روشن خیالی اور اسلام
بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ
۸؍اپریل۲۰۰۵ء کا خطابِ جمعہ بمقام : مسجد دار السلام ‘باغ جناح ‘لاہور
نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{وَلَا تَقْفُ مَا لَیـْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (۳۶)} (بنی اسراء یل)
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّــآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)}(البقرۃ)
{اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاھِرَۃً وَّبَاطِنَۃً ط وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ھُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْـرٍ(۲۰)} (لقمان) … صدق اللہُ العظیم
میرے آج کے خطاب کا عنوان ’’موجودہ روشن خیالی اور اسلام‘‘ہے۔اس موضوع پر چند ہی روز قبل تنظیم اسلامی ایک بڑا سیمینار بھی منعقد کر چکی ہے‘جس میں بعض علماء کرام کے ساتھ جدید روشن خیالی کے ایک بہت بڑے علمبردار ڈاکٹر جاوید اقبال بھی شریک ہوئے۔ مَیںنے بھی وہاں پر گفتگو کی تھی‘لیکن اپنے ایک گھنٹے کے خطاب کے دوران مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی باتوں کا جواب بھی دینا پڑا‘کیونکہ وہ تقریب میری صدارت میں ہو رہی تھی۔ نتیجتاً اصل موضوع پر مَیں زیادہ تفصیل سے اظہارِ خیال نہ کر سکا۔
میرا دعویٰ یہ ہے کہ دنیا میں روشن خیالی کا آغاز اسلام ‘بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن مجید سے ہوا ہے۔ اس سے پہلے دنیا توہمات میں مبتلا تھی۔ ایسے عقائد موجود تھے جن کا کوئی سر پیر نہ تھا۔زلزلہ کے متعلق کہا جاتا کہ یہ زمین ایک بیل اپنے ایک سینگ پر اُٹھائے کھڑا ہے‘ جب بیچارہ بیل تھک کر اسے اپنے دوسرے سینگ پر منتقل کرتا ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ کیا اس عقیدے کی کوئی عقلی یا سائنسی بنیاد ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کسی کتاب میں اس کا ذکر ہے؟ اس قسم کے توہمات سے انسان کو قرآن نے نکالا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی سب سے پہلی اور بنیادی ہدایت یہ تھی کہ :
{وَلَا تَقْفُ مَا لَیـْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (۳۶)} (بنی اسراء یل)’’اور مت پیچھے لگو کسی ایسی چیز کے جس کے لیے تمہارے پاس علم نہیں ہے۔
بے شک کان اور آنکھ اور دماغ ‘ان سب کی اس سے پوچھ ہو گی۔‘‘
یعنی یہ جو ہم نے تمہیں سماعت اور بصارت دی ہے اور ان دونوں کے جو sense data دماغ میں فیڈ ہوتے ہیں‘ ان سب کا تم سے محاسبہ ہو گا۔ پوچھا جائے گا کہ اس سے کام کیوں نہیں لیا‘ توہمات میں کیوں پڑے رہے! علم کی ایک قسم وہ ہے جسے ہم کسبی علم (Acquired Knowledge)کہتے ہیں اور اسے انسان خود حاصل کرتا ہے۔آنکھ سے دیکھا‘ کان سے سنا‘ ہاتھ سے چھوا‘ زبان سے چکھا‘ ناک سے سونگھا‘ یہ sense data دماغ میں فیڈ ہوگئے۔ اس آیت میں لفظ ’’فُؤاد‘‘ کے معنی مَیں دماغ لیتا ہوں‘ قلب نہیں۔ فُؤاد کے معنی کسی چیز سے ا س کا نچوڑ حاصل کرنا ہیں۔ پرانی تفاسیر کے اندر ’’ف‘‘ لکھا ہوتا ہے‘ یعنی اس بات کا فائدہ کیا ہے!اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے! اس سے کیا عملی سبق ملتا ہے! گوشت کو جب اچھی طرح بھون دیتے ہیں اور اس میں سے پانی نکل جاتا ہے تو عربی میں اسے فئید کہتے ہیں‘یعنی اس کا جوہر نکل آیا ۔ اس اعتبار سے حواسِ خمسہ میں سے سماعت اور بصارت ہمارے سب سے بنیادی حواس ہیں۔ انہی سے زیادہ تر ڈیٹا فیڈ ہوتا ہے ۔ کمپیوٹر کے حوالے سے ڈیٹا کا لفظ تو آج کل تقریباً ہر شخص ہی جانتا ہے۔کمپیوٹر اپنے طور پر قطعاً کچھ نہیں سوچ سکتا۔ آپ اس میں ڈیٹا فیڈ کرتے ہیں‘ وہ اس کو پراسس کرتا ہے‘ پراسس کر کے نتیجہ نکالتا ہے‘ نتیجہ نکال کر اسے میموری کے اندر رکھ دیتا ہے۔ پھر مزید ڈیٹا آتا ہے تو اس پر غور کرتا ہے۔ ایک نیا نتیجہ آنے پر اس کا پچھلے نتیجے سے موازنہ کرتا ہے کہ آیا اس کے خلاف ہے یا اس کے مطابق!
اس طرح قدم بقدم انسان کا علم بھی بڑھتا چلا گیا‘ جس کی مَیں بڑی سادہ سی مثال دیا کرتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے آباء و اَجداد کی خوراک پھل‘ جڑی بوٹیاں اور جڑیں ہوتی تھیں‘یا پھر کچا گوشت کھاتے جیسے کہ درندے کھاتے ہیں۔ ایک روز کسی شخص نے دیکھا کہ اوپر سے ایک پتھر نیچے چٹان پر گرا تو ایک شعلہ برآمد ہو گیا۔ اس نے دو پتھر لے کر ٹکرائے تو توانائی کی پہلی شکل (first form of energy)یعنی آگ ایجاد ہوگئی۔ اب انسان نے سبزیاں اور گوشت پکا کر کھانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کسی نے دیکھا کہ چولھے پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے اوپر ڈھکن ہل رہا ہے۔ اس نے سوچا کیایہ کسی جِن بھوت کا کام ہے!غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ڈھکن کے نیچے جو بھاپ موجود ہے اس میں طاقت ہے‘ وہ ڈھکن کو اٹھا رہی ہے۔ لہٰذا توانائی کا دوسرا ذریعہ (second source of energy)وجود میں آ گیا۔ اب سٹیم انجن ایجاد ہو گئے۔ لہٰذا انسان کا علم قدم بقدم بڑھا ہے۔
پہلے اس کی رفتار کافی سست تھی‘ لیکن پچھلے کوئی ڈیڑھ سو سال میں یہ دھماکے کی مانند نہایت تیزی کے ساتھ بڑھی ہے۔ علم بہرحال علم ہے‘ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم نہیںہے۔ قرآن مجید اسے علم الاسماء سے تعبیر کرتا ہے۔{وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا} (البقرۃ:۳۱)کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ سارا علم حضرت آدمؑ میں ودیعت کر دیا گیا تھا جو آج تک انسان نے اپنے حواس اور عقل کے ذریعے سے حاصل کیا ہے اور جووہ ابھی حاصل کرے گا۔ جیسے آم کی گٹھلی میں پورا درخت ہوتا ہے‘تاہم اسے درخت بننے میں کئی سال لگتے ہیں‘ لیکن جو کچھ اس میں تھا‘ یہ سب اُسی سے بن رہا ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس علم کے حصول کے لیے آلات اور اوزار (apparatus) آدم میں رکھ دیے گئے ‘جیسے سمع‘ بصر‘فُؤاد‘کہ اب ان سے کام لو اور آگے بڑھتے جائو۔ یہ علم آج اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جیسے اقبال نے کہا تھا کہ ع
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے!
تو چاند پر تو انسان اُتر گیا‘ آگے مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ بہرحال یہ علم ہے۔ اسلام اسے تسلیم(acknowledge)کرتا ہے‘ بلکہ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے وہ اسی علم سے متعلق ہے۔ دوسری قسم کا علم وہ ہے جو ہمیں وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے‘ یعنی علم ہدایت‘ لیکن اس وقت یہ میرا اصل موضوع نہیں ہے۔چنانچہ فرمایا گیا کہ علم کی بنیاد پر اپناموقف قائم کرو! ہمارے نزدیک وہ علم یا تو سائنس کے ذریعے سے حاصل شدہ ہو گا‘ یا پھر وحی کے ذریعے سے آیا ہوا ہو گا۔
دوسری بات قرآن نے یہ کہی کہ جتنے مظاہر ِفطرت ہیں ‘مثلاً چاند‘ ستارے‘ آسمان‘ ہوائوں کا چلنا‘ ان میں سے کسی میں الوہیت نہیں ہے کہ تم ان کو پوجو۔ یہ تو اللہ کی آیات اور نشانیاں ہیں۔ ان کو دیکھو اور اللہ کے علم‘ اُس کی قدرت‘ اُس کی حکمت کا اندازہ کرو‘ سمجھ اور معرفت حاصل کرو! اس سلسلے میں طویل ترین آیت سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۴ ہے: {اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّھَارِ}’’یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں‘‘ {وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ} ’’اوراُس کشتی میں جو سمندر (اور دریائوں) میں چلتی ہے لوگوں کے لیے نفع بخش سامان کو لے کر‘‘{وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّــآءٍ} ’’اور یہ جو آسمان سے اللہ نے پانی اُتارا ہے‘‘{فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا} ’’پھرمُردہ زمین کو اس کے ذریعے سے زندہ کر دیا‘‘(زمین بنجر پڑی تھی ‘اب سرسبز ہے)۔{وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ} ’’اورہر طرح کے چوپائے اس میں پھیلا دیے‘‘ {وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ} ’’اور ہوائوں کی گردش میں ‘‘{وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ} ’’اور اُن بادلوں میں جو زمین و آسمان کے درمیان مسخر ہیں‘‘ (زمین پر گرتے نہیں){ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)}’’یقیناً نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘۔ ان سب میں آیات ہیں‘ نشانیاں ہیں۔ان کو دیکھو اور عقل سے کام لو۔ تم نے ہوا کو خدا بنا لیا‘ آگ کو خدا بنالیا‘ سورج کو خدا بنالیا‘ چاند کو خدا بنا لیا۔ معاذ اللہ! یہ توا للہ کی نشانیاں ہیں۔ ان کو دیکھو اور اللہ کو پہچانو۔
اسی سے دراصل دنیا میں پہلی بار استقرائی منطق (Inductive logic)کا رواج ہوا۔اس سے پہلے صرف استخراجی منطق (Deductive logic)تھی کہ آدمی ایک بات کو لے کر اُسی کے اندر گم ہے۔اسے High power lense کے نیچے رکھ کر بال کی کھال اتارتا جا رہا ہے۔ مشاہدہ محدود‘ عقل کی تگ و دو مسلسل! دوسری طرف استقرائی منطق ہے۔ قرأ سے مراد جمع کرنا ہے۔اسی سے قریہ بنا‘اسی سے قرآن بنا اور اسی سے استقراء بنا۔ استقرائی طریقے کے تحت مشاہدات کو جمع کر کے نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ بقول اقبال ؎
کھول آنکھ ‘ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
سورۃ الغاشیہ میں دعوتِ مشاہدہ اِن الفاظ میں دی گئی : {اَفَـلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ(۱۷)}کیایہ دیکھتے نہیں کہ اونٹ جس پر یہ سواری کرتے ہیں‘اُس کو کیسے بنایا اللہ نے! یہ ریگستان اُس کے لیے کس قدر موزوں ہے۔ سات سات دن پانی نہ ملے‘ اسے پرواہ نہیں۔ کوئی چیز کھانے کو نہ ملے‘ پرواہ نہیں۔ اس کے کوہان میں اتنی چربی ہے جو اسے غذا مہیّا کرتی رہتی ہے۔ پائوں ایسا بنایا کہ ریت میں دھنستا نہیں۔ اللہ نے تمہارے ماحول کے کس قدر مطابق تمہیں یہ سواری عطا کی! {وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ(۱۸)} اوردیکھتے نہیں آسمان کو کہ کیسے بلند کر دیا گیا! {وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ(۱۹) } اور دیکھتے نہیں ان پہاڑوں کو کیسے جما دیا گیا‘ نصب کر دیا گیا!یہ خاص طور پر عرب کا مشاہدہ تھا۔ وہ عام طور پر وادیوں میں سفر کرتے تھے۔ حجاز کے اِدھر بھی پہاڑ ہیں اور اُدھر بھی ‘ جبکہ درمیان میں راستہ ہے۔ {وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ(۲۰)} اور زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کو کیسے ہموار کر دیا گیا! اِن چیزوں کو دیکھو اور نتیجہ نکالو۔چنانچہ استقرائی منطق کا آغاز قرآن نے کیا اور اسی سے سائنس وجود میں آئی۔ سائنس کی بنیاد اسی طریقۂ استدلال پر ہے‘ جبکہ اس سے پہلے افلاطون‘ ارسطو اور دوسرے فلاسفہ سب کے سب استخراجی منطق میں لگے رہتے تھے۔
اب مَیںایک بنگالی ہندو راجہ مہندر ناتھ رائے کا نظریہ پیش کرنے لگا ہوں۔ ایم این رائے انٹرنیشنل کمیونسٹ پارٹی کی بلند ترین سطح پر قائم ایک تنظیم ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل‘‘کا رُکن تھا۔ اس نے لاہور میں ۱۹۲۰ء میں ’’Historical Role of Islam‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر دیا تھا‘ جس میں اُس نے بڑی ہی خوبصورت بات کہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے چوبیس برس کی قلیل مدّت میں طوفان کی طرح جو فتوحات حاصل کیں‘ اِدھر دریائے جیحوں (Oxus) اور اُدھر بحر الکاہل تک پہنچ گئے‘ تو اکثر لوگ ان فتوحات کی برق رفتاری کا موازنہ دوسرے فاتحین سے کر بیٹھتے ہیں۔ جیسے چنگیز خان مشرق سے چلتا ہوا مغرب میں پہنچ گیا تھا‘ اٹیلا بھی مشرق سے مغرب تک پہنچ گیا تھا‘ اسی طرح سکندر اعظم بھی مقدونیہ سے چل کر دریائے بیاس تک آ گیا تھا۔ لیکن ان تمام فاتحین کی اور مسلمانوںکی فتوحات میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ چنگیز خان اور سکندر اعظم کی فتوحات کے نتیجے میں کوئی نئی تہذیب وجود میں نہیں آئی‘ دنیا کو روشنی نہیں ملی‘ نئے علوم کی ایجاد نہیں ہوئی‘ جبکہ مسلمانوں کی فتوحات نے ایک نئی تہذیب اور تمدن کو جنم دیا ‘ تمام پرانے علوم کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
اُس وقت یورپ تاریک دَور (Dark Ages)سے گزر رہا تھا۔ اگرچہ ہر ملک کا اپنا بادشاہ تھا‘ لیکن سب کے اوپر پوپ تھا اور اصل حکومت اُسی کی تھی۔ ہر معاملے میں اُسی کا حکم چلتا تھا‘ اوراس نے سائنس اور فلسفہ کی تعلیم کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اُس کا حکم تھا کہ اگر کہیں سے سائنس کی کتابیں نکل آئیں تو اس گھر کو آگ لگا دی جائے‘ کسی نے فلسفہ پڑھا ہے تو اس کو زندہ جلا دیا جائے۔ پوپ جو کہہ دیتا ‘بس وہی قانون تھا۔ تورات کا جو قانون حضرت مسیحؑ دے کر گئے تھے اس کو تو سینٹ پال نے منسوخ(abrogate) کر دیا۔ کوئی شریعت نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد تو پوپ کا حکم ہی شریعت کا درجہ اختیار کر گیا۔ اس اعتبار سے پورا یورپ پوپ کے زیر اثر تھا۔ امریکہ کا تو اُس وقت وجود ہی نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو دنیا نہیں جانتی تھی کہ وہاں کیاہو رہا ہے۔ وہاں وحشی قبائل رہتے تھے جو کسی طرح کی تہذیب و تمدن سے ناآشنا تھے۔ اس سے پہلے یونانی دور میں یورپ متمدن رہا تھا اور وہاں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں کافی ترقی ہوئی تھی ‘لیکن پوپ کے تسلط نے تاریکی پیدا کر دی تھی۔ایم این رائے کے مطابق‘ ایسے حالات میں مسلمانوں نے دنیا کو روشنی دی ہے۔ اس حوالے سے روشن ترین عہد عباسی دورِ حکومت کا تھا‘ جس میں قدیم یونان کے تمام علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ سقراط‘ افلاطون اور ارسطو کو مسلمانوں نے ہی زندہ کیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان سے علم طب بھی لیا‘ منطق بھی لی اور حساب بھی لیا۔ پھر اُن علوم کو وسعت اور ترقی بھی دی گئی۔ لہٰذا اُس وقت پوری دنیا کے اندر روشن خیال معاشرہ مسلمانوں کا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی رائے ہے جو ہندو بھی تھا اور کمیونسٹ بھی۔
تیسری بات علامہ اقبال نے فرمائی ہے‘ جو بہت گہری ہے اور یہ صرف وہی کہہ سکتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ :
" The inner core of the present Western Civilization is Quranic."
ایک طرف تو علامہ اقبال مغربی تہذیب کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ جیسے : ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ‘ ناپائیدار ہوگا!
اور: ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!
لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ اس تہذیب کا بطن البطون(Inner core) قرآنی ہے۔ سائنس میں موجودہ ترقی اسی وجہ سے ممکن ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے توہمات کا دور ختم کر دیا تھا۔ استقرائی منطق شروع ہوئی تو سائنس وجود میں آئی ۔ اب دیکھیے کہ یہ سب کچھ ہوا کس طرح ہے۔
جب بنو عباس نے مسلم دنیا کے قلب میں قائم بنو اُمیہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو ان کا ایک شہزادہ بچ کر وہاں سے نکل بھاگا ۔اس نے سپین جا کر وہاں ایک زبردست حکومت قائم کر لی‘ جسے مسلمان پہلے ہی فتح کر چکے تھے۔ سپین کو طارق بن زیاد نے ۹۲؍۹۳ ہجری (۷۱۲؍۷۱۳ء) میں فتح کیا تھا۔ اس موقع پر یہودیوں نے مسلمانوںکی مدد کی تھی اور انہیں راستے بتائے تھے‘ کیونکہ مسلمان فوج کسی نامعلوم مقام پر اُتر گئی تھی اور اپنی کشتیاں بھی جلا چکی تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب یہودیوں کو عیسائیوں کی جانب سے شدید تعذیب (persecution)کا سامنا تھا۔ اُن پر تشدد ہوتا تھا ‘ انہیں ٹارچر کیا جاتا تھا ‘ ان سے نفرت کی جاتی تھی۔ عیسائی ان سے گھن کھاتے تھے ‘لہٰذا انہیں شہروں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے لیے شہروں سے باہر اقلیتی محلے (Ghettos) قائم تھے۔ شام کو انہیں دوتین گھنٹوں کے لیے شہرمیں آنے کی اجازت تھی تاکہ وہ خرید و فروخت کرسکیں۔ ان اوقات کے علاوہ شہر میں ان کا داخلہ بند ہوتا۔ پھر انہیں زندہ بھی جلا دیا جاتا تھا‘ خاص طور پر سپین میں ۔اُس وقت سپین سو فی صد رومن کیتھولک ملک تھا‘ اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ بہرحال مسلمانوں نے سپین میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد یہودیوں کو اپنا محسن سمجھا۔ لہٰذا انہیں کندھوں پر اٹھایا‘ سر پر بٹھایا اور بہت عزّت و توقیر دی۔ اسی لیے بن گوریان نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ :
" Muslim Spain was the golden era of our Diaspora."
’’مسلم سپین ہمارے ’دورِ انتشار‘کا سنہری زمانہ تھا۔‘‘
سن ۷۰ء میں یہودیوں کو رومیوں نے فلسطین سے نکال دیا تھا اور وہ دنیا بھر میں منتشر ہوگئے تھے۔ جس کے جہاں سینگ سمائے چلا گیا۔ چنانچہ یہ روس ‘ شمالی افریقہ‘ ہندوستان اور ایران چلے گئے۔یہ یہود کی تاریخ کا دورِ انتشار (Diaspora)کہلاتا ہے‘ جو انتہائی ذلّت کا دور تھا۔ یہودی کا لفظ ہر جگہ ایک گالی بن چکا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے سپین میں ان کو سہارا دیا ‘لیکن یہاں بیٹھ کر یہودیوں نے کیا کیا‘ اسے اچھی طرح جان لیجیے!
علم و حکمت کی وہ روشنی جو مشرقِ وسطیٰ کے اندر پیدا ہوئی تھی‘ وہ مسلمانوں کے ذریعے ہسپانیہ میں بھی پہنچ گئی۔ ہسپانیہ کے تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ جیسے آج ہمارے نوجوان پڑھنے کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں‘ ایسے ہی اُن کے نوجوان Pyreneesکی پہاڑیوں کا سلسلہ عبور کر کے فرانس‘ اٹلی اور جرمنی سے ہسپانیہ آتے اور یہاں سے اسلام کی روشنی لے کر جاتے تھے۔ یہ حریت‘ آزادی اور مساوات کی روشنی تھی‘ یعنی کوئی حاکم نہیں ‘ سب اللہ کے محکوم ہیں۔ ع ’’تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے!‘‘تمام انسان پیدائشی طور پر برابر ہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ کوئی گورا کسی کالے سے اور کوئی کالا کسی گورے سے برتر نہیں۔ اسلام نے دنیا کو اخوتِ انسانی کا بہت اعلیٰ پیغام دیا کہ تم سب کے سب ایک ہی جوڑے کی اولاد ہو۔ارشادِ الٰہی ہے :{یٰٓــاَیـُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰــکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی} ’’اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا‘‘ یعنی آدم اور حوا سے۔ {وَجَعَلْنٰــکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط} ’’اور تمہیں تقسیم کر دیا قوموں اور قبیلوں میں‘ تاکہ تم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرو (ایک دوسرے کو پہچانو)۔‘‘ دنیا بھر کے انسانوں کی شکلیں بھی بدل دیں‘ رنگ بھی بدل دیے۔ یہ سب تعارف کے لیے ہے ‘ کسی کو برتر ثابت کرنے کے لیے نہیں۔{اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰىکُمْ ط}(الحجرات:۱۳)’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔جو بھی تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے‘برائی سے بچتا ہے‘ لوگوں کے حقوق تلف نہیں کرتا‘ لوگوں کی عزّت سے نہیں کھیلتا وہی اللہ کے ہاں باعزّت ہے۔
علم کے یہ دھارے سپین سے پورے یورپ کو جا رہے تھے‘ لیکن یہودی اُن میں سیاہی گھول رہے تھے۔ بقول شاعر ع ’’کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں!‘‘ چونکہ انہیں عیسائیوں سے انتقام لینا تھا‘لہٰذا انہوں نے اس میں زہر گھولا۔ وہ اس طرح کہ آزادی کو مادر پدر آزادی بنا دیا ‘یعنی اخلاقی اقدار سے بھی آزادی‘ شرم و حیا سے بھی آزادی‘ سرمائے کے حصول اور استعمال کی آزادی۔ پھر خدا سے آزادی کے نتیجے میں سیکولرازم پیدا کر دیا کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی مسجد جائے یا مندر‘ سینیگاگ میں جائے یا چرچ میںلیکن نظامِ ریاست‘ قانونِ ملکی‘ نظامِ معاشرت میں کسی مذہب کا کوئی دخل نہیں ہو گا۔یہ ہے سیکولرازم کی بنیاد!یہ بیج اس لیے بوئے گئے کہ سیکولرازم یہودیوں کے لیے بہت مفید تھا۔ ظاہر ہے اگر اکثریتی مذہب کی بنیاد پر کسی ملک کا نظام تشکیل پائے گا تو اقلیتی مذاہب کے افراد میں تفریق کی جائے گی۔ ایک عیسائی ریاست کا نظام مکمل طور پر عیسائیت ہی ہو گا اور یہودی وہاں دوسرے درجے کا شہری ہو گا ‘جس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ لہٰذا انہوں نے سیکولرازم کے ذریعے سب کو برابر کر دیاکہ ایک ملک کی حدودمیں رہنے والے سب برابر کے شہری ہیں ‘چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان‘ سکھ ہوں یا عیسائی‘ پارسی ہوں یا یہودی۔ اس اعتبار سے وہ اوپر آگئے اور عیسائیوں کے ہمسر ‘ ہم پلہ ‘ ہم کفو ہو گئے۔
اس کے نتیجے میں یورپ میں دو تحریکیں چلی ہیں۔ ایک تحریک احیاء علوم (Renaissance)‘ جس کے تحت جن علوم کے اوپر پوپ نے ڈھکن رکھا ہوا تھا وہ اٹھا دیا گیا کہ فلسفہ پڑھو‘سائنس بھی پڑھو‘ استقراء کرو‘ نتیجے نکالو۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ سورج گردش کر رہا ہے‘ زمین ساکن ہے۔ پھر ایک دور آیا جس میں کہا گیا کہ سورج ساکن ہے ‘ زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے ۔ا س کے بعد ایک دور آیا جس میں انسان پر یہ منکشف ہوا کہ کائنات کے تمام ستارے اور سیارے گردش میں ہیں۔ اور یہ حقیقت قرآن پہلے سے بیان کر چکا ہے : {وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ(۴۰)}(یٰسٓ)کہ کائنات کی ہر چیز حرکت میں ہے۔ لہٰذا دیکھو‘ غور کرو‘ سوچتے رہو۔ اسی طرح قرآن نے کہا : {اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَلَــکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ…}(لقمٰن:۲۰)’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو تمہارا خدمت گار بنایا ہے۔ سورج اور چاند تمہارے خدمت گار ہیں‘ تم انہیں مسخر کر سکتے ہو‘ ان کے ذریعے سے توانائی اور قوتیں حاصل کرو۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج سورج سے توانائی حاصل کی جا رہی ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی بنانے اور کاریں چلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ چیزیں تمہارے فائدے کے لیے ہیں۔ یہ تو تمہاری خادم ہیں‘ لیکن تم نے انہیں خدا بنا دیا! یوں یورپ میں سائنس اور فلسفہ کا فروغ ہوا ۔یورپ میں دوسری تحریک اصلاحِ مذہب (Reformation) کی چلی‘ جس کے نتیجے میں مذہب اور پاپائیت سے بغاوت ہو گئی۔
یہودیوں نے تیسرا کام یہ کیا کہ سود کو جائز کر دیا۔ جب تک پوپ کا نظام تھا‘ پورے یورپ کے اندر سود حرام تھا۔ انفرادی سطح پر مہاجنی سود اور تجارت میں کمرشل انٹرسٹ دونوں حرام تھے۔ پروٹسٹنٹ طبقہ نے پوپ کے خلاف احتجاج کیا اور سب سے پہلے اپنا چرچ علیحدہ کر لیا۔ یوں برطانیہ میں ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘وجود میں آیا۔ سب سے پہلا بینک ’’بینک آف انگلینڈ‘‘بھی برطانیہ میں قائم ہوا۔ یہ بھی یہودیوں کی ایجاد تھی۔ بقول علّامہ اقبال : ؎
ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود
نورِ حق از سینۂ آدم ربود
یہ بینک یہود کی عیاری والی فکر کی پیداوار ہیں جس نے آدم کے اندر روحِ ربّانی (Divine Spark)کا خاتمہ کر دیا۔
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام!
جب تک اس سودی نظام کا خاتمہ نہیں ہو گا‘ بینکوں کی بساط نہیں لپیٹی جائے گی‘ اُس وقت تک نہ تہذیب کا کوئی معاملہ ہو سکتا ہے‘نہ دانش کا اور نہ دین کا۔
قرآن نے یہ کہا تھا کہ پیدائشی طور پر تمام انسان مساوی ہیں‘ کوئی گھٹیا یا اعلیٰ نہیں ۔ ہاں‘ بعد میں ایک شخص علم زیادہ حاصل کر لیتا ہے‘ ایک شخص متقی زیادہ بن جاتا ہے‘یہ اکتسابی (acquired) چیزیں ہیں۔پیدائشی طور پر مَرد اور عورت بھی برابر ہیں۔ {بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ ج}(آل عمران:۱۹۵)۔ ایک ہی باپ کے نطفے سے بیٹی بھی ہے بیٹا بھی‘ اور ایک ہی ماں کے رحم میں پرورش پائی ہے بیٹے نے بھی اور بیٹی نے بھی۔اس حیثیت میں بیٹا افضل نہیں ہے۔ مرد کی قوامیت گھر کے انتظامی معاملات کے اندر اور خاندان کی سربراہی کے حوالے سے ہے۔ یہود نے اسے نہیں مانا اور معاشرتی سطح پر مرد اور عورت کو برابر ٹھہرایا۔ یہ مساوات کا وہ غلط تصوّر تھاجس نے خاندانی نظام کو تہ و بالا کر دیا۔ ڈارون نے انسان کی حیثیت یہ معیّن کی کہ وہ بھی نرا حیوان ہی ہے۔ چمپینزی اور انسان میں کیا فرق ہے! بس یہی جو گدھے اور گھوڑے میں ہے۔ ایک refined animalہے‘ ایک ذرا coarse ہے۔ تو پھر یہ شرم و حیا‘ عصمت و عفت تم کہاں سے لے آئے ہو؟انسان حیوانوں کی طرح جیسے چاہے اپنی تسکین کرے ۔یہ امر خالصتاً ذاتی نوعیت کا ہے کہ کوئی مرد‘ مرد سے تسکین حاصل کر لے اور عورت‘ عورت سے تسکین حاصل کرلے‘ یا ایک مرد مختلف عورتوں سے آزادی کے ساتھ جب چاہے تسکین حاصل کرے۔ پیاس لگے تو جہاں سے چاہو پانی پی لو۔ خوا مخواہ یہ بندھن بنا دیے گئے ہیں اور عورت کو تابع کر دیا گیا ہے۔ یہ تو مساواتِ مَرد و زن کے نظریے کے خلاف ہے۔ انہیں گھروں سے نکالو اور بازاروں‘ مارکیٹوں اور سیاست کے اندر لائو۔ اس طرح ان تینوں چیزوں یعنی شوہر اور بیوی کی حیثیت سے مساوات‘ طلاق کا مساوی حق اور وراثت میں برابری کا معاملہ‘ اس نے وہاں کے خاندانی نظام کا بیڑاغرق کر دیا۔
اس پوری کائنات میں شر کے منبع اور سرچشمہ شیطانِ لعین کا انسانوں میں سب سے بڑا ایجنٹ یہودی ہے‘ اور یہود کا سب سے بڑا آلۂ کار پروٹسٹنٹ عیسائی ہے‘ خصوصاً وائٹ اینگلو امریکن پروٹسٹنٹس اور وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹس(WASP)۔ انہی کے ذریعے سے یہودیوں نے چرچ کو علیحدہ کرایا‘ انہی کے ذریعے سے سود کی اجازت لی اور بینک آف انگلینڈ بنایا۔ یہ تہذیب یورپ میں پھیلتی چلی گئی۔ پوپ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی‘ کیونکہ انہوں نے بہت دبا کر رکھا تھا کہ سائنس پڑھو نہ فلسفہ۔ تو ردّ ِعمل کے طور پر مذہب سے بغاوت پیدا ہوئی اور مذہب دشمنی کا رویہ فروغ پانے لگا۔ مذہب کو کسی شخص کے ذاتی فعل تک محدود کر دیا گیا۔ کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھے‘ روزہ رکھے یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت کرے ‘لیکن ریاست کے سیاسی ‘ معاشرتی اور معاشی نظام (Politico-Socio-Economic System) سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہو گا‘ چاہے وہ اسلام ہو یا عیسائیت‘ یہودیت ہو یا کوئی اور عقیدہ۔ یورپ میں یہ تہذیب پروان چڑھی ہے جس کی بنیاد سیکولرازم‘ سود پر مبنی سرمایہ داری اور لذّت پرستی (hedonism) پر ہے۔
اس دوران علم کی دوسری آنکھ بند کر دی گئی اور وحی کی جانب بالکل نہیں دیکھا گیا۔ لہٰذا دنیا میں یہ دجالیت قائم ہوئی ہے۔ سیکولرازم کے تحت مذہب کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں سے بالکل ختم کر دیا گیا۔ سود کے ذریعے یہودیوں نے پہلے یورپ کو جکڑا تھا‘ اب وہ چاہتے ہیں کہ پوری انسانیت ہمارے قبضے میں آجائے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے اسی لیے وجود میں لائے گئے ہیں۔ اب گلوبلائزیشن ہو رہی ہے‘ TRIPS کا معاہدہ آرہا ہے۔پہلے نوآبادیاتی استعما رمیں کوئی طاقت جنگ کے ذریعے کوئی سرزمین فتح کر کے وہا ں اپنی حکومت قائم کرتی تھی‘ لیکن پھر ا س کے خلاف بغاوت بھی ہوتی تھی۔ جیسے ۱۸۵۷ء میں برعظیم میں ہوا جس کے نتیجے میں کافی انگریز مارے گئے۔ چنانچہ مسلسل محاذ آرائی کی کیفیت رہتی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہاں جا کر قبضہ کرنے کا کیا فائدہ! ہمیں تو وہاں سے معاشی مفادات حاصل کرنا ہیں‘ اس لیے پوری دنیا کو ان بینکوں کے جال میں جکڑ لو۔ پوری دنیا کام کرے لیکن اس کی کمائی کی بالائی ہم سود کے ذریعے سے کھینچ لیں گے۔ یہ فنانشل کلونیلزم ہے جو اِس وقت دنیا کے اندر اپنی جکڑ بندی کر رہا ہے۔ گلوبلائزیشن جب پورے عروج پرآ جائے گی‘ جب TRIPSکا معاہدہ ہو جائے گا تو ملک بے معنی ہو جائیں گے۔ حکومتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو گی‘ اصل میں ملٹی نیشنل کمپنیاں حکومت کر رہی ہو ں گی۔ وہ اپنے مینیجرز کو جو تنخواہیں دیتی ہیں‘ سرکاری ملازمت میں اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درحقیقت یہود کا وہ سارا نظام ہے جس نے پہلے یورپ کو جکڑا‘ پھر امریکہ کو اور اب وہ پوری دنیا کو جکڑنا چاہتا ہے۔
بدقسمتی سے اسی تہذیب کو آج ہم بھی چاہتے ہیں ۔ ہمارے صدر سمیت حکومتی حلقوں میں سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔وہ سود کو جائز سمجھتے ہیں ‘ انہیں اس میں کوئی غلط بات نظر نہیں آتی۔ اسی طرح بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ صدر صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ جو لوگ لڑکیوں کی ننگی رانیں نہیں دیکھ سکتے وہ اپنی آنکھیں بند کر لیں‘ ٹی وی کو آف کر دیں۔ ہم تو خواتین کو کرکٹ بھی کھلائیں گے اور ہاکی بھی۔ جو انہیں نیکروں میں نہیں دیکھ سکتا وہ نہ دیکھے۔اسمبلیوں میں ۳۳ فیصد سیٹیں دے کر ہم ایک دم چالیس ہزار عورتوں کو گھروں سے نکال کر میدان میں لے آئے ہیں۔ یہودیوں کا جو پروگرام اس وقت دنیا میں چل رہا ہے‘ ان کے اوّلین آلۂ کار برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ یہ دونوںیک جان دو قالب (Hand in glove)ہیں۔ باقی عیسائی دنیا بھی ان کے تابع ہو چکی ہے۔ اب یہ اس کو گلوبلائز کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ جو بھی ان کی تعلیم پا کر آتا ہے‘ ان کی تہذیب کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ ایسے تمام افراد اُن کے ایجنٹ ہیں‘ چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب ‘ ہندوستانی ہوں یا پاکستانی۔ ان کی برین واشنگ کی جا چکی ہے۔ بقول شاعر : ؎
اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے!
انہوں نے یہاں کی سول سروس اور فوج کی ایک خاص نہج پر تربیت کی ہے۔ وہ اگرچہ چلے گئے ہیں لیکن درحقیقت by proxy حکومت انہی کی ہو رہی ہے۔انہی کے غلام‘ کاسہ لیس اور انہی کے جوتوں کی ٹو چاٹنے والے اس وقت عالم اسلام پر حکمران ہیں۔
آج اس تہذیب کو پوری دنیائے اسلام میں جو شخص سب سے بڑھ کر فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے ‘ وہ ہمارے صدر پرویز مشرف ہیں۔ ان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مَیں انہیں اس بات کا کریڈٹ دیتا ہوں کہ جو بات ان کے ذہن میں ہوتی ہے وہ بلاجھجک کہہ دیتے ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کہہ دیا تھا کہ میرا آئیڈیل اتاترک ہے۔ اتاترک نے تو عربی اذان بھی بند کرا دی تھی‘ عربی میں نماز پڑھنا اور خواتین کا برقع اوڑھنا ممنوع ٹھہرایا تھا جبکہ انگریزی لباس پہننا لازم کر دیا تھا۔پرویز مشرف صاحب کے بچپن کا کچھ حصّہ ترکی میں گزرا ہے۔ وہ ترکی زبان بھی جانتے ہیں۔ ان کے والد ترکی میں پاکستان کے سفارت خانے میں کسی عہدے پر فائز تھے۔اس اعتبار سے وہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اُس کے مطابق ہے جو انہوں نے پہلے دن کہا تھا۔ انہوں نے ۳۳ فیصد عورتوں کو اسمبلیوں میں بٹھانے کا جو قدم اٹھایا ہے‘ ایسا تو آج تک دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوا۔ کسی مسلمان ملک تو کجا‘ امریکہ میں نہیں ہے جو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ہندوستان میں بھی نہیں ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں جمہوریت کا ہونا ایک معجزہ ہے۔ خواندگی کی شرح اتنی کم ہے لیکن پھر بھی جمہوریت کام کر رہی ہے۔ وہاںپہلے دن جو گاڑی دستور کی پٹڑی پر چلنی شروع ہوئی تھی‘ وہ آج تک چل رہی ہے۔ وہاں کبھی کوئی فوجی حکومت نہیں آئی۔ ایک بار تھوڑے سے عرصے کے لیے ایمرجنسی لگی تھی‘ لیکن وہ بھی کوئی بالائے دستور کام نہیں تھا۔ وہاں یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک آیا تو سارا دستور ختم کر کے اپنا بنا رہا ہے‘ دوسرا آیا تو پھر سارا دستور ختم کر کے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اٹھوا رہا ہے۔ یہ کھیل پاکستان میں ہوا ہے۔ اب سب سے بڑھ کر انہوں نے یہ کیا ہے کہ عورتوں کو گھر سے نکالو‘ انہیں میدان کے اندر لائو۔ جو نہیں دیکھنا چاہتے وہ آنکھیں بند کرلیں۔ قدامت پرست ‘ انتہا پسند لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عورت کا جسم ڈھکا رہے‘ یہ چاہتے ہیں کہ عورت برقعے اور پردے کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ان دقیانوسی اور تاریک خیال ملائوں کے پیروکاروں کا زمانہ گزر گیا ۔ یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں۔ روشن خیالی ہر حال میں ہو گی۔ جیسے کبھی اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ: ؎
چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانیئر میں چھپے
اسی طرح آج تہذیب وہ ہے جو یورپ کی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اس کا inner core اسلامی اور قرآنی ہے ‘لیکن اس کے گرد جو غلاف چڑھا دیے گئے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں۔ اس آزادی کو مادر پدر آزاد بنا دیا گیا ہے کہ اللہ سے بھی آزاد‘ اخلاقی حدود و قیود سے بھی آزاد‘ شرم و حیا کی قیود سے بھی آزاد‘ سرمایہ آزاد۔ سرمایہ کو کھل کھیلنے دو‘ سودکے اوپر جاتا ہے تو ٹھیک ہے۔ آج اس سارے نظام کا نام روشن خیالی ہے‘ حالانکہ یہ تاریک ترین خیال ہے۔ انسان اپنی عظمت اور اشرف المخلوقات کے منصب سے حیوانیت کی طرف رجوع کر رہا ہے۔
موجودہ تہذیب کے Quranic coreکے اوپر جو پردے چڑھائے گئے ہیں‘ مَیں نے آج تجزیہ کر کے آپ کو بتا دیا ہے کہ ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ یہ کس نے چڑھائے ‘کیوں چڑھائے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ کس کو ہوا! اس کے نتیجے میں یہودی جو دنیا کے اندر اقلیت میں تھے‘ آج برابر کے شہری بن چکے ہیں اور پوری دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔اب یہ سیلاب یو این او کے ذریعے آ رہا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سیکولرازم تو ہم نے پوری دنیا کے اندر قائم کر دیا۔ اسی طرح سود پر مبنی بینکنگ پوری دنیا میں قائم ہو گئی۔ البتہ شر م و حیا‘ خاندانی نظام‘ کچھ اخلاقی اقدار اور شادی بیاہ کی کچھ حیثیت عالم ِ اسلام میں ابھی باقی ہے۔ اسی لیے ہنٹنگٹن نے کہا تھا کہ اب تہذیبوں کا تصادم ہوگا۔ جب یو ایس ایس آر کا خاتمہ ہوا تو ایک بڑے امریکی فلسفی اور پولیٹکل سائنٹسٹ فوکویاما نے ’’End of History‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی۔اس نے کہا تھا کہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارا نظام ہی بہترین نظام ہے۔ ہمارے معاشی نظام کے مقابلے میں کمیونزم آیا تھا ‘ اس کی لاش پڑی سڑ رہی ہے۔ ہماری تہذیب سب سے اعلیٰ ہے‘ کوئی ہمارے مقابلے میں نہیں۔ اس کے بعد ہنٹنگٹن نے لکھا کہ نہیں‘ فوکویاما کو مغالطہ ہوا ہے‘ ابھی تہذیبوں کا تصادم ہو گا۔ اس نے کہا کہ ٹائن بی کے مطابق پوری تاریخ انسانی میں بیس تہذیبیں پیدا ہوئیں‘ ان میں سے بارہ مر چکی ہیں‘ اب دنیا میں صرف آٹھ تہذیبیں باقی ہیں۔ ایک ہماری تہذیب ہے‘ اس کے علاوہ سات اور ہیں ۔ان سات میں سے بھی پانچ کو ہم آسانی سے اپنے اندر جذب کر لیں گے‘ البتہ دو ذرا لوہے کے چنے ثابت ہوں گی۔ ان میں سے ایک اسلامی تہذیب ہے اور دوسری چین کی کنفیوشس تہذیب۔
ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس نے مشورہ دیا کہ ایک تو چین کا رُخ مغرب کی طرف نہ ہونے دو‘ اس لیے کہ چین کے مغرب میں عالم ِاسلام ہے۔ اس کا رجحان مشرق کی طرف رکھو۔ چنانچہ اسی تجویز پر ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) کی تنظیم قائم ہوئی۔ دوسرا مشورہ اس نے یہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی اختلافات کو ابھارو‘ انہیں لڑائو۔ اس طرح یہ ہمارے مدّ ِمقابل نہیں بن سکیں گے۔ چنانچہ ہمارے ملک میں جو مذہبی فسادات ہوتے ہیں ان کی نوعیت مکمل طور پر مقامی نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش کا نتیجہ ہیں۔ کچھ لوکل سازشیں بھی ہیں۔ ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کا کام بھی ہے۔ کچھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والی کشاکش کا بھی مظہر ہے ‘لیکن سب سے بڑھ کر یہ ایک عالمی سازش بھی ہے۔ چنانچہ اب ہم پر یو این او کے ذریعے حملہ کیا جا رہا ہے۔ پہلے قاہرہ کانفرنس ہوئی ‘ پھر بیجنگ کانفرنس‘ اس کے بعد بیجنگ پلس فائیو کانفرنس۔ یہ سب اقوام متحدہ کے ادارے کے زیر اہتمام منعقد ہوئیں۔ ان کی سفارشات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںپاس ہوئی ہیں اور اسے اب ’’سوشل انجینئرنگ پروگرام آف دی یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی معاشرے کی دقیانوسی بنیادوں کو منہدم کر دیا جائے۔ ایک بوسیدہ عمارت کو گرا کر ہی وہاں دوسری عمارت بن سکے گی۔ چنانچہ مشرق کی تہذیب کو گرایا جا رہا ہے تاکہ مغربی تہذیب اوپر چھا جائے۔
اس ضمن میںہماری موجودہ حکومت سب سے بازی لے گئی ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں ہمارے حکمران اس نئی تہذیب کے سب سے بڑے آلۂ کار ہیں ۔ان کے نزدیک سیاست سے مذہب کاکوئی تعلق نہیں رہا۔ سود کی حرمت کی بات کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پرانی دنیا کی باتیں کرتے ہو ‘ آج تو یہی چلے گا۔ حکومت کی پوری پالیسی کوامریکہ ڈکٹیٹ کر رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے ایک دم جو یوٹرن لیا تھا‘ اس سے ہر چیز تلپٹ ہو گئی ہے۔ پہلے ہم کشمیریوں کی پشت پناہی کر رہے تھے‘ اب ہمارے سب سے بڑے اتحادی (ally)سید علی گیلانی کا بیان آ گیا ہے کہ پاکستان جال میں پھنس گیا ہے ۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرو‘ پھر باقی معاملات کو معمول پر لانے کا عمل شروع ہو گا لیکن آج Normalization قدم بقدم بڑھتی جا رہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ یہ لکیریں بے معنی ہو جائیں گی۔ سرحد پار سے جو لوگ بھی آتے ہیں‘ یہی کہتے ہیں کہ یہ لکیر مٹا دینی چاہیے اور ہمیں باہم مل جانا چاہیے۔ دو مرتبہ مشرقی پنجاب کا وزیر اعلیٰ آ کر یہ کہہ گیا ہے کہ ہمیں ایک ہوجانا چاہیے۔ ایڈوانی نے پہلی مرتبہ کہا تھا کہ کنفیڈریشن ہوجانی چاہیے ۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے اپنے حالیہ دورے کے بعد واپس جا کر یہ بیان دیا ہے کہ ہمیں اور بھارت کو سٹریٹیجک اعتبار سے مشورہ کرنا ہو گا کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہو! باقی دنیا کہہ رہی ہے یہ غیر مستحکم ہو جائے گا‘ بلکہ اس کے دنیا کے نقشے سے مٹ جانے کا امکان ہے۔
ایک اوربات بھی سامنے آئی ہے جو بڑی چشم کشا ہے ۔ قومی ڈائجسٹ کی ایک حالیہ اشاعت میں پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اکرم ذکی کا انٹرویو شائع ہوا ہے‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ لکھ کر رکھ لو‘ ہندوستان بہت جلد پاکستان پر ایک بڑا حملہ کرے گا ۔ میری تو یہ رائے نہیں بنتی‘ اس لیے کہ جب گڑ کھلا کر مارا جا سکتا ہو تو زہر دینے کی ضرورت کیا ہے! پاکستان تو خود ہی اُن کے جال میں پھنس رہا ہے۔آج کشمیری مجاہدین اور حریت پسندوں کے ہم اور بھارت دونوں مشترکہ دشمن ہوگئے ہیں۔ دونوں نے ان کی مذمت کی ہے۔ کشمیریوں کا موقف یہ ہے کہ پہلے مسئلہ کشمیر حل کرائو‘ اس کے بعد یہ آنا جانا اور تعلقات میں گرم جوشی شروع ہو۔ یہی موقف ہمیشہ سے پاکستان کا بھی رہا ہے۔ اس جدوجہد میں کشمیریوںنے اتنی جانیں دے دیں! ہمارے کتنے نوجوانوںنے یہاں سے جا کر وہاں پر موت کو سینے سے لگایا ہے! کیا یہ قربانیاں اس لیے تھیں کہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں؟
اس ضمن میں آخری بات یہ کہوں گا کہ ہماری مذہبی جماعتوں کا کردار بہت مشکوک اور غلط ہے۔ میرے نزدیک وہ اس چیز کے مجرم ہیں کہ جب پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کو ۳۳ فیصد نمائندگی دینے کا فیصلہ ہوا تو کسی نے اس کے خلاف بیان تک نہیں دیا۔ دراصل ان کی گھٹی میں انتخابات ایسے پڑ گئے ہیں کہ انہوں نے سوچا اگر ہم نے کوئی مظاہرہ کیا یا اس کے خلاف آواز اٹھائی تو کہیں انتخابات ہی ملتوی نہ ہو جائیں۔ اب بھی انہوں نے جو ’’کاروانِ جمہوریت‘‘ چلایا ہے‘ یہ ’’کاروانِ اسلام‘‘ تو نہیں ہے۔ جب عوامی تحریک چلانی ہو تو ساری بے اطمینانیوں کو جمع کرنا پڑتا ہے۔ اگر قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو کوئی آج سے تو نہیں بڑھ رہیں۔ پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے‘ یہ تو تدریجاً بڑھتی رہی ہے۔ سندھ کے اندر بے اطمینانی ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں تو بے اطمینانی کا باپ ہو رہا ہے۔ مذہبی حلقے میں بھی بے اطمینانی ہے ‘ کیونکہ روشن خیالی کے نام سے جو کچھ آ رہا ہے یہ انہیں پسند نہیں ہے۔ ان ساری بے اطمینانیوں کو جمع کریں گے تو کوئی موومنٹ بنے گی نا! پاکستان قومی اتحاد(P.N.A)میں اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ انتہائی سیکولر عناصر بھی جمع ہو گئے تھے۔ ایئر مارشل اصغر خان‘ پیر پگاڑا‘ ولی خان سے بڑا سیکولر کوئی ہو گا! یہ سب پی این اے میں تھے۔ جب اسے بپتسمہ دیا گیا اور نظامِ مصطفیٰﷺ کی تحریک بنایا گیا‘تب لوگوں نے جانیں دی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان میں کوئی جان نہیں دے گا۔
متحدہ مجلس عمل کیا ہے ؟ایک مہمل سا نام ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے معنی کیا ہیں؟ کاہے کا عمل؟اس میں اسلام کا نام تک نہیں۔ حکومت کی طرف سے اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا اوریہ چپ بیٹھے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ہمارے سیاسی اور معاشرتی نظام کے اندر اتنی بڑی چھلانگ لگائی اور یہ کچھ نہ بولے۔ اسی انتظام کے تحت الیکشن بھی لڑے‘ اسی کے تحت عورتوں کی سیٹوں کے لیے بھی مقابلہ کیا۔ مزید یہ کہہ دیا کہ ہم طالبان نہیں ہیں۔ جن شہداء کے خون کی بدولت انہیں اقتدار ملا ہے‘ آج انہی سے اعلانِ براء ت کر رہے ہیں۔ جو کچھ مشرف نے کیا ہے ‘وہی یہ کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم طالبان نہیں‘ ہم عورتوں کو برقع اوڑھنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ کیوں؟ اسلا م میں پردہ ہے یا نہیں؟ انہیں کم از کم صوبہ سرحد میں‘ جہاں سو فیصد ان کی حکومت ہے‘ شریعت نافذ کرنی چاہیے۔ سعودی عرب میں آج بھی شرعی قوانین نافذ ہیں۔ وہاں گھر کے اندر ان کی عورتیں بالکل یورپین لباس میں ہوتی ہیں لیکن جب باہر نکلتی ہیں تو برقع لے کر نکلتی ہیں۔ بہرحال حکومت تو جو کچھ کر رہی ہے کر رہی ہے‘ لیکن ہماری دینی جماعتوں کا کردار بھی صحیح نہیں ہے۔
اب سوچنا یہ ہے کہ کرنا کیا چاہیے! اس سلسلے میں افراد کو اٹھنا پڑے گا۔ انہیں وہ کچھ کرنا ہو گا جو ساٹھ ستر سال پہلے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا ؎
تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اِس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے!
اپنی تہذیب کے دفاع میں کھڑا ہونا پڑے گا‘ لیکن جب تک خالص اسلام کے حوالے سے تحریک نہیں چلے گی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ گڈمڈ کر کے تحریک چلائو گے تو گڈمڈ نتیجہ نکلے گا۔ ایوب خان ہٹے گاتو یحییٰ خان آ جائے گا‘ یحییٰ خان جائے گا تو بھٹو صاحب آ جائیں گے۔اسی طرح کے لوگ آتے رہیں گے۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
ہم ایسی سب کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں!
یہ پوری تہذیب ہم پر ٹھونسنے کا جومعاملہ ہو رہا ہے یہ لائق ِضبطی ہے ۔یہ دو اشعار مجھے بہت پسند ہیں :؎
مَیں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں اُلجھ کر اکثر
تم نے اَسلاف کی عزّت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے!
اصل تہذیب تو ہماری تھی۔ مغرب کی کیا تہذیب ہے! وہاں تو تہذیب کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ آج مغرب محض ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی بنیاد پر کھڑا ہے‘ تہذیب کی بنیاد پر نہیں۔ ان کی تہذیب تو سنڈاس بن چکی ہے۔ جس ملک کا صدر یہ کہتا ہو کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی وہاں تہذیب کہاں رہی! اقبال کا کہنا غلط نہیں تھا کہ ع ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!‘‘ ان کی تہذیب مر چکی ہے‘ البتہ ان کا تمدن ابھی کچھ کھڑا ہے‘ سیاسی نظام میں کچھ جان ہے اور ٹیکنالوجی کھڑی ہوئی ہے۔ ساری طاقت ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ہے‘ جس کی اقبال نے پیشین گوئی کی تھی کہ ؎
دنیا کو ہے پھر معرکہ ٔ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!
یہ درندے ہیں جن کی درندگی پہلے افغانستان میں دیکھ لی گئی‘ اب عراق میں دیکھی جا رہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس معرکہ ٔ روح و بدن میں ہم عملی طور پر کام کرتے ہوئے میدان میں نکلیں۔
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
tanzeemdigitallibrary.com © 2025