مطالعہ اچھی تحریر کے لیے غذا ہے!راحیل گوہر
کتابوں کا مطالعہ مسلمانوں کی ایک عظیم روایت رہا ہے۔ عہدِ وسطیٰ میں ہر شخص کتابوں کا دلدادہ تھا ۔ کتابوں پر بحث و مباحثے ‘ تنقید و تبصرے ہوتے تھے۔ جدھر جاؤ‘ جس محفل میں بھی جابیٹھو‘ کتابوں کا تذکرہ ہی زبان زدِ خاص و عام ہوا کرتا تھا۔ مسلمان فلسفی و دانشور کتابوں کی تلاش میں صحراؤں کی خاک چھانتے پھرتے۔ عرب ممالک میں کتب خانے اور کتابوں کی بے شمار دکانیں تھیں۔قاہرہ میں قائم مکتبۂ فاطمین میں تقریباً بیس لاکھ کتابیں تھیں۔ بغداد کا بیت الحکمت کتب خانہ نہیں بلکہ ایک عظیم یونیورسٹی تھا جہاں محقق ‘ عالم ‘ فلسفی سب جمع ہوتے ۔ روز نئی کتابیں لکھی اورپڑھی جاتی تھیں۔ افسوس کہ اس قابلِ رشک ماضی کے باوجود آج مسلم معاشرے خصوصاً پاکستان میں کتابیں غائب ہوتی جا رہی ہیں ۔ مَردوں اور عورتوں میں مطالعہ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
مطالعہ بھی ایک فن ہے‘ بالخصوص دور جدید میں جب انسانی زندگی بہت مصروف اور تیز رفتار ہوچکی ہے‘ اب ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں ضروری اور بنیادی معلومات حاصل کرنا لازمی ہے اور گہرے مطالعہ کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جنہیں لکھنے کا شوق ہے‘ ان کے لیے تو مطالعہ ایسا ہی ہے جیسے زندہ رہنے کے لیے غذا حاصل کرنا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ‘ اردو ادب کا ایک بڑا نام ہے‘ کہتے تھے کہ ’’وہ لوگ جو صرف لکھنے کا عمل کرتے ہیں اور مطالعہ پر توجّہ نہیں دیتے وہ اپنی تحریروں میں خود کو دہرانے لگتے ہیں ۔ ان کی تحریروں سے گہرائی اور تہ داری غائب ہوجاتی ہے۔ مطالعہ ہی وہ عمل ہے جو ذہن کو کشادگی جبکہ شعور کو پختگی اور جامعیت عطا کرتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مطالعہ ہی انسان کے علم کو جلا بخشتا ہے۔
مطالعہ انسان کی شخصیت کو ایسے نکھار دیتا ہے جیسے کسی سیاہ تانبے کے برتن کو قلعی کردی جائے‘ یا کسی اندھیری جگہ پر جلتے ہوئے چراغ کی جگہ ہائی پاور کا بلب لگادیا جائے جس سے ارد گرد کا پورا ماحول روشن ہوجاتا ہے ‘یا پھر کسی گھٹن زدہ کمرے کے دروازے کھول دیے جائیں۔ مطالعہ ذہن کے افق کو وسیع کرتا ہے۔ اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ مطالعہ پیٹرول کی طرح ہوتا ہے ‘ مثلاً نئی گاڑی کی بھی اس وقت تک کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہوتی جب تک اس میں پیٹرول نہ ڈالا جائے۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے کو بھی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اس کے علم و فضل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
دورِ جدید کا المیہ یہ ہے کہ انٹر نیٹ کے پھیلاؤ نے طالب علم کا کتاب سے رشتہ تقریباً ختم ہی کردیا ہے۔ صرف ایک انگلی کے ’’ٹچ‘‘ پر پوری دنیا اسکرین پر نمودار ہوجاتی ہے۔ اس سہولت نے طلبہ کے لیے ہر چیز کو سہل الحصول بنا دیا ہے۔ حصولِ علم کے لیے جو محنت ‘ جدّوجُہداور جاں فشانی مطلوب ہوتی تھی اس سے جان چھڑا لی گئی ہے۔ کتاب سے علم حاصل کرنے میں یہ ہوتا تھا کہ چار و ناچار پوری کتاب کا با لاستیعاب مطالعہ کر لیا جاتا تھا۔ چھپائی کرنے اور نقل کر کے سوال نامہ حل کرنے والے کو بھی کتاب تو دیکھنی ہی پڑتی تھی ‘ مگر انٹر نیٹ اور موبائل نے انہیں یہ سہولت فراہم کر دی ہے کہ اپنی ضرورت کے مواد موبائل میں دیکھ کر پرچہ امتحان دے دیتے ہیں‘ اس کے علاوہ کتاب میں آگے کیا ہے اور پیچھے کون سا مضمون ہے ‘ اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتاب کی اس درجہ ناقدری نے اس کی وہ وقعت ہی ختم کرد ی ہے جس سے کبھی اکابرین دن رات استفادہ کیا کرتے تھے اور ان کو اپنے سینے سے لگا کر رکھتے تھے۔
اردو کے معروف ادیب مختار مسعود نے اپنی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی ابتدائی چار دہائیاں کتاب پڑھنے اور کتاب لکھنے کا زمانہ تھا جس میں بہت اچھی کتابیں لکھی گئیں اور نامور ادیب و شاعر اور دانشور پیدا ہوئے ‘ لیکن ۱۹۵۰ء کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی مائیں شاید تاجر اور سیاست دان ہی پیدا کر رہی ہیں۔ خاتون ادیب شاہین رحمٰن کہتی ہیں کہ ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے‘ تہذیبوں کو جنم دیتا ہے‘ معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جب تک کوئی معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ گزشتہ دو دہائیوں سے کتاب بینی سے دور ہوتا جارہا ہے۔
یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کر نے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لا ئبریریوں میں ہوا کرتے تھے ‘ اب سرچ انجن کے ذریعے سے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہوجاتی ہے ‘ لیکن اس طرزِعمل پر پوری طرح یقین بھی نہیں کیا جاسکتا کیوںکہ ملک کے معروف سفرنامہ نگار مستنصرحسین تارڑ اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق یورپ میں کمپیوٹر ہم سے پچاس سال پہلے متعارف ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود وہاں آج بھی کتاب پڑھنے کا رجحان اسی طرح موجود ہے ۔
ہماری تہذیب میں ایک وقت وہ بھی تھا کہ کسی پڑھے لکھے مسلمان کا گھر کتب خانے کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا تھا۔ کسی گھر میں ہزاروں‘ کسی میں سینکڑوں اور کسی گھر میں درجنوں کتابیں ہوتی تھیں۔ مگر اب ہمارا حال یہ ہے کہ کروڑوںروپے کے گھر بنا تے ہیں‘ اس میں ایک ایک‘ دودواور کہیں چار چار گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں‘ ہر آسائش موجود ہوتی ہے ‘مگر نہیں ہوتی تو لائبریری نہیں ہوتی۔ کتاب سے لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں لیکن دو سو روپے کی کتاب خریدتے ہیں اور اسے مہنگا کہتے ہیں۔
مطالعہ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے زبان آشنائی پیدا ہوتی ہے۔ انسان زبان کے مختلف اسالیب کے بارے میں سیکھتا ہے۔چیزوں کو دیکھنے کے perspective میں تبدیلی آتی ہے۔ بہتر انسان بننے میں ادبی مطالعہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بغیر انسان کی شخصیت ادھورے پن کا شکار ہوجاتی ہے۔ ادب العالیہ آدمی کو باطنی طور پر richکرتا ہے۔ اس کے اندر cultural behaviour پیدا ہوتا ہے اور شائستگی آتی ہے۔ نتیجتاً وہ ایک بہتر انسان بنتا ہے۔ معاشرے میں آج جتنی بے چینی اور سفاکی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ ادب کا مطالعہ نہیں کرتے۔ معروف شاعر اور فلسفے کے استاد جناب احمد جاوید کہتے ہیں :
’’ میری نظر میں وہ انسان نہیں جس کو لفظ کا علم نہیں ‘ لفظ جس پر اثر نہیں کرتا ‘ لفظ جسے اپنی طرف نہیں کھینچتا ۔ یہ ہماری فطری و مذہبی ضرورت بھی ہے ‘ روحانی ضرورت بھی ہے اور جمالیاتی ضرورت بھی۔ مطالعہ تسلسل ِفکر میں دونوں طرح کی تبدیلیاں پیداکر سکتاہے‘ ایک یہ کہ اُس کی تکمیل کرتا ہے اور تکمیل کا عمل بعض اجزاء کو چھوڑنے اور بعض اجزاء کو اختیار کرنے سے ہوتا ہے‘ اور یہ تمیز مطالعہ ہی سکھاتا ہے۔ احمد جاوید یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی بھی علم حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے کتاب ڈھونڈنے سے پہلے استاد ڈھونڈنا چاہیے ورنہ آپ ہمیشہ چند مستقل غلط فہمیوں میں مبتلا رہیں گے۔ ‘‘
اصول و ضوابط‘ طبیعت میں ٹہراؤ‘ علم کی پیاس‘ اساتذہ کو پڑھنے کا ذوق اور مستقل مزاجی انسان کو با عمل اور با شعور بناتی اور اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے۔ اپنے ہدف کی طرف جب قدم بڑھائے جاتے ہیں تو فاصلے قدموں کی دھول بن جاتے ہیں‘ راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور منزل کی حوصلہ افزا روشنی صبح کے اس ستارے کی مانند ہوجاتی ہے جو خاورِ مشرق کی کرنیں بکھرنے تک چاند کے پہلو نشیں ہی رہتا ہے۔ مطالعہ کی افادیت سے فیض یاب ہونے کے لیے بھی یہی سب کچھ در کار ہوتا ہے۔ مضبوط قوتِ ارادی انسان کے عمل میں اس کی سیرت وکردار کا اظہار ہے۔
انسان کے مستحکم ارادوں کے سامنے پتھر بھی موم ہوجاتے ہیں۔ ایسا کون سا پہاڑ ہے جس پرا نسان چڑھ نہیں سکتا ‘ ایسا کون سا صحرا ہے جسے وہ عبور نہیں کر سکتا اور ایسا کون سا سمندر ہے جس کی گہرائیوں کی انسان خبر نہیں لایا۔ صرف ہمت اور پختہ ارادوں کی ضرورت ہے‘ پھر قدرت بھی انسان کی مدد کرتی ہے۔ معیاری ادب اور آفاقی علو م کا گہرا‘ فکر انگیز اور نتیجہ خیز مطالعہ ان تمام راستوں کی سختیوں کو موم کردیتا ہے۔ شعلہ بیان مقرر شورش کاشمیری کا قو ل ہے کہ اچھا مقرر اور اچھا ادیب بننے کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں: ایک صبح کی واک اور دوسرے صبح کا اخبار! بات پھر مطالعہ پر ہی آگئی۔ مطالعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معروف فلسفی اور طبیب ابن رشد اپنی ۷۵سالہ زندگی میں ہر روز بلا ناغہ ۷۰صفحات پڑھ لیا کرتے تھے۔ اپنی پوری زندگی میں انہوں نےصرف دو راتیں بغیر مطالعہ کے گزاریں ۔ ایک رات جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور دوسری رات ان کی شادی کی رات تھی۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ بِہٖ طَرِیْقًا اِلَی الْـجَنَّۃِ))(رواہ مسلم)
’’جو علم (دین) کی تلاش کے لیے کسی راستے پر چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنّت کا راستہ آسان فرمادیتے ہیں۔ ‘‘
حصول علم کے لیے تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے: استاذ‘ کتاب اور طالب علم کا اپنا مطالعہ۔ علم کوئی بھی ہو اس کی تفہیم کے لیے کسی استاذ کا ہونا بنیادی ضرورت ہے‘ اور کتاب کے ذریعہ جو علم حاصل ہوتا ہے اس میں گہرائی‘ پختگی اور فہم و فراست کے لیے مزیدمطالعہ اصل تغذیہ ہے۔
ویسے تو ہر شخص اپنے طریقے اور سہولت سے مطالعہ کرتا ہے ‘تاہم اگر تصنیف و تالیف کے اساتذہ کے بتا ئے ہوئے کچھ خاص اصول کے مطابق مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ بہتر ہوسکتا ہے۔ وہ رہنما اصول یہ ہیں:
(۱) مطالعہ کے لیے پہلی اور لازمی شرط داخلی اور خارجی پُرسکون ماحول ہے۔ ان کے بغیر انسان کسی چیز کے فہم و ادراک کے لیے یکسوئی اور ارتکازِ توجہ حاصل نہیں کرسکتا۔ خار جی سکون سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص جس جگہ بیٹھ کر مطالعہ کر رہا ہو‘ اس کے ماحول میں کوئی شور و غل یا غیر معمولی حالات نہ ہوں جو بار بار اس کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کر لیں اور اس طرح اس کی یکسوئی میں خلل اندازی ہو۔ علاوہ ازیں کم یا زیادہ تیزروشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کرنا بینائی پر اثر ڈالتا ہے۔ نیز کتاب کو آنکھوں سے بہت قریب یا بہت دور رکھنا بھی درست نہیں۔ کتاب اور اپنی آنکھوں کے درمیان ایک فٹ کا فاصلہ رکھنا لازمی ہے۔ لیٹ کر مطالعہ کر نا بھی بینائی کے لیے نقصان دہ ہے۔
داخلی سکون سے مراد یہ ہے کہ انسان مطالعہ کے وقت ہر قسم کے تفکرات اور پریشانیوں سے بالکل خالی الذہن ہو کر بیٹھے اور خارج کی تمام چیزوں سے توجہ ہٹا کراسے مطالعہ کی طرف مرکوز رکھے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کی توجّہ بار بار منتشر ہوگی اور اس کا ذہن اپنے مقصد کے حصول سے قاصر رہے گا۔
(۲) طالب علم جس چیز کا مطالعہ کر رہا ہو اس کے مفید اور کار آمد ہونے کا پختہ یقین اس کے دل میں موجود ہو۔ کہیں حفیظ جالندھری والا معاملہ نہ ہو کہ:
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے‘ کہیں ویسانہ ہو جائے!یقین کی کیفیت نفس ِمضمون میں طالب علم کی دلچسپی بڑھادے گی اور اس کی طبیعت اکتائے گی نہیں۔ اگر اس چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے تو لازماً طبیعت بوجھ محسوس کرے گی‘ جس سے ایک تو وہ مطالعہ سے جلد اُکتا جائے گا اور دوسرےجو کچھ اس نے مطالعہ کیا ہے وہ پوری طرح ذہن میں محفوظ نہیں ہوسکے گا۔
(۳) مطالعہ کے لیے ایک متعین لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جو کام کسی خاص نظم و ضبط کے ساتھ کیا جائے وہ ہمیشہ اس کام کی نسبت زیادہ نتیجہ خیز ہوگا جو بے ترتیبی کے ساتھ کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے اوّلین چیز پابندی ٔوقت اور باقاعدگی ہوتی ہے۔ اگر پابندیٔ وقت کے ساتھ تھوڑا سا بھی مطالعہ کیا جائے تو اس کا فائدہ مستقل ہوتا ہے اور وہ انسان کے ذہن پر دیر پا نقوش چھوڑتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں بھی اسی طرح کے الفاظ آئے ہیں۔رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی أَدْوَمُھَا وَاِنْ قَلَّ)) (رواہ مسلم)
’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔ ‘‘
(۴) مطالعہ کے لیے طبیعت کو ایک خاص حد سے زیادہ مجبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب تک ذہن سہولت کے ساتھ مطالعہ میں یکسو رہے اس وقت تک ہی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ وقفہ کر کے خود کو کسی اور کام میں لگا دینا چاہیے جو اس کام کی نسبت زیادہ خوشگوار ہو۔اس کا تعلق طالب علم کی اپنی افتادِ طبع اور اس کے مزاج سے ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آدمی کو ایک نشست میں کتنی دیر مطالعہ کرنا چاہیے تو یہ لوگوں کی اپنی اپنی استعدادِ مطالعہ پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ کم مطالعہ کرکے زیادہ اخذ کر لیتے ہیں جبکہ بعض افراد بہت زیادہ مطالعہ کر کے بھی کم ہی استفادہ کر پاتے ہیں۔ تاہم ایک اوسط درجے کی ذہانت کے آدمی کے لیے دو سے چار گھنٹے کا باقاعدگی سے اور ٹھوس انداز میں مطالعہ مفید رہے گا۔
(۵) مطالعہ کے دوران طالب علم مختصر اشارات(notes) بھی تیار کرتا جائے‘ یعنی نفس مضمون کو اپنے الفاظ میں قلم بند کرنے کی عادت ڈالے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے:
(ا) ہر مضمون یا کتاب کا جوہر اپنے الفاظ میں محفوظ ہوجائے گا اور طالب علم کا ذہن غیر ضروری تفصیلات اور غیر متعلقہ چیزوں کو یاد رکھنے کے بوجھ سے آزاد ہوجائے گا۔ نیز طالب علم‘ جس وقت چاہے اپنی مطالعہ شدہ چیزوں کا نفس مضمون ان اشارات کی مدد سے اپنے ذہن میں تازہ کر لے گا‘ دوبارہ اصل کتا ب کی طرف رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔یوں اظہارِ بیان کے لیے اس کو آسان اسلوب پر قدرت بھی حاصل ہوجائے گی۔
(ب) طالب علم کا ذہن اپنے کام کی چیزوں کو اخذ کرنے اور غیر ضروری چیزوں کو نظر انداز کرنے میں خاصا مستعد اور مشاق ہوجائے گا۔ اس طرح وہ اپنے اندر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے گا اور رٹا لگانے کی بری عادت سے محفوظ رہے گا۔
ایک اچھا لکھنے والا ‘ معیاری تحریروں اور کتابوں کے مطالعے سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ صاحبِ طرز ادیبوں اور صاف ستھری ‘ خوب صورت نثر لکھنے والوں کی کتابیں مسلسل زیر مطالعہ رکھیے‘ جیسے الطاف حسین حالی‘ شبلی نعمانی‘ پریم چند‘ خواجہ حسن نظامی ‘ شاہد احمد دہلوی‘ سید ابو الاعلیٰ مودودی‘ فضل احمد کریم فضلی‘ نعیم صدیقی‘ جیلانی بی اے ‘ مختار مسعود اور رضا علی عابدی وغیرہ۔ (یہ مکمل فہرست نہیں ہے) انہیں مطالعہ کرتے ہوئے غور کیجیے کہ زبان کیسی با محاورہ ہے! الفاظ و تراکیب کا استعمال کیسا ہے؟ جملوں کی ساخت کیسی ہے؟ تشبیہ و استعارہ اور صنائع و بدائع کی صورت کیا ہے؟آپ کسی سے متاثر ہو کر اس کی نقل نہ کیجیے ‘کیوں کہ ایک صاحب اسلوب ادیب کی تقلید آسان نہیں ہوتی۔ آپ معیاری تحریروں کا جس قدر مطالعہ کریں گے‘ غیر شعوری طور پر آپ کی تحریر بھی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
مطالعہ انسانی شخصیت کی بالیدگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ جو چیزیں دنیا کمانے اور اپنے مادی وجود کی نشو ونما کے لیے ضروری ہیں ان کے بارے میں دُنیا کا ہر انسان ساری زندگی جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس میدان میں بتدریج ترقی حاصل کرتا ہے۔ اس دنیا میں بسنے والوں کی اکثریت کا یہی معمول ہے۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ‘کیونکہ زندہ رہنے کےلیے یہ بھی ضروری ہے۔ ہم کائنات کی ہر چیز سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ رنگ و بو کی اس دنیا میں ہم قدرت کی عطا کی ہوئی ہر نعمت سے اپنے مقام اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنے دامنِ طلب کو بھرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسے کتنے لوگ ہیں جو اپنے ارد گرد پھیلی رنگ و نور کی اس کائنات کے مصور اور خالق و مالک کی اس صناعی اور اس کی عطا پر غور وفکر کرتے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کی جستجو میں کوشاں رہتے ہیں؟ جبکہ خود خالق کائنات نے بھی اپنی ان نشانیوں پر غور فکر کرنے پر زور دیا ہے اور اس ہدایت پر عمل نہ کرنے والوںکی عقل پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَ نْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۠ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(164)} (البقرہ)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پید اکرنے میں‘ اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں‘اور کشتیوں (اور جہازوں)میںجو دریا (اور سمندر) میں لوگوں کے فائدے کے لیے رواں ہیں‘ اور مینہ میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ(یعنی خشک ہونے کے بعدسر سبز) کر دیتاہے‘ اور زمین پر ہر قسم جانور پھیلانے میں‘ اور ہواؤں کے چلانے میں‘ اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں ‘ عقل مندوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ ‘‘
گویا جس انسان کے اندر غور و فکر اور مشاہدے کی صلاحیت ہوگی وہی قدرت کی چہار سو پھیلی ان نشانیوں اور مظاہر فطرت کو سمجھ سکے گا‘ اور اس کا یہ مطالعہ ہی اسے اپنے ربّ سے قریب کرنے کا باعث بنے گا۔ صحیح مطالعہ ہی تو بتاتا ہے کہ انسان کے اندر فطرت کے مظاہر کو جذب (observe)کرنے کا کتنا شاکلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کی رہنمائی کے لیے خود بے شمار مواقع مہیّا کرتا ہے کہ اُسے اپنی ذات اور اپنی حیات بے مثال کا شعور حاصل ہوسکے‘ کیونکہ اس وسیع و عریض کائنات میں بکھری ہوئی نشانیاں ہی تو اللہ کی معرفت تک بندے کو پہنچاتی ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے:
{سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ (53) }(فصلت)
’’ ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ(قرآن) حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہار ا پروردگار ہر چیزسے خبردار ہے! ‘‘
اس آیۂ مبارکہ کی روشنی میں انسان اپنے اس مادی وجود پر ہی غور و فکر کر لے تو اس کی آنکھوں کے کئی پردے اٹھ جائیں گے۔ اگر اس کا ضمیر زندہ اور اس کی اخلاقی حِس میں کوئی حرارتِ ایمان موجودہے تو اس کا سر اپنے معبود کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوجائے گا۔ جو لوگ اللہ کی ان نشانیوں کا ادراک نہیں کر پاتے اور فنا ہوجانے والے اپنے مادی وجود ہی کی سیوا کرتے رہتے ہیں وہ اللہ کی نظر میں کیا ہیں ‘اس کا اظہار اس طرح سے ہوا ہے:
{لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ۡ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا ۡ وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا ۭ اُولٰۗئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ۭ اُولٰۗئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (179)} (الاعراف)
’’ان کے دل تو ہیں لیکن یہ ان سے سمجھتے نہیں‘ اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں ‘اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں ۔ یہ لوگ (بالکل) چو پایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد ترہیں‘ اور یہی لوگ وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘
انسان اور جانور میں نطق ‘ شعور اور سماعت و بصارت کا فرق ہے‘ اور مطالعہ کے لیے انہی استعدادات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا انسان اصل میں وہ ہے جس کو مطالعہ کی قدرت حاصل ہے اور جو مظاہر ِفطرت کا مطالعہ نہیں کرتا یا اس کی کوشش نہیں کرتا اس کا اللہ کی نظر میں کیا مقام ہے‘ وہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے۔ اب ہر انسان اس کی روشنی میں اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ اس ناپائیدار دُنیا میں کس حیثیت سے زندگی گزار رہا ہے۔
انسان جب دنیاوی علوم کے مطالعہ میں زندگی کا ایک بڑا عرصہ لگا دیتا ہے ‘ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مظاہر فطرت کا بھی گہری نظروں سے جائزہ لے۔ ان پر غور و فکر کرے تاکہ اسے اپنی ذات اور اپنے اس مقام و مرتبے کا احساس ہوجائے جو قدرت نے اسے عطا کیاہے۔ اسے مسجودِ ملائک کے اعزاز سے نوازاگیا‘ احسنِ تقویم پر تخلیق کیا گیا ۔ اس عمل سے اسے ا پنے خالق و مصور کے عظیم ہستی ہونے ‘ اس کی قدرت اور اس کی ربوبیت پر یقین کامل حاصل ہوگا ۔ یوں رزق کی تلاش میں رازق نظروں سے اوجھل نہیں ہو پائے گا۔
مآخذ:
(۱) ترجمہ: فتح الحمید‘ مولانا فتح محمد جالندھری
(۲) درست اردو‘ آسی ضیائی
(۳) تحسینِ اردو ‘ طاہر شادانی‘ آسی ضیائی
(۴) ہم مطالعہ کیوں نہیں کرتے؟شاہنواز فاروقی
(۵) تعلیم وتربیت‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025
Text