ٹرانس جینڈر (تحفظ ِحقوق) ایکٹ۲۰۱۸ء
مقاصد و مضمراتپروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق
مخنث / خواجہ سرا افراد کومعاشرے میں بہت سے سماجی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے۔ وہ بھی اللہ کی ایسے ہی مخلوق ہیں جیسے دوسرے انسان۔ان کے حقوق کے تحفظ کےلیےمئی۲۰۱۸ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے Tansgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 ـ پاس کیا ۔ بدقسمتی سے اس میں مخنث/خواجہ سرا حضرات کو تو کوئی تحفظ نہیں دیا جا سکا لیکن اس ایکٹ کی آڑمیں ایک طرف توایسی قانون سازی کی گئی جس کا کھلے عام اعلان کسی بھی صورت میں پاکستان کے مسلمانوں کو قابل قبول نہ ہوتااور دوسری طرف عورتوں کے حقوق کو بری طرح پاما ل کردیا گیا ۔ اور اس ایکٹ کے ذریعے بے شمار اخلاقی قباحتوں کی راہیں کھول دی گئی ہیں۔ڈاکٹر اسرار رحمہ اللہ نے آج سے دو دہائی پہلے اس معاملے کا ادراک کر لیا تھا اورایک خطاب ’’اسلام میں پردے کا نظام اور یو این او کا سوشل انجینئرنگ پروگرام‘‘ میں مسلمانوں کو خبردار کر دیا تھا کہ مسلمان ممالک میں صنفی اقدار ختم کر نے اور مرد کو مرد اور عورت کو عورت سے شادی کی اجازت دینے اور اس کو رجسٹر کرنے اور ہم جنسی پرستی کو قانونی طور پرتسلیم کرنے کی سازش تیار کر لی گئی ہے ۔ بدقسمتی سے آج اس بل کے ذریعے ہم ان کی یہ پیشین گوئی پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں اور ہماری مذہبی جماعتیں بھی بوجوہ اس کا ادراک نہیں کر پائیں اور ان کی موجودگی میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے یہ بل پاس کر دیا۔
ذیل میں مختصراً چند متعلقہ آرٹیکلز اور ان کے مضمرات کا حوالہ دیا گیا ہے:
تعریف(Definitions)
ایکٹ کےArticle 2(e)میں’’جینڈر کا اظہار‘‘(gender expression) کو یوں بیان کیا گیاہے:’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد اپنی جنس کا خود تعین کر کے اس کو کیسے ظاہر کرتا ہے یا دوسرے لوگ اس کو کیسے سمجھتےہیں‘‘اور ساتھ ہی ایکٹ کے Article2(f) میں (gender identity) یعنی صنفی شناخت کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’صنف کی شناخت کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد اپنے انتہائی داخلی احساس کی بنیاد پراپنی انفرادی جنس کو مرد عورت‘ دونوں یا ان میں سے کوئی بھی نہ متعین کرنے کا فیصلہ کر ے چاہے یہ اس کی پیدائشی جنس سے مطابقت رکھے یا نہ رکھے۔ اور Article 2n(i, ii, iii)کے مطابق ٹرانس جینڈر شخص وہ ہو گا جو (i) مخنث (خسرہ )ہو‘جس کے پیدائشی جنسی اعضاء میں یہ واضح نہ ہو کہ وہ مرد ہے یا عورت‘ (ii) جس کے پیدائش کے وقت تو خصیے موجود تھے لیکن بعد میں کاٹ دیئے گئے (iii)ٹرانس جینڈر مرد یا ٹرانس جینڈر عورت یا کوئی ایسا فرد جس کا جنسی اظہار(gender expression) یا جنسی شناخت سماجی اور ثقافتی توقعات کی بنیاد پر اس جنس سے مختلف ہو جو اس کی پیدائش کے وقت متعین کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ یہ ایکٹ مخنث (خسرہ/خواجہ سرا) لوگوں کے تحفظ کے نام پر بنایا گیا ہے۔ مخنث(inter sex) وہ شخص ہوتا ہے جس کے جنسی اعضاء کی ساخت مرد یا عورت کے اعضاء کی طرح واضح نہیں ہوتی اور اس کے بین بین کی مختلف حالتوں میں ہوتی ہے ۔ جسمانی سا خت کے ساتھ ساتھ ان کی آواز اور عادات واطوار بھی زنانہ یا مردانہ ہوتے ہیں اور ان کو عام طور پر خواجہ سرا کہتے ہیں۔شریعت میں مخنث کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں اور ان کے لیے احکام وضع کیے گئے ہیں۔
جب کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح پہلی مرتبہ ۱۹۶۵ءمیں ذہنی امراض کے ایک امریکی ماہر (psychiatrist) جان۔ایف۔اولیون (John F.Oliven) نے استعمال کی۔ یہ اصطلاح ان ذہنی مریضوں کے لیے استعمال کی گئی جو پیدائشی طور پر مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنے آپ میں صنف مخالف کی غالب صفات اور جذبات کے احساس کی بنیاد پرخود کو پیدائشی جنس کے خلاف سمجھتے تھے ۔بعد میں ا یسے افراد جو مرد یا عورت میں سے کسی ایک کے جذبات بھی نہ رکھتے ہوں اور یا وقت کے ساتھ خود کو کبھی مرد اور کبھی عورت سمجھیں ان کو Non-Binary یا Fluid Gender کا نام دیا گیا۔ ٹرانس جینڈر کے انہی ذہنی مسائل کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس ایکٹ کےآرٹیکل 6(a) میں حکومت کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی حفاظتی مراکز بنائے اور ان کے نفسیاتی علاج اور کونسلنگ کا انتظام بھی کرے۔
اس ایکٹ کے تحت ایک مرد یا عورت کو یہ حق حاصل ہو گیاہے کہ وہ اپنی جنس/ صنف کا تعین خود کرے اور شناختی کارڈ میں نام بھی تبدیل کر لے اور قانوناً مرد خود کو عورت اور عورت خود کومرد کے طور پر رجسٹرڈ کر لے۔][Article3(1,2,4)۔اور][Article3(3)کے تحت یہ ہر اس پاکستانی ٹرانس جینڈر شہری کا صوابدیدی اختیار ہوگا جس کی عمر اٹھارہ سال (یا اس سے زیادہ) ہو ۔وہ اپنے بدلے ہوئے نام اور جنس کے مطابق شناختی کارڈ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ حاصل کرسکتا ہے اور وراثت میں اس کا حصہ بھی اسی بدلے ہوئے جنس کے مطابق متعین کیا جائے گا۔یعنی اسلام کے قانونِ وراثت کے علی الرغم عورت جائیداد کے حصول کے لیے خود کو مرد کے طور پر رجسٹر کرکے جائیدا د میں مرد کا حصہ وصول کرنے کی مجاز ہو گی اور مرد بھی اپنی جنس تبدیل کر کے عورت کا متعین حصہ حاصل کر سکتا ہے۔ البتہ عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اس صورت میں[Article 7(3)(iii)(d]کے تحت اس کے جنس کے تعین کے بارے میں ڈاکٹر سے رائے لی جائے گی۔
جو مرد خود کو عورت کے طور پر رجسٹرڈ کر لے اسے عورتوں کے مخصوص تعلیمی اداروں میں داخلے Article8(1) ‘ عوامی مقامات پر عورتوں کے لیے موجود سہولیات Article14 (2,3) مثلاًپارکوں‘ غسل خانوں‘ اور Article14(1) کے تحت انہیں مساجدمیں جانے کی مکمل آزادی ہوگی اورArticle13کے تحت یہ لوگ ان عوامی مقامات پر اجتماعات بھی کر سکیں گے اور Article13(2) کے مطابق حکومت ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہو گی۔
ٹرانس جینڈر افراد کو Article10 کے تحت یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ووٹ دیتے وقت ‘ شناختی کارڈ میں درج شدہ جنس کے مطابق متعلقہ پولنگ سٹیشن میں جا ئیں۔ یعنی اگر کسی ٹرانس جینڈر مرد نے خود کو شناختی کارڈ میں عورت کے طور پر رجسٹرڈ کیا ہے تو وہ عورتوں کے پولنگ سٹیشن میں جانے کا مجاز ہوگا۔ Article11کےتحت ایسے ٹرانس جینڈر مرد کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ پارلیمان میں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر الیکشن لڑے اور اسی قانون کے تحت وہ عورتوں کے لیے مخصوص دوسرے حکومتی عہدوں کا اہل بھی ہو گا۔یعنی اس وقت خواتین کو جو خصوصی استحقاق اور مراعات حاصل ہیں وہ عملاً ختم کر دی گئی ہیں۔
چونکہ [Article 3] (1,2,3,4)کے تحت کوئی بھی ٹرانس جینڈر مرد خود کو عورت کے طور پر رجسٹر کر سکتا ہے اس لیے قانونی طور پر اسےعورت ہی سمجھا جائے گا اس لیے وہ مرد سے شادی کا حق دار ٹھہرے گا یعنی عملاً ایک مرد کو مرد سے شادی کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ یہی صورت عورت کی عورت سے شادی کی بھی ہے۔ اس طرح ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جن اخلاقی‘ نفسیاتی اور طبی بیماریوں/ برائیوں کا دروازہ کھل گیا ہے شاید اس کے حقیقی اثرات کا اس وقت ہم مکمل ادراک بھی نہیں کر سکتے۔
خلاصہ
یہ ایکٹ معاشرے میں مخنث / خواجہ سراطبقے کوتحفظ نہیں دے سکتا۔ اس کے ذریعے سے ان مذموم مقاصد کو حاصل کیا گیا ہے جن کا کھلےطور پر حاصل کرنا ممکن نہ تھا۔اس سے نہ صرف ہم جنس پرستی بلکہ دوسری بےشمار اخلاقی برائیوں کو بھی قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ یہ ایکٹ ہمارے معاشرتی اور سماجی اقدار اور قرآن و سنت اور بنیادی اسلامی عقائد کےخلاف ہے اورپاکستان کے آئین سے بھی متصادم ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2-B(1)کےمطابق قرآن و سنت پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہےاورآرٹیکل 2-B(3)کے مطابق ہر اس حکومتی عہدیدار کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے جس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے‘کیونکہ آئین پاکستان پر عمل کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔
اس وقت ایسے قوانین کے خلاف نہ صرف اجتماعی جدّوجُہد کی ضرروت ہے بلکہ ساتھ ہی اجتماعی استغفار اور توبہ کی بھی ‘کہ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں اس کے ذمہ دار ہیں۔
نوٹ:ذیل میں تمام متعلقہ آرٹیکلز (Articles) کے حوالے دیے گئے ہیں۔
References:
Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018
2.Definitions:
(e) "gender expression" refers to a person's presentation of his gender identity and the one that is perceived by others;
2-تعریف:
جینڈر (جنس) کا اظہار۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد اپنی جنس کا تعین کر کے اس کو کیسے ظاہر کرتا ہے اور دوسرے لوگ اس کو کیسے سمجھتے ہیں۔
(f) "genderidentity" means a person's innermost and individual sense of self as male, female or a blend of both or neither that can correspond or not to the sex assigned at birth;
جینڈر (جنس) کی شناخت کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی جنس اپنے داخلی رجحان کی بنیاد پر کیسےمتعین کرتا ہے چاہے وہ اسے مرد‘ عورت یا دونوں یا ان میں سے کوئی بھی متعین نہ کرے‘ چاہے وہ اس کی پیدائشی جنسی تشخص سے مختلف ہی کیوںنہ ہو (اسے مانا جائے گا) ۔
(n) "transgender person" is a person who is;
i. intersex (Khusra) with mixture of male and female genital features or congenital ambiguities; or
ii. eunuch assigned male at birth, but under goes genital excision or castration; or
iii. a transgender man, transgender woman, Khawaja Sira or any person whose gender identity or gender expression differs from the social norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the-time of their birth.
(n)ٹرانس جینڈرشخص وہ ہوگا جو؛
i. خسرہ ‘جس کے جنسی اعضاء مرد اورعورت دونوں کے حصوں پر مشتمل ہوں یا پیدائشی طور پر مبہم ہوں
ii. جو پیدائشی طور پر تو مرد ہو لیکن اس کے خصیے کاٹ دیے گئے ہوں یا اسے خصی کر دیا گیا ہو۔
iii. ٹرانس جینڈر مرد یا ٹرانس جینڈر عورت‘ خواجی سرا یا کوئی بھی دوسرا شخص جس کا صنفی اظہار یا صنفی تصور سماجی و معاشرتی توقعات کی بنیاد پراس کی پیدائشی جنس سے مختلف ہو۔
Recognition fidentity of transgender (1) A: transgender person shall have a raight to be recognized as per his or her self-perceived gender identity, assuch, in accordance with the provision soft his Act.
ٹرانس جینڈر شخص کی شناخت کا تسلیم کرنا -(1) ایک ٹرانس جینڈر شخص کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس ایکٹ کے مطابق اپنی صنفی شناخت خود اپنےصنفی تصور کی بنیاد پر کرائے۔
(1) A person recognized as transgender under sub-section (1) shall have a right to get himself or herself registered as per self-perceived gender identity with all government departments including, but not limited to, NADRA.
ذیلی سیکشن (1) کےتحت جس کو ٹرانس جینڈر تسلیم کیا گیا ہے اسے یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنی تصور شدہ صنفی شناخت کے مطابق فیصلہ کر کے خود کو نادرا (NADRA)اور دوسرے تمام سرکاری اداروں میں (بطور مرد یا عورت) رجسٹرڈ کروائے ۔
(3) Every transgender person, being the citizen of Pakistan, who has attained the age of eighteen years shall have the right to get himself or herself registered according to self-perceived gender identity with NADRA on the CNIC, CRC, driving license and passport in accordance with the provisions of the NADRA Ordinance, 2000 (VIII of2000) or any other relevant laws.
ہر ٹرانس جینڈر جو پاکستانی شہری ہو اور جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ گیا ہو اسے یہ حق حاصل ہو گا کہ اپنی تصور شدہ صنفی شناخت کے مطابق (کہ وہ خود کو مرد سمجھتا ہے یا عورت) نادرا میں شناختی کارڈ‘ پیدائش سرٹیفکیٹ ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ کے لیے نادرا آرڈیننس 2000‘ (VII of 2000) یا کسی بھی دوسرے قانون کے مطابق خود کو رجسٹرڈکروا لے۔
(4) A transgender person to whom CNIC has already been issued by NADRA shall be allowed to change the name and gender according to his or her self-perceived identity on the CNIC, CRC, driving license and passport in accordance with the provisions of the NADRA Ordinance, 2000 (VIII of 2000).
جس ٹرانس جینڈر فرد کو نادرا شناختی کارڈ جاری کیا جا چکا ہے ا س کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ شناختی کارڈ‘ پیدائش سرٹیفکیٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ میں نادرا آرڈیننس 2000‘ (VII of 2000) کے مطابق اپنی مرضی کی صنف کا اندراج کرائے اور اپنی صنف (جنس)اور نام تبدیل کرا لے۔
6. Obligations of the Government: The Government shall take following steps to secure full and effective participation of transgender persons and their inclusion in society, namely:-
(a) establish protection centers and safe houses to ensure the rescue, protection and rehabilitation of transgender persons in addition to providing medical facilities, psychological care, counseling and adult education to the transgender persons;
حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ ٹرانسجنڈر افراد کو معاشرے میں ضم کیا جاسکے۔ ان (اقدامات) میں ؛
ٹرانس جینڈر افراد کے لئے حفاظتی مراکز بنانا اور اس کے ساتھ ان کی بحالی کے اقدامات کرنا اور ان کے لیے نفسیاتی علاج اور کونسلنگ اور تعلیم بالغان کا بندوبست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
7. Right to inherit: -
(3) (iii)
d. below the age of eighteen years, the gender as determined by medical officer on the basis of predominant male or female features.
اٹھارہ سال سے کم عمر کی صورت میں ڈاکٹر یہ فیصلہ کرے گا کہ اس شخص کی غالب پیدائشی جنسی اعضاء کے مطابق اس فرد کی صنف کیا ہوگی
Right to education: (1). There shall be no discrimination against transgender persons in acquiring admission in any educational institutions, public or private, subject to fulfillment of the prescribed requirements.
ٹرانس جینڈر افراد سے کسی بھی سرکاری یا نجی تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے مقررہ شرائط پورے کرنے کے بعد امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا۔
I0.Righttovote: No transgender person shall be deprived of his right to cast a vote during national, provincial and local government elections:
Provided that the access to pollingstations shall be determined according to the gender declared on the CNIC of a transgender person.
ووٹ کا حق:کسی بھی ٹرانس جینڈر فرد کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور وہ صوبائی‘ قومی اسمبلی اور لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں ووٹ دے سکے گا۔ اور ووٹ دیتے وقت اس کا پولنگ سٹیشن اس کے شناختی کارڈ میں رجسٹرڈ صنفی اندراج کے مطابق ہوگا۔
11. Right to hold public office: (I). There shall be no discrimination on the basis of sex, gender identity and gender expression for transgender persons if they wish to contest election to hold public office.
سرکاری عہدہ رکھنے کا حق:ٹرانس جینڈر لوگ اگر الیکشن میں حصہ لینا چاہیں تو ان سے جنس‘ صنفی شناخت یا ظاہر شدہ صنف (یعنی جس کے تحت وہ رجسٹر ڈہوئے ہیں) کی وجہ سے کوئی بھی حکومتی عہدہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی الیکشن یا مقامی حکومتوں کے انتخاب میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا ۔
13. Righttoassembly-(1) The Government mustensure the freedom of assembly for transgender persons in accordance with Article I6 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan.
اجتماع کا حق۔حکومت یہ بات یقینی بنائے گی کہ ٹرانس جینڈر افراد کواسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت اجتماع کرنے کی اجازت ہوگی۔
14. Right of access to public places:- (1) No transgender person shall be denied access to public places, places of entertainment or places intended for religious purpose solely on the basis of his sex, gender identity or gender expression.
عوامی مقامات پر جانے کی آزادی: (1)کسی بھی ٹرانس جینڈر فرد پر عوامی مقامات‘ تفریحی مقامات (پارک وغیرہ) یا مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے مقامات پر جانے کے لیے‘صرف اس کی جنس‘ صنفی تشخص‘ یا صنفی اظہار کی بنیاد پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔
(2) The Government must ensure transgender persons' access to public places in view of Article 26 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan.
(3) It shall be unlawful to prevent transgender persons to access facilities available for access of general public and public places mentioned in sub-section (I).
(2) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 26کے تحت ‘حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ٹرانس جینڈر افراد کو عوامی مقامات پر جانے میں کی آزادی ہو ۔
(3) ٹرانس جینڈر افراد کو سب سیکشن (1)میں بیان کردہ عوامی مقامات پر جانے سے روکنا غیر قانونی ہوگا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025