تفسیر کے ناقابل ِاعتبار مآخذ
بسلسلہ علم تفسیر اور مفسرین کرام(۱۰)
پروفیسر حافظ قاسم رضوان
(۴)تفسیر بالرّائے
حدیث مبارکہ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے: ((مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنَ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ))(رواہ الترمذی)’’جو شخص قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کوئی گفتگو کرے‘ تواگرصحیح بات بھی کہے تواُس نے غلطی کی‘‘۔ علّامہ ماوردی کا کہنا ہے کہ بعض غلو پسند لوگوں نے اس حدیث کا یہ مفہوم سمجھا کہ قرآن مجید کے بارے میں کوئی بھی بات فکر اور رائے کی بنیاد پر کہنا جائز نہیں‘ یہاں تک کہ اجتہاد کے ذریعے قرآن کریم سے ایسے معانی بھی مستنبط نہیں کیے جا سکتے جواصولِ شرعیہ کے مطابق ہوں۔ لیکن ایساخیال اور سوچ بالکل درست نہیں اس لیے کہ خود قرآن مجید نے تدبر اوراستنباط کو جابجا مستحسن قرار دیا ہے۔ اگر فکر وتدبر کے عمل پربالکل پابندی لگادی جائے تو پھر قرآن وسُنّت سے شرعی احکام و قوانین اخذ اور مستنبط کرنے کا دروازہ ہی سرے سے بند ہو جائے گا‘ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث کا مطلب ہر قسم کی رائے پر پابندی لگانا بالکل نہیں ہے(الاتقان) ۔
اس بات پر جمہور علماء کا اتفاق ہےکہ خود قرآنِ کریم اور سُنّت ِرسول ﷺکے دوسرے دلائل کی روشنی میں اس حدیث کا منشا ہر گز یہ نہیں ہے کہ قرآن مجید کے باب میں غور و فکر اور عقل و رائے کو بالکل استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس فرمانِ نبویؐ کا اصل منشا یہ ہے کہ قرآن پاک کی تفسیر کے لیے جو اصول اجماعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہیں‘ ان کو نظر انداز کر کے جو تفسیر ِقرآنی محض اپنی مرضی اور رائے کی بنیاد پر کی جائے گی‘ وہ قطعاً غلط اور ناجائز ہو گی۔ نیز اگر اس طرح سے یعنی محض اپنی رائے کی بنیاد پرکوئی شخص اتفاقاً کسی صحیح نتیجے پر پہنچ بھی جائے تو پھر بھی وہ خطاکار ہو گا‘ کیونکہ اس نے سیدھے راستے کو چھوڑ کر وہ غلط راستہ اختیار کیا جس سے حدیث ِنبویؐ نے منع کیا تھا۔اب مسلّمہ اصولِ تفسیر کو نظر انداز کر کے صرف اپنی خواہش اور رائے کو سامنے رکھنے اور اختیار کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں:
(۱) جس شخص کی حالت یہ ہو کہ وہ تفسیر ِقرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ‘ وہ محض اپنی خواہش اور رائے کے بل بوتے پر تفسیر کرنا شروع کر دے۔
(۲) کسی آیت ِقرآنی کی کوئی تفسیر صراحۃًحضور مکرم ﷺ یا صحابۂ کرامؓ یا تابعینؒ سے ثابت ہو اور اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کیے جائیں۔
(۳) جن آیات میں صحابہ ؓو تابعینؒ سے کوئی واضح اورصریح تفسیر منقول نہیں‘ ان میں لغت اور زبان و ادب کے طے شدہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی طرف سے کوئی نئی تشریح بیان کرنا۔
(۴) قرآن وسُنّت سے براہِ راست احکام و قوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی اس حوالے سے اجتہاد شروع کر دینا۔
(۵) قرآن مجید کی متشابہ آیات(جن کے بارے میں قرآن نے خود کہہ دیا ہے کہ ان کی حقیقی اور سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا)کی اپنے پورے جزم ووثوق کے ساتھ کوئی الگ اور منفرد تفسیر بیان کرنا اور پھر اس پر مصر اور پختہ ہو جانا۔
(۶) قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرنا جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلّم اور تسلیم شدہ عقائد یا احکام پر زد پڑتی ہو۔
(۷) تفسیر کے معاملے میںجہاں صحیح طریقے سے عقل و فکر کا استعمال جائز ہے‘ وہاں کسی قطعی اور شرعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو ہی یقینی طور پر درست اورمبنی بر صحیح اور دوسرے سب مجتہدین کی آراء اور اقوال کو یقینی طور سے باطل اور مبنی برخطا قرار دینا۔
بیان کردہ یہ تمام صورتیں اسی ’تفسیر بالرّأی ‘ کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث ِنبویؐ میں منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو آنحضرتﷺ نے ایک مختصر جملے میں سمیٹ دیا ہے‘فرمایا:((مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) (رواہ الترمذی)’’جو شخص قرآن کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
لفظ ’الرّأی‘ کا اطلاق اجتہاد اور قیاس پرکیا جاتا ہے‘اسی لیے قیاس کے قائلین کو اصحابُ الرأی کہا جاتا ہے‘ بنابریں’ تفسیر بالرّأی‘ سےمراد وہ تفسیر قرآن ہے جو اجتہاد کی مدد سے کی جائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب کوئی عربوں کے اسلوب کلام‘ عربی الفاظ اور ان کے وجوہ دلالت سے بخوبی آگاہ ہو ‘ اس کے ساتھ ساتھ اشعارِ جاہلی‘ اسبابِ نزول‘ ناسخ و منسوخ‘ دیگر شرعی دلائل اور ان اُمور وعلوم سے ہر گز نابلدنہ ہو جو کہ ایک مفسر قرآن کے لیے ناگزیر ہیں۔
تفسیر بالرائے میں اہل علم کا اختلاف اور ان کے دلائل
قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے کے حوالے سے علمائے کرام شروع سے ہی مختلف الخیال رہے ہیں۔ اس ضمن میںان کے نظریات و افکار اکثر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مانعینبالرّائے (یعنی تفسیر بالرّائے سے روکنے والوں)کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی جانب بغیر علم کے ایک بات کو منسوب کرنا ہے جو کہ ممنوع ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنے والے کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ فلاں آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد کیا ہے‘ بلکہ وہ اپنے ظن اور رائے کی بنیاد پرایک بات کہتا ہے اورظن کی اساس پر کچھ کہنا گویا بلادلیل و برہان اللہ تعالیٰ پر ایک طرح کا الزام عائد کرنا ہے۔ اس کی حرمت کی دلیل سورۃ الاعراف کی یہ آیت ہے: { اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۸)}’’کیا تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہہ رہے ہو جو تم جانتے ہی نہیں؟‘‘ نیز سورئہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے:{وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ۭ}(آیت۳۶) ’’اور جس بات کا تمہیں علم ہی نہیں اُس کے پیچھے مت پڑو!‘
مجوزین تفسیر بالرّائے (اس کو جائز قرار دینے والوں) کا جواب کچھ یوں ہے کہ ظن (گمان) اس وقت ممنوع ہوتا ہے جب قطعی اور یقینی علم تک پہنچنا ممکن ہو‘ بایں طور کہ اس حوالے سے شرعی نصوص میں سے کوئی قطعی نص موجود ہو یا ایسی عقلی دلیل پائی جاتی ہو جو کہ بالکل مفید ِیقین ہو۔ مگر جہاں قطعی یقین کا کوئی امکان نہ ہو‘ وہاں ظن ہی کافی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بھی ظن پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے‘ سورۃ البقرۃ میں فرمانِ الٰہی ہے: { لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ۭ}(آیت ۲۸۶)’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے صحیح اجتہاد کرنے والے کو دوہرے اجر اور (خلوصِ نیت کے باوجود) اجتہاد میں خطا کرگزرنے والے کواکہرے اجر کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ آنحضرتﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا والی بنا کر بھیجا تو رخصتی کے وقت ان سے دریافت کیا کہ لوگوں کے مسائل کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ حضرت معاذ ؓ نے جواب دیا کہ میں کتاب اللہ کی روشنی میں لوگوں کے فیصلے کروں گا۔حضورﷺ نے فرمایا کہ اگرکتاب اللہ میںمسئلے کا حل نہ ہو تو پھر؟ انہوں نے جواب دیا کہ سُنّت ِرسولؐ کے مطابق اس کا حل تلاش کروں گا۔ حضور ﷺ نے پھر فرمایا کہ اگر سُنّت ِرسول اللہ ﷺ میں بھی مسئلے کا حل نہ ہو تو پھر؟ حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا کہ پھر مَیں کسی قسم کی کوتاہی کیے بغیر اپنی رائے(اجتہاد) سے کام لوں گا۔ اس پر حضورﷺ نے ان کے سینے پر اپنا دست ِمبارک مارا اور فرمایا :’’ اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تُو نے اپنے رسول ؐ کے قاصد سے وہ بات کہلوائی جس کو سن کر تیرا پیغمبر راضی ہو گیا۔ (ابوداؤد)
سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ}(آیت ۴۴) ’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے آپؐ پر الذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کر دیں‘‘۔اس آیت میں قرآن مجید کی وضاحت اور تشریح کرنے کو آنحضرتﷺ کی جانب منسوب کر کے اس کوآپ کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ مجوزین کی طرف سے اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ حضور اقدسﷺ کو واقعی توضیح ِقرآن کا حکم دیا گیا ہے‘ مگر آپؐ اس دارِفانی سے کوچ کر گئے اور پورے قرآن کی تفسیر نہ ہوپائی‘ لہٰذا جو تفسیر قرآنی اب آنحضرت ﷺسے مستند طور پر منقول ہے اس میں تو کسی دوسرے کی رائے یا قول معتبر اور مقبول ہو ہی نہیں سکتا‘ البتہ جس آیت ِقرآنی کی تشریح آپؐ سے ثابت نہیں‘ اس میں اہل ِعلم اور مفسرین شرعی اصولوں کی روشنی میں رائے زنی کر سکتے ہیں۔ اس کی دلیل خود مذکورہ بالا آیت کے آخری حصے میں موجود ہے: {وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۴۴)} ’’اور تاکہ وہ غورو فکر کریں۔‘‘
مانعین ِتفسیر بالرّائے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں قرآن مجید کے حوالے سے اپنی رائے دینے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباسi روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :’’ مجھ سے وہی بات(حدیث) روایت کرو جس کا تمہیں یقین ہو۔ جس شخص نے مجھ پر دانستہ جھوٹ باندھا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میںبنا لیا اور جس نے قرآن میں رائے زنی سے کام لیا‘اس نے بھی اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لیا(سنن الترمذی)۔مجوزین بالرّائے نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ اس حدیث ِنبویؐ میں ایسی رائے دینے سے منع کیا گیا ہے جو دلیل وبرہان کے بغیر ہو یا پھر ایسی رائے مراد ہے جو صرف ظاہری عربی الفاظ کی بنیاد پر دی جائے اور اس میں عربوں کے مسموع لغات و اشعار کی جانب رجوع نہ کیا جائے۔ البتہ جہاں تک شرعی دلائل پرمبنی رائے کا تعلق ہے‘ اس میں کوئی حرج نہیں۔
تفسیر بالرّائے کو جائز قرار دینے والوں کے مطابق قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی گئی ہے۔ مثلاً سورئہ محمدؐ میں ارشاد ربانی ہے: {اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(۲۴)}’’وہ قرآن پاک میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے ‘ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں؟‘‘ سورئہ صٓ میں فرمان الٰہی ہے: {کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)} ’’یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا گیا: {اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭ}(آیت ۸۲)’’وہ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ان آیاتِ قرآنی میں یہ رغبت دلائی گئی ہے کہ کلام اللہ میں فکر و تدبر کر کے ان سے عبرت و موعظت اور علم و معرفت حاصل کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں علمائے کرام کے لیے تفسیر اور شرعی اصولوں کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کیونکر ممنوع ہو سکتا ہے؟ اسی طرح اگر تفسیر بالرّائے مکمل ناجائز ہو تو اجتہاد کے لیے بھی وجہ ٔجواز نہیں بنتی‘ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے اورشرعی حدود کے مطابق اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا۔ حدیث کی روشنی میں مجتہد غلطی پر ہونے کی صورت میں بھی عند اللہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔
جب تمام آیاتِ قرآنی کی تفسیر و تشریح حضورﷺ سے ثابت نہیں تو لامحالہ ان میں غور وفکر توکرنا پڑے گا اور اس کا اظہار رائے کے ذریعے ہو گا۔نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے بھی توحضرت عبد اللہ بن عباسi کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی : ((اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلِ))(متفق علیہ) ’’اے اللہ! اس کو دین کا فہم عطا کر اورقرآن کی تاویل (تفسیر) سکھا دے‘‘۔ اگر تفسیر قرآن کا مدار صرف نقل وسماع پر ہی ہوتا تو پھر حضرت ابن عباس ؓ کے حق میں یہ دعا فائدہ مند ثابت نہ ہو سکتی۔اس سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے حق میں جس تاویل کی دعا فرمائی تھی‘ وہ نقل وسماع کے علاوہ رائے اوراجتہاد پرمبنی تفسیر و تاویل ہے۔
ہر دوآراء کے اختلاف کے ضمن میںا مام غزالی ؒکا کہنا ہے: ’’بنابریں تفسیر قرآن میں نقل وسماع کی شرط باطل ٹھہری‘ہر شخص کے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی عقلی استطاعت کی حد تک قرآن کریم سے استنباطِ مسائل کرے۔ قرآن مجید کے معانی ومطالب کے فہم و ادراک کا میدان نہایت وسیع ہے۔ یہ غلط ہے کہ منقول تفسیر پر فہم وادراک کی حد ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ (احیائے علوم الدین)
اسی طور پر امام راغب اصفہانی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فریقین کے دلائل کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ دونوں (مانعین اور مجوزین تفسیر بالرائے) مذہب(مکتبۂ فکر) دراصل افراط و تفریط پرمبنی ہیں‘ جس نے(صرف) تفسیر منقول (ماثور) پر انحصار کیا‘ اس نے تفسیر کے نہایت ضروری حصے کو نظر انداز کر دیا اور جس نے ہرکس و ناکس کو تفسیر قرآن کی اجازت دی‘ اس نے کتابِ عزیز کو اختلاط وامتزاج کانشانہ بنا دیا‘ گویا اس نے قرآن کریم کی آیت {لِیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ} کاصحیح مفہوم ہی نہیں سمجھا۔ آخر میں اس بحث کو علّامہ شبیر احمد عثمانی ؒکے ان الفاظ پر ختم کیا جاتا ہے:
’’یہ منشا ہر گز نہیں کہ فکر و استدلال ایک محض عبث اور لغو چیز ہے ‘ یا اس سے تعرض کرنا کوئی شرعی گناہ ہے‘ لیکن ہاں! کسی فرد بشر کے واسطے ہم یہ جائز نہیں رکھتے کہ وہ اپنی عقل ِشخصی اور فکر ِناقص کو اصلِ اصول ٹھہرا کر انبیاء fکے پاک وصاف ‘ صحیح و صادق اور بلند و برتر تعلیمات کو زبردستی ان پرمنطبق کرنے کی کوشش کرے‘ جس پر اکثر اوقات اس کا ضمیر بھی اندر سے نفر یں کر رہا ہو۔ اس کے برخلاف نہایت ضروری ہے کہ انسان خدا اور اس کے رسولوں کے ارشادات کو اصل قرار دے کر اپنی عقلی معلومات کو ان کے تابع بنا دے‘ اور جو کچھ وہ فرمائیں اس کو اپنے امراضِ روحانی کے حق میں اکسیر شفا تصور کر کے سمعاً وطاعۃً (سنا اور مانا) کہتا ہوا بلا حُجّت و اقرار سراور آنکھوں پر رکھے۔ (سورۃ الشوریٰ میں فرمان الٰہی ہے:) {وَالَّذِیْنَ یُحَاۗجُّوْنَ فِی اللہِ مِنْ ۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَہٗ حُجَّتُھُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(۱۶)}’’اور جو لوگ اللہ کے بارے میں (نبی اکرم ﷺ سے) جھگڑا کرتے ہیں‘ جبکہ مخلوق اس کی بات قبول کر چکی‘ تو ان کی حُجّت باطل ہے ان کے ربّ کے یہاں اور ان پر (اللہ تعالیٰ کا) غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔‘‘ (ماخوذ العقل و النقل)
تفسیر بالروایت (ماثور) اور تفسیر بالرائے کے اختلاف کی حقیقت
اس ذیل میں تفسیر بالرّائے کے مانعین نے جس تشدد سے کام لیا ہے‘ اگر اس کے اسباب ووجوہ پر غور کیا جائے اور ساتھ ہی دیکھا جائے کہ جن اصحاب نے تفسیر بالرّائے کی اجازت دی ہے‘انہوں نے اس ضمن میں کون سی شرائط عائد کی ہیں جن کا پایا جانا لازمی ہے‘ اس کے پہلو بہ پہلو دقت نظر کے ساتھ فریقین کے براہین ودلائل کا تجزیہ کیا جائے‘ تو پھر یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ یہ باہمی اختلاف و نزاع صرف لفظی ہے‘ حقیقی نہیں۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔ آپ سمجھیں کہ رائے کی دو اقسام ہیں:
(ا) ایک تو وہ رائے ہے جو کلامِ عرب کے موافق اورکتاب و سُنّت کے ہم آہنگ ہو‘ نیز اس میں تفسیر قرآنی کی تمام ضروری شرائط اور قواعد کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔اس قسم کی رائے بلاشبہ جائز اور درست ہے اور جن علمائے کرام نے تفسیر بالرّائے کی اجازت دی ہے‘ان کی مراد بالکل اسی قسم کی رائے ہے۔
(ب) دوسری قسم کی رائے وہ ہے جوقوانین ِعربیت کے خلاف ہو اور شرعی دلائل سے میل نہ کھاتی ہو یا اس کے الٹ ہو‘ نیز اس میں فن ِتفسیر کی ضروری شرائط اور ضوابط کا بھی فقدان ہو‘ تواس قسم کی رائے کا ملاً ممنوع و مذموم ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ تم کتاب اللہ کی طرف دعوت دینے والے ایسے لوگوں کو پائو گے جو بذاتِ خود کلامِ الٰہی کو پس ِپشت ڈال چکے ہیں‘ ایسے حالات میں تم علم و دلیل کے دامن کو تھامے رکھنا اور بدعات وتکلف سے احتراز کرنا۔اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا ارشادِ گرامی ہے کہ مجھے دو آدمیوں سے ڈر لگتا ہے‘ ایک وہ شخص جو قرآن کی غلط تاویل کرتا ہے اور دوسرا وہ جو بادشاہ(حکمران) کو اپنے بھائی کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ اس قسم کے تمام اقوال ایسی تفسیر کے بارے میں ہی منقول ہیں جن میں قوانین ِلغت اور شرعی دلائل کو اپنے مسلک اور ذاتی رائے کے تابع بنا دیا گیا ہو۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مانعین تفسیر بالرّائے کے اقوال نقل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہیں:
’’ ائمہ سلف سے اس ضمن میں جو اقوال بھی منقول ہیں‘ وہ اسی قسم کی تفسیر سے متعلق ہیں جو بلا علم و برہان ہو‘ جہاں تک لغت و شرع پر مبنی تفسیر کا تعلق ہے اس میںکچھ مضائقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء سے بکثرت تفسیری اقوال منقول ہیں اور ان کے یہ اقوال علم وتحقیق پر مبنی ہیں۔ جو بات انہیں معلوم نہ ہوتی اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے۔ یہی بات اہل ِعلم پر واجب بھی ہے کہ جو بات معلوم نہ ہوا س کے بارے میں سکوت سے کام لیا جائے اور جو معلوم ہو اس کا برملا اظہار کر دیا جائے اور اسے چھپایا نہ جائے۔ قرآن کریم کی سورئہ آلِ عمران میں فرمایاگیا: {لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ ز}(آیت ۱۸۷)’’اسے لوگوں کے سامنے بیان کریںگے اور اسے چھپائیں گے نہیں‘‘۔ نیزحضور اَقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو روزِ قیامت اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔‘‘
(مقدمہ اصولِ تفسیر‘ از ابن تیمیہ )
اس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ تفسیر بالرّائے کی دو اقسام ہیں:
(ا) ایک قسم ممنوع ‘ مذموم اور ناروا ہے۔
(ب) دوسری قسم غیر مذموم‘ جائز اور درست ہے‘ اس کے ساتھ کچھ حدود و قیود ہیں‘ اس کے بغیر صحیح نہیں ۔
تفسیر ماثور اور تفسیر بالرّائے میں تعارض
تفسیر بالرّائے کی دو اقسام میں سے پہلی مذموم اور ناقابل ِقبول ہے‘جبکہ دوسری ممدوح وقابل ِقبول ہے۔ پہلی قسم اور تفسیر بالرّائے میںکسی تعارض کا امکان ہی نہیں‘ کیونکہ تفسیر بالرّائے کی یہ قسم تفسیر کے صحیح مفہوم سے ہی خارج ہے اور اس کو تفسیر کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ رہی دوسری قسم تو اس کے اورتفسیر ماثور کے درمیان تعارض پایا تو جا سکتا ہے ‘مگر یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اس تعارض کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک دوسرے کے مدّ ِمقابل ہوتے ہیں‘ایک دوسرے کی نفی ہی کرتے ہیں اور کسی حالت میں ان کا اجتماع ممکن نہیں۔ بلکہ جب دونوں میں مغائرت پائی جاتی ہو مگر منافات نہ ہواوردونوں کا جمع کرنا ممکن ہو تو پھر اس کو تعارض نہیں کہتے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ قرآن کے الفاظ اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی تفسیر خود قرآنِ کریم‘ اسلام‘ طریق ِ عبودیت اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت سے کی جاتی ہے۔ یہ سب معانی اگرچہ باہم الگ الگ ہیں مگر ایک دوسرے کے منافی اور معارض نہیں۔ اس لیے کہ دین ِاسلام کا جو طریق ہے وہی قرآن کا بھی ہے۔ طریق ِعبودیت اور اللہ و رسولﷺ کی اطاعت کا طریقہ بھی یہی ہے‘ لہٰذا اس ساری تفسیر میںکوئی تخالف و تعارض نہیں پایا جاتا۔
تفسیر بالرّائے (عقلی) اور تفسیر ماثور(منقول ) میں جو تعارض پایا جا سکتا ہے‘ اس کی عقلاً درج ذیل صورتیں ممکن ہیں:
(ا) تفسیر عقلی و نقلی دونوں قطعی ہوں۔
(ب) ایک قطعی اور دوسری ظنی ہو۔
(ج) دونوں تفسیریں ظنی ہوں۔
ان تین میں سے پہلی صور ت فرضی ہے اور اس کا پایا جانا ممکن نہیں۔ قطعیات میں سرے سے تعارض کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔دوسری صورت میں قطعی جو ہے وہ ظنی سے مقدّم ہو گی‘ اس لیے کہ قطعی تو ظنی کے مقابلے میں ارجح و اقویٰ ہوتی ہے۔ جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے تو اگر تفسیر عقلی و نقلی میں جمع و تطبیق ممکن ہو تو قرآنی الفاظ کو اس پر محمول کیا جائے گا‘ اور اگر صحیح تطبیق کا کوئی امکان پیدا نہ ہو رہا ہو تو پھر تفسیر منقول کو ترجیح دی جائے گی بشرطیکہ وہ صحیح روایت سے ثابت ہو۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مستند تفسیری اقوال کو بھی ترجیح دی جائے گی ‘ اس لیے کہ یہ عین امکان ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کے فرمودہ ہوں۔ مزید برآں کہ اصحابِ رسولj بارگاہِ نبویﷺ کے صحبت یافتہ‘ کلام اللہ کا صحیح فہم و ادراک رکھنے والے‘ نزولِ قرآن کے چشم دید گواہ اور اعمالِ صالحہ کی دولت سے مالا مال تھے۔ باقی رہے اقوالِ تابعین‘ تو اس میں درج ذیل تفصیل پیش نظر رکھی جائے:
(ا) اگرتابعی اہل ِکتاب سے نقل و روایت اور اسرائیلیات میں معروف ہو تو صحیح عقلی تفسیر کو ترجیح دی جائے گی۔
(۲) اگر وہ اہل ِکتاب سے استفادےمیں مشہور نہیں اور اس کی روایت عقلی تفسیر سے متصادم ہو‘ تو اس صورت میں وجہ ٔ ترجیح کو دیکھنا پڑے گا اور پھر اسی قول کو اختیار کیا جائے جو اقرب الی الشریعہ ہو۔
(۳) اگر عقلی اور نقلی تفسیر میں سےکسی ایک کی تائید مسموع دلیل یا استدلال سے ہوتی ہو تو اس کو ترجیح دی جائے گی۔
(۴) تفسیری اقوال کے ضمن میں اگر دلائل و شواہد باہم متعارض ہوں اور ان میں تطبیق کی کوئی صورت نہ بنتی ہو‘ تو پھر ہم مرادِ ربّانی پر ایمان لائیں گے ‘مگر اس کے تعین سے اجتناب برتیں گے۔ گویا اس کی حیثیت اس مجمل اور متشابہ حکم کی سی ہو گی جس کی ابھی تفصیل اور توضیح نہ ہوپائی ہو۔
تفسیر بالرّائے کرنے والے کو کن اصول و قواعد کو مدّ ِنظر رکھنا چاہیے
ایسے مفسر پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی تفسیر میں درج ذیل اصول و قواعد کومدّ ِنظر رکھے اور کسی صورت بھی ان سے روگردانی نہ کرے:
(۱) مفسر کی تفسیر اور قرآن پاک کا وہ حصّہ جس کی تفسیر کی جا رہی ہے‘ ان دونوں میں پوری یگانگت و موافقت ہونی چاہیے۔ یہ تفسیر ایسی نہ ہو کہ موقع محل سے بے ربط نظر آئے اور نہ ہی ایسی کہ قرآن مجید کا اصل معنی و مفہوم آنکھوں سے اوجھل ہو جائے۔
(۲) تفسیر میں حقیقی و مجازی دونوں معنوں کوملحوظ رکھاجائے۔ بعض اوقات کسی کلام کےمجازی معنی مراد ہوتے ہیں اور حقیقی مفہوم مراد لینا درست نہیں ہوتا۔
(۳) آیات اور کلام کی اصل غرض و غایت ہمیشہ مدّ ِنظر رہنی چاہیے۔
(۴) قرآنی آیات کا باہمی توافق و تطابق پیش نظر رہنا لازمی ہے۔ ایک آیت کے آخری حصے کا جو ربط و تعلق دوسری آیت کے ابتدائی کلمات کے ساتھ ہو‘ اس کو پورے طور پر واضح کیا جائے تاکہ قاری کو یہ تأثر حاصل ہو کہ قرآن کریم ایک مربوط و متصل کتاب ہے اور اس کے اجزاء منتشر نہیں‘باہم ملے جلے ہیں۔
(۵) ایک مفسر کے لیے اسبابِ نزول کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے۔ کسی آیت کی تفسیر کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سابقہ آیت کے ساتھ اس کا ربط و تعلق واضح کیا جائے‘ پھر اس کا سبب نزول بیان کیا جائے اور اس کےبعد اس کی متعلقہ تفسیر کی جائے۔ امام زرکشی ’’البرہان‘‘ کے شروع میں رقم طراز ہیں کہ مفسرین کی عادت یہ ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیر کرنے سے قبل اس کا سبب نزولِ بیان کرتے ہیں۔ مفسرین کے ہاں یہ امر متنازع فیہ ہے کہ آیا پہلے سبب نزول کا ذکر کیا جائے یا سابقہ آیت کے ساتھ مناسبت اور تعلق کا؟ اس ضمن میں تحقیق یہ ہے کہ بعض جگہ سبب نزول کا ذکر پہلے کرنا مناسب ہے اور بعض مقامات پر ربط و تعلق کا۔
(۶) ربط وتعلق اور سبب نزول بیان کرنے کے بعد مفرد الفاظ کی تحقیق کا آغاز کیا جانا چاہیے کہ علم ِلغت‘ صرف اور اشتقاق کے پیش نظر اس کی کیا حیثیت ہے۔ بعد ازاں ترکیب ِنحوی کی طرف توجہ دی جائے‘ پھر علم معانی‘ بیان اور بدیع کے اصول و قواعد کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اسے جانچاجائے۔ پھر یہ بتایا جائے کہ اس کلام سےمقصودِ ربانی کیا ہے۔ آخر میں متعلقہ آیت سے جو شرعی مسئلہ نکالا جا سکتا ہے وہ واضح طور پر بتایا جائے۔
(۷) غیر ضروری مسائل سے بھی احتراز کیا جانا چاہیے‘ مثلاً تفسیر کرتے وقت نحوی مسائل کے علل و اسباب نیز فقہ‘ اصولِ فقہ اور دینی عقائد کے دلائل و براہین کو زیر بحث نہ لایا جائے۔ یہ مسائل و دلائل متعلقہ علوم میں اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں۔ لہٰذا علم تفسیر میں ان مسائل کو جوں کا توں لیا جائے‘ ان کے بارے میں استدلال نہ کیا جائے۔
(۸) ضعیف روایات پر مبنی اسبابِ نزول ‘ فضائل پرمشتمل احادیث ِضعیفہ‘ اسرائیلیات اور بغیر صحیح سند کے مَن گھڑت واقعات کو بالکل بیان نہ کیا جائے۔ اس سے قرآن کا حسن و جمال اور اثر انگیزی قطعاً قائم نہیں رہتی اور پڑھنے والے لوگ فکر وتدبر اور عبرت آموزی کی بجائے کسی شک وشبہ اور گمراہی کے راستے کی طرف جانکلتے ہیں۔
(۹) ایک مفسر کے لیے ذہین و فطین اور بیدار مغز ہونا ضروری ہے۔ نیز اس کو قانونِ ترجیح سے بھی آگاہ ہونا چاہیے‘ تاکہ جب آیت میںمختلف وجوہ کا احتمال ہو تو وہ ایک قوی وجہ کو ترجیح دے سکے۔ اس سے واضح ہوا کہ قانونِ ترجیح کا ذکر وبیان بھی لازم ہے‘ اس لیے کہ احتمالاتِ کثیرہ کی موجودگی میں اس قانون کی اساس پر کسی ایک وجہ کو ترجیح دی جا سکتی ہے(الاتقان)۔
تفسیر بالرّائے میں غلطی کی وجوہ
جو لوگ سُنّت اور مسلک ِصحابہ و تابعین سے ہٹ کر‘ لازمی اصول و قواعد اور بنیادی علوم سے بے نیاز ہو کر قرآن مجید کی تفسیر بالرّائے کرنا چاہتے ہیں‘ ان سے اکثر بڑی غلطیاں صادر ہوتی ہیں اور وہ راہِ ہدایت سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ تفسیربالرائے میں زیادہ ترجن غلطیوں اورکوتاہیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے‘ اس کے دو اسباب ہیں اور یہ دونوں اسباب عصر ِصحابہ و تابعین کے بعد کی پیداوار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن تفاسیر میںصرف صحابہ و تابعین کے تفسیری اقوال درج ہیں‘مثلاً عبد الرزاق ‘ عبد بن حمید اور اس دور کے دیگر علماء کی تفاسیر وغیرہ‘ وہ کتب ان دونوں قسم کی غلطیوں سے بالکل پاک ہیں۔ بخلاف ازیں جو کتب بعد میںمنصہ شہود پر آئیں جیسے شیعہ‘ معتزلہ‘ خوارج وغیرہ کی تفاسیر‘ وہ ناقابل معافی غلطیوں اور بسا اوقات گمراہیوں کا پلندہ ہیں۔ان سے یہ گمراہ کن کوتاہیاں دیدہ دانستہ اپنے مسلک کی حمایت اور اپنے عقائد کے نام نہاد دفاع کے سلسلے میں صادر ہوئیں۔ بہرحال تفسیر بالرّائے میں غلطی دووجہ سے پیدا ہوتی ہے: اوّل‘ مفسر کا ایک خاص مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے اور وہ قرآن کے الفاظ اور مفہوم کو اس کے تابع بنانا چاہتا ہے۔ دوم‘ قرآن کریم کے الفاظ کا صرف لغوی اور ظاہری مطلب مراد لیا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ متعلقہ کلام کے نازل کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ پہلی وجہ میں جو چیز پیش نظر ہے وہ مفسر کا اپنا عقیدہ و نظریہ ہے‘ قطع نظر اس کے کہ قرآنی الفاظ کا معنی و مطلب کچھ بھی ہو۔ اس کے برعکس دوسری وجہ میں صرف لفظ کا وہ ظاہری مفہوم مراد لیا جاتا ہے جو ایک عربی ٔالاصل شخص اس سے سمجھ سکتا ہے‘ متکلم ‘مخاطب اور سیاقِ کلام کی طرف مطلق توجہ نہیں دی جاتی۔
وجہ اوّل سے جو غلطی رونما ہوتی ہے‘ وہ چار اقسام کی ہے:
(ا) اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ مفسر کسی آیت سے جو مفہوم مرادلے رہا ہے‘ وہ بجائے خود درست تو ہوتا ہے مگر مرادِ ربّانی اس سے مختلف ہوتی ہے‘ صوفیہ اور واعظین حضرات کی تفاسیر عموماً اسی قسم کی ہیں۔ وہ قرآنی الفاظ کے جو معنی بیان کرتے ہیں وہ بذاتِ خود صحیح ہوتے ہیں‘ مگر ان کا بیان کردہ مفہوم اس آیت سے مراد نہیں ہوتا‘ جیسے سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے:{وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ. . . .}(آیت۶۶)’’اور اگر ہم ان پر فرض کر دیتے کہ اپنی جانوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جائو . . . .‘‘ اس کی تفسیر میں ابو عبد الرحمان السلمی کہتے ہیں کہ قتل ِنفس سے اپنی خواہشات کی مخالفت مراد ہے اور گھر سے نکل جانے کا مطلب اپنے دل سے حب ِدنیا کا باہر نکالنا ہے۔
(ب) اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ مفسر کسی لفظ کا جو مفہوم بیان کرتا ہے‘ وہ مطلب وہاں مراد نہیں ہوتا بلکہ تفسیر کرنے والا اس لفظ کو مقصود و مراد ِمعنی سے محروم کر کے اپنا خود ساختہ مطلب پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض مسالک اور فرقوں کی تفاسیر اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے نقطۂ نظر سے الفاظ کے مخصوص یا باطنی معنی نکالتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان الفاظ کے ظاہری معنٰی مراد نہیں ۔ جیسے سورۃالبقرۃ میں فرمایا گیا :{وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵)}’’اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جائو ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے‘‘۔ حسن عسکری اس کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں درخت سے (حضرت) محمدﷺ اور آلِ محمد کے علم کا درخت مقصود ہے۔ اہل ِبیت کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی علم سے نوازا‘ وہ علم کسی اور کو نہیں دیا۔ علم کا درخت اہل ِبیت کا خاصہ ہے اور دوسرا کوئی شخص اس سے مستفیض نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح سہل التستری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس میں درخت کا پھل کھانے سے نہیں روکا گیا۔
(ج) اس غلطی کی تیسری صورت یہ ہے کہ مفسر کا بیان کردہ مفہوم غلط ہوتا ہے مگرا س کے باوجود وہ قرآن پاک سے اسی کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ حالانکہ قرآنی الفاظ نہ اس مفہوم پر دلالت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ مطلب مراد ہوتا ہے۔ اس کی مثال بعض صوفیہ کے بیان کردہ باطل معانی ہیں‘ جیسے وہ تفسیر جو ابن عربی کی جانب منسوب ہے‘ اسی قبیل سے ہے۔ سورۃ المزمل میں فرمانِ خداوندی ہے: {وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا(۸) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ}’’اور اپنے رب کا نام یاد کر اور سب سے کٹ کر اسی کا ہو جا‘ جو ربّ ہے مشرق اور مغرب کا‘‘۔ ابن عربی نے اس کی تفسیر یوں کی ہے:’’ اپنے رب کا نام یاد کر اور وہ(اے انسان) تو خود ہی ہے‘یعنی اپنے آپ کو پہچان اور اسے یاد رکھ‘ فراموش نہ کر‘ ورنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تجھے فراموش کر دے گا۔ نفس کی حقیقت معلوم کر کے اس کو کمال تک پہنچانے کی کوشش کر۔ تجھ پر اسی کا پَرتوپڑا ہے اوروہ تیرے وجود کے اُفق سے طلوع ہوا ہے‘ وہ تیرے وجود میں چھپ گیا ہے اور اس کا نور تجھ میں آکر غروب ہو گیا ہے۔‘‘ اسی طرح سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے:{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ۚ}(آیت۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اُس نے گویا اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ابن عربی اس کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’اس لیے کہ رسولؐ جو کچھ بھی کہتا ہے اللہ کی طرف سے کہتا ہے اور اللہ کے ساتھ کہتا ہے‘ بلکہ رسول کے منہ سےاللہ ہی بولتا ہے‘ رسول صرف اس کی ظاہری تفسیر ہے‘ درحقیقت وہ خود ہی سب کچھ ہے۔‘‘(الفتوحات)
(د) اس کی چوتھی وجہ یہ ہےکہ مفسر ایک لفظ یا کلام سے جو مفہوم اخذکرتاہے‘ اس میں اس کے پیش نظر قرآنی الفاظ کو ان کے اصل اور مقصود ظاہری معنی سے ہٹا کر اپنے خود ساختہ اور مَن گھڑت معانی پہنانا ہوتا ہے۔ اہل ِبدعت اور باطل فرقوں کی تفاسیر اس کی روشن مثالیں ہیں‘مثلاً بعض غالی گمراہ شیعہ نے تفسیر کرتے ہوئےقرآن مجید کے الفاظ’’بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ لیے ہیں (نعوذ باللہ من ذلک!)۔ ایسے لوگ بعض دفعہ کسی لفظ کے ظاہری اور متبادر مفہوم کو نظرانداز کر کے ایک ایسا معنٰی مراد لیتے ہیں جس میں غلط قسم کا تکلف ہوتا ہے۔ ایسا وہ اُس وقت کرتے ہیں جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآنی الفاظ اور مفہوم ان کے باطل نظریات سے ٹکراتا ہے‘ جیسے سورۃ القیامہ میں فرمایا گیا:{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۲۲) اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ(۲۳)} ’’کچھ چہرے اس روز تر و تازہ ہوں گے‘ اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔ اس کے ضمن میں بعض معتزلہ کا کہنا ہے کہ لفظ ’اِلیٰ‘ اس آیت میں ’الآلاء‘ کا واحدہے اور اس کا مطلب نعمت کا ہے۔ بنابریں اس آیت کا معنی یہ ہواکہ وہ چہرے اپنے رب کی نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ معتزلہ کو یہ ناپسندیدہ تکلّف اس لیے کرنا پڑا کہ آیت سے رئویت ِباری تعالیٰ کا اثبات ہوتا ہے اور وہ اس کے منکر ہیں۔(الامالی از سید مرتضیٰ)
اب باطنیہ کی بزعم خود تفسیر کے چند نمونے ملاخطہ کریں:’وضو‘ سے امام کی پیروی مراد ہے ، ’صلوٰۃ‘ سے رسول و نبی مراد ہے، ’کعبہ‘ سے مراد حضور ِ اَقدسﷺ کی ذات ہے، ’جنت‘ تکلیف سے آرام پانے کا نام ہے ، ’جہنم‘ مشقت اٹھانے کو کہتے ہیں ، ’ملائکہ‘ سے باطنی فرقے کے وہ داعی مراد ہیں جو ان کے عقائد کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں ، ’ شیاطین‘ سے مراد باطنی فرقے کے مخالف لوگ ہیں‘ وغیرہ ۔ (جاری ہے)
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025