(ہماری دعوت) اِنفرادی نصب العین اور اجتماعی ہدف - انجینئر عمیر نواز

9 /

اِنفرادی نصب العین اور اجتماعی ہدف


انجینئرعمیر نواز

مقامی امیر ‘تنظیم النور کالونی‘ راولپنڈی

 

زیر ِنظر مقالہ‘تنظیم اِسلامی کے سالانہ اِجتماع منعقدہ ۱۹تا ۲۱ نومبر ۲۰۲۱ء بمقام مرکزی اِجتماع گاہ بہاول پورمیں پیش کیا گیا۔ بعد ازاں فاضل مقرر نے خود ہی اسے ایک مضمون کی صورت میں مرتّب کیا‘جسے قدرے ایڈیٹنگ کے بعد ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔

عالم ِاسلام کے تناظر میں بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ایک جانب تواس میںمغربی استعمار سے آزادی کی قومی تحریکوںکا آغاز ہوا اور دوسری طرف حکومت ِالٰہیہ کے قیام کا’’بھولا ہوا سبق‘‘ بھی یاد آنے لگا۔اس دور کی نابغہ ٔ روزگار شخصیات نے انفرادی حیثیت میں اور اسلامی احیائی تحاریک نے مجموعی طورپر مذہب کےمحدود اور روایتی تصوّرکی بجائے دین ِاسلام کے ہمہ گیر‘ جامع اور انقلابی تصوّرکوخوب اُجاگر کیا۔جوش و وَلولے اور ایثار و قربانی کےاعتبار سے تو مصر کی ’الاخوان المسلمون‘ مگر فکری وسعت و گہرائی کے اعتبار سے برعظیم پاک و ہند کی ’جماعت اسلامی‘ کو امتیاز حاصل رہا۔
دین کے وسیع اور انقلابی تصوّرکےضمن میںاجتماعی ہدف تو نظامِ عدل و قسط کے قیام کی جدّوجُہد ہی ہے‘ مگر ایک فرد کی انفرادی حیثیت میں اس کا اصل نصب العین صرف اور صرف اللہ کی محبّت اور اُس کی رضاکاحصول ہے۔اللہ کی اسی محبّت اوررضاکے مل جانےہی کانتیجہ اُخروی فوزوفلاح اورنجات ہے ‘یعنی جنّت میں داخلہ جبکہ جہنّم کی آگ اور درد ناک عذاب سے چھٹکارا۔ (بحوالہ سورئہ آلِ عمران‘آیت۱۸۵)
دِقت نظر سے غورکیاجائے تو متذکرہ بالااسلامی احیائی تحاریک کے ہاں انفرادی نصب العین اور اجتماعی ہدف کے مابین نسبت وتناسب میںمجموعی اعتبار سےاونچ نیچ نظر آتی ہے۔ لہٰذاانفرادی نصب العین یعنی اللہ ربّ العزت کی رضا و محبّت کاکتابی اور زبانی اقرار تو موجود رہا مگر دھیرے دھیرے اور غیرمحسوس طریقےسےاجتماعی ہدف یعنی غلبہ و اقامت ِدین ہی اصل انفرادی نصب العین اور مطلوب ومقصودبنتا چلا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جماعتیں رفتہ رفتہ مذہبی سےزیادہ سیاسی‘ بلکہ محض اسلام پسند جماعتیں اور تحاریک بنتی چلی گئیں۔ ان کے کارکنان میںغلبہ و اقامت ِدین کی جدّوجُہد پر توجّہ کے ارتکاز کے باعث دین کا باطنی اور روحانی پہلو آہستہ آہستہ مفقود ہوتاچلا گیا(اِلّا ماشاء اللہ)۔ اجتماعی ہدف کو نصب العین بنالینے کی وجہ سے ان میں مایوسی اور عجلت پسندی پیدا ہوئی ‘ پھر راہِ یسیر (short cut) کی تلاش ہوئی اور بالآخر بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرتے ہوئے لبرل‘ سیکولر حتیٰ کہ اسلام دشمن قوتوں کی حاشیہ نشین بن بیٹھیں۔فاعتبروا یا اولی الابصار!
دوسری جانب مجرد انفرادیت کے تصوّر پر مبنی اور اپنے ہی مَن میں ڈوب کرسراغِ زندگی پالینے کےجویا یعنی محبّت ومعرفت ِالٰہی‘ عرفانِ ذات‘ فنافی اللہ اور وصل باللہ کی پُرکیف و مست وادی کےسالکین وعارفین اجتماعی ہدف یعنی غلبہ و اقامت ِدین کی جدّوجُہد سے بالکلیہ بے نیاز نظرآنے لگے۔ یہ انفرادی نصب العین پرتوجّہ مرکوز کرتے ہوئے اجتماعی ہدف کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تھا۔
دین ِاسلام کو اگر گلاب کے ایک حسین و دلکش پھول سے تشبیہ دی جائےتو اَوّل الذکر انقلابیوںنےشوخی ٔگل اور نرمی ٔبرگ ہی کےظاہرکوتوجّہ میں لیا‘ جبکہ سالکین پھول کےباطن سے لَو لگاتے ہوئے خوشبوئے گل ہی کے دیوانے بنے رہے۔ درحقیقت دین کا یہ مسحور کن اور دلفریب پھول ایک حقیقت کلی (organic whole)کے طور پر قبول کرنا مطلوب تھا۔ظاہروباطن کی دوئی اور شریعت و طریقت کی یہ جدائی اگرچہ دورِخلافت راشدہ کے بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھی مگر کاٹ کھانے والی ملوکیت مُلْکًاجَبریًاکےپنجے گاڑلینے کےبعد تو یہ دوالگ نظام ہائے فکر کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔ ؎
اُڑائے کچھ ورَق لالے نے‘ کچھ نرگس نے‘ کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

ذیل میں انفرادی نصب العین اوراجتماعی ہدف کے اسی تعلق میں افراط و تفریط کےضمن میں چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔قرآن حکیم کےمطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اُخروی نتیجے کے پس منظرمیں مجموعی گفتگو فرد (individual)کے حوالے سےکی گئی ہے‘ جبکہ دُنیوی پہلو سے بیشتر گفتگواجتماعیت کے نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ حقائق بیان کیے گئےکہ اُخروی محاسبہ فرداً فرداً ہوگا۔(۱) ذائقہ ٔ موت چکھنے اورقیامت کےبپا ہونے کے بعد جو کوئی بھی آگ سے بچاکرجنت میں داخل کر دیاگیاتو وہی فرد کامیاب رہا۔ ہنگامہ ٔقیامت کے برپا ہونے کے وقت نفسانفسی کاایسا عالم ہوگا اور ہرفردکو اپنی ہی نجات کی ایسی فکر دامن گیر ہوگی جواسے ہرقیمتی متاعِ دُنیوی سے بے نیازاورہرعزیز رشتے سے بے پروا کردے گی۔قرآن حکیم میں متعدد مقامات پریہ چشم کشا حقیقت بیان ہوئی کہ سفرآخرت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘گویاوہاں تو اپنی گٹھڑی اور اپناہی کندھا ہوگا۔
قرآن کی رو سے محاسبۂ اُخروی بالکلیہ انفرادی حیثیت میں ہوگا‘ جس کا مقصودفرد کی نجات اور فوزوفلاح ہے۔ اسی نصب العین کابلندترین پہلویہ ہےکہ بندے کو اللہ ربّ ذوالجلال کی ایسی محبّت‘معرفت اورقرب نصیب ہو جائے کہ صرف وہی ذات مقصودِحقیقی‘ مطلوبِ حقیقی اور محبوبِ ِحقیقی بن جائے۔ ع’’جو دَم غافل‘ سو دَم کافرمرشد ایہہ پڑھایا ہو!‘‘ یعنی اُس کی یاد سے غافل گزرا ہواایک لمحہ بھی کفرلگے۔مشاہدۂ حق کی ایسی سحر آفریں کیفیت اور احسان کا ایسا سرور میسّر آجائے کہ ہجر و فراق کا سوال ہی بے معنی ہو کر رہ جائے۔ ؎

آئے تھے سبھی طرح کے جلوے مرے آگے

مَیں نے مگر اے دیدۂ حیراں نہیں دیکھاہ

ر حال میں بس پیش نظر ہے وہی صورت

 مَیں نےکبھی روئے شب ِہجراں نہیں دیکھا!

لامتناہی تمنّاؤں اور آرزؤں کےجھاڑجھنکاڑسےدل کی دنیاکومحبوبِ حقیقی کے لیے خالی کرکےاس کی اَشد محبّت کوتمام محبتوں پرحاوی کرلیا جائے۔(۲) اُسی کے حسن ِلم یزل سے لبریزہوکراور عشق الٰہی کی آگ میں جل کر ماسوا اللہ ہر شے خاکستر کر دی جائے۔

کُلُّ ما فی الکون وَھم او خیال

او عُکوس فی المرایا او ظلال

’’کون و مکاں میں جوکچھ بھی ہے‘ بس وہم یا خیال ہے۔ یا پھر آئینوں میں عکس یا سائے ہیں۔‘‘
یہاں تک کہ اللہ کے سوا ہرشےوہم‘ خیال‘ آئینوں کےعکوس‘سایہ‘ فریب‘ حادث اورممکن محسوس ہونے لگے۔ اس واجب الوجوب ہستی کےسوا کچھ اور نظر ہی نہ آئے‘ حتیٰ کہ مَن وتُوکا فرق مٹا کر بندہ بے خودی میں پکار اٹھے: لَاموجود اِلَّا اللہ۔
مگربلین ڈالر سوال یہ ہے کہ اللہ کی محبّت کا یہ گوہرنایاب ملے توملے کیسے!
اُس رحیم و شفیق ذات کےکیا کہنے کہ اَپنی محبّت و رَضا کے حصول کا سلوک بھی خوداَپنے کلام میںواضح کردیا‘ تاکہ بندگانِ خدا محبّت ِالٰہی کے حصول کے لیے راہبانہ تصوّر ِنیکی پرمبنی خودساختہ ریاضتوں‘ مجاہدوں‘ چلّوں‘ غیرمسنون اَذکار واَشغال اوربدعات کے دھکوں سے بچ سکیں۔(۳) با یں ہمہ اللہ نے محبّت ِالٰہی کے دعوے کی صداقت کواَپنے محبوب ِکبریا حضرت محمدﷺ کی ہمہ جہت اتباع و پیروی سے مشروط کردیا۔(۴)
دوسری طرف اَز روئے قرآن اتباعِ رسولﷺ اور عشق ِمصطفیٰﷺ ہی کے ہمہ گیر اورجامع تصوّرکاتقاضا ہے کہ ہماری سعی وجُہد کااجتماعی ہد َف بھی وہی بن جائے جو درحقیقت نبی اکرمﷺ کامقصد ِبعثت بھی ہے (۵)اور رسولوں کے بھیجنے اورکتابوں کے اتارےجانے کی غایت بھی‘ تاکہ انسانوں کے مابین ہرطرح کے ظلم‘ناانصافی اور اونچ نیچ کی بیخ کنی کی جاسکے۔ انہیںاستحصال‘ استبداد اورامتیازات پر مبنی جابرانہ اور باغیانہ نظام کے شکنجے سے نجات دلواکر ان کےدکھوں کا مداوا کیا جاسکےتاکہ رَحمۃٌ للعالمین ﷺ کی رَحمۃٌ للعالمینی کا عالمی اور آفاقی ظہور ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عدل و قسط کے قیام اور اعلاء ِ کلمۃاللہ کے حصول کے لیےجوجَواںہمت مَردانِ کارباطل کے خلاف منظّم ہوکرصف آرا ہوں‘ اللہ ایسےہی لوگوں سے محبّت کرتا ہے۔ (۶)
مزیدبرآں‘ آخرت میں دردناک عذاب سے چھٹکارے کےانفرادی نصب العین کو ایمانِ حقیقی اور جہادفی سبیل اللہ کے ساتھ اجتماعی ہدف کے لیے پیہم جدّوجُہد سے مشروط کر دیا گیا۔(۷)سچےاور غیرت منداَہل اللہ بھی وہی ہیں جواَپنے دور کے باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے بلکہ اللہ کی راہ میں مصیبتوں پرڈٹے رہے اور رَبّ کے باغیوں سےآخری سانس تک برسر ِپیکارہوکراللہ کی محبّت کے حق دارٹھہرے۔اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا کے اصول کے تحت یہاں آکر انفرادی نصب العین یعنی اللہ کی محبّت و رضا کا حصول اجتماعی ہدف یعنی غلبہ و اقامت ِدین کی مسلسل جدّوجُہدسےمشروط ہوگیا۔
معلوم ہوا کہ بندئہ مؤمن کاصرف ایک ہی نصب العین ہوناچاہیے‘ اور وہ ہے ربّ ِکائنات کی محبّت و رضا کا حصول ۔یہ محبّت اتباعِ رسولﷺ کے بغیر ممکن نہیں اور اتباعِ رسولﷺ یہ ہے کہ زندگی کے ہرپہلومیں نبی اکرمﷺ کےمبارک طریقے کی پیروی کی جائے ۔ پھر خود کو تکبیر ِ ربّ کےاجتماعی ہدف کی اسی جاں گسل جدّوجُہدمیں کھپایا جائےجس میں آپﷺ کےشب وروزصَرف ہوئے‘کیونکہ یہی آخرت میں دردناک عذاب سے چھٹکارے کی تجارت ہے۔
تحریک رجوع الی القرآن کے پندرہویں صدی کے بلامبالغہ داعی اور مجدد استاذی و مرشدی محترم ڈاکٹر اسرار اَحمدؒ نے اسلامی احیائی تحاریک کے ہاں نقطۂ نظرکی اس تبدیلی کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ علاج بھی تجویزکیا۔ ۱۹۶۷ء میں اپنے ایک معرکۃ الآراء مضمون ’’اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ: کرنے کا اَصل کام‘ ‘ میں’’تعبیر کی کوتاہی‘‘ کےعنوان سے رَقم طرازہیں:
’’ذرادِقت نظر سے جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ ان تحریکوں کامطالعہ ٔ اسلام اسی مغربی نقطۂ نظرپرمبنی ہے جس میں روح پر مادّے اور حیاتِ اُخروی پر حیاتِ دنیوی کو فوقیت حاصل ہے ۔چنانچہ اسلام کے ان ماوراءالطبیعیاتی اعتقادات کااقرارتوان کے یہاں موجودہے جن کے مجموعے کا نام ایمان ہے لیکن انہیں کچھ درخورِاعتناء اور لائق ِالتفات نہیں سمجھا گیا اور نگاہیں کلیۃً اس ہدایت و رہنمائی پر مرکوزہیں جو حیاتِ دُنیوی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام نے دی ہیں اور جن کے مجموعے کا نام ’’اسلامی نظامِ زندگی ‘‘ رکھا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار تو موجودہے لیکن ’’ایمان با للہ‘‘ کی وہ کیفیت کہ آفاق و اَنفس میں تنہا وہی فاعل مطلَق‘ مؤثر ِحقیقی اور مسبّب الاسباب ’’نظر‘‘ آنے لگے‘ بالکل مفقودہے۔ آخرت کا اقرارتوکیا جاتاہے لیکن اس پر ایسا ایمان کہ ’’ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ(دُنیا میں ایسے رہو‘ جیسے اَجنبی یا مسافر) ‘‘کی کیفیت پیدا ہو جائے‘ قطعاً ناپیدہے۔ رسالت کا اقرار تو ہے لیکن محبّت ِرسولﷺ نام کو موجودنہیں‘ اورمقامِ رسالت کا تصوّرزیادہ ترقی پسند لوگوں کے نزدیک توڈاک کے ہرکارے اور صرف اپنی زندگی میں ملّت کے مرکزیعنی رہبرومطاع سے زیادہ نہیں۔(۸) اورجوسُنّت کے مقام سے زیادہ آگاہ ہیں انہوں نے بھی سُنّت عادت اورسُنّت ِرسالت کی تقسیم سے ایسا چور دَروازہ پیداکرلیاہے جس سے کم اَزکم اپنی نجی زندگیوں کی حدتک زمانے کا ساتھ دینے کی آزادی برقراررہے‘ گویا ’’ایمان‘‘ کا صرف وہ اقرارپایاجاتا ہے جو قانونی اسلام کی بنیاد ہے اور یہ کیفیت کہ ایمان انسان کا’’حال‘‘بن جائےنہ صرف یہ کہ موجود نہیں بلکہ اس کی کسی ضرورت واَہمیت کا احساس بھی سرے سے عنقاہے!‘‘ (۹)
آگے چل کر اسلام کی اس نئی تعبیرکے وجود میں آنے کاسبب صفحہ۱۵‘۱۶ پریوں بیان کیا:
’’اسلام کی یہ نئی تعبیر براہِ راست نتیجہ ہے مغرب کے فلسفہ و فکر کے ہمہ گیر تسلط کا جس نے نقطۂ نظر کو ملحدانہ و مادّہ پرستانہ بنا کر رکھ دیا۔ نتیجتاً روح اور اس کی حیاتِ باطنی خارج اَزبحث ہوگئی‘ اور مادّہ اور حیاتِ دُنیوی ہی سارے غور وفکر کا موضوع اور سوچ بچارکامرکز بنے۔ چنانچہ دین و مذہب کی بھی مادّی تعبیر ہوئی اور کہنے میں تو اگرچہ آیا کہ اسلام فلاحِ انسانی کا جامع پروگرام ہے جس میں فلاحِ اُخروی اور فلاحِ دُنیوی دونوں شامل ہیں‘ لیکن نگاہیں چونکہ فی الواقع صرف حیاتِ دُنیوی پر مرکوز ہیں‘ لہٰذا آخری تجزیے میں اسلام ایک’’سیاسی و عمرانی نظام‘‘(Politico-Social System) بن کررہ گیاہے۔ اور ’’الٰہیات‘‘کی حیثیت ایک’’پردے‘‘ سے زیادہ نہ رہی۔ چنانچہ زندگی کا اصل مقصد یہ قرار پایا کہ اس نظامِ زندگی کو عملاً رائج و نافذ کیا جائے۔ رہی خدا کی معرفت و محبّت اور اس کے سامنے تضرع و اِخبات جوعبادت کا اصل جوہرہیں‘ تو ان کی حیثیت بالکل ثانوی و اضافی ہو کر رہ گئی۔
اس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں فی الواقع ’مذہبی‘ سے زیادہ ’سیاسی و عمرانی‘ اور’ دینی‘ سے زیادہ’دُنیوی ‘ہیں۔ اور آخری تجزیے میں دوسری سیاسی و معاشی تحریکوں سے صرف اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت یا اشتراکیت بہتر نظام ہائے حیات ہیں اور اِن کے نزدیک اسلام انسانی زندگی کے جملہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرتا ہے۔ گویا درحقیقت مذہب کی اصل اَقدار کے احیاء کاکام توابھی شروع بھی نہیں ہوا۔ ؎
نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے اَبھی!

یہی سبب ہے کہ یہ تحریکیں بے لنگرکے جہازوں کے ماننداِدھراُدھربھٹک رہی ہیں اور ان کا حال اکثروبیشتراس مسافر کاساہے جسے نہ تومنزل ہی کاپتہ رہااورنہ یہ ہی یادرہاکہ سفرشروع کہاں سے کیا تھا۔ ؎
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو رَاس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا!‘‘

’’احیائے اسلام کی شرطِ لازم: تجدید ِایمان‘‘ کی شہ سرخی کے ضمن میں صفحہ ۱۷‘۱۸ پر لکھتے ہیں:
’’ایمان لامحالہ کسی ماوراءالطبیعیاتی حقائق پر یقین کا نام ہے‘اور اس راہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان ’’اَن دیکھی‘‘ حقیقتوں پردکھائی دینے والی چیزوں سے زیادہ یقین رکھے اور سَر کے کانوں سےسنی جانے والی باتوں سے کہیں زیادہ اعتماد اُن باتوں پرکرے جوصرف دل کے کانوں سے سنی جاسکتی ہیں۔ گویا’’ایمان بالغیب‘‘اس راہ کی شرطِ اوّلین ہے اور اس کے لیے فکرونظر کایہ انقلاب اور نقطۂ نظر اور طرزِفکرکی یہ تبدیلی لازمی و لابدی ہے کہ کائنات غیرحقیقی اورمحض وَہمی و خیالی نظر آئے لیکن ذاتِ خداوندی ایک زندئہ جاوید حقیقت معلوم ہو۔ کائنات کا پوراسلسلہ نہ اَزخود قائم معلوم ہونہ کچھ لگے بندھے قوانین کے تابع چلتانظرآئے‘بلکہ ہرآن و ہر سمت ارادۂ خداوندی و مشیت ِایزدی کی کارفرمائی محسوس و مشہود ہوجائے۔ مادّہ حقیروبے وقعت نظر آئےلیکن روح ایک حقیقت ِکبریٰ معلوم ہو۔انسان کا اطلاق اُس کے جسد ِحیوانی پر نہ ہو بلکہ اُس روحِ رَبانی پر کیا جائے جس کی بدولت وہ ’’مسجود ملائک‘‘ ہوا۔(۱۰)حیاتِ دُنیوی فانی و ناپائیدارہی نہیں بالکل غیرحقیقی و بے وقعت معلوم ہواورحیاتِ اُخروی اَبدی و سرمدی اورحقیقی و واقعی نظر آنے لگے! اللہ تعالیٰ کی رضااورخوشنودی کے مقابلے میں دنیا و مافیہا کی وقعت حدیث ِنبوی ﷺ کے مطابق مچھر کے پَر سے زیادہ محسوس نہ ہو!یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ جب تک اُمّت کے ایک قابل ِذکر اور مؤثر حصے میں نقطۂ نظر کی یہ تبدیلی واقعتاً پیدا نہ ہو جائے ’’احیائے اسلام‘‘ کی آرزو ہرگز شرمندۂ تکمیل نہ ہوسکے گی۔‘‘ (طبع ۲۲ : ستمبر۲۰۲۱ء)
محولہ بالہ نباضی اور تشخیص کے بعد ا س’ ’ تعبیرکی کوتاہی‘ ‘ کا ازالہ اسی سال یعنی ستمبر۱۹۶۷ء ہی میں’’ قراردادِ تاسیس‘‘کی صورت میں بڑے غوروخوض کے بعدضبط ِتحریر میں آیا۔ اس کے ذریعے احیائی تحریکوں کے فکرونظرکےمتذکرہ بالا نقص کی تلافی کرتے ہوئےانفرادی نصب العین اور اجتماعی ہدف کو توازن کے ساتھ اپنے اپنے محل و مقام پر رکھا گیا۔اس قرارداد کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’آج ہم اللہ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائدکردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممد و معاون ہو ---- ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے ۔ اُسی کی اَخلاقی و روحانی تکمیل اور فلاح و نجات‘ دین کا اصل موضوع ہے‘ اور پیش نظر اجتماعیت اصلاًاسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدد دے .....‘‘
انفرادی نصب العین اورغلبہ دین کےاجتماعی ہدف کے مابین عدم توازن کے اس رویے کو قراردادِ تاسیس کی’’توضیحات‘‘ صفحہ ۲۹ میںوضاحت کرتےہوئے بانی محترمؒ لکھتے ہیں:
’’..... اس تصریح کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ماضی میں مسلمانوں کو ان کی یہ ذمہ داری تو بالکل ٹھیک یاد کرائی گئی کہ جس دین کے وہ مدعی ہیں اسے دنیا میں عملًا قائم کرنے کی سعی وجُہد بھی ان پر فرض ہے اور یہ کہ دین محض ذاتی عقائد اور کچھ مراسم عبودیت یعنی انسان اور رَبّ کے مابین پرائیویٹ تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی کو اپنے احاطے میں لیناچاہتا ہے‘ لیکن ان اُمورپراس قدرزوردیاگیاکہ بندےاوررَبّ کے مابین تعلق کی اہمیت اوراَفرادکی اپنی علمی‘ اَخلاقی اور روحانی ترقی نظراندازہوتی چلی گئی۔آئندہ جوکام پیش نظرہے اُس کےاُصول ومبادی میں یہ نکتہ بہت زیادہ قابل لحاظ رہےگاکہ ایک مسلمان کااَصل نصب العین صرف نجاتِ اُخروی اور رضائے الٰہی کاحصول ہے اوراس کے لیے اسے اصل زوراپنی سیرت کے تطہیر و تزکیے اوراَپنی شخصیت کی تعمیروتکمیل پر دینا ہوگا‘ جس سے تعلق مع اللہ اورمحبّت ِخدا اور رسولﷺ میں اضافہ ہوتارہےاوراس میں زیادہ سےزیادہ اخلاص پیدا ہوتا چلا جائے۔ دین کی تائیدونصرت اور شہادت و اقامت یقیناً فرائض ِدینی میں سےہیں لیکن ان کے لیے کوئی ایسی اجتماعی جدّوجُہدہرگزجائزنہیں ہے جواَفرادکوان کے اَصل نصب العین سے غافل کر کے انہیں محض ایک دنیوی انقلاب کے کارکن بنا کے رَکھ دے۔‘‘
اس عدم توازن کے نتائج کے بارے میں صفحہ ۳۰ پر لکھتے ہیں :
’’...... یہ صورت ِحال کہ جلسوں کے انعقادکے ضمن میں تو پابندی بھی ملحوظ رہے اور جوش و خروش کا بھی مظاہرہ کیا جائےلیکن نمازباجماعت کی پابندی گراں محسوس ہواور نوافل سرے سے خارج اَز بحث ہوجائیں‘ دین کی نصرت و حمایت کاجذبہ توترقی کرتا چلا جائے لیکن تزکیۂ باطن کی طرف کوئی توجّہ نہ دی جائے‘ یا سُنّت نبویﷺ کی حجیت و اَہمیت پر دَلائل تو اَزبرہوں لیکن خوداَپنی زندگی میں اتباعِ نبویﷺ کی جھلک نظرنہ آئے‘ نہ صرف یہ کہ اَفرادکے حق میں سم ِقاتل ہے بلکہ خود اجتماعیت کے لیے بھی سخت مضر اور مہلک ہے۔ ‘‘
واقعہ یہ ہےکہ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویm کے منہج پرگامزن ہوکر بانیٴ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹراسراراَحمدؒ نےمروّجہ تصوف(۱۱)کی بجائےسلوکِ محمدی cیعنی احسانِ اسلام پربھرپور زوردیا اوردین کےحسین پھول کے ظاہر وباطن کےان دو لازمی و لابدی اجزاء (integral components) کو یکجا کرتے ہوئے قرآن کے ذریعے اسلام کی انقلابی فکر پیش کی۔ایک طرف تو دنیا کی منجدھارسےہٹ کر یک رخی انفرادیت پر مبنی مروّجہ تصوف اور روایتی مذہبی و فقہی ظاہریت پرتنقید کی تو دوسری جانب خودی سے غافل اور عرفان ذات سے گریزاں نری انقلابیت کاسقم واضح کیا۔لہٰذااس فکرمیں فردکے انفرادی نصب العین کو عزم اور اجتماعی ہدف پر فائق رکھتے ہوئے رُفقاء کی تربیت پربھرپورزوردیا۔ اس فکرکے چھ نکات درج ذیل ہیں : (یہ نکات‘ ایک لفظ’’نعم جدت‘‘کے ذریعے بآسانی یادرکھے جاسکتے ہیں۔)
(۱) ن ---—نصب العین ---— محبّت و رضائے الٰہی کا حصول (جس کا نتیجہ اُخروی نجات اورفوزوفلاح یعنی جہنم سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ ہے)
(۲) ع ---—عزم ---—غلبہ ٔدین‘ نظامِ خلافت کا قیام‘ رَب کی دَھرتی پر رَب کانظام
(۳) م ---—منہج ---—منہج ِانقلابِ نبوی ﷺ سے ماخوذ و مستنبط
(۴) ج ---—جہاد ---—سرکش نفس‘ شیطان کی صلبی و معنوی ذریت‘ بگڑے ہوئے معاشرے اور طاغوتی نظام کے خلاف
(۵) —د---دعوت ---—الہدیٰ (دَعوت رجوع اِلی القرآن)
(۶) ت---—تنظیم ---—تنظیمی اَساس‘ شخصی بیعت سمع و طاعت فی المعروف
حاصل ِکلام یہ ہے کہ آج غلبہ و اقامت دین کے لیے ناگزیر ضرورت ہےکہ ان دو الگ نظام ہائے فکر (جو بظاہرایک دوسرے کے ضدہیں‘ حقیقت میں ایک ہیں) کی تجمیع و تطبیق (integration) کرتے ہوئےظاہروباطن سے آراستہ و پیراستہ جامع شخصیات نکھارنے اور پروان چڑھانے کی کوشش کی جائے۔ گویا کہ صوفی و مجاہد‘ عارف و عالم‘ داعی و واعظ‘ مبلغ و انقلابی ایک ہی شخصیت میں منعکس نظر آتے ہوں‘ اور دنیا ان لوگوں کودیکھ کر آج بھی پکاراٹھے کہ: ھم رھبان باللیل وفرسان بالنھار۔ یہ اٹل حقیقت ہےکہ ایسےمَردانِ کار جو محبّت و معرفت ِالٰہی کی مے سے مخمور ہو کراسلام کے انقلابی فکرکے حامل ہوں‘ صرف قرآن ہی کے ذریعے پیدا ہو سکتے ہیں۔ (۱۲)
حواشی
(۱) {وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا(۹۵)}(مریم)
(۲) { وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ } (البقرۃ:۱۶۵)
(۳) {وَرَهْبَانِيَّةَ ۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا ۚ } (الحدید:۲۷)
(۴) {قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (۳۱) قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ(۳۲)} (اٰلِ عمرٰن)
(۵) {هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۹)} (الصف)
(۶) { اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴)}(الصف)
(۷) {يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ(۱۰) تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۱) يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ(۱۲) وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ(۱۳)} (الصف)
(۸) اِس مکتب کی زوردار نمائندگی کا شرف ہمارے یہاں غلام احمدپرویزکوحاصل ہے۔ یہاں اِس مکتب فکرکے حوالے سے صرف یہ وضاحت مقصود ہے کہ یہ بھی تعبیر کی اصلاً اسی غلطی کی اگلی منزل ہے۔
(۹) اِسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ: کرنے کا اَصل کام‘ ص ۱۴-۱۳ اَز ڈاکٹر اِسرار اَحمدؒ (طبع ستمبر۲۰۲۱ء)
(۱۰) آیہ قرآنی:{فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ(۲۹)} (الحجر)’’جب مَیں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی رُوح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ ‘‘
(۱۱) واضح رہےکہ بانی ٴ محترمؒ نےمقاصد ِتصوف کی تو بھرپُورتائید‘ حمایت بلکہ وکالت کی مگر اِ ن مقاصد کے حصول کے ذرائع کے لیے سلوکِ محمدیﷺ پر زوردِیا۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’مروجہ تصوف یا سلوکِ محمدیﷺ یعنی احسانِ اسلام‘‘ اور ویڈیو بعنوان : ’حقیقت ِتصوف۔
(۱۲) تنظیم اِسلامی کے نظامِ تربیت و نگرانی میںاحسانِ اِسلام مسودہ ہو یا ملتزم و ذِمہ داران رِپورٹس اور طلب ِاصلاح خطوط‘ تربیتی نصاب ہویا تربیتی کورسزوتربیتی اِجتماعات‘ یہ سب درحقیقت انفرادی نصب العین( یعنی محبت و رضائے الٰہی) اور اجتماعی ہدف (یعنی غلبہ و اِقامت ِدِین کی جدّوجُہد) کے مابین توازن قائم کرنے کی کوششیں ہی ہیں۔


***