سُود: ایک سنگین گناہحافظ محمد اسدمال اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں معاون و مدد گار بھی ہے۔ جہاں اللہ نے حصولِ رزقِ حلال کو عین عبادت قرار دیاہے‘ وہیں اس مال کا حق اداکرنے اور اس کے حاصل کرنے کے ذرائع بھی متعین فرمائےہیں۔ انسان محنت مزدوری کر کے جب اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو اس کو صدقہ کرنے کا ثواب بطور اعزاز عطا کیا جاتاہے۔ یہ اللہ کی خاص عنایت اور اس کا کرم ہے۔ اکثر حصولِ معاش کی فکر میں انسان اللہ کی بندگی سے غافل اور آخرت میں جواب دہی کی فکر سے آزاد ہو کر ہمہ وقت اسی غم وفکر میں گھلتا رہتا ہے کہ کہیں سے بھی مال ہاتھ آجائے۔ نتیجتاً اس کو حلال و حرام کی تمیز باقی نہیں رہتی ۔ وہ جو چاہے کرتا چلا جاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ بالآخر اس کواللہ کے سامنے پیش بھی ہونا ہے۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
))لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَومَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ؟ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ فِيهِ؟ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ؟ وفِيمَ أَنْفَقَهُ؟ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاہُ؟)) (رواہ الترمذی والدارمی)
’’قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اُس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا؟ اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا ؟اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا؟‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ کس ذریعے سے کمایا اور کس جگہ خرچ کیا؟ یعنی حلال و طیب رزق کو خرچ بھی حلال جگہ پر ہی کرنا ہے۔ افسوس کہ آج مال کی محبت اور دنیاکی عارضی زیب وزینت کی کشش ہمارے اذہان و قلوب پر اس قدر چھا چکی ہے کہ ہم اس امر کا خیال ہی نہیں رکھتے کہ جائز کاروبار کر رہے ہیں یا ناجائز!اس پر مستزادیہ کہ اکثریت کو یہ بھی علم نہیں ہےکہ جس نظام کے اندر ہم سانس لے رہے ہیں یہ سود کے گرد وغبار سے بھی پاک نہیں ہے۔ اس کی خبر صادق ومصدوق آقا ﷺ نے کچھ اس انداز میں دی ہے :
((لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقیٰ مِنْھُمْ أَحَدٌ اِلَّا أَکَلَ الرِّبَا‘ فَمَنْ لَمْ یَأْکُلْ أَصَابَہُ مِنْ غُبَارِہ )) (رواہ ابن ماجہ)
’’لوگوں پر ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ ان میں سے کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا‘ اور کوئی شخص سودخوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھوئیں اور غبار سے نہیں بچ سکے گا۔“
اس حدیث کے تناظر میں ہم اگر موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ تقریباً پورا تجارتی نظام سود پر منحصرہوچکا ہے۔ سودی نظام کی زنجیرنے عالمی معیشت کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ کسی کا حلال مال بھی پورے طور پر سود کے دھوئیں اور غبار سے محفوظ نہیں ہے۔
سود خور محنت کی ناقدری جب کہ سرمائے کی برتری جتلاتا ہے ۔ اپنا سرمایہ لگا کر محنت سے جی چراتا ہے۔ سرمایہ دار کو سود کی وجہ سے کبھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ انسا نی محنت اگر ضا ئع بھی ہو جائے تب بھی سرمایہ دا ر اپنا سود چھو ڑ نے کو تیار نہیں ہو تا۔ یہ صورتِ حال عقل ‘ منطق ‘ اَخلاقیات ہر اعتبار سے غیر منصفانہ ہے۔
تہذیب و تمدن کا قتل بھی اس سودی نظام کا مرہونِ منّت ہے۔ سودی نظام بظاہر معاشی تعمیر و ترقی کا ذریعہ ہےلیکن اس کا عملی اطلا ق دراصل انسانیت پر سر مائے کی فوقیت تسلیم کرنے کی صورت میں ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ تہذیب میں شرا فت ‘ہمدردی ‘ رزقِ حلال اور انسانیت کی قدر گرتی جارہی ہے جبکہ لالچ‘ حرص‘ لوٹ کھسوٹ اور فراڈ مؤ ثر اور توانا جذبے بنتے جا رہے ہیں۔ اکثر اوقات سودی قرض لینے والے کی تما م کما ئی ‘ وسا ئل‘ یہا ں تک کہ گھر اور اس میں موجود ضروریاتِ زندگی پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ صورتِ حال اس سنگینی کو بھی پہنچ جاتی ہے کہ انسان خود کشی یابھوک سے بلبلاتے بچوں کو اپنے ہاتھوں قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ خواہ کوئی ضرورت مند بیماری ‘ بھوک سے کراہ رہا ہو یا بے روزگار اپنی زندگی سے بیزار ہو ‘ سود خور کی شقاوت و سنگدلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے صرف اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
دوسرے کی کمائی پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے اور سود خور محض مال کے بل بوتے پربغیر کسی محنت ومشقت کے دوسروں کی کمائی کے ایک معیّن حصے میں شریک ہو جاتا ہے۔ اس کا سرمایہ نہ صرف محفوظ بلکہ بڑھتا رہتا ہے جب کہ مقروض کو ملنے والا نفع بھی بعض اوقات طویل مدّت میں سود کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔ خود غرضی ومفاد پرستی سودخور کا ایمان بن جاتا ہے اور وہ انتہائی خود غرضی سے صرف اپنے منافع پر نظر رکھتا ہے۔ اگر کبھی کساد بازاری کا اندیشہ ہوتا ہے تو فوراً اپنا روپیہ کھینچ لیتا ہے۔
مہنگائی میں اضافہ سودی نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ اشیاء کی قیمت کا تعین کرتے وقت دیگر اخراجات کے ساتھ سود کی ادائیگی کو بھی شامل کیا جاتا ہے جس سے اشیاء کی مجموعی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگرخام مال فراہم کرنے والے ‘ اشیاء تیار کرنے والے ‘ مارکیٹ میں فراہم کرنے والے اور فروخت کرنے والے‘ سب ہی سودی قرضوں پر کام کر رہے ہوں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر سطح پر سود کی وجہ سے کسی شے کی قیمت میں کس قدر اضافہ ہوگا۔
سود کے خاتمے کے بغیر بے روزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سود کسی معاشرے کی صلاحیت ِکار کو بری طرح متاثر کرتاہے ۔ اس کی وجہ سے کم سے کم افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے جس سے بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ سرمایہ دار چھوٹے کاروبار کے لیے قرض دینے پر راضی نہیں ہوتا۔
حکو مت کے اخرا جا ت کا بڑھ جانا بھی سود کی خباثت ہی کانتیجہ ہے۔سر ما یہ دار طبقہ حکومتوں کوباور کراتاہے کہ لوگوں کو رو ز گا ر مہیا کرنے اور ان کی قوتِ خرید بڑھانے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے زیادہ رکھنے چاہئیں ۔دنیا کی بیشتر حکومتیں سرمایہ داروں کے اس جال میں گرفتار ہیں۔ اس طرح بجٹ میں خسارے کی تلافی کے لیے انہی سرمایہ داروں سے مزید سودی قرضے لیے جاتے ہیں ‘جن کا بو جھ بھی بالآخر عوام کو برداشت کرنا پڑتاہے۔
ظالمانہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی ہمارے سامنے ہے ۔حکومت وسائل کی کمی کو پو را کرنے کی خاطر مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد کرتی ہے۔ان کے ذریعے وسائل کا حصو ل نسبتاً آ سا ن ہوتا ہے ۔
بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ما ہر ین معا شیا ت موجودہ معا شی تبا ہ کا ر یو ں کا علا ج اور حل پیش کرنے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ وہ خود سودی نظام ہی کی پیداوارہیں۔چو نکہ سود کو دور کر نا انہیں منظو ر نہیں‘ اس لیے ٹھو کروں پر ٹھوکریں کھا تے چلے جا تے ہیں۔ ان کے تجویز کردہ تما م علا ج گر انی اور بے روز گا ری بڑ ھا نے وا لے ہیں ۔ عصر ِحاضر کے معاشی مسائل کے سامنے ماہرین ِ معاشیات کی یہ بے بسی قابلِ رحم بھی ہے اور عبرتناک بھی۔
بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ‘ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ایک دو دھاری تلوار کی طرح انسانوں کا استحصال کرتی ہے۔اس سے انسانوں کی دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہوجاتی ہیں۔ سرمایہ داروں کا طبقہ مالِ حرام پر عیش تو کرتا ہے لیکن روحانی سکون سے محروم ہوجاتا ہے‘ کیونکہ یادِ خدا اور فکر ِ آخرت سے غافل رہتا ہے۔ ایک حدیث ِ نبوی ؐ کے مطابق حرام کمائی سے پلنے والا جسم جہنم ہی میں جانے کا حق دار ہے (مسند احمد)۔ غریب کو ضروریاتِ زندگی کی فکر ہر وقت ستائے رکھتی ہے جو اسے آخرت کی تیاری سے بھی بیگانہ رکھتی ہے۔بلکہ ایک حدیث نبویؐ کی رو سے فقر و افلاس انسان کو کفر تک پہنچا سکتا ہے۔حالات کی بہتری کے لیے ذیل میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں :
(۱) اگر کوئی شخص بینک سے قرض لینے یا جمع شدہ رقم پر سود کو جائز قرار دے تو علماء کے موقف کو سامنے رکھ کراس سے بچیں۔
(۲) اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ قرآن وحدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔شراب نوشی‘ خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآنِ کریم میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔
(۳) جس نبی مکرمﷺ کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے ہیں‘ انہوں نے سود لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔نیز شک وشبہ والی چیزوں سے بھی بچنے کی تعلیم دی ہے ۔
(۴) دنیاوی ضرورتوں کو بینک سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں۔کچھ دشواریاں‘ پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں۔
(۵) بینک میں جمع رقم پر آپ کو جو ’’منافع‘‘ مل رہا ہے‘ اس کو خود استعمال کیے بغیر رفاہی کاموں میں لگادیں ۔ ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں۔
(۶) اگر سود سے بچنے کی واقعی کوئی شکل نہیں ہے‘ تو اپنی وسعت کے مطابق اس سے چھٹکارا پانے کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025