سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَۃ
تمہیدی کلمات
سورۃ الممتحنہ کا نزول فتح مکّہ سے قبل اسی زمانے میں ہوا جس زمانے میں سورۃ التوبہ کے دوسرے اور تیسرے رکوع کی آیات نازل ہوئی تھیں۔یہ وہ حالات تھے جب ایک طرف رسول اللہﷺ مکّہ پر فیصلہ کن چڑھائی کی تیاری کر رہے تھے تو دوسری طرف منافقین اس ممکنہ مہم کے خلاف پراپیگنڈے میں سرگرم عمل تھے ۔ (سورۃ التوبہ کے تمہیدی کلمات میں ان حالات پر تفصیل سے تبصرہ کیا جا چکا ہے۔)ان لوگوں کے بعض دلائل ایسے تھے جن سے نومسلم ضعفاء بھی کسی نہ کسی حد تک متأثر ہو رہے تھے ۔ مثلاً اس حوالے سے ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ قریش ِ مکّہ جیسے بھی ہیںآخر وہ حرم کے متولی ہیں اور حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں‘لہٰذا اُن کی ان نیکیوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ منافقین کے ایسے اعتراضات کے جوابات سورۃ التوبہ کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں دیے گئے ہیں۔
اسی دوران وہ واقعہ بھی رونما ہوا جس کا ذکر اس سورہ کے آغاز میں آیا ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ حضورﷺ مکّہ پر چڑھائی کا منصوبہ مکمل طور پر خفیہ رکھنا چاہتے تھے‘ تاکہ قریش کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہ ملنے پائے۔ لیکن ایک صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ سے یہ بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے سردارانِ قریش کو ایک خفیہ خط کے ذریعے اس اہم جنگی راز کی اطلاع کرنے کی کوشش کی۔ حضرت حاطبؓ انتہائی مخلص مسلمان اور بدری صحابی تھے۔ ان ؓکے اہل و عیال اور کنبے کے کچھ لوگ اُس وقت تک مکّہ مکرمہ میں تھے۔ انہیں پریشانی لاحق تھی کہ مسلمانوں کی مکّہ پر لشکر کشی کی صورت میں قریش ان کے اہل خانہ کو انتقام کا نشانہ بنائیں گے۔ اس اندیشے کے پیش نظر انہوں نے حملے کی پیشگی اطلاع دے کر قریش ِ مکّہ پر گویا ایک بہت بڑا احسان کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ شاید اس احسان کا لحاظ رکھتے ہوئے وہ ان کے اہل و عیال کو کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔حضرت حاطبؓ نے مذکورہ خط ایک عورت کو دیا جو مکّہ جا رہی تھی اور اسے تاکید کی کہ وہ اسے مکمل رازداری سے فلاں شخص تک پہنچا دے۔ اس عورت کے مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضورﷺ کو اس بارے میں مطلع فرما دیا۔ حضورﷺ نے حضرت علیؓ‘ حضرت زبیرؓ اور حضرت مقداد بن اسودؓ کو اس عورت کے پیچھے روانہ کیا‘ انہیں تیزی سے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ مکّہ کے راستے میں روضۂ خاخ کے مقام پر آپ لوگوں کو ایک عورت ملے گی ‘اس کے پاس ایک خط ہے‘ وہ خط اس سے لے کر واپس آ جائو۔ حضرت علیؓ تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے حضورﷺ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے تو وہ عورت وہاں موجود تھی۔ آپؓنے خط مانگا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپؓنے فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کی دی گئی اطلاع غلط نہیںہو سکتی ‘لہٰذا تم سیدھے طریقے سے خط ہمارے حوالے کردو‘ ورنہ ہم تمہیں برہنہ کر کے تمہاری تلاشی لیں گے۔ اس پر عورت نے خط اپنی چٹیا سے نکال کر آپؓ کے حوالے کر دیا۔حضورﷺ نے جب حضرت حاطب ؓکو بلا کر پوچھا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔انہوں نے عرض کیا کہ آپﷺ میرے معاملے میں جلدی نہ فرمائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے اہل خانہ مکّہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں‘بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں۔ میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جو میرے اہل خانہ کو بچا سکے۔ اس لیے مَیں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے اہل و عیال کو نقصان نہ پہنچائیں۔ حضرت عمرؓ موقع پر موجود تھے‘ انہوںنے اٹھ کر عرض کیا :یارسول اللہؐ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں‘ اس نے اللہ اور اُس کے رسولؐ اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں! حاطبؓ سے غلطی ضرور ہوئی ہے ‘ لیکن یہ بدری صحابی ہے اور اللہ تعالیٰ بدری صحابہؓ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر چکا ہے‘ امید ہے وہ اس کی یہ خطا بھی معاف فرما دے گا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رو دیے اور انہوں نے کہا کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ زیر مطالعہ سورت کی پہلی آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
آیات ۱ تا ۶
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْکَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَکُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ۭ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِھَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِیْ ڰ تُسِرُّوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ڰ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ۭ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِیْلِ (۱) اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَاۗءً وَّ یَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ وَاَلْسِنَتَھُمْ بِالسُّوْۗءِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ (۲) لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ ڔ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ڔ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۳) قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ۡ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَمَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ ۭ رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَاوَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ (۴) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۵) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (۶)
آیت ۱{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَـآئَ} ’’اے اہل ِایمان! تم میرے دشمنوںاور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو‘‘
یعنی تم لوگ کُفّار و مشرکین کی خیر خواہی اور بھلائی کا مت سوچو۔ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے اور اچھے تعلقات بنانے کی کوشش مت کرو۔ان آیات کا نزول اس وقت ہوا جب سردارانِ قریش کے نام حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کا خط پکڑاگیا۔
{تُـلْقُوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ}’’تم ان کی طرف دوستی اور محبّت کے پیغامات بھیجتے ہو‘‘
{وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ ج}’’حالانکہ انہوں نے انکار کیا ہے اُس حق کاجو تمہارے پاس آیا ہے۔‘‘
{یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ}’’وہ رسولؐ کو اور تم لوگوں کو صرف اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں‘‘
{اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہ ِ رَبِّکُمْ ط}’’کہ تم ایمان رکھتے ہو اللہ ‘اپنے رب پر ۔‘‘
{اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ ق}’’اگر تم نکلے تھے میرے راستے میں جہاد کرنے اور میری رضاجوئی کے لیے (تو تمہارا یہ طرزِعمل اس کے منافی ہے)‘‘
{تُسِرُّوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِق}’’تم انہیں خفیہ پیغامات بھیجتے ہو محبّت اور دوستی کے‘‘
{وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَـآ اَعْلَنْتُمْ ط}’’اور مَیں خوب جانتا ہوں جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘
{وَمَنْ یَّـفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ(۱)}’’اور جو کوئی بھی تم میں سے یہ کام کرے تووہ یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘
یہ طویل آیت مدنی سورتوں کے عمومی مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔
آیت۲ {اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآئً}’’اگر وہ تمہیں کہیں پا لیں تو وہ تمہارے ساتھ دشمنی کریں گے‘‘
{وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْٓئِ}’’اور تمہاری طرف بڑھائیں گے وہ اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں بُرے ارادے کے ساتھ ‘‘
تم تو ان کی طرف دوستی کے پیغامات بھیج رہے ہو ‘لیکن اگر تم کہیں ان کے ہتھے چڑھ جائو تو وہ تمہارے ساتھ دشمنی کا ہر حربہ آزمائیں گے ‘ تم پر دست درازی بھی کریں گے اور زبان درازی بھی‘ اور تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھیںگے۔
{وَوَدُّوْا لَوْ تَـکْفُرُوْنَ(۲)}’’اور ان کی شدید خواہش ہو گی کہ تم بھی کافر ہو جائو۔‘‘
آیت ۳{لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْج یَوْمَ الْقِیٰمَۃِج} ’’تمہیں ہرگز نفع نہیں پہنچائیں گے تمہارے رحمی رشتے اور نہ تمہاری اولادیں ‘قیامت کے دن۔‘‘
{ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ ط} ’’ اللہ فیصلہ کر دے گا تمہارے مابین۔‘‘
{وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۳)} ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہواللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
آیت۴ {قَدْ کَانَتْ لَـکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ج} ’’تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم ؑاور ان کے ساتھیوں (کے طرزِعمل) میں۔‘‘
{اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ ِز} ’’جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم بالکل بَری ہیں تم سے اور اُن سے جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔‘‘
ہم تم سے بھی اور ان سے بھی اعلانِ براء ت اور اظہارِ لاتعلقی کرتے ہیں۔
{کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا} ’’ ہم تم سے منکر ہوئے‘ اور اب ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ہمیشہ کے لیے‘‘
{حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللہ ِ وَحْدَہٗٓ } ’’یہاں تک کہ تم بھی ایمان لے آئو اللہ پر توحید کے ساتھ‘‘
گویا حضرت ابراہیمؑ اور آپؑ کے ساتھی اہل ِایمان اپنے کافراعزّہ و اقارب کے لیے ننگی تلوار بن گئے۔ یہاں یہ اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ ’’حزبُ اللہ‘‘ والوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جدّوجُہد کرتے ہوئے اپنے رحمی رشتوں کو کاٹ پھینکنے کا مشکل مرحلہ بھی لازماً طے کرنا پڑتا ہے ۔جیسا کہ سورۃ المجادلہ کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے:{لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّـؤْمِنُوْنَ بِاللہ ِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ ط}(آیت ۲۲)’’تم نہیں پائو گے اُن لوگوں کو جوحقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یومِ آخرت پر کہ وہ محبّت کرتے ہوں ان سے جو مخالفت پر کمر بستہ ہیں اللہ کی اور اُس کے رسول(ﷺ) کی‘ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے رشتے دار ہوں‘‘۔چنانچہ اسی اصول کے مطابق حضرت ابراہیمؑ اور آپؑ کے اہل ِایمان ساتھیوں نے اپنی قوم‘ برادری اور رشتہ داروں سے نہ صرف اظہارِ لاتعلقی کیا بلکہ انہیں کھلم کھلا عداوت اور مخالفت کا چیلنج بھی دے دیا۔
{اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ} ’’سوائے ابراہیم ؑکے اپنے باپ سے یہ کہنے کے کہ مَیں آپ کے لیے ضرور استغفار کروں گا‘‘
یہ حضرت ابراہیمؑ کی اپنے والد کے ساتھ اس گفتگو کاحوالہ ہے جس کی تفصیل سورئہ مریم میں آئی ہے۔ اس موقع پر باپ بیٹے کے درمیان جو آخری مکالمہ ہوا وہ یہ تھا : {قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓــاِبْرٰہِیْمُ ج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا(۴۶) قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَ ج سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا(۴۷)} ’’اُس نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم کنارہ کشی کررہے ہو میرے معبودوں سے؟اگر تم اس سے باز نہ آئے تو مَیں تمہیں سنگسار کر دوں گا‘ اور تم مجھے چھوڑ کر چلے جائو ایک مدّت تک۔ ابراہیمؑ نے کہا: آپ پر سلام! مَیں اپنے رب سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا‘ وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے‘‘۔آیت زیر مطالعہ میں حضرت ابراہیمؑ کے اسی وعدے کا حوالہ آیا ہے۔
{وَمَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہ ِ مِنْ شَیْ ئٍ ط} ’’اور مَیں آپ کے بارے میں اللہ کے ہاں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
مَیں آپ کے لیے دعا ضرور کروں گا‘ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرے نہ کرے ‘ وہ آپ کو معاف کرے نہ کرے‘ یہ اس کا اختیار ہے۔
اس ضمن میں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ سورئہ مریم کی مذکورہ آیات ہجرت سے پہلے مکّہ میں نازل ہوئی تھیں اور زیر مطالعہ آیت ۸ ہجری میں فتح مکّہ سے قبل نازل ہوئی۔ ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ کے جس وعدے کا ذکر ہے اس سے متعلق آخری حکم سورۃ التوبہ کی اس آیت میں آیاہے ‘جو ۹ ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی: {وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُج فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَـہٗٓ اَنَّـہٗ عَدُوٌّ لِلہِ تَـبَرَّاَ مِنْہُ ط اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴)} ’’اور نہیں تھا استغفار کرنا ابراہیم ؑ کا اپنے والد کے حق میں مگر ایک وعدے کی بنیاد پر جو انہوں نے اُس سے کیا تھا‘ اور جب آپؑ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپؑ نے اس سے اعلانِ بیزاری کر دیا۔یقیناً ابراہیم ؑبہت دردِ دل رکھنے والے اور حلیم الطبع انسان تھے‘‘۔چنانچہ سورۃ التوبہ کی یہ آیت جو ۹ ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی‘ محکم تصوّر ہو گی اور پہلی آیات اس کے تابع سمجھی جائیں گی۔
{رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ(۴)} ’’ پروردگار! ہم نے تجھ پر ہی تو کّل کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
آیت ۵{رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا}’’ پروردگار! تُو ہمیں کافروں کے لیے تختہ امتحان نہ بنا دینا‘‘
اے ہمارے پروردگار! ایسا نہ ہو کہ تُو کافروں کو ہمارے ذریعے سے آزمائے۔ ایسا نہ ہو کہ تُو انہیں آزمانے کے لیے ہم پر ظلم کرنے کی چھوٹ دے دے ۔ کسی کے لیے فتنہ یا تختۂ مشق بننے کے مفہوم کوحضورﷺ کے مکّی دور میں مسلمانوں اور مشرکین کی مثال سے سمجھنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ مشرکینِ مکّہ کی رسّی دراز کر کے انہیں آزمانا چاہتا تھا کہ ٹھیک ہے تم میرے بندوں پر جتنا ظلم کر سکتے ہو کر لو! میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کس حد تک جاتے ہو! لیکن مشرکین کی اس آزمائش میں تختۂ ستم تو ظاہر ہے مسلمان بنے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے ایسی آزمائش سے بچانے کی درخواست کی گئی ہے۔
{وَاغْفِرْلَـنَا رَبَّنَاج اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۶)}’’اور تُو ہمیں بخش دے‘ اے ہمارے پروردگار! یقیناً تُو ہی زبردست اور حکمت والاہے۔‘‘
آیت ۶{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}’’تمہارے لیے یقیناً ان (کے طرزِعمل) میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے‘‘
لیکن یہ نمونہ اور اُسوہ فائدہ مند کس کے لیے ہو سکتا ہے؟
{لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَط} ’’اُس کے لیے جو اللہ تعالیٰ (سے ملاقات) اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہو۔‘‘
بالکل یہی الفاظ سورۃ الاحزاب میں حضورﷺ کے اُسوہ کے حوالے سے آئے ہیں: {لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہ ِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱)} یعنی حضورﷺ کی شخصیت اور سیرت یقیناً اُسوۂ کاملہ ہے‘ لیکن ا س سے مستفیض صرف وہی لوگ ہو سکیں گے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوں۔
{وَمَنْ یَّـتَوَلَّ فَاِنَّ اللہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (۶)} ’’اور جو کوئی منہ موڑ لے تو یقیناً اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں خود ستودہ صفات ہے۔‘‘
آیات ۷ تا ۹
عَسَی اللہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً ۭ وَاللہُ قَدِیْرٌ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۷) لَا یَنْھٰىکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ ۭ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (۸) اِنَّمَا یَنْھٰىکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ ۚ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۹)
آیت ۷{عَسَی اللہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃًط} ’’بعید نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے‘ دوستی پیدا کر دے۔‘‘
ظاہر ہے اگر وہ بھی ایمان لے آئیں گے تو وہ تمہار ے بھائی بن جائیں گے‘ جیسا کہ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱ میں فرمایا گیا :{فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ط} ’’پھر بھی اگر وہ توبہ کرلیں‘نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں‘‘۔اور یہ مرحلہ کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ زیرمطالعہ آیات فتح مکّہ سے قبل ۸ ہجری میں نازل ہوئیں اور اس سے اگلے ہی سال فتح مکّہ کے بعد ۹ ہجری میں مشرکین ِ عرب کو چار ماہ کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ یا ایمان لے آئو‘ یا سب قتل کر دیے جائو گے۔ اس کے نتیجے میں سب لوگ ایمان لاکر اسلامی بھائی چارے میں شامل ہوگئے۔آیت زیرمطالعہ میں دوستی اور محبّت کے اسی رشتے کی طرف اشارہ ہے جو ان کے درمیان ایک سال بعد بننے والا تھا۔
{وَاللہُ قَدِیْرٌط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۷)} ’’اللہ ہر شے پر قادر ہے ‘اور اللہ بہت بخشنے والا ‘بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
آیت ۸{لَا یَنْہٰىکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَـرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَـیْہِمْ ط} ’’اللہ تمہیں نہیں روکتا ان لوگوں سے جنہوںنے دین کے معاملے میں تم سے کبھی جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ کوئی بھلائی کرو یا انصاف کامعاملہ کرو۔‘‘
یعنی وہ غیر حربی کافر‘ جن کے ساتھ تمہاری جنگ نہیں ہے ‘تم لوگوں کو مکّہ سے بے دخل کر نے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی کبھی مدد کی ہے‘ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا سلوک روا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ایسے لوگوں کے ساتھ دنیوی معاملات کے حوالے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں۔ البتہ ولایت کا رشتہ اور قلبی محبّت کا تعلق ان کے ساتھ بھی قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
{اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۸)} ’’بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
آیت ۹ {اِنَّمَا یَنْہٰىکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ ج}’’وہ تو تمہیں منع کرتا ہے اُن لوگوں سے جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں دوسروںکی مدد کی کہ تم ان کے ساتھ ولایت اور دوستی کا رشتہ قائم کرو۔‘‘
{وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۹)} ’’اور جو کوئی ان کے ساتھ دوستی کرے گا تو وہی لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔‘‘
اب اگلی آیات میں خواتین سے متعلق چند مسائل کا ذکر آ رہا ہے جو صلح حدیبیہ (۶ ہجری) کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکّہ سے بھاگ کر مدینہ آئے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے‘ لیکن اگر مدینہ سے کوئی مسلمان اپنا دین چھوڑ کر واپس مکّہ آجائے گا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد چند مسلمان خواتین مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قریش کی طرف سے مطالبہ آیا کہ انہیں واپس کیا جائے۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ معاہدے کی متعلقہ شق مَردوں (رِجَال) سے متعلق ہے‘ اس میں عورتوں(نِسَاء) کا ذکر نہیں ہے ‘اس لیے ان خواتین کو واپس نہیں کیا جائے گا ۔ اس مثال کے بعد مکّہ سے کچھ مزید خواتین بھی آنا شرو ع ہو گئیں تو ایسی مہاجر خواتین کے بارے میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خدشہ یہ تھا کہ ہجرت کے نام پر مشرک عورتیں جاسوسی وغیرہ کے لیے مکّہ سے مدینہ آ کر آباد نہ ہو جائیں اور ان کی وجہ سے بعد میں مسلمان معاشرے میں کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ پھر ان میں کچھ ایسی شادی شدہ خواتین بھی تھیں جو اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر آ رہی تھیں۔ ان کے بارے میں بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب کا متقاضی تھا کہ کیا وہ مسلمان ہوجانے کے بعد بھی مشرک شوہروں کی زوجیت میں ہیں یا کہ آزاد ہو چکی ہیں ؟اور اسی معاملے سے متعلق یہ مسئلہ بھی اہم تھا کہ کسی ایسی عورت کے مدینہ آ جانے کے بعد کیا کوئی مسلمان اس سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟چنانچہ اگلی دو آیات میں ان مسائل سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں ۔جبکہ اس کے بعد ایک آیت میں مسلمان خواتین کی بیعت کا ذکر ہے ۔قرآن مجید میں ذکر تو مَردوں کی بیعت (بیعت رضوان)کا بھی ہے‘ لیکن اس بیعت کے الفاظ کیا تھے‘ یابیعت ِعقبہ اولیٰ اور بیعت ِعقبہ ثانیہ کا مضمون کیا تھا؟یہ تفصیل ہمیں احادیث سے ملتی ہے ‘قرآن مجیدمیں ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہاں خواتین کو مَردوں پر ایک طرح سے فضیلت دی گئی ہے کہ آیت ۱۲ میں ان کی بیعت کے حکم کے ساتھ بیعت کا پورا متن بھی دے دیا گیا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواتین کو یہ خصوصی انعام ان کے حقوق کے پلڑے کا توازن درست رکھنے کے لیے دیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ قوانین و ضوابط اور حقوق و فرائض کی خصوصیت ہی یہی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے متوازن ہیں۔ اگر کسی معاملے میں کوئی ایک حکم زیادہ سخت ہو تو اس کے پہلو میں کہیں کوئی نرم قانون بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر کہیںکسی کے فرائض کا وزن زیادہ ہو رہا ہو تو اس کے حقوق کے پلڑے میں کچھ مزید ڈال کر اس کی میزان کو برابر کر دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے حقوق وفرائض ہی کی مثال لے لیں ۔ قرآن مجید نے طلاق کا حق صرف خاوند کو دیا ہے‘اس کے مقابلے میں بیوی صرف خلع لے سکتی ہے‘ طلاق نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر میاں بیوی میں طلاق ہو جائے تو اولاد قانوناًوالد کی شمار ہوتی ہے ۔ ان دو مثالوں سے خاوندکے حقوق یا اختیارات کا پلڑا غیر معمولی طور پر جھکتا ہوا نظر آتا ہے‘ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو اولاد کے لیے ماں کا حق باپ کے حق کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رکھا گیا ہے اور جنّت کی بشارت صرف ماں کے قدموں کے حوالے سے دی گئی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے قوانین و ضوابط کو متوازن بناتے ہیں اور ہر کسی کے حقوق وفرائض کی ترازو کے ہر دو پلڑوں کو برابر رکھتے ہیں۔
آیات ۱۰‘۱۱
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّ ۭ اَللہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِھِنَّ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْھُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ ۭ لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ ۭ وَاٰتُوْھُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ ۭ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ۭ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللہِ ۭ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (۱۰) وَاِنْ فَاتَکُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ اَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا ۭ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ (۱۱)
آیت۱۰{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ط} ’’اے اہل ِایمان! جب تمہارے پاس آئیں مؤمن خواتین ہجرت کرکے تو ان کا امتحان لے لیا کرو۔‘‘
یعنی ہر خاتون سے ضروری حد تک جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کر لیا کرو کہ آیا واقعی وہ سچّی اور مخلص مؤمنہ ہے۔
{اَللہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ ج} ’’اللہ تو ان کے ایمان کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘
کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘اور اگر ہے تو کتنا ایمان ہے‘ اس کا صحیح علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ تم لوگ اپنے طور پر کسی کے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ۔ لیکن محض ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر مناسب طریقے سے کسی نہ کسی درجے میں ایک اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کیا کرو کہ ہجرت کرنے والی خواتین کیا واقعی مؤمنات ہیں اور کیا واقعی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہجرت کرکے مدینہ آئی ہیں۔
{فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ} ’’پھر اگرتم جان لوکہ وہ واقعی مؤمنات ہیں‘‘
{فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِط} ’’تو انہیں کُفّار کی طرف مت لوٹائو۔‘‘
{لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ط} ’’نہ اب یہ ان (کافروں)کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘
{وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْاط} ’’اور ان (کافروں) کو اد ا کر دو جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا۔‘‘
یعنی ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیے تھے وہ انہیں بھجوا دو۔ اگر کسی مشرک کی بیوی مسلمان ہو کر مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئی ہے تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی‘ ان کے درمیان تعلق ِزوجیت ختم ہو چکا ہے‘ لیکن عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی وہ رقم جو وہ شخص اس خاتون کو اپنی بیوی کی حیثیت سے ادا کر چکا ہے وہ اسے لوٹا دی جائے۔ اس حکم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام بلاتفریق مذہب و ملّت کسی حق دار کا حق اس تک پہنچانے کے معاملے کوکس قدر سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اور یہ سنجیدگی یا تاکید صرف قانون سازی کی حد تک ہی نہیں بلکہ حضورﷺ نے قرآنی قوانین و احکام کے عین مطابق ایسا نظامِ عدل و قسط بالفعل قائم کر کے بھی دکھا دیاجس میں حق دار کو تلاش کر کے اس کا حق اس تک پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓکے دورِ خلافت میں شام کے محاذ پر حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ سپہ سالار تھے ۔ انہوں نے رومیوں کے خلاف یرموک کے میدان میں صدی کی سب سے بڑی جنگ لڑی۔ جنگ یرموک کی تیاری کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت کچھ مفتوحہ علاقوں کو خالی کر کے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان علاقوں کی عیسائی رعایا سے مسلمان جزیہ وصول کرچکے تھے ۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذِمّہ داری کے عوض وصول کرتی ہے۔اسی لیے یہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری ’’ذِمّی‘‘ کہلاتے ہیں۔ بہرحال مذکورہ علاقوں سے مسلمان وقتی طور پر چونکہ واپس جا رہے تھے اور اپنی غیر مسلم رعایا کے جان و مال کی حفاظت کی ذِمّہ داری نبھانے سے قاصر تھے ‘اس لیے حضرت ابوعبیدہؓ کے حکم پر جزیہ کی تمام رقم متعلقہ افراد کو واپس کر دی گئی۔ مسلمانوں کے اس عمل نے عیسائیوںکو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے واپس جانے پر وہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ۔ یہ ہے اس دین کے نظامِ عدل و قسط کے تحت حق دار کو اس کا حق پہنچانے کی ایک مثال‘ جس کے ماننے والوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مہر کی رقوم ان کے مشرک شوہروں کو لوٹا دیں۔
{وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ط} ’’اور (اے مسلمانو!) تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان خواتین سے نکاح کر لو جبکہ تم انہیں ان کے مہر ادا کر دو۔‘‘
{وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} ’’اور تم کافر خواتین کی ناموس کو اپنے قبضے میں نہ رکھو‘‘
یعنی اگر تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں ایمان نہیں لائیں اور ابھی تک مکّہ ہی میں ہیں تو تم ان کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو‘ بلکہ انہیں طلاق دے دو اور انہیں بتا دو کہ اب تمہار اان سے کوئی تعلق نہیں۔
{وَاسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْاط}’’اور تم مانگ لو وہ مال جو تم نے (بطورِ مہر) خرچ کیا ہے ‘اور وہ (کافر) بھی مانگ لیں جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے۔‘‘
یعنی جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو‘ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔
{ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللہ ِط یَحْکُمُ بَیْنَـکُمْ ط} ’’یہ اللہ کا حکم ہے ‘ وہ تمہارے مابین فیصلہ کر رہا ہے۔‘‘
{وَاللہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (۱۰)} ’’اور اللہ سب کچھ جاننے والا‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘
آیت۱۱{وَاِنْ فَاتَـکُمْ شَیْ ئٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ}’’اور اگر تمہاری بیویوں (کے مہر میں) سے کچھ کُفّار کی طرف رہ جائے‘‘
اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مسلمان مرد ہجرت کر کے مدینہ آ گیا اور اس کی مشرکہ بیوی مکّہ میں ہی رہ گئی ۔ بعد میں اس مسلمان نے اس خاتون کو پیغام بھجوایا کہ میرا تمہارا تعلق ِزوجیت ختم ہو چکا ہے لہٰذا تم مہر کی رقم مجھے لوٹا دو۔ اب اگر اس عورت نے مہر کی رقم واپس نہیں کی تو اس مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا کرنا ہے۔
{فَعَاقَـبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْاط} ’’توجب تمہیں موقع ہاتھ آ جائے تو جن لوگوں کی بیویاں جاتی رہی ہیں انہیں اتنی رقم ادا کردو جتنی انہوں نے خرچ کی ہے۔‘‘
اگر کسی جنگ سے تمہیں کچھ مالِ غنیمت ملے تو اس میں سے ان لوگوں کو تلافی کے طور پر کچھ مال دے دو جن کی بیویاں ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کی زوجیت میں نہیں رہیں اور وہ انہیں مہر کی رقوم بھی لوٹانے کو تیار نہیں‘ تاکہ اس رقم سے مہر ادا کر کے وہ لوگ مکّہ سے ہجرت کر کے آنے والی ان خواتین سے نکاح کر سکیں جن کے مشرک خاوند مکّہ میں رہ گئے ہیں۔
{وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ(۱۱)}’’اور اُس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔‘‘
آیات ۱۲‘۱۳
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَاۗءَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللہَ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۲) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیْھِمْ قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ(۱۳)
آیت ۱۲{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ}’’اے نبی(ﷺ) جب آپ کے پاس آئیں مؤمن خواتین آپ سے بیعت کرنے کے لیے‘‘
اب آگے بیعت کا وہ متن دیاگیا ہے جس کاذکر سطورِ بالا میں ہوا تھا:
{عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللہ ِ شَیْئًا}’’اس بات پر کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی‘‘
{وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ}’’اور نہ چوری کریں گی ‘ نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی‘‘
{وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ}’’اور نہ وہ کوئی بہتان باندھیں گی جو اُن کے ہاتھوں اور پائوں کے مابین سے ہو‘‘
یعنی یہ کہ وہ کسی پر زنا کی تہمت نہیں لگائیں گی‘کوئی جنسی سکینڈل نہیں گھڑیںگی۔ اس تہمت کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی عورت کسی مرد پر الزام لگا دے کہ اُس نے اس کی آبروریزی کی ہے۔ ایسے الزامات انبیاء کرامؓ پر بھی لگتے رہے ہیں۔ اس بیعت کی آخری شق یہ ہے کہ:
{وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ}’’اور وہ آپؐ کی نافرمانی نہیں کریں گی معروف میں‘‘
{فَـبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ ط اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۲)}’’تو (اے نبیﷺ) آپ ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے استغفار کریں۔یقیناً اللہ بہت بخشنے والا‘ بہت رحم کرنے و الا ہے۔‘‘
احادیث میں بیعت ِعقبہ اولیٰ کا جو مضمون ملتا ہے وہ بھی خواتین کی اس بیعت کے مضمون سے ملتا جلتا ہے‘ اسی لیے بیعت ِعقبہ اولیٰ کو ’’بیعت النساء‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ کے زمانے تک اہل ِایمان چونکہ ایک باقاعدہ جماعت کی شکل میں منظّم نہیں ہوئے تھے اس لیے اس بیعت کے مضمون میں جماعتی نظم و ضبط سے متعلق کوئی شق موجود نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں صوفیاء اپنے عقیدت مندوں سے جو ’بیعت ِارشاد‘ لیتے ہیں اس کا مضمون بھی تقریباً انہی نکات پر مشتمل ہوتا ہے کہ مَیں شرک نہیں کروں گا‘ چوری نہیں کروں گا‘ بدکاری نہیں کروں گا‘ وغیرہ ۔ گویا بیعت ِعقبہ اولیٰ ‘بیعت ِخواتین اور بیعت ِارشاد تینوں کا مضمون تقریباً ایک ہی ہے ۔البتہ وہ بیعت جس کی بنیاد پر مسلمان باقاعدہ ایک جماعت کے طور پر منظّم ہوئے وہ بیعت ِعقبہ ثانیہ ہے۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت کردہ ایک متفق علیہ حدیث میں اس بیعت کے مضمون کا پورا متن موجود ہے۔ حضرت عبادہؓ بن صامت روایت کرتے ہیں: بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِﷺکہ ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسولﷺ سے عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ اس بات پر کہ ہم آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور اطاعت کریں گے فِی الْعُسْرِ تنگی اور مشکل میں بھی وَالْیُسْرِاور آسانی میں بھی وَالْمَنْشَطِ اور اس حالت میں بھی کہ ہماری طبیعتوں میں انشراح ہو کہ ہاں یہ کام واقعی بہت مفید ہے اور درست ہے وَالْمَکْرَہِ اور اس حالت میں بھی کہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے۔ یعنی ہمیں کسی فیصلے سے اتفاق نہ ہو تب بھی ہم آپؐ کا فیصلہ مانیں گے۔ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا اور اس کے باوجود کہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دی جائے ۔یعنی ہمارے مقابلے میں اگر کسی نووارد کو بھی امیر بنا دیا جائے گا تب بھی ہم اعتراض نہیں کریں گے۔ وَعَلٰی اَنْ لَا نُـنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اور جنہیں آپؐ ذِمّہ دار یا امیر بنائیں گے ان سے ہم جھگڑا نہیں کریں گے ‘بلکہ ان کا ہر حکم مانیں گے۔
[ اطاعت اُمراء کے حوالے سے حضورﷺ کا یہ فرمان بہت اہم ہے:((مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ))’’جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے )امیر کی اطاعت کی اُس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے) امیر کی نافرمانی کی اُس نے گویامیری نافرمانی کی‘‘۔ (صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ…)]
وَعَلٰی اَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا اور یہ کہ ہم حق بات ضرور کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں گے لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام‘ باب کیف یبایع الامام الناس‘ وکتاب الفتن‘ باب قول النبیﷺ سترون بعدی امورا تنکرونھا۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ …) اور ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے خوف سے اپنی زبان بند نہیں کریں گے۔
بیعت ِعقبہ ثانی کے اس مضمون کو ہم نے صرف ایک فقرے کے اضافے کے ساتھ تنظیم اسلامی کی بیعت کے لیے اختیار کیا ہے اور وہ اضافی فقرہ یہ ہے : اُبَایِعُ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ کہ مَیں بیعت کرتا ہوں اس بات پر کہ ہر وہ حکم سنوں گا اور مانوں گا جو شریعت کے دائرے سے باہر نہ ہو!آج ایسی کسی بھی بیعت کے لیے اس فقرے کا اضافہ اس لیے ضروری ہے کہ حضورﷺ کی اطاعت تو مطلق تھی‘ آپؐ کا تو ہر حکم ہی معروف کے دائرے میں تھا‘لیکن آپؐکے بعد کسی بھی شخصیت کی مطلق اطاعت پر بیعت کرنا درست نہیں۔ اسی لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی خلیفہ بننے پر صحابہ کرامؓ سے جو بیعت لی وہ بھی مشروط تھی۔ یعنی آپؓ کی بیعت کرنے والا ہر شخص آپؓکا صرف وہی حکم ماننے کا پابند تھا جو قرآن و سُنّت کے دائرے کے اندرہو۔
بیعت ِعقبہ ثانیہ کے مذکورہ مضمون کا تعلق ایک جماعت اور تنظیم کے نظم و نسق سے ہے۔ چنانچہ اسی بیعت کی بنیاد پر حضورﷺ نے ایک مضبوط جماعت منظّم فرمائی اور مدینہ منورہ میں بارہ نقیب (نو قبیلہ خزرج اور تین قبیلہ اوس سے) مقرر فرما کر اہل ِا یمان کی جماعت کے ذیلی تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد بھی رکھ دی ۔اس سے پہلے مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اور تمام اہل ایمان مکّہ کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ مکّہ ایک چھوٹا سا شہر تھا اور اہل ِایمان کے امیر یا سربراہ کی حیثیت سے حضورﷺ خودشہر میں موجود تھے۔ اس لیے کوئی نقیب یا ذیلی امیر مقرر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب مسلمان مکّہ سے دور مدینہ میں بھی موجود تھے اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہورہا تھا اس لیے وہاں حضورﷺ نے الگ تنظیمی ڈھانچہ تشکیل فرمایا۔
جماعتی زندگی میں عملی جدّوجُہد کے دوران چونکہ جہاد و قتال کے مراحل بھی آتے ہیں اور ایسے مراحل میں خواتین بالواسطہ طور پر ہی حصّہ لیتی ہیں ‘اس لیے حضرت عبادہ بن صامتؓ کے روایت کردہ متن کے مطابق خواتین سے بیعت ِجہاد نہیں لی گئی ‘بلکہ ان سے آیت زیر مطالعہ کے مضمون کے مطابق ہی بیعت لی گئی کہ وہ فلاں فلاں اَفعال نہیں کریں گی اور حضورﷺ جو بھی بھلائی کا حکم دیں گے اس کی نافرمانی نہیں کریں گی۔
ہمارے ہاں تنظیم اسلامی میں بھی خواتین سے بیعت کے لیے بعینہٖ یہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس آیت میں آئے ہیں۔ دراصل خواتین کی بیعت سے مقصود یہ نہیں کہ وہ بھی غلبہ ٔ دین کی جدّوجُہد میں مَردوں کی طرح عملی کردار ادا کریں یا جہاد و قتال میں حصّہ لیں‘بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جماعتی زندگی کے ساتھ تعلق کی بنا پر {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} کے حکم کی مصداق بن کر جماعتی زندگی کے فیوض و برکات سے وہ بھی بہرہ ور ہوتی رہیں اور جماعتی زندگی کے لزوم سے متعلق احکامات پر بھی ان کا عمل ہوتا رہے ۔ لزومِ جماعت کے حوالے سے حضورﷺ کی درج ذیل احادیث بہت قطعی اور واضح ہیں:
(۱) ((عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ، وَاِیَّاکُمْ وَالْـفُرْقَـۃَ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَھُوَ مِنَ الْاِثْـنَـیْنِ اَبْعَدُ))(سنن الترمذی‘ کتاب الفتن‘ باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)
’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے‘ اور تم تنہا مت رہو‘ اس لیے کہ اکیلے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے‘ لیکن اگر دو (مسلمان) ایک ساتھ رہیں تو وہ دُور ہو جاتا ہے۔‘‘
(۲) حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((یَدُ اللہِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ، ومَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ)) (سنن الترمذی‘ کتاب الفتن‘ باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)
’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ‘اور جو شخص خود کو جماعت سے کاٹ لیتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔‘‘
جماعتی زندگی کی اہمیت اور ’’جماعت‘‘ کے ڈسپلن سے متعلق حضرت عمرؓ کا یہ فرمان بھی بہت واضح ہے:
اِنَّــہٗ لَا اِسْلَامَ اِلَّا بِجَمَاعۃٍ وَلَا جَمَاعَۃَ اِلَّا بِاِمَارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلَّا بِطَاعَۃٍ (سنن الدارمی‘ المقدمۃ‘ باب فی ذھاب العلم)
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نہیں ہے بغیر جماعت کے ‘اور کوئی جماعت نہیں ہے بغیر امارت کے‘ اور امارت کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے ساتھ اطاعت نہ ہو۔‘‘
بہرحال جماعت سازی کا مسنون‘ منصوص اور ماثور طریقہ بیعت کا طریقہ ہی ہے‘لیکن آج کل اکثر دینی جماعتوں نے یہ مسنون طریقہ ترک کر کے دوسرے طریقے اپنا لیے ہیں۔ اگرچہ رائج الوقت سب طریقے بھی مباح ہیں ‘لیکن ظاہر ہے مباح اور سُنّت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی لیے ہم نے تنظیم اسلامی کی اساس بیعت کے نظام پر رکھی ہے ۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اس اہم سُنّت کوزندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو آج کل جماعت سازی کے حوالے سے بالکل متروک ہو چکی تھی۔
آیت ۱۳{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ} ’’اے اہل ِ ایمان! ان لوگوں کے ساتھ دوستی مت کرو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے‘‘
نوٹ کیجیے ‘جس مضمون سے سور ت کا آغاز ہوا تھا اختتام پر وہی مضمون دوبارہ آ گیا ہے۔ قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ سے یہودی مراد ہیں اور یہاں اہل ِایمان کو واضح طور پر منع کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ تمہاری دوستی نہیں ہونی چاہیے۔
{قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ (۱۳)} ’’یہ لوگ آخرت سے مایوس ہو چکے ہیں جیسے کہ کُفّار مایوس ہو چکے ہیں اصحابِ قبور میں سے۔‘‘
آیت کے اس حصّے کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت سے ایسے مایوس ہو چکے ہیں جیسے قبروں میں پڑے ہوئے کُفّار اپنی نجات سے مایوس ہیں ۔ ظاہر ہے مرنے کے بعد کُفّار پر تمام حقائق منکشف ہو چکے ہیں اور ان حقائق کو دیکھتے ہوئے انہیں سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔دوسرا مفہوم یوں ہے کہ یہ لوگ آخرت سے ایسے مایوس ہو چکے ہیں جیسے کُفّار اصحاب القبور کے دوبارہ اٹھنے سے مایوس ہیں۔ یہ دونوں مفاہیم اپنی اپنی جگہ درست ہیں ‘اس لیے اس فقرے کے تراجم دونوں طرح سے کیے گئے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025