(حسن معاشرت) عورت کا سماجی مقام - ارسلان اللہ خان

15 /

عورت کا سماجی مقام
اسلام کی روشنی میں

ارسلان اللہ خان

 

قرآن ِ مجید میں اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے :
{یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۭ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۭ وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۶۰)} (الاحزاب)
’’اے نبی (ﷺ)! آپ اپنی بیویوں ‘اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادریں اپنے (چہرے کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی تو اُن کو ستایا نہیں جائے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
مندرجہ بالا قرآنی حکم کے ذیل میں علّامہ اقبال ؒ کے یہ اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں:؎
ضمیر عصر حاضر بے نقاب است
کشادش در نمودِ رنگ و آب است
جہاں تابی ز نورِ حق بیاموز
کہ اُو با صد تجلی در حجاب است!
’’عصر ِحاضرکاباطن بےنقاب ہوچکاہے۔اس کی رونق ظاہری چمک دمک کی نمائش میں ہے۔ (اے قوم کی بیٹی!) تُو نورِ حق سے جہاں کو منور کرنا سیکھ کہ وہ سو جلووں کےباوجودحجاب میں ہے۔‘‘
علّامہ اقبال مسلمان عورت کو فرماتے ہیں کہ اُسے پردے کے اہتمام کے ساتھ اس طرح رہنا چاہیے کہ اُس کے نیک اثرات معاشرے پر مرتّب ہوں اور اُس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اسی طرح روشن رہے جس طرح فاطر فطرت کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑرہی ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اکرم ﷺ نے دین ِ ِ اسلام کا خلاصہ پیش کیا تو مَردوں کو خاص طور پر وصیت فرمائی :
((ألا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّساءِ خَيرا)) (رواہ الترمذی)
’’ آگاہ ہوجائو ! عورتوں کے ساتھ حُسن ِسلوک کی نصیحت قبول کرو۔‘‘
قرآن و حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کی عزّت اور احترام ان کی شرم و حیا میں ہے۔ حجاب اُن کی پہچان ہے۔ جب وہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق اپنی عزّت اورعفت کی حفاظت کریں گی تو ان شاء اللہ اُس عظمت کوپا لیں گی کہ کسی کو اُن پر اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔
اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام و مرتبہ دیا ہے۔ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ سے کسی طالبہ نے پوچھا : حضرت! یہ کیا کہ جتنے نبی تھے وہ سب مرد تھے؟ حضرت نے جواب دیا :
’’ مرد رسول بنتے تھے ‘لیکن عورت رسول پیدا کرتی تھی ۔‘‘
علّامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عورت اگر علم و ادب میں مرد کے مقابلے میں کوئی بڑی خدمت انجام نہ دے سکے تب بھی صرف اس کی مامتا ہی نہایت قابل قدر ہے ۔ اسی کے طفیل مشاہیر ِ ِعالم پروان چڑھتے ہیں۔دنیا کاہر انسان اس احسان کے زیر بار ہے ؎
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں!
شَرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شَرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں!
دین اسلام عورت اور مرد کی مساوات اور آزادئ نسواں کا سب سے بڑا عَلم بردار ہے۔ البتہ یہ مساوات اور آزادی اُس خلاقِ عالم نے دی ہے جو ہر شے کی طرح اُس کا بھی خالق ہے۔ جس قدر خالق اپنی مخلوق کے بارے میں جانتا ہے مخلوق خود بھی اپنے بارے میںاس کے عشرعشیر سےآگاہ نہیں۔ چنانچہ خواتین کو جو سماجی حقوق ‘مقام اور مرتبہ اسلام نے دیا ہے حقیقت میں وہی ان کے لیے سودمند ہے ۔ مغرب نے خواتین کو آزادی کے نام پر جو کچھ دیا ہے وہ حقوق نہیں بلکہ ایک ایسا عذاب ہے جس نے مغربی معاشرے کی عائلی زندگی کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ مغرب نے عورت کو مَردوں کے مساوی حقوق دینے کے نام پر اسے گھر سے باہر لاکر کھڑا کردیا اوریوں صنف ِ نازک ہونے کی صفت چھین لی۔ بقولِ اقبال :
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت!
ظہورِ اسلام سے قبل عرب جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اُن کے نزدیک عورت ایک باندی اور غلام کی حیثیت رکھتی تھی۔ اُس کی خرید وفروخت عام تھی۔ اُسے کسی بھی رشتے میں عزّت نہ دی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش پر ماتم اور سوگ کی سی کیفیت ہوتی اور بعض اوقات تو اُسے زندہ درگور کردیا جاتا‘ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
{وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُئِلَتْ (۸) بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ (۹)} (التکویر)
’’ اور جب زندہ درگور کی گئی بچی سے پوچھا جائے گا‘کہ اُسے کس جُرم میں قتل کیا گیا!‘‘
کسی صالح اور عادل معاشرے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ وہ عورت کی شخصی حیثیت کا تعین کرے۔ قرآن حکیم میں عورت کا مقام ومرتبہ کئ مقامات پر بیان ہوا ہے۔بالخصوص سورۃ النساء میں اُس کی حیثیت بطور ماں‘ بہن اور بہو تک بیان فرمادی گئی ہے۔ سورۃ الاحقاف میں عورت کی بطور ماں فضیلت بیان کی گئی ہے کہ وہ کس طرح اپنی جان مشقّت میں ڈال کر اولاد کو پیدا کرتی‘ پالتی اور معاشرے میں جینے کے قابل بناتی ہے۔ بیٹی کو والدین کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے۔ ترمذی کی حدیث ہے : ’’بیٹی کی پرورش والدین اور دوزخ کے درمیان پردہ ہے ۔‘‘
اسلام ایک نہایت متوازن ‘ معتدل اور قابل عمل دین ہے۔ بہت سے لوگ حقوق اور آزادی کے نام پر عورت کو اسلام کی تعلیمات کے بارے میں گمراہ کرتے ہیں۔دوسری طرف کچھ لوگ اپنی جاہلانہ قبائلی رسوم کو اسلام سے جوڑ کر خواتین کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ کہیں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو کوئی شادی کے بعداُن کو اپنے والدین سے ملنے نہیں دے رہا۔ اسلام میں انتہا پسندی قطعاً نہیں ہے۔ یہ لوگوں کے خود ساختہ رسوم ورواج ہیں جن کو انہوں نے اسلام کا نام دے رکھا ہے۔
مرد اور عورت تمدن کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ اُن کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی کیفیات مختلف ہیں اور یہ اختلافات ان کے خالق نے تمدن کی ضرورت کے تحت رکھے ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے سے وہ ایک دوسرے کی جنس ہیں‘ لیکن دینی اورا خلاقی اعتبارات سے دونوں کا جداگانہ اور مستقل تشخص ہے اور وہ اپنی اپنی شخصیت کے ذمہ دار ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗئِمِیْنَ وَالصّٰۗئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)} (الاحزاب)
’’بالیقین جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں‘ ایمان والے ہیں‘ مطیع فرمان ہیں‘ راست گو و راست باز ہیں‘ صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں ہیں‘ روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں ہیں ‘عصمت مآب ہیں‘ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ہیں‘ اللہ نے ان (مَردوں اور عورتوں) کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیّا کر رکھا ہے۔‘‘
غورکیجیے کہ دینی و اخلاقی مساوات کو یہاں کس قدر حسین اور جامع اسلوب سے نمایاں کیا گیا ہے۔ جتنے اعلیٰ اوصاف کاحامل ایک مسلمان مرد ہوسکتا ہے اُتنے ہی اعلیٰ اوصاف سے ایک مسلمان خاتون بھی متصف ہوسکتی ہے۔
تاریخ ِ انسانی میں اسلام ہی نے پہلی بارعورت کو مستقل قانونی تشخص (legal status) عطا کیا۔ اسلام میں عورت کو نہ صرف حق ِ ملکیت حاصل ہے بلکہ وہ اُس پر تصرف کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ دُنیا کے کسی مذہب نے عورت کو یہ حق فراہم نہیں کیا ۔ دیگر مذاہب میں عورت کو سراپا شر ہی شر بلکہ بُرائی اور بدی کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ انگریزی میں شیطان ‘بُرائی اور بدی کے لیے لفظ Evil بولا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ Eve سے بنا ہے جو (معاذاللہ!) امّاں حوّا (سلامٌ علیہا) کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت کو روحانی‘ اَخلاقی اور قانونی تشخص عطا کیا۔ دُنیا نے عورت کو پستی دی جبکہ اسلام نے اُسے پستی سے اُٹھا کر اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا۔
اسلام نے نکاح میں لڑکی کی رضامندی کا پورا خیال رکھا ہے۔ کوئی کسی لڑکی سے زبردستی نکاح نہیں کرسکتا۔ اسلام سے قبل عورتیں مَردوں کی ملکیت تصوّر کی جاتی تھیں۔ اُنھیں اپنی مرضی سے نکاح کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اگر کسی عورت کوطلاق ہوجاتی یا وہ بیوہ ہوجاتی تب بھی وہ اپنی مرضی سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتی تھی۔ اسلام نے عورت کو مہر کاحق ودیعت کیا۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ ملکیت کی صورت میں رائج نہ تھا ۔ اسلام نے اس حوالے سے عورت کو بہترین تحفظ فراہم کیاکہ مہر کو لڑکی کی ملکیت بنایا تاکہ وہ اسے اپنی مرضی سے بغیر کسی دبائو کے استعمال کرسکے۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو حق خلع بھی دیا ہے ۔اگر عورت اپنے شوہر سے نالاں ہو اور اُس کے ساتھ کسی صورت نہ رہنا چاہتی ہو تو اُسے پورا حق ہے کہ وہ قاضی کے ذریعے خلع لے کر اپنے شوہر سے علیحدہ ہوسکتی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی معمولی حق نہیں ہے۔ اس حق کے استعمال سے بہت سی خواتین ایسے شوہروں سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئیں جو اُن پر ظلم کرتے تھے یا نشہ کرتے تھے یا دوسرے غیر اخلاقی کاموں میں ملوث تھے۔
رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ خواتین سے کیسا برتائو فرماتے تھے۔آپﷺ جب حضرت حلیمہ سعدیہؓ کو دیکھتے تو اپنی چادر بچھادیتے‘اُنھیں اپنی ماں کہہ کر پکارتے ۔ اپنی دودھ شریک بہن حضرت شیماؓ کا بے حد احترام فرماتے۔ آپﷺ اپنی ازواج کے ساتھ نہایت احترام ‘محبّت اور مودّت کا معاملہ فرماتے۔ نہ کبھی ڈانٹتے‘نہ جھڑکتے۔ اپنی دُختر حضرت فاطمۃ الزہراءؓ سے اس قدر شفقت فرماتے کہ اُن کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے۔جس نبیﷺ کا خواتین سے یہ معاملہ ہو ‘اُس کے لائے ہوئے دین سے زیادہ خواتین کا احترام کسی اور دین میں ہوہی نہیں سکتا ۔
اسلام نے مرد کو عورت کا محافظ بنایا ہے۔ جب وہ بیٹی ہے تو باپ محافظ ‘ بہن ہے تو بھائی محافظ‘ بیوی ہے تو شوہر محافظ‘ اور ماں ہے تو بیٹا محافظ۔عورت کے نان نفقہ اور رہائش کا حسب استطاعت انتظام مرد کے ذمے ڈالا گیا۔ گویا کسب ِمعاش کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو اسلام نے نسوانیت کی توہین قرار دیا ہے۔وہ اقلیم ِ خانہ و دل کی تاجدار (گھر اور دل کی بادشاہت کی ملکہ) ہے‘ اُس کے نازک کندھوں پر روزی اور کسب ِ معاش کی تگ و دو کا بار ڈالنا نسوانیت کی توہین ہے۔ البتہ اگر کوئی مجبوری ہو تو یہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی خواتین جن کا کوئی پُرسان ِ حال نہیں ہے اُن کے وظائف مقرر کرے۔
آج کبھی عورت مارچ کے نام پر تو کبھی حقوق ِ نسواں اور آزادئ نسواں کا ڈھنڈورا پیٹ کر مسلمان خواتین کو گمراہ کرنے کی عالمی سازش ہورہی ہے۔ معدودے چند حیا باختہ خواتین بیہودہ قسم کے بینرز اُٹھائے مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں لیکن اُن کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو۔ دوسری جانب‘الحمد للہ‘ پاکستان کی مذہبی ہی نہیں جدید تعلیم یافتہ خواتین بھی اس قسم کے واہیات نعروں اور مظاہروں کو مسترد کر چکی ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ منفی پروپیگنڈا پھر بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ایسے میں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قلم کی تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوں‘ کیونکہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں خواتین کے حقوق کے نام پر بے حیائی کو عام کیاجارہا ہے جبکہ کچھ نادان خواتین اس زہر کو اَمرت سمجھ رہی ہیں۔ بقول حسرت موہانی ؒ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن ِ کرشمہ ساز کرے !
اسلام نے علم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر لازم قرار دیا ۔ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمانِ ذی شان ہے :
((طَلَبُ العِلم فریضۃٌ علٰی کُلِّ مُسلم)) (ابنِ ماجہ)
’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان ( مرد اور عورت ) پر فرض ہے ۔‘‘
پیارے آقا ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہؓ خود اُمّت کی سب سے پہلی فقیہہ تھیں۔ آپؓ نے خواتین کے حوالے سے جتنے مسائل تھے وہ سب بیان فرمادیے۔ آپؓ سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں خاتون کا اتنا بلند مقام ہے کہ خود زوجہ ٔ رسول ﷺ بہت بڑی عالمہ تھیں اور یہ علم انہوں نے اپنے سرتاج‘ سرور ِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے حاصل کیا تھا۔ خود کو جدید سمجھنے والے موجودہ زمانے میں بھی ایسی مثال ملنا محال ہے ۔
علّامہ اقبالؒ قوموں کی تاریخ اور اُن کے ماضی و حال کو اُن کی مائوں کی پیشانیوں کا فیض قرار دیتے ہیں کہ مائوں کی پیشانیوں پرجو لکھا ہوتا ہے وہی قوم کی تقدیر ہوتی ہے۔
خنک آں ملتے کز وارداتش
قیامت ہا بہ ببیند کائناتش
چہ پیش آید چہ پیش اُفتاد اُو را
تواں دید از جبینِ اُمّہاتش!
’’مبارک ہے وہ ملّت جس کے کارناموں کے سبب‘ کائنات نے کئی قیامتیں دیکھیں۔ کیاپیش آنے والا ہے‘ کیا پیش آ چکا ہے‘ (یہ سب کچھ) ماؤں کی جبینوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
اسلام نے عورت کو جو سماجی مقام ومرتبہ عطا کیا ہے اگر اُس کا خلاصہ بیان کیا جائے تو جوامع الکلام رسولِ محترم ﷺ کا یہ فرمان کافی نظر آتاہے جو آپﷺ نے ایک صحابی کو تلقین فرمایا تھا۔جب وہ آپﷺ کے پاس ایک غزوہ میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ جواب اثبات میں پا کر آپﷺ نے فرمایا:
((فَالْزَمْھَا‘ فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْھَا)) (رواہ النسائی وابن ماجہ)
’’پس اُس کی خدمت میں لگے رہو‘ کیونکہ جنّت اُس کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘

***