(عرض احوال) ’’جوائے لینڈ‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزاد - ادارہ

11 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’جوائے لینڈ‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزادٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے اس قدر عجلت میں پاس ’’کروایا‘‘ گیا کہ قوم کی اکثریت کو خبر نہ ہو سکی کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور مسلمان معاشرے سے کیا کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ پاکستانی میڈیا یوں تو صحافت اور خبررسانی کے بلند آہنگ دعوؤں میں ساری دنیا کو پیچھے چھوڑنے میں رہتا ہے‘ لیکن جہاں اسلام اور اسلامی معاشرت پر حملوں کی بات آتی ہے تو وہاں چپ سادھ لیتا ہے۔در حقیقت ہمارا میڈیا بھی ان بین الاقوامی اثرات کی زد میں ہے جو اسلامی معاشرت کو سرے سے مٹانا چاہتے ہیں۔ جس طرح نائن الیون کے بعد پاکستانی میڈیا نے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خدمات سرانجام دیں اسی طرح پاکستانی قوم کو ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے بھی مکمل اندھیرے میں رکھا گیا۔
۲۰۲۱ء کے اوائل میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ٹرانس جینڈر ایکٹ اور پاکستانی معاشرے پر اس کے مضر اثرات سے اعداد و شمار کی روشنی میں آگاہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس قانون کے تحت پاکستانی معاشرے کو قوم لوط کی معاشرت میں تبدیل کرنے کا پورا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف مذہبی حلقوں نے اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی۔عدالتی و قانونی طریقہ کار اپنانے کے راستے ڈھونڈے گئے۔ اس سے پہلے کہ اس غیر شرعی‘ غیر اخلاقی اور انسانیت باختہ قانون کے خلاف کوئی حتمی کامیابی مسلمانان پاکستان کو حاصل ہوتی‘ مغرب نواز طبقہ کی جانب سے پاکستانی معاشرت پر دوسرا بڑا حملہ ایک بے ہودہ فلم ’’ جوائے لینڈ‘‘ کے ذریعے کیا گیا جس کا مقصد یہاں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے۔ یہ فلم ایک شادی شدہ مرد کی ایک ٹرانس جینڈر (یعنی عورت کا روپ دھارے ایک مرد ) سے رومانس کی کہانی پر مبنی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
بے ہودگی اور بے حیائی کی اس انتہاکو کانز فلم فیسٹول میں کوئیر پام ایوارڈ بھی مل گیا۔ یہ ایوارڈ ہم جنس پرستی پر بننے والی فلموں کو دیا جاتا ہے۔یہ بذاتِ خود اس با ت کا ثبوت ہے کہ یہ فلم LGBTQ+ ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسرز میں زیادہ تر غیر ملکی لوگ شامل ہیں‘ جبکہ پاکستان سے شامل افراد بھی غیر ملکی ایجنڈے پر ہی عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ ان ملکی اور غیر ملکی پروڈیوسرز میں ملالہ یوسف زئی‘ سرمد کھوسٹ‘ اپوروا گروچارن ( لانس اینجلس میں مقیم بھارتی نژاد امریکی )‘ ثنا جعفری‘ اولیوررج‘ لارن مان‘ کیتھیرین برنسٹ‘ رمن بہرانی وغیرہ شامل ہیں۔ ملالہ یوسف زئی اس فلم کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کسی بڑی سے بڑی فلم کے بھی عام طور پر اتنے پروڈیوسر نہیں ہوتے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ ایک چھوٹی سی پنجابی فلم بنانے پر اتنے زیادہ ملکی اور غیرملکی پروڈیوسر کیوں اکٹھے ہوگئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو فلم کی زبان بھی سمجھ میں نہیں آتی؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ فلم ایک بہت بڑے شیطانی ایجنڈے کا حصّہ ہے جس کا مقصد پاکستان پر ایک بڑا معاشرتی حملہ کرنا ہے۔ ایجنڈے کے مطابق پاکستان میں اس فلم کی نمائش نومبر۲۰۲۲ء کے دوسرے عشرے میں ہونی تھی‘ لیکن اس شرم ناک فعل کے خلاف پاکستانی عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس پر پابندی لگادی ۔ پھر چند روز بعد ہی یہ افسوس ناک خبر آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس فلم پر پابندی کے خلاف نظرثانی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس کمیٹی نے فلم کی نمائش کی اجازت دے دی ہے۔ اگرچہ حکومت پنجاب نے اس فلم کی سینما گھروں میں نمائش پر پابندی لگا دی ہے لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ بیرونی دباؤ‘ این جی اوز کےشور و غوغا اور لبرل عناصر کی کمپین کے نتیجے میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس فلم کو نمائش کی اجازت دے دی گئی ہے۔
دانشور کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں معاشروں میں اخلاقی اور سماجی اقدار کے بیرئیر کو توڑنے کے لیے لائی جاتی ہیں۔ ہمارے خیال میں ۲۰۱۸ء میں ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور کرکے پاکستان میں ایک شیطانی معاشرت کے لیے قانونی دروازہ کھولا جا چکا تھا‘ لیکن چونکہ عوام ابھی تک اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ الحمد للہ‘ لہٰذا اب فلم‘ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سینما میں نمائش اس موضوع کو نارمل اور عام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اہلِ علم و فکر جانتے ہیں کہ اسی انداز میں برسوں پہلے بھارت میں ایک فلم ’’فائر‘‘ بنائی گئی تھی۔ عوامی ردّ عمل کے باوجود بھارتی حکومت نے بھی بین الاقوامی ایجنڈے کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد ان موضوعات پر کئی فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بنتے چلے گئے‘ جس کی وجہ سے وہاں مشرقی اقدار و روایات کے بیرئیر ٹوٹتے چلے گئے۔چنانچہ آج وہاں مرد کی مرد سے اور عورت کی عورت سے شادی یعنی ہم جنس پرستی سمیت شیطانی معاشرت عام اور قانونی طور پر جائز ہوچکی ہے۔
بھارت کا قیام چونکہ ایک سیکولر ملک کے طور پر عمل میں آیا تھا‘لہٰذا وہاں ایسی چیزوں کا ہونا تعجب پر مبنی نہیں ہوگا‘ تاہم پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ تحریک پاکستان کا سب سے مقبول نعرہ تھا : ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ!‘‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا نام ہی ایک خاص نظریہ سے منسوب ہوکر مسلمانانِ برصغیر کے دل و دماغ میں رچ بس گیا تھا اور اسی نظریہ کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جان و مال‘ عزّت وآبرو‘ گھر بار اور خاندانوں کی قربانیاں دی تھیں۔ دراصل وہ نظریہ روزِ اوّل سے ہی لفظ پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ جب گول میز کانفرنسز میں برصغیر کے ہندو اور مسلم لیڈرز متحدہ ہندوستان کے وفاقی آئین پر غوروفکر کر رہے تھے تو اس وقت لفظ پاکستان پہلی بار اس آفاقی نظریہ کے ساتھ پاکستان ڈکلیئریشن (Now or Never) میں سامنے آیا تھا:
" At this solemn hour in the history of India, when British and Indian delegates are laying the foundations of a Federal Constitution for that Sub-continent, we address this appeal to you, in the name of our common heritage, and on behalf of our thirty million Muslim brethren who live in Pakistan."

یہ تھا وہ نظریہ جس نے پاکستان‘ اسلام اور مسلمانانِ برصغیر کے مستقبل کو لازم و ملزوم بنا دیا تھا‘ کیونکہ مسلمانانِ برصغیر کو محسوس ہو گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں رہیں گے تو نہ اسلام بچے گا اور نہ مسلمان۔ اسی زمینی حقیقت کی ترجمانی چودھری رحمت علی نے پاکستان ڈکلیئریشن میں ان الفاظ میں کی تھی :
" This acceptance amounts to nothing less than signing the death-warrant of Islam and of Muslims in India."

یہ تھا وہ نظریہ جس کے لیے مسلمانان برصغیر اپنے جوان بیٹوں کی گردنیں کٹوانے پر تیار ہو گئے تھے۔اپنے گھر بار‘ چلتے کاروبار چھوڑنے اور عصمتیں لٹانے پر تیار ہوگئے تھے۔ لوگوں نے اگر سیکولر اور لبرل معاشرت کو ہی قبول کرنا ہوتا تو وہ متحدہ ہندوستان میں ہی رہ لیتے۔ اتنی زیادہ قربانیوں‘ صعوبتوں اور مصائب و مشکلات کا سامنا آخر کس لیے کیا ؟ جواب صرف ایک ہو گا: اسلام اور اسلامی معاشرت کے لیے۔ Now or Neverکی صدائے حق بلند کرنے والے چودھری رحمت علی کی کتاب ’’پاکستان‘‘ کے دیباچے میں مترجم کے یہ الفاظ آج بھی موجود ہیں : ’’مسلمانانِ ہند کا ایک ہی خواب تھا کہ ہم کسی طرح خلافت ِ راشدہ کے نظام کا عکس اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔‘‘
دوسری طرف برصغیر ہی کے ایک بہت بڑے مسلمان لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد تھے جو مسلمانوں کی تقسیم کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو دھڑوں میں تقسیم ہونے سے مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو جائے گی۔ ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمان جو ہندو اکثریت کے ظلم و ستم کا شکار رہیں گے‘ پاکستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکیں گے‘ اور اسی طرح سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان جس معاشرتی‘ اقتصادی کمزوری اور ذہنی پسماندگی کا شکار رہیں گے تو ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں موقف اپنی جگہ ٹھیک تھے۔ یعنی مسلمانوں نے جس نظریہ کے لیے قربانیاں دیں وہ اپنی جگہ مسلّمہ حقیقت تھا‘ کیونکہ انہیں نظر آرہا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ آج انڈیا میں مسلمان کمزور اقلیت ہونے کی وجہ سے اس قدر مصیبت اور ضعف میں ہیں کہ پھیلتے ہوئے دجالی فتنوں اور منکرات کے خلاف اپنا دینی فریضہ تک ادا نہیں کرسکتے‘ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے فیوض و برکات سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہو سکے اور منکرات کے خلاف ان کی مزاحمت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ ان دونوں ملکوں کے مسلمان اپنی دینی اور معاشرتی اقدار و روایات کی بقا کے لیے آج ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کر پارہے‘ جبکہ ان پر مسلط طبقات سرعام عالمی ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح اور سرکردہ لیڈروں کے جانے کے بعد پاکستان پر اُس اشرافیہ کا قبضہ ہو جائے گا جو انگریز کے سائے میں پلی بڑھی ہے‘ اور ہوا بھی بالکل یہی کہ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد فرنگ کے سائے میں پلا بڑھا سیکولر اور لبرل طبقہ پاکستان میں اسلام کی ترقی و ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا۔ آج پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ اور ’’ جوائے لینڈ‘‘ جیسی گندگی کے ساتھ ساتھ سودپر مبنی استحصالی نظام بھی اسی سیکولر اشرافیہ کی دین ہے۔ اس نے اپنی عیاشیوں اور من پسند سیاسی پارٹیوں کے غلبہ و اقتدار کے لیے ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا۔ اسی وجہ سے عالمی طاقتیں اس اشرافیہ کو بلیک میل کرکے ان سے ہر وہ کام کروا رہی ہیں جو اسلام اور اسلامی معاشرت کے لیے زہر قاتل ہے۔
قائداعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا: ’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی مجلسِ تحقیق بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصوّرات کے مطابق ہوں۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثرلوگوں کی رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔‘‘
یہ مغرب کا معاشی نظام ہی تھا جس نے اسے اخلاقی‘ معاشرتی اور انسانی بحران کا شکار کیا۔ اب اسی نظام کے تحت مسلمان معاشروں کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ اگر قائداعظم کے فرمان پر ہو بہو عمل ہوتا تو آج پاکستان میں نہ تواقتصادی بحران ہوتا‘ نہ ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے قانون بنتے اور نہ ہی جوائے لینڈ جیسی اخلاق باختہ فلموں کی نمائش ممکن ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سودی نظام کے خلاف پاکستان کے تین اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے باوجود ہماری اشرافیہ ملک اور قوم کو اس ابلیسی شکنجے سے آزاد کرنے پر تیار نہیں ہورہی۔
حل آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی پاک سیرت میں سمجھا دیا ہے کہ جہاں ظلم‘جبر اور شیطنت کا راج ہو وہاں کلمہ حق بلند کرکے منکرات کے خلاف کھڑے ہو جاؤ‘ جس طرح آپ ﷺ نے مکہ میں اشرافیہ کے قائم کیے ہوئے ظلم و استحصال پر مبنی نظام کے خلاف کلمہ حق بلند کیا تھا۔ اس انقلاب کے لیے طائف اور اُحد میں اپنا لہو بہایا‘ اُحد میں اپنے پیارے ستر صحابہ کرام ؓ کو شہید ہوتے دیکھا‘ پیٹ پر پتھر باندھے‘ ہجرت کے مصائب اٹھائے۔ پاکستان کے لیے بھی عظیم ہجرت کی گئی اور بے پناہ قربانیاں دی گئیں‘ جو درحقیقت اسلام اور اسلامی معاشرت کے لیے تھیں لیکن ان قربانیوں کے ثمرات کے راستے میں اشرافیہ حائل ہو گئی۔ چنانچہ ایک بار پھر مسلمانانِ پاکستان کو اسی مقصد کے لیے کھڑے ہونا ہوگا جس کے لیے اُن کے باپ دادا نے یہ عظیم قربانیاں دی تھیں۔ وہ مقصد یہ ہے کہ پاکستانی قوم منکرات کے خلاف کھڑی ہو جائے‘ خاص طور پر جوائے لینڈ اور ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے شیطانی حملوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو جائے۔ منکرات کے خلاف یہی جدّوجُہد پاکستانی قوم کو اس عظیم مقصد سے ہمکنار کرے گی‘ یعنی ایک اسلامی فلاحی پاکستان جس کا خواب بانیانِ پاکستان اور اس کے لیے ہجرت کرنے والوں نے دیکھا تھا۔