(ظروف و احوال) ٹرانس جینڈر قانون:اسلام کے معاشرتی نظام پر حملہ - ادارہ

11 /

ٹرانس جینڈر قانون:اسلام کے معاشرتی نظام پر حملہ

ادارہ

فرمانِ الٰہی: ”اور اُس (شیطان) نے کہا (اے اللہ) میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصّہ تو لے کر ہی چھوڑوں گا۔ اورمَیں لازماً ان کو بہکاؤں گا اور ان کو بڑی بڑی امیدیں دلاؤں گا‘ اور میں انھیں حکم دوںگا تو (اس کی تعمیل میں) وہ چوپایوں کے کان چیر دیں گے‘ اور میں انہیں حکم دوں گا تو (اس کی تعمیل میں) وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کریں گے۔“ ( النساء:۱۱۸‘۱۱۹) ’’اللہ کی بنائی ہوئی فطرت پر (قائم رہو) جس پر اُس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘( الروم:۳۰)
فرمانِ رسولﷺ: ”ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اُس کے والدین اسے یہودی‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“ (صحیح البخاری) ”رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔“ (صحیح البخاری)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق فطرتِ سلیمہ پر کی ہے۔ نسل انسانی کا ہر بچہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین یا ماحول کی وجہ سے اس فطرت پر کچھ اور رنگ چڑھ جاتے ہیں اور آج اس فطرتِ انسانی کو LGBT+ کے ایجنڈے کے تحت شیطانی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
* ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ءکے نتائج کا اندازہ لوگوں کو ابھی نہیں ہو رہا۔ اس کی تباہی کا اندازہ تب ہوگا جب خدانخواستہ ہم مسلمانوں کی آئندہ نسلوں میں لڑکے اور لڑکیاں اس قانون کی آڑ میں اپنی جنس تبدیل کروائیں گے اور ان کے اس عمل کو “اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔
* ٹرانس جینڈر ایکٹ در حقیقت ”'جنس“ اور ”'صنف“ کی مصنوعی اور لغو تقسیم کو بنیاد بنا کر کھڑی کی گئی ایک شیطانی عمارت ہے۔ اس قانون میں ایک مجرمانہ شق یہ بھی ہے کہ اس بات کا فیصلہ کوئی بھی شخص خود کرے گا کہ وہ عورت ہے یا مرد۔ ٹرانس جینڈر کی تعریف میں حیاتیاتی اور طبی ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور عورت کو بھی محض اپنے احساسات کی بنا پر ٹرانس جینڈر (مخنث) قرار دیا گیا ہے۔ انٹرسیکس (خنثیٰ) کے حقوق کی آڑ میں بڑی عیاری کے ساتھ ذاتی احساسات‘ خواہشات اور میلانِ طبع کا عذر تراش کر مردوں اور عورتوں کو صنف کی خود ساختہ شناخت کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے پھر یہ کہ اس کے اظہار کی بھی عام اجازت ہے۔
* دوسرا یہ ”حق“ دیا گیا ہے کہ مکمل مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنی صنف اپنی مرضی سے‘ اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق ٹرانس جینڈر کے طور پر تبدیل کی جا سکتی ہے۔ ایک مرد نادرا کے دفتر جائے اور کہے کہ وہ خود کو ”عورت“ محسوس کرتا ہے تو قانون ادارے کو پابند کرتا ہے کہ وہ اسے بطور ٹرانس جینڈر عورت رجسٹر کرے۔ اسی طرح عورت بطورِ ٹرانس جینڈر مرد رجسٹر ہو سکتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے کی ایک صورت ہے۔
* یعنی ایک مرد خود کو ٹرانس جینڈر عورت رجسٹر کروا کر دوسرے مرد سے شادی کرتا ہے تو یہ شادی قانونی جواز رکھے گی یعنی جرم نہیں ہو گی۔
* اسی طرح عورت‘ ٹرانس جینڈر مرد بن کر وراثت میں پورا حصہ لے سکتی ہے لہٰذا یہ قانون اللہ کی حدود کو واضح طور پر پامال کرنے کے مترادف ہے۔
* اسی طرح مرد‘ ٹرانس جینڈر عورتیں بن کر سرکاری نوکریاں حاصل کریں گے‘ پبلک مقامات (بازار‘ واش رومز وغیرہ) پر فساد برپا کرنے کے علاوہ مزید کئی دیگر طریقوں سے عورتوں کے حقوق اور نسوانیت کو پامال کرنے کا باعث بنیں گے۔
سوال یہ ہے کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کی کئی شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی اس میں ترامیم کے بل سینٹ میں پیش کر دیے ہیں تو آخر اس قانون کو فوری طور پر ختم کرکے انٹر سیکس (خنثیٰ) افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق متبادل قانون سازی کیوں نہیں کی جا رہی؟ کیا ہم جنس پرستی کی پشت پناہی کرنے والی ملکی و بین الاقوامی قوتیں اس قدر طاقت ور ہیں کہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست میں ایک غیر شرعی قانون کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہو رہا؟
اے پاکستان کے غیور مسلمانو: ایک قبیح جرم کو قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال سے ہمارا ملک اور اس کے عوام کس قدر تباہی سے دوچار ہوئے۔ اگر خدانخواستہ قومِ لوط کی طرح کا عذاب یا مزید کسی قدرتی آفت کا کوڑا برسا تو ہمارا کیا حال ہو گا؟ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب اور بھیانک انجام سے بچنا ہے اور پیغمبروں کے وارثوں نے قوم کو اس دردناک و شرمناک عذاب سے بچانا ہے تو پھر آج آواز بلند کرنا ہو گی۔
ہماری تمام اسٹیک ہولڈز سے پرزور اپیل ہے کہ اس قانون کو ختم کرنے کی بھرپور جدّوجُہد کریں۔ البتہ حقیقی مظلوم طبقہ یعنی انٹرسیکس (خنثیٰ) کے حقوق کے لیے شرعی تقاضوں کے عین مطابق قانون سازی کی جائے۔ تاکہ شریعت ِمحمدیﷺ کی بالادستی قائم ہو جو آئین پاکستان میں بھی طے شدہ ہے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!