(یادِ رفتگاں) واہ! ڈاکٹر اسرار احمدؒ - ڈاکٹر محمد شریف نظامی

11 /

واہ! ڈاکٹر اسرار احمد ؒڈاکٹر محمد شریف نظامی
چیف سائنٹیفک آفیسر (ر) ‘ رحمان پورہ کالونی‘ لاہور

 

یہ تحریر داعی ٔ قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے انتقال پُر ملال کے اگلے ہی روز صاحب مضمون کے نوکِ قلم پر آگئی تھی‘ لیکن وہ اسے اشاعت کے لیے ارسال نہ کر سکے۔ ہمیں یہ تحریر چند روز قبل موصول ہوئی ہے اور اسے نذرقارئین کیا جا رہا ہے۔

قارئین کرام! ’’یاد رفتگاں‘‘ کے تحت بیسیوں تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو گا۔ آپ نے یقیناً محسوس کیا ہو گاکہ ان کا آغاز تو ’’آہ! ‘‘سے ہوتا ہے ۔ اس ’’واہ!‘‘کے کیا معنی؟آپ کا یہ تاثر بالکل درست ہے۔ اگرچہ یہ تحریر پُرنم آنکھوں کے ساتھ سطو ر کا روپ دھار رہی ہے… لیکن ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟‘‘ کی پکار پرجب ڈاکٹر صاحب مرحوم کی روح پُرفتوح نے ’’بَلٰی وَرَبِّنَا‘‘ کی صدا بلند کی تو اس عالم رنگ و بو میں آکرعامۃالناس کے برعکس اس عہد کو نبھایا‘ اور خوب نبھایا۔ دراصل یہ ’’واہ‘‘ اسی امر کا غماز ہے۔ یہاں میں ان کے مرشد سید مودودیؒ کا تذکرہ نہ کروں تو بھی ناانصافی ہو گی۔ کل جب ان کا جنازہ پڑھ کر واپس آ رہے تھے تو ایک صاحب ذوق نے بے ساختہ کہا :’’مولانا مودودیؒ کا تراشا ہوا یہ ہیرا آج تہ ِخاک روپوش ہو گیا‘‘۔ میں سوچنے لگا: ہمارے ان دوست نے اگرچہ ہر دو حضرات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کیا ہے لیکن بقول حافظ شیرازی ؎
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوامِ ما!
’’جن کے دل عشق سے زندہ ہوتے ہیں وہ کبھی مرا نہیں کرتے ‘کیونکہ صحیفہ ہستی پر ان کا نام نقش بر حجر کی طرح ثبت ہو جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اسرار مرحوم کو پہلی بار۱۹۷۲ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے آڈیٹوریم میں سنا۔ ہم اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ‘ہوسٹلز میں کمرے نہ ملنے کی وجہ سے‘ وہاں ایک دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’معجزات کی حقیقت اور ان کے وقوع‘‘پر بات کی۔ ان کا یہ لیکچر سلاست ِفکر‘ دلیل ِقاطع اور عقل ِانسانی کو اپیل کا حسین مرقع تھا۔ جس انداز سے انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کی‘ نطق اس کی بلائیں لینے لگا اور علم الکلام کے رنگ برنگے پھول کھلتے دکھائی دیے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا کہنا تھا کہ ’’دنیائے آب و گِل‘‘ مادّے کی خصوصیات کا کھیل ہے۔ پانی بہتا ہے‘ آگ جلاتی اور ہوا زور سے چلے تو تباہی مچاتی ہے۔جو شخص ان کو ’’خدا‘‘سمجھتا ہے وہ معجزات کا منکر ہے۔ پھرذرا آگے قدم بڑھاتے ہوئے فرمایا: ’’درحقیقت یہ سب تو خدائے واحد کے غلام اور عاجز بندے ہیں۔جب اللہ کا حکم ہوتا ہے آگ جلاتی ہے ‘ جب فرمان جاری ہوکہ ٹھنڈی ہوجا تو ٹھنڈی ہوجاتی ہے ‘بلکہ گلزار بن جاتی ہے۔ پانی کو عموماً بہنے کا حکم ہے‘ لیکن مصلحت ہو تو اسے جم کر تودے بن جانے کا کہہ دیا جاتا ہے اور اکثر انسانوں کے علی الرغم وہ اس سے سرتابی نہیں کرتا۔‘‘ مزید فرمانے لگے :’’یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ صاحب اختیار اپنے ماتحتوں کو از خود اختیارات منتقل کرتا ہے اور جب چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس!‘‘
دوسری بار جامعہ پنجاب کی جامع مسجد میں ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کا خطاب سننے کا اتفاق ہوا۔ان دنوں لیاقت بلوچ صوبہ پنجاب کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم ہونے کے باوجود ’’کلین شیو‘‘ تھے۔ جمعیت کے ذمہ داران کے چہرے اکثر و بیشترسُنّت ِ نبوی سے مزین ہوتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب خود اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے ‘لہٰذا ان کو یہ بات ناگوار گزری۔ ’’واعظانہ انداز ‘‘سے بالکل ہٹ کر کہنے لگے : ’’لیاقت بھائی! ہمارے دور میں تو آپ جیسے لوگوں کی داڑھیاں ہوا کرتی تھیں‘‘۔ سچ ہے کہ ع ’’از دل خیزد و بر دل ریزد‘‘بات دل سے نکلی اور دل پر ہی جا لگی۔یا پھر علامہ اقبالؒ کی زبان میں ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے!
بہرحال امر واقعہ یہی ہے کہ کچھ عرصے بعد لیاقت بلوچ باریش ہو گئے۔
ہر چند کہ اظہارِ تاثرات کی طوالت بھی پیش نظر ہے لیکن یادوں کی کہکشاں میں ہر آن نت نئے سیارے نمودار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یومِ اقبال اور ایسے دیگر مواقع پر بعض سیکولر ’’دانشور‘‘ اپنا پرانا راگ الاپتے اور اس عمل کے دوران کچھ لوگ ان کے زورِ بیان سے متاثر ہوتے بھی نظر آتے ‘لیکن اگر ڈاکٹر صاحب مرحوم وہاں موجود ہوتے تو اپنی تقریر میں اس مدلل اور مسکت انداز سے ان کی ’’خبر‘‘ لیتے کہ اب دل پر منوں بوجھ محسوس کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے ؎
اِک دِیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی
شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو!
لیکن نہیں! نہیں! فہم قرآن کے جو چراغ آپ ؒ نے خونِ جگر سے روشن کیے ہیں ان کی ضوفشانیاں تاابد’’ تاریکیوں‘‘ کا ‘ان شاء اللہ ‘تعاقب کرتی رہیں گی۔
احقر کے تجربہ کے مطابق‘ ہمارے معاشرے کے اکثر اہل ِعلم و دانش کا یہ چلن ہے کہ بڑے دانشور انہ انداز سے حالات کا تجزیہ کریں گے‘ ان کی خرابی پر فارسی زبان ہی نہیں عربی زبان کی گردان کریں گے ‘(فارسی گرامر میں فعل کے چھ صیغے اور عربی زبان میںچودہ ہوتے ہیں) اور دینی سیاسی جماعتوں میں’’مائیکرو سکوپ‘‘ لگا کر ’’جراثیم ‘‘تلاش کریں گے ‘لیکن میدانِ عمل میں وہ صفر کہ جو پورے کرئہ ارض پر محیط ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور اس پس منظر میں بھی منفرد نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے طریق کار پر اختلاف ہوا تو نہایت شائستگی سے الگ ہو گئے لیکن نظر نصب العین سے سرِمُو نہیں ہٹی۔ انجمن خدام القرآن کے نام سے دعوتی و اشاعتی ادارہ قائم کیا اور تنظیم اسلامی کے نام سے ایک اسلامی انقلابی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ یوں ع ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘کانعرہ بلند کرتے ہوئے میدانِ عمل میں کود پڑے۔ آپ واحد فرد تھے (جماعتوں کے علاوہ)جنہوں نے سب سے پہلے پیغامِ قرآن کا عَلم اپنے ہاتھوں میں تھاما ۔ علامہ اقبال کی زبان میں ؎
گمان آبادِ ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شب ِتاریک میں قندیل ِرہبانی
یقین کی یہ قندیل تادمِ آخر انہوں نے تھامے رکھی۔
قارئین ِکرام! یہ سطور قلم برداشتہ ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صر ف یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا مشن ’’دعوت رجوع الی القرآن ‘‘ ہر باشعور مسلمان کا مشن بن جانا چاہیے۔
اہل ِ باطل یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں للکارنے والا دنیا سے اٹھ گیا۔ قرآن کی پکار اور ان کی للکار کا عَلم بلند رکھنے کا عہد کیجیے۔ ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہی انداز تعمیری بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے اپنے فضل ِبے کراں کے تحت درگزر فرمائے‘ انہیں اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ لواحقین اور عقیدت مندوں کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کا لگایا ہوا پودا خوب برگ و بار لائے۔ ع
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!