وقت --- متاعِ بے بہا
پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
وقت جس قدر قابل ِقدر نعمت ہے ‘عموماًاسی قدر اس سے غفلت برتی جاتی ہے ۔ ہر نعمت کا کوئی نہ کوئی متبادل مل جاتا ہے یا اگر وہ ضائع ہو جائے تو اس کی تلافی کی جا سکتی ہے مگر وقت ایسی نعمت ہے کہ اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایاجائے تو بس حسرت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ وقت لوٹایا نہیں جا سکتا۔ بچپن تو لاڈ پیار میں گزر جاتا ہے۔ماں باپ اولاد پر سختی نہیں کرتے اور ان کی ہرتمنّا پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر والدین خود وقت کی اہمیت سے غافل ہوتے ہیں‘ وہ اپنی اولاد کو وقت کی اہمیت کا کیا سبق دیں گے۔ جوانی آ جائے تو بچپن کا گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آ سکتا۔ اسی طرح جوانی کا زمانہ من پسند گزار لیا جائے اور بڑھاپا طاری ہوجائے تو جوانی کسی قیمت اور کسی حیلے واپس نہیں آ سکتی۔ بڑھاپے میں جب انسان پر کمزوری آ جاتی ہے تو وہ اچھی غذائیں اور مقوی ادویات استعمال کرتا ہے مگر کمزوری ہے کہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مختلف بیماریاں اسے آ لیتی ہیں اور موت قریب ہوتے نظرآنے لگتی ہے۔ اس پر حسرت طاری ہو جاتی ہے کہ جوانی کے قیمتی ایام بے فکری اور لہو ولعب میں کیوںگزار دیے۔ مگر یہ سوچنا بے کار ہوتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے عگیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں !
ہر انسان دوسروں کو مرتا دیکھتا ہے ۔ یہ مرنے والے صرف بوڑھے ہی نہیں بلکہ جوان بھی ہوتے ہیں۔ زیادہ لوگ مرنے والے کا جنازہ پڑھتے ہیں اور پھر دنیاکے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو میت کے ساتھ قبرستان تک جاتے ہیں اور مُردے کو قبر میں دفن کرتے ہیں‘ مگر اس منظر سے کم ہی عبرت حاصل کی جاتی ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جوان آدمی تو موت کو صرف بوڑھوں ہی کا حق سمجھتا ہے اور اپنی موت کو بہت دور دیکھتا ہے۔
مرنے کے بعد اگلی زندگی شروع ہو جاتی ہے اور زندہ انسانوں کے ساتھ مرنے والے کا تعلق ختم ہو جاتا ہے ۔وہ قبر کی تنہائی اور تاریکی میں اکیلا رہ جاتا ہے۔ نہ مال اُس کے کسی کام آسکتا ہے اور نہ سجن دوست اُس کاساتھ دے سکتے ہیں۔ اب جو کچھ ہو نا ہے‘ بس اُسی کے ساتھ ہونا ہے۔قبر ہی میں بازپُرس کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مرتے ہی انسان پر واضح ہوجاتا ہے کہ اب کون سی چیز اُس کے کام آئے گی اور کون سی اُس کے لیے دکھ کا باعث ہو گی۔ خالق ِ کائنات نے نیکی اور برائی کا شعور ہر شخص کی فطرت میں رکھ دیا ہے ۔یہ بھی بتادیا گیا کہ نیکی کے کیا نتائج ہوں گے اور برائی کا کیا انجام ہو گا۔ جس نے دنیاوی زندگی اچھے کاموں میں گزاری ہو گی اس کی اُخروی زندگی خوش گوار ہوگی اور جس نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ اذیت سے دوچار ہو گا۔ دُنیا میں تو کوئی نامناسب کام سرزد ہو جائے تو بندہ اس سے عبرت حاصل کر کے اپنا طریقہ بدل لیتا ہے اور نقصان دہ کام کو چھوڑدیتا ہے مگر آخری سانس لیتے ہی انسان کے لیے یہ موقع ختم ہوجاتا ہے۔اب تو اس کے بدلے میں سزا ہی برداشت کرنا ہو گی۔ مرنے کے بعد دنیا میں واپسی نہیں ہو گی ‘ یہ حقیقت ہر انسان جانتا ہے ۔اس کے باوجود دُنیا کی زندگی کے ماہ و سال کو غفلت میں گزارنا کس قدر حماقت ہے ۔ قرآن مجید میںہے کہ جب آدمی مر جائے گا تو تمنّاکرے گا کہ کاش! مجھے دنیا میں واپس لوٹا دیا جائے تو اب اچھے کام کروں گا اور بُرائیوں سے بچوں گا۔
ہمارے دین میں دنیا کی حقیقت کو بار بار واضح کیا گیا ہے کہ ہر شخص کوجو مہلت ِعمر ملی ہے وہ آنے والی حقیقی اور پائیدار زندگی کے لیے تیاری کا موقع ہے۔انسان جو بوئے گا ‘وہی کاٹے گا۔ اس کے اچھے کام انعام کا باعث ہوں گے جبکہ بُرے کام سزاد لائیں گے۔ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے !
یہ بات لازم نہیں ہے کہ دنیا میں نیکی کا اچھا بدلہ اور برائی کی سزا ملے۔ ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اصل بدلہ تو آخرت میں ملے گا جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہو گی۔
انسان سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں جوانی کے جواوقات ملے تھے وہ کیسے گزارے؟ بڑھاپا کن مشاغل میں گزارا؟ مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ ان سوالوں کا جواب ربّ العزت کے سامنے دینا پڑے گاجہاں کوئی بہانہ کام آئے گا نہ بندہ جھوٹ بول کر جان چھڑا سکے گا۔ گویا اپنے کیے ہوئے ہر چھوٹے بڑے عمل کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ انسان کے اچھے برے اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ یومِ حساب اگر انسان چاہے گا کہ وہ غلط بیانی کر لے تو اس کے ہاتھ ‘ پائوں اور دوسرے اعضاء بول کر بتا دیں گے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ جس جگہ پر بُرائی کی ہو گی وہ بھی گواہی دے گی کہ اس نے یہاںیہ گناہ کیا تھا۔ جب حساب کتاب کی یہ کیفیت ہو گی تو پھر کیسے کوئی اپنے گناہوں کے انجام سے بچ سکتا ہے!
قرآن مجید میں سورۃ الزلزال کے آخر میںارشادہے کہ ’’جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا‘‘۔ گویا صرف بڑے بڑے گناہ ہی نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ چھوٹے گناہ بھی قابل گرفت ہو ں گے۔ اسی طرح کوئی نیک کام چھوٹا ہو یا بڑا ‘ثواب کا باعث بنے گا۔انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی نیکیوں پر نہ اترائے بلکہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی بخشش کا طالب رہے۔ دوسری جانب گناہ گار اپنے گناہوں کے سبب مایوس نہ ہو‘کیونکہ اللہ کی رحمت بے حساب ہے۔ اس امید اور خوف کے درمیان ہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔
یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی انسان دوسرے انسان کا نقصان نہ کرے‘ اُس کا حق نہ مارے ‘کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا‘ مگر حقوق العباد کے معاملے میں دخل نہ دے گا۔ جس نے دوسروں کی حق تلفی کی ہو گی ‘اسے حق دار کو حق ادا کرنے کا کہا جائے گا۔ اُس جہان میں حق ادا کرنے کی صورت یہ ہوگی کہ حق دار کو حق تلف کرنے والے کی نیکیاںدی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو حق دار کے گناہ حق تلف کرنے والے کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے۔
الغرض دنیا کی زندگی میں ملا ہوا وقت جسے عمر کہتے ہیں‘ انتہائی اہم ہے ۔اس کو ضائع کرنے والا پچھتائے گا ‘مگر یہ پچھتانا بے سود ہو گا۔ دانا وہی ہے جو اس عارضی زندگی میں اللہ کی پسند کے کام کرے اور اس کی ناراضی والے کاموں سے بچے۔ کسی کا حق نہ کھائے۔ جھوٹ‘ فریب اور رشوت کی کمائی سے باز رہے ‘کیونکہ لوگوں کا لوٹا اور کھایا ہوا مال آخرت میں کسی صورت واپس نہ کر سکے گا۔ یوں وہ آخرت کی سزا کا مستحق بن جائے گا۔ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں دوزخ کی آگ ستر گنا تیز ہو گی۔
ہر شخص کی عمر وقت کی ایک مقدار ہے ۔ عمر کے جو لمحات گزر گئے وہ ہرگز واپس نہیں آسکتے۔ اگر وہ غفلت میں اور بے احتیاطی میں گزر گئے تو افسوس صد افسوس! دانش مندی یہ ہے کہ جو وقت اپنے پاس ہے ‘اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ گزرے ہوئے لمحات کی غلطیوں سے عبرت حاصل کر کے آئندہ کا وقت احتیاط کے ساتھ گزارا جائے ۔ ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
ہر شخص لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب ترہو رہا ہے۔ عمل کی مہلت گھٹتی جارہی ہے ۔اس متاعِ بے بہا کو غفلت میں گزارنا انتہائی خطرناک ہے ۔اسے پسندیدہ اعمال میں بسر کرنے والا شخص ہی آئندہ زندگی میں حقیقی طو رپر کامیاب اور خوش و خرم رہے گا۔
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025