(علومِ قرآنی) اقسامِ وحی اور قرآن حکیم - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

11 /

اقسامِ وحی اورقرآن حکیمپروفیسر حافظ قاسم رضوان


قرآن حکیم کے نام
علامہ ابوالمعالی شافعی نے قرآن کریم کے پچپن(۵۵) نام شمار کیے ہیں ‘جبکہ بعض اہل ِعلم نے ان کی تعداد نوے (۹۰) سے بھی بڑھ کر بتائی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قرآن حکیم کی صفات مثلاً مَجِید‘ حَکِیم‘ کَرِیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے ‘ ورنہ صحیح معنوں میں قرآن کریم کےکل پانچ نام ہیں: القُرآن‘ الفُرقَان‘ الذِّکْر‘ الکِتَاب اور التَّنْزِیل۔ (سیوطی)خود قرآن مجید نے اپنے لیے یہ پانچوں الفاظ بطور اسم علم ذکر کیے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور نام ’’قرآن‘‘ ہے‘اور اللہ تعالیٰ نے کم از کم اکسٹھ (۶۱) مقامات پر اپنے کلام کو اسی نام سے یاد کیا ہے۔
’قُرآن‘ دراصل قَرَأَ یَقْرَأُ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ’جمع کرنا‘ کے ہیں‘ پھر یہ لفظ پڑھنے کے معنوں میں اس لیے استعمال ہونے لگا کہ اس میں حروف اور کلمات کو جمع کیا جاتا ہے۔ (راغب اصفہانی)
قَرَأَ یَقْرَأُ کا مصدر ’قِرَاءَۃٌ‘ کے علاوہ ’قُرآنٌ‘ بھی آتا ہے‘ سورۃ القیامہ میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے : {اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ (۱۷)}’’بلاشبہ اس (کتاب) کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ہی ذمہ ہے‘‘۔عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول کے معنی میں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ کلام اللہ کو قرآن اسی معنیٰ میں کہا جاتا ہے‘ یعنی پڑھی ہوئی کتاب ۔(الاتقان)
قرآن حکیم کی وجہ تسمیہ
قرآن حکیم کی بہت سی وجوہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں‘ لیکن زیادہ راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ کا یہ نام کُفّارِ عرب کی تردید میں رکھا گیا ہے‘ وہ کہا کرتے تھے : {لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ} (حٰمٓ السَّجدۃ:۲۶)  ’’تم اس قرآن کو نہ سنو اور دورانِ تلاوت لغو (لایعنی) باتیں کیا کرو۔‘‘کُفّار کی ان باتوں کے علی الرغم ’قرآن‘ نام رکھ کر یہ الہامی اشارہ فرما دیا گیا کہ قرآن مجید کی دعوت کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں دبایا جا سکتا‘ یہ کتاب پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن عظیم دُنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ قرآن عزیز کی اصطلاحی تعریف ’التلویح مع التوضیح‘ میں یوں بیان کی گئی ہے :  ھو الکتاب المنزّل علی الرسول ﷺ‘ المکتوب فی المصاحف‘ المنقول الینا نقلًا متواترًا بلاشبھۃ ’’اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو رسول اللہ ﷺپر نازل ہوا‘ مصاحف میں لکھا گیا اور آپؐ سے بغیر کسی شبہ کے متواتر نقل ہوا‘‘۔یہ تعریف تمام اہل علم کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔
وحی اور اس کی حقیقت
قرآن کریم چونکہ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺپر بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے‘ اس لیے وحی کے بارے میں چند بنیادی باتیں جان لینا ضروری ہے:
(۱)وحی کی ضرورت و اہمیت : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت کے لیےلگادیا۔ لہٰذا دنیا میں آنےکے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں‘ پہلا یہ کہ وہ چاروں طرف پھیلی کائنات سے ٹھیک ٹھیک کام لے اور دوسرا یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے احکامِ الٰہی کو مدّ ِنظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت اور عمل نہ کرے جو اللہ تعالیٰ (اور اس کے رسولﷺ) کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ’علم‘ کی ضرورت ہے ‘ اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے اوراس کی کون سی چیزکے کیا خواص ہیں تواس وقت تک وہ دنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ نیز جب تک اسے یہ پتا نہ چلے کہ اللہ کی مرضی اور حکم کیا ہے اوروہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے تو اس وقت تک اللہ کی مرضی پر کاربند ہونا ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پید اکرنے کے ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مطلوب باتوں کا علم ہوتا رہے۔ ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ‘ کان‘ ناک‘ منہ اور ہاتھ پائوں‘ دوسرے عقل اور تیسرے وحی ۔ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعے معلوم ہوجاتی ہیں‘ بہت سی عقل کے ذریعے اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں‘ ان کا علم انسان کوبذریعہ وحی عطا کیا جاتا ہے۔
علم کے ان تینوں ذرائع کی ترتیب ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے جس سے آگے وہ کام نہیں آتا۔ چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں ‘ ان کا علم صرف عقل سے نہیں ہو سکتا‘ مثلاً میرے سامنے ایک انسان بیٹھا ہے‘ مجھے اپنی آنکھ کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ انسان ہے‘ آنکھ نے مجھے یہ بھی بتا دیا کہ اس کا رنگ گورا‘ پیشانی چوڑی‘ بال سیاہ‘ ہونٹ پتلے اور چہرہ کتابی ہے۔ لیکن اگر یہی باتیں مَیں اپنے حواس کو معطل کر کے محض عقل سے سمجھنا چاہوں‘ مثلاً آنکھیں بند کر کے یہ چاہوں کہ سامنے بیٹھے انسان کی رنگت‘ اس کے اعضاء کی صحیح صحیح بناوٹ اور اس کے سراپا کی پوری پوری تصویر مجھے صرف اپنی عقل کے ذریعے معلوم ہوجائے‘ تو یہ قطعاً ناممکن ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں کی جا سکتیں‘ مثلاً مذکورہ شخص کے بارے میں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اُس کی کوئی نہ کوئی ماں ضرور ہے‘ نیز یہ بھی علم ہے کہ اسے کسی نے پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس وقت نہ اُس کی ماں میرے سامنے ہے اور نہ ہی اُس کے پیدا کرنے والے کو مَیں دیکھ سکتا ہوں‘ لیکن میری عقل بتا رہی ہے کہ یہ شخص بن ماں باپ خود پیدا نہیں ہو سکتا۔ اب اگر مَیں یہ علم اپنی عقل کی بجائے اپنی آنکھ سےحاصل کرنا چاہتا تو یہ بالکل ممکن نہیں‘ کیونکہ اس کی تخلیق اور پیدائش کا منظر دوبارہ میری آنکھوں کے سامنے آ ہی نہیں سکتا۔
غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کا تعلق ہے وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی اور جہاں  حواسِ خمسہ جواب دے دیتے ہیں‘ وہیں سے عقل کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں‘ بلکہ یہ بھی ایک حد پر جا کے رک جاتی ہے۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ تو حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی عقل کے ذریعے ‘مثلاً مذکورہ بالا شخص کے بارے میں عقل نے یہ تو بتا دیا کہ اُسے کسی نے پیدا کیا ہے‘ لیکن اس کو کیوں پیدا کیا گیا ‘ اس کے ذمے اللہ کی طرف سے کیا فرائض اور احکامات ہیں ‘ اس کا کون ساکام اللہ کو پسند ہے اور کون سا ناپسند‘تو یہ سب سوالات ایسے ہیں کہ عقل اور حواس اکٹھے ہو کر بھی ان کا جواب نہیں دے پاتے۔ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے جو ذریعہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے ‘ اسی کا نام ’وحی‘ ہے۔
’وحی‘ انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعۂعلم ہے جو اسے اس کی زندگی کے متعلق ان تمام سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو حواس اور عقل کے ذریعے حل نہیں ہو پاتے‘ لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ مذکورہ تشریح سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ ہی انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں‘ بلکہ اس کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے وحی الٰہی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی‘اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو جائے۔ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا نہیں بلکہ حواس کا کام ہے‘ اسی طرح بہت سے دینی معتقدات کا علم عقل کی بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے محض عقل پر بھروسہ قطعاً درست نہیں۔

وحی کا مفہوم : ’وَحْیٌ‘ اور ’اِیْحَاءٌ ‘ عربی زبان کے الفاظ ہیں اور لغت میں ان کے معنی ’جلدی سے کوئی اشارہ کر دینا‘ کے ہیں‘ خواہ یہ اشارہ رمز و کنایہ استعمال کر کے کیا جائے‘ خواہ کوئی بے معنی آواز نکال کر‘ خواہ کسی عضو کو حرکت دے کر یا تحریر و نقوش استعمال کر کے۔ ہر صورت میں لغت کے حوالے سے اس پر یہ الفاظ صاد ق آتے ہیں (تاج العروس)۔ حضرت زکریا ؑ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سورئہ مریم میں ارشاد ہوا:{فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا(۱۱)} ’’پس وہ اپنی قوم کے سامنے محراب سے نکلے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہا کرو۔‘‘ظاہر ہے کہ اس قسم کے اشارے سے مقصد یہی ہوتا ہے کہ مخاطب کے دل میں کوئی بات ڈال دی جائے‘ اس لیے لفظ ’وحی اور ایحاء ‘ دل میں کوئی بات ڈالنے کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہی معنی مراد ہیں‘ جیسے سورۃ النحل میں ارشاد ہوتا ہے: {وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ....} (آیت۶۸) ’’اور آپؐ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تُو پہاڑوں اور درختوں میں گھر بنا لے......‘‘
یہاں تک کہ شیاطین دلوں میں جو وسوسے ڈالتے ہیں‘ان کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے‘ جیسے سورۃالانعام میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ} (آیت۱۱۱)
’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیےایک نہ ایک دشمن ضرور پیدا کیا ہے‘ جن و انس کے شیاطین (میں سے جو) ایک دوسرے کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں۔‘‘
اسی سورت میں دوسری جگہ ارشادہے :
{وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰۗئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ۚ}(آیت۱۲۱)
’’اور بلاشبہ شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں‘ تاکہ تمہارے ساتھ جھگڑا کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرشتوں سے جو خطاب فرماتے ہیں‘ اسے بھی ’ایحاء‘ کہا گیا ہے۔ سورۃ الانفال میں فرمایا:
{ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِۗکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ } (آیت۱۲)
’’جب حکم بھیجا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
کسی غیر نبی کے دل میں جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی جاتی ہے‘ اسے بھی اسی لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ ۚ} (آیت۷)
’’اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کو الہام کیا کہ اسے دودھ پلائو۔‘‘
یہ سب ان دونوں لفظوں (وحی اور ایحاء) کے لغوی معنی ہیں۔ اب شرعی اصطلاح میں ’’عمدۃ القاری‘‘ کے مطابق وحی کی تعریف یہ ہے:
کلام اللّٰہ المنزل علٰی نبی من انبیائہٖ
’’اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے نبیوں میں سے کسی نبی پر نازل ہو۔‘‘
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لفظ ’وحی‘ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال نبی اور رسول کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کا کہنا ہے کہ ’وحی‘ اور ’ایحاء‘ دو الگ الگ لفظ ہیں اور ان دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ’ایحاء‘ کا مفہوم عام ہے‘ انبیاءـ پر وحی نازل کرنے کے علاوہ کسی کو اشارہ کرنا اور کسی غیر نبی کے دل میں کوئی بات ڈالنا بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے‘ لہٰذا یہ لفظ نبی اور غیر نبی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ اس کے برخلاف ’وحی‘ صرف اُس الہام کو کہتے ہیں جو کہ انبیاء و رسل علیہم السلام پر نازل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن عزیز نے لفظ ’ایحاء‘ کا استعمال تو نبی اور غیر نبی دونوں کے لیے استعمال کیا ہے‘ لیکن لفظ ’وحی‘ سوائے انبیاء کے کسی اور کے لیے استعمال نہیں فرمایا۔ (فیض الباری)
گویا’وحی‘ وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنے خاص منتخب بندوں تک پہنچاتا ہے اور پھر اس کے ذریعے تمام انسانوں تک۔ چونکہ ’وحی‘ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک مقدس تعلیمی رابطہ کی حیثیت رکھتی ہے او ر اس کا مشاہدہ صرف انبیائے کرام علیہم السلام کو ہی ہوتا ہے‘ تو ہمارے لیے اس کی صحیح حقیقت کا ادراک بھی ممکن نہیں‘ البتہ اس کی اقسام اور کیفیات کے بارے میں کچھ معلومات خود قرآن و حدیث نے فراہم کی ہیں‘ صرف انہی کو یہاں بیان کیا جاسکتاہے۔

وحی کی تعلیمات : وحی الٰہی کے ذریعے بندوں کو صرف انہی باتوں کی تعلیم دی جاتی ہے جو وہ محض اپنی عقل اور حواس سے معلوم نہ کر سکیں۔یہ باتیں خالص مذہبی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہیں اور عام دنیاوی ضروریات کی بھی ۔ انبیاء کی وحی عموماً پہلی قسم کی ہوتی ہے لیکن حسب موقع معلومات اور ضروریات بھی بذریعہ وحی بتائی گئی ہیں‘ مثلاً حضرت نوح ؑ کو کشتی بنانے کا حکم دیا گیا:
{وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا}(ھود:۳۷)
’’اور کشتی بنائو ہماری نگاہوں کے سامنے اور ہماری وحی کے (ذریعے ہدایات کے) مطابق۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح ؑ کوکشتی کی صنعت بذریعہ وحی سکھائی گئی تھی۔ اسی طرح حضرت دائود ؑکو زرہ سازی کی صنعت اور حضرت آدم ؑکو اشیاء کے خواص کا علم بذریعہ وحی سکھایاگیا‘ بلکہ ایک روایت یہ ہے کہ علم طب بنیادی طو رپر بذریعہ وحی نازل ہوا۔
وحی کی اقسام
علامہ انور شاہ کاشمیریؒ ’’فیض الباری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ابتدائی طور پر وحی کی تین قسمیں ہیں:

(ا) وحی قلبی : اس قسم میں باری تعالیٰ براہِ راست نبی کے قلب کو مسخرفرما کر اس میں کوئی بات ڈال دیتے ہیں۔ اس میں نہ فرشتے کا واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کی قوتِ سامعہ اور حوا س کا۔ لہٰذا کوئی بھی آواز نبی کو سنائی نہیں دیتی ‘بلکہ کوئی بات قلب میں جاگزیں ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ یہ کیفیت بیداری میں بھی ہو سکتی ہے اور خواب میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے‘ جیسے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ذبح کرنے کا حکم اسی طرح دیا گیا تھا۔

(ب) کلامِ الٰہی : اس قسم میں باری تعالیٰ براہِ راست نبی کو اپنی ہم کلامی کا شرف عطا فرماتا ہے۔ اس میں بھی کسی فرشتے کا واسطہ تو نہیں ہوتا لیکن نبی کو ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آواز مخلوقات کی آواز سے بالکل جدا ایک عجیب و غریب کیفیت کی حامل ہوتی ہے جس کاادراک عقل سے ممکن نہیں۔ جو انبیاء اسے سنتے ہیں وہی اس کی کیفیت اور اس کے سرور کو پہچان سکتے ہیں۔ وحی کی اس قسم میں چونکہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے‘ اس لیے یہ قسم وحی کی تمام قسموں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ اسی لیے حضرت موسیٰ ؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے: { وَکَلَّمَ اللہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا(۱۶۴)} ’’اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے خوب باتیں کیں۔‘‘

(ج)وحی مَلکی : اس قسم میں اللہ تعالیٰ اپنا پیغام اور کلام کسی فرشتے کے ذریعے نبی تک بھیجتا ہے۔ بعض اوقات یہ فرشتہ نظر نہیں آتا اور صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے‘ بعض اوقات وہ کسی انسان کی شکل میں سامنے آ کر پیغام پہنچا دیتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نبی کو فرشتہ اپنی اصل صورت میں نظر آ جائے۔
قرآن کریم میں وحی کی انہی تین اقسام کی طرف سورۃ الشوریٰ میں اشارہ فرمایا گیا ہے :
{وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَاۗءُ ۭ } (آیت ۵۱)

’’اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس سے (روبرو) بات کرے‘ مگر دل میں بات ڈال کر یا پردے کے پیچھے سے یا کسی پیغام بر (فرشتے) کو بھیج کر جو اللہ کی اجازت سے‘جو اللہ چاہے وحی نازل کرے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں {وَحْیًا}’’دل میں بات ڈالنے‘‘ سے مراد پہلی قسم یعنی وحی قلبی ہے‘ {مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ} ’’پردے کے پیچھے‘‘سے مراد دوسری قسم یعنی کلامِ الٰہی اور {یُرْسِلَ رَسُوْلًا} ’’پیغام بر (فرشتے) کو بھیجنا‘‘سے مراد تیسری قسم یعنی وحی مَلکی ہے۔
حضورﷺ پر وحی کے طریقے
نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ((اَحْیَانًا یَاْتِیْنِیْ مِثْلَ صَلْصَلَۃِ الْجَرَسِ‘ وَھُوَ اَشَدُّہُ عَلَیَّ فَیَفْصِمُ عَنِّیْ‘ وَقَدْ وَعَیْتُ عَنْہُ مَا قَالَ‘ وَاَحْیَانًا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًا فَیُکَلِّمُنِیْ فَاعِیْ مَا یَقُوْلُ)) ’’کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے‘ پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ آوازسے کہا ہوتا ہے وہ مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے‘ اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک انسان کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے‘ پس میںاس کا کہا ہوا یاد کر لیتا ہوں۔‘‘ اس حدیث نبوی سے حضور اقدسﷺ پر نزولِ وحی کے دو طریقے معلوم ہوتے ہیں:
(۱) صَلْصَلَۃ الجرس: اس طریقے میں حضور اقدسﷺ کو اس قسم کی آواز آیا کرتی تھی جیسے گھنٹیاں بجنے سے پیدا ہوتی ہے۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہی مذکور ہے‘ اس لیے پورے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس قسم کی وحی کو کس اعتبار سے گھنٹیوں کے بجنے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ فرشتے کی آواز ہوتی تھی‘ بعض علماء کے نزدیک فرشتہ وحی لاتے وقت اپنے پروں کو پھڑپھڑاتا تھا‘ اس سے یہ آواز پیدا ہوتی تھی۔ علامہ خطابی کی رائے کے مطابق یہاں تشبیہہ آواز کے ترنم میں نہیں بلکہ اس کے تسلسل میں ہے کہ جس طرح گھنٹی کی آواز مسلسل ہوتی ہے اور کسی جگہ ٹوٹتی نہیں‘ اسی طرح وحی کی آواز بھی مسلسل ہوا کرتی تھی (فتح الباری)۔ لیکن یہ سب قیاسات ہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی۔ البتہ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ نے ابن عربی سے نقل کر کے اس تشبیہہ کا جو مطلب بیان کیا ہے‘ وہ مذکورہ بالا تمام توجیہات سے زیادہ لطیف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تشبیہہ دو اعتبار سے دی گئی ہے۔ ایک تو آواز کے تسلسل کے اعتبار سے جیسے کہ اوپر بیان ہوا۔دوسرے اس اعتبار سے کہ گھنٹی جب مسلسل بج رہی ہو تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت متعین کرنا مشکل ہوتا ہے‘ کیونکہ اس کی آوازہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ ذاتِ باری تعالیٰ چونکہ جہت سے اور مکان سے منزہ ہے‘ اس لیے کلامِ الٰہی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی آواز کسی ایک سمت سے نہیں آتی بلکہ ہر جہت سے آتی ہے۔ اس کیفیت کا صحیح ادراک تو بغیر مشاہدے کے ممکن نہیں‘ لیکن اس بات کو عام ذہنوں کے قریب لانے کے لیے آنحضرتﷺ نے اسے گھنٹیوں کی آواز سے تشبیہہ دی ہے (فیض الباری)۔
بہرحال اس تشبیہہ کی ٹھیک ٹھیک کیفیت کا علم تو اللہ ہی کو ہے یا اس کے رسولﷺ کو‘ حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو وحی کے اس خاص طریقے میں گھنٹیوں کی سی آواز آیا کرتی تھی۔ ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وحی کا یہ طریقہ حضور اقدسﷺ پر سب سے زیادہ دشوار ہوتا تھا۔ حافظ ابن حجرؒ کا کہنا ہے کہ ’’وَھُوَ اَشَدُّ عَلَیَّ‘‘ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ یوں تو وحی کا ہر ایک طریقہ سخت ہوتا تھا‘ لیکن اس گھنٹیوں کی آواز والے طریقے میں سب سے زیادہ بار ہوا کرتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ کہنے اور سننے والے میں کسی نہ کسی طور پرمناسبت پیدا ہونی تولازم ہے۔اب اگر فرشتہ انسانی شکل میں آجائے تو حضورﷺپر کوئی غیر معمولی بار نہیں پڑتا تھا‘ صرف کلامِ الٰہی کے جلال وغیرہ کا بار ہوتا تھا۔ اس کے برخلاف جب فرشتہ انسانی شکل میں نہ آئے‘ بلکہ اس کی آواز یا براہِ راست باری تعالیٰ کا کلام سنائی دے تو یہ ایک غیر معمولی کیفیت ہوتی تھی‘ اس سے مانوس ہونے اور استفادہ کرنے میں حضورﷺ پر زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں فرماتی ہیں: وَلَقَدْ رَاَیْتُہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ فِی الْیَوْمِ الشَّدِیْدِ الْبَرْدِ فَیَفْصِمُ عَنْہُ وَاِنَّ جَبِیْنَہُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا ’’مَیں نے سخت جاڑوں کے دن میںآپؐ پر وحی نازل ہوتی دیکھی ہے‘ (ایسی سردی میں بھی)جب وحی کا سلسلہ ختم ہو تا تو آپؐ کی پیشانی مبارک پسینے سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی‘‘۔ اسی حوالے سے ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کہنا ہے کہ جب آنحضرتﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کا سانس رکنے لگتا‘ چہرئہ انور متغیر ہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑ جاتا‘ سامنے کے دانت سرد ی سےکپکپانے لگتے اور آپؐ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے ۔(الاتقان)
وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدّت پیدا ہو جاتی تھی کہ حضورﷺ جس جانور پر اس وقت سوار ہوتے‘ وہ آپ ؐکے بوجھ سے دب کر بیٹھ جاتا۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے اپنا زانوئے مبارک حضرت زید بن ثابت ؓ کے زانو پر رکھا ہوا تھا کہ اسی حالت میں وحی نازل ہونا شروع ہو گئی۔ اس سے حضرت زیدؓ کے گھٹنے اور ران پر اتنا بوجھ پڑا کہ جیسے وہ ٹوٹنے لگی ہو۔ـ(صحیح البخاری) بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آوازدوسروں کو بھی سنائی دیتی تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ جب آپ ؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرئہ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔

(۲) تمثّل مَلَک : وحی کی دوسری صورت جس کا اس حدیث میں ذکر ہے‘ وہ یہ ہے کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آ کر حضورﷺ کو اللہ کا پیغام پہنچا دیتا تھا۔ ایسے مواقع پر حضرت جبرئیل ؑ عموماً حضرت دِحیہ کلبی ؓ کی شکل میں تشریف لاتے تھے۔ علامہ عینی ؒ کا کہنا ہے کہ صحابہ میں سےحضرت دِحیہ کلبیؓ کا انتخاب شاید اس لیے کیا گیا ہو کہ وہ اپنے وقت کے حسین ترین انسان تھے‘ اتنے حسین کہ اپنے چہرے کو لپیٹ کر چلا کرتے تھے۔ البتہ بعض مواقع پر حضرت جبرائیل کا دوسری انسانی صورتوں میں آنا بھی ثابت ہے‘ مثلاً حضرت عمر ؓ کی مشہور روایت (حدیث جبریل) میں وہ بالکل ایک اجنبی کی صورت میں تشریف لائے تھے۔ بہرحال اس پر اتفاق ہے کہ جو فرشتہ حضور اکرمﷺ پر وحی لاتا تھا‘ وہ حضرت جبرائیل ؑ تھے۔سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوتاہے: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ}(آیت۹۷) ’’کہہ دو کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہو تو (ہوا کرے)‘ اسی نے یہ (قرآن) آپ (ﷺ)کے دل پر اُتارا ہے۔‘‘ وحی کی اس صورت میں فرشتہ انسانی شکل میں آیا کرتا تھا اور آپؐ کو کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ ’’الاتقان‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے وحی کی اس صورت کا ذکر کرکے فرمایا:((وَھُوَ اَھْوَنُہُ عَلَیَّ)) ’’اور یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ آسان ہوتی ہے۔‘‘