نظروں کی حفاظتاحمد علی محمودینظر کا فتنہ
دنیا میں آج تک رونما ہونے والے تمام فواحش و فجور کا اصل سبب نظر کا فتنہ ہے۔ اللہ ربّ العزت کان‘ آنکھ اور دل کے بارے میں بندے سے یقیناً سوال کریں گے۔ اس ضمن میں ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں:
{اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(۳۶)}(بنی اسرائیل)
’’بے شک یہ کان‘ آنکھیں اوردل ‘ان سب کے بارے میں روزِ قیامت سوال کیا جائےگا ۔‘‘
{حَتّٰٓی اِذَا مَا جَآءُوْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲۰)} (حٰم السجدہ)
’’یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور آنکھیں اور ان کی کھالیں(یعنی دوسرے اعضا) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گی۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
{یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ (۱۹)} (المؤمن)
’’وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو (باتیں ) سینوں میں پوشیدہ ہیں (ان کو بھی)۔‘‘
آیت بالا کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں : ’’یہ وہ آدمی ہے جو لوگوں کے درمیان میں ہو‘ اس کے پاس سے عورت گزرے ‘ تو وہ لوگوں کو یہ دکھاتا ہے کہ اس کی نگاہیں نیچی ہیں اور وہ عورت کو دیکھ نہیں رہا ہے۔جب وہ دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو پھر عورت پر نظریں ڈالنے لگتا ہے۔ اگر اسے خدشہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی حرکت بھانپ جائیں گے تو اپنی نظروں کو جھکا دیتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کے بھید سے بخوبی واقف ہے کہ وہ آدمی نہ صرف عورت کو دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کی خواہش تو اس کے مستور اعضاء بھی دیکھنے کی ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُه مِنَ الزِّنَا مُدْرِكُ ذٰلك لا مَحَالة: العَينانِ زِناهما النَظَرُ ، وَالأُذُنان زِناهما الاستِمَاعُ ، وَاللِّسان زِناهُ الكلامُ ، وَالْيَدُ زِناها البَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِناها الخُطَا ، وَالقَلْبُ يَھْوَى ويتمنّٰى، ويُصَدِّقُ ذٰلك الفَرْج أو يُكذِّبُه))(متفق عليه، وهذا لفظ مسلم)
’’ ابن آدم کے لیے زنا میں سے اُس کا حصّہ لکھ دیا گیا ہے‘ جسے وہ لامحالہ پالے گا۔ آنکھوں کا زنا (شہوت سے) دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا (شہوت کی بات) بولنا ہے۔ کانوں کا زنا (شہوت کی بات) سنناہے۔ہاتھوں کا زنا (شہوت سے) تھامنا ہے اور پیروں کا زنا (شہوت کی ناجائز تکمیل کے لیے) چلنا ہے۔ دل خواہش‘ تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ پھر شرم گاہ یا تو اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘
مذکورہ بالاحدیث ِ مبارکہ میں آپ ﷺ نے آنکھ کے زنا کا تذکرہ سب سے پہلے فرمایا‘ اس لیے کہ ہاتھ‘ پیر‘ دل اور شرم گاہ سب کی اصل محرک آنکھ ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں مَیں نے نبی کریمﷺ سے اچانک پڑجانے والی نظر کے بارے میں دریافت کیاتو آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی نظروں کو پھیر دیا کرو‘‘۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے: ’’آپ ﷺ نے مجھے نگاہوں کے پھیرنے کا حکم دیا۔‘‘ (صحیح مسلم) نگاہوں کو آزاد چھوڑنے کی تباہ کاری پر نبی کریمﷺ نے بایں طور متنبہ فرمایا: ’’نگاہ شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔‘‘ (معجم الکبیر‘ ح:۱۰۳۶۲) یعنی جیسے زہر میں بجھے تیر کا شکار بچ نہیں پاتا‘ اسی طرح نگاہ کا آوارہ استعمال کرنے والا گناہ میں پڑنے سے نہیں بچ سکتا۔
مشہور حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’اے علی! پہلی نظر جو دفعتاً کسی عورت پر پڑجائے وہ تو معاف ہے ‘اور اگر تم نے نظر کو جمائے رکھا یا دوبارہ نظر ڈالی تو اس کا وبال قیامت میں تم پر ہوگا۔ ‘‘
نبی ﷺ نے نگاہوں کو نیچی رکھنے کے عمل کو راستے کے حقوق میں شامل فرمایا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔‘‘ صحابہؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! راستے میں ہمارے بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تو بیٹھے بیٹھے گفت و شنید کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کو اس کا حق دو‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا : راستے کے کیا حقوق ہیں ؟آپ ﷺنے فرمایا: ’’نگاہوں کو جھکائے رکھنا‘ تکلیف دہ چیز کو ہٹانا‘ سلام کا جواب دینا‘ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔‘‘
شرم و حیا کا پیکر بننے کا طریقہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰)} (النور)
’’مسلمان مَردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اُن کے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘
سورۃ النور بطورِ خاص اِسلامی معاشرے میں پردہ‘ حجاب اور شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت‘ اس کی خلاف ورزی کی مختلف صورتوں اور ان کے سنگین نتائج اور سزاؤں کے بیان پرمشتمل ہے۔ موجودہ زمانے میں بےپردگی‘ بےحیائی ‘ترکِ حجاب‘ نمائشِ لباس و بدن اور ناجائز زیب و زینت سے بھرپور ماحول میں اِس سورئہ مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اِسی لیے حدیث مبارکہ میں حکم دیا گیا کہ’’اپنی عورتوں کو سورۃ النور سکھاؤ۔‘‘ (مستدرک حاکم‘ ح: ۳۵۴۶)
اس آیت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ’’اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘ یعنی بدکاری اور حرام سے بچیں۔ اس کا ایک طریقہ تو وہی ’’نگاہوں کو جھکانا‘‘ ہے اور مزید یہ ہے کہ اپنی شرم گاہ اور اُن سے متصل وہ تمام اعضاء جن کا چُھپانا ضروری ہے‘ انہیں چھپائیں اور پردے کا اہتمام رکھیں۔ ’’نگاہیں نیچی رکھنا‘‘ اور ’’شرم گاہ کی حفاظت کرنا‘‘ گناہوں سے بچنے کا وہ عمدہ و مفید ذریعہ ہے کہ خود ربّ العالمین اِس کی افادیت کے متعلق فرماتا ہے: {ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ط} ’’یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے‘‘۔ یعنی نگاہیں نیچی رکھنا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنا گناہ کی گندگی کے مقابلے میں بہت پاکیزہ طریقہ ہے۔
اِن سب باتوں کے علاوہ آیت کے اِختتام پر گناہوں سے بچنے کے سب سے بنیادی اور مؤثر طریقے کی طرف بھی اِشارہ فرما دیا کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ اُن کے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘ یعنی گناہوں سے بچنے میں یہ تصور بہت مفید ہے کہ ’’اللہ عزوجل مجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اگر یہ ہمارے دل و دماغ میں مُستَحضَر رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جملہ اَعمال‘ نگاہوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ خیالات سے باخبر ہے تو تنہا یہی ایک تصور سب گناہوں سے بچانے کے لیے کافی ہے۔
اِس بات سے کوئی مسلمان اِنکار نہیں کرسکتا کہ شرم وحیا اِسلامی معاشرے کی بنیادی اَقدار اور قرآن و سُنّت کے حکیمانہ اَحکام میں سے ہیں‘ اور اِس امر کو بھی کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ بدکاری اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے‘ خواہ رضامندی سے ہو یا جبری‘ پیسے کے بدلے میں ہو یا مفت۔ بے حیائی اور بدکاری انسان کے اخلاقی وجود کو رذالت میں ڈھال دیتی ہے۔ اُسے احسنِ تقویم (بہترین تخلیق) سے اسفل سافلین (سب سے نچلے درجے) میں جا گراتی ہے۔ دین اسلام کی خوب صورتی یہ ہے کہ جس چیز کو حرام قرار دیتا ہے‘ اُس سے بچنے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ۭ وَسَاۗءَ سَبِیْلًا(۳۲)} (بنی اسرائیل) ’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو‘ یقیناً یہ بہت بے حیائی کا کام ہے‘ اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔‘‘ یعنی ہر اُس معاملے سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھو جو تمہیں زنا تک لے جانے یا پہنچانے کا سبب بن سکتا ہو۔
اِسلام نے بدکاری اور بے حیائی کو حرام قرار دیا تو اِس سے بچانے والے اسباب کے متعلق بھی ہدایات عطا فرمائیں۔ پردے کی تاکید‘ اجنبی مرد و عورت کا کسی بند جگہ تنہا نہ ہونا‘ اجنبی مرد و عورت کا بلاضرورت آپس میں کلام یا ملاقات نہ کرنا‘ عورتوں کا غیرمَردوں کے سامنے بھڑکیلے اور بے پردگی کے لباس نہ پہننا‘ بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلنا‘جیسے اَحکام عطا فرمائے گئے۔ اِس طرح کے اَحکام کو اصولِ فقہ کی زبان میں ’’سد ّذرائع‘‘ (برائی کے اسباب ہی کو روک دینا) کہا جاتا ہے۔ اسی میں سے شرم و حیا کے متعلق ایک بنیادی حکم‘ ’’نگاہوں کو جھکا کر رکھنا‘‘ہے‘ جو سورۃ النور کی متذکرہ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ اِس آیت میں مسلمان مَردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اُس پر نظر نہ ڈالیں۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں :’’ جب تمہارے پاس سے کوئی (غیر محرم )عورت گزرے تو تم اپنی نگاہوں کو نیچے کر لو‘ یہاں تک کہ عورت تمہارے پاس سے گزر جائے‘‘۔ ربیع بن خیثمؒ ایک مرتبہ راستے سے گزر رہے تھے تو ان کے پاس سے چند عورتیں گزریں۔ آپ نے اپنی نگاہوں کو جھکا دیا۔ عورتوں نے جب انہیں دیکھا تو سمجھنے لگیں کہ وہ نابینا ہے‘ تو انھوں نے نابینا آدمی کو دیکھ کر اندھے پن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی۔
حکیم الامّت امام محمد غزالی ؒ نے ’’نگاہوں کی حفاظت‘‘پر’’سد ِ ذرائع‘‘ کی روشنی میں بڑا حکیمانہ کلام فرمایاہے:
’’نظر نیچی رکھنا دل کو پاکیزہ بناتا ہے اور نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نظر نیچی نہ رکھو بلکہ اسے آزادی سے ہر چیز پر ڈالو‘ تو بسا اوقات تم بے فائدہ اور فضول بھی اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردو گے اور رفتہ رفتہ تمہاری نظر حرام پر بھی پڑنا شروع ہو جائے گی۔ اب اگر جان بوجھ کر حرام پر (مثلاً نامحرم عورت یا خوبصورت مرد پر بُری خواہش سے) نظر ڈالو گے‘ تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور عین ممکن ہے کہ تمہارا دل حرام چیز پر فریفتہ ہوجائے اور تم تباہی (گناہ) کا شکار ہوجاؤ۔ اور اگر اس طرف دیکھنا حرام نہ ہو بلکہ جائز ہو (جیسے لوگوں کے مہنگے لباس‘ موبائل‘ کار‘ مکانات کو دیکھنا) تو ہوسکتا ہے کہ تمہارا دل (اُن میں) مشغول ہوجائے اور اِس کی وجہ سے تمہارے دل میں طرح طرح کے وساوس آنا شروع ہوجائیں (کہ یا تو لوگوں پر وساوس آئیں کہ حرام کمائی سے سب بنایا ہوگا اور یا پھر خود اُن کے حصول کی طلب میں خیالی پلاؤ پکاتے اور تڑپتے رہوگے) اور ان وساوس کا شکار ہو کر نیکیوں سے رہ جاؤ۔ لیکن اگر تم نے اس (حرام اور مباح) کی طرف دیکھا ہی نہیں تو ہر فتنے اور وسوسے سے محفوظ رہو گے اور اپنے اندر راحت و نشاط محسوس کرو گے۔‘‘( منہاج العابدین‘ص۶۲)
بد نظری سے بچنے کے فضائل و انعامات
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریمﷺ کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :
((كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَّا عَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ وَعَيْنٌ سَھرَتْ فِيْ سَبِيلِ اللّٰہِ وَعَيْنٌ خَرَجَ مِنْھَا مِثْلُ رَاسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰہِ)) (الترغیب و الترھیب:۲۹۲۵)
’’ہر آنکھ قیامت کے دن رورہی ہوگی سوائے(تین آنکھوں کے‘ایک)وہ آنکھ جواللہ کی حرام کردہ چیزوں (کو دیکھنے سے) جھکی ہوگی ‘اور (دوسری) وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں (پہرہ دیتے ہوئے) جاگی ہوگی‘ اور (تیسری) وہ آنکھ جس سے مکھی کے سر کے برابر بھی (آنسو) اللہ کے خوف سے نکلا ہوگا۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے‘ نبی کریمﷺ نے اِرشاد فرمایا:
((ثَلَاثَةٌ لَا تَرَى اَعْيُنُھُمُ النَّارَ:عَيْنٌ حَرَسَتْ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ‘ وَعَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰہِ‘ وَعَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ))(طبرانی کبیر: ۱۹ / ۴۱۶)
’’تین افراد ایسے ہیں(جوجہنم میں جانا تو درکنار)اُن کی آنکھیں جہنم کی آگ کو دیکھیں گی بھی نہیں : ایک وہ آنکھ جس نے اللہ کے راستے میں جاگ کر پہرہ دیا ہوگا‘ دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے روئی ہوگی اور تیسری وہ آنکھ جواللہ کی حرام کردہ چیزوں(کو دیکھنے )سےجھکی ہوگی۔‘‘
حضرت عبادہ بن صامت ؓ نبی کریمﷺ کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :
((اِضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ اَنْفُسِكُمْ اَضْمَنُ لَكُمُ الْجَنَّةَ: اصْدُقُوا اِذَا حَدَّثْتُمْ‘ وَاَوْفُوا اِذَا وَعَدْتُمْ‘ وَاَدُّوا اِذَا اؤْتُمِنْتُمْ‘ وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ‘ وَغُضُّوا اَبْصَارَكُمْ‘ وَكُفُّوا اَيْدِيَكُمْ)) (مستدرکِ حاکم:۸۰۶۶)
’’تم لوگ مجھے چھ باتوں کی ضمانت دو‘ مَیں تمہیں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں:جب بات کرو تو سچ بولو‘جب وعدہ کرو تو اُسے پورا کرو‘جب تمہارے پاس امانت رکھوائی جائے تواُسے(بحسن و خوبی)ادا کرو‘اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو‘اپنی نگاہوں کو(حرام چیزوں کو دیکھنے سے)جھکاؤ اوراپنے ہاتھوں کو (حرام سے)روکے رکھو۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے بدنگاہی سے بچنے اور نگاہ جھکا لینے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَنْظُرُ إِلٰی مَحَاسِنِ امْرَأَةٍ اَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ یَغُضُّ بَصَرَہٗ إِلَّا اَحْدَثَ اللّٰہُ لَہٗ عِبَادَةً یَجِدُ حَلَاوَتَھَا)) (مسند احمد‘ مشکوٰة: ۲۷۰) ’’کوئی مسلمان اگر کسی عورت کے محاسن پر اوّل مرتبہ نظر پڑتے ہی اپنی نظر نیچی کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک ایسی عبادت کی توفیق عطا فرماتے ہیں جس کی حلاوت اسے دل میں محسوس ہوتی ہے۔‘‘
غض ِبصرکے دس فائدے
(۱) یہ اللہ کا حکم ہے اور جوانسان بھی فلاح پاتا ہے وہ اللہ کا حکم مان کر ہی پاتا ہے۔ جو ناکام ہوتا ہے‘وہ حکم الٰہی نہ ماننے کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے۔
(۲) نامحرم پرکی جانے والی نظر جو زہر آلود تیر دل تک پہنچا کراسے ہلاک کرتی ہے‘آنکھ کی حفاظت سے وہ تیر دل تک نہیں پہنچے گا۔
(۳) نظرکی حفاظت سے دل میں پوری توجّہ سے اللہ کی محبّت پیدا ہوتی ہے ۔ جن لوگوں کی نگاہ آزاد اور آوارہ رہتی ہے‘ ان کا دل منتشر رہتاہے۔آزاد نگاہی ‘بندے اور اللہ کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔
(۴) آنکھ کی حفاظت سے دل مضبوط اور پُر سکون رہتاہے جبکہ آزاد نگاہی یعنی ہر غلط چیز یا نامحرم کو دیکھ لینے سے دل مغموم رہتا ہے۔
(۵) نگاہ’’پست‘‘رکھنے سے دل میں’’نور‘‘پیدا ہوتا ہے۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ سورۃ النور میں غضِ بصرکی آیت کے بعد ہی آیت نور وارد ہوئی ہے‘کیونکہ دل میںنور نظروںکی حفاظت ہی سے داخل ہوتا ہے ۔جب دل نورانی ہوجائے تو ہر طرف سے خیر اور بر کت اُس انسان کی طرف دوڑتی ہےاور جن کے دل میںتاریکی ہواُن کو شر اور تکالیف کے بادل گھیرے رہتے ہیں۔
(۶) اللہ کا اصول ہے کہ اس کے لیے جوکچھ چھوڑا جائے ‘وہ اس سے بہتر عطا کرے گا۔وہ بصیرت دے گا‘فہم و فراست کی نگاہ عطاکرے گا۔
(۷) آزاد نگاہی سے انسان ذلیل ہوتا ہے۔ خود کو اپنے نفس کے قدموں میں ڈال کرآپ اپنی ذات بے توقیر کردیتا ہے ۔ جو شخص نگاہ کی حفاظت کرتا ہے ‘اللہ تعالیٰ اسے لوگوں میں بھی عزت دیتا ہے اور فرشتوں میں بھی‘دنیا میں بھی عزت دیتا ہے اورآخرت میں بھی۔
(۸) نگاہ کے ذریعہ شیطان نہایت تیزی سے دل میں جاپہنچتا ہے۔وہ اُمیدیں دلاتا ہے‘ توجیہات پیش کرتاہے ۔ پھر انسان گناہ کی آگ میںایسے جلتا ہے جیسے کسی بکری کو تنور کی آگ میںڈال کر بھو نا جائے۔اسی لیے شہوت پرستوںکو قیامت کے دن آگ کے تنوروں میں ڈالا جائےگا۔
(۹) غضِ بصرسے دل کو قرآن پر غورو فکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جن کی نگاہیں آوارہ ہوں‘ ان کے دل اتنے اُلجھے ہوئے ہوتے ہیںکہ قرآن پر غوروفکر کرنے کی سعادت ان کامقدر نہیںہوسکتی۔
(۱۰) انسان کے دل اور آنکھ کے درمیان ایک رابطہ (link)ہے۔جس کام میں آنکھ مشغول ہو‘ اسی کام میں دل مشغول ہوتا ہے۔ ایک کی اصلاح سے دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے اور ایک کے فساد سے دوسرے کا فساد ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی نگاہ کو صاف رکھنا چاہیے۔
حفاظت ِنظر کا ایک عجیب فائدہ
حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒنے اپنے ملفوظات میں نظر کی حفاظت کا ایک عجیب فائدہ بیان فرمایا جوواقعی لاجواب ہے:
’’ میرے دوست نے بتایا کہ ایک فرانسیسی جوڑا ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔انہوں نے تقریر کی کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے نظر کی حفاظت کا حکم دیا ہے ‘اس کے فائدے یہ ہیں کہ شوہر کے دل میں بیوی کی محبّت بس جاتی ہے۔ جب غیروں کو نہیں دیکھتا تو اس کی نظر کا تمام مرکز اس کی بیوی ہوتی ہے۔اس لیے بیوی سے محبّت بڑھ جاتی ہے‘تو بیوی بھی خوش رہتی ہے اور شوہر بھی خوش رہتاہے۔اس کے برعکس یورپ میں ترقی ٔ معکوس ہے یعنی الٹی ترقی۔ اللہ کے غضب اور قہر والی ترقی ہے۔ ان کی ہر بیوی ہروقت خائف رہتی ہے۔ شوہر نے اگر کسی عورت سے مسکرا کر بات کرلی تو عورت جل کے خاک ہوجاتی ہے‘دل تڑپ جاتا ہے کہ ہائےمعلوم ہوتا ہے کہ ظالم اس عورت سے پھنسا ہوا ہے‘ اور اگر عورت نے کسی مرد سے ہنس کر بات کرلی اور ہاتھ ملا لیا تو شوہر صاحب کی نیند حرام ہوجاتی ہے‘ سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ غرض سارا یورپ آج عذاب میں مبتلا ہے۔
اس کے بعد اس دوست نے کہا کہ زیادہ نہیں صرف تین دن تم کسی نامحرم کو نہ دیکھو‘اپنی بیوی کو دیکھو اور عورت صرف اپنے شوہر کو دیکھے۔ صرف تین دن قرآن کی آیت: {یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ} (النور:۳۰) پر عمل کرلو کہ اے ایمان والو!اپنی نگاہوں کو نیچی کرلو۔ نامحرم عورتوں کو‘ کسی کی ماں بہن بیٹی کو مت دیکھو۔ کسی کی بیوی کو مت دیکھو۔ اس کے بعد تم محسوس کرو گے کہ تمہیں اپنی بیوی کو دیکھنے میں اور تمہاری بیوی کو تمہیں دیکھنے میں کتنا مزا آتا ہے‘ کیونکہ شبہات ختم ہوجائیں گے۔یوں زندگی خوش گوار ہوجائے گی۔ اس فرانسیسی عورت نے داڑھی والے دوست کا شکریہ ادا کیا کہ ہم بات بالکل سمجھ گئے کہ واقعی بدنظری کی وجہ سے سارا یورپ عذاب میں مبتلا ہے۔‘‘
بُری عادات ترک کرنے کا طریقہ
گناہ چھوڑنے کے لیے عزم و ہمت ضروری ہے۔ اس لیے انسان اولاً تو سابقہ گناہوں پر سچے دل سے ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرے‘آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ‘ توبہ پر استقامت مانگے‘ اور گناہ سے بچنے کے اسباب اختیار کرے۔ مثلاً اگر تنہائی کے گناہ ہیں تو اپنےآپ کو تنہائی سے بچائے ‘بُری صحبت سے بچے‘ نیک صحبت اختیار کرے ‘ (ہوسکے تو کسی متبعِ شریعت عالم سے اصلاحی تعلق قائم کرلے) کثرت سے روزے رکھے ‘گناہ ہوجانے کی صورت میں اپنے نفس کوایسے اعمالِ صالحہ اختیار کرکے سزا دے جو اس پر بھاری گزریں۔ مثلاً دس بیس رکعات نوافل پڑھے‘ایک دو وقت کا فاقہ کرے ‘کچھ زیادہ رقم صدقہ کرے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا بھی کرتا رہے تو امید ہے کہ گناہوں سے بچ جائے گا۔
بے حیائی سے بچنے کی دعا
بے حیائی ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ پستی وزوال سے دوچار ہوجاتاہے۔ اس کی انتہا زنا ہے جوقبیح ترین گناہ ہے‘بے حیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے رہیں اور ہمیشہ تصورِ آخرت ذہن ودل میں جمائے رکھیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ صحابۂ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت اور سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ اس آیت کریمہ کو بطور وِرد پڑھتے رہیں: {وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ج} (الانعام:۱۵۱) ’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب مت جاؤ خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔‘‘ اس قرآنی دعا کو بھی اپنا معمول بنائیں:
{رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ(۹۷) وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ(۹۸)}(المؤمنون)
’’اے میرے رب! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں شیاطین کی چھوت سے۔ اور اے میرے رب! مَیں تیری پناہ طلب کرتا ہوں اس سے کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘
بدنظری کا علاج
شیخ خالد الجبیرکہتے ہیں کہ میرا ایک جاننے والا سمجھدار انسان تھا ‘ لیکن وہ عورتوں کو بڑی عجیب اور بری نظروں سے دیکھتا تھا۔ مَیں نے اس سے کہا کہ میرے پاس اللہ کے حکم سے اس بیماری کا سو فیصد مکمل علاج ہے۔ کہنے لگا : کیا واقعی میں اس گناہ سے نجات پاسکوں گا؟مَیں نے کہا: جی ہاں! سنو ! تم اس بات کا ارادہ کر لو کہ جتنی دفعہ بھی بدنظری کا شکار ہو گے ‘اتنی دفعہ وضو کرکے دو رکعات نماز پڑھو گے۔ کہنے لگا: یہ تو بہت زیادہ ہے۔ہر دفعہ دو رکعات ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مَیں نے کہا: جنّت چاہیے یا جہنم ؟ کہنے لگا : اللہ کی قسم! مجھے تو جنّت چاہیے۔ مَیں نے کہا: بس پھر صرف ہر بدنظری پر دو رکعات ادا کرنے کا ارادہ کرو ‘ اللہ کی قسم شیطان خود تمہاری نظروں کو نیچے رکھے گا‘ کیونکہ اُس کے نزدیک اللہ کو سجدہ کرنا بدنظری سے کہیں زیادہ بھاری ہے۔ صرف دو رکعات ادا کرنے سے اللہ تمہاری مدد فرمائے گا۔کہنے لگا :اچھا ٹھیک ہے۔
پھرمَیں نے ایک ماہ بعد اس سے بات کی اورپوچھا: اب بتائو! کیسا رہا علاج؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا: اللہ کی قسم ڈاکٹر صاحب ! پہلے ہفتےدس دفعہ دو رکعات ادا کیں ‘ دوسرے ہفتے ۵ دفعہ‘ تیسرے ہفتے ۲ دفعہ اور چوتھے ہفتے ایک دفعہ ۔ واللہ یا شیخ! اب تو ایسا ہو گیا ہے کہ مَیں کسی غیرعورت کی طرف بری نظر سے دیکھوں تو لگتا ہے جیسے کوئی مجھے بدنظری سے منع کر رہا ہے۔
بدنظری کی قباحت اور اس کے نقصانات
بد نظری ایسا چور دروازہ ہے کہ عام طور پر برائی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے اوراسی بداحتیاطی کی وجہ سے زندگی بھر کی نیک نامیوں پر بٹہ لگ جاتا ہے۔ اس بدترین گناہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اسلامی شریعت نے اوّلاً بد نظر ی کے ہر دروازے کو بند کرنے پر نہایت زور دیا ہے۔ بد نظری ہی فواحش کا دروازہ ہے اور برائیوں پربنداسی وقت ممکن ہے جبکہ بد نظری پر روک لگائی جائے۔جب تک نظر محفوظ نہ ہو‘ شرم گا ہ کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لی جاسکتی۔حضرت ابو امامہ ؓ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں ‘آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَتَغُضُّنَّ أَبْصَارَکُمْ وَلَتَحْفَظُنَّ فُرُوْجَکُمْ أَوْلَیَکْسِفَنَّ اللّٰہُ وُجُوھَکُمْ))(رواہ الطبرانی)
’’تم لوگ ضرور اپنی نگاہوں کو نیچی رکھا کرو اور اپنی شرم گاہوں کی ضرور حفاظت کیا کرو ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور تمہارے چہروں کو بے رونق کر دے گا۔‘‘
مذکورہ روایت میں بد نظر ی اور شرم گا ہ کی حفاظت کے حکم کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر نگاہ کی حفاظت نہ کی گئی اور شرم گا ہ کو حرام کاری سے نہ بچایا گیا تو اللہ تعالیٰ چہروں کی رونق کو ختم کر دے گا۔ یعنی اس برے عمل پر آخرت میں جو سزا مرتب ہو گی وہ تو الگ ہے ‘ دنیا میں اس کا برا اثر یوں ظاہر ہو گا کہ ایسے شخص کے چہرے سے رونق جاتی رہے گی اوراس کے چہرے پر نحوست ٹپکنے لگے گی۔
ایک روایت میں نبی ا کرم ﷺ نے بد نظری کرنے والے اور جو بد نظری کی دعوت دے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔حضرت حسن بصریؒ سے مرسل روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَعَنَ اللّٰہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ)) (مشکوٰۃ المصابیح: ۲۷)
’’بد نظری کرنے والے اورجس کی طرف بد نظری کی جائے‘ دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘
منظور الیہ یعنی جس کی طرف دیکھا جا رہا ہے ‘وہ اس وجہ سے لعنت کامستحق ہے کہ وہ اپنی چال ڈھال ‘ناز و ادا اور لباس کی آرائش و زینت سے دوسرے کو دعوت ِنظارہ دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں اس کو بھی لعنت کا مستحق قرار دیا گیا۔
موجودہ زمانہ میں بد نظری کی وبا آخر ی حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایک عظیم سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ہر جگہ فحش مناظر عام ہو گئے ہیں۔ بازار‘ شاپنگ مالز‘ دکانیں ‘ سڑکیں ‘چوراہے ‘ مکانات کی دیواریں حتیٰ کہ روز مرہ کے استعمال کی چیزیں بھی فحش تصادیرسے آراستہ ہوگئی ہیں۔ اخبارات ورسائل اورسوشل میڈیا بھی اس کی زدسے بچ نہیں سکے ہیں ‘ جس کی وجہ سے آج کل ایک شریف اور دین دار آدمی کا اخبارات پڑھنا‘ ٹیلی ویژن دیکھنا‘ موبائل استعمال کرنا‘ راستوں میں چلنا‘ بازاروں میں جانا‘ بہت دشوار ہو گیا ہے ۔اس پرستم یہ کہ اس وبا اور سیلاب پر بند لگانے کی فکر کی بجائے ہر کوئی اپنی دنیا چمکانے کی غرض سے فحش تصاویر اور عریاں پوسٹرآویزاں کر کے اس برائی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ فواحش کی کثرت کا برا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کل نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے افراد بد نظری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو بعد میں بڑے گنا ہوں کا سبب بنتی ہے۔ پھر اس گناہ کو ہلکا سمجھنا اوراس پر جمے رہنا اور بھی زیادہ مضر ہے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اپنے وعظ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’بد نگاہی ایسا گناہ ہے کہ بہت سے لوگ ا س کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ ایساہی سمجھتے ہیں جیسے کسی اچھے مکان کو دیکھ لیا۔ اس گناہ کے بعد دل پر رنج کا اثر بھی نہیں ہوتا اور یہ ایسا گناہ ہے کہ اس سے جوان تو جوان بوڑھے بھی بچے ہوئے نہیں ہیں۔بدکاری کے لیے تو بہت سی تدابیر کرنی پڑتی ہیں ‘پیسہ بھی پاس ہودوسرا بھی راضی ہو وغیرہ ‘ مگراس گناہ (بد نظری) کو کرنے میں کسی سامان کی ضرورت نہیں ‘اور نہ اس میں کچھ بدنامی ہے چونکہ اس کی خبر تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ کیسی نیت ہے! کسی کو گھور لیا تو پھر بھی صوفی صاحب صوفی ہی رہے ‘ حاجی صاحب حاجی ہی رہے‘ پیر صاحب پیر ہی رہے ‘ مولوی صاحب مولوی ہی رہے ‘ قاری صاحب قاری ہی رہے۔اس گھورنے سے صوفی صاحب کے صوفی ہونے میں کوئی فرق نہ آیا ‘ حاجی صاحب کے حاجی ہونے میں فرق نہ آیا‘ پیر صاحب کے پیر ہونے میں فرق نہ آیا‘ مولوی صاحب کے مولوی ہونے میں فرق نہ آیا ‘ نہ قاری صاحب کے قاری ہونے میں کوئی فرق آیا۔اس گناہ کی کسی دوسرے کو خبر ہی نہیں ہوتی۔پھر بدنگاہی میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے جوکسی اور گناہ میں نہیں کہ اور گناہ توایسے ہیں کہ جب ان کو خوب دل بھر کے کر چکے تو پھر دل ان سے ہٹ جاتا ہے ‘مگر بد نگاہی ایسی بری چیز ہے کہ جتنی بد نگاہی کرتا ہے اتنی ہی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔‘‘
بد نظری کے نقصان کا اندازہ حضرت شاہ عبدالغنی ؒ کے اس قول سے ہوتا ہے:
’’ہرے بھرے درخت کے پاس آگ جلا دو تو اس کے تر و تازہ پتے مرجھا جاتے ہیں اور دوبارہ بہت مشکل سے ہرے ہوتے ہیں۔ سال بھر کھاد پانی دو‘ تب کہیں جا کر ہرے ہوتے ہیں۔اسی طرح ذکر‘ عبادت اور صحبت اہل اللہ سے جو انوارات قلب میں پیدا ہوتے ہیں اگر ایک بار بد نظری کر لی تو باطن کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ دوبارہ ایمانی حلاوت اور ذکر کے انوارات بحال ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ بد نگاہی کی ظلمت بہت مشکل سے دور ہوتی ہے۔ بہت توبہ ‘ استغفار‘گریہ و زاری اور بار بار حفاظت نظر کے اہتمام سے کہیں قلب کو دو بارہ ایمان کی حیات ملتی ہے۔ ‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا گیا: نگاہوں کی حفاظت کا کیا علاج ہے؟ فرمایا:’’ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نظر تمہاری نظر سےبہت تیز ہے۔‘‘
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی تصنیف ’’بدنظری کا علاج‘‘ اس سلسلہ کی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا ۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی یہ بات تو ذہن اور دل پر اچھی طرح نقش کرلینی چاہیےکہ امورِ اختیار یہ کا علاج بجز ارادہ اور ہمت کے کچھ نہیں۔ پس تقاضا کے وقت ہمت کرکے نفس کو روکنا ہی اس کا بہترین علاج ہے۔ پھر دھیرے دھیرے تقاضا کی قوت کمزور ہوجائے گی اور ان شاء اللہ اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔
بد نگاہی کے جسم پر اثرات
نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں‘ وہیں جمتی ہیں۔پھر اُن کا اچھا اور برا اثر اعصاب و دماغ اور ہارمونز پر پڑتا ہے۔ کسی پر شہوت کی نگاہ ڈالنےسے ہارمونز کے نظام میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسی نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کےاخراج کا باعثبنتا ہےجس سے آدمی بے شمار امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟صرف دیکھا ہی تو ہے ۔یہ کون سا غلط کام کیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اچانک اگر شیریا سانپ سامنے آجائے تو انہیں صرف دیکھنے سے انسانی جان پر کیا بنتی ہے؟سبزہ اور پھول دیکھے جاتے ہیں تو دل مسرور اور مطمئن کیوں ہوتا ہے؟ کسی زخمی اور لہولہان کو صرف دیکھتے ہی تو ہیں لیکن پھر پریشان‘ غمگین اور بعض بے ہوش تک ہوجاتے ہیں!آخر کیوں؟ طبی تحقیق سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نگاہوں کی حفاظت نہ کرنے سے انسان ڈپریشن‘بے چینی اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے‘ جس کا علاج ناممکن ہے‘ کیونکہ نگاہیں انسان کے خیالات اور جذبات کو منتشر کرتی ہیں ۔ایسی خطرناک حالت سے بچنے کے لیے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
بعض لوگوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ صرف تین دن نگاہوں کو شہوانی محرکات‘ خوبصورت چہروں اور عمارتوں میں لگائیں تو جسم میں درد‘ بے چینی‘ تکان‘ دماغ بوجھل بوجھل اور جسم کے عضلات کھینچے جاتے ہیں ۔اگر اس کیفیت کو دور کرنے کے لیے سکون آور ادویات استعمال کی جائیں تو ان کا اثر کچھ وقت کے لیے تو ہوتا ہے‘ پھر وہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کا علاج نگاہوں کی حفاظت ہی ہے۔ مَردوں اور عورتوں کو عفت اور پاک دامنی حاصل کرنے کے لیے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھنا چاہیے۔ آج بے شرمی اور بے حیائی اس قدر عام ہو گئی ہے کہ نظروں کو محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔اس سے بچنے کے لیے ظاہری و عملی شکل تو یہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی کہ چلتے پھرتے اپنی نگاہوں کو پست (جھکا کر) رکھیں اور دل کے اندر اللہ کا خوف ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔جس قدر اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہوگا ‘ اتنا ہی حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوگا۔
بدنظری کے طبّی نقصانات
بدنظری سے کئی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ بدنظری چاہے ایک سیکنڈ کی ہو ‘دل کو ضعف ہوجاتا ہے۔ فوراً کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔ انسان کبھی اِدھر دیکھتا ہے توکبھی اُدھر دیکھ رہا ہےکہ کوئی موجودتو نہیں۔ اس کشمکش سے قلب میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔ گندے خیالات سے مثانے کے غدود متورم ہوجاتے ہیں‘جس سے بار بار پیشاب آنے لگتا ہے۔پیشاب سے پہلے یا بعد میں رطوبتوں کے اخراج کامعاملہ ہو جاتا ہے اور انسان کوگویا ’’جسمانی دیمک‘‘ کی بیماریاں لگ جاتی ہیں‘ جن کی تعداد مرد اور عورت دونوں میں ہی آج کل بہت زیادہ ہے ۔ان سب معاملات سے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں‘ جس سے دماغ کمزور اور نسیان پیدا ہوجاتا ہے۔ ہرعصیان (برائی) کا سبب نسیان ہے ۔اللہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی سے قوتِ دماغ اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے۔ بھول کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے انسان کا علم بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ پھر گردے کمزور ہوتے ہیں اور بدنگاہی کی بد عادت میں سارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں۔ جب کہیں زلزلہ آتا ہے تو عمارت کمزور ہوجاتی ہے ۔گناہ بھی نفس و شیطان کی طرف سے ایک زلزلہ ہی ہوتا ہے۔ اگراچانک نظر پڑی اور فوراً ہٹالی تو بھی دل میں جھٹکا سالگتا ہےمگر گناہ کرنے کی سوچ اور بری نظر سے بار بار یا مسلسل دیکھتے رہنے پر زلزلےکی صورت لعنت برستی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سےذہنی اور دلی بے سکونی کی صورت میں عذاب کے جھٹکے لگتے ہیں!!!
علّامہ اقبال فرماتے ہیں: ؎
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تُو بےباک نہیں ہے!اللہ تعالیٰ ہمیں قلب ِمنیب اور فہم ِسلیم عطا فرما کر عمل کی توفیق عطافرمائے ۔آمین یا ربّ العالمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025