(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْقَلَمِ - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْقَلَمِڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلمات
جیسا کہ سورۃ الملک کے تعارف میں بھی بیان ہو چکا ہے ‘زیر مطالعہ مکّی سورتوں میں سے پہلی چھ سورتیں دو ضمنی گروپس پر مشتمل ہیں۔ ہر ضمنی گروپ میں تین سورتیں ہیں ‘جن میں ایک سورت منفرد ہے اور دو جوڑے کی شکل میں ہیں ۔ پہلے ضمنی گروپ کی پہلی سورت یعنی سورۃ الملک منفرد تھی ‘جبکہ اس کے بعد کی دو سورتیں یعنی سورۃ القلم اور سورۃ الحاقہ جوڑے کی شکل میں ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں انباء الرسل کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ سورۃ القلم اپنے گروپ کی تمام سورتوں میں اس اعتبار سے نمایاں ہے کہ اس میں حضورﷺ کی دعوت کے بالکل ابتدائی دور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات کے بعد حضورﷺ پر نازل ہونے والی دوسری وحی اس سورت کی ابتدائی سات آیات پر مشتمل تھی۔ ذاتی طور پر مجھے بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ ان سات آیات میں اہل ِمکّہ کے اُس ردّ ِعمل کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے جس کا اظہار انہوں نے حضورﷺ کی پہلی وحی کی خبر پر کیا تھا۔ جب حضورﷺ نے پہلی مرتبہ لوگوں کو بتایا کہ میرے پاس اللہ ربّ العزت کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آیا ہے تو لوگوں کا پہلا تأثر یہی تھا کہ آپؐ پر کسی جن یا بدروح کا اثر ہو گیا ہے۔ ان میں بیشتر لوگ اپنی اس رائے کا اظہار آپؐ سے ہمدردی کی بنا پر بھی کرتے تھے کہ دیکھیں یہ اچھے بھلے آدمی تھے‘ بیٹھے بٹھائے ان کے ساتھ یہ کیا معاملہ پیش آگیا ہے۔ البتہ کچھ لوگ یہی باتیں آپؐ کو تنگ کرنے کے لیے طنزیہ اور استہزائیہ انداز میں بھی کرتے تھے۔ظاہر ہے حضورﷺ کے لیے یہ صورتِ حال بہت تکلیف دہ تھی کہ آپؐ کی اپنی ہی برادری کے وہ لوگ جو کل تک آپؐ کے قدموں میں نگاہیں بچھاتے تھے اور آپؐ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتے تھے آج آپؐ کو دیوانہ اور مجنون کہہ رہے تھے ۔ چنانچہ اس تکلیف دہ صورتِ حال میں حضورﷺ کی دلجوئی کے لیے یہ آیات نازل فرمائی گئیں۔ اس سورت کا آغاز اکیلے حرف ’’ن ‘‘سے ہوتا ہے۔ سورئہ ص اور سورئہ قٓ کے بعد ایک حرف سے شروع ہونے والی یہ تیسری اور آخری سورت ہے۔
آیات ۱ تا ۳۳بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ (۱) مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ (۲) وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ (۳) وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ (۵) بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ (۶) اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ۠ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ (۷) فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ (۸) وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ (۹) وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ (۱۰) ھَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِیْمٍ (۱۱) مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ (۱۲) عُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ (۱۳) اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ (۱۴) اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (۱۵) سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ (۱۶) اِنَّا بَلَوْنٰھُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّھَا مُصْبِحِیْنَ (۱۷) وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ (۱۸) فَطَافَ عَلَیْھَا طَاۗئِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَھُمْ نَاۗئِمُوْنَ (۱۹) فَاَصْبَحَتْ کَالصَّرِیْمِ (۲۰) فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ (۲۱) اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ (۲۲) فَانْطَلَقُوْا وَھُمْ یَتَخَافَتُوْنَ (۲۳) اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّھَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِّسْکِیْنٌ (۲۴) وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ (۲۵) فَلَمَّا رَاَوْھَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَاۗلُّوْنَ (۲۶) بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ (۲۷) قَالَ اَوْسَطُھُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ (۲۸) قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ (۲۹) فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ (۳۰) قَالُوْ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا طٰغِیْنَ (۳۱) عَسٰی رَبُّنَآ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْہَآ اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ (۳۲) کَذٰلِکَ الْعَذَابُ ۭوَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ۘ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (۳۳) 
آیت ۱{نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(۱)} ’’ن‘ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ یہ لکھتے ہیں۔‘‘
یعنی قلم بھی اور جوعلمی ذخیرہ قلم کے ذریعہ نوعِ انسانی کے ہاں اب تک وجود میں آیا ہے وہ بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ :
آیت۲ {مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ(۲)}’’آپ (ﷺ)اپنے ربّ کے فضل و کرم سے مجنون نہیں ہیں۔‘‘
اے نبیﷺ! جو لوگ آپ کو مجنون کہہ رہے ہیں وہ خود احمق ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ مجنون کیسے ہوتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو آپؐ کی پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل سیرت نظر نہیں آتی؟ کیا یہ لوگ واقعتاً سمجھتے ہیں کہ مجنون لوگوں کی زندگی کا نقشہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ تو اے نبیﷺ! آپ ان لوگوں کی فضول اور لایعنی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔
آیت ۳{وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ (۳)} ’’اور یقیناً آپ کے لیے تو وہ اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا۔‘‘
آیت۴{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴)} ’’اور آپؐ یقیناً اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔‘‘
آپؐ اپنے اخلاق اور کردار کے بلند ترین معیار کے باعث پہلے سے ہی معراجِ انسانیت کے مقام پر فائز تھے‘ جبکہ اب آپؐ معراجِ نبوت و رسالت کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔
آیت ۵{فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ(۵)} ’’تو عنقریب آپؐ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔‘‘
یہ بڑا پیارااور ناصحانہ انداز ہے۔ جیسے کوئی بڑا کسی چھوٹے کو سمجھاتا ہے کہ آپ مخالفانہ باتوں پر آزردہ نہ ہوں‘ کچھ ہی دنوں کی بات ہے ‘اصل حقیقت بہت جلد کھل کر سامنے آ جائے گی۔ پھر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا :
آیت ۶{بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ(۶)} ’’کہ تم میں سے کون فتنے میں مبتلا تھا!‘‘
بہت جلد دنیا پر واضح ہو جائے گا کہ تم دونوں فریقوں میں سے کون فتنے میں مبتلا ہو گیا تھا اور کون راہِ راست پر تھا۔ کیا محمد بن عبداللہ (ﷺ)کو جنون کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا (معاذ اللہ!) یا آپؐ کے مخالفین جوشِ تعصب میں پاگل ہوگئے تھے؟
آیت ۷{اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ص} ’’یقیناً آپؐ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے ‘‘
{وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(۷)} ’’اور وہ اُن کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
یہ وہ آیات تھیں جو اکثر مفسرین کے نزدیک دوسری وحی میں نازل ہوئی تھیں۔ یہاں سے آگے نیا مضمون شروع ہو رہا ہے۔
آیت ۸{فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ(۸)}’’تو(اے نبیﷺ!) آپ ان جھٹلانے والوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔‘‘
آیت ۹{وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ(۹)}’’وہ تو چاہتے ہیں کہ آپؐ ذرا ڈھیلے پڑیں تووہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔‘‘
باطل کا تو وطیرہ ہے کہ پہلے وہ حق کو جھٹلاتا ہے ‘پھر جب اس کے مقابلے میں کھڑے ہونا مشکل نظر آتا ہے تو مداہنت (compromise) پر اُتر آتا ہے ۔لیکن حق کسی قسم کی مداہنت یا کسی درمیانی راستے کو نہیں جانتا۔ بقول اقبال ؎
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ ٔحق و باطل نہ کر قبول!
اگلی آیات میں نام لیے بغیر انتہائی سخت الفاظ میں ایک کردار کا ذکر ہوا ہے۔ کسی معتبر روایت سے تو ثابت نہیں لیکن زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ تھا :
آیت ۱۰{وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ(۱۰)} ’’اور آپؐ مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیاہے۔‘‘
ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔لفظ ’’ مَہِیْن‘‘ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
آیت۱ ۱{ہَمَّازٍمَّشَّآئٍ  بِنَمِیْمٍ(۱۱)}’’رُو در رُو طعنے دیتا ہے ‘ چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔‘‘
آیت ۱۲{مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ (۱۲)}’’خیر سے روکنے والا‘ حد سے بڑھنے والا‘ گنہگار۔‘‘
آیت ۱۳{عُتُلٍّ  بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ (۱۳)} ’’بالکل گنوار ہے ‘اس کے بعد یہ کہ بداصل بھی ہے۔‘‘
یعنی مذکورہ بالا خصلتیں تو اس کی شخصیت میں ہیں ہی‘ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بے نسب بھی ہے۔
آیت ۱۴{اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ(۱۴)} ’’صرف اس گھمنڈ پر کہ وہ مال و دولت اور بیٹوں والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کو کثیر مال و دولت کے علاوہ بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔ اور بیٹے بھی ایسے کہ ان میں سے ایک کو قبولِ اسلام کے بعد ’’سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللہِ‘‘ کا مرتبہ ملا۔ یعنی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ!
آیت ۱۵{اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُـنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۵)} ’’جب اسے ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔‘‘
آیت ۱۶{سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ (۱۶)} ’’ہم عنقریب اس کی سُونڈ پر داغ لگائیں گے۔‘‘
ممکن ہے اس کی ناک زیادہ لمبی اور نمایاں ہو۔وہ خود بھی ازراہِ تکبّر اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا‘ جس کے لیے حقارت کے طور پر سونڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔
اب آئندہ آیات میں ایمان بالآخرت کے حوالے سے بہت عمدہ اور عام فہم تمثیل کے طور پر باغ والوں کا واقعہ بیان کیا جارہاہے۔
آیت ۱۷{اِنَّا بَلَوْنٰہُمْ کَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِج}’’یقیناً ہم نے ان (اہل مکّہ) کو اسی طرح آزمایا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ لوگوں کو طرح طرح کے امتحانات سے آزماتا رہتا ہے۔ ایک انسان کو اگر دولت کی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے‘ توکسی دوسرے کو غربت کے امتحان سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔ سورۃ الملک کی اس آیت میں تو انسان کی زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ہی آزمائش بتایا گیا ہے: {الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(۲)} ’’اُس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی ۔‘‘
{اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِیْنَ(۱۷)}’’جبکہ انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ضرور اس کا پھل اُتار لیں گےصبح سویرے۔‘‘
آیت ۱۸{وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ(۱۸)} ’’اور انہوں نے (اس پر) ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔‘‘
باغ کے پھل پک کر تیّار ہو چکے تھے ۔انہوں نے ایک رات پروگرام طے کر لیا کہ وہ صبح سویرے جائیں گے اور سارا پھل اتار لائیں گے۔ گویا وہ اپنے اسباب و وسائل کے گھمنڈ میں مسبب ِحقیقی کو بالکل ہی بھول گئے۔
آیت ۱۹{فَطَافَ عَلَیْہَا طَآئِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَہُمْ نَـآئِمُوْنَ(۱۹)} ’’پس ایک پھرنے والا پھر گیا اس (باغ) پر آپ کے رب کی طرف سے جبکہ وہ ابھی سوئے ہوئے ہی تھے۔‘‘
آیت ۲۰{فَاَصْبَحَتْ کَالصَّرِیْمِ(۲۰)} ’’تو وہ ایسے ہو گیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔‘‘
یعنی رات کو وہ باغ کسی بگولے کی زد میں آیا اور جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
آیت ۲۱{فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ(۲۱)} ’’اب صبح ہی صبح انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔‘‘
آیت۲۲{اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ(۲۲)} ’’کہ صبح سویرے چلو اپنے کھیت کی طرف اگر تم پھل توڑنا چاہتے ہو۔‘‘
وہ صبح سویرے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق پھل توڑنے کی تیّاریاں کر رہے تھے‘ جبکہ ان کا باغ رات کو جل کر تباہ ہو چکا تھا ۔ اسی طرح انسان اپنی دھن میں مگن طرح طرح کے منصوبے بناتا رہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کے سامنے اس کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو کوئی جان لیوا مرض لاحق ہو چکا ہوتا ہے‘ مگر وہ اس سے بے خبر اپنی لمبی لمبی امیدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے رات دن ایک کیے رہتا ہے ۔پھر جب مرض کی تشخیص ہوتی ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
آیت۲۳{فَانْطَلَقُوْا وَہُمْ یَتَخَافَتُوْنَ(۲۳)} ’’چنانچہ وہ چلے اور آپس میں چپکے چپکے یہ باتیں کرتے جارہے تھے۔‘‘
آیت ۲۴{اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّہَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِّسْکِیْنٌ(۲۴)}’’کہ دیکھو آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں ہرگز داخل نہ ہونے پائے۔‘‘
دراصل انہوں نے پھل اتارنے کے لیے منہ اندھیرے جانے کا پروگرام بنایا ہی اس لیے تھا تاکہ ایسے مواقع پر آ جانے والے غرباء و مساکین کو چکمہ دے سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باغ پر سارا سال محنت ہم نے کی ہے‘ اس کی حفاظت کی ہے ‘ اب پھل اتارنے کے موقع پر ہم اس میں سے غرباء و مساکین کو کس لیے دیں؟ وہ ہمارے کیا لگتے ہیں؟یہ تھا ان کا اصل جرم جس کی انہیں سزا ملی۔ انسان کے کردار میں ایسی پستی آخرت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے آتی ہے۔
آیت ۲۵{وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ(۲۵)} ’’اور وہ صبح سویرے چلے جلدی جلدی (یہ سمجھتے ہوئے ) کہ وہ اس ارادہ پر پوری طرح قادر ہیں۔‘‘
یہ آیت لفظی تصویر کشی کی بہترین مثال ہے۔ اس وقت ان لوگوں کی جو ذہنی‘ نفسیاتی اور ظاہری کیفیت تھی ان الفاظ میں اس کی ہوبہو تصویر کھینچ کر رکھ دی گئی ہے ۔ انہیں زعم تھا کہ انہوں نے بڑی کامیاب منصوبہ بندی کی ہے‘ ابھی تھوڑی ہی دیر میں وہ پھل اتار کر لے جائیں گے اور بھیک منگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ [حَرْد کا معنی قصد اور ارادہ ہے۔ یعنی انہوں نے جو یہ ارادہ کیا تھا کہ آج کسی غریب کو باغ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور صبح سویرے باغ کا پھل اتار لیں گے‘ وہ خیال کر رہے تھے کہ ہم اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔]
آیت۲۶{فَلَمَّا رَاَوْہَا قَالُوْٓا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ(۲۶)} ’’پھر جب انہوں نے اس (باغ) کو دیکھا توکہنے لگے کہ ہم تو کہیں بھٹک گئے ہیں۔‘‘
فوری طور پر تو وہ یہی سمجھے کہ وہ اندھیرے میں راستہ بھول کر کسی اور جگہ آ گئے ہیں اور یہ ان کا باغ نہیں ہے۔ پھر جب انہیں اصل صورتِ حال کا ادراک ہوا تو کہنے لگے :
آیت ۲۷{بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(۲۷)} ’’نہیں نہیں (باغ تویہی ہے ) بلکہ ہم تو محروم ہوگئے ہیں۔‘‘
ہماری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔
آیت ۲۸{قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ(۲۸)} ’’ان کے درمیان والے نے کہا: مَیں تمہیں کہتا نہ تھا کہ تم (اپنے رب کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے؟‘‘
یہ انہی کے کسی نیک فطرت بھائی کا ذکر ہے جو گاہے بگاہے انہیں روکتا ٹوکتا تھا اور انہیں یاد دہانی کراتا رہتاتھا کہ تم اللہ کو بھولے ہوئے ہو اور اللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہو۔
آیت۲۹{قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۲۹)} ’’انہوں نے کہا:(واقعی تم ٹھیک کہتے ہو) ہمارا رب پاک ہے ‘بے شک ہم ہی ظالم تھے۔‘‘
آیت ۳۰{فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ(۳۰)} ’’پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔‘‘
اب وہ اپنی گمراہی اور شومئی قسمت کی ذِمّہ داری آپس میں ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے۔
آیت۳۱{قَالُوْا یٰــوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا طٰغِیْنَ(۳۱)} ’’(بالآخر اعتراف کرتے ہوئے) وہ کہنے لگے: ہائے ہماری بدبختی ! اصل میں ہم سب ہی اپنی حدود سے تجاوز کرنے والے تھے۔‘‘
آیت ۳۲{عَسٰی رَبُّنَـآ اَنْ یُّـبْدِلَـنَا خَیْرًا مِّنْہَآ اِنَّـآ اِلٰی رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ(۳۲)} ’’اُمید ہے ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر عطا کر دے گا ‘اب ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔‘‘
اب ہم نے توبہ کر لی ہے۔ اب ہم اپنی روش تبدیل کرلیں گے اور آئندہ باقاعدگی سے اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کیاکریں گے۔ ہمیں اُمید ہے ہمارا رب ہمارے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے ہمارے نقصان کی بھی تلافی کر دے گااور اگلے سال ہمارا باغ اس سے بہتر پیداوار دے گا۔
رَغِبَ جب اِلٰی کے صلے کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی کسی کی طرف رغبت کرنے کے ہوتے ہیں‘لیکن جب یہی لفظ عَنْ کے صلے کے ساتھ آئے تو بالکل متضاد معنی دیتا ہے ۔ چنانچہ رَغِبَ عَنْ کے معنی ہوں گے :رُخ پھیر لینا اور پہلوتہی کرنا ۔جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۳۰میں آیا ہے :{وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ ط}’’اور کون ہو گا جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے منہ موڑے؟سوائے اُس کے جس نے اپنے آپ کو حماقت ہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو!‘‘
اب اگلی آیت میں گویا اس تمثیل یا واقعہ کا اخلاقی سبق (moral lesson) بیان ہوا ہے:
آیت ۳۳{کَذٰلِکَ الْعَذَابُ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ }’’اسی طرح آتا ہے عذاب! اور آخرت کا عذاب تو یقیناً بہت ہی بڑا ہے ۔‘‘
اس واقعے میں تو دنیا کے عذاب کا ذکر ہے‘لیکن یاد رکھو‘ دُنیا کے عذاب تو نسبتاًچھوٹے اور وقتی ہوتے ہیں اورتوبہ کرنے پر ٹل بھی جاتے ہیں۔ مثلاًایک سال اگر پکی پکائی فصل برباد ہو گئی تو اللہ کی طرف رجوع کرنے سے ہو سکتا ہے اگلے سال اس کی تلافی ہو جائے‘ لیکن آخرت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آخرت کا عذاب بہت بڑا ہوگا اور اُس وقت پلٹنے کا راستہ اور توبہ کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہو گا۔
{لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۳۳)} ’’کاش کہ یہ لوگ (اس حقیقت کو) جانتے!‘‘
آیات ۳۴ تا ۵۲

اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ (۳۴) اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ (۳۵) مَالَکُمْ ۪ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ (۳۶) اَمْ لَکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ (۳۷) اِنَّ لَکُمْ فِیْہِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ (۳۸) اَمْ لَکُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۙ اِنَّ لَکُمْ لَمَا تَحْکُمُوْنَ (۳۹) سَلْھُمْ اَیُّہُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ (۴۰) اَمْ لَھُمْ شُرَکَاۗءُ ڔ فَلْیَاْتُوْا بِشُرَکَاۗءِہِمْ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ (۴۱) یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ (۴۲) خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ ۭ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَھُمْ سٰلِمُوْنَ (۴۳) فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ ۭ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ (۴۴) وَاُمْلِیْ لَھُمْ ۭ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ (۴۵) اَمْ تَسْئَلُھُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ (۴۶) اَمْ عِنْدَھُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ (۴۷) فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ۘ اِذْ نَادٰی وَھُوَ مَکْظُوْمٌ (۴۸) لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَھُوَ مَذْمُوْمٌ (۴۹) فَاجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ (۵۰) وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِھِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ (۵۱) وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ (۵۲)

آیت ۳۴{اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۳۴)} ’’متقین کے لیے یقیناً اُن کے ربّ کے پاس نعمت والے باغات ہیں۔‘‘
آیت ۳۵{اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ(۳۵)} ’’کیا ہم اپنے فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟‘‘
اگر بعث بعد الموت کے منکرین کی منطق درست تسلیم کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیکوکار اور مجرمین میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ طبعی طور پر تو موت بلاشبہ سب کو برابر کر دیتی ہے ‘ جیسا کہ مشہور انگریزی نظم Death the Leveller میں بتایا گیا ہے ۔یعنی کوئی بادشاہ ہو ‘کوئی فقیرہو‘ کوئی شریف ہو‘ کوئی مجرم ہو‘مرنا سبھی کوہے۔ اس اعتبار سے تو یقیناً موت کے سامنے سب انسان برابر ہیں‘ لیکن یہ سمجھنا کہ موت آنے پر اخلاقی لحاظ سے بھی سب انسان برابر ہو جائیں گے انتہائی غیر منطقی اور احمقانہ سوچ ہے۔
آیت ۳۶{مَا لَـکُمْ قف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ(۳۶)} ’’تمہیں کیاہو گیا ہے‘تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘
کیا تمہاری مت ماری گئی ہے جو ایسی رائے بناتے ہو؟ کیا اللہ کے ہاںایسا ہی اندھیر مچاہواہے کہ وہاں مسلمین اور مجرمین برابر ہو جائیں گے؟ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنے باغیوں اور اپنے وفاداروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے؟
آیت ۳۷{اَمْ لَـکُمْ کِتٰبٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ(۳۷)} ’’کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو؟‘‘
آیت۳۸{اِنَّ لَـکُمْ فِیْہِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ(۳۸)} ’’کہ اس (آخرت) میں تمہیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم پسند کرو گے!‘‘
آیت ۳۹{اَمْ لَـکُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِلا اِنَّ لَـکُمْ لَمَا تَحْکُمُوْنَ(۳۹)} ’’کیا تم نے ہم سے کوئی قسم لے رکھی ہے جو باقی رہنے والی ہو قیامت کے دن تک‘ کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہو گا جو تم فیصلہ کرو گے؟‘‘
آیت ۴۰{سَلْہُمْ اَیُّہُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ(۴۰)} ’’(اے نبیﷺ!) ذرا ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون ہے جو اس کا ضامن ہو؟‘‘
آیت ۴۱{اَمْ لَہُمْ شُرَکَآئُ ج }  ’’کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟‘‘
{فَلْیَاْتُوْا بِشُرَکَآئِہِمْ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ(۴۱)} ’’تو لائیں یہ اپنے شریکوں کو اگر یہ سچّے ہیں!‘‘
آیت ۴۲{یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ} ’’جس دن پنڈلی کھولی جائے گی‘‘
پنڈلی کھولے جانے کا مفہوم ہمارے تصوّر سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص تجلی کا ذکر ہو جس کا ظہور میدانِ محشر کے کسی مرحلے پر لوگوں کی چھانٹی کرنے کے لیے ہونا ہو۔ واللہ اعلم! اس اعتبار سے یہ آیت آیاتِ متشابہات میں سے ہے۔(عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آپڑنے کو بھی کشف ِساق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مثلاً گھمسان کی لڑائی شروع ہونے پر کہا جاتا ہے : شَمَّرَتِ الْحَرْبُ عَنْ سَاقِھَا کہ جنگ نے اپنی پنڈلی سے تہبند اوپر اٹھا لیا۔ بعض مفسرین نے کشف ِساق سے مراد حقائق سے پردہ اٹھانا بھی لیا ہے۔ یعنی جس روزتمام حقیقتیں بے نقاب ہوجائیں گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آجائیں گے۔ (حاشیہ از مرتّب)
{وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ(۴۲)} ’’اور انہیں پکارا جائے گا (اللہ کے حضور) سجدے کے لیے تووہ کر نہیں سکیں گے۔‘‘
جیسا کہ قبل ازیں سورۃ الحدید کی آیت ۱۱ کے تحت بھی ذکر ہو چکا ہے ‘میدانِ حشر میں اچھے اور برے لوگوں کو الگ الگ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کو مختلف مراحل میں سے گزارا جائے گا۔ ’’پنڈلی کا ظہور‘‘ بھی ایسا ہی کوئی مرحلہ ہو گا ۔ وہ صاحب ِایمان لوگ جو اپنی دُنیوی زندگی میں نماز کی پابندی کرتے رہے تھے اس تجلی کودیکھتے ہی سجدے میں گر جائیں گے‘لیکن وہ لوگ جن کی گردنیں اکڑی رہتی تھیں اور جو نماز کی پابندی کا اہتمام نہیں کرتے تھے وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اُس وقت سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ گویا اس مرحلے پر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے لوگوں سے الگ کر لیا جائے گا۔
آیت ۴۳{خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ} ’’ان کی نگاہیں زمین پر گڑی رہ جائیں گی‘‘
{تَرْہَقُہُمْ ذِلَّـــۃٌط} ’’ان (کے چہروں) پر ذلت چھا رہی ہو گی۔‘‘
{وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ(۴۳)} ’’اور ان کو (دنیا میں) پکارا جاتا تھا سجدے کے لیے جبکہ یہ صحیح سالم تھے۔‘‘
دنیا میں وہ لوگ اذان کی آواز پر کبھی توجّہ ہی نہیں کرتے تھے اور کوئی مجبوری و معذوری نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے تھے۔قیامت کے دن میدانِ حشر میں وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن نہیں کر سکیں گے۔
آیت ۴۴{فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِہٰذَاالْحَدِیْثِ ط} ’’تو (اے نبیﷺ!) آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور ان لوگوں کو جو اس کلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔‘‘
جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہو چکا ہے اس گروپ کی سورتوں میں یہ کلمہ (ذَرْنِیْ ‘ فَذَرْنِیْ) اور یہ اسلوب بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ اس میں ایک طرف حضورﷺ کی دلجوئی کا پہلو ہے تو دوسری طرف آپؐ کے مخالفین کے لیے بہت بڑی وعید ہے‘ کہ اے نبیﷺ! آپ ان لوگوں کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں‘ ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے‘ان سے میں خود ہی نمٹ لوں گا۔
{سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ(۴۴)} ’’ہم انہیں رفتہ رفتہ وہاں سے لے آئیں گے جہاں سے انہیں علم تک نہیں ہو گا۔‘‘
علماء کے ہاں ’’استدراج ‘‘کا لفظ بطور اصطلاح استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد ایسا عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے باعث کسی قوم یا کسی فرد پر درجہ بدرجہ (درجہ‘ تدریج اور استدراج کا مادہ ایک ہی ہے) مسلط ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے غلط راستے پر جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ دیر کے لیے ڈھیل دیتا ہے‘ بلکہ بعض اوقات اس راستے پر اسے طرح طرح کی کامیابیوں سے بھی نوازتا ہے تاکہ اس کے اندر کی خباثت پوری طرح سے ظاہر ہو جائے۔ جب وہ شخص اپنی روش کو کامیاب دیکھتا ہے توسرکشی میں مزید دیدہ دلیری دکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی مہلت کا وقت پورا ہو جاتا ہے اور پھر اچانک اسے عذاب کے شکنجے میں کس لیا جاتا ہے۔
استدراج کی مثال کانٹے کے ذریعے مچھلی کے شکار کی سی ہے۔ شکاری جب دیکھتا ہے کہ مچھلی نے کانٹا نگل لیا ہے تو وہ ڈور کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے ڈور کھینچ کر اسے قابو کرلیتا ہے ۔لفظ استدراج کی وضاحت کرتے ہوئے یہاں مجھے مولانا حسین احمد مدنیؒ کا وہ قول یاد آ گیا ہے جس میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ استدراج بھی ہو سکتا ہے۔ مولانا صاحب رمضان ہمیشہ سلہٹ میں گزارتے تھے ۔ ۱۹۴۶ء کے رمضان میں انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ملا ٔ اعلیٰ میں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد اگلے رمضان (لیلۃ القدر) میں پاکستان کا قیام واقعتاً عمل میں آگیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا مدنی ؒکو بذریعہ کشف قیامِ پاکستان کے بارے میں جس فیصلے کا علم ہوا تھا‘ ملا ٔ اعلیٰ میں وہ فیصلہ ۱۹۴۶ء کی لیلۃ القدر میں اس اصول کے تحت ہوا تھا جس کا ذکر سورۃ الدخان کی آیت ۴ میںآیا ہے۔ اس آیت میں لیلۃ القدر( لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ) کے بارے میں فرمایا گیا ہے : {فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ(۴)} کہ اس رات میں( آئندہ سال کے دوران رونما ہونے والے) تمام اہم امور کے فیصلے کردیے جاتے ہیں۔
مولانا صاحب نظریاتی طور پر قیامِ پاکستان کے مخالف تھے۔ ان کے اس انکشاف کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے بجاطور پر ان سے پوچھا کہ اس فیصلے کا علم ہو جانے کے باوجود بھی آپ قیامِ پاکستان کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اس پر مولانا صاحبؒ نے جو جواب دیا تھااس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی (کائنات کی سلطنت کا انتظامی) فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کیا منظور ہے‘اس کا ہمیں علم نہیں ۔ہمیں چیزوں کے ظاہر اور سامنے نظر آنے والے حالات کو دیکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے سننے‘ سمجھنے وغیرہ کی صلاحیتیں اسی لیے دی ہیں کہ وہ ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے فیصلے کرے۔ چنانچہ اس معاملے میں ہمیں وہی موقف اپنانا چاہیے جس میں ہمیں مسلمانانِ برصغیر کی بہتری نظر آتی ہو۔ ظاہرہے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اپنی حکمت اور مشیت کے مطابق کیا ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ’’ استدراج‘‘ کی غرض سے کیا گیا ہو۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خطے کے مسلمانوں کوڈھیل دے کر انہیںعذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہو۔
قیامِ پاکستان کے بعد کے حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مدنی ؒ کا خدشہ کافی حد تک درست تھا۔ اہل پاکستان پر عذاب کا ایک کوڑاتو۱۹۷۱ء میں برساتھا۔ اس کے بعد بھی ملک کی مجموعی صورتِ حال کبھی تسلی بخش نہیں رہی‘ بلکہ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ اب ایک فیصلہ کن عذاب ہمارے سر پر آیا کھڑا ہے۔ لیکن میری رائے میں اس کا سبب ’’قیامِ پاکستان نہیں‘‘ بلکہ بحیثیت قوم ہمارا وہ مجموعی طرزِعمل ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے نظامِ اسلام کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔
آیت ۴۵{وَاُمْلِیْ لَہُمْ ط} ’’اور مَیں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں۔‘‘
{اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ(۴۵)} ’’بے شک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔‘‘
آیت ۴۶{اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ(۴۶)}  ’’(اے نبیﷺ!) کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں جس کے تاوان کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں؟‘‘
ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آپؐ سالہا سال سے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ اپنی اس محنت کے عوض جب آپؐ ان سے کسی معاوضے یا اُجرت کے طلب گار بھی نہیں ہیں تو یہ لوگ آخر کس لیے پریشان ہیں؟
آیت ۴۷{اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ(۴۷)} ’’یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں؟‘‘
یہ دونوں آیات (۴۶‘۴۷) جوں کی توں سورۃ الطور میں (آیات ۴۰ اور ۴۱ کے طور پر) بھی آ چکی ہیں۔
آیت ۴۸{فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ} ’’تو (اے نبیﷺ!) آپ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا ‘‘
{وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ  } ’’اور دیکھئے‘ آپؐ اُس مچھلی والے کی طرح نہ ہو جایئے گا !‘‘
’’مچھلی والے‘‘ سے یہاں حضرت یونس علیہ السلام مراد ہیں۔ آپؑ کی قوم پرجب عذاب کا فیصلہ ہو گیا تو آپؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی قوم کا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔اس کا ذکر سورۃ الانبیاء کی آیت ۸۷ میں اس طرح آیا ہے:{اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا} ’’جب وہ چل دیا غصے میں بھرا ہوا ‘‘۔آپؑ کا یہ غصہ حمیت ِحق میں تھا اور قوم کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی اور کفر کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس میں خطا کا پہلو یہ تھا کہ آپؑ نے ہجرت کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا۔
{اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ(۴۸)} ’’ جب اُس نے پکارا (اپنے رب کو) اور وہ اپنے غم کو اندر ہی اندرپی رہا تھا۔‘‘
حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں انتہائی رنجیدہ حالت میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہے تھے :{لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ ق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۸۷)} (الانبیاء)’’تیر ے سوا کوئی معبود نہیں ‘تُو پاک ہے اور یقیناً میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔‘‘
آیت ۴۹{لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ (۴۹)} ’’اگر اُس کی دست گیری نہ کرتا اُس کے رب کا ایک انعام (اور احسان) تو وہ ملامت زدہ ہو کر پھینک دیاجاتا کسی چٹیل زمین پر۔‘‘
حضرت یونس علیہ السلام قدیم عراق کے شہر نینوا میں مبعوث ہوئے تھے۔ یہ شہر بعلبک کے شمال میں واقع تھا۔ دریائے فرات اور دریائے دجلہ اس علاقہ سے گزرتے ہوئے خلیج فارس میں آکرگرتے ہیں۔ آج کل تو یہ دونوں دریا سکڑ کر چھوٹی چھوٹی ندیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں‘ لیکن پرانے زمانے میں تو ظاہر ہے یہ بہت بڑے بڑے دریا ہوں گے۔ حضرت یونس ؑ نینوا شہر سے نکل کر ان میں سے کسی دریا کوپار کرنے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی میں آپؑ کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اشارتاً سورۃ الصّٰفّٰت کی آیت ۱۴۱ میں آیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپؑ کو کسی وہیل مچھلی نے نگل لیا۔ وہ مچھلی خلیج فارس سے ہوتی ہوئی مکران کے ساحل پر پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس ساحل کے کسی مقام پر اس نے آپؑ کو اُگل دیا۔ اُس وقت آپؑ کی حالت بہت خراب تھی۔ اس موقع پر آپؑ کو سایہ اور غذا وغیرہ فراہم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’یقطین‘ کا وہ پودا اگایا جس کا ذکر سورۃ الصّٰفّٰت‘آیت ۱۴۶ میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی پودے کی طرف اشارہ ہے جو اُس وقت آپؑ کے لیے واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ یقطینکے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الصّٰفّٰت‘ آیت ۱۴۶ کی تشریح۔
آیت ۵۰{فَاجْتَبٰـىـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۵۰)} ’’تو اُس کے ربّ نے اُس کوچُن لیا اور اسے پھر صالحین میں سے کر دیا۔‘‘
حضرت یونس کے ذکر کے حوالے سے یہاں حضورﷺ کا ایک فرمان بھی سن لیجیے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ((لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی))( تخریج الکشاف للزیلعی : ۱/۲۶۴ ) ’’کہ مجھے یونسؑ بن متیٰ پر بھی فضیلت نہ دو‘‘۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو اپنا جوشِ خطابت اور زورِ قلم دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر حضورﷺ کی فضیلت ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ آپﷺ بلاشبہ پوری نوعِ انسانی سے افضل اور سیّد الانبیاء والمرسلین ہیں۔ لیکن ع ’’حاجت ِ مشاطہ نیست روئےدل آرام را‘‘۔ آج پوری دنیا آپﷺ کی عظمت کی قائل ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ آج ایک عیسائی دانشور مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ’’The 100 ‘‘میں یہ لکھنے پر مجبور ہے:
"My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels."

’’حضرت محمد(ﷺ)کو دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں سرفہرست رکھنے کے میرے اس فیصلے پر کچھ قارئین کو حیرت ہو گی اور بعض اس پر سوال بھی اٹھائیں گے‘ لیکن پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف آپ(ﷺ) ہی واحد شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں محاذوں پر پوری طرح کامیاب رہے۔‘‘
آیت ۵۱{وَاِنْ یَّـکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَـیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ}’’اور یہ کافر تو تلے ہوئے ہیں اس پر کہ اپنی نگاہوں کے زور سے آپؐ کو پھسلا دیں گے جب وہ قرآن سنتے ہیں‘‘
مشرکینِ مکّہ نے حضورﷺ کی قوتِ ارادی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور اس مقصد کے لیے آپؐ کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک مرحلے پر انہوں نے اس مقصد کے لیے ایسے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کیں جو اپنی نگاہوں کی خصوصی طاقت کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ شاید طبعی طور پر ایسا ممکن ہو ۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص خصوصی مشقوں (exercises)کے ذریعے اپنی آنکھوں میں اپنی قوتِ ارادی کو اس انداز میں مجتمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہو کہ اس کے بعد جب وہ کسی دوسرے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے تو وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لا سکے۔ بہرحال اس آیت میں مشرکینِ مکّہ کے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر ہے۔
{وَیَـقُوْلُوْنَ اِنَّـہٗ لَمَجْنُوْنٌ(۵۱)} ’’اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘
سورت کے آغاز اور اختتام کا باہمی ربط نوٹ کیجیے ۔جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر اس کا اختتام ہو رہاہے۔ کُفّار حضورﷺ کو مجنون کہتے تھے۔ ان کے اس الزام کی تردید سورت کے ابتدا میں بھی کی گئی اور آخر میں بھی۔ پھر یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس سورت کے آغاز میں حرف ن کیوں آیا ہے۔ دراصل ’’ ن ‘‘کے معنی ’’مچھلی‘‘ کے ہیں‘ جیسا کہ سورۃ االانبیاء کی آیت ۸۷ میں حضرت یونس ؑ کا ذکر ذُوالنُّون (مچھلی والے) کے لقب سے کیا گیا ہے۔ چنانچہ حرف ن کا معنوی ربط سورت کی ان اختتامی آیات کے ساتھ ہے جن میں صَاحِب الْحُوت (حضرت یونس ؑ) کا ذکر آیا ہے۔
آیت ۵۲{وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(۵۲)}’’اور نہیں ہے وہ‘ مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے۔‘‘
یہاں پر ھُوَ کی ضمیر قرآن کے لیے بھی ہے اور حضورﷺ کے لیے بھی۔ قرآن مجید کے ذکر (یاد دہانی اور نصیحت) ہونے کا تذکرہ تو قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے‘ جبکہ اپنی ذات میں حضورﷺ بھی قیامت تک کے لوگوں کے لیے یاد دہانی ہیں‘ بلکہ آپﷺ اپنی ذات میں مجسم قرآن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے: ((کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ)) ’’آپﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔‘‘
[بعض مترجمین نے یہاں ’’ذِکْر‘‘ کا ترجمہ ’’شرف‘‘ بھی کیا ہے۔ یعنی آپﷺ سارے جہانوں کے لیے وجہ عزّو شرف ہیں۔ (مرتّب)]