(ظروف و احوال) اسرائیلی تعلیمی نصا ب کی ایک جھلک - رضی الدین سیّد

15 /

اسرائیلی تعلیمی نصا ب کی ایک جھلکرضی الدین سیّد

نئے عالمی نظام اور امریکی ایجنڈ ے کے تحت پورے عالم ِاسلام میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً دوسری بڑی منفی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں ‘کالجوں اور جامعات کے تعلیمی نصابوں کو تبدیل کرنے اور انہیں لبرل بنانے کاکام بھی زور شور کے ساتھ جاری ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ تمام انسان برابر ہیں ‘لہٰذا بنیاد پرستی پھیلانے اور دوسرے مذاہب کے خلاف تعصبات کو جنم دینے والے مضامین کو درسی کتابوں سے نکال دینا چاہیے۔ یاد رہے کہ معرو ف فری میسنری تنظیم کا نعرہ بھی یہی ہے: ’’مذہب ِانسانیت ہی فی الاصل مذہب ِ محبّت ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں ہمارے قومی نصاب سے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں مضامین اور بعض حمدیہ نظمیں اور نعتیں بھی خارج از نصاب کردی گئی تھیں۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ کے دَور میں یہودیوں کے خلاف ہونے والی جنگ ِ خیبر اور بھارت کی جانب سے مسلط کردہ ستمبر ۱۹۶۵ ءکی جنگ کو بھی درسی کتابوں سے خارج کیا جاچکا ہے۔ ان معاملات پر پورے پاکستان میں بڑا واویلا مچا تھااورایک ہمہ گیر تحریک بھی چلی تھی‘ لیکن جن صہیونی منصوبوں کو دنیا بھر میں نافذالعمل ہونا ہوتا ہے ‘ ان کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج ہمارے ہاں بے معنی سمجھا جاتا ہے۔
ایک طرف ہمارے حکمرانوں کی ذہنی مرعوبیت کا درجِ بالا نمونہ ہے اور دوسری طرف خود صہیونیوں کا اپنا طرز عمل ہےجو ہر معاملے میں یکسو ہیںاور جنہیں اپنے ہاں کسی قسم کی تبدیلی گوارا نہیں ہے۔ یہاں ایک جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ خود اسرائیل میں تعلیمی اداروں میں نصاب کی کیا حالت ہے‘ اوروہاں طلبہ کو کیا پڑھا یا اور سکھایاجارہا ہے!
امریکہ میں مقیم ایک عرب عیسائی اسٹیون سیلیٹا(Steven Saliata) نے اپنی کتاب Anti-Arab Racism in The USA میںاسرائیلی تعلیمی نصاب کے بارے میں کافی کچھ تفصیل سے بتایا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی نے اپنے طلبہ کے لیے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ ’’یہودی ایک منصفانہ ا نسانی معاشرہ تشکیل دینےمیں مصروف ہیں‘‘۔ اسرائیلی کتابوں میں یہودیوں کو بہادر‘ محنت کش اورملک کی ترقی میں مددگار کے طورپر پیش کیا جاتا ہے ‘لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ عرب ان تمام خصوصیات سے عاری ہیں۔ ان کتابوں میں عربوں کو ایک ایسی قوم ظاہر کیا گیا ہے جو کمتر ‘ غیر مہذب‘ سست الوجود اور بے حس ہے۔ ان کے مطابق عرب قاتل ہیں‘ وہ جلائو گھیرائو کرتے ہیں اور آسانی سے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ یہ منتقم مزاج ‘ ذہنی طور پر بیمار اور ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگ ہیں۔
اگرچہ اسرائیلی نصابوں میں حالات کے تحت بعض اصلاحات بھی کی جارہی ہیں لیکن ان کا تعلق فلسطین اور اس کے باشندوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک سترہ سالہ اسرائیلی طالب علم نے بتایا کہ اس کی کتابیں اسے بتاتی ہیں کہ ہر وہ کام جو یہودی کرتے ہیں‘ عمدہ اور قانونی ہوتے ہیں جبکہ عربوں کے تمام فیصلے غلطی سے پُر ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ عرب ان یہودیوں کو فلسطین سے نکالنے کے ہمیشہ درپے رہتے ہیں۔ تعلیمی کتابوں میں اس طرح کے اسباق سمو کر وہاںکی حکومت ابتدا ہی سے یہودی طلبہ میں عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بونے کی کوشش کرتی ہے۔
حیفہ کے ایک اسکول کی چھٹی جماعت کے ستر فیصد یہودی طلبہ نے بتایا کہ عرب باشندے قاتل‘ اغوا کنندہ‘ جرائم پیشہ اور دہشت گرد ہوتے ہیں۔ اسی اسکول کے اسّی فیصد طلبہ نے بتایا کہ عرب لوگ گندے ہیں اور ان کے چہرے دہشت ناک ہیں۔ نوے فیصد طلبہ نے اظہارِ رائے کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر فلسطینی عربوں کا کوئی حق نہیں ہے۔
۱۹۶۷ء سے اب تک جو کتابیں اسرائیل میں شائع ہوتی چلی آرہی ہیں ‘ ایک امریکی مصنف و ایڈیٹر ’’کوہن‘‘ کے مطابق ان میںسے ۵۲۰ کتابوں میں فلسطینیوں کے بارے میں توہین آمیزاور منفی تبصرے پائے جاتے ہیں ۔ عربوں کو تشدد پسند‘ برائی کا سر چشمہ‘ جھوٹے‘ لالچی‘ منافق اور غدار قرار دیا گیا ہے۔رسوا کرنے کی خاطر عربوںکے لیے یہ الفاظ بھی بار بار استعمال کیے گئے ہیں:قاتل: ۲۱ بار‘ سانپ: ۶ بار‘ منحوس جانور: ۱۷ بار‘ خون کے پیاسے: ۲۱ بار‘ بھوتوں اور جنوں پر یقین رکھنے والے: ۹ بار‘ اونٹ کے کوہان: ۲ بار۔
عربوں کے بارے میں یہ خرافات عبرانی ادب و تاریخ کا ایک بڑا حصّہ ہیں۔ وہ حضرت اسماعیلؑ اور ان کی اولاد کے لیے ابتدا ہی سے دشمنی بھرا رویّہ رکھتے ہیں‘ تاکہ یہودی طلبہ عربوں کے ساتھ ’’معاملہ ‘‘ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اسرائیلی مصنّفین خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
سابق اسرائیلی صدر موشے کَٹسائو (Katsav) نے کہا تھا کہ ہمارے اوردشمنوں کے درمیان ایک بڑا خلا ہے۔ یہ خلا محض صلاحیتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ اخلاق‘ تمدن‘ انسانی جانوں کی حرمت اور ضمیر کے لحاظ سے بھی ہے ۔ فلسطینی وہ لوگ ہیں جو ہمارے براعظم اورہماری دنیا سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق ایک دوسری کہکشاں سے ہے۔
ٍ اسرائیلی تعلیمی اداروں کے مختلف درجات میں یہودیوں پرہٹلر کے مظالم کا مبالغہ آمیز قصّہ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے نام سے پڑھایا جانا بھی لازمی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے باپ دادا کی قربانیوں اور یہودی قوم کے دنیا بھر میںمظلوم ہونے کی حالت سے واقف ہوسکیں۔ ظاہرہے کہ ظلم و ستم کے تفصیلی اور بار بار کے مطالعے سے ان کے اندر انتقام کا شدید ردّ ِعمل پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہودی شریعت کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام غیریہودی بشمول عیسائی اور مسلمان ’’گوئم‘‘ اور’’انسان نما حیوان‘‘(Gentiles) ہیں۔ لہٰذا اسی بنیاد پر ان کی ہر سطح کی درسی کتابوں میں یہودی طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام قوموں کو گوئم ‘رذیل ‘ اور چوپائے سمجھیں۔ افسوس کہ آج کوئی اسرائیل سے یہ نہیں کہتا کہ وہ بھی اپنے نصاب سے انتقامی ردّعمل کو جنم دینے والے ہولوکاسٹ اور گوئم والے اسباق خارج کردے۔
یہودی مصنفین اسرائیل شہاک اور نورٹن میزنس کی اپنی کتابJewish Fundamentalism in Israel (’’اسرائیل میں بنیاد پرستی‘‘ ترجمہ:محمد احسن بٹ)
میں لکھتے ہیںکہ اسرائیل کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو یہودیوں کی بنیادی مذہبی کتاب ’’تالمود‘‘ کا مطالعہ ضرور کروایا جاتا ہے۔ طلبہ کوبتایا جاتا ہے کہ عبادت کرنے ‘ خیرات دینے ‘ یا دوسرے نیک کام کرنے کی بجائے تالمود کا مطالعہ ان کے لیے جنّت میں داخلے کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ مزید یہ کہ جو طلبہ تالمودکے مطالعے میں منہمک ہوتے ہیںوہ خود اپنے ‘ا پنے خاندان ‘ اپنے مالی معاونین اور کسی حد تک دوسرے یہودیوں کے لیے بھی جنت میں داخلے کاذریعہ بنتےہیں۔
یہی مصنّفین لکھتے ہیں کہ ریاست اسرائیل کے قیام کے چند سالوں بعد ہی اسکولوں کی ریاضی کی کتابوں سے جمع کا نشان +ختم کرکے اس کی جگہ الٹےT کا نشان یہ کہتے ہوئے لگایا گیا تھا کہ جمع کا نشان یہودی بچوں کو مذہبی اعتبارسے بگاڑ سکتاہے۔ چنانچہ یہی نشان وہاں آج تک جاری ہے۔ اسی ایک مثال سے یہود کی بنیاد پرستی کی شدّت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
یہودی مذہب پرمعروف رِبیوں ( ابراہام جے وِٹی اور راشیل جے وٹی) کی لکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب ’’ایکسپلورنگ جوئیش ٹریڈیشن‘‘ میں بتایا گیاہے کہ’’یہودی اساتذہ اپنے طلبہ کو یہ ذہن نشین کرواتے ہیں کہ جیسے جیسے وہ بوڑھے ہوتے جائیں گے‘انہیں اندازہ ہوگا کہ تورات کے ہر حرف کے پیچھے کتنے آنسو اور مشکلات پوشیدہ ہیں‘‘۔ اس طرح کی ایک نظم کا نمونہ یہ ہے:
’’پڑھو الف بے۔ جو مَیں کہہ رہاہوں ‘بچو‘اسے دھیان سے سنو! جب تم بڑے ہوجائو گے تو خود سمجھ جائوگے کہ ہر حرف کے اندر کتنے آنسو اور کتنے بین پوشیدہ ہیں!‘‘
ان الفاظ سے شاعر دراصل طلبہ کو یہ سمجھانا چاہ رہا ہے کہ موجودہ تورات کوتم تک پہنچانے میں ہمارے آباء و اجداد کو کس قدر دکھوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑا ہے۔
اس وقت امریکہ اوراسرائیل میں اَن گنت اسکول اور کالج ایسے ہیں جن میں مردو خواتین کو تورات اور جدید علوم‘ دونوں کا عالم بنائے جانے کے کورس کروائے جاتے ہیں۔ ایک بڑا ربی الزر‘ایسی تعلیم کے بارے میں یہ اصول طے کرتا ہے کہ: ’’اگر تورات نہیں تو دنیا کا کوئی پیشہ نہیں۔ اگرآٹا نہیں ہے تو تورات نہیں ‘ اور اگرتورات نہیں تو آٹا بھی نہیں‘‘۔ نظم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے تمام کاروباروں اور پیشوں کو صرف خدا کی ہدایت کے مطابق ہی چلانا چاہیےجس کے لیے تورات کے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہودی رِبی طلبہ کو مذہبی بنیاد پرستی اپنے ذہنوں میں مستحکم کرنے کی ہدایت کرتاہے۔
تورات کی تشریح کرتے ہوئے یہودی قوانین کی کتاب ’’تالمود ‘‘ نے انسانی زندگی کے مختلف ادوار کا ایک نظام الاوقات پہلے ہی سے طے کردیاہے۔ تالمو د کہتی ہے:
’’پانچ سال کی عمر سے بائبل (تورات اور زبور) کو پڑھنا شروع کرو۔ تیرہ سال کی عمر میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیےاٹھ کھڑے ہو۔ پندرہ سال کی عمر سے تالمود کا مطالعہ کرنے لگو۔ بیس سال کی عمر سے رزق کی تلاش کرنے نکل کھڑے ہو‘‘۔ (کتاب ’’تالمو د بے نقاب ہوتی ہے‘‘ ترجمہ راقم‘ باب Avot 5:21)
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس طرح کا نصاب پڑھائے جانے سے یہودی طلبہ کے اندر سوائے اس بنیاد پرستی کے ‘جسے اسلامی ممالک کے نصاب سے خارج کرنےکے لیے صہیونی اورامریکی مل کر احکام جاری کررہے ہیں‘ دوسری اورکیا صفت پیداہوگی ! عالمی طورپر نصاب میں تبدیلی کی جومہم صہیونیوں نے ڈیڑھ سوسال پہلے شروع کی تھی ‘اسے سب سے پہلے ایک امریکی صنعت کار اور فورڈکار کے بانی ہنری فورڈ اول نے محسوس کیا تھا۔ اپنی کتاب ’’دی انٹرنیشنل جیو‘‘(اردوترجمہ’’ عالمی یہودی فتنہ گر‘‘ از میاں عبدالرشید‘ صفہ پبلشرز لاہور)میں اس نے تفصیل سے لکھا ہےکہ :
’’ہماری اولادوں کو ان کے آباءو اجداد کے ورثے سے محروم کیاجارہا ہے۔ جوانی کے ابتدائی ایام میں جب کہ لڑکے آزادیٔ فکر سے نئے نئے روشناس ہوتے ہیں‘ یہودی انہیں اپنے نرغے میں لے کران کے ذہنوں میں ایسے خیالات ٹھونس دیتے ہیں جن کے خطرناک نتائج کو ہماری اولاد اس وقت محسوس نہیں کرسکتی...... پروفیسروں اور طلبہ کو ساتھ ملا کر یہودی اپنے کام کو معزز بنالیتے ہیں۔ یہ لوگ آرٹ ‘ سائنس‘ مذہب‘ معاشیات‘ اور سماجیات غرضیکہ ہر مضمون میں اپنے نظریات داخل کردیتے ہیں۔ یہ یہودی طریقۂ کار اب پوری طرح ظاہر ہوچکا ہے۔ یعنی پہلے طلبہ کو سیکولر بنائو۔ دوسرے الفاظ میں بچے کو یہ تعلیم نہ دو کہ اس کی تہذیب وتمدن کا تعلق ایک قدیم مذہب کے گہرے اصولوں سے ہے۔ یہی ہے وہ لبرل ازم ‘ یہودی جس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں !‘‘ (باب: یہودی اثرات کے مختلف پہلو)
عالمی طو رپر نصاب میں تبدیلی کی یہ بات ہمارے سامنے اور زیادہ واضح ہوکر تب سامنے آتی ہے جب ہم صہیونیوں کے بڑوں کی مرتب کردہ قدیم دستاویز ’’پروٹوکولزآف دی ایلڈرز آف زائینس‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں۔اس میںانہوں نے عیسائی اور مسلم تعلیمی اداروں کے بارے میں اپنے نظریات کو صاف طورپر پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو سب سے پہلے ہم یونیورسٹیوں کی تعلیم کی از سر ِنو تنظیم کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ایک خفیہ پروگرام کے تحت یونیورسٹیوںکے افسروں اورپروفیسروں کو نئے سرے سے تیار کیا جائے گا۔ نصابِ تعلیم سے ا یسے تمام مضامین خارج کردیے جائیں گے جو ہمارے لیے مشکلات پیداکرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودی عوام کو ایک ایسا فرماںبردار وحشی جانور بنادیا جائے جو خود سوچنے سمجھنے سے عاری ہو۔‘‘ (دستاویز ۱۶)
یہی وہ رہنما خطوط ہیں جن کی بنیاد پرصہیونیوں نے پہلے تو عیسائی تعلیمی اداروں پر شب خون مارا‘ کیونکہ تب وہ ان کے بدترین دشمن تھے‘ اوراب وہ مسلم تعلیمی اداروں پر حملہ کر رہے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے اور اس کے خلاف پُرزور احتجاج کے باوجود عقل و خرد سے عاری ہمارے حکمران تعلیمی نصاب میں مسلسل منفی تبدیلیاں کیے جارہے ہیں۔
ہنری فورڈ سوال کرتاہے کہ اب اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے! پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ :
’’علاج بالکل آسان ہے۔ طلبہ کو بتایاجائے کہ تمام افکار کی پشت پر وہ یہودی ہیں  جو ہمیں ا پنے ماضی سے کاٹ کر مستقبل کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ وہ ان لوگوں کی اولاد ہیں جویورپ سے تہذیب وتمدن لے کر آئے ہیں۔ اب یہ یہودی ہمارے اندر آگھسے ہیں جن کی کوئی تہذیب ہے نہ مذہب۔ نہ انہوں نے ماضی میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں ان کے عزائم اعلیٰ ہیں۔‘‘ (ص: ۱۴)
ایک اور مغربی مصنف ولیم گائی کار اپنی معروف تصنیف Pawns in the Game میں لکھتا ہے کہ ’’ان کی قوت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے گماشتے اپنی صلاحیتوں کے باعث ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات بھی پڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئے۔‘‘
شہاب نامہ
اس ضمن میں ایک اور چشم کشا حقیقت معروف سابق بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ میں پیش کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ فلسطینی مہاجرین کے بچوں کے لیے یونیسکو نے اپنے خرچ پر یروشلم ‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بہت سے اسکول کھول رکھے تھے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ مسلمان اساتذہ بھی یونیسکو کی منظوری سے تعینات ہوتے تھے اور ان میں جو درسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں وہ بھی یونیسکو کی جانب سے منظور شدہ ہوتی تھیں۔ جب یروشلم سمیت ان علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا تو رفتہ رفتہ یہ خبریں آنے لگیں کہ اسرائیلی حکومت نے ان اسکولوں کا حلیہ بگاڑکر رکھ دیاہے۔ یونیسکو کے متعین کردہ مسلمان اساتذہ کو زبردستی گھر بٹھا دیا گیا ہے۔ ا ن کو تنخواہ تو باقاعدہ ملتی ہے لیکن کسی اسکول کے قریب تک آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی استاد کسی جگہ حرفِ شکایت زبان پر لاتا ہے تو و ہ اپنے بال بچوں سمیت ناقابلِ بیان مظالم اور تشدد کی زد میں آجاتا ہے۔ ان مسلمان اساتذہ کی جگہ ہراسکول میں اب کٹر یہودی اسٹاف فلسطینی مہاجربچوں کو پڑھانے پر مامور ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول سے یونیسکو کی منظور شدہ درسی کتابیں بھی نصاب سے خارج کردی گئی ہیںاور ان کی جگہ اب ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں اسلام ‘سیرت مبارکہ اور عرب تاریخ و ثقافت کے خلاف انتہائی گمراہ کن ‘ غلیظ اور شرمناک پروپیگنڈہ ہوتاہے۔
ایگزیکٹو بورڈکے ہر اجلاس میں عرب ممالک کے نمائندے اسرائیل کی ان مذموم حرکات کا کچا چٹھا کھولتے تھے اور اپنے ثبوت میں ان کتابوں کے نمونے بھی پیش کرتے تھے جو ا س نے یونیسکو کے قائم کردہ اسکولوں میں زبردستی رائج کی ہوئی تھیں۔ صحیح حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے دوبار ایک معائنہ ٹیم اسرائیل گئی لیکن دونوں بار ہمیں یہ رپورٹ ملی کہ عربوں کے الزامات کی تصدیق میں مقامی طورپر کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ اس کی وجہ غالباََ یہ تھی کہ یہ ٹیمیں اسرائیلی حکومت کے ساتھ پہلے سے اپنا پروگرام طے کرکے وہاں جاتی تھیں اور معائنہ کے روز اسرائیلی حکام متعلقہ اسکولوں میں یونیسکو کے منظور شدہ اساتذہ اور کتابوں کی نمائش کا ڈرامہ رچادیتے تھے!
ایگزیکٹو بورڈ میں عرب نمائندوں کے ساتھ میرے بڑے گہرے ذاتی تعلقات تھے۔ ہم لوگ آپس میں مل جل کر اکثر ایسی تدبیریں سوچاکرتےتھےجن سے اسرائیل کی اس صریح دھاندلی اور اسلام دشمنی کا بھانڈا پھوڑا جائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد سب کی یہی متفقہ رائے ہوئی کہ کسی قابل ِ اعتماد شخص کو خفیہ مشن پر اسرائیل بھیجا جائے اور وہ وہاںسے اسرائیل کے خلاف عائد کردہ الزامات کا ایسا ثبوت فراہم کرے جو ناقابل ِ تردید ہو۔ کئی ہفتوں کی چھان بین اور بحث مباحثہ کے بعد انجام کار قرعہ ٔ فال میرے نام نکلا۔ مَیں نے بھی اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا۔ میرے دل میں ایک لگن یہ بھی تھی کہ شاید اسی بہانے میرے ہاتھوں ہزاروں فلسطینی بچوں کی کوئی خدمت ہوجائےجو اسرائیل کے قبضہ ٔ اختیار میں آکر ایسی کتابیں پڑھنے پر مجبور تھے جن میں دین ِ اسلام اور رسول اللہﷺ کی ذات ِ مبارکہ پر انتہائی رکیک ‘بے بنیاد اورگمراہ کن حملے کیے گئے تھے۔چنانچہ میرا رابطہ ایک خفیہ تنظیم سے قائم ہوگیا۔ چند ہفتے مجھے پیرس ‘ قاہرہ اور بیروت میں زیر ِتربیت رکھا گیا۔ اس کے بعد ایک جعلی ایرانی پاسپورٹ پر مجھے دس روز کے لیے اسرائیل بھیجنے کا پروگرام طے ہوگیا۔ اس زمانے میں سابق شاہ ِ ایران کی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا۔
تل ابیب کے ہوائی اڈے پر کسٹم والوں سے فارغ ہوکر جب مَیں ا پنا سامان لیے باہر نکلا تو اسرائیلی ٹورسٹ کارپوریشن کے ایک خوش لباس نوجوان نے لپک کر مجھے خوش آمدید کہا۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے دبی زبان سے وہ شناختی الفاظ بھی ادا کیے جن کے متعلق مجھے پیرس میں آگاہ کردیا گیا تھا۔ جواباًمَیںنے بھی اپنے مقررکردہ شناختی الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد ’’مصطفیٰ‘‘ نے اگلے دس روز کے لیے میرا مکمل چارج سنبھال لیا۔
مصطفیٰ اس نوجوان کا کوڈنام تھا۔ چھبیس ستائیس برس کا یہ پڑھا لکھا فلسطینی جوان کئی سال سے جان کی بازی لگا کر اسرائیل میں آزادیٔ وطن کی خاطر طرح طرح کے خفیہ فرائض انجام دے رہا تھا۔ اسی کے زیر اہتمام مَیں یونیسکو کے قائم کردہ بہت سے اسکولوں میں گیا اور ۱۱۳ شرانگیز کتابوں کے نسخے حاصل کیے جو اسرائیلیوں نے یونیسکوکے منظور شدہ نصاب کی جگہ وہاں پر زبردستی رائج کر رکھے تھے۔ ان کتابوں پرمَیں نے ہیڈماسٹروں اوردیگر کئی اساتذہ کے آٹوگراف بھی لیے۔ یہ وہ یہودی ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ تھے جنہیں یونیسکو کو دھوکا دے کر مسلمان اساتذہ کی جگہ تعینا ت کیا گیا تھا۔ کئی جگہ مَیں نے ان کی بہت سی خفیہ تصویریں بھی اتاریں۔ ایک دو اسکولوں میں وہاں کے یہودی اسٹاف کے ساتھ میرا گروپ فوٹو بھی کھینچاگیا۔ ایک اسکول میں ایک فلسطینی بچے کو انتہائی بے دردی کے ساتھ نہایت کڑی اور ذلّت آمیز سزا مل رہی تھی۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنی کتاب کا وہ حصّہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا جس میں رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں انتہائی گستاخ الفاظ درج تھے۔ ہم نے اپنے خفیہ کیمرے کی مد دسے اس سین کی پوری فلم اتارلی جس کی لمبائی دوسو فٹ سے بھی کچھ اوپر تھی۔
خد اکا شکر ہے کہ پیرس واپس آنے کے بعد اسرائیل سے لائی ہوئی میری شہادتوں کو یونیسکو والوں نے تسلیم کرلیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے ایسے اقدامات کیے کہ مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کے قائم کردہ تمام اسکولوں میں عربوں کا منظور شدہ درسی نصاب از سرِ نو رائج ہوگیا اور اسرائیل کی لگائی ہوئی ۱۱۳ شرانگیز کتابیں بھی منسوخ ہوگئیں۔ اس کے علاوہ آئندہ اس صورتِ حال پر کڑی نظر رکھنے کے لیے قابلِ اطمینان بندوبست بھی کردیا گیا۔‘‘ (یونیسکو)
کاش کہ ہمارے مسلم حکمران سمجھ سکیں کہ جن صہیونیوں کے ایما پر وہ اپنے ہاں کے قدیم تعلیمی نصابوں کی مسلسل ادھیڑبُن میں لگے ہوئے ہیںانہوںنے خود اپنے ملک میں دوسروں کے خلاف نفرت‘ نسلی برتری ‘بنیاد پرستی اور دوسروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کو اپنی نصابی کتابوں کے ہر ہر صفحے پر بکھیرا ہواہے۔ عالمی امن کی خاطر اگر کسی اسلامی ملک کا تعلیمی نصاب تبدیل ہو نا ناگزیر ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ پھر ریاست اسرائیل کے تعلیمی نصاب کو بھی از سر ِنو ترتیب دیا جانا چاہیے۔ جس وقت عیسائی دنیا یہودیوں کو بری طرح ماررہی تھی اور وہ پناہ کی تلاش میں ساری دنیا میں مارے مارے پھر رہے تھے ‘اُس وقت مسلم اسپین میں یہودیو ں کو خوش آمدید کہا جارہا تھا اور پُر سکون زندگی گزارنے کی سہولت دی جارہی تھی۔ یہی وہ مسلم ہسپانیہ تھا جہاں پہنچ کر یہودیوں نے اپنی علمی و تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار بخشا تھا۔ اس بات کا عتراف خود یہودی مفکرین آج بھی کرتے ہیں۔ امریکی رِبی Benjamin Blech نے اپنی کتاب Jewish History and Culture میں دل سے اعتراف کیا ہے کہ باقی عیسائی یورپ کو چھوڑ کر کریسنٹ اور اسٹار نے اس خطرناک دور میں جو سلوک ہمارے ساتھ کیا تھا ‘وہ اتنا شاندار تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ ہمارے مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ یہودیوں کو یہ احساس دلائیں کہ اسرائیلی تعلیمی نصاب میں ہمارے اس احسان کا بھی ذکر کیا جائے ۔یوں اسرائیلی طلبہ کو بھی اندازہ ہوسکےکہ جب یہودی ہر طرف سے عیسائیوں کے ہاتھوں کھدیڑے جا رہےتھے ‘ اس وقت یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے انہیں امن اور تحفظ فراہم کیا تھا!

***