(عرض احوال) بُت کدئہ ہند میں تکبیر ِ ربّ کی گونج - ایوب بیگ مرزا

9 /

بُت کدہ ہند میں تکبیر ِ ربّ کی گونج

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ میدانِ جنگ میں بہادری اور شجاعت اُس وقت مطلوب اور فیصلہ کن ہوتی تھی جب میدانوں میں تلواریں اور نیزوں سے دوبدو جنگ لڑی جاتی تھی۔ آج کے ایٹمی میزائلوں کے دور میں جب بٹن دبانے سے دشمن کی سرزمین پر تباہی پھیلائی جا سکتی ہے تو جنگجوؤں کی بہادری غیر اہم ہو چکی ہے۔ ہماری رائے میں ایسا میدانِ جنگ جس میں اسلحہ کا استعمال ہو ‘ٹیکنالوجی کی تمام ترترقی کے باوجود اُس میں افراد کی بہادری اور دلیری کا رول کچھ کم تو ہو سکتا ہے‘ ختم نہیں ہو سکتا‘ جس کی موجودہ دور میں بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ البتہ اخلاقی‘ معاشرتی اور ذہنی سطح پر آج بھی بہادری اور شجاعت کا رول انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہے۔ اس حوالے سے بہادری اور دلیری کسی حق اور سچ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ کسی اہم میٹنگ میں۹۹ فیصد لوگ ایک رائے رکھتے ہوں اور آپ اکیلے الگ رائے رکھتے ہوں تو آپ کا مخالفین کی زیادہ تعداد کی رائے کا اثر قبول نہ کرنا اور اپنے برحق موقف پر ڈٹ جانا بھی بہادر ی ہے۔
اسلامی معاشرے میں بگاڑ کی وجہ سے اگر کسی مجلس میں ایک دو کے سوا تمام خواتین بے پردہ اور کم لباس ہوں تو ان ایک دو خواتین کا مکمل ستر اورحجاب میں رہنا اور ان بے پردہ خواتین کا رتی بھر اثر قبول نہ کرنا بھی بہادر ی ہے‘ کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انتہائی قلیل تعداد میں یہ مستور خواتین اجنبی بن کر رہ جائیں گی۔ لیکن اگر ملک بھارت جیسا ہو اور حکومت بی جے پی کی ہو ‘جو آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے اور صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان گائے ذبح کرتے کرتے خود ذبح ہو جائے ‘اور جس ملک میں یہ نعرہ زور دار انداز میں لگ رہا ہو ’’مسلمان کے دو استھان:پاکستان یا قبرستان‘‘ وہاں کی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کے  لیے مسلمان خواتین پر غیر آئینی‘ غیر قانونی پابندی لگا رہی ہو اور آر ایس ایس کے غنڈے کسی کالج کے باہر جمع ہو کر ایک باپردہ مسلمان عورت پر آوازیں کسیں تو اُس اکیلی عورت کا نہ گھبرانابلکہ ’’جے شری رام‘‘ کے مشرکانہ نعرے کے خلاف ربّ ِ واحد کی تکبیر کا واشگاف اعلان کرنا اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بہادری اور شجاعت کی بلند ترین سطح ہے۔ البتہ ایسی ہمت وجرأت کا اظہار تب ہی ممکن ہے جب انسان کا اپنے نظریے پر ایمان غیر متزلزل ہو بلکہ نظریہ جان سے زیادہ عزیز ہو‘ اور شہادت مطلوب و مقصود ہو اور انسان دُنیوی سود و زیاں سے بے نیاز ہو چکا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو ہندوتوا کی طرف دھکیلنے والی انتہائی متعصّب مودی حکومت اکیلی خاتون کے  ہاتھوں دُنیا بھر میں ایسی رسوا ہوئی کہ اُس کے اتحادی بھی مسلمانوں کے دشمن ہونے کے باوجود اس کا کھل کر ساتھ نہ دے سکے۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک کا اِس موقع پر کھل کر ساتھ نہ دینا درحقیقت اپنی ساکھ کو بچانے اور یہ بھرم قائم کرنے کی کوشش تھی کہ انسانی حقوق‘ خاص طور پر حقوقِ نسواں‘ جہاں کہیں بھی روندے جائیں گے ہم اُس کا نوٹس لیں گے اور اُس پر احتجاج کریں گے۔ یہ پوزیشن صرف اِس لیے لی گئی کیونکہ کسی بڑے ردّ ِ عمل سے اُنہیں بچنا تھا۔
ثبوت کے طورپر ہم بعض مغربی ممالک کا حجاب کے خلاف طرزِ عمل اور وہاں کی گئی قانون سازی قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ اسلام سے نفرت‘ اسلاموفوبک دہشت گردی کی سرپرستی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اِس رویے اور پالیسی میں فرانس مغرب کو لیڈ کر رہا ہے‘ جہاں ۲۰۱۰ء میں برقعہ پر پابندیاں لگائی گئیں اور عوامی جگہوں پر چہرہ ڈھانپنے پرپابندی ایک انتظامی آرڈر کے ذریعے نافذ کی گئی۔۲۰۲۱ء میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمان خواتین نے آن لائن احتجاج رجسٹرڈ کرایا۔ دسمبر میں فرانسیسی حکومت کا ایک اور مسلم مخالف فیصلہ آ گیا اور مسلم خواتین پر حجاب پہن کر کھیل میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ پھر چالاکی کا مظاہرہ یوں کیا گیا کہ پابندی کا جواز ڈسپلن کی خلاف ورزی کوبنایا گیا۔ فرانسیسی سینٹ بھی پیچھے نہ رہا‘ اس نے بھی جوں کی توں اِس پابندی کی منظوری دے دی۔ سپین میں۲۰۱۰ء میں برقعہ پہننے کی پابندی لگی‘ لیکن عدالت نے۲۰۱۳ء میں یہ قانون منسوخ کر دیا۔بلجیم میں۲۰۱۲ء میں برقعہ پر پابندی کا فرانس کی طرز کا ایک قانون بنایاگیا اور قانون شکنی پر ۳۸۰یورو جرمانہ اور سات دن کی قید مقرر کی گئی۔ علاوہ ازیں ڈنمارک‘ ناروے اور ہالینڈ میں بھی قانون کے ذریعے پردے پر پابندی لگا دی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ پردے اور حجاب پر پابندی ایک زبردست حکمت ِ عملی کے تحت لگائی گئی۔ علاوہ ازیں مادر پدر آزادی‘ عریاں لباس‘ بے حیائی اور فحاشی کا پھیلاؤ یہ سب ایک بڑی منصوبہ بندی کا حصّہ ہے۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ صہیونی جب سرمائے اور میڈیا کے ذریعے  یورپ کو بالواسطہ طور پر زیر ِتسلط لے آئے تو اُنھوں نے دنیا پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے غالب آنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔۱۹۰۳ء میں شائع ہونے والے یہودی صہیونی پروٹوکولز اِس خواب کی تعبیر کی طرف ایک تحریری قدم تھا۔ اُس زمانے میں سلطنت ِعثمانیہ اُن کا ہدف تھی‘ لہٰذا مسلمانوں کو خاص طور پر اِس حوالے سے ٹارگٹ کیا گیا تاکہ وہ اِن چیزوں میں ملوث ہو کر اُن کا آسان شکار بن جائیں۔ صہیونیوں نے سمجھا کہ دنیا میں اگر بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی عوام میں  زیادہ سے زیادہ پھیلائی جائے تو وہ نہ صرف اپنے اِس ایجنڈے کی طرف تیزی سے بڑھ سکیں گے بلکہ بہت سے دوسرے ممالک خود بخود اُن کے معاون اور سہولت کار بن جائیں گے۔ یہاں اس بات کا ضمنی طور پر ذکر آ جائے کہ صہیونیوں نے دنیا کو بہت سی ایسی چیزوں میں پھنسایا ہے جس سے وہ خود گریز کرتے رہے ہیں ‘مثلاً فاسٹ فوڈ وغیرہ ۔
یاد رہے اسرائیل میں باقاعدہ سرکاری طور پر فاسٹ فوڈ چھوڑنے کی ترغیب و تشویق دی جاتی ہے۔ یورپ کی ایسی صورتِ حال بنی تو علامہ اقبالؒ جیسا مفکر اِس نتیجہ پر پہنچا کہ ع ’’ فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘تب یہودیوں نے عالمی قوت کا مرکز لندن سے واشنگٹن منتقل کرالیا‘ کیونکہ امریکہ مستقبل میں عظیم ترین قوت بننے جا رہا تھا‘ جبکہ یورپ اپنی حیثیت کو قائم ودائم رکھنے کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ لہٰذا امریکہ کو مغربی یورپ کا مائی باپ بنایا اور خود اپنے سرمائے اور میڈیا کی قوت سے طاقتور امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہو گیا اور آج اس حوالے سے کافی سفر طے کر چکا ہے۔ ہماری رائے میںبھارت نادانی و حماقت اور اصلاً اسلام دشمنی میں صہیونیوں کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ بھارت کا متعصّب ہندو مسلمان دشمنی میں یہ بھول چکا ہے کہ صہیونیوں کا اصل ہدف دُنیا کا واحد حکمران بننا ہے ۔وہ امریکہ اور بھارت کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کریں گے اور خدانخواستہ اگر صہیونی اپنے مکروہ عزائم کے عین مطابق ایک عالمی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ عربوں‘ ہندوؤں اور امریکیوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ یہ اُن کے اس عقیدے کا لازمی جز وہے کہ اصل اور حقیقی انسان صرف یہودی ہیں‘باقی سب Gentile اور Goyim ہیں جو انسان نما شکل رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ غیر یہودیوں کو جانوروں کی طرح ننگا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ہندو اور عیسائی دنیا تو اُن کے عزائم نہ سمجھتے ہوئے انجانے میں صرف اسلام دشمنی میں ان صہیونیوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں‘ لیکن اُمّت ِمسلمہ ‘اگر اِس کا وجود کہیںہے‘ سب کچھ سمجھ کر اور جان بوجھ کر اپنے بدترین دشمنوں کو اپنا دوست بلکہ رہنما بنائے ہوئے ہے۔
اُمّت کو سوچنا چاہیے کہ اُن کی بیٹیوں کو عریاں کیوں کیا جا رہا ہے؟ دخترانِ اسلام کی حیا کس کے ایجنڈے کی تکمیل میں حائل ہے؟ مسلمان مَردوں کی غیرت کو دفن کرنے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے؟ اسلام کے چہرے پر بدنما داغ لگانے کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ اُمّت ِمسلمہ کے لیے لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ اسلام بحیثیت دین انسانی زندگی کے تین اجتماعی گوشوں میں سے سیاست اور معیشت پرتو صرف راہنما اصول دیتا ہے جبکہ معاشرتی گوشے کو اتنی تفصیل سے قرآن و حدیث کے ذریعے اُمّت پر کیوں واضح کرتا ہے؟ وہ مرد اور عورت کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا حکم کیوں اتنی سختی سے دیتا ہے؟ وہ صالح معاشرے کے قیام کے لیے کیوں مخلوط مجالس اور بے پردگی سے بچنے کا حکم دیتا ہے؟ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان جس کی سرشت بلکہ فطرت میںحیا رکھی گئی ہے‘ اُس کو مسخ نہ کر دے۔ تمام انسان درحقیقت اس جوڑے کی اولاد ہیں جوبھول کر شجرممنوعہ کا پھل کھا بیٹھا تھا۔ لیکن اِس بھول سے جب اُس کے پوشیدہ اعضا ءظاہر ہوئے تو اُس نے انتہائی پریشانی سے جنّت کے پتّوں سے اپنے ستر کو چھپایا۔ گویا حیا انسان کا ازلی‘ پیدائشی اور فطری جذبہ ہے‘ جسے دبانا یا ختم کرنا انسان کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ فطرت دشمن قوتیں انسان کی روحانیت بلکہ اُس کی انسانیت کے درپے ہیں۔ اُمّت ِمسلمہ کے نام نہاد پاسبانو! ذرا سوچو تو سہی‘ ایک تنہا نہتی لڑکی اپنے نظریے‘ عقیدے اور ایمان کی پختگی کی وجہ سے سینکڑوں مسلح غنڈوں کو للکارتی ہے تو اُن کے پاس رسوائی بھری پسپائی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ اگر پونے دو ارب پر مشتمل اُمّت ِمسلمہ ہمت کرکے اپنے بنیادی نظریے کو دانتوں سے پکڑ لے اور شیطان کے ایجنٹوں کو پوری قوت سے للکارے تو کیا وہ ناکام رہے گی؟
ہمت مَرداں مددِ خدا!!