اقبال اور اتحاد ِ انسانیراحیل گوہر صدیقیذہن اور مادّے کی ثنویت ہو یا دین و سیاست کی دو رنگی ‘اس کے نتیجے میں کبھی وحدتِ فکر حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مغربی تہذیب کا یہی المیہ ہے انہوں نے مذہب کو سیاست سے بے دخل کر دیا ہے۔ مغربی اور اسلامی تہذیب کے اس فرق و تفاوت کا ذکر کرتے ہوئے ھنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) نے لکھا ہے کہ دونوں تہذیبوں کے تصادم کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلام دین و سیاست کو وحدت کے روپ میں دیکھتا ہے جبکہ اس کے برعکس مغربی تصوّر خدا اور قیصر کو الگ الگ اقلیموں میں رکھنا چاہتاہے۔ اسٹیٹ اور چرچ کی علیحدگی کے باعث تنگ نظر وطنیت کے المیے نے جنم لیا ۔ اسی سیکولر زاویۂ نگاہ کے باعث کمزور ممالک پر دست درازی اور ان کے وسائل و اعصاب پر تسلط کا جنون سوار ہوا۔ ھنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ روس کی تحلیل کے بعد اب صرف دو بڑی حریف طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں یعنی اسلام اور مغرب۔
علّامہ اقبال نے اُمّت ِمسلمہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری اُمّت مسلمہ کی ایک جامع تاریخ کے لحاظ سے عدیم المثال شاہکار ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مختلف زاویوں سے اتحاد و یگانگت کا درس دیا۔ اپنی نظم ’’بزم انجم‘‘ میں باہمی اتحاد کو ستاروں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میںعلّامہ اقبال اُمّت ِمسلمہ کے اتحاد میں مغربی تصوّرِ قومیت کو تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رنگ‘نسل‘وطن ‘ذات اور برادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اُمّت مسلمہ کا اتحاد وحدتِ مذہب وتمدن پر قائم ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’قدیم زمانے میں ’دین‘ قومی تھا جیسے مصریوں ‘یونانیوں اور ہندیوں کا۔ بعد میں نسلی قرار دیا گیا‘ جیسے یہودیت۔ مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیوٹ ہے‘ جس میں انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن ’اسٹیٹ‘ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ ’دین‘ نہ قومی ہے نہ نسلی ہے‘ نہ انفرادی اور نہ پرائیوٹ‘ بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اور اس کا مقصد یا وجود فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے۔ ‘‘
علّامہ اقبال جس قومیت کے قائل ہیں اس کا دائرہ اسلام کے اندر ہے اور وہ اس کی بنیاد دینی معتقدات پر رکھتے ہیں۔
قوم مذہب سے ہے‘مذہب جو نہیں ‘ تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں‘ محفلِ انجم بھی نہیںعلّامہ اقبال کے مطابق اسلام کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اجتماعیت و اتحاد قائم کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ میں :
لا اسلام الا بالجماعۃ ، ولا جماعۃ الا بالامارۃ ، ولا امارۃ الا بالطاعۃ
’’جماعت کے بغیر اسلام نہیں‘ اور امارت کے بغیر جماعت نہیں ‘اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۔ ‘‘
وہ مسلمانوں کو ایک ملّت میں گم ہوجانے کا درس دیتے ہیں اور ایک عالم گیر ملّت کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں جس کا خدا‘رسولﷺ‘ کتاب‘ کعبہ‘ دین اور ایمان ایک ہو۔
منفعت ایک ہے اِس قوم کی ‘نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ‘ دین بھی ‘ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ‘اللہ بھی‘قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟اقبال کہتے ہیں کہ اسلام ایک ازلی ‘ابدی‘آفاقی اور عالم گیر پیغام ہے۔ اس کا مقصد تمام نوعِ انسانی کو اخوت کی لڑی میں پرونا ہے۔ اسلام ہر قوم اور ملک کے لیے راہِ ہدایت ہے۔ اس لیے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور ملک و وطن کے امتیازات مٹا کر یکجا ہوجانا چاہیے اور دنیا کے لیے ایک عالمگیر برادری کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ’’جمعیت ِاقوام‘‘ کے ادارےپر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل ضرورت انسانوں کے درمیان اَخوت کا جذبہ پیدا کرنا ہے نہ کہ قوموں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا۔
علّامہ اقبال نے محسوس کیا کہ اسلامی ملتوں کی مغلوبی اور بے بسی کے باوجود جس کا ذمہ دار غلبہ ٔ فرنگ تھا‘ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی تہذیب سے کوئی منافرت نہیں۔ اگر فرنگ کی طرف سے سیاسی آزادی بھی حاصل ہوجائے تو بھی ان کے قلوب مغرب سے مغلوب و مرعوب ہی رہیں گے۔ اقبال اس ذہنی غلامی کو سیاسی غلامی سے بھی زیادہ مضر اور خطرناک سمجھتے ہیں۔ وہ اس پر یقین رکھتے تھے کہ اگر مسلمان ذہنی طور پر آزاد ہوجائیں اور روحِ اسلام کی پرورش کریں تو وہ سیاسی اور معاشرتی غلامی سے بھی چھٹکارا پالیں گے۔ ایک قسم کی تقلید وہ تھی جس نے دین داروں کو غیر فعال کر کے مذہب کو بے معنی اور استخوانِ بے مغز بنادیاتھا۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے متوالوں کی تقلید شعاری تھی‘ جو ایک بندسے چھٹکارا حاصل کر نے کی کوشش میں ایک دوسری قسم کی قید و بند میں گرفتار ہورہے تھے۔ایسے لوگوں کو شکار کرنے کے لیے مغرب کو کوئی زیادہ کوشش درکار نہ تھی‘ کیونکہ ان میں خود نخچیر بننے کا ذوق موجود تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کا انحصار اس پر نہیں کہ ہم یورپ کی تقلید میں کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں‘ بلکہ اس پر ہے کہ ہم کہاں تک اس کے فکری غلبہ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ مشرق میں مسلمانوں کی ذہنی قیادت اس شخص کے ہاتھ میں ہوگی جو یورپ کی علمی قیادت کو چیلنج کر سکتا ہو اور جرأت سے یہ کہہ سکے کہ انسانی مصائب کی بو قلمونیوں کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسلام۔
علّامہ اقبال اتحاد کے لیے قومیت کی درست فکر کو لازمی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی قومیت کی بنیاد ملک و نسب‘ نسل اور وطن پر نہیںہے۔ اس تصوّر کی انہوں نے عمر بھر شدّ و مد سے تبلیغ کی۔ قومیت کے متعلق نظریات کے حوالے سے اقبال ایک ارتقائی عمل سے گزرے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ نسلی‘جغرافیائی‘ لسانی حوالے سے اقوام کی تقسیم مغرب کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے‘ جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ اس لیے انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے نظریۂ ملّت پر قائم ہونے کا پیغام دیا تا کہ مغرب کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے اور مسلمان اقوامِ عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام ایک بار پھر حاصل کر سکیں۔ اس سلسلے میں ان کا ارتقائی عمل بالکل ظاہر و باہر ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں میں وطن سے گہری محبّت کا اظہار ہوتا ہے۔ اوّلین ا ردو مجموعہ ’’بانگ ِ درا‘‘ کا آغاز ایک ایسی نظم سے ہوتا ہے جو وطن پرستی کے بلند پایہ جذبات سے بھر پور ہے۔ مثلاً اپنی نظم ’’تصویر ِدرد‘‘ میں وہ ہندوستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہوئے کہتے ہیں:
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردُوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوںکے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میںمغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اسلام کوایک نظام ِ رحمت ورأفت دیکھنے کے بجائے اسے اپنا حریف سمجھا حالانکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات میں بہت سے پہلو ایسے تھے جن پر مکالمہ ممکن تھا ‘ اور رہے گا۔ بدقسمتی سے مغرب کے پاس قوت ہے مگر ویژن نہیں ہے۔ ان دونوں کے اتصال ہی سے ایک بڑا کلچر ظہور میں آتا ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اس کی تعلیمات کا خلاصہ محبّت و مساوات کی بنیاد پر ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ تمام بنی نوعِ انسان کا یکساں احترام کیا جائے۔ اسلام اتحاد انسانی کا داعی ہے۔
اقبال مسلمانوں کے زوال سے بہت متفکر تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا کی ایک عظیم قوم بن جائیں۔ آخری عمر میں وہ بڑی بے تابی کے ساتھ مسلمانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔ اقبال ایک دیانت دار مفکر تھے۔ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا‘ اور نہ وہ ذاتی شہرت کے اسیر تھے۔ ابتدا میں وہ وطن پرست تھے۔ اُن کی ابتدائی نظمیں ہمالیہ‘ تصویر ِ درد‘ نیا شوالہ اور ترانۂ ہندی اسی فکر کی عکاس ہیں۔ جب اقبال کی فکر کا کینوس وسیع ہوا تو وہ وطنیت سے ملّیت تک پہنچ گئے اور اُمّت ِمسلمہ کو اپنا موضوع سخن بنالیا۔ انہوں نے لکھا:
’’ مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصوّر مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصلِ اصول نہ اشتراکِ زبان ہے ‘نہ اشتراکِ وطن اور نہ اشتراکِ اَغراضِ اقتصادی‘ بلکہ ہم لوگ اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو رسالت مآب ﷺ نے قائم فرمائی تھی ‘ اس لیے شریک ہیں کہ مظاہرِ کائنات کے متعلق ہم سب کے عقائد کا سر چشمہ ایک ہے۔‘‘
یعنی:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری!اقبال مسلمانوں کو ایک ملّت میں گم ہوجانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا خدا ایک ‘قرآن ایک‘ رسول ﷺ ایک‘ کعبہ ایک اور دین ایک ہے۔ اقبال مغربی علوم و فنون کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مغرب نے مختلف حوالوں سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ متحد ہوکر پھر سے عظیم قوم نہ بن سکے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’یورپی مصنّفین کی تحریر وں سے مجھ پر ظاہر ہوگیا تھا کہ مغرب کے ملکوں میں اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر تقسیم کیا جارہا تھا‘اور نہ صرف مغربی تعلیم یافتہ نوجوان بلکہ علما بھی اس جال میں پھنس چکے تھے۔ ‘‘
محبّت ایک قدرتی جذبہ ہے مگر اسلام کے فلسفہ میں ملک اور وطن زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اسلام صرف فرد کی اخلاقی تربیت ہی پر زور نہیں دیتا بلکہ یہ بتدریج پوری انسانیت میں بنیادی انقلابی تبدیلی چاہتا ہے‘ کیوں کہ اسلام ہی نے سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ مذہب قومی و نسلی نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ نجی اور انفرادی ہوگا۔ مذہب کا مقصد انسانوں کو قدرتی امتیازات کے باوجود متحد اور منظّم کرنا ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے انسانوں میں مفاہمت اور اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔
اگر عالم بشریت کا مقصد ایک واحد اجتماعی نظام بنانا قرار دیا جائے تو سوائے اسلام کے اور کوئی اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آسکتا۔قرآن کی رو سے اسلام محض انسان کی انفرادی طور پر اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر تخلیق کرے۔
انسانی معاشرت کی بنیاد کامل عدل اور مساوات پر قائم ہے ‘جووحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم کے بغیر ناممکن ہے۔ دنیا کی موجودہ ابتری اور تباہی کا اصل سبب یہ ہے کہ جس رفتار سے سائنس نے ترقی کی ہے اس مناسبت سے انسان کے شعور میں اضافہ نہیں ہوا۔ سائنس نے ساری جغرافیائی حد بندیاں توڑ ڈالیں‘ ایجادوں اور مشینوں کے زور سے اس وسیع زمین کو ایک مکان کے صحن کی طرح مختصر کر دیا ‘ رسل و رسائل کی آسانیوں نے اخبار و افکار کی نشر و اشاعت انتہائی سہل کر دی لیکن اس کے باوجود انسان کی تنگ نظری کا حال یہ ہے کہ دنیا اب تک قوم پرستی اور وطن پرستی سے نجات حاصل نہیں کر سکی۔ قوم پرستی بھی درحقیقت شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی نے گزشتہ صدی میں تاریخ انسانی کی ہولناک ترین جنگوں کو جنم دیا اور آج بھی یہ انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگ ایک عالمی ریاست کی حمایت کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ ساری کوششیں اس وقت تک بے کار ہیں جب تک انسانیت وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم پر اشتراک نہیں کرتی۔
اقبال اُمّت کے اتحاد کے لیے مذہب کو بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک طاقت ہیں‘ ایک عمارت کی مانند ہیں جس کی ہر اینٹ اہم ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ!
یہ ان کے اتحادِ اُمّت کا فلسفہ ہی تھا کہ انہوں نے ۱۹۳۰ء میں قیامِ پاکستان کی بنیاد بننے والا تاریخی خطبہ الٰہ آباد پیش کیا۔ اقبال نوجوانوں سے کبھی مایوس نہیں رہے بلکہ انہیں شاہین قرار دیتے رہے۔ اقبال کے اشعار میں ہمیں باہمی یگانگت اور مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے جذبات کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ فرماتے ہیں:
افراد کے ہاتھوں میںہے اَقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستاراایک اور مقام پر مسلم قوم کو نصیحت کرتے ہیں:
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے‘ تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں!اور ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغراقبال ملّت کا ایک وسیع تصوّر پیش کرتے ہیں۔ تمام مسلمان خواہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں ایک اُمّت ہیں ‘ ایک ملّت ہیں اور ایک مضبوط رشتے کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ ملّت ِ اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزین ہے۔ انہوں نے ملّت ِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے‘ اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے اور ایک باوقار قوم کی طرح جینے کا حوصلہ دیا:
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
غلامی اپنے نفس کی ہو یا کسی غیر کی‘ دونوں ہی مردِ مؤمن کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اس کے برعکس اقبال نے جس بات پر پورا زور دیا ہے ‘ وہ ہے خودی۔ جس شخص میں یہ جذبہ ہوگا وہ کبھی کسی کی غلامی پر راضی نہیں ہوگا۔ علّامہ کا فکر و فلسفہ قرآن کی روح کے مطابق ہے۔ وہ ایک حاذق طبیب کی طرح جسد ِملّت میں سرایت مختلف اَمراض کی درست تشخیص اور پھر اس کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان سے کچھ چھپا نہیں رہا۔ فرماتے ہیں:
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہانفرادی اورجتماعی ‘ظاہری و باطنی‘ داخلی اور خارجی وہ تمام اسباب و علل جو قوم و ملّت کے لیے ضرر رساں ہیں‘ جو مسلمانوں کی اخلاقی پسماندگی کی وجہ ہیں اور ان کے زوال کا باعث ہیں‘ اقبال نے ان تمام امراض کی درست تشخیص کی اور قرآن و سُنّت کی روشنی میں اُمّت کو راہِ نجات دکھلائی جو دراصل راہِ حق ہے۔ اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے بچا جائے۔ علاقہ‘ رنگ ‘ ملک‘ قوم‘ وطن‘ زبان‘ خاندان ‘حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔
اقبال نے اپنی معاصر یورپی تہذیب کو کہیں تہذیب ِنو‘ کہیں تہذیب ِحاضر ‘کہیں تہذیب جدید‘ کہیں تہذیب ِ مغرب اورکہیں صرف تہذیب کہہ کر اس کے منفی اور انسان کُش عناصر کی نشان دہی کی ہے۔ فرماتے ہیں:
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروشاور؎
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیریاور ؎
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہےحرم کا راز توحیدِ امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہےآج ملّت ِاسلامیہ کو ایک بڑا معرکہ درپیش ہے‘جسے اقبال کے بڈھے بلوچ نے ’’معرکۂ روح و بدن‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ بڈھے بلوچ کی نصیحت کو ایک بار پھر ذہن میں تازہ کرلینا چاہیے تاکہ آج کے سیکولر مزاج افراد واقوام کو وہ راہ سجھائی جا سکے جسے وہ بدقسمتی سے چھوڑ تے جارہے ہیں ۔اس کے نتیجے میں اُن کی حالت اُس مچھلی کی سی ہوگئی ہے جس کی قابل رحم حالت کا ذکر اکبر نے اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا:
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی!کاش ہم سمجھ سکیں کہ وہ غیرملکی لقمہ جس کے ملنے پر ہم بغلیں بجا رہے ہیں ہمارے لیے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے زہر ہلاہل ہے اور ہماری عزّتِ نفس پر ایک گزر گراں ہے۔ بہرحال بڈھے بلوچ کے چند اشعار پیش ہیں۔اس کی علامتی حیثیت کو سمجھیں اور آزادی‘ حریت‘ غیرت‘ عزّتِ نفس‘ ملّی طرزِ احساس اور تہذیب کے سچّے اور صحیح معانی سے آگاہ ہوں:
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے‘ وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اَخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!اقبال اُمّت ِمسلمہ کی پسماندگی اور نکبت و ادبار کو دیکھ کر جی میں کڑھن محسوس کرتے تھے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک مسلمانوں میں اتحاد ‘ ذہنی ہم آہنگی‘ سود و زیاں کا احساس اور فکری یگانگت پیدا نہ ہوگی ‘یہ اپنے کھوئے ہوئے فکری اور عسکری مقام کی شان و شوکت کو نہیں پا سکتے۔ راستے جُدا ہوں تو اپنی منزل کے سنگ ہائے میل تلاش کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ یقیناًمنزل پر پہنچ جاتے ہیں جو اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اپنے متعین کیے ہوئے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔
اقبال کا پیغام امن کا پیغام ہے۔ وہ اسلامی نشا ٔۃِ ثانیہ کے بانی تھے اور یہ اُن کی حقیقی اہمیت ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
’’قوت کے بغیر فکر اور سوچ اخلاقی رفعت تو مہیّا کر سکتی ہے لیکن ایک پائیدار کلچر فراہم نہیں کر سکتی۔ سوچ و فکر کے بغیر قوت ایک تباہ کن اور غیر انسانی نوعیت اختیار کر لیتی ہے‘ لیکن انسانیت کی روحانی وسعت کی خاطر ان دونوں کو اکٹھا کرلینا چاہیے۔ ‘‘
اُمّت ِمسلمہ کا موجودہ مسئلہ درحقیقت پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اُمّت ِمسلمہ اپنی حقیقت کو پہچانے گی اور اس کے مطابق عمل کرے گی تو وہ دنیا کی قیادت کے قابل ہوگی۔ کفر کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے اربوں انسانوں کو ایمان کی روشنی عطا کرے گی۔ دراصل اُمّت ِمسلمہ کا اتحاد صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پوری نوعِ انسانی کے لیے اہم ہے۔ صرف مسلمانوں کی تہذیب ہی اب حقیقی معنوں میں ایک سطح پر’ ’خدا مرکز‘‘ (God centric) تہذیب ہے۔ دوسری سطح پر یہ’ ’کتاب مرکز‘‘ تہذیب ہے اور تیسری سطح پر ’’رسول مرکز‘‘ تہذیب ہے۔ یہی مسلمانوں کے اتحاد کی اصل بنیادیں ہیں اور یہی پوری انسانیت کو ایک اُمّت بنانے کی صورت ہے۔ بلا شبہ یہی وہ درد آگیں تھا جو اقبال کی نثر و نظم کا مرکز و محور تھا۔ اسی فکر ِفردا نے انہیں مفکر ِ اسلام کا نام دیا۔ ان کی خودی کے تصوّر میں اُمّت ِمسلمہ کی اصل روح اور حیاتِ تازہ کی نوید تھی۔
مآخذ و مصادر
(۱) علّامہ اقبال کا تصور اتحاد‘محمد طالب جلال ندوی
(۲) فکر اقبال‘ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم
(۳) اقبال اور نشاۃِ ثانیہ‘پروفیسر خورشید احمد
(۴) اقبال اور اُمّت ِمسلمہ کا اتحاد‘قیوم نظامی
(۵) اقبال اور اتحاد ِ اُمّت‘راضیہ سید
(۶) اتحادِ اُمّت :کیوں اور کیسے؟شاہنواز فاروقی
tanzeemdigitallibrary.com © 2025