(سیرت صحابہؓ) سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ - ارسلان اللہ خان

11 /

سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہتحریر: ارسلان اللہ خان

قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ط} (الشوریٰ:۲۳)
’’(اے نبیﷺ)آپ کہہ دیجیے کہ میں تُم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قرابت داری کے لحاظ کے۔‘‘
ساقی ٔ زم زم‘ ساقی ٔ حرمین‘ سیدنا حضرت عباس ؓ رسول ِ اکرم ﷺ کے چچا تھے۔ آپؓ کا نام عباس اور کنیت آپؓ کے دوسرے بیٹے فضل کی نسبت سے ’’ابوالفضل‘‘ ہے۔ آپؓ کی زوجہ اُمّ الفضل ؓ بھی بہت نیک سیرت خاتون تھیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کے بعد اُمّ الفضل ہی وہ دوسری خاتون تھیں جو اسلام کے سایہ ٔ عافیت میں آئیں۔ آپؓ کے تین صاحبزادے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فقیہ اُمّت کے نام سے مشہور ہیں۔ آپؓ کے تیسرے بیٹے کا نام عبید اللہ تھا۔ حضرت عباس ؓکا قد بہت طویل تھا۔ آپ ؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ آپ ؓ کے کندھے تک آتے تھے۔ آپؓ نہایت درجے کے سخی تھے۔مسجد ِ نبوی ﷺ کی توسیع کے وقت آپؓ نے اپنا مکان بلامعاوضہ پیش کردیا۔
’’اُسدالغابہ‘‘ میں درج ہے کہ بچپن میں ایک روز حضرت عباسؓگم ہو گئے۔آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت نُطیلہ ؓ شدید پریشان ہوگئیں اور یہ منّت مانی: ’’یا اللہ! میرا بیٹا عباس مجھے مل جائے تو میں تیرے گھر (خانۂ کعبہ) پر ریشمی غلاف چڑھائوں گی۔‘‘ چنانچہ جب ننھے عباس مل گئے تو حضرت نُطیلہؓ نے کعبہ شریف پر پہلی مرتبہ دیباج اور ریشمی کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ واضح رہے کہ خانۂ کعبہپر پہلی مرتبہ پیارے آقاﷺکی ولادت سے کم وبیش ڈیڑھ سو سال قبل حمیری تہذیب کے علمبردار اور یمن کے بادشاہ تُبّع نے غلاف چڑھایا تھا۔ دوسری مرتبہ آپﷺ کی دُنیا میں تشریف آوری سے کم وبیش نوے سال قبل حضور اکرم ﷺ کے جدّ ِ امجد حضرت قُصّی بن کلاب نے غلاف چڑھایا تھا۔ لیکن کعبے پر ریشمی غلاف پہلی مرتبہ حضرت عباس ؓ کی والدہ حضرت نطیلہؓ ہی نے چڑھایا۔
زمانۂ جاہلیت میں حضرت عباس ؓکا شمار عرب کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ آپؓ ایک کامیاب تاجر تھے اور یمن اور دوسرے علاقوں میں تجارت کرتے تھے۔ طائف میں آپ ؓکا ایک باغ تھا۔ سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور رفادہ یعنی حاجیوں کو کھاناکھلانا حضرت عباس ؓکی ذمّہ داری تھی۔ حاجیوں کے لیے زم زم کا بہترین انتظام کرنے کی وجہ سے عرب کے لوگ آپؓ کو ’’ساقی ٔ زم زم‘‘ کہتے تھے۔ اسی طرح قبیلے والے آپؓ کو’’ذوالرّائے‘‘یعنی بہترین رائے والے کہتے تھے اور اپنے معاملات میں آپؓ سے رائے لیتے تھے۔ آپؓ طبعاً فیاض اور سخی تھے۔ آپؓ کے دسترخوان سے بہت سے لوگ استفادہ کرتے تھے۔ اسی طرح آپؓ نے قبیلے میں روٹی‘ کپڑا اور مکان کی ذمّہ داری اپنے سر لی ہوئی تھی۔ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت ِ عباسؓ نے اگر چہ اوائلِ اسلام میں ہی دل سے حق قبول کرلیا تھا اور آپؓ کی زوجہ اُمّ ِ فضلؓ بھی ایمان لے آئی تھیں لیکن مصلحتاً خاموشی اختیار کی اور درپردہ اسلام کی ہر ممکن خیر خواہی فرماتے تھے۔
غزوئہ بدر میں حضرت عباسؓ کو نہ چاہتے ہوئے بھی کُفّار کے ہمراہ مسلمانوں سے لڑنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپؓ دیگر ستّر قیدیوں میں سے ایک تھے۔ اتفاق سے حضرت عباسؓ کو سختی سے باندھ دیا گیا جس کے باعث تکلیف سے کراہنے لگے ۔ اُن کی تکلیف کی آواز سن کر رسولِ اکرم ﷺ بہت بے چین ہوگئے اور آپ ﷺ کی نیند اُچاٹ ہوگئی۔ صحابہؓ نے حضرت عباسؓ کی رسّی ڈھیلی کردی تو وہ سو گئے۔ حضور اکرم ﷺ نے پوچھا: ’’اب عباسؓ خاموش کیوں ہوگئے؟‘‘ جب بتایا گیا تو حضوراکرم ﷺ نے حکم دیا کہ سب قیدیوں کی رسّیاں ڈھیلی کردی جائیں۔ بعض روایات کے مطابق جب بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا جانے لگا توحضرت عباسؓنے کہا کہ میرے پاس فدیے کی رقم نہیں ہے۔ اس پر مخبرصادق حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ آپؓ نے اپنی زوجہ اُمّ الفضلؓ کے پاس جو رقم رکھوائی تھی .....؟ حضرت عباسؓ نے کہا کہ اس رقم کے بارے میں تو میرے اور اُمّ الفضل کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ چنانچہ وہ سمجھ گئے کہ رسول اکرم ﷺ اللہ کے سچّے نبی ہیں اوراُنہو ں نے اُسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ البتہ آپؓ نے کھلم کھلا اسلام قبول کرنے کا اعلان فتح مکّہ سے کچھ عرصہ قبل کیا۔
حضرت عباسؓ کو حضرت محمدمصطفیٰﷺ سے حد درجے عشق تھا۔ غزوئہ خیبر کے بعد آپؓ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: ’’یارسول اللہ ﷺ! میں نے آپ کے لیے ایک نعت لکھی ہے ‘اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔ ‘‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’عباس کہیے! اللہ تعالیٰ آپ کا منہ سلامت رکھے۔ ‘‘ آپؓ نے ایک طویل نعت کہی ۔فارسی کے معروف شاعر حضرت عبدالرحمٰن جامیؒ نے اپنے ایک شعر میں اسی نعت کا مضمون نہایت خوش اسلوبی سے سمیٹاہے:
اگر نامِ محمد (ﷺ) را نیاوردے شفیع آدمؑ
نہ آدم ؑ یافتے توبہ‘ نہ نوحؑ از غرق نجینا
’’اگر حضرت محمدﷺ کے نام کو حضرت آدم ؑ شفیع نہ بناتے تو نہ آدمؑ توبہ کو پاتے اور نہ ہی حضر ت نوحؑ غرقابی سے نجات پاتے۔‘‘
حضور ﷺ یہ کہہ کر آپؓ کو بُلاتے تھے:’’میرے باپ حضرت ِ عباسؓ کو بُلاؤ۔ ‘‘
حضرت عباس ؓ حضور ِ اکرم ﷺ سے دو سال بڑے تھے اور احترامِ مصطفیٰ ﷺ دیکھیے کہ جب کسی نے پوچھا کہ آپؓ عُمر میں بڑے ہیں یا حضور ﷺ؟تو آپؓ نے جواب دیا: ’’بڑے تو حضور ﷺہیں‘ ہاں میں دو سال قبل پیدا ہوگیا تھا۔ ‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ کی ولادت عام الفیل سے دو سال قبل(مکّہ مکرمہ میں) ہوئی تھی۔
نبی اکرم ﷺ کی نگاہ میں ان کا مقام دیکھیں کہ بیعت ِ عقبہ ٔ ثانیہ کے وقت مدینہ سے آنے والے اسّی نفوس ایک گھاٹی میں حضور اکرم ﷺ سے ملے۔ پیارے آقاﷺ نے پورے مکّہ سے حضرت عباس ؓ کواس ملاقات کے لیے چنا۔ آپؓ نے اُس وقت مدینہ کے مسلمانوں سے جو خطاب کیا وہ سیرت ِ رسول ﷺ کا نہایت اہم اور روشن پہلو ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہجرت کے باب میں یہ خطبہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس خطبے نے گویا انصار پر واضح کردیا کہ وہ جو ذمہ داری اُٹھا رہے ہیں وہ کس قدر نازک ہے۔ بقول اقبال ؒ
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مُشکلاتِ لاالٰہ را!
اور پھر انصار نے بھی جاں فشانی کا ثبوت دیتے ہوئے حضور ِ اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی۔
صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث کے مطابق دور ِ فاروقیؓ میں ایک مرتبہ شدید قحط پڑا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے انصار و مہاجرین کو مدینہ سے باہر نکالا اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’اے اللہ! جب تیرےرسولﷺ حیات تھے تو ہم اُن کو وسیلہ بناتے تھے اور آج ہم آپؐ کے چچا حضرت ِ عباس ؓ کو وسیلہ بناکر آپ کی بارگاہ میں پیش کر رہے ہیں۔ حضرت ِ عباس ؓ نے اپنے ہاتھ دُعا کے لیے بلند کیے تو گھٹائیں جھوم جھوم کر برسیں۔ صرف مدینہ منورہ ہی نہیں مکّہ مکرمہ بھی بارانِ رحمت سے سیراب ہوا۔ اسی بنیاد پر آپؓ کو ’’ساقی ٔحرمین‘‘کہا جاتا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نےاپنی ’’مسند‘‘ میں ’’مسند عباس‘‘ کے نام سے بہتّر احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ کا وصال بتّیس ہجری میں مدینہ میں ہوا اور آپؓ کی تدفین جنّت البقیع میں کی گئی۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را!
(مرزا مظہر ِ جان ِ جاناں ؒ)
حوالہ جات
(۱) اُسُد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ: مصنف: عز الدین ابن الاثیر الجزری
ترجمہ: مولانا محمد عبد الشکور فاروقی
(۲) الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: تالیف: حافظ علامہ ابن ِحجر عسقلانی ترجمہ: مولانا محمد عامر شہزاد علوی