اللہ تعالیٰ کی توحید سے گریز کیوں؟پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
توحید باری تعالیٰ انسانی فطرت کا جزو لاینفک ہے لیکن اکثریت اس کا ادراک نہیں رکھتی۔ انسان کا ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ لوگ فوت ہوتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ ہر چیز کو فنا ہے۔ کائنات کی ہر چیز نیست ہو جاتی ہے۔ کسی کی عمر تھوڑی ہوتی ہے کسی کی زیادہ ‘مگر فنا ہر کسی کو ہے۔ چاند سورج بھی اجرام ہیں۔ عقل سلیم کو تسلیم ہے کہ یہ بھی ایک دن فنا ہو جائیں گے ۔ کچھ بےعقلوں نے ان کی لمبی عمر سے دھوکا کھا کر انہیں ربّ مان لیا ہے‘ حالانکہ جس طرح کائنات کی ہر چیز فانی ہے سورج چاند بھی ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ وہ اپنی عمر پوری کر رہے ہیں۔ وہ کسی طرح کا اختیار نہیں رکھتے ۔ اگر کوئی شخص ان سے کوئی حاجت چاہے تو وہ پوری نہیں کرسکتے۔ محض کسی مالک کا حکم مان رہے ہیں‘ ان کو اختیار نہیں کہ طلوع و غروب کے مقرر کردہ اوقات سے لمحہ بھر کی کمی بیشی کر سکیں۔
اگر ان حقائق پر غور کریں تو بادنیٰ تامل یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ساری کائنات کا کوئی ایک مالک ہے جو اس قدر بااختیار ہے کہ ہر شے اُس کے حکم کی پابند ہے ۔ اس پابندی سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔ جانداروں کو فنا ہوتا ہم دیکھتے ہیں۔ اسی طرح نباتات اور درخت اپنی عمر پوری کر کے سوکھ جاتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی شکست و ریخت ہوتی رہتی ہے ‘زمین کے تغیر وتبدل عیاں ہیں۔ آسمان جوں کا توں کھڑا ہے ‘اگر بااختیار ہوتا تو اس میں تبدیلی ہوتی نظر آتی۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی شے ایک دن تباہ ہوجائے گی۔ صرف وہ ہستی باقی رہ جائے گی جس کو بقا ہے۔ وہ ہستی جس نے کائنات کو بنایا اور چلایا ہے وہ ایک ہی ہے ۔وہی خدا ہے۔ وہ اکیلا ہے ‘اُس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایک سے زیادہ مالک تسلیم کرنا تو بدیہی طور پر ناممکن ہے ۔اگر دو یا زیادہ بااختیار مالک ہوں تو یہ کائنات ایک گھڑی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ اس حقیقت پر معمولی ساغور کرنا بھی توحید کی سچائی کو ثابت کرتا ہے۔
دنیا کے لوگ مختلف مذاہب کو ماننے والے ہیں۔ انسانوں کی کثیر تعداد عقل کے استعمال کو شجر ممنوعہ سمجھتی ہے‘ حالانکہ اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ۔ عام طو رپر انسان اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے عقائدکو بلاسوچے سمجھے مان لیتا ہے‘ خواہ عقل انسانی معمولی غور سے اس کا انکار کرتی ہو۔ یہاں تک کہ بعض سائنسی حقائق جو انسان کے تجربے میں آ چکے ہیں ان کو بھی نہیں مانا جاتا۔ مثلاً اب تک کچھ لوگ زمین کا گول ہونا تسلیم نہیں کرتے‘ کیونکہ ان کے اسلاف زمین کو مُسَطَّح (چپٹی) کہہ چکےہیں ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح ہاتھ سے بنائے ہوئے بت بھی بااختیار مانے جاتے ہیں۔ حالانکہ نہ وہ حرکت کر سکتے ہیں‘ نہ بول سکتے ہیں‘ نہ سن سکتے ہیں۔ انسانوں کا یہ حال ہے کہ ان بتوں کے سامنے طرح طرح کے کھانےبھی رکھتے ہیں‘حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کچھ کھا نہیں سکتے۔ عقل سے کام نہ لینا توحید کو نہ ماننے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیاوی معاملات میں ہم قدم قدم پر عقل کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے‘ سچ اور جھوٹ‘ اچھے اوربرے میں تمیز عقل ہی سے کی جاتی ہے۔ایسے میں ربّ ِکائنات کے بارے میں عقل سے کام نہ لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ یہ طرزِ فکر انسان کو حقیقت سے دوررکھتا ہے۔
مسلمان اگرچہ دین توحید کے حامل تو ہیں مگر ان میں اکثر فہم توحید میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ انسانوں‘ جنوں اور فرشتوں کو بااختیار مان کر اُن کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں ‘حالانکہ وہ سب بے اختیار ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں۔مسلمان خود دیکھ رہا ہے کہ جن انسانوں کو وہ بااختیار سمجھتا ہے وہ بھی فوت ہوجاتے ہیں اور انہیں مٹی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ پھر بااختیار کون ہے؟وہی جو حی و قیوم ہے ‘جو سمیع و بصیر ہے ‘جو موت و حیات کا مالک ہے۔ وہی اولاد دیتا ہے ۔وہ نیک و بد‘ صالح و بدکردار‘مسلمان اور غیر مسلم سب کا رب ہے۔ وہ سب کی سنتا ہے‘ سب کو دیکھتا ہے ۔اس نے انسان کی سرشت میں اچھائی اور برائی کی تمیز رکھ دی ہے۔ اچھے کاموں پر اجر اور برے کاموں پر سزا دینے کا بتا دیا ہے۔ کوئی شخص اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ زندگی اورموت اس کا بڑا ثبوت ہے۔ نہ کوئی عام شخص زندہ رہا نہ کوئی پیغمبر۔ بس وہی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔اسی بدیہی حقیقت کو تسلیم کرنا توحید ہے۔
توحید کے عقیدے سے وہ لوگ بھی دور رہتے ہیںجو کسی غلط ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ یہودی کے گھر پیدا ہونے والا یہودی ہوتا ہے اور عیسائیوں کے گھر پیدا ہونے والے عیسائی ہوتے ہیں۔ ماں باپ اور رشتہ داروں کی باتوں کو بلاسوچے سمجھے تسلیم کرنا انہیں حق سے دور رکھتا ہے۔ کتنے ہی غیر مسلم ہیں جو اسلام کی حقانیت کو مانتے ہیں‘ مگر اپنے ماحول کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بچہ بڑا ہو کر جب تحقیق کرتا ہے تو سچائی تک پہنچ جاتا ہے‘ یعنی ایک خدا کو مان لیتا ہے مگر اپنے آبائی ماحول کا اثر اس پر اس قدر ہوتا ہے کہ وہ سچی بات برملا نہیں کہہ سکتا۔ مخالفت کے خوف سے وہ آنکھیں بند کر کے عقل و شعور میں آنے والے یقین کو رد کر دیتا ہے۔ سچائی یقیناًکڑوی ہوتی ہے۔ ماحول کی مطابقت آسان ہوتی ہے۔پانی کے بہائو کے ساتھ بہنا تو آسان ہوتا ہے مگر اس کے مخالف جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سچ تک وہی انسان پہنچ سکتا ہے جو سوچے سمجھے اور تحقیق کرے‘کسی شخصیت سے خوا مخواہ متاثر نہ ہو۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے ماحول کی گرفت سے آزاد ہونا اور سمجھ سے کام لینا بہت ضروری ہے۔
انسان ہمیشہ سے دیکھتا چلا آ رہا ہے کہ ملک میں بادشاہ ایک ہوتا ہے‘ لوگ اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی شان و شوکت ہوتی ہے۔ وہ سلطنت کا مالک ہوتا ہے۔ بادشاہ عوام کی نظروں سے دور عالی شان محلوں میں رہتا ہے۔ اس کے کچھ وزیر‘ مشیر اور مقربین ہوتے ہیں جو اُس کے حکم کے مطابق اُس کی سلطنت کا نظام چلاتے ہیں۔ بادشاہ اُن کی سفارش پر کسی کو انعام دیتا ہے اور کسی کوسزا۔سفارش کرنے والے مجرموں کو بے گناہ ثابت کرکے سزا سے بچا لیتے ہیں اور کبھی ذاتی دشمنی کی بنا پر بے گناہ کو سزا کا مستحق بنادیتے ہیں۔ جس کا تعلق کسی وزیر مشیر سے ہوتا ہے وہ دوسروں پررعب جماتا ہے اور انہیں ڈرا دھمکا کر اپنے کام کراتا ہے۔ بادشاہ خود اصل صورتِ حال سے واقف نہیں ہوتا ‘اس لیے اپنے مقربین کی بات کو ہی سچ سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق حکم جاری کرتا ہے ۔
ہر دورمیں انسانوں کے ایک بڑے گروہ نے اپنے مشاہدے کی بنا پر یہ گمان کر لیا کہ اللہ تعالیٰ بھی کائنات کا کچھ اسی طرح کا حکمران ہے جس نے ارض و سما کا انتظام چلانے کے لیے کچھ مددگار رکھے ہوئے ہیں جن پر وہ اعتماد کرتا ہے۔ اسی یقین کی بنا پر عام لوگ ان بااثر لوگوں کی خوشامد کرتے اور ان کی خدمت کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ان کے کام کروا لیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ ایک بے مثل ہستی ہے۔ اس کو دنیا کے حکمران کی طرح سمجھنا بے عقلی اور اس کی عظمت سے ناواقفیت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر شخص کے نہ صرف عمل سے واقف ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے کس نیت سے یہ کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مشیر ‘وزیر نہیں ہیں۔ اُس کے سامنے تمام مخلوقات بے اختیار ہیں۔فرشتے اُس کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔دنیا میں عام مومنین ہوں یا بڑے عبادت گزار ‘وہ احکامِ الٰہی کی پابندی میں ہی خیر سمجھتے ہیں۔خود کو اللہ کا بندہ سمجھ کر اُس کی رضا چاہتے اور اُس سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ہر طرح سے اُس کے محتاج ہیں۔ ربّ العالمین کا طرزِ حکومت اور کاروبارِ جہاں بانی انسان کے طرزِ حکمرانی سے قطعاً مختلف ہے ‘کیونکہ اُس کی ذات بے مثل اور بے مثال ہے ۔وہ ہر عیب سے پاک اور منزہ ہے ۔ انسان اپنے جیسے جن انسانوں کو بااختیار سمجھتا ہے ایک دن وہ اپنی زندگی پوری کر کے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ خالق کائنات ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ جب ساری کائنات فنا ہو جائے گی وہ پوری شان اور اختیار کے ساتھ زندہ رہے گا۔
تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو اللہ تعالیٰ کو بے مثل تومانتے ہیں اور {وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ(۴)}(الاخلاص) پر یقین بھی رکھتے ہیں ‘لیکن پھر بھی اپنے پسندیدہ اشخاص کو بااختیار مانتے اور حاجت روا جانتے ہیں۔ان کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ افسوس کہ جن لوگوں کو اپنے ہاتھوں دفن کرتے ہیں ‘ ان سے حاجتیں طلب کرتے ہیں۔شریعت نے ہمیں ہرگز یہ نہیں بتایا کہ فوت شدہ لوگ زندہ لوگوں کے کام آ سکتے ہیں‘ ان سے اپنی حاجات مانگی جائیں‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ فوت شدہ لوگ زندہ لوگوں کی دعائوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ گویا زندہ لوگ مُردہ لوگوں سے کچھ مانگنے کی بجائے ان کے لیے بخشش اور رفع درجات کی دعا کریں اور خود قرآن و سُنّت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی جدّوجُہدکرتے رہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025