(دعوتِ فکر) شرم وحیا: شعورِ ذات کا تقاضا - راحیل گوہر

11 /

شرم وحیا: شعورِ ذات کا تقاضاراحیل گوہر صدیقی

تحقیق و تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر فرد میں شعورِ ذات (Self-Realization) کی صلاحیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔اسے انسانی زندگی کے رہنما اصولوں کا ایک ایسا نظام یا وہ بیج کہا جاسکتا ہے جو پیدائش کے وقت ہر فرد میں بالقوہ موجود ہوتا ہےاور سازگار حالات میں تناور درخت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہر فرد فطری طور پر ان رہنما اصولوں کی روشنی میں اپنی ذات کی نشوونما‘ فروغ اور استحکام کے لیے کوشاں رہتا ہے۔انسان کا ہر فعل خواہ اس کا تعلق جسمانی ضرورتوں کی تسکین سے ہو یا کسی ذہنی عمل سے‘ انہی اصولوں کے حوالے سے سر انجام پاتا ہے۔
امریکی ماہر نفسیات کارل روجرز(Carl Ransom Rogers) کا خیال ہے کہ ہر فرد اپنی تمام تر صلاحیتوں کا اظہار ‘ان کی نشو ونما اور تکمیل چاہتا ہے ۔جب فرد اپنی پیدائشی صلاحیت کو فروغ دے لیتا ہے تو وہ ایک بھر پور اورصحت مند شخصیت کا مالک بن جاتا ہے۔ روجرز کے مطابق چوں کہ ہر فرد بعض مخصوص حالات میں نشو ونما پاتا ہے اور مخصوص تجربات سے گزر تا ہے لہٰذا شعورِ ذات کا عمل انہی حالات اور تجربات کی بنیاد پر سر انجام پاتا ہے۔ایسی شخصیت کا مالک فرد اپنی ذات اور انفرادیت کو مکمل طور پر ختم کردیتاہے اور بے چون و چرا وہی کچھ کرنا شروع کردیتا ہےجواس کے گرد وپیش میں لوگ کرتے ہیں۔دراصل کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی کثیر تعداد تقلیدی ذہن لے کر پیدا ہوتی ہے ‘اس لیے جو کچھ ان کے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے وہی کرنے لگتی ہے۔ تسلیم شدہ امور کو اسی طرح ماننا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل اس کی ذات پر کیا اثرات مرتب کرے گا ‘ اس کا شعور اسے نہیں ہوتا۔ ماحول کا اثر اس کے فہم و فکر پر ایک دھند سی طاری کردیتا ہے‘جس طرح عینک کے شیشوں پر اگر نمی آجا ئےتو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
بعض اوقات ہم قدرتی حوادث کی وجہ سے اپنی کسی خواہش کی تسکین سے قاصر رہ جاتے ہیں اور یوں مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سیلاب ‘ زلزلہ‘ طوفان یا آسمانی بجلی کے گرنے سے انسانی زندگی میں خلل‘دکھ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔تاہم ہماری زیادہ تر مایوسی یا خیبت ایسی ہے جو انسانوں کے باہمی تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔اسے ہم انسانی یا معاشرتی وجوہات کی بنا پر پیدا شدہ مایوسی کہیں گے۔انسان کے انسان پر جبر سے پیدا شدہ خیبت بھی نوعِ انسانی کے مقدّر کا حصّہ ہے۔
ایک اہم مسئلہ انسان کے اس ماحول کا بھی ہے جس میں وہ زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔اس میں داخلی و خارجی دونوں عوامل شامل ہوتے ہیں۔داخلی عوامل میں گھر اور خاندان کی وہ تربیت ہے جو بچے کےاخلاق و کردار پر گہرا اثر ڈالتی ہے ۔عہدِ طفولیت میں ہوئی اچھی یا بری تربیت انسان کی عمر کے آخری حصے تک اس کی ذات سے چمٹی رہتی ہے۔عام طور سے بچے کی بری تربیت اس کے ساتھ بے جا لاڈپیار کا نتیجہ ہوتی ہے۔بچے کی جائز اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا یقیناً والدین کا فرض ہےلیکن خواہش اور ضرورت میں فرق ہوتا ہے۔ خواہشات کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔وہ تو نہ کسی کی پوری ہوئی ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں۔یہ ایک ایسا خیال ہے جو خام ہے!
اس دنیا میں انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے خارجی معاملات اور اس کےبھیانک نتائج نہایت تشویش ناک ہیں۔ یہی وہ گمبھیر مسائل ہیں جنہوں نے انسانی معاشرت سے اخلاق و اعلیٰ کردار کے جوہر خالص کا جنازہ نکال دیا ہے۔خاص طور پر آج کا مسلمان معاشرہ تو اس کے فریب زدہ گرداب میں پھنس کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔باہمی حقوق کی حق تلفی‘ آپس کی رنجشیں جو اکثر قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہیں‘ پُر تعیش زندگی کے لیے جعل سا زیاں اور مکاریاں ‘ نام نہاد غیرت کے نام پر لڑکوں اور لڑکیوں کا قتل‘عصمت دری‘ کمسن بچیوں اور بچوں کو درندگی کا نشانہ بنانا‘ جیتے جاگتے انسانوں کو معمولی باتوں پر جان سے مار دینا اور انہیں زندہ جلا دینا۔یہ ایسے انسانیت سوزمظاہر ہیں جو معاشرے کا امن و سکون غارت کر دینے کا باعث ہیں۔
اقوامِ عالم نے اپنے معیارِ زندگی خود مرتّب کر لیے ہیں اور رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ انسانی زندگی کے تمام گوشے واضح طور پر کتاب اللہ میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ان کو عملی صورت دینے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا‘تاکہ کوئی بندہ یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو علم ہی نہیں تھا کہ تیرے احکام کی تعمیل کیسے کریں!ارشادِ ربانی ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱)} (الاحزاب)
’’بے شک رسول اللہ (ﷺ)میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے‘ ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔‘‘
عہد حاضر میں سب سے زیادہ گہری ضرب انسان کے اخلاق‘ اُس کی عصمت و پاکیزگی اور صالح کردار پر لگائی گئی ہے۔اخلاق کی رفعت و عظمت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔اس عمل قبیح میں اپنے پرائے سب شریک ہیں اور قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ اس’’کارِخیر‘‘ میں میڈیا ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔اخلاق و کردار کی پاکیزگی کو ملیا میٹ کرنے کا سکرپٹ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے آتا ہے۔انسان کے اخلاق و کردار کے بگاڑ اور نسلوں کی تباہی و بربادی کی ایک بڑی وجہ شرم و حیا سے عاری میڈیا ہی ہے۔یہ انسان کے اندر چھپی شیطنت کو اُبھارنے اوراس کے نفس امارہ میں انتشار و ہیجان پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ پرنٹ اور خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا اس وقت عالمی استعماری قوتوں کا آلہ کار بن چکا ہے۔ ہمارا ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بھی اس یلغار کا شکار ہے۔ جس انداز سے میڈیا کے ذریعے عورت کی تذلیل کی جارہی ہے وہ ایک اسلامی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
کیبل اور انٹرنیٹ نے تو ہماری غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ٹی وی ڈراموں ‘ فلموں‘ ناچ گانوں کے واہیات پروگرامز اور ان کےدرمیان چلنے والے اشتہارات میں عورت کو نیم عریاں حالت میں دکھایا جاتا ہے ۔ایسی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے کہ جسے فیملی کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتے۔حد تو یہ ہے کہ مردانہ استعمال کی بھی کوئی شے(product) ایسی نہیں جس میں عورت جلوہ گر نہ ہو۔بلیڈ‘ شیونگ کریم اور لوشن جیسی پروڈکس میں بھی کوئی نہ کوئی خوب رُو عورت اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔اخلاقی گراوٹ میں لتھڑے اس سارے کھیل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔
صنف نازک کو بطورِ جنس پیش کرنا نوجوان نسل میں جنسی ہیجان ابھارنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔عورتوں اور خاص طور پر کمسن بچیوں پر جنسی زیادتی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ اسی ترغیب و تشویق کا منطقی نتیجہ ہے‘جو مادر پدر آزاد میڈیا کی طرف سے دی جارہی ہے۔
ابلاغ(communication) خواہ قلم و قرطاس کے ذریعہ سے ہو یا کیمرے اور سکرین کے توسط سے ‘اس کی حرمت اور تہذیب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا اربابِ بست و کشاد کی اہم ذمہ داری ہے۔اس سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔قوموں اورخاص طور پر نو نہالوں کے ذہنوں میں اخلاقی کج روی اور حیوانیت کے شجرِ خبیثہ کا بیج ڈال دینا کھلی شیطنت ہےجو فحاشی‘ عریانیت ‘اعلیٰ انسانی قدروں کی پامالی ‘ خباثت و نجاست کو فروغ دے کر ایک صالح معاشرے کو کچرے کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ ایسے معاشروں سے امن و سکون ختم ہوجاتاہے۔پھر نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ جان و مال۔
مغربی طاقتوں نے دیگر اقوام کو اپنا غلام بنانے کی حکمت ِعملی(strategy) تبدیل کر دی ہے۔ عصر حاضر میں اقوامِ اقوام‘ جن میں ترجیحاً اُمّت ِمسلمہ ہے ‘کو اپنا محکوم بنانے اور ان پر اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کو ہر زاویے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کر لی گئی ہے‘کیوں کہ ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے یہ انتہائی مؤثر اور دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔
طاغوتی طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ اسلامی معاشرے میں لادینیت کا جال بچھایا جائے۔ اس عمل میںان دانشوروں‘ مفکرین اور دینی اسکالرز کو بھی شامل کیا جائے جو اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرنے کے خواہاں ہیں۔وہ شرم و حیا سے عاری ایک روشن خیال نسل تیار کرنا چاہتے ہیں۔اسلام دشمن قوموں نے اپنے ایجنڈے کو عملی شکل دینے کےلیے ہمارے اندر ہی سے مہرے ڈھونڈ لیے ہیں۔ان مذموم ارادوں میں مسلمان ملکوں کی حکومتیں ان کی پشتی بان ہیں۔جس کسی کی آنکھوں میں اسلام اور اس کی اقدار کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں وہی ان کا چہیتا ہے۔بیشتر مسلمان حکمراں مغرب کے دیے ہوئے ٹکڑوں پر ہی تو پل رہے ہیں۔ان کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں مغرب ہی کی عطا ہیں۔
وہ کون سی طاقت ہے جو اخلاقی نظام بدلتی رہتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ اعمال جنہیں کسی ایک زمانہ یا جگہ میں اچھا سمجھا جاتا ہے ‘ کسی دوسرےعہد یا مقام پر بُرےتصوّر کیے جاتے ہیں؟ غالباً زندگی کی اقتصادی بنیادوں کی تبدیلی سے اخلاقی تصورات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔کبھی خاندان ایک اخلاقی اور اجتماعی مرکز تھا‘ اب اس کی یہ مرکزی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ صنعتی ترقی کے باعث خاندان اپنا سیاسی اور اقتصادی مقام کھو بیٹھا ہے۔خاندانی وفا اور محبت کے سر چشمے خشک ہو رہے ہیں۔
بے حیائی کے نظارے تو برسوں سے ہمارے وطن عزیز میں نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنے کو مل ہی رہے تھے ‘حکومت کی طرف سے ایک حیا باختہ قانون ’’ٹرانس جینڈرایکٹ ‘‘ بھی اسمبلی میں پاس کر لیا گیا۔ خنثیٰ کے حقوق کی آڑ میں جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں ایک اور سہولت مہیا کر دی گئی ہے۔مَرد سے مَر د کا اختلاط(Gay) اور عورت کا عورت سے اختلاط(Lesbian) کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔قوم کے درد مند افراد اور دینی جماعتیں ابھی بدنامِ زمانہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں کہ پاکستان میں LGBTQ+ کے غلیظ ایجنڈے کے نفاذ کے ضمن میں ایک اور قدم اٹھایا گیا ہے اور ہم جنس پرستی پر مبنی فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ کی نمائش کے لیے سینسر بورڈ نے اجازت دے دی ہے۔ یہ فلم دراصل قومِ لوط کے مجرمانہ فعل کی تشہیر کرتی اور ترغیب دیتی ہے۔
یہ وہ عملِ قبیح ہے جس پر عمل کرنے والی قوم پر اللہ کا قہر و غضب نازل ہوا تھا۔ ان کی بینائی سلب کر کے انہیں اندھا کر دیا گیا۔ پھر انہیں زمین سے اوپر اٹھا کر دوبارہ زمین پر پٹخا گیا‘ پھر ان پر آسمان سے پتھروں کی بارش کی گئی ‘ اور آخر کار وہ بد بخت اور غلیظ قوم دنیا سے ملیا میٹ کر دی گئی۔ان کے علاقے میں رواں دواں سمندر ان کی اس گھناؤنے گناہ کے سبب منجمد کر دیا گیا ‘ جو اب بحیرئہ مردار(Dead Sea) کہلاتا ہے۔یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ مسلمان حکمران کسی بڑے سے بڑے عذاب سے بھی کوئی سبق سیکھنا نہیں چاہتے۔ ان کی آنکھوں پر حرص و ہوس اور لالچ و مفاد پرستی کی ایسی پٹی بندھی ہوئی ہے جو انہیں کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن حکیم میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے:
{وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ۡ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا ۡ وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا ۭ اُولٰۗئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ۭ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (۱۷۹)} (الاعراف)
’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں‘ان کے پاس آنکھیں ہیں جن وہ دیکھتے نہیں‘ اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو چوپایوں کی مانند ہیں‘ بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اسی سورئہ مبارکہ میں ایک اور مقام پر فرمایاگیا:
{قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ} (آیت۳۳)
’’کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے‘ چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔‘‘
فواحش کی یہ کثرت اور مقبولیت شہوانی جذبات کے جس اشتعال کا نتیجہ ہیں وہ لٹریچر‘ تصاویر‘ سینما‘تھیٹر ‘ رقص اور بر ہنگی و بے حیائی کے عام مظاہروں سے رونما ہوتا ہے۔ خودغرض سرمایہ داروں کا ایک پورا لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے‘ اور اس ذریعے سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔ اخبارات اور رسالے انتہا درجہ کے فحش مضامین اور شرم ناک تصویریں شائع کرتے ہیں‘کیوں کہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ صنفی مسائل پر حد درجہ ناپاک لٹریچر پمفلٹوں اور کتابوں کی شکل میں بھی نکلتا رہتا ہے۔جہاں بد اخلاقی‘ نفس پرستی اور لذاتِ جسمانی کی بندگی اس حد کو پہنچ چکی ہو‘ایسی جگہ اُن تمام اسباب کا بروئے کار آجانا ایک طبعی امر ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی‘علمی ‘ سیاسی اور جدید ذرائع ابلاغ سے کما حقہ واقفیت کا فقدان اور اس سے بھی بڑھ کر دین سے دوری مسلمانوں کے اخلاقی زوال اور نکبت و ادبار کا اصل سبب ہے۔ اسلام ایک مکمل دستورِ حیات ہے ‘جس کی بے مثال تعلیمات میں انسان کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔اس کی تعلیمات میں مجرموں‘ بدکرداروں‘ ملک و قوم کے باغیوں ‘ اخلاق و انسانیت کے دشمنوں‘ معاشرے میں عزّت و عصمت اور پاکیزگی کی چادر تار تار کرنے والوں کی بیخ کنی کاپورانظام موجود ہے۔ایک نیک اور صالح معاشرے کے قیام کے لیے واضح ہدایات پیش کی گئی ہیں۔بات صرف اپنا قبلہ درست کر لینے کی ہے۔معاشرے کی صلاح و فلاح کے لیے اپنے اور اپنی نسلوں کے دشمنوں کو پہچان کر ان کے آلہ کار بننے سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوگی۔ ارشادِربّانی ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)} (النور)
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہوں میں فحاشی پھیلے‘ وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘
اصلاحِ حال کے لیے کوئی مثبت اور نتیجہ خیز قدم اٹھانا ہماری قومی‘ نسلی‘ اخلاقی سلامتی و بقا کے لیے از بس ضروری ہے۔اس جانب قدم بڑھاتے ہوئے یہ حقیقت مستحضر رہے کہ معاشرے میں پھیلتی کسی بھی برائی کو ختم کرنے اور معاشرے کو نفیس وستھرا کرنے کے لیے اجتماعی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔حالات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمیں پورا معاشرہ نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوگا ‘اور یہ کام اجتماعی سطح پر مضبوط اخلاقیات اور ضمیر کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔اگر ہر شخص صرف اپنے دروازے کی صفائی کو ہی مد نظر رکھے اور محلے میں پھینکے جانے والے کچرے کی فکر نہ کرے تو ایک دن پوری گلی اور محلہ غلاظت کا ڈھیر بن جائے گاجس کے تعفن اور مضر اثرات سے محلے کا کوئی فرد بھی نہیں بچ سکے گا۔غلاظت اور برائی اتنی تیزی سے پھیلتی ہے کہ اس پر قابو پانا دشوار ہوجاتا ہے۔سیلاب کا ریلا آنے سے پہلے بند نہ باندھا جائے تو پانی تباہی پھیلا دیتا ہے اور اپنی زد میں آنے والے کھیتوں ‘ کھلیانوں ‘ میدانوں کے ساتھ انسانوں کو بھی زندگی سے محروم کر دیتا ہے۔ زندگی کا حسن ہی یہ ہے کہ خود بھی مصائب و آلام‘ معائب و رذائل سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کی امکانی حد تک جدوجہد کریں۔یہی امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا فلسفہ ہے۔
مآخذ
(۱) شخصیت کی نشوو نما‘ عبد الحمید
(۲) پردہ ‘ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
(۳) شخصیت کے نفسیاتی تعقلات ‘ لارنس ایف شیفر/مترجم ہلال احمد زبیری