مومن قابلِ تعجب اور صاحب ِفضل و کرم ہے؟ تو صحابہؓ نے عرض کیا:’’فرشتے!‘‘ حضورﷺ نے فرمایا:’’وہ کیوں کر نہ ایمان لائیں گے‘ وہ تو ہیں ہی اپنے ربّ کا پاس۔‘‘ اس کے بعد صحابہؓ نے کہا:’’انبیاءؑ!‘‘ تو آپ ؐ نے فرمایا:’’ وہ کس طرح ایمان نہ لائیں جبکہ اُن پر وحی نازل ہو رہی ہے‘‘۔ اس کے بعد صحابہؓ نے کہا کہ پھر’’ ہم لوگ؟‘‘ تو حضورﷺ نے فرمایا:’’ تم کیوں کر ایمان نہ لاؤ‘ جبکہ مَیں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘پھر حضورﷺ نے فرمایا:’’ بلکہ ایمان کے لحاظ سے قابلِ تعجب اور افضل ترین لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد ہوں گے۔ اُن کے پاس صرف صحیفے ہوں گے اور وہ اُن کے اندر پائی جانے والی تعلیمات پر ایمان لائیں گے۔ ‘‘
یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن کے ساتھ تعلق جوڑنے والے اور اپنے معاملات میں قرآن سے رہنمائی لینے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ تو آج بھی ہر نماز کی ہررکعت میں ہم سے یہ کہلواتا ہے: سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ ’’اللہ نے سن لی (اُس بندے کی بات) جس نے اُس کی حمد کی‘‘۔ بس غور کرنے والا دل چاہیے۔کبھی ہم بھی نماز میں ان الفاظ کو ان کی روح کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں۔آمین!
حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کا مقام
اب دیکھیں کہ ـــــحضرت خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اِس واقعے کے بعد کیا مقام بن گیا تھا ۔سیّدمودودیؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں:
’’یہ خاتون جن کے معاملہ میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں‘ قبیلہ ٔ خزرج کی خولہؓ بنت ثعلبہ تھیں۔ اور اُن کے شوہر اوسؓ بن صامت انصاری‘ قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہؓ بن صامت کے بھائی تھے.......یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِن صحابیہ کی فریاد کا بارگاہِ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہی وہاں سے اُن کی فریاد رسی کے لیے فرمانِ مبارک کا نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اُن کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اُس نے اُن کو روکا۔ آپؓ فوراً رُک گئے۔ سر جھکا کر دیر تک اُس کی بات سنتے رہے اور جب تک اُس نے بات ختم نہ کر لی آپؓ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ نے قریش کے سرداروں کو اِس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا۔ فرمایا: جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی۔ خدا کی قسم ! اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو مَیں کھڑا رہتا‘ بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معذرت کر دیتا۔‘‘
ابن عبد البر نے استیعاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمر ؓ کو ملیں تو آپؓ نے ان کو سلام کیا۔ یہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں۔ ’’اوہو اے عمر! ایک وقت تھا جب مَیں نے تم کو بازارِ عُکاظ میں دیکھا تھا۔ اُس وقت تم عمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدّت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلانےلگے ۔ پھر ایک وقت آیا کہ تم امیرالمؤمنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دُور کا آدمی بھی قریبی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے‘ اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اُسی چیز کو کھو دے گا جسے وہ بچانا چاہتا ہے۔ اس پرجارود عبدی‘ جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے‘ بولے :اے عورت! تُو نے امیر المؤمنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’انہیں کہنے دو‘ جانتے بھی ہو یہ کون ہیں؟ ان کی بات تو سات آسمانوں پر سنی گئی تھی‘ عمر کو تو بدرجہ ٔ اولیٰ سننی چاہیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے پروردگار سے ایسا تعلق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائےجس طرح کا تعلق حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے رب سے استوار کر لیا تھا۔ آمین یاربّ العالمین!