وقت :ایک گراں مایہ دولتحافظ محمد اسد
موت اور زندگی کا درمیانی وقفہ وہ مہلت ِعمر ہے جو ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہے۔مؤمن و کا فر‘ امیر وغریب ‘عالم وجاہل ہر ایک کو اللہ نے اس نعمت سے نوازا ہے۔ انسان کو اس دنیامیں جتنی بھی مہلت عمر ملی ہے اسی کا دوسرانام ’’وقت‘‘ہے۔اس وقت کو اس کے صحیح مصرف میں گزارنا ہی فہم و فراست کی علامت ہے۔جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے‘ وہ وقت نہیں گزارتے بلکہ وقت ان کو گزار دیتا ہے۔ کسی دانا کا قول ہے:’’ وقت کو کاٹو ورنہ یہ تم کو کاٹ دے گا !‘‘ وقت تو برف کی طرح پگھلتاجا رہا ہے ‘اگر اسے صحیح طرز پراستعمال نہ کیا گیا تو سوائے حسرت اور افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔
ہمارے اسلاف و علماء کرام نے علمی و عملی زندگیوں میں جو اعلیٰ مقام حاصل کیااور جن کی زندگیاں ایک ادارے کی شکل میں آج بھی دنیاکے افق پرعلم و فضل کی شمع بن کر روشن و تاباں ہیں ‘ انہوں نے وقت کو اپنے مٹھی میں تھام کے رکھا تھا ۔ ان کی عالی ہمت اور جذبہ و شوق کا اندازہ ان کی عملی خدمات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں وقت کی کتنی اہمیت تھی۔ آج کے ترقی یافتہ اور تیز رفتار دور میں دیکھنے میں آیا ہےکہ لوگ عموماً وقت کی قدرو قیمت نہیں پہچانتے۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ انسان کےہاتھ میں اصلی دولت وقت ہی ہے ‘جس نے اسے ضائع کردیا‘ اس نے سب کچھ ضائع کردیا۔
آج ہماری زندگی میں آلاتِ جدیدہ مثلاً کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل اور ٹیلی ویژن وغیرہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور یہ بہت مفید چیزیں ہیں ۔دیکھا جائے تو ان کے صحیح استعمال سے بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں‘ لیکن ان کا غیر ضروری استعمال بہت سا قیمتی وقت ضائع کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا ان کو ضرورت کی حد تک ہی استعمال کرنا چاہیے اور ہر وقت انہی میں مگن رہ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارا وقت اس لیے بھی درست طریقے پر استعمال نہیں ہو پاتا کہ ہمارے کھانے پینے ‘ سونے جاگنے کے نظام الاوقات بے ترتیبی کا شکار ہو گئے ہیں ۔راتوں کو دیر تک جاگنے اور فضول و لایعنی کا موں میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے سبب نیند پوری نہیں ہوتی۔ اس کالازمی نتیجہ طبیعت کی اُکتاہٹ اور کام میں دل ودماغ کے حاضر نہ ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور پھر گھنٹے بھر کا کام دو ‘تین گھنٹوں میں ہوتا نظر آتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت کو پہیے لگے ہوئے ہیں۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو نظام الاوقات کی بے ترتیبی ہی اس کا اصل سبب ہے ۔
قرآن و سُنّت میں وقت کی اہمیت مختلف پہلوؤں سے بتائی گئی ہے۔ قرآن کریم اس کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے عطیۂ خداوندی قرار دیتا ہے:
{وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗئِبَیْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ(۳۳) وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْھَا ۭ} (ابراھیم)
’’اور اللہ ہی نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جارہے ہیں‘ اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔اور اُس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔‘‘
اسی طرح احادیث ِمبارکہ میں بھی وقت کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
((اِغْتَنِمْ خمسًا قَبْلَ خمسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَیَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ)) (الترغیبُ والترھیب)
’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو: اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے‘ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے‘ اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے‘ اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔‘‘
کہا جاتاہے’’ گیا وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آتا‘‘ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنا وقت ضائع ہونے سے بچائے۔کو ئی کام بھی بغیر منصوبہ بندی کے درست نہیں ہوتا۔وقت کا استعمال بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے سے متعین کر لیاجائے کہ کیا کیا کام کس ترتیب سے کرنے ہیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ وقت کی ناقدری کرتے ہیں ‘جس کی وجہ سے وقت اور زمانہ بھی ان کی ناقدری کرنے لگا ہے۔ جو قومیں ایک ایک پَل کا حساب کرتی ہیں‘ ایک ایک لمحہ کو سیم و زر سے زیادہ قیمتی شے گردانتی ہیں وہ قومیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ مغربی دنیا کے ہر ملک میں وقت کے سرمایہ کی ایک خزانہ کی طرح حفاظت کی جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے دفاتر‘ کارخانے‘ اسکول اور اداروں میں وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ‘جس کی وجہ سے وقت کا صحیح استعمال ہوتا ہےاور ایک ایک لمحہ بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔
دنیا بھرکے مسلمان صرف مسجدوں میں نماز وقت پر پڑھتے ہیں‘ مسجد کے باہر ان کا قیمتی وقت بے کار اور فضول کاموں میں صَرف ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کا ہر کام تاخیر سے ہونے لگا ہے۔ وقت کا بہت بڑا سرمایہ یا خزانہ وہ بے دردی کے ساتھ ضائع کرنے لگے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نپولین بونا پارٹ صرف پانچ منٹ دیر سے پہنچنے کی وجہ سے ’واٹرلو‘ کی جنگ ہار گیاتھا۔
اہمیت ِوقت : قرآن و سُنّت کی روشنی میں
وقت کی اہمیت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے متعدد مکی سورتوں کے آغاز میں اس کی قسمیں کھائی ہیں‘ مثلاً:
{وَالْفَجْرِ(۱) وَلَـیَالٍ عَشْرٍ(۲) } (الفجر)
’’قسم ہے فجر کی‘ اور دس راتوں کی۔‘‘
{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی(۱) وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی(۲) } (الیل)
’’قسم ہے رات کی جب کہ وہ چھا جائے۔ اور قسم ہے دن کی جبکہ وہ روشن ہو۔‘‘
{وَالضُّحٰی (۱) وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی(۲) } (الضحٰی)
’’قسم ہے روز روشن کی‘ اور رات کی جب وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے۔‘‘
{وَالْعَصْرِ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲) } (العصر)
’’زمانے کی قسم! انسان در حقیقت خسارے میں ہے۔‘‘
اس ضمن میں یہ نوٹ کر لیں کہ یہ بات مفسرین اور اہل علم کے نزدیک معروف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کی قسم کھاتا ہے تو صرف اس لیے کہ لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرے اور اس کے عظیم فائدوں اور اثرات سے آگاہ کرے۔
قرآن حکیم کی طرح سُنّت ِنبویﷺ نے بھی وقت کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے اور قیامت کے دن خدا کے حضور انسان کو وقت کے متعلق جواب دہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ حساب کے دن جو بنیادی سوالات ہر انسان سے پوچھے جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق وقت سے ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
((لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ اٰدَمَ یَوْمَ القِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبَّہٖ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ ، وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَ فِیْمَا اَنْفَقَہُ ، وَ مَا ذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ))( سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق‘ باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص)
’’قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا تا آنکہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے: یعنی عمر کہاں گزاری؟جوانی کس کام میں کھپائی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟‘‘
انسان سے اس کی عمر کے بارے میں عمومی طور پر اور جوانی کے بارے میں خصوصی طور پر سوال کیا جائے گا۔ اگر چہ جوانی بھی عمر ہی کا ایک حصہ ہے ‘لیکن اس کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔ اس لیے کہ یہ جوش و ولولہ‘ عزم و حوصلہ اور کچھ کر گزرنے کی عمر ہوتی ہے‘ اور یہ دو کمزوریاں‘ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان طاقت و قوت کا مرحلہ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ ۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً ۭ } (الروم:۵۴)
’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی‘ پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی‘ پھر اس کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا۔‘‘
ہمارے اَسلاف اور حفظ ِاوقات
انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کے درہم و دینار کی حرص سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ اسی حرص کے سبب ان کے لیے علم نافع‘ عمل صالح‘ جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا‘ اور اسی کے نتیجے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جس کی جڑیں انتہائی گہری اور جس کی شاخیں ہر چہار جانب پھیلی ہوئی ہیں۔
ہمارے اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی‘ کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو درجہ کمال پر پہنچایا تھا۔امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن رات کتابیں لکھتے رہتے تھے‘ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری)
مولانا عبدالحی فرنگی محلی ؒ کی مطالعہ گاہ کے تین دروازے تھے‘ ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو جوتے کے لیے ایک آدھ منٹ بھی ضائع نہ ہو۔یہ عالَم تھا وقت کی قدر دانی کا! (ہمارے اسلاف اور حفظ ِاوقات)
علّامہ سیّد صدیق احمد کشمیری ؒاپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے‘ سالن نہیں لیتے تھے۔روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے‘ جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے کہ روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔ (ہمارے اسلاف اور حفظ ِاوقات)
شیخ جمال الدین قاسمیؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں‘ گھر میں ہوںیا مسجد میں‘ مسلسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے۔ سوانح نگاروں نے لکھا ہے:
’’(یعنی) اللہ ان پر رحم فرمائے‘ ہر وقت لکھتے رہتے تھے۔ کیا دن‘ کیا رات‘ کیاسفر‘ کیا حضر‘ کیا مسجد‘ کیاگھر۔میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دورانِ رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا‘ جس کے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کرلیتے تھے۔‘‘
جولوگ بازاروں یا چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے‘ ان کو دیکھ کر شیخ قاسمیؒ حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے‘ جو لوگوں سے بھراہواتھا اور لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے‘ نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا: آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا۔‘‘ (اقوال سلف)
شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحبؒ کے یہاں بھی حفاظت ِاوقات کا بڑا اہتمام تھا‘ حتیٰ کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے۔ چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی اور کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوا‘ حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے‘ وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گیا‘ حضرت نے فرمایا: نوراللہ! کیوں خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا: جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں۔ تو فرمایا: ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔(ہمارےاسلاف اور حفظ اوقات)
مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ کوئی بھی لمحات ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانےپینے‘ سونےجاگنے اوراٹھنے بیٹھنے کے تمام اوقات مقرر تھے‘ جن پر سختی سے عمل فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمائی تھی۔ خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباطِ اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے جو اُس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے۔مَیں ایک لمحہ بھی بے کار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
مولانا تھانوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے۔مَیں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے تمام انتظامات کیے ۔جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت مَیں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں‘ اگر آپ اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر پھر حاضر ہوجاؤں۔ گو میرا دل اس روز کچھ لکھنے میں لگا نہیں‘ لیکن ناغہ نہیں ہونے دیا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر جلد حاضر خدمت ہوگیا۔ حضرت کو تعجب بھی ہوا کہ اس قدر جلد آگئے۔عرض کیا حضرت! چند سطریں لکھ لیں‘ معمول پورا ہوگیا۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت)
حفظِ اوقات کے لیے چند اصول
اسلامی شعائر و آداب وقت کی قدر و قیمت پر زور دیتے ہیں اور اس کی اہمیت و افادیت کو اپنے ہر مرحلہ میں بلکہ ہر جزو میں بھرپور طریقے سے واضح کرتے ہیں اور انسان کے اندر کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمد و شد کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس اور شعور بیدار کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہےکہ ہم اپنے وقت کو بچانے اور بہتر مستقبل کے لیے کچھ اصول و ضوابط متعین کریں ۔اس حوالے سے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں:
(۱) شب وروز کے کاموں کے لیے ایک نظام الاوقات مرتّب کریں ۔
(۲) کون سا عمل کس وقت بہتر طریقے سے ادا ہوسکتا ہے اس کا تعین سوچ سمجھ کر کریں ۔
(۳) رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی بیدار ہونے میں سُنّت ِرسولﷺ کی پیروی کو ملحوظ رکھیں ۔
(۴) صحت کا خاص خیال رکھیں اور صحت بخش غذائیں استعمال کریں ۔
(۵) صبح کے وقت ورزش اور چہل قدمی کو معمول بنائیں ۔
(۶) کسی وقت تنہائی میں اپنا احتساب ضرور کریں کہ اب تک کتنا وقت بے کار گزار چکے۔
(۷) ہر ماہ کے آخر میں اپنے متعین کردہ اہداف کا جائزہ لیں کہ کیا کوتاہی رہ گئی اور آئندہ اس کی اصلاح کی فکر رکھیں۔
(۸) رشتے داروں سے ملنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لیے ضرور وقت نکالیں ۔
(۹) اپنی غلطیوں سے سب سے پہلے خود سیکھیں۔تجربہ ایک ایسا استاد ہے جو سزا پہلے دیتا ہے اور سکھاتابعد میں ہے ۔
(۱۰) قوتِ فیصلہ کی کمی یا فیصلہ کرنے میں مشکل کی صورت میں مسنون طریقے سے خود استخارہ کریں۔
(۱۱) اہم کاغذات کو سلیقے کے ساتھ ایک جگہ پر رکھنے کااہتمام کریں تاکہ بوقت ضرورت کوئی الجھن پیش نہ ہو۔
(۱۲) غیر ضروری ہنسی مذاق سے گریز کریں‘ اس لیے کہ زیادہ بولنے والے جلد تھک جاتے ہیں اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے۔
(۱۳) محنتی‘ صابر ‘صداقت پسند اوروسیع القلب بننے کی کوشش کریں ۔ماتحت افراد سے زیادہ کام کرنا وقار کی بلندی کا سبب ہے ۔
(۱۴) اچھے اخلاق اور مسکراتا چہرہ ایسی جادوئی چابیاں ہیں جن سے لوگوں کے دلوں کے بند دروازوں کو باآسانی کھولا جا سکتا ہے۔
(۱۵) ہمیشہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں ۔دوستوں کے انتخاب میں انتہائی احتیاط سے کام لیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وقت کی قدر وقیمت کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ہر کامیاب انسان یہ کہتا ہے کہ وقت کی قدر کرو اور ہر ناکام انسان بھی یہی کہتاہے کہ وقت کی قدر کرو! ہمیں چاہیے کہ ہم وقت کی قدر کریں اور اسے نیک کاموں میں صَرف کریں تاکہ دونوں جہان کی کامیابی ہمارا مقدر بن سکے۔یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ وقت کا انتقام بڑا جان لیوا ہوتا ہے‘ جو وقت کی قدر نہیں کرتا وقت اسے زندہ درگور کر دیتا ہے۔بقول ساحر لدھیانوی ؎
وقت سے دن اور رات ‘ وقت سے کل اور آج!
وقت کی ہر شے غلام ‘ وقت کا ہر شے پہ راج!
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج ‘ وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025