اعمال میں میانہ رویپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ دین ِاسلام ہے جو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَمَنْ یَّــبْـتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّــقْبَـلَ مِنْہُ ج} (آلِ عمران:۸۵) ’’اورجو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین(یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ) اختیار کرے وہ اس سے قبول نہیں ہو گا‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور یہاں جوبویا جائے گا وہی آخرت میں کاٹا جائے گا‘یعنی ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ اسی لیے خالق کائنات نے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ انسانوں کو سکھادیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف اس طریقے کی تعلیم دی بلکہ خود اس طریقے پر عمل کر کے زندگی گزاری۔ آپﷺ نے اپنی پوری زندگی اللہ کی مرضی اور تعلیم کے مطابق گزاری‘اسی لیے آپؐ کی زندگی کو تمام بنی نوعِ انسان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا۔ قرآن مجید میں ہے:{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’یقیناًرسول اللہ (ﷺ کی زندگی) میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘۔جب آپؐ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے آپؐ کی زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :((کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن))(مسند احمد) یعنی آپﷺ کی زندگی سراسر قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ زندگی گزارنے کا وہ نبوی طریقہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے سیکھا جو آج بھی ہمارے سامنے موجودہے۔ ہمیں بس اس طریقے کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا ہے۔
اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے اور اس بابرکت ذات نے اپنے بندوں کے لیے جو طرزِ زندگی پسند کیا ہے‘اُس میں انسانی استطاعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین ِاسلام کے تمام احکام میں سہولت ہے‘شدّت اور سختی نہیں ہے اور اگر کوئی شخص کسی بھی معاملے میں سختی اختیار کرتا ہے تووہ ناپسندیدہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے:{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز} (البقرہ:۱۸۵) ’’اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہارے لیے سختی نہیں چاہتا ۔‘‘
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: توحید و رسالت کا اقرار‘ پنجگانہ نماز‘ رمضان کے روزے‘ اپنی جمع پونجی میں سے سال گزرنے کے بعد چالیسواں حصہ زکوٰۃ دینااور اگر استطاعت ہو تو حج کرنا جو عمر بھر میں ایک دفعہ کافی ہے۔ ان پانچ بنیادی چیزوں کے ادا کرنے میں کوئی تنگی نہیں‘بلکہ ان کی ادائیگی میں سہولت رکھی گئی ہے۔بایں طور کہ جس نے پنجگانہ نماز کی پابندی کر لی‘اس نے اللہ کے حکم پر عمل کر لیا۔اب دن رات یعنی چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازیں پڑھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ نماز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے مگر نماز کے معاملے میں بھی سختی نہیں‘ بلکہ آسانی ہے۔ نفل نماز بھی ہے‘لیکن اس میں بھی غلو کی اجازت نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھتے نیند کا غلبہ ہو جائے تو نماز موقوف کرکےسو جانے کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح قرآن پڑھنے کا بہت ثواب ہے‘بایں طور کہ ایک ایک حرف پر دس نیکیوں کی بشارت ہےاوریہ نیکیاں کمانے کا بہت آسان ذریعہ ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرے مگر یہاں بھی درمیانی چال کو پسند کیا گیا ہے۔ قرآن پڑھتے پڑھتے بھی اگر نیند کا غلبہ ہونےلگےیا تھکاوٹ محسوس ہو تو قرآن مجید کی تلاوت روک دی جائے۔تلاوت اُسی وقت تک جاری رکھی جائے جب تک تھکاوٹ یا اُکتاہٹ نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے تین دن سے کم میں پورے قرآن کی تلاوت کو پسند نہیں فرمایا۔
دن کو روزہ رکھنا اور رات کو قیام کرنا باعث ِاجر وثواب اور بہت پسندیدہ عمل ہے‘مگر یہاں بھی افراط و تفریط سے روکا گیا ہے اور درمیانی چال ہی کو پسند کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ کے سامنے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کا تذکرہ کیاگیا جن میں سے ایک عالم تھا‘وہ فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا اور لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا‘ جبکہ دوسرا شخص دن کو روزہ رکھتا اوررات کو قیام کرتا تھا۔آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں سے کون افضل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جانے اور لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے عالم کی فضیلت اس عابد پر‘جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہے اس طرح ہے جس طرح میری تمہارے ادنیٰ پر فضیلت ہے‘‘(مشکوٰۃ) گویا افراط و تفریط سے بچ کر نیک کام پسندیدہ ہیں۔
روزہ رکھنا دین اسلام میں بہت فضیلت کا حامل ہے کہ اس کے اجر کے بارے میں حدیث قدسی میں یہ الفاظ آئے ہیں:((اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ)) ’’روزہ خاص میرے لیے ہے اور مَیں خود ہی اس کی جزا دوں گا!‘‘اعراب کے ذرا سے فرق کے ساتھ اسے یوں بھی پڑھا جاتا ہے:((اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزٰی بِہٖ)) ’’روزہ خاص میرے لیے ہے اور مَیں خود ہی اس کی جزاہوں!‘‘اس فضیلت کے باوجود روزے کے معاملے میں بھی میانہ روی کا حکم دیا گیا اور مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما (جنہیں عبادت کی بڑی رغبت تھی) سے فرمایا:’’ ہر ماہ تین نفل روزے رکھ لیا کرو‘ یہ زمانہ بھر کے روزے رکھنے کے مترادف ہے‘‘۔ جب انہوں نے کہا کہ مَیں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپؐ نے فرمایا:’’حضرت دائود علیہ السلام کی طرح ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو۔‘‘
قرآن کی تعلیم دینا اور اسلامی تعلیمات پر مبنی وعظ کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے مگر یہاں بھی آپ ﷺنے میانہ روی کوپسند کیا۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہر جمعہ (سات دن) میں لوگوں سے ایک مرتبہ وعظ کیا کرو‘اگریہ نہیں تو دو مرتبہ اور اگر زیادہ کرنا ہو تو تین مرتبہ۔ (اس سے زیادہ کر کے) لوگوں کو اس قرآن سے اُکتا نہ دو۔ مَیں تمہیں نہ پائوں کہ تم لوگوں کے پاس آئو اوروہ اپنی گفتگو میں مصروف ہوں اور تم ان کی بات کاٹ کر انہیں وعظ کرنا شروع کر دو‘ اس طرح تم انہیں اُکتا دو گے۔ تم خاموشی اختیارکرواور جب وہ تمہیں کہیں تو انہیں وعظ کرو۔ درآں حالیکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں۔
قرآن مجید میں نمازِ جمعہ کے حوالے سے فرمایا گیا:{ يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْااِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ......}(الجمعۃ:۹) ’’اے ایمان والو!جب جمعہ کے دن نماز کے لیے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو......‘‘ اگرچہ یہاں لفظ ’’فَاسْعَوْا‘‘ بمعنی دوڑناآیا ہےہے‘ مگریہاں دوڑنے سے مراد یہ ہے کہ نمازِ جمعہ کے لیے تمام کام چھوڑ کر مسجد چلے جاؤ۔ کیونکہ دوڑ کر مسجد جانا نہ حضور ﷺ کے عمل سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل سے۔بلکہ عام حالات اور عرفِ عام میں بھی دوڑنا اچھانہیں سمجھا جاتا۔ گلی بازار میں لوگ آرام سے چل رہے ہوتے ہیں‘ ایسے میں اگرکوئی شخص دوڑتا ہوا نظر آئے تو سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے کہ اس شخص کو پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔اسی لیے نمازِ جمعہ کے لیے بھی بالفعل دوڑ کر آنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
نمازِ جمعہ کے لیے جلدی مسجد میں پہنچنا بلاشبہ ثواب کا باعث ہے تاکہ اگلی صفوں میں جگہ مل سکے۔ جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں جو مسجد میں آنے والوں کی حاضری لگا رہے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ نمازِجمعہ کے وقت فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنے والوں کو ترتیب وار لکھتے جاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والا شخص اس آدمی کی طرح ثواب پاتا ہے جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد والا اس شخص کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد والا بھیڑ کی قربانی کرنے والے کی طرح۔ پھر مرغی اور پھر اس کے بعد آنے والا ایسے ہے جیسے کوئی انڈہ صدقہ کرے۔ جب امام منبر پر آجاتا ہے تو فرشتےاپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور غور سے خطبہ سنتے ہیں۔(صحیح البخاری: عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
اجر وثواب حاصل کرنے کے لیے یہ کتنا سہل عمل ہے جس میں کسی طرح کی تکلیف یا مشقت نہیں‘بلکہ شوق کا مظہر ہے۔
دن کام کرنے اور رات آرام کرنے کے لیے ہے‘ البتہ رات کے کچھ حصے میں قیام کرنا مستحسن ہے مگر آرام کے اس وقت کو پوری رات عبادت میں گزارنا درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن العاص ؓ رات بھر جاگ کر نفل نماز میں مشغول رہتےتھے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی خبر ملی تو آپﷺ نے انہیں فرمایا:’’ رات کو قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کابھی تم پر حق ہے۔‘‘ (متفق علیہ) گویا ساری رات جاگ کر عبادت میں مشغول رہنا غلو ہے‘جو پسندیدہ نہیں۔ عرفِ عام میں بھی اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لیے بنائی ہے۔
اعمال میں میانہ روی مطلوب ہے‘اس ضمن میں ایک مشہور حدیث ہے کہ تین اشخاص رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے آپؐ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے پاس آئے۔جب انہیں آپﷺ کی عبادت کے معمول کے متعلق بتایا گیا توانہوں نے اسے کم محسوس کیا۔انہوں نے دل میں سوچا کہ ہماری نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺسے کیا نسبت‘ اللہ تعالیٰ نے تواُنؐ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں۔چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ مَیں تو ہمیشہ ساری رات نما ز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ مَیں ہمیشہ روزہ رکھوں گا‘کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا کہ مَیں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے ان کو بلا کر فرمایا:
((اَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟ اَمَا وَاللہِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَـہٗ، لٰـکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) (صحیح البخاری‘ کتاب النکاح)
’’تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس اس طرح کہا ہے۔ اللہ کی قسم !مَیں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں‘ لیکن مَیں روزہ بھی رکھتا ہوں اورافطار بھی کرتا ہوں‘ رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں‘ اور مَیں نےعورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں۔ پس جو شخص میری سُنّت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
رسول اللہﷺ نے ہر معاملے میںخود بھی میانہ روی کا طریقہ اختیار فرمایا اور لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دی۔آپؐ نے ہر کام میں غلو اور مبالغے سے منع فرمایا‘حتیٰ کہ عبادت میں بھی مشقت کو پسندیدہ قرار نہیں دیا‘بلکہ میانہ روی کی تلقین کی۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جوشخص نمازِعشاءاور نمازِ فجر باجماعت پڑھتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے کہ جس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔‘‘
اسلام نام ہے دل کی آمادگی کے ساتھ اطاعت ِ الٰہی اور اطاعت ِ رسول ﷺ کا اوراسی میں اجر وثواب ہے۔ایک مرتبہ ماہِ رمضان میںصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ایک سفر درپیش ہوا توکچھ اصحاب نے روزہ رکھ لیا اور کچھ نے سفر کے باعث روزہ چھوڑ دیا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو جنہوں نے روزہ چھوڑ رکھا تھا‘وہ تو کھانے کی تیاری میںلگ گئے اور جو روزہ دار تھے وہ بھوک کی شدّت اور سفر کی تکان کے باعث لیٹ گئے اور کھانا تیار کرنے میں کوئی مدد نہ کر سکے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج روزہ چھوڑنے والے روزہ رکھنے والوں سے زیادہ اجر لے گئے۔ گویا آپؐ نے سفر میں روزہ نہ رکھنے کو پسند فرمایا کیونکہ سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔اور روزہ داروں کی خدمت کا اجر روزہ چھوڑنے والوں کو ملا اور ان کا روزہ چھوڑنا عین اسلامی تعلیم تھی۔ اسی طرح سفر میں نمازِ قصر کرنے کا حکم ہے‘اگر کوئی جانتے بوجھتے سفر میں بھی نماز ِقصر نہیں کرتا تو وہ قرآن کے حکم کی نافرمانی کا موجب ہو گا۔
درج بالا نکات سے معلوم ہوا کہ عبادت میں وہی طریقہ مقبول ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کی سُنّت کے مطابق ہو۔ عبادت میں غلو کی اجازت تو اصحابِ ؓرسولؐ کو بھی نہ تھی تو آج کے اہل ایمان عبادت میں سختی کیسے اختیار کر سکتے ہیں ؟ تاریخی حوالوں سے بتایا جاتا ہے کہ دین اسلام کی معروف شخصیات نے نماز اور روزے میں حد سے زیادہ غلو کیا‘مثلاً حضرت امام ابو یوسف ؒ قاضی ٔالقضاۃ تھے اور ان کو دوسرے مشاغل بھی تھے لیکن مشہور ہے کہ وہ روزانہ دو سو رکعات نفل پڑھتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒکے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ چالیس برس تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے رہے۔ حالانکہ یہ عمل کسی سے ممکن نہیں‘ کیونکہ انسان ہونے کے ناطے رفع حاجت اور نیند کی صورت میں عشا کا وضو فجر تک کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ کمزوریاں ناگزیر ہیں۔ امام شافعیؒ کے متعلق بتاتے ہیں کہ رمضان میں ساٹھ قرآن مجید نماز میں پڑھتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ روزانہ تین سو رکعات نفل پڑھتے تھے۔ ایک صاحب کے بارے مشہور ہے کہ روزانہ تہجد اور وتر کی تیرہ رکعتوں میں ایک قرآن پڑھا کرتے تھے۔ بڑے علماء اور محدثین کے بارے میں ان تاریخی روایات کی صداقت ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ نہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے ان باتوں کی تائید ہوتی ہے اور نہ ہی صحابہ کرام ؓ نے اس طرح کے عمل کیے جو اُمّت کے لیے حُجّت ہوں۔درج بالا اکثر اعمال ایسے ہیں کہ کسی انسان سے ان کا صادر ہونا ممکن نہیں۔ کچھ عمل ایسے ہیں کہ اُن سےسُنّت کی خلاف ورزی ثابت ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کا علم رکھنے والا کوئی شخص خلاف ِسُنّت عمل کیسے اور کیوں کر سکتا ہے؟ یہ شعر حدیث کے مصداق ہے کہ ؎
خلافِ پیغمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسیدیعنی رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف کرنے والا کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام اعمالِ زندگی میں غلو‘شدّت پسندی اور افراط وتفریط سے بچ کر ہمیشہ میانہ روی اور اعتدال پسندی کو اختیار کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین !!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025