(تذکرہ و تبصرہ) جدیدیت کے شیطانی ہتھکنڈے اور قرآنی تنبیہات - حافظ عاطف وحید

11 /

جدیدیت کے شیطانی ہتھکنڈے
اور
قرآنی تنبیہات
حافظ عاطف وحید
(جامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی لاہور میں ۱۴ /اکتوبر ۲۰۲۲ء کا خطابِ جمعہ)

خطبہ مسنونہ کے بعد تلاوت ِآیات:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰٓــئُہُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۲۵۷) } (البقرۃ)
{یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْـنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌط ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(۲۶) یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّـکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَاط اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ (۲۷) وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَآءَنَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَاط قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ ط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (۲۸) } (الاعراف)

آج میں نے خطاب جمعہ کے لیے جوآیات منتخب کی ہیں‘ان میں ایک تو سورۃ البقرۃ کی (آیت۲۵۷) ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ہدایت کے چینلزکا اور اہل کفر کے بے ہدایتی کے چینلز کا ذکر کیا ہے۔ تین آیات سورۃ الاعراف کی ہیں جن میں شیطان کے خطرناک ترین ہتھکنڈوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ آج یہ موضوع اس لیے بہت اہم محسوس ہوتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت کے مابین فرق اور امتیاز اٹھتا چلاجارہا ہے ۔اس وقت بعض ایسی تحریکات سرگرمِ عمل ہیں جن کے زیراثرآج کی مسلم یوتھ ہے ۔ ان کے سامنے رفتہ رفتہ ایسے معاملات ایک عام سی بات بنتے چلے جارہے ہیں جن کادین اسلام میں بڑا حساس مقام ہے ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں جو ہدایات عطا فرمائی ہیں وہ ان گمراہیوں کے ضمن میں کیاصحیح راستہ عطا فرماتی ہیں۔ایسے میں امید ہے کہ ہم ان سے نبرد آزما ہونے کی بھی صلاحیت پیدا کرسکیں گے ۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایاگیا:
{اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط}
’’اللہ ولی ہے اہل ِایمان کا ‘وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی‘طرف۔‘‘
جو لوگ اللہ پرایمان کادعویٰ کرتے ہیں اور پھرواقعتاً اسی کو اپنا رب‘ خالق ‘ مالک اور مطاعِ حقیقی سمجھتے ہیں‘ان کے لیے اللہ تعالیٰ پہلا اہتمام یہ فرماتا ہے کہ وہ ان کا کارساز ‘ولی اور دوست بن جاتاہے ۔ دوسری بات یہ کہ:{یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط} ’’وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی‘طرف ۔‘‘وہ اہل ایمان کوظلمات سے نکال کرنور کی طرف لے آتاہے ۔
ظلمات سے یہاں مراد کوئی ظاہری اندھیرا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بدعقیدگی‘ گمراہیاں‘ گمراہ کن افکار اور نظریات ہیں ۔طرح طرح کے ایسے افکار ونظریات دنیا میں پھیلے ہی نہیں ہیں بلکہ پھیلائے گئے ہیں‘ اور آج وہ گویا ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور دنیا کے لیے متفق علیہ قسم کے اوصاف بن چکے ہیں۔ ان گمراہ کن نظریات کے خلاف اگر کوئی محاذ یا دفاعی نظام ہوسکتاہے تووہ وہی ہے جواللہ تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کے لیے کتاب ہدایت میں عطا فرماتا ہے۔ آگے فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓــئُہُمُ الطَّاغُوْتُ}
’’اور (ان کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا‘ اُن کے اولیاء (پشت پناہ‘ ساتھی اور مددگار) طاغوت ہیں‘‘
طاغوت‘شیطان یاوہ لوگ جواپنی بڑائی اوربالادستی چاہتے ہیں‘جومن مانی زندگی بسر کرناچاہتے ہیں‘یہ ایک گروہ کی صورت ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں ۔یعنی شیطان اور اس کی صلبی و معنوی ذریت ‘اس کے چیلے چانٹے‘اس کے ایجنٹ۔ یہ لوگ کفر کی زندگی پرخوش اورمطمئن ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ :
{یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط}
’’وہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔‘‘
یہ انسانوں کو ہدایت اور نورِ ایمان کی حالت سے نکال کرانہیں اندھیروں‘گمراہیوں ‘ ضلالتوں‘ بدعقیدگی اوربے دینی میں مبتلاکرنے کے لیے مسلسل سعی وجُہدا ور محنت کرتے رہتے ہیں ۔
{اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۲۵۷)} (البقرۃ)
’’یہی لوگ ہیں آگ والے‘ یہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
دوسرامقام سورۃ الاعراف کا ہے جو کم سے کم تین آیات کامجموعہ ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط}
’’اے آدمؑ کی اولاد!ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرم گاہوں کو ڈھانپتا ہے اور آرائش و زیبائش کا سبب بھی ہے۔‘‘
یہاں خطاب ہم اور آپ سے ہے کہ اے بنی آدم‘ یقیناً ہم نے تم پراتارا ہے ایک لباس جو تمہاری سترپوشی کرتاہے‘ تمہارے شرم کے مقامات کوچھپاتاہے ‘اوروہ زیب وزینت بھی ہے ۔ یہاں گویالباس کے دواہم مقاصد بتائے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ سترپوشی کاکام کرتاہے ۔انسان کےوہ اعضاءجوشرم کے مقامات ہیں ‘انہیں چھپانے اور انسان کی حیا قائم رکھنے کا ذریعہ بنتاہے۔ ان مقامات کوچھپانالباس کابنیادی کام(function)ہے ۔پھر یہ زیب و زینت کا باعث بھی ہے۔ اچھی وضع قطع کاصاف ستھرالباس ہوتوانسان کی شخصیت میں وقار پیدا ہوتاہے‘ اس کی شخصیت نکھرتی ہے ۔ اگر کوئی شخص بد ہیئت لباس پہن لے تواس کاحلیہ اوراس کی appearance بڑی معیوب سی نظر آتی ہے ۔لباس یہ دونوں کام کرتا ہے‘ لیکن اس کا بنیادی کام ستر پوشی ہی ہے۔
{ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌط}
’’اور (اس سے بڑھ کر) تقویٰ کا لباس جو ہے وہ سب سے بہترہے۔‘‘
تقویٰ کے لباس سے مراد شرم و حیا ہے۔ یہ ایمان کی بنیادہے ۔حضرت حسن بصری ؒ نے ’’لِبَاسُ التَّقْوٰی‘‘ کی تفسیر شرم و حیا سے کی ہے۔
{ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(۲۶)}
’’یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تا کہ یہ لوگ نصیحت اخذ کریں۔‘‘
یہ اللہ کے احکامات ہیں ‘اس کے فرامین ہیں‘تاکہ لوگ سمجھیں اورنصیحت اخذکریں۔آگے فرمایا:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَاط}
’’اے بنی آدم! (دیکھو اب) شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالنے پائے‘ جیسے کہ تمہارے والدین کو اُس نے جنت سے نکلوادیا تھا (اور) اُ س نے اُتروادیا تھا اُن سے اُن کا لباس ‘ تا کہ اُن پر عیاں کر دے ان کے شرم کے مقامات۔‘‘
آدم وحواؑ کے جنت سے نکلنے کا جو سار ا واقعہ قرآن حکیم میں بارہا بیان ہوا ہے‘ یہاں اس کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان انہیں جنّت سے نکالنے کا ذریعہ بنا۔ اس نے ایک مغالطہ پیدا کیا۔حضرت آدم اور حضرت حوا ؑ کے سامنے طرح طرح سے قسمیں کھائیں اوراپنی بات کو بااعتبار بنانے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس درخت کا پھل کھانے سے انہیں روکا گیا تھا وہ دونوں اسے کھابیٹھے۔ان سے ایک معصیت سرزد ہوگئی ‘ جو شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس نے ایک بڑی illusionپیداکی کہ اللہ نے جس چیز سے تمہیں روکا ہے وہی تو اصل شے ہے۔ چنانچہ اُس نے ان سے ان کے لباس اتروا دیے یعنی بے پردگی طاری کر دی۔ ان کے شرم کے مقام جواللہ نے چھپائے ہوئے تھے ظاہر ہو گئے۔ جنّت کا جوخاص لباسِ فاخرہ تھا وہ اتر گیا اور ا ن کے سامنے آپس میں بے پردگی کااظہار ہوگیا۔ آگے فرمایا:
{اِنَّـہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ط}
’’ یقیناً وہ اور اُس کی ذریت وہاں سے تم پر نظر رکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
شیطان بڑا خطرناک دشمن ہے ۔ اس لیے کہ ایک دشمن وہ ہوتا ہے جوسامنے آکروار کرتاہے۔آپ کو معلوم ہے کہ وہ یہاں موجود ہے۔آپ اس سے محتاط بھی رہ سکتے ہیں ‘ دفاع بھی کرسکتے ہیں ۔ ایک دشمن وہ ہے جوآپ کو نظر ہی نہیں آرہا‘آنکھوں سے اوجھل رکھا گیاہے ۔ چنانچہ فرمایا کہ تم انہیں نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ تمہیں دیکھتے ہیں ۔ یہاں شیاطین جن مراد ہیں ۔ اب توشیاطین انس بھی ہیں جنہوں نے ایسی ایسی ڈیوائسز ایجاد کرلی ہیں کہ بہت ہی نجی قسم کی ملاقاتیں اور گفتگوئیں بھی ریکارڈ پرلاکرآپ کے سامنے ظاہر کردیتے ہیں۔آخر ایک طرح سے وہ دیکھ ہی رہے ہیں۔ گویااب یہاں شیاطین جن وانس کاآپس میں ایساگٹھ جوڑ(nexus) بن گیا ہے کہ ان کے مابین کوئی فرق نہیں رہا۔ آگے فرمایا:
{اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لَا یُـؤْمِنُوْنَ(۲۷)}
’’ہم نے تو شیاطین کوان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘
جو لوگ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرناچاہتے اصل میں ان کاحمایتی‘ولی اورکارساز شیطان اور اس کا قبیلہ ہے ۔اگلی آیت میں فرمایا:
{وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُــوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَـآءَنَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَاط}
’’اور جب یہ لوگ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم نے پایا ہے یہی کچھ کرتے ہوئے اپنے آباء و اَجداد کو‘ اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔‘‘
یہاں ’’فاحشہ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے جس میں بے حیائی کے کام تو شامل ہیں ہی‘ لیکن عربی زبان میں فاحشہ صرف بے حیائی کے کاموں کوہی نہیں کہاجاتابلکہ اس میں بڑے بڑے منکرات اورغلط کام بھی شامل ہیں۔خاص طورپرذہن میں رکھیے کہ یہاں مخاطبین قریش کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین ابراہیمی کاحلیہ بگاڑ دیاتھا۔وہ بیت اللہ شریف میں آتے تھے تواپنے ہی طور طریقے اختیار کرتے تھے ۔ دورِ جاہلیت میں بیرونِ مکہ سے آنے والوں پرپابندیاں لگائی ہوئی تھیں کہ چونکہ ان کا لباس آلودہ ہوتاہے ‘مختلف قسم کے گناہوں سے لتھڑا ہوا ہوتاہے لہٰذا وہ اسے اُتار کرآئیں۔ لہٰذادن کے وقت مرد بے لباس ہوکرطواف کررہے ہوتےاوررات کے اوقات میں عورتیں بے لباس ہوکرطواف کررہی ہوتیں۔ یہ طریقہ انہوں نے اختیار کیاہوا تھا۔یوں وہاں کے ہوس پرست لوگ ان کو تاکتے تھے اورپھرباتیں اور اسکینڈلزبناتے تھے ۔یہ قبیح کام مطاف کے اندر عین بیت اللہ شریف کے اطراف میں ہورہا تھا۔ جب ان کواس قسم کے کاموں کے بارے میں بتایاجاتاتھاکہ یہ تم نے کون ساطریقہ اختیار کیاہواہے یادوسرے منکرات کاارتکاب کرنے پر کہا جاتا کہ اُن کی شریعت ابراہیمی میں کوئی حیثیت نہیں ‘تووہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے پُرکھوں کی روایات ہیں اورآباء واَجداد کاطریقہ ہے۔ لہٰذ اہم ان طریقوں کوہی فالو کریں گے اور یہ صحیح طریقے ہیں ۔درحقیقت یہ ایک الزام تھا جس کا جواب قرآن نے بڑے واضح طور پر کئی جگہوں پر دے دیا:
{اَوَلَوْ کَانَ آبَآؤُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ(۱۷۰)} (البقرۃ)
{ ……… لَایَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ(۱۰۴)} (المائدۃ)

کیایہ پھربھی اپنے آباء کی پیروی کریں گے اگرچہ وہ نہ توعقل رکھتے تھے ‘نہ ہدایت پرتھے ‘ نہ ہی ان کے پاس علم تھا۔پھربھی انہی کے پیچھے چلیںگے ؟ یہ مختلف انداز مختلف مقامات پراختیار کیے گئے ۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ یہ جوکچھ ہم کررہے ہیں اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیاہے۔ یہ اصل میں اللہ پر بالواسطہ الزام (allegation) لگایا گیا۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ اگر ہمارے آباء یہ کرتے تھے تویقیناًانہیں حکم ہوا ہوگا۔لہٰذا اگرہم اپنے آباء کی اتباع کررہے ہیں تواصل میں ہم اللہ ہی کے حکم کوفالو کررہے ہیں ۔ ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کررہے ہیں ۔ اس کاجواب یہ دیا گیاکہ:
{قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ ط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۸)}
’’(اے نبی ﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ۔ تو کیا تم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہو وہ کچھ جس کا تمہیں کوئی علم نہیں!‘‘
اس وقت اہم ترین بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ جن چیزوں کواللہ نے شیطان کی پیروی قرار دیاہے ان میں ایسے فحش اورمنکرات شامل ہیں‘ جوآج اس طرح عام ہوگئی ہیں کہ ان کے اوردین کی اصل تعلیمات کے درمیان امتیاز کرنامشکل ہوگیاہے۔ اسی لیے قرآن مجید کی وہ آیات بھی ذہن میں رکھیے جن میں شیطان کے نقش پا کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ یہ آیات قرآن مجید میں کم سے کم چار مقامات پر آئی ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں ایک مقام پر فرمایاگیا:
{یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًاز وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط}(البقرۃ:۱۶۸)
’’اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور طیب ہے اسے کھائو‘اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔‘‘
یعنی ایسی بدعقیدگیاں مت اختیار کرو کہ فلاں اشیاء حرام ہیں‘ حالانکہ وہ حرام نہیں تھیں ۔انہوں نے بعض حلال چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہوا تھا۔ قرآن مجید ایک مرتبہ نہیں بلکہ چار مرتبہ یہ حکم دے رہا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم پرمت چلو۔اگر یہ کوئی غیر اہم‘ randomتصوّر یاarbitrary بات ہوتی تواس شدّومدّ کے ساتھ چار مرتبہ حکم نہ دیاجاتا۔ یہی بات سورۃ البقرۃ میں پھر فرمائی :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط}(البقرۃ:۲۰۸)
’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے‘ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔‘‘
یعنی اسلام کے تقاضوں میں تفریق کر دیناکہ اس کو توہم مانیں گے اوراس کونہیں مانیں گے ‘یہ امور ہمارے لیے مشکل ہیں‘ایسا طرزِعمل درحقیقت شیطان کے نقش قدم پرچلناہے ۔اسی طرح سورۃالانعام میں بھی فرمایا:
{کُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۴۲)}
’’کھائو اُس میں سے جو اللہ نے تمہیں رزق دیا ہے اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
یہی بات پھرسورۃالنور میں بھی فرمائی گئی :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط} (النور:۲۱)
’’اے اہل ِایمان! شیطان کے نقش ِقدم کی پیروی نہ کرو۔اور جو کوئی شیطان کےنقشِ قدم کی پیروی کرے گا تو شیطان تو اُسے بے حیائی اور برائی ہی کا حکم دے گا۔‘‘
یہ میں نے اس موضوع پر اہم ترین آیات آپ کے سامنے پیش کی ہیں جن میں شیطان کاایک بہت بڑا ہتھکنڈا یہ بتایاگیاہے کہ وہ تمہیں فحاشی اورمنکرات کاراستہ دکھائے گا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں بعض اصطلاحات ایسی عام ہوئی ہیں اور انہیں ایسے قبول (recognise) کر لیا گیا ہے گویا یہ basic human facultiesہیں جوتمام انسانوں میں متفق علیہ ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی میں ’’Renaissance ‘‘کی تحریک نے سر اٹھایا‘ جو سولہویں صدی تک جاری رہی ۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہی تھاکہ روایت یامذہب ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘منطق (logic) جسے میں عقل گزیدگی کہوں گا‘اور فلسفے اور آرٹ ہی کے ذریعے بامِ عروج تک پہنچاجا سکتا ہے۔ یہی علوم تمہاری خواہشات کی تسکین کاذریعہ ہیں۔چنانچہ ’’Renaissance‘‘ کی تحریک کوبڑے اچھے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ’’ احیاء العلوم‘‘ کی تحریک تھی ۔لیکن اس کے پس پردہ اصل شے بے دینی ‘اللہ سے دُوری ‘مذہب بیزاری اور سب سے بڑھ کراپنی عقل اور اپنی دانش پرانحصار تھا۔پھر اس تحریک نے آگے بڑھ کرمختلف شکلیں اختیار کیں ۔چنانچہ سترہویں اوراٹھارہویں صدی میں اس نے ایک نیاموڑ لیاجسے روشن خیالی (Enlightenment)کہاجاتاہے یعنی تحریک تنویر۔ دراصل جب پرانی باتوں کااثر ختم ہوجائے توپھر نئے بت تراشنے پڑتے ہیں ‘ جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا:؎
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہرزمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم‘ جواں ہیں لات ومنات
یعنی آدم توبوڑھاہوچکا ہے لیکن لات ومنات اور گمراہی کے مختلف بڑے بڑے نت نئے سلوگنز انسانوں کے سامنے لائے جاتے ہیں ۔بڑی اچھی بات ہے کہ روشن خیالی ہونی چاہیے لیکن اصلاً یہ خدا بیزاری اور دین سے دوری کا ذریعہ اور سبب بن رہی ہے۔ روایات کو تبدیل کر رہی ہے ۔ قرآن پڑھنے اور پڑھانے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی کرنے کاکام ہے؟اگر آپ ترقی کرناچاہتے ہو تو سائنس اور فلسفہ پڑھو۔ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ انہی علوم کے باعث دنیا آگے نکل گئی اور کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب وہی کہہ سکتا ہے جس کے پیش نظر صرف دنیا ہے‘ اسے آخرت سے کوئی سروکار نہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ نہایت خوب صورت عنوانات ہیں‘ لیکن ان کے پس پردہ جو کچھ ہے وہ اکثر ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔
پھر’’فیمینزم‘‘ کی تحریک کے ذریعے ایک نیا قدم اٹھایا گیا ہے۔ ’’تحریک نسواں‘‘ بظاہر بہت اچھی نظر آتی ہے کہ مرد کے ہاتھوں عورتوں کا استحصال ختم کیا جائے۔ انسانوں کا معاشرہ ہمیشہ سےmale-dominant معاشرہ رہا ہے۔ عورتوں کااستحصال یقیناً ہوتا ہے ‘لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسے کیسے دورکیا جائے۔ آسمانی ہدایت کی روشنی میں اس ظلم کے خاتمے کی تدابیر کرنا بالکل جدا شے ہے‘ لیکن فیمینزم کے تحت عورت اور مرد کوہراعتبار سے برابر قرار دے کر ان کے استحصال کو رفع کرنا بالکل جدا معاملہ ہے۔ چنانچہ انیسویں صدی میں اس کی پہلی لہر (wave) آئی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ قانونی اعتبار سے عورتوں اور مردوں میں مساوات ہونی چاہیے۔ اگرچہ یہ برابری کانعرہ ہے لیکن یہ حق اپنے صحیح معنوں میں وہ خود بھی دینے کوتیار نہیں ہیں ۔ درحقیقت یہ برابری بھی استحصال کاذریعہ ہے ۔تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے‘ لیکن درحقیقت اس سے عورتوں کامزید استحصال ہوتاہے ‘اگرچہ ظاہر میں یہ بڑا خوشنما سلوگن ہے ۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں بات بہت آگے پہنچا دی گئی کہ تمدنی‘معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی طور پر اپنی سوچ‘ فکر اور فیصلہ سازی وغیرہ کے اعتبار سے عورت مرد کے بالکل برابرہے۔اس پرکوئی قدغن نہیں اور آسمانی دبائو تودور کی بات ہے ‘اخلاقی دبائو بھی کوئی نہیں ۔ چنانچہ اس ذریعے سے شیطان نے ایک نیاہتھکنڈا اختیار کیا۔اسی کا یہ مظہر ہے کہ آج حکومتی سطح پر بڑی بڑی مجالس اورتقریبات میں وومن ایمپاورمنٹ کا دعویٰ کیا جا رہاہوتا ہے ۔ خواتین کو بااختیار بنانابظاہربڑی اچھی بات ہے کہ اس کے ذریعے وہ معاشرے کا اچھا اور مفید شہری بنیں لیکن زمینی حقائق یہ نظر آتے ہیں کہ اس کا مقصد خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرار دیا ہے کہ:
{ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط}(النساء:۳۴)
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں بسبب اُس فضیلت کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہےاور بسبب اس کے کہ جو وہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال۔‘‘
آج یہ سارے دینی اور اخلاقی ضابطے ایک طرف کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک بدیہی امرہے کہ ایک دفعہ اگر عورت کو یوں گھر سے نکال دیا تو پھر باقی کاتخریبی کام خودبخود ہوتا چلا جاتا ہے ۔ چنانچہ’’حریت نسواں‘‘(woman emancipation) اور ’’خود مختاریٔ نسواں‘‘ (woman empowerment) وغیرہ مختلف عنوانات ہیں جن کے تحت شیطان کے جدید ’’خطوات‘‘ نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ نظر آتی ہےکہ ان فتنوں کو پہچانا جائے ۔اگرہمیں اپنی اور آئندہ نسلوں کے ایمان کی فکر ہے اور انہیں شیطان کی ان ساری چالوں سے آگاہ کرنا مقصود ہے توہمیں ان فتنوں کی حقیقت کوسمجھنا ہوگا۔ ان کا ظاہر اپنی جگہ بڑا خوبصورت اور خوش رنگ ہے جبکہ ’’اندروں چنگیزسے تاریک تر ‘‘ہے۔ رسول اللہﷺ نے جو تعلیمات ایمان اور حیا کے ضمن میں عطا فرمائی ہیں ‘میں چند احادیث آپ کے سامنے پیش کرتاہوں ۔تاکہ حق و ناحق کا فوری تقابل نمایاں ہو جائے۔
حضرت زیدبن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقًا وَخُلُقُ الْاِسْلَامِ الْحَیَاءُ)) (رواہ ابن ماجہ : ۴۱۸۲ والطبرانی:۱۰ / ۳۸۹)
’’ہردین کاکوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے‘‘۔ہر دین کی ایک الگ ‘ ایک خاص علامت ہوتی ہے۔ حیا ایک باطنی کیفیت ہے۔ یہ انسان کی ایک فطری صلاحیت اور بنیادی وصف ہے جو اس کی سیرت سازی میں سب سے موثر کردار ادا کرتاہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ وَالْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ‘ وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ‘ وَالْجَفَاءُ فِی النَّارِ))(مسند احمد: ۱۰۵۱۹) ’’حیا ایمان سے ہے (ایمان کا لازمی جزو ہے) اور ایمان جنّت میں داخلے کی ضمانت ہے‘ اور بے شرمی و بے حیائی جفا ہے (بدکاری ہے‘ بدعملی ہے) اور اس کا انجام آگ ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اِنَّ الْحَیَاءَ وَالْاِیْمَانَ قُرَنَا جَمِیْعًا)) حیااورایمان دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں‘‘ ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص کہے کہ میں ایمان والا ہوں جبکہ وہ بے حیابھی ہو ۔کوئی بے حیا شخص ایمان والا ہوہی نہیں سکتا۔ رسول اللہﷺ نے آگے فرمایا:((فَاِذَا رُفِعَ اَحَدُھُمَا رُفِعَ الْآخَرُ)) (مستدرک الحاکم:۵۸۔صحیح الجامع:۱۶۰۳)’’ان دونوں میں سے ایک چیز اگر اٹھالی جائے تودوسری چیز ازخود ختم ہوجاتی ہے ‘‘۔یعنی ایمان چلاگیا تو انسان بے حیا ہوجائے گااورحیا اُٹھ گئی توانسان بے ایمان ہوجائے گا۔
حضرت ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ الْاُوْلٰـی اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ)) (صحیح البخاری:۳۴۸۳)’’پچھلی نبوتوں کی باتوں میں سے جو کچھ لوگوں نے اعلیٰ ترین بات اخذ کی ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ اگر تم میں حیا نہ رہے توپھرجوچاہو کرتے پھرو‘‘۔ پھرکوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔چاہےانسان شیطان کے بھی کان کترنے لگے اور اس سے بھی کہیں آگےبڑھ کر جہنم کے راستے پر بگ ٹُٹ بھاگے۔ یہ سب ممکنات ہیں اگر انسان کے اندر سے شرم و حیا نکل گئی۔ ع بے حیا باش و ہر چہ خواہی کن!
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((اَلْحَیَاءُ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ))(متفق علیہ)’’حیاسے خیر ہی برآمد ہوتاہے‘‘ ۔یہ الفاظ متفق علیہ حدیث کے ہیں‘ جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: ((اَلْحَیَاءُ خَیْرٌ کُلُّہٗ)) اَوْ قَالَ: ((اَلْحَیَاءُ کُلُّہٗ خَیْرٌ)) یعنی حیا تو کل کی کل خیر ہی خیر ہے۔ یہ اصل میں آج کے دور کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ اگر کوئی شخص شرمیلا(shy)ہے‘ اس کے اندر بے باکی نہیں ہے تو وہ مادی ترقی میں پیچھے رہ جائے گا اور دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حیا سے بالآخر خیر ہی برآمد ہوگا۔
یہ چند باتیں خاص طور پر اس نسبت سے عرض کی گئی ہیں کہ اب ہمار ےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت معاملات Renasissance‘ روشن خیالی‘ فیمینزم اور وومن ایمپاورمنٹ سے بہت آگے جا چکے ہیں اور اب ’’ٹرانس جینڈر‘‘ کے نام پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان فتنوں سے متنبہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ان لوگوں کو اجر سے نوازے جنہوںنے اس بڑے فتنے سے لوگوں کو آگاہ کیا!
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین